عیسیٰ بن جاریہ الانصاری المدنی اصولِ جرح وتعدیل کی روشنی میں اور بعض اعتراضات کا جواب

 

 

 اس مضمون کو پی ڈی ایف کی شکل میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔


فہرست مضامین

تعارفِ راوی. 8

شیوخ واساتذہ 8

تلامذہ 10

عیسی بن جاریہ کا رتبہ ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کی روشنی میں.. 14

معدلین کے اقوال.. 14

1-     امام ابو زرعہ الرازیؒ (م 264 ھ) کا قول: 14

کیا امام ابو زرعہ کے اس قول سے مطلق توثیق ثابت ہوتی ہے؟. 14

2-     امام ابن خزیمہؒ (م 311 ھ) کی توثیق ضمنی: 16

توثیق ضمنی ایک محتمل دلیل ہے: 16

3-     امام ابن حبانؒ (م 354 ھ) کی توثیق: 19

4-     v امام ابو یعلی الخلیلیؒ (م 446 ھ) کا قول: 19

یہ قول امام ابو یعلی خلیلی سے ثابت نہیں: 20

5-     امام ذہبیؒ (م 748 ھ) کا قول: 22

محدثین کے نزدیک "وسط" کا معنی... 23

6-     امام منذریؒ (م 656 ھ): 26

7-     علامہ ہیثمیؒ (م 807 ھ) 26

8-     علامہ بوصیریؒ (م 840 ھ) 26

9-     حافظ ابن حجر العسقلانیؒ (م 852 ھ)  26

جارحین کے اقوال: 27

1-     امام یحیی بن معینؒ (م 233 ھ) کی جرح: 27

اعتراض نمبر 1 – کیا امام ابن معین کے اقوال میں تعارض ہے؟. 28

اعتراض نمبر 2 – کیا مقل راوی کے حق میں "منکر الحدیث" اور "عندہ مناکیر" میں فرق ہے؟. 29

"روی مناکیر" اور "عندہ مناکیر" میں فرق! 33

اعتراض نمبر 3 – کیا "لیس بشیء" کی اصطلاح قلتِ روایت پر محمول ہے؟. 34

اعتراض نمبر 4 – کیا "لیس بذاک" تضعیف کا صیغہ نہیں ہے؟. 37

امام ابن معین کے نزدیک لیس بذاک کا معنی اور استعمال: 39

دیگر ائمہ کے نزدیک امام ابن معینؒ کی اس جرح کا معنی: 41

ابن الجنیدؒ: 41

امام یعقوب بن شیبہؒ: 41

ابن محرزؒ: 41

امام ترمذیؒ: 42

امام ابن حبانؒ: 42

امام دارقطنیؒ: 43

امام بیہقیؒ اور جعفر الطیالسیؒ: 43

امام ابن الجوزیؒ: 44

امام ذہبیؒ: 44

امام ابن الملقنؒ: 44

اعتراض نمبر 5 – کیا منکر کا لفظ مطلق تفرد کے لیے بولا جاتا ہے؟. 45

2-     امام ابو داؤد صاحب السنن (م 275 ھ) کی جرح: 49

اعتراض نمبر 1 – آجری تک سند کا مطالبہ.. 50

آجری صاحبِ کتاب ہیں: 50

سؤالات الآجری کی سند: 51

آجری کی کتاب تک ائمہ کی اسانید: 53

امام خطیب بغدادیؒ (م 463 ھ) کی اسناد: 53

امام ذہبیؒ (م 748 ھ) کی اسناد: 54

حافظ ابن حجرؒ (م 852 ھ) کی اسناد: 55

علامہ مغلطائیؒ  (م 762 ھ) کی اسناد: 55

امام مزیؒ (م 742 ھ) کی اسناد: 56

آجری کی کتاب تک ائمہ کے سلسلہ سند کا خاکہ: 58

اس جرح کی نقل میں امام مزی کی موافقت کرنے والے ائمہ: 60

علامہ مغلطائی کا امام مزی کی نقل پر عدمِ تعاقب: 60

سند کا مطالبہ کرنے والے معترض کی دوغلی پالیسی: 63

اعتراض نمبر2 – آجری کی توثیق کا مطالبہ.. 63

اعتراض نمبر 3: کیا امام ابو داود کے دونوں اقوال میں فرق ہے؟. 64

3-     امام ابو عبد الرحمن النسائی صاحب السنن (م 303 ھ) کی جرح: 68

اعتراض نمبر 1: کیا امام نسائی سے "منکر الحدیث" کی جرح ثابت نہیں؟. 69

ائمہ کی نقول پر عدمِ اعتماد: 69

کتاب الضعفاء کے ایک نسخے سے "منکر الحدیث" کا ثبوت: 70

امام نسائی کا عمومی طرزِ عمل: 71

اعتراض نمبر2: کیا امام نسائی تفرد کے معنی میں "منکر" بولتے تھے؟. 71

محدثین کے نزدیک منکر کا معنی: 72

کیا عیسی بن جاریہ کا تفرد ثقہ راوی کا تفرد ہے؟. 74

حافظ ابن حجر کے قول سے غلط استدلال: 75

امام نسائی سے تضعیف کے دیگر قرائن: 76

اعتراض نمبر3: امام نسائی متشدد تھے؟. 76

4-     امام ابن عدیؒ (م 365 ھ) کی جرح: 77

اعتراض نمبر 1: کیا "غیر محفوظ" کا معنی شاذ ہے؟. 77

اعتراض نمبر 2: کیا امام ابن عدی کی جرح کی بنیاد دیگر ائمہ کے غیر ثابت اقوال پر ہے؟. 79

5-     حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر المقدسی، ابن القیسرانی (م 507 ھ) کی جرح: 82

حافظ ابن القیسرانی کا مختصر تعارف: 82

حافظ ابن القیسرانی کی جرح: 83

6-     حافظ ابن رجب الحنبلی (م 795 ھ) کی جرح: 84

عیسی بن جاریہ کو کتبِ ضعفاء میں ذکر کرنے والے ائمہ: 85

1-    امام ابو عبد الرحمن النسائی (م 303 ھ). 85

2-    امام زکریا بن یحیی الساجیؒ (م  307ھ). 85

3-    امام ابو جعفر محمد بن عمرو العقیلیؒ (م 322 ھ). 85

4-    امام ابو احمد عبد اللہ بن عدی الجرجانیؒ (م 365 ھ). 85

5-    حافظ ابو الفرج ابن الجوزیؒ (م 597 ھ). 85

6-    امام شمس الدین ذہبیؒ (م 748 ھ). 86

توثیق ضمنی کے مقابلے میں تضعیف ضمنی: 86

1-    امام مالک بن انس المدنی (م 179 ھ) کا عیسی کی روایت کو ترک کرنا 86

2-    دیگر ائمہ نقاد جیسے: شعبہ، یحیی القطان، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان الثوری، وکیع، ابن المبارک وغیرہ کا عیسی کی روایت کو ترک کرنا 87

3-    شیخین (بخاری ومسلم) کا عیسی بن جاریہ کی روایت سے اجتناب کرنا: 87

4-    اصحابِ سنن کا عیسی کی روایت کو ترک کرنا: 89

5-   اکثر کتبِ ثقات میں عیسی بن جاریہ کا ذکر نہ ہونا: 90

خلاصۂ التحقیق: 90

آٹھ رکعات تراویح والی حدیث کا حکم: 92

 


 

تعارفِ راوی

نام ونسب:  عيسى بن جارية الأنصارى المدنى

طبقہ: 4 – درمیانے طبقے کے تابعین کے بعد والا طبقہ – یعنی آپ کا تعلق ان تابعین سے ہے جو نہ صغار میں شمار ہوتے ہیں اور نہ درمیانے طبقہ کے تابعین میں شمار ہوتے ہیں بلکہ ان دونوں کے درمیان ہیں۔

روی لہ: ان کی روایات سنن میں سے سنن ابن ماجہ، مسانید میں سے مسند احمد اور مسند ابو یعلی، اور صحاح میں سے صحیح ابن حبان اور صحیح ابن خزیمہ میں موجود ہیں۔

شیوخ واساتذہ:

عیسی بن جاریہ کا درج ذیل لوگوں سے روایت لینا ثابت ہے:

·      سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ

·      شریک (رجل لہ صحبہ، غیر معروف)

-      عیسیٰ بن جاریہ کی عام روایات سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہیں۔

-      جبکہ شریک نامی ایک غیر منسوب صحابی سے عیسی بن جاریہ کی صرف ایک ہی روایت مروی ہے، جسے امام بخاری نے التاریخ الکبیر میں ذکر کیا ہے۔

ان شیوخ کے علاوہ بعض مترجمین نے عیسی بن جاریہ کے درج ذیل شیوخ کا ذکر بھی کیا ہے:

·      سیدنا جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ (تہذیب الکمال، وتاریخ الاسلام وغیرہ)

·      سعید بن مسیب رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم)

·      سالم بن عبد اللہ بن عمر رحمہ اللہ (التاریخ الکبیر للبخاری، والجرح والتعدیل لابن ابی حاتم)

·      ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم)

یہ تعداد اس اعتبار سے ہے کہ بعض علماء نے اس میں ان لوگوں کو بھی شمار کر لیا ہے جن سے عیسی بن جاریہ کی کوئی روایت مروی ہے، چاہے اس کی سند عیسی بن جاریہ تک ثابت ہو یا نہ ہو۔ وگرنہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ عیسیٰ بن جاریہ کی روایت صرف اول الذکر دو لوگوں سے ہی ثابت ہے۔

-      چنانچہ سیدنا جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے عیسی بن جاریہ کی ایک ہی روایت مروی ہے اور اس کی سند ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے نیز اس میں سعید بن محمد الانصاری راوی بھی مجہول ہے۔

-      سعید بن مسیب سے بھی عیسی بن جاریہ کی ایک ہی روایت مروی ہے اور وہ بھی ابن لہیعہ کے ضعف، اور سعید بن محمد الانصاری کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے، نیز اس میں عیسی بن جاریہ کی جگہ پر عیسی بن حارثہ کا نام ملتا ہے، جو کہ اس کے راویوں کے ضعف اور عدمِ معرفت کی مزید دلیل ہے۔

-      سالم بن عبد اللہ بن عمر کو عیسیٰ بن جاریہ کے شیوخ میں امام بخاری اور امام ابن ابی حاتم نے ذکر کیا ہے، لیکن ان سے عیسی بن جاریہ کی کوئی مرفوع روایت ہمیں ذخیرہ حدیث میں نہیں ملی۔ البتہ عیسی بن جاریہ سے ایک روایت ملتی ہے جس میں انہوں نے سالم بن عبد اللہ سے ایک مسئلہ پوچھا ہے (علل الحدیث: 2753)۔ گویا اسی ایک مقطوع روایت (قولِ تابعی) کی بناء پر سالم کو ان کے شیوخ میں ذکر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ ان کی کوئی روایت ان سے ثابت نہیں ہے۔ اور اس مقطوع روایت کی سند بھی المسیب بن واضح کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔

-      اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف سے عیسی بن جاریہ کی کوئی روایت ذخیرہ حدیث میں موجود نہیں ہے یہاں تک کہ کتب رجال، کتب تخریج اور کتب علل وغیرہ میں بھی کہیں اس کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ ابو سلمہ کو عیسی بن جاریہ کے شیوخ میں صرف امام ابو حاتم الرازی نے ذکر کیا ہے، اور خود ان کے قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بات اتنی مضبوط نہیں ہے، چنانچہ امام ابو حاتم فرماتے ہیں: "عيسى الانصاري الذي روى عن أبي سلمة روى عنه زيد بن أبي انيسة هو عندي عيسى ابن جارية " (عیسی الانصاری جو ابو سلمہ سے روایت کرتا ہے اور اس سے زید بن ابی انیسہ روایت کرتے ہیں وہ میرے نزدیک عیسی بن جاریہ ہیں) (الجرح والتعدیل: 6/273)۔ اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو سلمہ کا عیسی بن جاریہ کے شیوخ میں سے ہونا حتمی اور یقینی بات نہیں ہے کیونکہ امام ابو حاتم نے اس قول کی بنیاد اس احتمال پر رکھی ہے کہ کسی سند میں عیسی الانصاری کا نام مبہم طور پر آیا ہے اور اس سے امام ابو حاتم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہاں عیسی بن جاریہ مراد ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک درج ذیل وجوہات کی بنا پر ابو سلمہ بن عبد الرحمن کو عیسی بن جاریہ کے شیوخ میں ذکر کرنا محلِ نظر ہے:

o     امام ابو حاتم کا قول احتمال پر مبنی ہے، نیز خود ان کے نزدیک کسی سند میں ابو سلمہ سے روایت کرنے والے کا نام عیسی بن جاریہ بالجزم وارد نہیں ہوا ہے بلکہ انہوں نے عیسی الانصاری نامی شخص کی روایت سے اندازہ لگایا ہے کہ یہ عیسی بن جاریہ ہیں۔ اور اسے انہوں نے "عندی" کہہ کر اپنی رائے تک محدود رکھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خود اس پر بالجزم اور حتمی فیصلہ نہیں سنایا ہے۔

o     عیسی الانصاری کے نام سے ایک سے زائد راوی  پائے جاتے ہیں جو ابو سلمہ کے طبقہ کے لوگوں سے روایت کرتے ہیں، جیسے عیسی  بن سہل الانصاری، عیسی بن عبد الرحمن بن ابی لیلی الانصاری، عیسی بن عبد اللہ بن انیس الانصاری، عیسی بن میمون بن تلیدان الانصاری، عیسی بن النعمان الانصاری، اور عیسی بن ابی عون الانصاری۔

o     امام ابو حاتم کے علاوہ کسی نے اس قول کو ذکر نہیں کیا ہے، اور مترجمین اور ائمہ رجال میں سے بھی کسی نے کبھی ابو سلمہ کو عیسی بن جاریہ کے شیوخ میں ذکر نہیں کیا ہے۔

o     عیسی بن جاریہ کی ابو سلمہ سے کوئی روایت ذخیرہ حدیث میں نہیں ملتی، نہ ضعیف نہ موضوع۔

o     امام ابو حاتم نے اپنی بیان کردہ اس روایت کی کوئی سند ذکر نہیں کی ہے جس میں عیسی الانصاری مبہم راوی موجود ہے۔ ممکن ہے کہ امام ابو حاتم نے محض روایت ہونے کے اعتبار سے ابو سلمہ کو عیسی کے شیخ کے طور پر گنا ہو جبکہ اس کی سند ضعیف ہی ہو جیسے سالم، اور سعید بن مسیب کے بارے میں ان کا معاملہ ہے۔

o     جس سند میں امام ابو حاتم کے بقول عیسی الانصاری نے ابو سلمہ سے روایت کیا ہے اس میں عیسی الانصاری سے روایت کرنے والا راوی زید بن ابی انیسہ ہے، اور زید بن ابی انیسہ کا عیسی بن جاریہ کا شاگرد ہونے سے ضمنی انکار امام ابن معین اور امام نسائی وغیرہ سے ثابت ہے جنہوں نے کہا ہے کہ عیسی بن جاریہ سے صرف دو لوگوں نے روایت کیا ہے۔ واللہ اعلم۔

تلامذہ:

 عیسی بن جاریہ سے روایت کرنے والوں میں درج ذیل لوگوں کا نام متحقق ہے:

·      يعقوب بن عبد الله الأشعري القمي (صدوق يهم)

·      عنبسة بن سعيد الرازي (ثقة)

ان دونوں میں سے بھی عیسی بن جاریہ کی عام روایات یعقوب القمی کے طریق سے مروی ہیں، جبکہ عنبسہ الرازی کے طریق سے ان کی صرف ایک روایت ثابت ہے اور وہ بھی یعقوب القمی نے ہی عنبسہ کے واسطے سے عیسی سے روایت کی ہے۔ (دیکھیں المعجم الکبیر للطبرانی: 7/310 ح 7224)۔ جبکہ ایک دوسرے طریق میں اسی روایت کو یعقوب القمی نے بلا واسطہ بھی عیسی بن جاریہ سے نقل کیا ہے، وہ بھی سماع کی صراحت کے ساتھ (دیکھیں: التاریخ الکبیر للبخاری: 4/237 ت 2646)۔

گویا عیسی بن جاریہ سے بظاہر روایت کرنے والے تو دو لوگ ہیں لیکن دونوں کی اصل اور بنیاد ایک ہی راوی کی طرف لوٹتی ہے یعنی یعقوب القمی۔ شاید اسی لیے بعض علماء نے عیسیٰ بن جاریہ کے ترجمہ میں صرف یعقوب القمی کو ہی ان کے بنیادی اور اکلوتے راوی کے طور پر ذکر کیا ہے۔

نوٹ: عنبسہ کے طریق سے عیسی بن جاریہ کی ایک اور روایت بھی نقل کی جاتی ہے جسے امام طبری نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے (9/527)، لیکن اس کی سند محمد بن حمید الرازی کی وجہ سے سخت ضعیف اور باطل ہے۔ اسی طرح عنبسہ کی عیسی سے ایک مقطوع روایت بھی مروی ہے (علل الحدیث: 2753)، لیکن اس کی سند بھی المسیب بن واضح کی وجہ سے ضعیف ہے، جیسا کہ اوپر گزرا۔

اس کے علاوہ بعض مترجمین نے ان کے تلامذہ میں درج ذیل لوگوں کا نام بھی ذکر کیا ہے:

·      سعید بن محمد الانصاری (تہذیب الکمال وتاریخ الاسلام وغیرہ)

·      زید بن ابی انیسہ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم)

·      ابو صخر حمید بن زیاد المدنی (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم)

-      سعید بن محمد الانصاری کے طریق سے عیسی بن جاریہ کی دو روایات مروی ہیں اور دونوں ایک ہی سند سے ہیں۔ اور وہ سند بھی ضعیف وغیر ثابت ہے، کیونکہ اس میں عبد اللہ بن لہیعہ ضعیف ہے، اور خود سعید بن محمد الانصاری بھی مجہول راوی ہے، اس سے ابن لہیعہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی ہے۔

-      زید بن ابی انیسہ کی عیسی بن جاریہ سے روایت کا حال ہم اوپر ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی بحث کے تحت دیکھ آئے ہیں۔

-      ابو صخر حمید بن زیاد کی روایت کا حال بھی وہی ہے جو زید بن ابی انیسہ کی روایت کا ہے۔ امام ابو حاتم کے علاوہ کسی نے ابو صخر کو عیسی کے تلامذہ میں ذکر نہیں کیا ہے۔ نہ ہی اس طریق سے کوئی بھی روایت ذخیرہ حدیث میں پائی جاتی ہے۔ البتہ امام ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر (1/242) میں ابو صخر کے ذریعے عیسی بن جاریہ کا ایک قول نقل کیا ہے، اور غالبا اسی ایک روایت کی وجہ سے انہوں نے ابو صخر کو عیسی کے تلامذہ میں شمار کر لیا ہے، حالانکہ اس قول کی سند بھی ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ نیز دیگر کبار ائمہ نے عیسی بن جاریہ کے تلامذہ میں یعقوب القمی اور عنبسہ کے علاوہ ہر شخص کی واضح نفی کر دی ہے۔

o     چنانچہ امام یحیی بن معینؒ سے عیسی بن جاریہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

"روى عنه يعقوب القمي لا نعلم أحدا روى عنه غيره"

(عیسی بن جاریہ سے یعقوب القمی نے روایت کی ہے،  یعقوب کے علاوہ ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے ان سے روایت کی ہے

(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 4810)

اور ایک دوسری جگہ فرمایا:

"يحدث عنه يعقوب القمي وعنبسة قاضي الري"

(عیسی سے یعقوب القمی اور عنبسہ ری کے قاضی روایت کرتے ہیں

(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 4825)

ان دونوں اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ:

-      جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا کہ بظاہر عیسی بن جاریہ سے روایت کرنے والے دو لوگ ہیں لیکن ان دونوں کی اصل ایک ہی ہے، کیونکہ عنبسہ کی عیسی بن جاریہ سے صرف ایک ہی روایت ثابت ہے، لیکن اس ایک روایت کو بھی عنبسہ سے بیان کرنے والے یعقوب القمی ہیں۔ چنانچہ امام ابن معین کا پہلا قول بھی اپنی جگہ درست ہے کیونکہ عیسی بن جاریہ سے اصلا اس روایت کو بیان کرنے والا القمی کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں ہے۔ الغرض عیسی بن جاریہ کی تمام روایات یعقوب القمی کے ذریعے سے ہی ہم تک پہنچی ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا درست ہو گا کہ اپنی اصل کے اعتبار سے عیسی بن جاریہ سے یعقوب القمی کے علاوہ کسی دوسرے کی روایت ثابت نہیں کہ جس سے ان میں تمیز وتفریق کی جا سکے۔

-      اس کا ایک جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ امام ابن معین کے پہلے قول میں تحدید موجود ہے جس میں القمی کے علاوہ تمام لوگوں کی نفی کی گئی ہے۔ جبکہ ان کے دوسرے قول میں ایک شخص کا اضافہ ہے جو ان کے علم میں اضافے اور عیسی بن جاریہ کی روایات پر مزید نظر اور غور کو مستلزم ہے۔ چنانچہ جب انہیں معلوم ہوا کہ عنبسہ نے بھی عیسی بن جاریہ سے ایک روایت بیان کر رکھی ہے تو انہوں نے اس تحدید کے بعد عنبسہ کا اضافہ کر دیا، لیکن اس سے ان کی پہلی تحدید فاسد نہیں ہوتی۔بلکہ اس اضافیِ علم سے ان کی تحدید میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی، کیونکہ عیسی بن جاریہ کی روایات پر مزید غور کرنے کے باوجود امام ابن معین نے اس تحدید میں صرف ایک ہی شخص کا اضافہ کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عیسی بن جاریہ کے شاگردوں میں اور کسی شخص کا نام امام ابن معین کے علم میں نہیں آیا۔

o     امام نسائیؒ (م 303 ھ) نے انہیں اپنے رسالے "تَسْمِيَة من لم يرو عَنهُ غير رجل وَاحِد" میں ذکر کیا اور فرمایا:

"وَلَا عَن عِيسَى بن جَارِيَة غير يَعْقُوب وعنبسة الرَّازِيّ"

(اور نہ عیسی بن جاریہ سے کوئی روایت کرتا ہے سوائے یعقوب اور عنبسہ الرازی کے

(رسائل فی علوم الحدیث: ص 59، والکامل لابن عدی: 6/436)

o     امام بخاریؒ (م 256ھ) اور امام ابن حبانؒ (م 354 ھ) نے عیسی بن جاریہ کے ترجمہ میں فرمایا:

"روى عنه يعقوب القمي وعنبسة قاضي الري"

(التاریخ الکبیر للبخاری: 6/385، والثقات لابن حبان: 4577)

الغرض امام بخاری اور امام ابن حبان اور اسی طرح امام عقیلی وغیرہ جیسے تمام متقدمین نے ان دونوں کے علاوہ عیسی بن جاریہ کے کسی شاگرد کا ذکر نہیں کیا ہے جس سے اس بحث میں مروی دیگر اقوال کی تائید ہوتی ہے۔

o     امام ابن عدیؒ (م 365 ھ) نے الکامل میں امام یحیی بن معین اور امام نسائی دونوں کے مذکورہ بالا اقوال کو ذکر کیا ہے اور ان پر کوئی انکار یا رد نہیں کیا  ہے۔

(الکامل لابن عدی: 6/436)

o     امام محمد بن طاہر المقدسی، ابن القیسرانی (م 507 ھ) فرماتے ہیں:

"لم يرو عنه غير يعقوب العمي، وعنبسة قاضي الري"

(عیسی بن جاریہ سے یعقوب العمی اور عنبسہ ری کے قاضی کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا ہے

(ذخیرۃ الحفاظ: 1/482، 2/1194، 3/1521)

عیسی بن جاریہ کا رتبہ ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کی روشنی میں:

معدلین کے اقوال:

1-        امام ابو زرعہ الرازیؒ (م 264 ھ) کا قول:

امام ابو زرعہ الرازی عیسی بن جاریہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

"لا بأس به" (ان میں کوئی حرج نہیں ہے

(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 6/273)

کیا امام ابو زرعہ کے اس قول سے مطلق توثیق ثابت ہوتی ہے؟

بعض لوگوں نے امام ابن معینؒ کے قول کہ جس میں انہوں نے کہا (جب میں لا باس بہ کہوں تو وہ راوی ثقہ ہوتا ہے) کو یہاں امام ابو زرعہ پر فٹ کر کے یہ ثابت کرنے کے کوشش کی ہے کہ امام ابو زرعہ کی اس اصطلاح سے مراد بھی مطلق توثیق ہے۔ حالانکہ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ بعض ائمہ کے نزدیک بعض اصطلاحات کے کچھ مخصوص استعمالات ہیں جو انہی کے ساتھ خاص ہوتے ہیں، لہٰذا انہیں ہر امام پر فٹ نہیں کیا جا سکتا۔

بلکہ امام ابن الصلاحؒ نے صراحتا فرما دیا ہے کہ: "ليس في هذا حكاية ذلك عن غيره من أهل الحديث، فإنه نسبه إلى نفسه خاصة، بخلاف ما ذكره ابن أبي حاتم" (اس مسئلے (یعنی لا باس بہ کو ثقہ کے برابر کہنا) کی حکایت امام ابن معین کے علاوہ دیگر کسی اہل حدیث سے نہیں ملتی، نیز امام ابن معین نے اس اصطلاح کو خاص اپنی طرف منسوب کیا ہے، جبکہ ابن ابی حاتم کی بات اس کے برخلاف ہے

بلکہ امام ابن معین سے خود اس قول کا مطلق توثیق ہونا محلِ نظر ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔

اسی طرح بعض دیگر لوگوں نے اس اصطلاح کو مطلق توثیق ثابت کرنے کے لیے علامہ ہیثمی کا قول بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے امام ابو زرعہ کے اس قول کے متعلق کہا:

"وثقه أبو زرعة" (ابو زرعہ نے اس کی توثیق کی ہے) (مجمع الزوائد: 2/72)۔

گویا ان لوگوں نے امام ابو زرعہ کے اس قول کی مراد کو ایک متاخر متساہل شخص کی زبان سے تو قبول کر لیا،  لیکن خود اس قول کے راوی اور امام ابو زرعہ کے خاص ترین شاگرد نے جو اس کی مراد بیان کی ہے اس کو انہوں نے نظر انداز کر دیا۔

امام ابن ابی حاتم الرازیؒ اس اصطلاح کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"وإذا قيل للواحد إنه ثقة أو متقن ثبت فهو ممن يحتج بحديثه، وإذا قيل له إنه صدوق أو محله الصدق أولا بأس به فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه وهي المنزلة الثانية"

(جب کسی ایک راوی کے بارے میں کہا جائے کہ وہ ثقہ ہے، یا متقن ثبت ہے تو اس راوی کا شمار ان میں سے ہوتا ہے جن کی حدیث سے حجت لی جاتی ہے، اور جب کسی راوی کے بارے میں کہا جائے کہ وہ صدوق ہے، یا محلہ الصدق (اس کا مقام صدق ہے)، یا لا باس بہ ہے تو ان لوگوں میں سے ہو گا جن کی حدیث لکھی جاتی ہے اور ان کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور یہ (تعدیل کی) دوسری منزل ہے

(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 2/37)

امام ابن ابی حاتم کے اس قول سے بالکل واضح ہے کہ ثقہ اور لا باس بہ دونوں اصطلاحات برابر نہیں ہیں۔ بلکہ امام ابن ابی حاتم نے ثقہ کی اصطلاح کو راوی کی حدیث سے حجت لینے کے ساتھ خاص کیا ہے، جبکہ دوسری اصطلاح کو انہوں نے اس مطلق حجیت سے الگ کر کے ذکر کیا اور فرمایا ایسے راوی کی حدیث کو لکھا جائے گا لیکن احتجاج نہیں کیا جائے گا جب تک اس کی مکمل تحقیق کر کے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اس روایت کو راوی نے پوری طرح سے ضبط کیا ہے۔

چنانچہ امام ابن الصلاح فرماتے ہیں:

"هذا كما قال؛ لأن هذه العبارات لا تشعر بشريطة الضبط، فينظر في حديثه ويختبر حتى يعرف ضبطه"

(یہ بات بالکل ایسے ہی ہے جیسے امام ابن ابی حاتم نے فرمائی ہے، کیونکہ یہ اصطلاحات (یعنی دوسرے درجے کی تعدیل کے  الفاظ) ضبط کی شرط کی طرف اشارہ نہیں کرتیں، لہٰذا ایسے راوی کی حدیث کا معائنہ کیا جاتا ہے اور اس کی تحقیق کی جاتی ہے جب تک اس کے ضبط کا علم نہ ہو جائے

(مقدمہ ابن الصلاح: ص 123)

چنانچہ بعض لوگوں کا ان دو اصطلاحات میں برابری کرنا ان کی غلطی ہے۔ نیز امام ابو زرعہ کا یہ قول ان کے موقف کو ثابت کرنے کی بجائے اسے مسترد کر رہا ہے۔ اور دیگر ائمہ کی جروح کی روشنی میں یہ قول جارحین کی موافقت کے زیادہ قریب ہے۔

نیز اس راوی کی توثیق ثابت کرنے والوں کے پاس یہی ایک قول ان کی سب سے بڑی دلیل تھی جبکہ اس کے علاوہ ان کے پاس بعض ائمہ کی محض ضمنی توثیقات اور بعض متاخرین کےحوالے ہی ہیں۔ اس کے برعکس بیشتر کبار ائمہ علل اور ائمہ رجال سے اس راوی کی صریح جروح منقول ہیں، لیکن حیرت ہے کہ اس سب کے باوجود ان لوگوں نے توثیق کو ترجیح دی اور وہ بھی ایسی توثیق جو مطلق اور بلا قید ہے! فیاللعجب۔

2-        امام ابن خزیمہؒ (م 311 ھ) کی توثیق ضمنی:

بعض لوگوں نے امام ابن خزیمہ کو عیسی بن جاریہ کے موثقین میں شمار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امام ابن خزیمہ نے عیسی بن جاریہ کی حدیث کو اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور اس پر کوئی جرح نہیں کی ہے۔

جواب:

توثیق ضمنی ایک محتمل دلیل ہے:

امام ابن خزیمہؒ نے عیسی بن جاریہ کی صرف ایک روایت اپنی صحیح میں ذکر کی ہے (ح 1070) اور وہ بھی انہوں نے دیگر روایات کے ساتھ ترجمۃ الباب کی تائید میں بطورِ شاہد ذکر کی ہے۔ نیز توثیقِ ضمنی کو مطلق طور پر قبول کرنا بھی ائمہ ومحدثین کے منہج کے خلاف ہے۔ ضمنی توثیق کو محض بعض صورتوں میں اور بعض شرائط کے ساتھ قبول کیا جاتا ہے، اس کو مطلق طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس میں کئی احتمالات موجود ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اسے ایک صریح جرح پر مقدم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ضمنی توثیق میں درج ذیل احتمالات اور کمزوریاں پائی جاتی ہیں:

1)   ضمنی توثیق میں معین اور صریح جرح کی نسبت تساہل کا امکان زیادہ ہے، کیونکہ جرح کرنے والا شخص راوی کو معین کر کے خاص اس پر جرح کرتا ہے لہٰذا اس میں کسی قسم کا کوئی احتمال نہیں ہوتا، جبکہ اپنی کتاب میں حدیث کی تخریج کے ذریعے اس کی تصحیح کرنےوالا شخص کسی راوی کو معین کر کے حکم نہیں لگاتا یہاں تک کہ وہ کسی معین اسناد پر بھی حکم نہیں لگاتا بلکہ پوری کتاب پر ایک عمومی حکم لگاتا ہے، جس میں عدمِ احتیاط اور اپنی کتاب کی شرط سے تساہل یا بے دھیانی کا امکان ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اصحاب الصحاح کی کتب میں ایسے لوگوں کی روایات کی بھی تصحیح مل جاتی ہے جن کا ضعف مشہور ہے یا جن کا شمار مجاہیل میں ہوتا ہے۔

2)   اکثر اوقات ضمنی توثیق کرنے والوں کے مناہج، اصول، شروط، اور اسالیب میں دقیق فروق ہوتے ہیں جن کا علم رکھنا ان سے استدلال کرنے والے کے لیے لازم ہوتا ہے۔ لہٰذا بغیر اس مصنف کے منہج اور اسلوب کو جانے اس کی ضمنی توثیق کو مطلقا قبول کرنا درست نہیں ہے۔

3)   ضمنی توثیق میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ ممکن ہے تصحیح کرنے والے نے اپنی تصحیح کی بنیاد اکیلے اس راوی پر نہیں بلکہ اس کے دیگر طرق اور متابعات پر رکھی ہو۔ چنانچہ دیکھا جائے کہ اس محدث نے جس چیز پر اس روایت سے استدلال کیا ہے کیا وہ دیگر طرق اور روایات سے بھی ثابت ہوتی ہے؟ اگر ہاں تو پھر ممکن ہے کہ یہ تصحیح یا تحسین لذاتہ کی بجائے لغیرہ ہے۔ نیز اگر اس حدیث پر دیگر علماء کی طرف سے کلام موجود ہے یا اس کے بعض الفاظ میں نکارت پائی جاتی ہے تو یہ بھی لازم نہیں کہ محدث نے اس ضعیف راوی کی حدیث کی تصحیح یا تحسین سے نکارت والے ان الفاظ کی بھی تصحیح کی ہو، کیونکہ بعض ائمہ اپنی نقل کردہ احادیث سے اپنے وجہِ استدلال اور سببِ اخراج کو واضح کر دیتے ہیں لہٰذا اس استدلال کی تائید میں اگر وہ حدیث قابلِ تحسین ہے تو لازم نہیں کہ اس کے جس حصے پر دیگر علماء نے کلام کیا ہے اور جو اس محدث کے استدلال یا غرض سے خارج ہے وہ بھی اس کی تصحیح یا تحسین میں شامل ہو۔ الغرض اس صورت میں محدث کی تصحیح یا تحسین کو اس کے وجہِ استدلال تک محدود کیا جائے گا، اور نکارت والے حصے پر دیگر علماء کی بات قبول کی جائے گی۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ کسی حدیث پر کوئی محدث یہ کہے یہ حدیث حسن ہے سوائے اس لفظ یا اس حصے کے۔

4)   اسی طرح بعض اوقات محدثین کسی حدیث کو بطورِ حجت بیان کرنے کی بجائے بطور استشہاد اپنی کتب میں داخل کرتے ہیں، جس سے ان کا مقصد اس حدیث سے احتجاج کرنا نہیں بلکہ اس سے کسی خاص معنی پر استشہاد کرنا ہوتا ہے۔

5)   بعض محدثین ضعیف راویوں کی روایات میں سے صحیح یا قابلِ تحسین روایات کو چن کر ان کا انتقاء کرتے ہیں، جس سے ان کی مراد راوی کی ساری روایات کی تصحیح یا تحسین نہیں ہوتی بلکہ صرف انہی روایات کی تصحیح یا تحسین مراد ہوتی ہے جن کا انہوں نے انتخاب کیا ہے۔

6)   بعض اوقات محدثین تصحیح وتحسین کے معیار میں روایت کی نوعیت کے اعتبار سے بھی فرق کرتے ہیں، پس جو روایت ایک باب میں رد کی جاتی ہے اسے دوسرے باب میں قبول کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا جاتا، جیسے ترغیب وفضائل اور تاریخی روایات اور اسی طرح کسی ثابت شدہ اصولی مسئلہ میں استشہاد کی غرض سے ضعیف روایت کو اکثر ائمہ اپنی شرائط کو ہلکا رکھتے ہوئے قبول کر لیتے ہیں، جبکہ انہی راویوں کی اصول وعقائد میں منفرد روایات یا وہ روایات جس پر اصل مسئلہ کی بنیاد اس راوی پر ہو، ان کا معیار سخت رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر امام بخاری نے ابی بن عباس بن سہل کی ایک تاریخی روایت کو اپنی صحیح میں درج کیا ہے حالانکہ ابی بن عباس ایک ضعیف راوی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس راوی کی روایت امام بخاری کے نزدیک ہر جگہ اور ہر باب میں مقبول ہے، بلکہ روایت کی نوعیت سے اس کے حکم میں فرق رکھا جاتا ہے۔

ضمنی توثیق میں موجود ان احتمالات یا کمزوریوں کو بتانے کا مقصد یہ نہیں کہ امام ابن خزیمہ کی تصحیح میں یہ سارے احتمالات موجود ہیں، بلکہ یہاں مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ضمنی توثیق اگرچہ بعض اوقات قابلِ اعتبار سمجھی جاتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ صریح اور مفسر جرح کے مقابلے میں اس سے حجت لی جائے، کیونکہ یہ ایک محتمل دلیل ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر ائمہ ومحدثین ایسے کسی راوی پر ضمنی توثیق سے حجت نہیں لیتے جس پر صریح اور واضح جرح منقول ہو اور اس کے مقابلے میں کوئی معتبر توثیق نہ ہو۔ بلکہ ضمنی توثیق سے صرف اس وقت معاونت اور دلیل طلب کرتے ہیں جب اس کے مقابلے میں کوئی معتبر جرح نہ ہو، اور نہ ہی کسی معتبر توثیق سے کوئی مدد ملتی ہو۔ اسی لیے امام ذہبیؒ نے بھی ضمنی توثیق کو ایسے رواۃ کے لیے ہی معتبر تصور کیا ہے جنانچہ وہ فرماتے ہیں:

"الثقة: من وثقه كثير، ولم يضعف. ودونه: من لم يوثق ولا ضعف. فإن خرج حديث هذا في "الصحيحين"، فهو موثق بذلك. وإن صحح له مثل الترمذي وابن خزيمة، فجيد أيضا. وإن صحح له كالدارقطني والحاكم، فأقل أحواله: حسن حديثه."

(ثقہ وہ ہے جسے کئی لوگ ثقہ کہیں اور اس کی تضعیف نہ کی گئی ہو، اس کے نچلے درجے میں وہ ہے جس کی نہ توثیق کی گئی ہو اور نہ تضعیف، پس ایسے راوی کی حدیث اگر صحیحین میں مروی ہو تو وہ اس بناء پر موثق ہو گا، اور اگر اس کی تصحیح ترمذی اور ابن خزیمہ جیسے لوگ کریں تو وہ بھی جید ہو گا، اور اگر اس کی تصحیح دارقطنی اور حاکم کریں تو اس کی کم سے کم حالت میں وہ حسن الحدیث ہو گا

(الموقظہ للذہبی: ص 78)

اس قول سے واضح ہوا کہ ان ائمہ کی توثیق کا اعتبار تب کیا جائے گا جب راوی کی تضعیف نہ کی گئی ہو۔ اگر اس راوی کی واضح تضعیف موجود ہو گی تو ان ائمہ کی تصحیح میں مذکورہ بالا احتمالات آ جائیں گے، اسی لیے امام ذہبی نے ان کی تصحیح کو صرف ان راویوں کے ساتھ خاص کیا ہے جو " لم يوثق ولا ضعف " ہیں۔

نیز امام ابن خزیمہ کی اس تصحیح کو دیکھا جائے تو انہوں نے اس حدیث کو درج ذیل باب کی دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے:

"باب ذكر الأخبار المنصوصة والدالة على أن الوتر ليس بفرض"

(ان روایات کے ذکر کا باب جو اس بات کی صراحت اور رہنمائی کرتی ہیں کہ وتر فرض نہیں ہے

(صحیح ابن خزیمہ: 2/136)

اس باب کے تحت انہوں نے وتر کے عدمِ وجوب پر اپنی اصل دلیل بیان کی اور پھر اس پر دیگر حدیثی، اجماعی، اور عقلی دلائل سے استشہاد کیا ہے۔ انہی دلائل میں سے ایک دلیل عیسی بن جاریہ کی یہ حدیث بھی ہے۔ چنانچہ اس حدیث سے ان کا وجہِ استدلال رکعات تراویح کا ثبوت نہیں بلکہ وتر کا عدمِ وجوب ہے، جس پر عیسی بن جاریہ کی یہ روایت دیگر روایات اور عقلی دلائل کی روشنی میں شاہد بننے کے قابل ہے۔ چنانچہ اس استشہاد سے یہ سمجھنا کہ ابن خزیمہ نے اس سے عدد رکعات پر بھی دلیل اخذ کی ہے یا اس کی تصحیح کی ہے تو یہ ان کے استشہاد اور تبویب کے موافق نہیں ہے۔ چنانچہ اس سے ان کی تصحیح محتمل ٹھہری لہٰذا اس سے عیسی بن جاریہ کی مطلق توثیق ثابت کرنا بھی واضح جرح کی موجودگی میں مردود قرار پایا۔ اس پر مزید یہ کہ امام ابن خزیمہ کی تصحیح دیگر مفسر جرح اور ان سے زیادہ بڑے ائمہ کے صریح اقوال کے مخالف ہونے کی وجہ سے بھی مردود ہے۔

3-        امام ابن حبانؒ (م 354 ھ) کی توثیق:

امام ابن حبانؒ نے انہیں کتاب الثقات (5/214 ت 4577) میں ذکر کیا ہے۔ اور ان کی حدیث کو اپنی صحیح میں بھی درج کیا ہے (صحیح ابن حبان: 357، 2063، 2409، 2415، 2549، 2550، 2794)۔

امام ابن حبان کا تساہل خصوصا تابعین کے تعلق سے مشہور ومعروف ہے۔ نیز ان سے اکثر اور اعلم ائمہ نے عیسی بن جاریہ پر صریح جرح کی ہے۔

v        امام ابو یعلی الخلیلیؒ (م 446 ھ) کا قول:

بعض لوگوں نے عیسی بن جاریہ کی تعدیل امام خلیلی کی طرف بھی منسوب کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ ان پر بہتان ہے۔

·      ان میں سے ایک نے اپنے رسالے میں کہا: "ابو یعلی الخلیلی نے کہا: "وروى عنه العلماء محله الصدق"

(تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: 1/529، اور ماہنامہ نور الحدیث شمارہ 36، ص 73)

·      اور ایک دوسرے شیخ نے اپنے مضمون میں کہا: "امام ابو یعلیٰ الخلیلیؒ فرماتے ہیں: "عيسى بن جارية تابعي.... وروى عنه العلماء محله الصدق "

(مسنون رکعات تراویح: ص 122)

جواب:

یہ قول امام ابو یعلی خلیلی سے ثابت نہیں:

الغرض ایک سے زائد مصنفین نے اپنے موقف کی تائید میں مروی عیسی بن جاریہ سے مروی حدیث کے دفاع میں اس قول کو امام ابو یعلی الخلیلی کی طرف منسوب کیا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی امام خلیلی کے کلام کی مکمل عبارت کہیں ذکر نہیں کی۔ اگر وہ ذکر کر دیتے تو اس قول کی حقیقت خود بخود سامنے آ جاتی، لیکن نجانے کیوں اتنی اہم چیز کو چھپا لیا گیا۔

امام ابو یعلی الخلیلیؒ کا یہ کلام اس کتاب میں اس طرح درج ہے:

"عيسى بن جارية تابعي وقع إلى قم يروي عن جابر بن عبد الله الأنصاري،
سكن قم رجل من الفقهاء على مذهب الكوفيين استقضي بها وكان عارفا بالحديث وله تصانيف في ذلك سمع أبا سعيد الأشج، وعلي بن المنذر، وغيرهما حدثني عنه علي بن أحمد بن علي بن يوسف الوراميني، قدم علينا، وروى عنه العلماء محله الصدق
"

(عیسی بن جاریہ تابعی، قم تک واقع ہوئے، وہ جابر بن عبد اللہ الانصاری سے روایت کرتے ہیں۔
قم کے شہر میں ایک آدمی سکونت پذیر تھا جو کوفہ والوں کے مذہب کا فقیہ تھا، اور وہاں (یعنی کوفہ میں) قضاء کے لیے مانا جاتا تھا، وہ حدیث کو جاننے والا تھا اور اس پر (یعنی حدیث میں) اس کی تصانیف بھی تھیں، اس نے ابو سعید الاشج اور علی بن المنذر وغیرہ سے سماع کیا، اور مجھے اس سے علی بن احمد بن علی بن یوسف الورامینی نے حدیث بیان کی ہے، وہ ہمارے شہر آیا، اور اس سے علماء نے روایت کی، وہ سچائی کے مقام پر تھا

(الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث للخلیلی: 2/785)

امام خلیلیؒ کے کلام کے مکمل سیاق کو دیکھنے کے بعد یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ یہاں محلہ الصدق کا جملہ عیسی بن جاریہ کے لیے بولا ہی نہیں گیا۔ بلکہ عیسی بن جاریہ کے ترجمے کے آگے کسی اور کا ترجمہ شروع کیا گیا ہے اور اس کے تعارف کو عیسی بن جاریہ کے لیے سمجھ لیا گیا ہے۔

دراصل امام خلیلیؒ نے یہاں "قم" (ایک شہر کا نام) کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے اور اس باب کے اندر انہوں نے شہرِ قم سے تعلق رکھنے والے راویوں کا ذکر کیا ہے۔ اس میں یعقوب القمی کے بعد انہوں نے عیسی بن جاریہ کا ذکر کیا، لیکن اس کے فوراً بعد مطبوعہ نسخے میں قم کے رہنے والے ایک اور راوی کا تذکرہ شروع ہو گیا، لیکن چونکہ اس راوی کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے یا پھر ناسخ کی غلطی سے اس کا نام سقط ہو گیا ہے اس لیے بعض لوگوں نے اس کلام کو عیسی بن جاریہ کے متعلق کلام کا ہی تسلسل سمجھ لیا۔ حالانکہ اس کلام کی تفصیل پر غور کیا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں عیسی بن جاریہ کا تذکرہ نہیں ہو رہا۔ چنانچہ محلہ الصدق سے پہلے کلام پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جس راوی کی بات ہو رہی ہے اس کی درج ذیل صفات بیان کی گئی ہیں:

·      قم کا رہنے والا ایک شخص (سکن قم رجل) – عبارت کے پہلے الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ یہاں عیسی بن جاریہ مراد نہیں ہیں، کیونکہ اگر یہاں عیسی بن جاریہ ہی مراد ہوتے تو انہیں "قم کا رہنے والا ایک شخص" جیسے مبہم الفاظ سے ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

·      من الفقہاء علی مذہب الکوفیین (کوفہ والوں کے مذہب کا فقیہ) – حالانکہ عیسی بن جاریہ تو مدنی راوی ہیں اور ان کا کسی کوفی راوی سے حدیث یا فقہ اخذ کرنا ثابت نہیں۔ نیز عیسی بن جاریہ ایک تابعی ہیں اور اس دور میں کوفی مذہب یا مدنی مذہب وغیرہ جیسی تفریقات واصطلاحات موجود نہیں تھیں۔

·      استقضی بہا (کوفہ میں قضاء کے لیے طلب کیے جاتے تھے) – حالانکہ عیسی بن جاریہ کا کوفہ تک جانا ہی منقول نہیں تو وہاں کی قضاء کے منصب پر فائز ہونے کی بات تو بہت بعید ہے۔ نیز ان کا مطلقا قاضی ہونا ہی کہیں مذکور نہیں ہے۔

·      وکان عارفا بالحدیث (وہ حدیث کو جاننے والے تھے) – حالانکہ عیسی بن جاریہ کے بارے میں ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے بلکہ ان پر معتبر جرح وارد ہوئی ہے، اور ان کی حدیثوں کی تعداد بھی بالاتفاق اتنی نہیں کہ انہیں اس لقب سے نوازا جائے۔

·      لہ تصانیف فی ذلک (حدیث میں ان کی تصانیف ہیں) – حالانکہ عیسی بن جاریہ جس زمانے میں تھے اس وقت کے مشہور ومکثر ائمہ کی تصانیف بھی ملنا مشکل ہے تو ایک مختلف فیہ اور مقل شخص کی ایک سے زائد تصانیف کا ہونا کیسے ممکن ہے؟

·      سمع ابا سعید الاشج، علی بن المنذر – حالانکہ یہ دونوں دسویں طبقے کے راوی ہیں، ایک تابعی کا دسویں طبقے کے راویوں سے روایت کرنا ناممکن ہے۔

·      حدثنی عنہ علی بن احمد بن علی بن یوسف الورامینی – حالانکہ الخلیلی خود 18ویں طبقے کے راوی ہیں تو لازم ہے کہ ان کا شیخ، ابو سعید الاشج جیسے راویوں سے بھی متاخر ہو گا۔ نیزعیسی بن جاریہ کے شاگرد یعقوب القمی تک بھی خلیلی کی سند میں چار راوی آتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ  یعقوب القمی کے شیخ سے ان کے درمیان صرف ایک راوی ہو؟

·      قدم علینا – الخلیلی قزوین کے شہر سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کا کہنا کہ وہ ہمارے شہر میں تشریف لائے محال ہے، کیونکہ عیسی بن جاریہ کا مدینہ سے باہر کسی بھی شہر سفر منقول نہیں ہے۔

·      روی عنہ العلماء – حالانکہ عیسی بن جاریہ سے صرف القمی اور عنبسہ کا روایت کرنا ثابت ہے۔

الغرض امام خلیلی کے اس کلام کا عیسی بن جاریہ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس پر مزید یہ کہ اس تعدیل کو امام خلیلی کی طرف ان مذکورہ مصنفین سے پہلے کسی نے بھی منسوب نہیں کیا ہے، اور نہ ہی کسی اسماء الرجال کی کتاب میں عیسی بن جاریہ کے ترجمہ میں امام خلیلی کا کوئی قول ملتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان معاصر مصنفین نے اس کلام کو ان کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کی ہے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض سے غلطی ہو گئی ہو کہ انہوں نے امام خلیلی کے کلام پر پوری طرح سے غور کیے بغیر نقل کر دیا، لیکن عجب تو اس بات پر ہے کہ ان میں سے ایک نے اس پورے کلام کو پڑھنے اور سمجھنے کا دعویٰ بھی کیا اور اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ "الارشاد کے مطبوعہ نسخے میں کچھ گڑبڑ بھی ہے۔ کسی دوسرے راوی کے بارے میں لکھے ہوئے الفاظ اس تذکرے میں بھی آگئے ہیں جن کی محشی نے صراحت کر دی ہے" (تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: 1/529)، لیکن اس کے باوجود ان جناب نے اس کلام کو امام خلیلی کی طرف منسوب کرنے سے گریز نہیں کیا۔ گویا اگر آپ کو معلوم ہے کہ عیسی بن جاریہ کے تذکرے میں کسی اور راوی کا تذکرہ بھی آ گیا ہے تو آپ کا اس پورے کلام میں سے صرف تعدیل والے الفاظ کو اٹھانا اور صرف اتنے حصے کو عیسی بن جاریہ کی طرف منسوب کرنے کا جواز بھی باطل ہو گیا۔ چنانچہ کس دلیل کی بنیاد پر آپ نے ان الفاظ کو عبارت کے تسلسل سے نکال کر ایک عجیب وغریب طریقے سے عیسی بن جاریہ کے حق میں قرار دے دیا، جبکہ کلام کے تسلسل سے صاف واضح ہے کہ یہاں جس راوی کی بات ہو رہی ہے وہ عیسی بن جاریہ ہرگز نہیں ہے؟ اتنی بڑی تحریف کی توقع عموما اہل حدیثوں سے نہیں کی جاتی، لیکن افسوس!

4-        امام ذہبیؒ (م 748 ھ) کا قول:

امام ذہبیؒ نے عیسی بن جاریہ کی ایک حدیث کے بارے میں فرمایا:

"إسناده وسط"

(میزان الاعتدال: 3/331)

جواب:

محدثین کے نزدیک "وسط" کا معنی

اس قول سے بعض لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایسا راوی جس کے بارے میں وسط کہا جائے وہ حسن الحدیث ہوتا ہے، جو ان کے نزدیک اپنے آپ میں مطلقا مقبول حدیث کی ایک قسم ہے۔

حالانکہ  وسط سے مراد یہ نہیں کہ راوی کی حدیث صحیح وضعیف کے درمیان حسن درجے کی حدیث ہے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ راوی کی حدیث مطلقا مقبول ومتروك کے درجات میں سے درمیانی درجے کی ہے۔ الغرض ایسا راوی اور اس کی حدیث نہ تو مطلقا حجت یا مقبول (یعنی صحیح وحسن) تسلیم کی جاتی ہے، اور نہ ہی مطلقا رد اور ترک کی جاتی ہے، پس وہ شواہد ومتابعات کے قابل ہے۔ پس جس شخص یا حدیث پر یہ لفظ کہا جائے گا اس سے فوراً یہ مراد نہیں لیا جائے گا کہ یہ راوی یا حدیث حسن ہے، بلکہ اس میں مزید غور وفکر اور تفتیش کی جائے گی، پس اگر دیگر قرائن ودلائل سے اسے تقویت ملتی ہو تو وہ مقبول یا حسن ہو گی اور نہیں تو اسے رد کر دیا جائے گا۔

چنانچہ آپ جرح وتعدیل کے درجات پر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ جرح اور تعدیل تین بنیادی اقسام پر منقسم ہیں:

1)   پہلی قسم: احتجاج کا درجہ ہے، اور یہاں احتجاج دو قسم کا ہوتا ہے: اعلی قسم کا احتجاج اور ادنی قسم کا احتجاج، پس اول صحیح ہے اور دوسرا حسن ہے۔

2)   دوسری قسم: استشہاد کا درجہ ہے، اس میں مراتب تعدیل کے آخری دو درجے، اور جرح کے پہلے تین درجے داخل ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان مراتب کے راویوں سے استشہاد کیا جاتا ہے لیکن ان سے حجت نہیں لی جاتی۔

3)   تیسری قسم: رد اور ترک کا درجہ ہے۔ اس میں راوی کی منفرد حدیث سے نہ حجت لی جاتی ہے اور نہ ہی وہ استشہاد کے قابل ہوتی ہے۔

پس جب کہا جائے کہ فلاں "وسط" ہے یا اس کی حدیث "وسط" ہے، تو بعض لوگ اس سے یہ خیال کرتے ہیں کہ یہاں وسط اس معنی میں ہے کہ نہ وہ صحیح ہے اورنہ ضعیف بلکہ حسن ہے، لیکن یہ ان کی غلطی ہے، کیونکہ محدثین اس سے مراد صحیح اور ضعیف کا وسط مراد نہیں لیتے، بلکہ احتجاج اور ردّ کا وسط مراد لیتے ہیں، پس ایسا راوی ان کے نزدیک نہ حجت کے قابل ہے اور نہ رد اور ترک کے قابل ہے۔ چنانچہ جب کہا جائے کہ فلاں حدیث یا فلاں راوی وسط ہے تو یہ شواہد ومتابعات کے الفاظ میں سے ہے۔

اس کی وضاحت امام ذہبیؒ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے ایک حدیث کے بارے میں فرمایا:

"الحديث منكر وإسناده وسط"

(یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد وسط ہے)

(العلو للعلی الغفار للذہبی: ص 116)

الغرض وسط کی اصطلاح ان کے نزدیک حجیت اور مقبولیت کی اقسام میں سے نہیں ہے۔ بلکہ یہاں انہوں نے اس حدیث پر منکر کا حکم لگایا ہی اس بنیاد پر ہے کہ اس کی اسناد وسط ہے، یعنی اس کے راوی نہ تو قابلِ احتجاج ہیں اور نہ قابلِ ترک، الغرض ان میں یہ اہلیت نہیں کہ ان کا تفرد یہاں قبول کیا جائے اس لیے یہ حدیث منکر ہے۔

اسی طرح ایک دوسری جگہ ایک راوی کے بارے میں فرمایا:

" لين وسط" (المجرد فی اسماء رجال سنن ابن ماجہ: 1137)

یہاں بھی انہوں نے وسط کی اصطلاح کو "لین" کے ذریعے واضح کر دیا ہے، کہ اس سے جرح وتعدیل کے مراتب کا وسط مراد ہے۔

اس اصطلاح کی وضاحت دیگر ائمہ کے اقوال سے بھی ملتی ہے جن میں واضح طور پر حجیت اور ترک کے درمیان کا مفہوم پایا جاتا ہے، جیسے:

·      علي بن المديني: " عاصم بن كليب صالح ليس ممن يسقط ولا ممن يحتج به وهو وسط" (مسند عمر لیعقوب بن شیبہ: ص 93)۔

·      أبو زرعة: "ليس هو ممن يكذب بمرة هو وسط" (الجرح والتعدیل: 2/200)

·      ابن عدي: "وأبو عتبة وسط بينهما، ليس ممن يحتج بحديثه، أو يتدين به، إلا أنه يكتب حديثه " (الکامل لابن عدی: 1/313)

·      يحيى القطان: "ليس هو ممن يعتمد عليه، وهو صالح وسط " (الکامل لابن عدی: 9/176، والجرح والتعدیل: 9/285)

·      صالح جزرة: "حبة بْن جوين كوفي وَكَانَ يتشيع، ليس هو بالمتروك، ولا ثبت، وسط" (تاریخ بغداد: 8/270)۔

اور امام ذہبیؒ کی طرف سے اس اصطلاح کی مزید وضاحت اس سے بھی ہوتی ہے کہ دیگر جگہوں پر انہوں نے عیسی بن جاریہ کے ساتھ درج ذیل رویہ رکھا ہے:

·      الکاشف میں عیسی بن جاریہ کے بارے میں فرمایا: "مختلف فیہ" (الکاشف: 2/314)۔

·      اور اپنی کتاب "المجرد فی اسماء رجال سنن ابن ماجہ" میں عیسی بن جاریہ کے بارے میں فرمایا: "شيخ" (ص 128)۔ اور شیخ کا لفظ تعدیل کے آخری مراحل میں سے ہے جن کے بارے میں معروف ہے کہ ان کی حدیث قابلِ احتجاج نہیں ہوتی بلکہ ان سے استشہاد کیا جاتا ہے۔

·      عیسی بن جاریہ کو انہوں نے اپنی دونوں کتبِ ضعفاء میں درج کیا ہے دیوان الضعفاء (3270)، اور المغنی فی الضعفاء (4788)، اور عیسی کو اپنے رسالے "من تكلم فيه وهو موثق " میں بھی ذکر نہیں کیا۔

اسی طرح امام ذہبیؒ سے وسط کی اصطلاح کی مزید وضاحت اس سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے دیگر جگہوں پر بھی "اسنادہ وسط" یا "وسط" کا استعمال ایسے رواۃ یا ان کی روایات کے لیے ہے جن کے بارے میں مشہور ومعروف بلکہ اجماع ہے کہ وہ حجیت کے درجے سے باہر ہیں، جیسے:

·      علی بن زید بن جدعان (المہذب فی اختصار السنن الکبیر: 2732، 16017)۔

·      الحارث بن عبد اللہ الاعور (المہذب: 6829)۔

·      اسماعیل بن عبد الملک بن ابی الصفیراء (المجرد فی اسماء رجال سنن ابن ماجہ: 1137)۔

·      عمر بن عبد اللہ بن یعلی (المجرد: 1137)۔

امید ہے امام ذہبیؒ کے اس قول سے استدلال کرنے والوں کے لیے اتنے دلائل کافی ہوں گے، البتہ اس تابوت میں ایک آخری کیل کے طور پر ہم ایک اور صریح دلیل پیش کر دیتے ہیں تا کہ مزید تسلی ہو جائے، امام ذہبی کے استاد علامہ بدر الدین ابن جماعہ (م 733) الفاظ تعدیل کے چوتھے درجے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"الرَّابِعَة صَالح الحَدِيث فَهَذَا يكْتب حَدِيثه للاعتبار قلت وَمثله وسط"

(چوتھا درجہ: صالح الحدیث کا ہے، ایسے شخص کی حدیث کو بطورِ اعتبار (یعنی شواہد ومتابعات میں) لکھا جاتا ہے، میں کہتا ہوں کہ وسط میں اسی کی طرح ہے

(المنہل الروی فی مختصر علوم الحدیث النبوی: ص 65)

نیز انہوں نے اس اصطلاح کو "شیخ" اور "روی عنہ الناس" سے بھی نچلے درجے میں رکھا ہے۔ لہٰذا اس اصطلاح سے "حسن الحدیث" مراد لینا وہ بھی ایسا جو ان معاصرین کے نزدیک مطلق مقبولیت کا درجہ ہے، بالکل غلط ہے۔

5-        امام منذریؒ (م 656 ھ):

امام منذریؒ نے عیسی بن جاریہ کی ایک حدیث کے بارے میں فرمایا:

"رَوَاهُ أَبُو يعلى بِإِسْنَاد جيد وَابْن حبَان فِي صَحِيحه"

(اسے ابو یعلی نے جید اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے، اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے)

(الترغیب والترہیب: 1/293)

اسی طرح عیسی بن جاریہ کی روایت پر بعض ضمنی توثیقات درج ذیل علماء سے بھی نقل کی جاتی ہے:

6-        علامہ ہیثمیؒ (م 807 ھ)

7-        علامہ بوصیریؒ (م 840 ھ)

8-        حافظ ابن حجر العسقلانیؒ (م 852 ھ)

(دیکھیں: تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: 1/529، وماہنامہ نور الحدیث شمارہ 36، ص 74-75، ومسنون رکعات تراویح: ص 123)

ان سب کا جواب یہی ہے کہ:

·      یہ سب لوگ متاخرین میں سے ہیں۔

·      ان میں روایات کی تحکیم میں تساہل پایا جاتا ہے۔

·      نیز یہ ناقدینِ رجال میں سے نہیں بلکہ ناقلین میں سے ہیں۔ جبکہ راویوں کے بارے میں راجح اور درست موقف تک رسائی کے لیے حجت اور مرجع کا رتبہ صرف ناقدین کے اقوال کو حاصل ہے، لہٰذا ان جیسے غیر ناقدین کے جتنے مرضی اقوال نقل کر دیے جائیں، اس سے نہ راوی کی توثیق میں ردّی بھر اضافہ ہو گا اور نہ تضعیف میں کوئی کمی۔ چنانچہ اس کے برعکس اگر ہم انہی کے طرح کے دیگر ناقلین اور معاصر محدثین کے اقوال پیش کر دیں تو کیا فریقِ مخالف انہیں بھی تسلیم کر لیں گے؟

 

جارحین کے اقوال:

1-        امام یحیی بن معینؒ (م 233 ھ) کی جرح:

امام یحیی بن معینؒ نے عیسی بن جاریہ کے بارے میں فرمایا:

"روى عنه يعقوب القُمّي، لا نعلم أحدًا روى عنه غيره، وحديثُه ليس بذاك"

(اس سے یعقوب القمی نے روایت کی ہے، ہم نہیں جانے کے کسی دوسرے نے اس سے روایت بیان کی ہے، اور اس کی حدیث قوی نہیں ہے

(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 4810، والجرح والتعدیل: 6/273)

اور ایک دوسری جگہ فرمایا:

"عيسَى بن جَاريَة، عنده أحاديث مناكير، يُحدِّث عنه يعقوب القُمّي، وعنبَسَة قاضي الرَّي"

(عیسی بن جاریہ کے پاس منکر حدیثیں ہیں، اس سے یعقوب القمی اور عنبسہ قاضی ری نے روایت کی ہے

(تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 4825)

اور ایک دوسری جگہ فرمایا:

"ليس بشيء"

(وہ کوئی چیز نہیں

(سؤالات ابن الجنید: 122)

الغرض امام ابن معینؒ سے عیسی بن جاریہ کے متعلق ایک سے زائد کلمات جرح وارد ہوئے ہیں:

·      "حديثُه ليس بذاك "

·      " عنده أحاديث مناكير "

·      " ليس بشيء "

ان تمام اقوال کے بارے میں سب کا اتفاق ہے کہ یہ کلماتِ جرح ہیں، لیکن اس کے باوجود بعض لوگوں نے اپنے مذہبی تعصب میں ان کا بھی رد کرنے کی کوشش کی ہے۔

اعتراض نمبر 1 – کیا امام ابن معین کے اقوال میں تعارض ہے؟

معترض کا اعتراض ہے کہ:

"امام ابن معین کے پہلے دو اقوال میں تعارض ہے کہ عیسی بن جاریہ کا ایک شاگرد ہے یا دو ہیں۔"

(نور الحدیث: 36/70)

جواب:

عرض ہے کہ یہ کوئی وجہ نہیں امام ابن معین کی جرح کو رد کرنے کی۔ اس کا تفصیلی جواب ہم نے اوپر امام ابن معین کے تلامذہ کی بحث میں دے دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہاں کوئی تعارض نہیں بلکہ اس میں امام ابن معین کی امامت اوراہلیت کی نشانی ہے جسے بعض جاہل سمجھ نہیں پائے اور الٹا امام پر ہی تعارض کا الزام لگا دیا۔ اور اگر اسے تعارض تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس کے ایک سے زائد جواب ہیں:

·      تعارض کی صورت میں اگر تطبیق ممکن ہو تو تطبیق دی جاتی ہے نہ کہ کلی طور پر مسترد کر دیا جائے۔ چنانچہ یہاں یہ بات سمجھنا کسی کے لیے محال نہیں کہ امام ابن معین کے ان دو مختلف اقوال کی وجہ ان کی معلومات میں اضافے کے سبب ہے۔ اس میں ایسی کون سی بات ہے جس کی بنا پر ان کے قول کو مطلقا رد کر دیا جائے؟

·      اس تعارض کا تعلق راوی کی روایت یا اس کے حکم سے نہیں ہے بلکہ اس کے تلامذہ کے عدد سے ہے، اور یہ چیز راوی کے حکم اور اس کی روایت کے ضعف پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ کیونکہ راوی پر حکم کا تعلق اس کی روایات کی تحقیق اور تفتیش سے ہے، نہ کہ اس کے تلامذہ کی تعداد سے۔

·      الٹا ان دونوں اقوال میں فریقِ مخالف کا ہی رد ہے کیونکہ تعدادِ تلامذہ میں اضافی معلومات کے سبب تبدیلی کے باوجود امام ابن معین کا اس راوی کے متعلق حکم نہیں بدلا، بلکہ الفاظ مزید سخت ہو گئے۔ اس سے امام ابن معین کی جرح میں مزید تقویت پیدا ہوتی ہے کہ پہلے لیس بذاک کہنے کے بعد جب امام ابن معین کے علم میں اس راوی کے ایک اور تلمیذ کا اضافہ ہوا، تو گویا انہوں نے اس راوی کی مزید معلومات حاصل کیں، اور اس اضافی علم کے ساتھ بھی انہوں نے اس راوی کو قابلِ حجت نہیں مانا بلکہ اس کی حدیثوں میں مناکیر کی نشاندہی فرمائی۔ الغرض اس تعارض کا اثر راوی کے حکم پر نہیں ہوا، اور اس میں یہ دونوں اقوال ایک دوسرے کی تقویت اور تشریح میں بالکل واضح ہیں، بلکہ ان کا ایک تیسرا قول بھی انہی دو کے موافق ہے۔

اعتراض نمبر 2 – کیا مقل راوی کے حق میں "منکر الحدیث" اور "عندہ مناکیر" میں فرق ہے؟

ایک اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ:

"امام ابن معین کے نزدیک عیسی بن جاریہ نے منکر روایات بیان کی ہیں، لیکن منکر الحدیث کے درجہ تک نہیں پہنچا، چنانچہ امام ذہبی فرماتے ہیں: ما كل من يروي المناكير يضعف (ایسا نہیں ہے کہ جس کسی نے بھی منکر احادیث روایت کیں، وہ ضعیف قرار پائے گا)۔"

(نور الحدیث: 36/70)

جواب:

یہ سچ ہے کہ مطلق ثقہ شخص کے حق میں محض چند مناکیر باعثِ ضعف نہیں ہیں لیکن اس سے پہلے اس کا ثقہ ہونا بھی ثابت ہونا چاہیے۔ جس شخص کی ثقاہت ہی ابھی ثابت نہیں ہوئی اس کی مناکیر کیسے ضعف کا سبب نہ ہوں؟

نیز  یہ بھی سچ ہے کہ "منکر الحدیث" اور "عندہ احادیث مناکیر" میں دقیق فرق ہے، لیکن یہ دونوں الفاظ جرح میں ہی شمار ہوتے ہیں اس پر سب کا اتفاق ہے۔ چنانچہ ایک جرح عام ہے جس میں مطلق مناکیر کی موجودگی کی طرف اشارہ ہے اور دوسری خاص ہے جس میں مناکیر کی کثرت وغلبہ کی طرف اشارہ ہے۔ پس جس راوی پر خاص والی جرح ہے اس کا ضعف تو واضح ہے، لیکن جس پر عام والی جرح ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ لازما غیر ضعیف یا حسن الحدیث ہو گا، بلکہ اس کا فیصلہ بعض دیگر قرائن کی بنیاد پر کیا جائے گا کہ اس جرح سے وہ راوی ضعیف ہوتا ہے یا نہیں۔ لہٰذا امام ذہبیؒ کا قول اپنی جگہ پر درست ہے کہ ہر منکر حدیث بیان کرنے والا راوی ضعیف نہیں ہوتا، کیونکہ ان کی مراد یہ ہے کہ یہاں اس جرح کا پسِ منظر اور راوی کے دیگر حالات پر غور کیا جائے گا۔ لیکن جو لوگ اس فرق کی معرفت نہیں رکھتے وہ امام ذہبیؒ جیسوں کے اقوال کو ایک مطلق قاعدے کے طور پر اخذ کر کے اسے ہر راوی پر داغ دیتے ہیں۔

چنانچہ "منکر الحدیث" اور "عندہ مناکیر" میں عموم اور خصوص اس اعتبار سے ہے کہ جس راوی کے بارے میں کہا جائے کہ وہ منکر الحدیث ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی احادیث میں مناکیر کی تعداد اتنی کثرت سے ہے کہ وہ اس کا وصف بن چکا ہے، جبکہ "عندہ مناکیر" میں راوی کی احادیث میں مناکیر کا موجود ہونا تو پایا جاتا ہے لیکن اس کی کثرت کی طرف اس میں کوئی اشارہ نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا راوی اگر اصلا ثقہ وضابط اور کثیر الحدیث ہے تو اس کی کثیر احادیث میں چند مناکیر کا ہونا باعثِ ضعف مطلق نہیں ہے۔ اسی لیے امام ذہبیؒ نے فرمایا کہ ہر منکر روایت کرنے والا ضعیف نہیں ہوتا۔

لیکن اگر ایسا راوی جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اس کی حدیثوں میں مناکیر ہیں، اور وہ قلیل الحدیث ہو، تو اس کے حق میں یہ جرح اس کی تضعیف ہی شمار ہو گی، کیونکہ جو شخص پہلے سے ہی کم روایتیں بیان کرتا ہے اور اس میں بھی وہ منکر روایتیں بیان کرے، تو یہ اس کی روایات کی تعداد کے مقابلے میں کثرت ہی شمار ہو گی، اور اس کے حق میں ایسی جرح مفسر اور قادح شمار ہو گی اور اس کی روایات کو دائرہِ احتجاج سے خارج کرنے کا سبب ہو گی۔ جبکہ عیسی بن جاریہ کے بارے میں معترض خود اقرار کرتے ہیں کہ: "عیسی بن جاریہ قلیل الحدیث ہیں۔۔۔ امام ذہبی لکھتے ہیں: وهو مقل (عیسی بن جاریہ کی روایات کم ہیں)۔" (نور الحدیث: 36/71)۔

اس پر علماء کے بعض اقوال اور مثالیں درج ذیل ہیں:

·      علامہ عبد الرحمن مبارکپوریؒ ایک راوی کے بارے میں فرماتے ہیں:

"ذكره بن حبان في الثقات وقال ربما أخطأ وهذه عبارة عن ضعفه فإنه قليل الحديث جدا ولم يرو عنه سوى ولده فإذا كان يخطىء مع قلة ما روى فكيف يوصف بكونه ثقة "

(اسے ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا اور کہا کہ "وہ کبھی غلطی کرتا ہے" اور یہ عبارت اس کے ضعف پر مبنی ہے کیونکہ وہ نہایت قلیل الحدیث ہے، اور اس سے اس کیے بیٹے کے سوا کوئی روایت نہیں کرتا، پس جب وہ اپنی روایت کردہ کی قلت کے باوجود غلطی کرتا ہے، تو اسے ثقہ کیسے کہا جا سکتا ہے!)

(تحفہ الاحوذی: 1/94)

·      تحریر علوم الحدیث کے مصنف شیخ عبد اللہ الجدیع فرماتے ہیں:

"الراوي يختلف فيه جرحاً وتعديلاً، وهو قليل الحديث. مثل هذا إذا كان جرحه بالخطأ في حديث أو بعض حديثه الذي روى، فالجرح يلين حديثه، وينزل بدرجة ذلك الراوي عن درجة من يحتج به، وإنما يعتبر بحديثه ويستشهد "

(جس راوی کی جرح اور تعدیل میں اختلاف ہو اور وہ قلیل الحدیث ہو، تو ایسے راوی پر اگر اس کی روایت کردہ کسی ایک یا بعض حدیثوں میں غلطی کرنے کی جرح کی گئی ہو، تو یہ جرح اس کی حدیث کو کمزور بنا دیتی ہے، اور وہ راوی درجہِ احتجاج سے نیچے گِر جاتا ہے، اور اس کی حدیث سے صرف اعتبار اور استشہاد کیا جاتا ہے

(تحریر علوم الحدیث: 1/557)

·      شیخ علی الحلبی اپنی کتاب "زہر الروض فی حکم صیام یوم السبت فی غیر الفرض" میں ایک راوی پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"والخلاصة فيه: أنه يخطئ ويخالف على قلة حديثه -، مما يجعل حديثه منكراً "

(اس کے بارے میں خلاصہ یہ ہے کہ وہ غلطیاں اور مخالفت کرتا ہے، - اس کی حدیث کی قلت کے مقابلے میں – یہ بات اس کی حدیث کو منکر بنا دیتی ہے

(ص 47)

·      امام ابن حبان نے بھی اپنے کئی احکام میں راوی کی خفیف جرح کو اس کی روایت کی قلت کے مقابلے میں قادح شمار کیا ہے، مثلا:

o     "«كان ممن ينفرد عن أبيه بما ليس من حديثه؛ توهما، على قلة روايته، فبطل الاحتجاج بخبره»"

o     "خالد بن محمد أبو الرجال الأنصاري... عنده مناكير يرويها عن أنس على قلة روايته مالا يتابع عليه لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد " (المجروحین: 306)

o     "رباح بن عبيد الله بن عمر العمري... كان قليل الحديث منكر الرواية على قلتها لا يجوز الاحتجاج بخبره عندي إلا بما وافق الثقات " (المجروحین: 349)۔

o     "ركين بن عبد الأعلى الضبي... كان ممن ينفرد بالمناكير عن المشاهير على قلة روايته فلا يعجبني الاحتجاج بخبره إلا فيما وافق الثقات " (المجروحین: 355)

o     "يخطىء عمن يروي على قلة روايته فاستحق الترك كما كثر ذلك منه" (المجروحین: 879)۔

o     "مُسلم بن عبيد أَبُو نصيرة الوَاسِطِيّ الدِّمَشْقِي... كَانَ يخطىء على قِلَّةِ رِوَايَتِهِ" (الثقات: 5395)۔

o     "حُلْو بن السرى... يخطىء ويغرب على قلَّة رِوَايَته " (الثقات: 7579)۔

·      اسی طرح امام ذہبیؒ بلال بن یحیی البصری نامی ایک راوی کے بارے میں فرماتے ہیں:

"وهو ضعيف عندهم؛ لأن له غلطات على قلة ما عنده "

(وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے، کیونکہ اپنی روایات کی قلت کے باوجود اس نے غلطیاں کی ہیں

(تاریخ الاسلام: 5/1277)

·      امام ابو الفضل محمد بن ابی الحسین ابن عمار الشہیدؒ سعیر بن الخمس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں:

"وسعير ليس هو ممن يحتج به لأنه أخطأ في غير حديث مع قلة ما أسند من الأحاديث"

(سعیر ان میں سے نہیں جن سے حجت لی جاتی ہے کیونکہ اس نے اپنی روایت کردہ احادیث کی قلت کے باوجود ایک سے زائد حدیث میں غلطی کی ہے

(علل الاحادیث فی صحیح مسلم: ص 44)

·      اسی طرح خود امام یحیی بن معینؒ سے ثابت ہے کہ وہ راوی کی کثیر روایات میں سے کسی مخصوص شیخ سے روایت میں مناکیر کو اس کا ضعف شمار کرتے ہیں، کیونکہ جب کسی شیخ سے روایت میں ضعف ومناکیر کی تخصیص ہو جائے تو یہ قلت کے مقابلے میں غلطی کرنے جیسا ہی ہے، اور اسی لیے یہ بھی جرح مفسر شمار ہوتی ہے،  چنانچہ عبد اللہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں:

" سألت يحيى (يعني ابن معين) عن جرير بن حازم؟ فقال: " ليس به بأس "، فقلت له: إنه يحدث عن قتادة عن أنس أحاديث مناكير؟ فقال: " ليس بشيء، هو عن قتادة ضعيف"

(میں نے یحیی بن معین سے جریر بن حازم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں (یعنی ثقہ ہیں) تو میں نے ان سے کہا: بے شک وہ قتادہ عن انس کے طریق سے منکر حدیثیں بیان کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: وہ کچھ چیز نہیں، وہ قتادہ سے روایت کرنے میں ضعیف ہیں

(العلل ومعرفۃ الرجال: 3912)

تو کیا اعتراض کرنے والا یہاں بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ "یحدث مناکیر" کیسے "ضعیف" کو مستلزم ہوا، جبکہ انہوں نے بالصراحت منکر الحدیث نہیں کہا بلکہ محض مناکیر کے وجود کا اعتراف کیا ہے؟

"روی مناکیر" اور "عندہ مناکیر" میں فرق!

یہاں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ امام ابن معین نے عیسی بن جاریہ کے بارے میں یہ نہیں کہا "روی مناکیر" بلکہ کہا "عندہ احادیث مناکیر" اور ان دونوں الفاظ میں بھی فرق ہے، کیونکہ پہلا لفظ دوسرے کی نسبت زیادہ خفیف ہے۔ پہلے لفظ کا مطلب ہے کہ راوی نے منکر روایتیں نقل کی ہیں لیکن لازم نہیں کہ ان کی نکارت اسی کی وجہ سے ہو بلکہ وہ ان کا محض راوی ہے چنانچہ یہ چیز اس کی روایت میں قادح نہیں جب تک یہ چیز بکثرت اس کی روایات میں نہ پائی جائے، جبکہ دوسرے لفظ کا مطلب ہے کہ اس راوی نے جو منکر روایتیں بیان کی ہیں ان کی نکارت اسی کی طرف سے ہے، پس یہ اس کے ضعف کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ ان دونوں کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے علامہ معلمیؒ فرماتے ہیں:

"وبين العبارتين فرق عظيم فإن «يروي مناكير» يقال في الذي يرويه ما سمعه مما فيه نكارة ولا ذنب له في النكارة، بل الحمل فيها على من فوقه، فالمعنى أنه ليس من المبالغين في التنقي والتوقي الذين لا يحدثون مما سمعوا إلا بما لا نكارة فيه، ومعلوم أن هذا ليس بجرح، وقولهم: «في حديثه مناكير» كثيراً ما تقال فيمن تكون النكارة من جهته جزماً أو احتمالاً فلا يكون ثقة."

(ان دونوں عبارتوں میں ایک عظیم فرق ہے، پس "یروی مناکیر" ایسے راوی کے بارے میں کہا جاتا ہے جو ایسی چیز کی روایت کرے جسے اس نے سنا اور اس میں نکارت پائی جائے، اور اس نکارت میں اس کا کوئی قصور نہ ہو بلکہ یہ نکارت اس کے اوپر کے کسی راوی کی طرف سے ہو۔۔۔ جبکہ ان کا کہنا: "فی حدیثہ مناکیر" تو یہ اکثر ایسے راوی کے بارے میں کہا جاتا ہے جس میں نکارت جزما یا احتمالا اسی کی طرف سے پائی جائے، پس وہ ثقہ نہیں ہوتا

(التنکیل: 1/44، نیز دیکھیں: شفاء العلیل بالفاظ وقواعد الجرح والتعدیل: ص 455)

چنانچہ ثابت ہوا کہ یہاں امام ابن معین کی اس جرح سے مراد راوی کی تضعیف ہے۔

اعتراض نمبر 3 – کیا "لیس بشیء" کی اصطلاح قلتِ روایت پر محمول ہے؟

ممکن ہے کہ امام ابن معین کے قول " ليس بشيء " سے مراد یہ ہو کہ عیسی بن جاریہ کی روایت کم ہیں۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے: "وذكر ابن القطان الفاسي أن مراد ابن معين بقوله في بعض الروايات ليس بشئ يعني أن أحاديثه قليلة جدا" (ابن القطان الفاسیؒ نے ذکر کیا ہے کہ بعض روایات میں امام ابن معین کے قول "لیس بشئ" سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس راوی کی روایات بہت کم ہیں) (ہدی الساری: ص 590)۔

(نور الحدیث: 36/71)

جواب:

امام ابن معین کے نزدیک لیس بشیء کا مطلب قلیل الروایہ ہونا ایک ثانوی چیز ہے جو قرائن کا محتاج ہے، جبکہ یہ قول اپنی اصل کے اعتبار سے جرح ہی شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ اس جرح کو قلیل الروایہ پر محمول کرنے کے لیے لازم ہے کہ اس کے قرائن پیش کیے جائیں جیسے امام ابن معین کے دیگر اقوال میں توثیق کے کلمات کا ہونا، یا کسی دوسرے امام کا اس راوی کی مطلق توثیق اور احتجاج کرنا۔

چنانچہ شیخ عبد العزیز العبد اللطیف ضوابط الجرح والتعدیل میں فرماتے ہیں:

" من اصطلاحات ابن معين... إذا قال: ليس بشيء فالمراد أن أحاديث الراوي قليلة. وقد يريد بذلك الجرح الشديد. وإنما يُعَرفُ ذلك بتتبع الأقوال الأخرى لابن معين وأقوال غيره من الأئمة في ذلك الراوي، فإذا كان الراوي الذي قال فيه ابن معين: (ليس بشيء) قليلَ الحديث، وقد وثقه ابن معين في الروايات الأخرى أو وثقه الأئمة الآخرون تعيّن حملُ كلمة ابن معين على معنى قلة الحديث لا الجرح. وأما إذا وجدنا راوياً كأبي العطوف الجراح بن المنهال، قال فيه ابن معين: (ليس بشيء) وقد اتفق الأئمة على جرحه جرحاً شديداً فذلك قرينة على أن مراد ابن معين موافق لمراد الأئمة"

(ابن معین کی اصطلاحات میں سے۔۔۔ اگر وہ کہیں: لیس بشیء، تو مراد یہ ہوتی ہے کہ اس راوی کی احادیث قلیل ہیں، اور اس سے شدید جرح بھی مراد ہوتی ہے۔ اس بات کا علم صرف اس طرح ممکن ہے کہ امام ابن معین کے دیگر اقوال کا تتبع کیا جائے، اور اس راوی کے بارے میں دیگر ائمہ کے اقوال کو بھی دیکھا جائے، پس اگر وہ راوی جس کے بارے میں ابن معین نے لیس بشیء کہا ہے وہ قلیل الحدیث ہے، اور ابن معین نے اس کی دیگر روایات میں توثیق کر رکھی ہے، یا دیگر ائمہ نے اس کی توثیق کی ہو، تو ابن معین کے قول کو قلتِ حدیث پر محمول کیا جائے گا، جرح پر نہیں۔ اور جب ہم پائیں کہ کسی راوی پر جیسے ابو العطوف الجراح بن المنہال ہے، ابن معین نے یہ کہا کہ لیس بشیء، اور اس کی جرح شدید پر دیگر ائمہ نے بھی اتفاق کیا ہے، تو یہ قرینہ ہے کہ ابن معین کی مراد یہاں دیگر ائمہ کی مراد کے موافق ہے

(ضوابط الجرح والتعدیل: ص 167)

اسی طرح علامہ عبد الرحمن معلمیؒ فرماتے ہیں:

"أما قول ابن معين «ليس بشيء» فلا ريب أنه يقولها في الراوي بمعنى قلة ما رواه جداً، يعني أنه لم يسند من الحديث ما يشتغل به كما مرت الإشارة إليه في ترجمة ثعلبة، فأما أنه كثيراً ما يقول هذا فيمن قل حديثه» فهذه مبالغة الأستاذ! وعلى ذلك فقد مضى تحقيق ذلك في ترجمة ثعلبة من (الطليعة) . وحاصله أن الظاهر المتبادر من هذه الكلمة الجرح فلا يعدل عنه إلا بحجة"

(جہاں تک بات ہے امام ابن معین کے قول لیس بشیء کی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس قول کو راوی کی روایات کی شدید قلت کے معنی میں کہتے تھے، یعنی اس راوی نے اتنی تعداد میں احادیث نقل نہیں کی کہ جن سے اشتغال کیا جا سکے۔۔۔۔ اور جہاں تک بات ہے کہ ابن معین اس قول کو اکثر وبیشتر قلیل الحدیث راویوں پر ہی کہتے تھے تو یہ استاذ کوثری کا مبالغہ ہے، اور اس پر ہماری تحقیق پیچھے ثعلبہ کے ترجمہ کے تحت گزر چکی ہے، اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اس کلمے سے جو ظاہر متبادر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ جرح کا کلمہ ہے اور اس کےجرح ہونے سے اسے نہیں ہٹایا جا سکتا ما سوائے کسی حجت ودلیل کے

(التنکیل للمعلمی: 1/424)

اسی طرح صاحب الشفاء نے امام ابن معین کی اصطلاح لیس بشیء کا تتبع کرتے ہوئے فرمایا کہ ابن معین اس اصطلاح کا استعمال اکثر وبیشتر ضعفاء اور کذابین واہل بدعہ وغیرہ پر کرتے ہیں اور صرف بعض اوقات وہ قلیل الروایہ پر بھی اس کا اطلاق کرتے ہیں، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

"إذا علمت هذا وعلمت أن قول ابن معين علي المقل: (ليس بشيء) قليل بالنسبة لاستعماله هذا اللفظ في غيره علمت خطأ التهانوي وغيره حين أطلقوا أن ابن معين إذا قال ذلك يعني قلة الحديث"

(جب یہ معلوم ہو گیا اور آپ یہ جان چکے کہ ابن معین کا قلیل الروایہ راوی پر لیس بشیء کہنا ان کا اس لفظ کے دیگر استعمالات کی نسبت بہت کم ہے، تو آپ کو تھانوی وغیرہ کی اس غلطی کا علم ہو جائے گا جنہوں نے مطلقا یہ بات کہی ہے کہ ابن معین جب بھی یہ لفظ کہیں تو مراد قلتِ حدیث ہی ہو گی

(شفاء العلیل بالفاظ وقواعد الجرح والتعدیل: ص 299)

پس معلوم ہوا کہ لیس بشیء اپنی اصل کے اعتبار سے جرح کا ہی کلمہ ہے اور اسے کسی اور معنی پر محمول نہیں کیا جا سکتا جب تک اس پر کوئی حجت ودلیل نہ ہو۔ جب کہ اس کے برعکس یہاں اس کے جرح ہونے پر دیگر قرائن بھی موجود ہیں جیسے:

1-   امام ابن معین کے دیگر اقوال میں اس راوی کی واضح جرح کا منقول ہونا۔ چنانچہ امام ابن معین نے عیسی بن جاریہ کے بارے میں فرمایا: "عندہ احادیث مناکیر"، اور دوسری جگہ فرمایا: "لیس بذاک"۔ ان دونوں الفاظ کے خفیف وشدید ہونے یا ان کے معانی پر کوئی جتنا مرضی اختلاف اور بحث کر لے لیکن اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ یہ دونوں کلمات بالاتفاق جرح کے کلمات ہیں اور ان میں قلتِ روایت والا کوئی معنی نہیں پایا جاتا۔

2-   دیگر ائمہ کے اقوال کو دیکھا جائے تو ان میں بھی اس راوی کی واضح جرح پائی جاتی ہے جیسے امام ابو داود، امام نسائی، اور امام ابن عدی وغیرہ، جب کہ اس کے برعکس کسی امام سے اس راوی کی راجح اور صریح توثیق منقول نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا۔

3-   جو لوگ امام ہیثمیؒ کے قول سے امام ابو زرعہ کی توثیق عیسی بن جاریہ کے لیے ثابت کرتے ہیں، حالانکہ ان کے قول کی وضاحت میں نے اوپر کر دی ہے، وہی لوگ یہ بات کیوں چھپا لیتے ہیں کہ انہی امام ہیثمیؒ نے امام یحیی بن معین کی طرف عیسی بن جاریہ کی تضعیف بھی منسوب کی ہے۔ چنانچہ امام ہیثمی فرماتے ہیں: "وفيه عيسى بن جارية ضعفه ابن معين وأبو داود" (اس سند میں عیسی بن جاریہ ہیں، انہیں ابن معین اور ابو داود نے ضعیف قرار دیا ہے) (مجمع الزوائد: 2373)۔ حالانکہ یہاں تو امام ہیثمی کا قول مذکورہ بالا قرائن کی روشنی میں درست بھی ہے۔ اس سب کے باوجود یہ لوگ امام ابن معین کی واضح تضعیف کے ایک سے زائد کلمات کی بھی ایسی بعید تر تاویلات سے رد کر دیتے ہیں جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کی!

اسی طرح تحریر تقریب التہذیب کے مصنفین نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے عیسی بن جاریہ کے ترجمہ میں کہا: "ضعيف، ضعفه ابن معين" (5288)۔

اعتراض نمبر 4 – کیا "لیس بذاک" تضعیف کا صیغہ نہیں ہے؟

"امام ابن معین نے ان کی حدیث کو لیس بذاک بھی کہا ہے اور اس صیغہ سے حدیث کی تضعیف نہیں ہوتی، بلکہ اعلیٰ درجے کی صحت کی نفی ہوتی ہے۔"

(مسنون رکعات تراویح: ص 127)

جواب:

گویا اعلیٰ درجے کی صحت کی نفی سے معترض کی مراد یہ ہے کہ ایسے راوی کی روایت احتجاج کے دائرے میں ہی رہتی ہے الغرض صحیح سے نکل کر حسن ہو جاتی ہے۔ یہ کہنا کہ جرح کے اس صیغے سے عدمِ احتجاج مراد نہیں ہوتا یا یہ کہ ایسے راوی کی منفرد روایت بالاطلاق مقبول یا حسن ہوتی ہے ایک انوکھا اور عجیب قول ہے جسے محدثین میں سے کسی نے نہیں کہا ہے۔

چنانچہ مراتب جرح وتعدیل کو بیان کرنے والوں میں سب سے اولین لوگوں میں جن کا شمار ہوتا ہے وہ امام ابن ابی حاتم ہیں۔ جبکہ ان کے بعد والے اہل علم نے انہی کی اتباع میں ان مراتب کو برقرار رکھا ہے اگرچہ متاخرین نے ان مراتب میں بعض الفاظ اور بعض مراتب کا اضافہ کیا ہے لیکن ان زیادات سے ان مراتب کے مقاصد اور احکام میں کوئی فرق واقع  نہیں ہوتا۔ چنانچہ جرح وتعدیل کے تمام مراتب تین بنیادی مراتب میں محصور ہیں:

1)   ایسے راوی جن کی حدیث سے حجت لی جاتی ہے۔

2)   ایسے راوی جن کی حدیث کو لکھا جاتا ہے۔

3)   اور ایسے راوی جن کی حدیث کو ترک کر دیا جاتا ہے۔

پھر وہ راوی جن کی حدیث کو لکھا جاتا ہے ان کے کئی درجات ہیں، جن میں شروط الاحتجاج کے تحقق سے ذرا نیچے گرنے والوں سے لے کر حدِ ترک سے پہلے تک کے تمام رواۃ شامل ہوتے ہیں، اور ان درجات کی تعداد بھی رواۃ کے تفاوت میں کثرت کی وجہ سے باقی مراتب سے زیادہ ہے۔

چنانچہ امام ابن ابی حاتم نے جرح کے مراتب بیان کرتے ہوئے جب اپنے نزدیک جرح کے ادنیٰ ترین درجے کا ذکر کیا تو فرمایا:

"واذا أجابوا في الرجل بلين الحديث فهو ممن يكتب حديثه وينظر فيه اعتبارا"

(اور جب وہ (محدثین) کسی راوی کے بارے میں کہیں "لین الحدیث" تو اس کی حدیث کو لکھا جائے گا، اور اس کو بطورِ اعتبار زیرِ نظر لایا جائے گا

(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 2/37)

نیز امام ابن ابی حاتم نے جرح کے تمام الفاظ کا احاطہ نہیں کیا بلکہ ہر مرتبے میں ان کے نزدیک جرح کا جو صیغہ اس مرتبے کے لیے معقول تھا انہوں نے صرف اسی کو بطور مثال ذکر کرکے اس کا حکم بیان کیا ہے۔ الغرض مراتبِ جرح میں "لین الحدیث" ان کے نزدیک جرح کا سب سے ہلکا ترین صیغہ ہے اس لیے انہوں نے اسے جرح کے پہلے مرتبہ میں رکھا ہے، اور اس ہلکی ترین جرح کے حکم میں بھی انہوں نے یہ نہیں کہا جو بعض معاصرین کہتے ہیں کہ اس سے تو محض اعلیٰ درجے کی توثیق کی نفی مراد ہے جبکہ راوی سے احتجاج تو باقی رہتا ہے، بلکہ انہوں نے فرمایا کہ ایسے راوی کی روایت کو محض اعتبارا یعنی متابعات وشواہد میں لکھا جائے گا۔

اسی طرح بعد والوں نے جب ان مراتب میں مزید صیغوں کا اضافہ کیا تو انہوں نے اس پہلے درجے میں "لیس بذاک"،  "لیس بذاک القوی"، "لیس بالقوی"، "لیس بالمتین"، "لیس بعمدۃ"، "لیس بالمرضی"، اور "لیس بالحافظ" وغیرہ جیسے الفاظ کا بھی اضافہ کیا، لیکن ان کا حکم وہی برقرار رکھا جو امام ابن ابی حاتم نے بیان کیا ہے۔

چنانچہ جرح کے مرتبہ اول میں ان صیغوں کا ذکر کرنے کے بعد علامہ شمس الدین سخاویؒ فرماتے ہیں:

"يخرج حديثه للاعتبار؛ لإشعار هذه الصيغ بصلاحية المتصف بها لذلك، وعدم منافاتها لها "

(ایسے راوی کی حدیث کو بطورِ اعتبار (یعنی شواہد ومتابعات میں) نقل کیا جاتا ہے، کیونکہ ان صیغوں میں ان سے متصف شخص کا اعتبار کے قابل ہونے کی طرف اشارہ ملتا ہے، اور ان کا اعتبار کی صلاحیت کے منافی ہونے پر اشارہ نہیں ملتا

(فتح المغیث بشرح الفیۃ الحدیث للسخاوی: 2/129، نیز دیکھیں: الفیہ العراقی: ص 124)

پس معلوم ہوا کہ جرح کے ان صیغوں میں راوی کی حجیت کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے کہ جن کے سبب ایسے راوی کی منفرد روایت کو قابلِ احتجاج قرار دیا جائے، بلکہ ان میں زیادہ سے زیادہ راوی کی صلاحیتِ اعتبار کی طرف اشارہ ہے، اور اعتبار سے مراد یہ ہے کہ راوی اتنا کمزور نہیں کہ اس کی روایت کو مطلقا ساقط اور ترک کر دیا جائے، اور نہ ہی وہ اس مرتبہ تک پہنچتا کہ اس کے تفرد سے اطمینان حاصل ہو، پس اس کی روایت کو قبول کرنے کے لیے ہمیں ایسے قرائن اور متابعات کی ضرورت پیش آتی ہے جو اس کی روایت کو تقویت بخشیں۔

چنانچہ بعض معاصرین کا علامہ معلمیؒ کی اقتداء میں یہ کہنا کہ لیس بذاک اور لیس بالقوی جیسے صیغوں میں راوی سے عدمِ احتجاج پر دلالت نہیں ملتی بالکل بے اصل اور محدثین کے اقوال اور تعامل کے خلاف بات ہے۔

امام ابن معین کے نزدیک لیس بذاک کا معنی اور استعمال:

اوپر ہم نے محدثین کا عمومی حکم واضح کر دیا کہ اس صیغے سے ان کی مراد کیا ہے۔ لیکن اگر ہم خاص امام ابن معینؒ کے نزدیک اس اصطلاح کے استعمال کو دیکھیں تو بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ایک معین امام اپنی اصطلاح کو باقیوں کی نسبت سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔ چنانچہ امام ابن معین کے اقوال کا تتبع کرنے کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن معین نے کل 106 رواۃ پر اس طرح کے الفاظ کہے ہیں، جیسے:

"ليس بذاك"، "ليس بذاك القوي"، "ليس بالقوي"، "ليس حديثه بذاك"، اور "لم يكن بذاك"

اور ان میں سے 82 فیصد مثالیں ایسی ہیں جن میں امام ابن معین نے خود اپنے دیگر اقوال میں راوی کی تضعیف واضح الفاظ میں کر دی ہے ، جبکہ 11 فیصد اقوال ایسے ہیں جن میں ابہام پایا جاتا ہے لیکن ان میں بھی مزید تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی ان کی مراد علی الراجح تضعیف ہی ہے، اور باقی 7 فیصد اقوال ایسے ہیں جن میں امام ابن معین سے راوی پر لیس بذاک وغیرہ جیسی کوئی جرح منقول ہے اور اس کے علاوہ ان سے اس پر کچھ منقول نہیں ہے، لیکن ان راویوں پر دیگر ائمہ کے اقوال دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی ضعف ہی راجح ہے۔ امام ابن معین کے ان تمام اقوال کا تتبع وتحقیق ہم نے اپنے الگ ایک رسالے میں کر دیا ہے جس میں ان ساری 106 مثالوں کو ذکر کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اس جرح سے امام ابن معین کی مراد راوی کے تفرد سے عدمِ احتجاج ہی ہے۔

اس پر مزید یہ کہ امام ابن معین نے اپنے کئی اقوال میں اس اصطلاح کی وضاحت اور تفسیر خود بیان کر دی ہے۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

·      ابراہیم بن عیینہ کے متعلق امام ابن معین نے فرمایا: "لم يكن بذاك، كان ضعيفا " (ابن محرز: 1/185)

·      ایوب بن عتبہ الیمامی کے بارے میں فرمایا: "وأيوب ضعيف، ليس بذاك القوي" (ابن الجنید: 443)

·      روح بن اسلم الباہلی کے بارے میں فرمایا: "ليس بذاك، لم يكن من أهل الكذب" (الجرح والتعدیل: 3/499)۔ یہاں انہوں نے لیس بذاک کہہ کر روح سے محض کذب کی نفی فرمائی اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔ الغرض یہ راوی نہ تو ویسا ہے جیسا احتجاج کے لیے چاہیے، اور نہ ہی کذاب متروک ہے کہ جس سے استشہاد نہ کیا جائے، گویا وسط درجے کا راوی ہے جو ثقات سے نیچے اور ترک سے اوپر ہے، لیکن استشہاد کے قابل ہے۔

·      سہیل بن ابی صالح کے بارے میں فرمایا: "سهيل حديثه ليس بحجة... وليس بالقوي في الحديث " (الکامل: 4/523)۔

·      عباد بن منصور البصری کے بارے میں فرمایا: " عباد بن ميسرة المنقري، وعباد بن راشد، وعباد بن كثير، وعباد بن منصور، كلهم ليس حديثهم بالقوي، ولكنه يكتب " (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری: 3369)۔ یہاں امام ابن معین نے واضح کیا ہے کہ لیس بالقوی سے مراد یہ ہے کہ راوی کی حدیث ضعیف ہے لیکن ضعف ایسا جو ترک کا مستحق نہ ہو بلکہ اس کی روایت کو متابعات وشواہد میں لکھا جائے گا۔

·      محمد بن اسحاق بن یسار کے بارے میں فرمایا: "ليس بذاك، ضعيف" اور فرمایا: "حديث ابن إسحاق سقيم، ليس بالقوي " (تاریخ ابن ابی خیثمہ: 3/2/324)، اور ایک دوسری جگہ امام یعقوب بن شیبہ فرماتے ہیں: "سألت يحيى بن معين، قلت: كيف محمد بن إسحاق عندك؟ قال: ليس هو عندي بذاك، ولم يثبته، وضعفه، ولم يضعفه جدا، فقلت له: ففي نفسك من صدقه شيء؟ قال: لا، كان صدوقا " (الکامل: 7/258)۔

·      ابن محرز فرماتے ہیں: "سألت يحيى عن مندل بن علي؟ فقال: ليس بذاك، وضعف في أمره، ثم قال: هو صالح " (1/160)۔

ان تمام مثالوں میں امام ابن معین اور ان کے شاگردوں نے ان کی مراد کو بالکل واضح کر دیا ہے کہ لیس بذاک سے امام ابن معین راوی کی تضعیف ہی مراد لیتے تھے لیکن ایسا ضعف جو قابلِ استشہاد ہو اور راوی کی صداقت کو مانع نہ ہو۔

 

دیگر ائمہ کے نزدیک امام ابن معینؒ کی اس جرح کا معنی:

نیز دیگر ائمہ نے بھی امام ابن معین کی اس اصطلاح سے تضعیف ہی مراد لی ہے، اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

ابن الجنیدؒ:

انہوں نے عثمان بن عمیر پر امام ابن معین کی جرح ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "ليس بذاك كأنه ضعفه" (899)۔

 

امام یعقوب بن شیبہؒ:

انہوں نے امام ابن اسحاق پر امام ابن معین کی جرح نقل کرتے ہوئے فرمایا: "قال: "ليس هو عندي بذاك"، ولم يثبته، وضعفه، ولم يضعفه جدا، فقلت له: ففي نفسك من صدقه شيء؟ قال: لا، كان صدوقا" (الکامل: 7/258)۔

نوٹ: خط کشیدہ الفاظ امام یعقوب بن شیبہ کے اپنے الفاظ اور وضاحت ہیں۔

 

ابن محرزؒ:

ابن محرز فرماتے ہیں: "سألت يحيى عن مندل بن علي؟ فقال: ليس بذاك، وضعف في أمره" (1/160)۔

 

امام ترمذیؒ:

امام ابن معین نے اسماعیل بن ابراہیم ابن علیہ کا ابن جریج سے سماع کے بارے میں فرمایا: "ليس بذاك" اور امام ترمذی نے اس کو تضعیف سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا:

"قال يحيى بن معين وسماع إسماعيل بن إبراهيم عن ابن جريج ليس بذاك إنما صحح كتبه على كتب عبد المجيد بن عبد العزيز بن أبي رواد ما سمع من ابن جريج» وضعف يحيى رواية إسماعيل بن إبراهيم عن ابن جريج " (سنن الترمذی: 3/399 ح 1102)۔

 

امام ابن حبانؒ:

·               امام ابن معین نے ایک ضعیف راوی "اسماعیل بن عبد الملک بن ابی الصفیر" کے بارے میں فرمایا: "ليس هو بالقوي"، نیز اس راوی پر امام ابن معین سے دوسری کوئی جرح منقول نہیں ہے۔ امام ابن حبان نے اس جرح کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"ضعفه يحيى بن معين" (المجروحین: 1/121)۔

 

·               ایک دوسرے راوی "اسماعیل بن محمد بن جحادۃ" کے بارے میں امام ابن معین نے فرمایا: "ليس بذاك، وقد رأيته"، نیز اس راوی پر امام ابن معین سے دوسری کوئی جرح منقول نہیں ہے۔ امام ابن حبان نے اس جرح کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"كان يحيى بن معين سيء الرأي فيه وقد رآه " (یحیی بن معین اس راوی کے بارے میں بُری رائے رکھتے تھے، اور انہوں نے اسے دیکھا تھا) (المجروحین: 1/128)۔

غور فرمائیں کہ امام ابن حبان عین اسی جرح کی بات کر رہے ہیں جس میں لیس بذاک کہا گیا ہے کیونکہ اس میں ساتھ میں ان الفاظ کا بھی اضافہ ہے: "وقد رأيته"، جبکہ امام ابن حبان نے بھی امام ابن معین کی جرح کا مفہوم بیان کرتے ہوئے اس میں "وقد رآه" کا اضافہ کیا ہے۔

 

·      ایک اور راوی "فرقد بن یعقوب السبخی" کے بارے میں امام ابن معین نے فرمایا: "ليس بذاك"، نیز اس راوی پر امام ابن معین سے دوسری کوئی جرح منقول نہیں ہے۔ امام ابن حبان نے اس جرح کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"وكان يحيى بن معين يمرض القول فيه علمًا منه بأنه لم يكن يتعمد ذلك" (المجروحین: 6/605)۔

 

امام دارقطنیؒ:

امام ابن معین نے اسماعیل بن ابراہیم ابن علیہ کا ابن جریج سے سماع کے بارے میں فرمایا: "ليس بذاك" اور امام دارقطنی نےابن معین کی اس جرح سے استدلال کرتے ہوئے ابن علیہ کی ابن جریج سے روایت میں تفرد پر کلام کرتے ہوئے فرمایا:

"ولم يتابع ابن علية على هذا، وقد تكلم يحيى بن معين في سماع ابن علية من ابن جريج، وذكر أنه عرض سماعه منه على عبد المجيد " (علل الدارقطنی: 15/14)۔

 

امام بیہقیؒ اور جعفر الطیالسیؒ:

اسماعیل بن علیہ کے ابن جریج سے سماع پر امام ابن معین نے "ليس بذاك " کہا تو امام بیہقی نے جعفر الطیالسی سے اس کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:

"جَعْفَرًا الطَّيَالِسِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ، يُوهِنُ رِوَايَةَ ابْنِ عُلَيَّةَ، عَنِ ابْنِ جَرِيحٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّهُ أَنْكَرَ مَعْرِفَةَ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، وَقَالَ: لَمْ يَذْكُرْهُ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، غَيْرُ ابْنِ عُلَيَّةَ، وَإِنَّمَا سَمِعَ ابْنُ عُلَيَّةَ، مِنِ ابْنِ جُرَيْجٍ سَمَاعًا لَيْسَ بِذَاكَ، إِنَّمَا صَحَّحَ كُتُبَهُ عَلَى كُتُبِ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَضَعَّفَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ رِوَايَةَ إِسْمَاعِيلَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ جِدًّا" (معرفۃ السنن للبیہقی: 10/29، والسنن الکبری: 7/169)۔

 

امام ابن الجوزیؒ:

ایک راوی "عبد الواحد بن قیس السلمی" کے  بارے مین امام ابن معین نے فرمایا: "لم يكن بذاك، ولا قريب" اور ایک دوسری جگہ اس راوی کے بارے میں کہا: "ثقة"، نیز اس راوی کی جرح  پر امام ابن معین سے دوسرا کوئی قول منقول نہیں ہے۔ تو اس کی تعبیر امام ابن الجوزی نے یوں بیان کی ہے کہ:

" قال ابن معين ضعيف وقال مرة ثقة" (الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی: 2202)۔

 

امام ذہبیؒ:

مذکورہ بالا راوی "اسماعیل بن محمد بن جنادۃ" کے بارے میں امام ابن معین کی لیس بذاک کی جرح کی تعبیر امام ذہبی نے بھی یوں بیان کی ہے:

"رآه ابن معين وذمه" (ابن معین نے اسے دیکھا تھا اور انہوں نے اس کی مذمت کی) (المغنی فی الضعفاء: 703)۔

 

امام ابن الملقنؒ:

ایک راوی "ابراہیم بن المختار" کے بارے میں امام ابن معین نے فرمایا: "ليس بذاك"، اس راوی کی حدیث پر امام ابن معین کی اسی جرح سے استدلال کرتے ہوئے امام ابن الملقن نے اس کی حدیث کے حسن ہونے کی نفی کی ہے، چنانچہ انہوں نے فرمایا:

"قَالَ الدَّارَقُطْنِيّ: إِسْنَاده حسن.قلت: فِيهِ نظر؛ فإنَّ فِيهِ: مُحَمَّد بن حميد الرَّازِيّ، وَإِبْرَاهِيم بن الْمُخْتَار، أما الأول: فَقَالَ الْبَيْهَقِيّ فِي «سنَنه» - فِي بَاب «فرض الْجدّة والجدتين» -: لَيْسَ بِالْقَوِيّ. وَأما الثَّانِي: فَقَالَ أَحْمد بن عَلّي الأبَّار: سَأَلت زنيجًا أَبَا غَسَّان عَنهُ، فَقَالَ: تركته. وَلم يرضه، وَقَالَ ابْن معِين: لَيْسَ بِذَاكَ" (البدر المنیر: 1/374)

 

الغرض امام ابن معین کے اپنے اقوال، ان کے تلامذہ کی تشریحات، اور دیگر ائمہ ومحدثین کی تعبیرات سب اس بات پر متفق ہیں کہ امام ابن معین کی جرح "لیس بذاک" کا معنی کیا ہے۔ نیز امام ابن معین کا عمومی تعامل، یہاں تک کہ دیگر ائمہ ومحدثین کا تعامل بھی سب اس بات پر متفق ہیں کہ اس اصطلاح سے مراد تضعیف اور عدمِ حجیت ہی ہے، لیکن اس سب کے باوجود پتہ نہیں معترض نے کس دلیل کی بنیاد پر یہ کہا کہ اس سے امام ابن معین کی مراد راوی کا کم درجے کا قابلِ حجت یعنی حسن الحدیث ہونا ہوتا ہے۔ اس بات کا بے بنیاد اور بے اصل ہونا بالکل واضح ہے۔

 

اعتراض نمبر 5 – کیا منکر کا لفظ مطلق تفرد کے لیے بولا جاتا ہے؟

امام ابن معین کی عیسی بن جاریہ پر جرح "عنده أحاديث مناكير" کے بارے میں ایک معترض کا کہنا ہے:

"مزید یہ کہ بعض محدثین تفرد کے معنی میں بھی نکارت کی جرح کرتے ہیں۔ یعنی منکر کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں راوی کی احادیث ایسی ہیں جن کی متابعت نہیں ملتی اور محض اس چیز سے راوی پر لازمی جرح ثابت نہیں ہوتی ہے۔ ہم عیسی بن جاریہ ہی سے متعلق امام ابن معینؒ کے دیگر اقوال دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن معینؒ نے تفرد کے معنی میں ہی ان کی احادیث کو منکر کہا ہے، چنانچہ ایک دوسرے موقع پر امام ابن معینؒ نے کہا: "روي عنه يعقوب القمي، لا نعلم أحدا روي عنه غيره، وحديثه ليس بذاك" (ان سے یعقوب القمی نے روایت کیا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ ان کے علاوہ بھی کسی نے ان سے روایت کیا ہے، اور ان کی حدیث اعلیٰ درجے کی حدیث نہیں ہے)۔  امام ابن معین کے  قول سے یہ بات صاف ہو گئی کہ انہوں نے تفرد کے معنی میں ہی ان کی احادیث کو منکر کہا ہے، اور اس معنی میں اگر کسی راوی کی احادیث کو منکر کہا جائے تو اس سے راوی کی تضعیف لازم نہیں آتی۔"

(مسنون رکعات تراویح: ص 126-127)

جواب:

اس پوری عبارت میں معترض نے یہ کہا ہے کہ:

·      امام ابن معین کا عیسی بن جاریہ کے بارے میں "عندہ احادیث مناکیر" کہنے سے مراد یہ ہے کہ اس راوی کے پاس ایسی روایات ہیں جن میں اس نے تفرد کیا ہے اور اس کی متابعت نہیں ملتی۔ الغرض منکر سے مراد تفرد ہے، اور تفرد سے تضعیف لازم نہیں آتی۔

·      یہاں منکر سے مراد تفرد ہے اس کی دلیل کے طور پر معترض نے امام ابن معین کے دوسرے قول سے استدلال کیا ہے جس میں انہوں نے عیسی بن جاریہ سے روایت کرنے والوں میں یعقوب القمی کے علاوہ کسی اور سے لا علمی کا اظہار کیا ہے۔

 

اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے یہاں دو تنبیہات کی نشاندہی لازمی ہے:

اول:

امام ابن معین کے اس قول "روي عنه يعقوب القمي، لا نعلم أحدا روي عنه غيره، وحديثه ليس بذاك " سے استدلال کرنے کی بنیادی وجہ جو معترض نے بیان کی ہے، وہ یہ کہ امام ابن معین کی منکر سے مراد تفرد اور عدمِ متابعت اس لیے ہے کیونکہ انہوں نے اپنے اس قول میں کہا ہے کہ یعقوب القمی کے علاوہ کسی اور کا عیسی بن جاریہ سے روایت کرنا ہمیں  معلوم نہیں ہے۔  عرض ہے کہ یہ استدلال بالکل بے معنی اور باطل ہے۔ اس قول میں تفرد کے مفہوم پر کوئی بات سرے سے موجود ہی نہیں، تو پھر معترض نے یہ مفہوم کہاں سے اور کیسے نکالا یہ بہت عجیب معاملہ ہے۔ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تفرد سے مراد راوی کے تلامذہ میں صرف ایک شخص کا ہونا ہے؟ یا "لیس بذاک" میں ان کے نزدیک تفرد کا معنی پایا جاتا ہے؟ عرض ہے کہ یہ دونوں باتیں باطل اور مردود ہیں۔ تفرد کا تعلق راوی کے تلامذہ سے نہیں بلکہ اس کی روایت کردہ روایت سے ہوتا ہے، اور نہ ہی "لیس بذاک" میں کسی طرح تفرد کا معنی پایا جاتا ہے جیسا کہ ہم نے اوپر لیس بذاک کی تفصیل میں ذکر کیا ہے۔ لہٰذا اس استدلال کا یہاں کیا سروکار ہے یہ شاید معترض ہی بتا سکتے ہیں۔

ثانی:

امام ابن معین کے اس قول سے استدلال کی زد میں انہوں نے لیس بذاک کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ: "ان کی حدیث اعلیٰ درجے کی حدیث نہیں ہے"۔ حالانکہ یہ ترجمہ غیر معقول ہے، اور اس سے اس موقف کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ لیس بذاک سے محض اعلیٰ درجے کی صحت کی نفی ہوتی ہے اور راوی کی حدیث حسن درجے کی رہتی ہے۔ حالانکہ ہم نے اوپر تفصیل سے واضح کر دیا ہے کہ اس صیغہ سے راوی کی تضعیف مراد ہے اور اس صیغہ میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے جس کا ترجمہ "اعلیٰ درجے کی حدیث" کیا جائے۔ اس کے برعکس لیس بذاک میں جس لفظ کو عموما محذوف سمجھا جاتا ہے وہ "القوی" ہے، یعنی اس سے مراد ہے "لیس بذاک القوی" (اس کی حدیث ویسی قوی نہیں – یعنی ویسی قوی نہیں جیسی احتجاج کے درجے کے لیے ہونی چاہیے)۔ الغرض جب اس صیغہ کے اندر ہی ایک لفظ پایا جاتا ہے تو اس کا ترجمہ اس کے علاوہ کسی اور چیز سے کرنا کیوں کر مناسب ہو سکتا ہے؟ چنانچہ "لیس بذاک" میں "اعلیٰ درجے" کی بجائے "قوت" کی نفی کی جاتی ہے۔ اور اس سے مراد وہ قوت ہے  جو کسی راوی کے تفرد کو قابلِ احتجاج بناتی ہے۔ بہرحال۔۔۔۔

 

اب آتے ہیں اصل مدعے پر، وہ یہ کہ کیا منکر سے مراد مطلق تفرد ہے؟ اور کیا اس سے تضعیف لازم نہیں آتی؟

اس بات میں کوئی شک نہیں محدثین کے نزدیک منکر ضعیف ومردود روایت کی ایک قسم ہے، اگرچہ اس کی تعریف اور اطلاق پر کچھ اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن اس بات پر عمومی طور پر کوئی اختلاف نہیں کہ منکر روایت  ضعیف اور مردود ہوتی ہے اور اس سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ جہاں تک بات ہے تفرد کا اطلاق منکر پر ہونا تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے کیونکہ منکر کی بنیاد ہی تفرد پر ہے، اور اس سے مراد ایسا تفرد ہے جو غیر مقبول ہو، چاہے وہ ثقہ سے ہو یا صدوق وضعیف سے۔ چنانچہ محدثین کے نزدیک منکر کا اطلاق غیر مقبول تفرد کی درج ذیل اقسام پر ہوتا ہے:

1-  ایسا تفرد جس میں راوی نے اپنے سے اوثق واحفظ یا متعدد ثقات کی مخالفت کی ہو، جیسا کہ امام ابن الصلاح نے فرمایا: "هو المنفرد المخالف لما رواه الثقات " (یہ ایسا تفرد ہے جو ثقات کی روایت کے مخالف ہو) (مقدمہ ابن الصلاح: ص 82)۔

2-   ایسا تفرد جس کا راوی ثقاہت واتقان کے اعلیٰ مرتبے پر نہ ہو اور وہ ایسی چیز روایت کرے کہ اس قسم کی روایت میں اس قسم کے راوی کا تفرد قبول نہ کیا جا سکے، جیسے مشہور ثقہ راویوں سے صدوق راوی کا ایسی چیز پر تفرد کرنا جو اس ثقہ راوی کے معروف اصحاب نہ روایت کرتے ہوں اور ان کے نزدیک وہ غیر معروف ہو، یا متن کے اعتبار سے ایسا مطلق تفرد جس کی کوئی اصل سنتِ معروفہ میں نہ پائی جاتی ہو یا اس کے مفہوم میں کوئی بعید ومنکر بات موجود ہو۔ چنانچہ امام ابن الصلاحؒ نے منکر کی دوسری قسم بیان کرتے ہوئے فرمایا: "هو الفرد الذي ليس في راويه من الثقة والإتقان ما يحتمل معه تفرده" (ایسا تفرد جس کے راوی میں ثقاہت واتقان کا وہ درجہ نہ ہو کہ جس سے اس کے تفرد کو قبول کیا جائے) (مقدمہ ابن الصلاح: ص 82)۔ نیز امام ذہبیؒ نے فرمایا: " المنكر ما تفرد الراوي الضعيف به، وقد يعد مفرد  الصدوق منكرا" (ضعیف راوی کے تفرد کو منکر کہتے ہیں، اور کبھی صدوق راوی کے تفرد کو بھی منکر شمار کیا جاتا ہے) (الموقظہ: ص 42)۔

3-   اور بعض اوقات متقدمین ائمہ ثقہ حافظ راوی کے تفرد پر بھی منکر کا اطلاق کرتے تھے اور یہی وہ قسم ہے جس پر متاخرین میں سے بعض نے اختلاف کیا ہے اور سے ثقہ راوی کا مطلق تفرد سمجھا ہے۔ لیکن راجح قول کے مطابق یہ مطلق تفرد نہیں، بلکہ ایسا تفرد ہے جس کے خلاف قرائن موجود ہوں۔ جو لوگ اسے مطلق تفرد کہتے ہیں ان کی بات درست نہیں ہے۔ اور نہ ہی ائمہ متقدمین میں سے کسی نے کبھی اس تفرد کو محض تفرد سمجھ کر قبول کیا ہے۔ آپ نہیں دیکھیں گے کہ کسی محدث نے کہا ہو کہ فلاں حدیث "منکر صحیح" ہے یا کسی حدیث کو منکر کہہ کر کسی دوسری جگہ اس کی تصحیح کی ہو یا اس سے حجت پکڑی ہو۔ چنانچہ اگر ان کے نزدیک یہ محض تفرد ہوتا اور مقبول ہوتا تو کبھی وہ اسے بطورِ جرح اور مذموم چیز کے بیان نہیں کرتے۔ بہرحال یہ اس کی تفصیل کا موقع نہیں۔ اس پر مزید تفصیل کے لیے دیکھیں کتاب: "أفراد الثقات بين القبول والرد، دراسة نقدية وتطبيقية" اور کتاب "الشاذ والمنكر وزيادة الثقة - موازنة بين المتقدمين والمتأخرين"، نیز دیکھیں: "القول المسدد في بيان المنكر عند الإمام أحمد" اور "مفهوم الحديث المنكر عند أبي داود دراسة نقدية تطبيقية في كتاب السنن"، اور "الحديث المنكر ودلالته عند الامام النسائي في السنن الكبري

الغرض ان تینوں قسموں کا خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ متقدمین ایسے تفرد پر منکر کا اطلاق کرتے تھے جس کا خطاء وغلطی ہونا ثابت ہو جائے یا اس کا غلطی ہونا راجح قرار پائے، چاہے وہ تفرد ثقہ سے ہو یا غیر ثقہ سے۔ نیز یہ کوئی ایسا تفرد نہیں ہے جسے قبول کیا جاتا ہو۔ اور جس راوی کی روایات میں بکثرت مناکیر پائی جائیں وہ ضعیف ہوتا ہے اور اس پر اصلا ہی ثقہ کا اطلاق نہیں ہوتا۔

 

بہرحال، قطع نظر اس سے کہ منکر کا اطلاق ثقہ کے تفرد پر ہوتا ہے یا نہیں، اس بات کا عیسی بن جاریہ کی مناکیر سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ جس شخص کی ثقاہت ہی ابھی ثابت نہیں ہوئی تو اس کے بارے میں یہ کہنا ممکن ہی نہیں کہ اس کا تفرد ثقہ کا تفرد ہے، یا اس کا تفرد مقبول ہے! الغرض ثقہ ہونے کی شرط میں شامل ہے کہ راوی کی اغلب روایات میں ثقات سے موافقت ثابت ہو، یہ ثابت ہونے کے بعد اگر وہ کسی روایت میں ایسا تفرد کرے جو منکر ومعلول نہ ہو تو وہ مقبول ہو گا۔

چنانچہ امام مسلمؒ اپنی صحیح کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:

"حكم اهل العلم والذي نعرف من مذهبهم في قبول ما يتفرد به المحدث من الحديث ان يكون قد شارك الثقات من اهل العلم والحفظ في بعض ما رووا وامعن في ذلك على الموافقة لهم فإذا وجد كذلك ثم زاد بعد ذلك شيئا ليس عند اصحابه قبلت زيادته "

(حدیث میں متفرد راوی کی روایت قبول کرنے کے متعلق اہل علم کا معروف مذہب اور ان کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر وہ (راوی) عام طور پر اہل علم وحفظ ثقات کی موافقت کرتا ہے اور اس نے گہرائی میں جا کر ان کی موافقت کی ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ (متفرد) کوئی ایسی اضافی (روایت) بیان کرتا ہے جو اس کے دوسرے ہم مکتبوں کے ہاں نہیں ہے تو اس کا یہ اضافہ (محدثین کے ہاں) قبول کیا جائے گا)

(مقدمہ صحیح مسلم: ص 7)

الغرض کسی راوی کو ثقہ کہنے اور اس کے تفرد کو قبول کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ عام طور پر اپنی روایات میں اہل علم اور اہل حفظ ثقات کی موافقت کرتا ہو، پس جب اس کی یہ عمومی موافقت ثابت ہو جائے تو اسے ثقہ کہا جائے گا اور پھر اس کے تفرد کو بھی قبول کیا جائے گا۔

لیکن عیسیٰ بن جاریہ کے بارے میں سرے سے ایسی کوئی بات ثابت ہی نہیں بلکہ اس پر جرح ہی اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ اس کی عام روایات میں مناکیر یا تفردات ہیں اور ان میں ثقات کی موافقت نہیں پائی جاتی۔ تو ایسا راوی ثقہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس پر مزید یہ کہ امام ابن معین کے عیسیٰ بن جاریہ پر دیگر اقوالِ جرح بھی ایک دوسرے کے مفہوم کو تقویت دینے کے لیے کافی ہیں۔

 

مزید تفصیل کے لیے نیچے امام نسائی کے قول کے تحت دیکھیں: اعتراض نمبر2: کیا امام نسائی تفرد کے معنی میں "منکر" بولتے تھے؟

 

2-        امام ابو داؤد صاحب السنن (م 275 ھ) کی جرح:

ابو عبید الآجری روایت کرتے ہیں کہ امام ابو داؤدؒ نے عیسی بن جاریہ کے بارے میں فرمایا:

"منكر الحديث"

(تہذیب الکمال: 22/589)

اور ایک دوسری جگہ پر انہوں نے فرمایا:

"ما أعرفه روي مناكير"

(میں اسے نہیں جانتا، اس نے منکر روایتیں بیان کی ہیں)

(تہذیب الکمال: 22/590)

امام ابو داود کی اس جرح پر بعض لوگوں نے جو اعتراضات کیے ہیں ان کے جوابات درج ذیل ہیں:

اعتراض نمبر 1 – آجری تک سند کا مطالبہ

ایک معترض شیخ زبیر علی زئی کا قول پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"حافظ زبیر علی زئیؒ (م 2013 ٫) لکھتے ہیں: "یہ جرح دو وجہ سے ثابت نہیں ہے (1) آجری تک صحیح سند نا معلوم ہے۔۔۔۔۔" (مقالات: 1/526) "

(دیکھیں ماہنامہ نور الحدیث: 36/72)

جواب:

یہ اعتراض کہ آجری تک سند نا معلوم ہے مردود ہے کیونکہ:

آجری صاحبِ کتاب ہیں:

آجری صاحبِ کتاب ہیں، نیز ان کی کتاب "سؤالات أبي عبيد الآجري عن أبي داود" مشہور ومعروف ہے۔ یہ کتاب امام ابو داود کے اقوالِ جرح وتعدیل کے لیے خاص مختص کی گئی ہے۔ یہ کتاب پانچ ضخیم اجزاء پر مشتمل ہے لیکن اس کا پہلا جزء مکمل اور دوسرے اور پانچویں جزء کا کچھ حصہ مفقود ہے۔ لیکن یہ کتاب صدیوں سے محدثین کے ہاں متداول رہی ہے اور وہ اسی سے اقوال کو نقل کرتے آئے ہیں۔

 نیز محدثین جب بھی مطلق آجری کا نام لے کر امام ابو داود سے کچھ نقل کرتے ہیں تو یہ بات معلوم شدہ ہوتی ہے کہ وہ آجری کی کتاب سے منقول ہے۔ اس کے علاوہ آجری کی کوئی کتاب محدثین کے ہاں معروف نہیں ہے جس میں باقاعدہ اقوالِ جرح وتعدیل کا اہتمام کیا گیا ہو۔ اس لیے جب کوئی محدث آجری کا حوالہ دیتا ہے تو یہ احتمال بھی ممکن نہیں کہ اس کا مصدر اس کتاب کے علاوہ کوئی اور ہے۔ بلکہ کتب رجال میں جن لوگوں نے اسانید کا اہتمام کیا ہے جیسے: امام خطیب بغدادی، اور امام ابن عساکر وغیرہ ان کی کتب میں بھی امام ابو داود کے حوالے سے جتنے اقوال آجری کے ذریعے سے مروی ہیں وہ سب بھی آجری کی کتاب سے منقول ہیں۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ ان کی اسانید میں آجری سے مروی تمام اقوال ایک ہی مرکزی سند سے مروی ہیں جو کہ ان کی کتاب کی سند ہے۔

لہٰذا کتاب کی موجودگی میں سند کا مطالبہ باطل ومردود ہے، نیز ائمہ محدثین کے صدیوں کے تعامل اور منہج سے لا علمی کا بھی مظاہرہ ہے۔

سؤالات الآجری کی سند:

جب یہ معلوم ہو گیا کہ آجری کی صرف ایک ہی کتاب متداول ہے، اور مسند کتب رجال میں بھی اس کی ایک ہی سند مروی ہے۔ الغرض تمام محدثین نے اس ایک کتاب سے ہی اقوال نقل کیے ہیں تو کتاب کی سند کا مطالبہ کرنے والوں کی یہ مانگ بھی پوری کی جا سکتی ہے۔ اس کتاب کا مطبوعہ ناقص نسخہ جس سند سے مروی ہے وہ یہ ہے:

"أَخْبَرَنَا الشَّيْخُ الأَوْحَدُ الإِمَامُ الْحَافِظُ أبو طاهر أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بن محمد بن إبراهيم السِّلفي الأَصْبَهَانِيُّ. أَنَا الشَّيْخُ أَبُو الْحُسَيْنِ المبارك بن عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ القاسم الصيرفي، من أصل سماعه قال: قرئ على أبي الْحَسَنِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أحمد بن منصور العتيقي عن كتاب محمد بن عدي بن زحر المنقري عليه وأنا أسمع ثنا أبو عبيد محمد ابن عَلِيِّ بْنِ عُثْمَانَ الآجُرِّيُّ"

اور اس نسخے پر بہت سے مشہور ثقہ ائمہ کے سماعات بھی درج ہیں۔ نیز اس سند کے تمام رجال ثقہ ائمہ حفاظ ہیں سوائے راویِ کتاب محمد بن عدی بن زحر کے لیکن ان کی عدالت بھی ثابت ہے۔ اور کتاب کی روایت کے لیے راوی کا عادل وصدوق ہونا کافی ہوتا ہے کیونکہ اس میں حفظ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ نیز العتیقی مذکور نے خود صراحت کردی ہے کہ انہوں نے یہ نسخہ محمد بن عدی کی کتاب سے نقل کیا ہے۔ امام خطیب بغدادیؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

"مُحَمّد بن عدي بن عَليّ بن زحر، أَبُو بكر الْبَصْرِيّ. حدث عَن: عبد الْكَرِيم بن أَحْمد التمار، وَمُحَمّد بن إِبْرَاهِيم بن مزِيد، وَأبي عبيد مُحَمَّد بن عَليّ الْآجُرِيّ، وَغَيرهم. حَدثنَا عَنهُ: الْحُسَيْن بن مُحَمَّد بن يَعْقُوب القساملي، وَعلي بن مُحَمَّد بن حبيب الْفَقِيه، الْمَعْرُوف بالماوردي"

(غنیۃ الملتمس ایضاح  الملتبس: ص 358)

نیز امام ذہبیؒ نے بھی انہیں آجری کی کتاب کے راوی کے طور پر ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں:

"مُحَمَّد بْن عدِيّ بْن عَلِيّ بْن عدِيّ بْن زَحْر، أَبُو بَكْر المنقري البصْري [المتوفى: 383 هـ]

الَّذِي روى سؤالات أبي عُبَيْد الْأجُرّي أَبَا دَاوُد السَجَسْتاني عَنْ أَبِي عُبَيْد الْأجُرّي.

روى عَنْهُ هذا الكتاب بالإجازة أَبُو الْحَسَن أحْمَد بْن مُحَمَّد العتيقي"

(تاریخ الاسلام: 8/550 بشار)

نیز ان سے درج ذیل لوگوں نے روایت کی ہے:

1-  الإمام المحدث الثقة أبو الحسن أحمد بن محمد بن أحمد بن منصور العتيقي البغدادي (م ٤٤١ هـ)

2-  القاضي العلامة الفقيه، أبو عبد الله، الحسين بن علي بن محمد ، الصيمري الحنفي (م ٤٣٦ هـ) (بغية الطلب: ٦/٢٤٢)

3-  الإمام الحافظ المتقن الأديب، أبو الحسن علي بن أحمد بن الحسن بن محمد بن نعيم التميمي البصري الشافعي (م ٤٢٣ هـ) (سير أعلام النبلاء: ١٧/٤٤٥)

4-  الإمام العلامة ، أقضى القضاة أبو الحسن علي بن محمد بن حبيب البصري ، الماوردي ، الشافعي ، صاحب التصانيف (م ٤٥٠ هـ)

5-  منصور بن خلف بن حمود أبو القاسم الصوفي المغربي المالكي (شيخ كبير من شيوخ الصوفية وأهل المعرفة) (م ٤١٥ هـ) (المنتخب من كتاب السياق لتاريخ نيسابور: ١٤٨٦)

6-  محمد بن علي بن إبراهيم بن يوسف أبو الحسن الشقيقي البصري الواعظ (تاريخ دمشق: ٥٤/٢٤٣)

7-  عبد الله بن الحسن بن أحمد بن الحسن بن المثنى بن معاذ بن معاذ أبو طالب العنبري البصري (تاريخ دمشق: ٢٧/٣٦١)

8-  ‌محمد بن أحمد بن القاسم أبو منصور الأصبهاني المقرئ (تاريخ دمشق: ٥١/١٠١)

الغرض آٹھ لوگوں نے ان سے روایت کی ہے جن میں سے چار مشہور ائمہ ومحدثین ہیں، جس سے ان کی عدالت کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کے علاوہ بے شمارمحدثین نے اس اسناد پر اعتماد کیا ہے جیسا کہ ہم ابو عبید الآجری کی بحث میں دیکھیں گے۔ نیزکتاب کی روایت کے اعتبار سے یہ ثقاہت ہی شمار ہوتی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ اس کتاب کو ابو عبید الآجری سے دو اور لوگوں نے بھی روایت کیا ہے۔ ایک "تصحیفات المحدثین" کے مصنف امام ابو احمد الحسن بن عبد اللہ العسکری، اور دوسرے ابو علی الحسین بن محمد الشافعی جن کی روایات کو امام خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں روایت کیا ہے۔ اور ان دونوں راویوں نے جتنی نصوص بھی آجری کی کتاب سے نقل کی ہیں وہ سب بعینہ محمد بن عدی بن زحر المنقری کے نسخے میں بھی پائی جاتی ہیں جس سے محمد بن عدی المنقری کے ضبطِ کتاب اور ثقاہت کی زبردست دلیل ملتی ہے۔ چنانچہ یہ سند بالکل صحیح ہے۔

 

دیگر تمام محدثین نے بھی صدیوں سے اس کتاب کی روایت اسی اسناد سے کی ہے، جیسا کہ ہم نیچے دیکھیں گے۔

آجری کی کتاب تک ائمہ کی اسانید:
امام خطیب بغدادیؒ (م 463 ھ) کی اسناد:

امام خطیب بغدادیؒ نے آجری کی کتاب کو دو اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے اور دونوں ایک دوسرے کی متابع ہیں، الغرض جو کچھ بھی انہوں نے ایک سند سے روایت کیا ہے وہی سب کچھ دوسری سند سے بھی کتاب کے مطبوعہ نسخے میں بعینہ مروی ہے۔

پہلی سند:

أَخْبَرَنِي مُحَمَّد بْن أَبِي علي الأَصْبَهَانِيّ قَالَ: أخبرنا أبو على الحسين بن محمد الشافعي بالأهواز قَالَ أنبأنا أبو عبيد محمد بن علي الآجري

دوسری سند:

أَخْبَرَنَا أَحْمَد بن مُحَمَّد العتيقي أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن عدي بن زحر الْبَصْرِيّ فِي كِتَابه حَدَّثَنَا أَبُو عبيد مُحَمَّد بن عَليّ الْآجُرِيّ

یہ دوسری سند وہی ہے جس سے ابو طاہر السلفی نے روایت کیا ہے اور مطبوعہ نسخے میں مذکور ہے۔ نیز اس کتاب کی یہی سند زیادہ مشہور ہے اور دیگر محدثین کے نسخے بھی اسی سند سے مروی ہیں۔ بلکہ سؤالات الآجری کے موجودہ نسخے پر امام خطیب بغدادی کا سماع بھی ثبت کیا گیا ہے۔ (دیکھیں: سؤالات الآجری: 2/96)

امام ذہبیؒ (م 748 ھ) کی اسناد:

آجری کی یہ کتاب امام ذہبی کے موارد میں شامل ہے، نیز امام ذہبی نے اصل کتاب سے براہِ راست استفادہ کیا ہے اور اس سے بے شمار اقوال نقل کیے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ وہ بالصراحت فرماتے ہیں:

" وجدت في سؤالات أبي عبيد الآجرى لأبي داود: عبد العزيز الاويسى ضعيف. "

(میں نے سؤالات ابی عبید الآجری میں ابو داود کا یہ قول پایا کہ: عبد العزیز الاویسی ضعیف ہے)

(میزان: 2/630)

نیز ان کے زمانے میں یہ کتاب مشہور ومعروف اور متداول تھی، چنانچہ کسی مشہور اور متداول کتاب سے نقل کرنے کے لیے اسناد کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن اس کے باوجود امام ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں ایک جگہ اس کتاب تک اپنی سند بھی ذکر کردی ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

"أخبرناه سليمان الحاكم، أخبرنا جعفر، أخبرنا السلفي، أخبرنا المبارك بن الطيورى، أخبرنا العتيقي، أخبرنا محمد بن عدي كتابة، حدثنا أبو عبيد الآجرى، حدثنا أبو داود السجستاني

(المیزان: 2/47)

جیسا کہ اس اسناد سے ظاہر ہے امام ابو طاہر السلفی سے آگے یہ اسناد بالکل وہی ہے جو مطبوعہ نسخے کی ہے۔ نیز اس سند کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:

"والسند الذي ساقه الذهبي من أسئلة أبي عُبَيد الآجري لأبي داود"

(ذہبی نے جو سند بیان کی ہے وہ سؤالات ابی عبید الآجری لابی داود سے ہے)

(لسان المیزان: 3/467)

حافظ ابن حجرؒ (م 852 ھ) کی اسناد:

حافظ ابن حجرؒ نے بھی آجری کی کتاب سے براہِ راست استفادہ کیا ہے اور اس کتاب سے انہوں نے بے شمار اقوال اپنی کتب میں نقل کیے ہیں۔ حافظ ابن حجرؒ آجری تک ان کی اس کتاب کی سند بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

" أخبرنا أبو العباس أحمد بن أبي بكر في كتابه وأبو هريرة ابن الذهبي إجازة قالا أنبانا يحيى بن محمد ابن سعد إجازة إن لم يكن سماعا زاد الأول أنبانا سليمان ابن حمزة المقدسي إجازة إن لم يكن سماعا قالا أنبانا أبو الفضل جعفر ابن علي الهمداني قال سليمان سماعا سوى الجزء الأول منها فإجازة منه إن لم يكن سماعا وقال يحيى إجازة منه أنبأنا السلفي أنبأنا أبو الحسين ابن الطيوري أنبأنا أبو الحسن أحمد بن محمد العتيقي أنبأنا أبو بكر محمد بن علي ابن عدي بن زحر المقرئ في كتابه أنبأنا أبو عبيد محمد بن علي ابن عثمان البصري الآجري قال سألت أبا داود فذكره"

(المعجم المفهرس: ص 173-174)

الغرض یہ اسناد بھی سلیمان بن حمزہ الحاکم سے آگے وہی ہے جو امام ذہبی کی اسناد ہے اور جو مطبوعہ نسخے میں درج ہے۔

علامہ مغلطائیؒ  (م 762 ھ) کی اسناد:

علامہ مغلطائی نے بھی آجری کی کتاب سے براہِ راست استفادہ کیا ہے، نیز اپنی کتاب اکمال تہذیب الکمال میں بے شمار جگہوں پر انہوں نے آجری کی کتاب کی صراحت کے ساتھ اقوال نقل کیے ہیں۔ البتہ اپنی سند اس میں ذکر نہیں کی کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ کتاب سے روایت کے لیے سند کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ علامہ مغلطائی کی نظر میں آجری کی کتاب کے ایک سے زائد نسخے تھے جن سے وہ نقل کرتے تھے۔ چنانچہ ایک جگہ وہ ایک راوی کے نام کی تصحیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"رأيته في نُسختين صحيحتين في الظاهر من "كتاب الآجري""

(میں نے اسے ظاہر (کے مکتبہ) میں آجری کی کتاب کے دو صحیح نسخوں میں ایسے ہی پایا ہے

(اکمال تہذیب الکمال: 2/328)

چنانچہ جب کتاب کے نسخے اس زمانے میں عام موجود تھے تو اس سے نقل کرنے کے لیے سند کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن اس کے باوجود علامہ مغلطائیؒ نے ایک جگہ آجری تک اپنی سند بھی ذکر کی ہے، اگرچہ یہ سند کتاب الاخوہ سے نقل کی گئی ہے لیکن سؤالات کی سند بھی ایک ہی ہے، وہ فرماتے ہیں:

" قرأت على المسند المعمر شرف الدين أبي زكريا المقدسي رحمه الله عن العلامة بهاء الدين المقرئ، عن الحافظ أبي طاهر البغوي قال: أنبأنا أبو الحسين المبارك بن عبد الجبار في صفر سنة ست وثمانين وأربعمائة، أنبأنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن أحمد العتيقي قراءة عليه، أنبأنا أبو بكر محمد بن عدي بن علي بن عدي بن زحر، حدثنا أبو عبيد الآجري في شهر جمادى الأول به خمس وعشرين، حدثنا أبو داود"

(شرح سنن ابن ماجہ: 4/72)

امام مزیؒ (م 742 ھ) کی اسناد:

امام مزیؒ نے سب سے زیادہ آجری کی کتاب پر اعتماد کیا ہے، اور اس سے براہِ راست استفادہ کیا ہے، اور اس پر چند دلائل درج ذیل ہیں:

اول:

کتاب کے محقق شیخ محمد العمری فرماتے ہیں:

"وهذا الكتاب من أكثر الكتب التي اعتمدت على سؤالات الآجري، ويمكن الجزم بأن ما نقله عن الآجري يزيد على سبعمائة نص. حيث كان يقول فيها: قال الآجري عن أبي داود، وربما اختصر أقوال أبي داود واكتفى بذكر موضع الشاهد كأن يقول: وثقه أو ضعفه أبو داود، أو قال أبو داود كذا. وبعد المقارنة فيما لم يسنده للآجري ثبت لي أن المرجع في ذلك هو كتاب السؤالات بعينه."

(تہذیب الکمال وہ کتاب ہے جس میں سؤالات الآجری پر تمام کتب میں سب سے زیادہ اعتماد کیا گیا ہے، اور اس بات کو وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ امام مزی نے اس کتاب میں آجری سے جو اقوال نقل کیے ہیں ان کی تعداد سات سو (700) سے زیادہ ہے، جن میں انہوں نے کہا ہے کہ: "آجری نے ابو داود سے روایت کیا" اور بعض اوقات انہوں نے ابو داود کے اقوال کو اختصار سے ذکر کرتے ہوئے  اس پر اکتفاء کیا جیسے: وثقہ ابو داود، یا ضعفہ ابو داود، یا قال ابو داود وغیرہ۔ نیز جن اقوال میں انہوں نے آجری تک سند بیان نہیں کی ہے ان کے مقارنہ اور موازنہ کے بعد یہ بات میرے نزدیک ثابت ہوئی ہے کہ ان اقوال میں ان کا مرجع یہی کتاب السؤالات ہے

(مقدمہ السؤالات: ص 71)

ثانی:

امام مزیؒ نے جتنے اقوال بھی آجری کے حوالے سے نقل کیے ہیں ان میں سے اکثر اقوال بعینہ سؤالات ابی عبید کے مطبوعہ نسخے میں مل جاتے ہیں۔ اور جو اقوال نہیں ملتے ان کا تعلق عموما سؤالات الآجری کے اسی حصے سے ہوتا ہے جو آج ہمارے لیے مفقود ہے جیسے مکہ، مدینہ، طائف، اور یمن وغیرہ کے رواۃ۔ کیونکہ مطبوعہ کتاب اہل کوفہ کے رواۃ سے شروع ہوتی ہے تو ظاہر ہے پہلا جزء جو مفقود ہے اس میں مکہ اور مدینہ کے رواۃ ہی ہوں گے، کیونکہ ان کو عموما پہلے ہی ذکر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ بات سمجھنا عقل مندوں کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ اگر اکثر نقول کا حوالہ اس کتاب میں مل جاتا ہے تو باقی نقول بھی اسی کتاب سے ہوں گی جن تک ہماری رسائی نہیں۔

ثالث:

امام مزی کے زمانے کےدیگر علماء کے لیے بھی یہ بات ظاہر تھی کہ امام مزی نے جو اقوال آجری سے نقل کیے ہیں وہ ان کی کتاب سے نقل کیے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ الحسن بن مدرک نامی راوی پر امام مزی نے آجری کا حوالہ نقل کیا تو ان پر تعاقب کرتے ہوئے علامہ مغلطائیؒ نے فرمایا:

"وفي قول الْمِزِّي: قال أبو داود: الحسن بن مدرك كَذَّاب. نظر؛ لأني رأيته في نُسختين صحيحتين في الظاهر من "كتاب الآجري": الحسين -بحاء مضمومة، وياء مثناة بعد السين- فينظر، واللَّه تعالى أعلم"

(مزی کے اس قول کہ: ابو داود نے کہا الحسن بن مدرک کذاب ہے – میں نظر ہے کیونکہ میں نے مکتبہ ظاہریہ میں آجری کی کتاب کے دو صحیح نسخوں میں یوں پایا ہے: "الحسین"، پس غور کریں، واللہ اعلم)

(اکمال: 2/328)

علامہ مغلطائی کے قول پر غور کریں کہ انہوں نے امام مزی کی نقل پر یہ نہیں کہا کہ اس کی سند نہیں ہے بلکہ انہوں نے اس بات کو پہلے سے مقدر سمجھا ہے کہ یہ نقل ان کی کتاب سے ہی ہے اور اسی لیے انہوں نے اس کی تصحیح بھی کتاب کے نسخوں سے ہی کی ہے۔

رابع:

اگرچہ امام مزی نے آجری کی کتاب تک اپنی سند ذکر نہیں کی ہے لیکن جیسا کہ ہم نے واضح کیا کہ کتاب کے مشہور اورمتداول ہونے کے بعد اس کی سند سے روایت کی ضرورت نہیں رہتی، نیز امام مزی کی نقولات بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ انہوں نے یہ اقوال آجری کی کتاب سے نقل کیے ہیں۔ اس پر بطورِ شاہد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کتاب کو نقل کرنے والوں میں سے ایک سے زائد لوگ امام مزی کے شیخ الشیوخ میں سے ہیں اور انہوں نے ان سے کئی نقولات بیان کی ہیں لہٰذا یہ بعید نہیں کہ انہوں نے اس کتاب کو بھی انہی سے روایت کیا ہو۔ بہرحال اس دور میں اسناد کا ہونا ویسے بھی ضروری نہیں کیونکہ ساری کتب مطبوع اور متداول ہو چکی تھیں۔ لہٰذا اس زمانے میں اسناد سے روایت محض بطورِ شرف کی جاتی تھی، لیکن ان کا اصل مرجع کتب اور نسخ ہی ہوا کرتے تھے۔

 

آجری کی کتاب تک ائمہ کے سلسلہ سند کا خاکہ:

مذکورہ بالا بحث اور نسخوں میں درج سماعات کی روشنی میں نیچے ایک خاکہ پیش کیا جاتا ہے جس میں متاخرین میں سے مشہور ترین ائمہ جنہوں نے تہذیب الکمال پر کام کیا ہے یا ویسے ہی آجری کی کتاب کی روایت کی ہے ان کا سلسلہ سند پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ سند سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے کہ:

1-   آجری کی کتاب کا مطبوعہ نسخہ جس بنیادی سند سے مروی ہے اسی سند سے یہ کتاب دیگر ائمہ تک بھی پہنچی ہے۔

2-   آجری کی کتاب متاخرین محدثین میں مشہور اور متداول تھی۔

3-   تہذیب الکمال پر کام کرنے والے تمام مشہور ائمہ نے اس کتاب سے براہِ راست استفادہ کیا ہے۔ لہٰذا ان سب کا امام مزی کی نقل پر اعتماد کرنا بلکہ اسے خود اپنی کتب میں بھی نقل کرنا بہت قوی دلیل ہے کہ وہ سب ائمہ کتاب میں اس قول کے وجود سے واقف تھے۔

 

دیکھیں  نیچے دی گئی تصویر:



اس جرح کی نقل میں امام مزی کی موافقت کرنے والے ائمہ:

امام مزی کے علاوہ اس قول کو امام ابو داود سے دیگر ائمہ نے بھی نقل کیا ہے۔ نیز کسی محدث نے آج تک اس پر یہ اعتراض نہیں کیا کہ مزی کی سند نہیں ہے، بلکہ سبھی نے اسے امام ابو داود کی طرف بالجزم منسوب کیا ہے جبکہ اس زمانے میں آجری کی کتاب مشہور اور متداول تھی اور ان میں سے ایک سے زائد کے پاس اس کتاب کا ہونا بھی ثابت ہے۔ چنانچہ امام ابو داود کی اس جرح کو ان سے بالجزم نقل کرنے والوں میں درج ذیل ائمہ شامل ہیں:

·      امام ذہبیؒ (تذہیب تہذیب الکمال: 7/283، وتاریخ الاسلام: 7/258)

·      حافظ ہیثمی (مجمع الزوائد: 2/72)

·      حافظ ابن حجر (تہذیب التہذیب: 6232، المعرفہ)

·      حافظ السخاوی (التحفہ اللطیفہ: 2/365)

·      علامہ الخزرجی (خلاصہ تذہیب تہذیب الکمال: ص 301)

علامہ مغلطائی کا امام مزی کی نقل پر عدمِ تعاقب:

علامہ مغلطائی امام مزی کی تہذیب الکمال کے سب سے بڑے ناقد ہیں، نیز انہوں نے تہذیب الکمال کے تمام حوالوں کا جائزہ قائلین کی اصل کتب سے لیا ہے، اور جگہ جگہ امام مزی پر یہ کہہ کر تنقید بھی کی ہے کہ یہ حوالہ اصل کتاب میں موجود نہیں ہے یا اصل کتاب میں یہ حوالہ اس طرح نہیں ہے۔ چنانچہ اگر امام ابو داود کا یہ قول انہیں اصل کتاب میں نہ ملا ہوتا تو اس پر خاموش نہ رہتے۔ علامہ مغلطائی سے اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

·      ایک راوی کی تاریخ وفات کی اصل کتاب سے تصحیح کرتے ہوئے علامہ مغلطائی فرماتے ہیں: " توفي سنة تسع وعشرين ومائتين، كذا هو في "تاريخه". والذي نقله المزي سنة عشرين، لم أَرَهُ " (وہ 229ھ میں فوت ہوئے اور اسی طرح یہ قول ان کی تاریخ میں موجود ہے، جبکہ جو قول مزی نے نقل کیا ہے، وہ میں نے نہیں دیکھا) (اکمال تہذیب الکمال: 1/118)۔

·      ایک جگہ فرماتے ہیں: " وفي قول المزي: قال البخاري: مات سنة إحدى وستين، نظر؛ لأني لم أَرَ لوفاته ذكرًا في تواريخ البخاري الثلاثة، ولا أعلم له شيئًا يذكره فيه وفاة ومولد إلا فيها" (مزی کے قول کہ امام بخاری نے کہا: وہ 161ھ میں فوت ہوئے نظر ہے، کیونکہ ان کی وفات کا ذکر میں نے بخاری کی تینوں تواریخ میں نہیں دیکھا، اور میں ان کے علاوہ ان کی کسی کتاب کو نہیں جانتا جس میں انہوں نے راویوں کی وفات اور ولادت ذکر کی ہو۔) (اکمال: 1/207)۔
حالانکہ امام مزی نے اس قول میں یہ دعوی ہی نہیں کیا کہ انہوں نے یہ قول امام بخاری کی تاریخ سے لیا ہے بلکہ انہوں نے اس کو اس کے اصل قائل کی طرف منسوب کیا ہے جس نے اسے کتاب سے روایت کیا ہے، چنانچہ امام مزی فرماتے ہیں: "
قَال عَبْد الوهاب الميداني: قرأت على ظهر الجزء الثاني من"زهد إِبْرَاهِيم"لأبي العباس البردعي: قال مُحَمَّد بْن إِسْمَاعِيل البخاري" – چنانچہ یہاں اعتراض امام مزی سے زیادہ عبد الوہاب المیدانی پر ہے۔ جبکہ امام مزی نے اپنی کتاب کے منہج کے مطابق قائل تک قول کی نسبت صحیح طرح کر دی ہے۔ بہرحال یہاں مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ علامہ مغلطائی امام مزی کے کتنے سخت ناقد ہیں کہ چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی انہوں نے تنبیہ کر دی ہے، تو کیا اگر آجری کی کتاب میں امام ابو داود کا قول نہ ہوتا تو وہ اس پر تنبیہ نہ کرتے؟

·      اور ایک جگہ علامہ مغلطائی فرماتے ہیں: "وفي قول المزي: قال أبو حاتم صدوق. نظر؛ لأني لم أر ذلك في كتاب ابنه "الجرح والتعديل"، ولا "التاريخ"، الذي رواه الكناني عنه؛ فينظر، واللَّه أعلم" (مزی کے قول کہ ابو حاتم نے اسے صدوق کہا نظر ہے کیونکہ میں نے یہ قول ان کے بیٹے کی کتاب الجرح والتعدیل میں نہیں دیکھا اور نہ ہی اس تاریخ میں دیکھا ہے جسے الکنانی نے ابو حاتم سے روایت کیا ہے، پس غور کریں واللہ اعلم) (اکمال: 1/208)
نوٹ: حالانکہ اس قول میں بھی امام مزی کی بات ہی صحیح ہے، کیونکہ اولا: امام ابو حاتم الرازی کے اقوال محض ان دو کتب تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کے اقوال دیگر کتب میں بھی پائے جاتے ہیں لہٰذا علامہ بشار عواد اس کے رد میں فرماتے ہیں: "
لا عبرة بذلك فأقوال أبي حاتم في الجرح والتعديل مبثوثة في الكتب لم تقتصر على هذين الكتابين حتى يقال ذلك" (تہذیب الکمال: 2/41)
ثانیا: امام ابو حاتم کا یہ قول عین اسی کتاب میں پایا جاتا ہے جس میں اس کے ہونے کا انکار علامہ مغلطائی نے کیا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس راوی کو امام ابن ابی حاتم نے اس کے دادا کی طرف منسوب کر کے اس کا ترجمہ لکھا ہے اس لیے علامہ مغلطائی اس کا ترجمہ اس کتاب میں تلاش نہ کر سکے، اس راوی کے ترجمہ کے لیے دیکھیں: "الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 2/119"
الغرض علامہ مغلطائیؒ اپنے نقد میں اتنے شدید ہیں کہ امام مزی کے اقوال کو اصل کتب میں تلاش کر کے ان کی تنقید کرتے تھے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ امام مزی نے جو اقوال نقل کیے ہیں وہ بھی ان کے قائلین کی کتب سے ہی نقل کیے ہیں ورنہ علامہ مغلطائی کا ان کی کتب میں انہیں تلاش کرنے کا کوئی مطلب نہیں بنتا وہ بھی صرف یہ کہہ کر رد کر سکتے تھے کہ اس قول کی سند نہیں ہے!

·      اور ایک جگہ علامہ مغلطائی نے آجری سے مروی ایک قول کی بھی تصحیح ان کی کتاب سے کی، وہ فرماتے ہیں: "وفي قول الْمِزِّي: قال أبو داود: الحسن بن مدرك كَذَّاب. نظر؛ لأني رأيته في نُسختين صحيحتين في الظاهر من "كتاب الآجري": الحسين -بحاء مضمومة، وياء مثناة بعد السين- فينظر، واللَّه تعالى أعلم" (اور مزی کے قول کہ ابو داود نے کہا الحسن بن مدرک کذاب ہے نظر ہے، کیونکہ میں نے اسے (مکتبہ) الظاہر میں آجری کی کتاب کے دو صحیح نسخوں میں دیکھا ہے اور اس میں "الحسین" ہے، پس غور کریں، واللہ اعلم) (اکمال: 2/328)۔
اس سے معلوم ہوا کہ نام کے ذرا سے تغیر پر بھی علامہ مغلطائی نے مزی کی تصحیح قائل کی کتاب سے کی ہے۔ حالانکہ اس میں بھی امام مزی ہی صائب ہیں کیونکہ راوی کا صحیح نام الحسن بن مدرک ہی ہے۔ الحسین بن مدرک نامی کوئی راوی کتب رجال میں موجود نہیں ہے، تو ظاہر ہے کہ ان دو نسخوں میں ناسخین کی غلطی ہے۔ لیکن امام مزی نے تصحیح کے بعد اس کو اپنی کتاب میں درج کیا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ امام مزی کے نسخے میں نام صحیح طرح ہی لکھا ہوا تھا۔ بہرحال غور کرنے کی بات یہاں یہ ہے کہ امام مزی نے جو قول آجری کی طرف منسوب کیا، علامہ مغلطائی نے اس کی تصحیح ان کی کتاب سے ہی کی گویا وہ اس بات کو پہلے سے جانتے ہیں کہ آجری کا قول مزی نے ان کی کتاب سے ہی نقل کیا ہے، اور یہی حال پچھلے اقوال میں بھی ہے۔ چنانچہ ان میں سے کسی قول میں علامہ مغلطائی نے یہ کہہ کر تنقید نہیں کی کہ یہ قول بلا سند ہے! یہ ایجاد آج کے دور کی ہے۔ اسی طرح اس میں غور کرنے کی دوسری بات یہ ہے کہ اگر علامہ مغلطائی کا حال یہ ہے کہ وہ مزی کی نقولات میں اتنی بریکی سے تنقید کرتے ہیں کہ چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی تنبیہ کرتے ہیں اور ہر قول کو اس کے قائل کی کتاب میں تلاش کرتے ہیں، تو کیا عیسی بن جاریہ پر وہ اتنا سنہرا موقع جانے دیتے مزی پر تنقید کرنے کا؟

سند کا مطالبہ کرنے والے معترض کی دوغلی پالیسی:

جن صاحب نے یہاں سند کا مطالبہ کیا ہے وہ خود دوغلی پالیسی کا شکار ہیں۔ جب دلیل ان کے موقف کے خلاف ہو تو معتبر نقول کی بھی سند کا مطالبہ کرتے ہیں اور جب دلیل ان کے موافق ہو تو بعید سے بعید اور محتمل اقوال کو بھی بلا سند قبول کر لیتے ہیں۔ چنانچہ اسی معترض نے اپنے اسی مجلہ میں ایک دوسری جگہ پر امام زہری کو مدلس ثابت کرنے کے لیے کہا:

·      "حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں: امام شافعی، امام دارقطنی اور کئی ایک علماء نے زہری کے مدلس ہونے کو بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے امام شافعیؒ کا یہ قول شاید صاحب الامام الشافعی حسین بن علی الکرابیسی کی "کتاب المدلسین" سے ذکر کیا ہے، واللہ اعلم"

(ماہنامہ نور الحدیث:32/ 76)

·      اور آگے چل کر معترض فرماتے ہیں: "حافظ ابن حجر نے امام دارقطنیؒ کا یہ قول غالبا ان کی کتاب المدلسین سے نقل کیا ہے، آپ نے اپنے مقدمہ میں امام دارقطنی کی اس کتاب کا تذکرہ کیا ہے" (ص 76)

غور کریں ایک طرف معترض نے آجری جو خود بالاتفاق اور بلا نزاع صاحبِ کتاب ہیں ان سے انہی کے قول کا انکار کیا ہے اور دوسری طرف امام شافعی کے قول کا کسی اور کی کتاب میں ہونے کا احتمال ذکر کر کے اس سے حجت لے رہے ہیں! جو شخص اس قدر تعصب اور تقلید کا شکار ہو کہ اس کے اصول موقف کے حساب سے بدلتے رہتے ہیں اس کی کسی بات کی کیا وقعت رہی کہ کوئی عقلمند شخص اس کی پیروی کرے!

 

اعتراض نمبر2 – آجری کی توثیق کا مطالبہ

جنابِ معترض شیخ زبیر علی زئی کا قول پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"حافظ زبیر علی زئیؒ (م 2013 ٫) لکھتے ہیں: "یہ جرح دو وجہ سے ثابت نہیں ہے (1) آجری تک صحیح سند نا معلوم ہے۔ (2) آجری مذکور کا بذاتِ خود ثقہ وصدوق ہونا ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم" (مقالات: 1/526) "

(دیکھیں ماہنامہ نور الحدیث: 36/72)

جواب:

یہ بات سچ ہے کہ کسی محدث نے صراحت کے ساتھ ابو عبید الآجری کی توثیق نہیں کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آجری صاحبِ روایت تھے ہی نہیں۔ محدثین نے عموما انہی رواۃ پر جرح وتعدیل کے ذریعے کلام کیا ہے جن سے مسند روایات مروی ہیں اور اس فن کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ دینی روایات نقل کرنے والے رواۃ کو روایتِ حدیث ہی کے اصولوں کے مطابق پرکھا جائے۔ لیکن جن لوگوں نے مسند روایات ہی بیان نہیں کی تو ان کو کون سی روایات کی بنیاد پر پرکھا جاتا؟ چنانچہ امام ذہبیؒ عوانہ بن الحکم کے بارے میں فرماتے ہیں:

"عالم بالشعر وأيام الناس، وَقَلَّ أَنْ رَوَى حديثًا مسنَدًا، ولهذا لم يُذكر بجرح ولا تعديل، والظاهر أَنَّهُ صدوق" (وہ شعر اور تاریخ کے عالم تھے، اور انہوں نے مشکل ہی کوئی مسند حدیث بیان کی ہے، اور اسی لیے ان کو جرح وتعدیل کے ساتھ کہیں ذکر نہیں کیا گیا ہے، ظاہر یہ ہوتا ہے کہ وہ صدوق ہیں) (تاریخ الاسلام: 4/174)۔

نیز ابو عبید الآجری نے بھی کوئی مسند روایت بیان نہیں کی ہے، بلکہ وہ محض راویِ کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں، اور کتاب کی روایت کرنے والوں کو ویسے بھی حفظ وضبط کے کڑے اصولوں کی بنیاد پر پرکھا نہیں جاتا ہے۔

اس کے باوجود ابو عبید الآجری کے بارے میں محدثین کی بہت سی ضمنی توثیقات موجود ہیں اور صدیوں سے محدثین نے ان کی روایات سے حجت لی ہے اور ان کی بنیاد پر راویوں پر حکم لگایا ہے۔

ابو عبید الآجری کی توثیق پر ہم نے الگ سے ایک مستقل مضمون لکھ دیا ہے، چنانچہ ان کی توثیق کے ثبوت کے لیے دیکھیں میرا مضمون: "حافظ ابو عبید الآجری صاحبِ "سؤالات" کی توثیق وعلمی مقام

 

اعتراض نمبر 3: کیا امام ابو داود کے دونوں اقوال میں فرق ہے؟

امام ابو داود کے دونوں اقوال "منكر الحديث" اور "ما أعرفه، روي مناكير" کو نقل کرنے کے بعد، ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ:

"امام ابو داود کے اس دوسرے قول سے واضح ہو گیا کہ امام ابو داود نے اس راوی کو منکر الحدیث صرف اس معنی میں کہا ہے کہ انہوں نے منکر روایات نقل کی ہیں اور صرف اتنی بات سے کسی راوی کی تضعیف ثابت نہیں ہوتی، کیونکہ کسی راوی کا منکر الحدیث ہونا اور کسی راوی کا منکر روایات بیان کرنا دونوں میں فرق ہے"

(دیکھیں مسنون رکعات تراویح: ص 128)

جواب:

اس اعتراض میں درج ذیل باتیں کہی گئی ہیں:

1-   امام ابو داود کا "منکر الحدیث" کہنا معترض کے نزدیک منکر روایات نقل کرنے کے معنی میں ہے کیونکہ امام ابو داود نے اپنے دوسرے قول میں کہا ہے: "روی مناکیر" گویا معترض کے نزدیک دوسری جرح پہلی جرح پر مقدم ہے حالانکہ اس تقدیم کی دلیل انہوں نے ذکر نہیں کی ہے۔

2-   منکر الحدیث اور روی مناکیر میں فرق ہے۔

3-   منکر روایات نقل کرنے سے راوی کی تضعیف ثابت نہیں ہوتی۔

اولا:

معترض کا امام ابو داود کے قول "منکر الحدیث" کو "روی مناکیر" پر محمول کرنا محلِ نظر ہے، اس کو درج ذیل نقاط میں سمجھا جا سکتا ہے:

(1)           

سب سے پہلے ضروری ہے کہ "منکر الحدیث" اور "روی مناکیر" میں فرق کو سمجھ لیں۔

"روی مناکیر" میں مطلق طور پر اس طرف اشارہ ہے کہ راوی نے منکر ومردود روایات بیان کی ہیں لیکن ان کی تعداد کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے ممکن ہے یہ منکر روایات کثیر ہوں اور ممکن ہے کہ وہ قلیل ہوں۔ چنانچہ راوی کے دیگر اوصاف کو دیکھ کر ہم فیصلہ کریں گے کہ ایسا راوی ضعیف ہے یا نہیں، پس اگر وہ راوی اصلا ثقہ اور کثیر الحدیث ہے تو اس کی روایات میں چند مناکیر کا ہونا اس کے لیے باعثِ ضعف نہیں ہے، لیکن اگر اس کی مرویات بہت کم ہیں اور اس کا اصلا ثقہ وضابط ہونا بھی ثابت نہیں تو یہ اس کی تضعیف شمار ہو گی۔

اس کے برعکس "منکر الحدیث" میں راوی کی مناکیر کی کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی راوی کی روایات میں مناکیر اتنی کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ یہ اس کا وصف بن چکا ہے۔ الغرض ایسا راوی ضعیف ہی ہوتا ہے۔

(2)           

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ "روی مناکیر" اور "منکر الحدیث" میں عموم اور خصوص کا فرق ہے۔ اول الذکر میں مطلق مناکیر کی موجودگی کی طرف اشارہ ہے جبکہ ثانی الذکر میں مناکیر کی کثرت وغلبہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس اعتبار سے روی مناکیر عام ہے اور منکر الحدیث خاص ہے۔

(3)           

چنانچہ امام ابو داود کے ان دو اقوال کی جب توضیح وتشریح کی جائے گی تو عام کو خاص پر محمول کیا جائے گا، خاص کو عام پر محمول نہیں کیا جائے گا۔ لہٰذا معترض کا ان دو اقوال کی وضاحت میں یہ کہنا کہ ابو داود کے خاص قول "منکر الحدیث" سے ان کی مراد مطلق طور پر "روی مناکیر" ہے تو یہ بات اصولی طور پر باطل اور استدلال کے لحاظ سے بھی بے دلیل ہے۔

نیز یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امام ابو داود نے عیسی بن جاریہ کی روایات میں مناکیر کی کثرت وغلبہ کو تسلیم کرنے کے باوجود ان کی مناکیر میں  کثرت کی نفی کی ہے!

الغرض "روی مناکیر" ایک عام جرح ہے جس میں اصلا کثرت وقلت کی طرف اشارہ نہیں ہے چنانچہ اس قول سے کثرت کی نفی نہیں کی جا سکتی، اس کے برعکس "منکر الحدیث" ایک خاص جرح ہے جس میں کثرت کی طرف اشارہ ہے چنانچہ "راوی نے مطلق مناکیر روایت کی ہیں" اس بات کی وضاحت اور تحدید اس سے تو کی جا سکتی ہے کہ اس نے بکثرت مناکیر روایت کی ہیں، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ "راوی نے بکثرت مناکیر روایت کی ہیں" اس کی وضاحت اس قول سے کی جائے کہ "اس نے مطلق طور پر مناکیر روایت کی ہیں" جس میں کثرت وقلت کی طرف اشارہ نہیں ہے۔

(4)           

اگر غور کیا جائے تو خود امام ابو داود کے اقوال میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ ان کا "منکر الحدیث" کہنا "روی مناکیر" پر مقدم ہے۔ چنانچہ امام ابو داود نے اپنے پہلے قول میں فرمایا:

"ما أعرفه، روي مناكير" (میں اسے نہیں جانتا، اس نے مناکیر روایت کی ہیں

اس قول میں انہوں نے عیسی بن جاریہ سے عدمِ معرفت کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ اپنے دوسرے قول میں انہوں نے عیسی بن جاریہ کے بارے میں بالجزم، اور بطورِ وصف کہا:

"منكر الحديث

یہ بات ظاہر ہے کہ ہر انسان عدمِ معرفت سے معرفت کی طرف جاتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ انسان پہلے کسی کو جانتا ہو اور بعد میں اس کو نہ جانتا ہو! چنانچہ لازم ہے کہ ان کا دوسرا قول پہلے قول پر مقدم ہے کیونکہ وہ معرفت اور یقین پر مبنی ہے۔ اس بناء پر بھی معترض کا متاخر اور معرفت پر مبنی قول کو متقدم اور عدمِ معرفت پر مبنی قول پر محمول کرنا محلِ نظر ہے۔

 

ثانیا:

"روی مناکیر" کے بارے میں یہ کہنا کہ منکر روایتیں نقل کرنے سے تضعیف ثابت نہیں ہوتی، یہ بھی محلِ نظر ہے۔ اوپر ہم نے ائمہ ومحدثین کے اقوال سے یہ ثابت کیا ہے کہ "روی مناکیر" اگرچہ ثقہ اور کثیر الحدیث راوی کی ثقاہت کو مضر نہیں ہے لیکن جو راوی پہلے سے ہی قلیل الحدیث ہو اور اس کی ثقاہت بھی اصلا ثابت نہیں، اس کے حق میں "روی مناکیر" اور "منکر الحدیث" میں فرق نہیں ہے کیونکہ اس کا قلتِ روایت کے مقابلے میں مناکیر بیان کرنا کثرت ہی شمار ہو گا۔ لہٰذا اس قول کو مطلق طور پر عدمِ تضعیف پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: جرح کے اقوال میں: امام یحیی بن معین کے قول کے تحت: "اعتراض نمبر 2 – کیا مقل راوی کے حق میں "منکر الحدیث" اور "عندہ مناکیر" میں فرق ہے؟"

 

ثالثا:

 اگر کوئی یہاں بھی یہ اعتراض کرے کہ منکر کا لفظ مطلق تفرد کے لیے بولا جاتا ہے، تو اس کا جواب بھی ہم نے اوپر امام یحیی بن معین کے قول کے تحت دے دیا ہے، دیکھیں: امام ابن معین کا قول: "اعتراض نمبر 5 – کیا منکر کا لفظ مطلق تفرد کے لیے بولا جاتا ہے؟"۔ نیز دیکھیں:  مفهوم الحديث المنكر عند أبي داود دراسة نقدية تطبيقية في كتاب السنن ۔

 

رابعا:

امام ابو داود کی جرح کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ہیثمیؒ فرماتے ہیں:

"وَفِيهِ عِيسَى بْنُ جَارِيَةَ ضَعَّفَهُ ابْنُ مَعِينٍ وَأَبُو دَاوُدَ"

(مجمع الزوائد: 2/72)

 

3-        امام ابو عبد الرحمن النسائی صاحب السنن (م 303 ھ) کی جرح:

·      امام نسائیؒ فرماتے ہیں:

"عيسى بن جارية يروي عنه يعقوب القمي منكر"

(عیسی بن جاریہ، اس سے یعقوب القمی روایت کرتا ہے ، منکر  ہے)

(الضعفاء والمتروکین للنسائی: 423)

دیگر جگہوں پر امام نسائی کا یہ قول "الحدیث" کے اضافے کے ساتھ مذکور ہے۔ چنانچہ امام ابن عدی فرماتے ہیں:

"قَالَ النسائي عِيسَى بْن جارية يروي عَنْهُ يعقوب القمي منكر الحديث"

(الکامل لابن عدی: 6/436)

اسی طرح امام ذہبی فرماتے ہیں:

"قال النسائي: منكر الحديث"

(میزان الاعتدال: 3/311)

·      ایک دوسری جگہ امام نسائیؒ فرماتے ہیں:

"متروك الحديث"

(الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی: 2637، ومیزان الاعتدال: 3/311، ودیوان الضعفاء للذہبی: 3270، والمغنی للذہبی: 4788)

 

امام نسائی کی جرح پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں ان کا جواب درج ذیل ہے:

اعتراض نمبر 1: کیا امام نسائی سے "منکر الحدیث" کی جرح ثابت نہیں؟

اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں کہ:

"حافظ زبیر علی زئیؒ لکھتے ہیں: امام نسائی سے صحیح سند کے ساتھ منکر الحدیث یا متروک کی جرح ثابت نہیں ہے (مقالات: 1/526)"

(ماہنامہ  نور الحدیث: 36/71)

اسی طرح دوسرے معترض لکھتے ہیں:

"بعض لوگ امام نسائی سے اس راوی سے متعلق منکر الحدیث اور متروک کی جرح نقل کرتے ہیں، لیکن یہ الفاظ امام نسائی سے ثابت نہیں۔ امام نسائی کی کتاب میں صرف منکر کا لفظ ہے، غالبا بعض اہل علم نے اسے منکر الحدیث کے معنی میں سمجھ کر معنوی طور پر منکر الحدیث نقل کر دیا ہے۔"

(مسنون رکعات تراویح: ص 133)

جواب:

ائمہ کی نقول پر عدمِ اعتماد:

الضعفاء والمتروکین کے مطبوعہ نسخے میں صرف "منکر" کا لفظ موجود ہے جس کی بنیاد پر شاید شیخ زبیر علی زئی وغیرہ نے کہا کہ دیگر ائمہ نے جو "منکر الحدیث" نقل کیا ہے وہ درست نہیں ہے۔ حالانکہ لوگ عموما اپنے نسخوں کی تصحیح ائمہ کی نقول سے کرتے ہیں لیکن یہاں الٹا حساب ہے کہ شیخ صاحب نے کبار ائمہ جہابذہ کی تردید ایک مطبوعہ نسخے سے کی جس میں ناسخ کی غلطی کا امکان موجود ہے۔ جبکہ نسخہ کی سند ایک ہے اور اس نقل کو امام نسائی سے بیان کرنے والے دو ہیں اور وہ بھی کبار ائمہ نقاد۔ شیخ صاحب کے اصول کے مطابق دو کی نقل کو ایک کی نقل پر ترجیح ہونی چاہیے۔

اس پر مزید یہ کہ امام ابن عدی امام نسائی کے زمانے کے سب سے قریب کے امام ہیں، بلکہ ان کا شمار امام نسائی کے تلامذہ میں ہوتا ہے، چنانچہ اس اعتبار سے وہ امام نسائی کے اقوال کو زیادہ جاننے والے ہیں۔ نیز شیخ زبیر علی زئی کے اصول کے مطابق یہ قول متصل بھی ہے کیونکہ ایک شاگرد کا اپنے استاد کا قول نقل کرنا اتصال پر محمول ہوتا ہے۔

بہرحال، امام ابن عدی نے اپنی کتاب الکامل میں امام نسائی کی کتاب الضعفاء والمتروکین سے براہ راست نقول نقل کی ہیں، اور بعض جگہوں پر انہوں نے جس سے اس کتاب کا سماع کیا ہے اس کے نام کی بھی صراحت کی ہے، چنانچہ جب وہ اس کتاب سے روایت کرتے ہیں تو کئی مقامات پر فرماتے ہیں:

"قال أبو عبد الرحمن النسائي، فيما أخبرني محمد بن العباس عنه"

اور بعض اوقات اختصار کے پیشِ نظر براہِ راست امام نسائی کی کتاب سے نقل کرتے ہیں۔ بلکہ اگر کوئی چاہے تو امام نسائی کی پوری کتاب الضعفاء والمتروکین کو امام ابن عدی کی الکامل سے بعینہ نقل کر سکتا ہے۔

چنانچہ جب امام ابن عدی جو امام نسائی کے شاگرد ہیں ان کے نسخے میں "منکر الحدیث" کی جرح موجود ہے، اور اس کی تائید امام ذہبی کی نقل سے بھی ہوتی ہے، تو یہ کہنا کہ یہ جرح صحیح سند سے ثابت نہیں بالکل بے بنیاد اور باطل ہے۔

کتاب الضعفاء کے ایک نسخے سے "منکر الحدیث" کا ثبوت:

کتاب الضعفاء والمتروکین کا ایک دوسرا نسخہ جو دو سندوں سے مروی ہے اور اس کی سند شیخ صاحب کے منہج پر بھی بالکل صحیح ہے اس میں امام نسائی کا یہ قول "منکر الحدیث" بعینہ موجود ہے۔ دیکھیں اس نسخے کا سکین:



چنانچہ امام ابن عدی، امام ذہبی، اور اس نسخے کے الفاظ سبھی ایک دوسرے کے موافق ہیں۔

امام نسائی کا عمومی طرزِ عمل:

امام نسائیؒ کے اقوال جرح وتعدیل پر عمومی نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صرف "منکر" کا لفظ یوں کسی راوی کے لیے استعمال کرنا نہ امام نسائی کی عادت ہے اور نہ ہی کسی امام نے اسے یوں بطورِ جرح استعمال کیا ہے۔ لہٰذا جس نسخے پر اعتماد کر کے شیخ صاحب نے ائمہ کرام کی تردید کی ہے اس میں ناسخ کی واضح غلطی ہے۔

 

اعتراض نمبر2: کیا امام نسائی تفرد کے معنی میں "منکر" بولتے تھے؟

ایک اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ:

"امام نسائیؒ تفرد کے معنی میں بھی منکر بول دیتے ہیں اور عیسی بن جاریہ کئی روایات میں منفرد ہیں، اس لیے بہت ممکن ہے کہ امام نسائیؒ نے تفرد کے معنی میں نکارت کی جرح کی ہو۔ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: فقد أطلق الإمام أحمد والنسائي وغير واحد من النقاد لفظ المنكر علي مجرد التفرد (امام احمد اور امام نسائی وغیرہ ناقدین نے لفظِ منکر کو محض تفرد کے معنی میں استعمال کیا ہے) (النکت علی کتاب ابن الصلاح: 2/674)"

(مسنون رکعات تراویح: ص 129)

جواب:

محدثین کے نزدیک منکر کا معنی:

اس موضوع پر ہم نے پہلے سے اوپر امام یحیی بن معین کے قول کے تحت تفصیلی بحث کر لی ہے، جسے مختصرا یہاں دوبارہ پیش کیا جاتا ہے:

الغرض محدثین کے نزدیک اگرچہ منکر کی تعریف میں اختلاف ہے لیکن جس روایت کو محدثین منکر کہیں وہ ان کے نزدیک ضعیف ومردود روایت کی ہی ایک قسم ہوتی ہے، اس بات پر عمومی طور پر کوئی اختلاف نہیں کہ منکر روایت  ضعیف اور مردود ہوتی ہے اور اس سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ جہاں تک بات ہے تفرد کا اطلاق منکر پر ہونا تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے کیونکہ منکر کی بنیاد ہی تفرد پر ہے، لیکن اس سے مراد ایسا تفرد ہے جو غیر مقبول ہو، چاہے وہ ثقہ سے ہو یا صدوق وضعیف سے۔ چنانچہ محدثین کے نزدیک منکر کا اطلاق غیر مقبول تفرد کی درج ذیل اقسام پر ہوتا ہے:

1-  ایسا تفرد جس میں راوی نے اپنے سے اوثق واحفظ یا متعدد ثقات کی مخالفت کی ہو، جیسا کہ امام ابن الصلاح نے فرمایا: "هو المنفرد المخالف لما رواه الثقات " (یہ ایسا تفرد ہے جو ثقات کی روایت کے مخالف ہو) (مقدمہ ابن الصلاح: ص 82)۔

2-   ایسا تفرد جس کا راوی ثقاہت واتقان کے اعلیٰ مرتبے پر نہ ہو اور وہ ایسی چیز روایت کرے کہ اس قسم کی روایت میں اس قسم کے راوی کا تفرد قبول نہ کیا جا سکے، جیسے مشہور ثقہ راویوں سے صدوق راوی کا ایسی چیز پر تفرد کرنا جو اس ثقہ راوی کے معروف اصحاب نہ روایت کرتے ہوں اور ان کے نزدیک وہ غیر معروف ہو، یا متن کے اعتبار سے ایسا مطلق تفرد جس کی کوئی اصل سنتِ معروفہ میں نہ پائی جاتی ہو یا اس کے مفہوم میں کوئی بعید ومنکر بات موجود ہو۔ چنانچہ امام ابن الصلاحؒ نے منکر کی دوسری قسم بیان کرتے ہوئے فرمایا: "هو الفرد الذي ليس في راويه من الثقة والإتقان ما يحتمل معه تفرده" (ایسا تفرد جس کے راوی میں ثقاہت واتقان کا وہ درجہ نہ ہو کہ جس سے اس کے تفرد کو قبول کیا جائے) (مقدمہ ابن الصلاح: ص 82)۔ نیز امام ذہبیؒ نے فرمایا: " المنكر ما تفرد الراوي الضعيف به، وقد يعد مفرد  الصدوق منكرا" (ضعیف راوی کے تفرد کو منکر کہتے ہیں، اور کبھی صدوق راوی کے تفرد کو بھی منکر شمار کیا جاتا ہے) (الموقظہ: ص 42)۔

3-   اور بعض اوقات متقدمین ائمہ ثقہ حافظ راوی کے تفرد پر بھی منکر کا اطلاق کرتے تھے اور یہی وہ قسم ہے جس پر متاخرین میں سے بعض نے اختلاف کیا ہے اور سے ثقہ راوی کا مطلق تفرد سمجھا ہے۔ لیکن راجح قول کے مطابق یہ مطلق تفرد نہیں، بلکہ ایسا تفرد ہے جس کے خلاف قرائن موجود ہوں۔ جو لوگ اسے مطلق تفرد کہتے ہیں ان کی بات درست نہیں ہے۔ اور نہ ہی ائمہ متقدمین میں سے کسی نے کبھی اس تفرد کو محض تفرد سمجھ کر قبول کیا ہے۔ آپ نہیں دیکھیں گے کہ کسی محدث نے کہا ہو کہ فلاں حدیث "منکر صحیح" ہے یا کسی حدیث کو منکر کہہ کر کسی دوسری جگہ اس کی تصحیح کی ہو یا اس سے حجت پکڑی ہو۔ چنانچہ اگر ان کے نزدیک یہ محض تفرد ہوتا اور مقبول ہوتا تو کبھی وہ اسے بطورِ جرح اور مذموم چیز کے بیان نہیں کرتے۔ اس پر مزید تفصیل کے لیے دیکھیں کتاب: "أفراد الثقات بين القبول والرد، دراسة نقدية وتطبيقية" اور کتاب "الشاذ والمنكر وزيادة الثقة - موازنة بين المتقدمين والمتأخرين"، نیز دیکھیں: "القول المسدد في بيان المنكر عند الإمام أحمد" اور "مفهوم الحديث المنكر عند أبي داود دراسة نقدية تطبيقية في كتاب السنن"، اور "الحديث المنكر ودلالته عند الامام النسائي في السنن الكبري

الغرض ان تینوں قسموں کا خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ متقدمین ایسے تفرد پر منکر کا اطلاق کرتے تھے جس کا خطاء وغلطی ہونا ثابت ہو جائے یا اس کا غلطی ہونا راجح قرار پائے، چاہے وہ تفرد ثقہ سے ہو یا غیر ثقہ سے۔ نیز یہ کوئی ایسا تفرد نہیں ہے جسے قبول کیا جاتا ہو۔ اور جس راوی کی روایات میں بکثرت مناکیر پائی جائیں وہ ضعیف ہوتا ہے اور اس پر اصلا ہی ثقہ کا اطلاق نہیں ہوتا۔

 

کیا عیسی بن جاریہ کا تفرد ثقہ راوی کا تفرد ہے؟

بہرحال، قطع نظر اس سے کہ منکر کا اطلاق ثقہ کے تفرد پر ہوتا ہے یا نہیں، اس بات کا عیسی بن جاریہ کی مناکیر سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ جس شخص کی ثقاہت ہی ابھی ثابت نہیں ہوئی تو اس کے بارے میں یہ کہنا ممکن ہی نہیں کہ اس کا تفرد ثقہ کا تفرد ہے، یا اس کا تفرد مقبول ہے! الغرض ثقہ ہونے کی شرط میں شامل ہے کہ راوی کی اغلب روایات میں ثقات سے موافقت ثابت ہو، یہ ثابت ہونے کے بعد اگر وہ کسی روایت میں ایسا تفرد کرے جو منکر ومعلول نہ ہو تو وہ مقبول ہو گا، ورنہ نہیں۔

چنانچہ امام مسلمؒ اپنی صحیح کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:

"حكم اهل العلم والذي نعرف من مذهبهم في قبول ما يتفرد به المحدث من الحديث ان يكون قد شارك الثقات من اهل العلم والحفظ في بعض ما رووا وامعن في ذلك على الموافقة لهم فإذا وجد كذلك ثم زاد بعد ذلك شيئا ليس عند اصحابه قبلت زيادته "

(حدیث میں متفرد راوی کی روایت قبول کرنے کے متعلق اہل علم کا معروف مذہب اور ان کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر وہ (راوی) عام طور پر اہل علم وحفظ ثقات کی موافقت کرتا ہے اور اس نے گہرائی میں جا کر ان کی موافقت کی ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ (متفرد) کوئی ایسی اضافی (روایت) بیان کرتا ہے جو اس کے دوسرے ہم مکتبوں کے ہاں نہیں ہے تو اس کا یہ اضافہ (محدثین کے ہاں) قبول کیا جائے گا)

(مقدمہ صحیح مسلم: ص 7)

الغرض کسی راوی کو ثقہ کہنے اور اس کے تفرد کو قبول کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہ عام طور پر اپنی روایات میں اہل علم اور اہل حفظ ثقات کی موافقت کرتا ہو، پس جب اس کی یہ عمومی موافقت ثابت ہو جائے تو اسے ثقہ کہا جائے گا اور پھر اس کے تفرد کو بھی قبول کیا جائے گا۔

لیکن عیسیٰ بن جاریہ کے بارے میں سرے سے ایسی کوئی بات ثابت ہی نہیں بلکہ اس پر جرح ہی اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ اس کی عام روایات میں مناکیر یا تفردات ہیں اور ان میں ثقات کی موافقت نہیں پائی جاتی اور امام ابن عدی نے تو اس کی ساری روایات کو غیر محفوظ کہا ہے۔ تو ایسا راوی ثقہ کیسے ہو سکتا ہے؟

حافظ ابن حجر کے قول سے غلط استدلال:

معترض نے اپنے استدلال میں حافظ ابن حجرؒ کے جس قول سے استدلال کیا ہے اس میں انہوں نے حافظ ابن حجر کا مکمل قول ذکر نہیں کیا ہے۔ اگر وہ حافظ صاحب کا مکمل قول ذکر کر دیتے تو بات اپنے آپ واضح ہو جاتی کہ ان کی مراد یہاں وہ نہیں ہے جو معترض نے پیش کیا ہے۔ حافظ ابن حجر کا مکمل قول درج ذیل ہے:

"وهذا ما ينبغي التيقظ له، فقد أطلق الإمام أحمد والنسائي وغير واحد من النقاد لفظ المنكر على مجرد التفرد ولكن حيث لا يكون المتفرد في وزن من يحكم لحديثه بالصحة بغير عاضد يعضده"

(یہی بات ہے جس پر توجہ دینا ضروری ہے۔ امام احمد، نسائی اور دیگر کئی ناقدین نے لفظ "منکر" کو محض تفرد کے لیے استعمال کیا ہے، لیکن وہاں جہاں متفرد راوی اس پائے کا نہ ہو کہ اس کی حدیث کو بغیر کسی مؤید کے صحیح قرار دیا جائے۔)

(النکت علی کتاب ابن الصلاح: 2/674)

جیسا کہ اس کلام سے بالکل واضح ہے حافظ ابن حجر نے محض تفرد پر منکر کا اطلاق اس صورت کے ساتھ مقید کیا ہے کہ تفرد کرنے والا راوی اس وزن کا نہ ہو کہ اس کے تفرد کو بغیر متابعت کے صحیح کہا جا سکے۔ الغرض یہ تفرد مقبول تفرد نہیں ہے بلکہ مردود تفرد ہی کی قسم ہے جسے امام ابن الصلاح نے اپنی کتاب میں منکر کی دوسری قسم کے تحت ذکر کیا ہے۔

حافظ ابن حجر کی اس بات کی وضاحت اور موافقت ان کے خاص شاگرد علامہ سخاویؒ نے بھی کر دی ہے، وہ فرماتے ہیں:

"وأما إذا انفرد المستور، أو الموصوف بسوء الحفظ، أو المضعف في بعض مشايخه خاصة، أو نحوهم ممن لا يحكم لحديثهم بالقبول بغير عاضد يعضده، بما لا متابع له ولا شاهد - فهذا أحد قسمي المنكر، وهو الذي يوجد إطلاق المنكر عليه لكثير من المحدثين ; كأحمد والنسائي. وإن خولف مع ذلك، فهو القسم الثاني "

(اور اگر کوئی مستور (نامعلوم حالت والا راوی)، یا جس کے حفظ کی حالت خراب ہو، یا جو اپنے بعض اساتذہ کے حوالے سے ضعیف ہو، یا ان جیسے لوگ جن کی حدیث بغیر کسی مؤید کے قبول نہیں کی جاتی، ایسی حدیث بیان کریں جو نہ تو کسی کی متابعت میں ہو اور نہ ہی کسی دوسری حدیث سے اسے تائید حاصل ہو – تو یہ منکر کی ایک قسم ہے، اور یہ وہی ہے جسے بہت سے محدثین جیسے امام احمد اور نسائی "منکر" قرار دیتے ہیں۔ اور اگر اس کے ساتھ مخالفت بھی ہو، تو یہ منکر کی دوسری قسم ہے

(فتح المغیث: 1/250)

چنانچہ علامہ سخاوی کے اس قول سے ان ائمہ نقاد کے منہج کی مزید وضاحت ہو گئی۔ الغرض امام احمد اور امام نسائی وغیرہ سمیت دیگر تمام کبار ائمہ نقاد نے جس چیز پر منکر کا حکم لگایا ہے وہ تفرد ہی ہے لیکن اس سے مراد راوی کا مردود اور غیر مقبول تفرد ہے۔ نیز جس راوی کی روایات میں مردود تفرد کی کثرت وغلبہ ہو وہ منکر الحدیث ہی ہوتا ہے۔

امام نسائی سے تضعیف کے دیگر قرائن:

اس بات کی تائید کہ یہاں امام نسائی کی مراد مردود تفرد ہے اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام نسائیؒ نے اس راوی کو اپنی کتاب الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا ہے، اور اس جرح کو انہوں نے بطورِ تضعیف نقل کیا ہے۔

نیز یاد رہے یہاں امام نسائی نے محض "روی مناکیر" وغیرہ جیسے الفاظ نہیں کہے ہیں جن کی بعض راویوں کے حق میں تاویل کی جا سکتی ہے بلکہ انہوں نے "منکر الحدیث" کہا ہے اور یہ کلمہ تضعیف پر بالکل صریح اور واضح ہے اور اس میں راوی کی روایات میں مناکیر کی کثرت وغلبہ کا معنی بھی واضح ہے۔ نیز محدثین میں سے کسی نے آج تک یہ نہیں کہا ہے کہ اس جرح سے راوی کی تضعیف ثابت نہیں ہوتی۔

اس پر مزید یہ کہ امام نسائی سے اس راوی کے بارے میں "متروک الحدیث" کی جرح بھی مروی ہے، جو اپنے معنی پر بالکل واضح ہے۔

چنانچہ اتنی واضح اور متفقہ جروح پر بھی ایسے بعید اعتراضات کرنا شدید قابلِ مذمت ہے۔

 

اعتراض نمبر3: امام نسائی متشدد تھے؟

ایک اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ:

"امام نسائیؒ متشددین میں سے بھی ہیں، جیسا کہ امام ذہبی اور حافظ ابن حجرؒ نے کہا ہے۔ لہٰذا اس پہلو کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے۔"

(مسنون رکعات تراویح: ص 129)

جواب:

عرض ہے کہ امام نسائی کا متشدد ہونا اس صورت میں مدنظر رکھا جائے گا جب ان کی موافقت نہ کی گئی ہو۔ عیسی بن جاریہ کے بارے میں امام نسائی کا قول کوئی منفرد قول نہیں ہے جو دیگر ائمہ جرح وتعدیل کے مخالف ہو، بلکہ ان کا قول ائمہ رجال کے عین موافق ہے۔ چنانچہ غور کریں سبھی ائمہ نے عیسی بن جاریہ کے بارے میں ایک ہی بات کہی ہے کہ وہ منکر روایتیں بیان کرتا ہے اور ان کی روایتیں غیر محفوظ ہیں۔ بلکہ ان ائمہ کے اقوال کی ایک دوسرے سے اتنی زیادہ موافقت ومطابقت حیران کن ہے، اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان سبھی ائمہ نے محدثین کے معروف منہج کے مطابق اس راوی پر حکم لگایا ہے اور ان میں سے کسی نے ایسے کسی خاص منہج کے مطابق فیصلہ نہیں سنایا ہے جو محدثین کے معروف منہج سے الگ ہو، ورنہ ان سب میں اتنی زیادہ مطابقت نہ ہوتی۔

چنانچہ یہاں امام نسائی کے متشدد ہونے سے استدلال کرنا محلِ نظر ہے۔

 

4-        امام ابن عدیؒ (م 365 ھ) کی جرح:

امام ابن عدیؒ نے عیسی بن جاریہ کی بعض روایات نقل کرنے کے بعد ان پر اور عیسی بن جاریہ کی باقی ساری روایات پر ایک حکم لگاتے ہوئے فرمایا:

"وكلها غير محفوظة"

(اور یہ سب غیر محفوظ ہیں)

(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی: 6/437)

اس جرح پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں ان کا جواب درج ذیل ہے:

اعتراض نمبر 1: کیا "غیر محفوظ" کا معنی شاذ ہے؟

شیخ زبیر علی زئیؒ اس جرح کے جواب میں فرماتے ہیں:

"حدیث شاذ کے بالمقابل حدیث کو محفوظ کہا جاتا ہے لہٰذا غیر محفوظ کا مطلب شاذ ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شاذ اس روایت کو کہتے ہیں جو ثقہ راوی ثقہ لوگوں کے خلاف بیان کرے"

(مقالات: 1/526)

جواب:

یہ ایک تعجب خیز تاویل ہے، کیسے شیخ نے اِدھر کی بات اُدھر اور اُدھر کی بات اِدھر زبردستی فٹ کر کے اس جرح کا جواب دینے کی کوشش کی ہے، اللہ ان پر رحم کرے۔ مجلہ نور الحدیث کے مصنف جنہوں نے عیسی بن جاریہ پر اپنے مضمون میں جگہ جگہ شیخ زبیرعلی زئیؒ کے اقوال کو نقل کیا ہے، شاید وہ بھی اس عجیب تاویل کے باطل وبعید ہونے کو جان چکے تھے اس لیے اس جگہ پر انہوں نے بھی شیخ صاحب کی یہ تاویل ذکر نہیں کی ہے۔

اولا:

حقیقت یہ ہے کہ غیر محفوظ ایسی روایت کو کہتے ہیں جس کا وہم یا غلطی ہونا راجح قرار پائے، اس میں ثقہ یا غیر ثقہ کی کوئی قید نہیں ہے، چنانچہ کسی بھی محفوظ اور معروف طریق کے مقابلے میں جو طریق اس کے مخالف اور غیر معروف ہو گا اسے غیر محفوظ کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس اعتبار سے اس میں منکر اور شاذ ہر قسم کی روایات شامل ہوتی ہیں۔ بلکہ متقدمین محدثین کے نزدیک یہ دونوں اصطلاحات (منکر اور شاذ) ایک ہی معنی میں استعمال ہوتی ہیں اور عموما وہ ان دونوں میں فرق نہیں کرتے ہیں جیسا کہ امام ابن الصلاح نے بھی صراحت کی ہے۔ الغرض ان دونوں سے ان کی مراد غیر مقبول تفرد ہے چاہے وہ ثقہ سے ہو یا غیر ثقہ سے۔ چنانچہ غیر محفوظ کے لیے صرف ثقہ کی مخالفت کی شرط لگانا باطل اور محدثین کے تعامل کے خلاف ہے۔ اس پر چند مثالیں امام ابن عدی سے ہی ہم پیش کر دیتے ہیں جن میں امام ابن عدی نے ضعیف راوی کی روایت پر غیر محفوظ کا اطلاق کیا ہے:

·      ابراہیم بن الفضل المدنی نامی راوی کے بارے میں ابن عدیؒ فرماتے ہیں: "وهذه الأحاديث... فكل ذلك غير محفوظ، ولم أر في أحاديثه أوحش منها... ومع ضعفه يكتب حديثه، وعندي أنه لا يجوز الاحتجاج بحديثه" (1/377)۔

·      ابراہیم بن زکریا المعلم نامی راوی کے بارے میں ابن عدیؒ فرماتے ہیں: "هذه كلها أو عامتها غير محفوظة، وتبين الضعف على رواية حديثه، وهو في جملة الضعفاء" (1/415)۔

·      ایک جگہ "غیر محفوظ" کی تعبیر "منکر" سے کرتے ہوئے ابن عدی فرماتے ہیں: "وحديث ابن جريج، عن عطاء، عن ثابت غير محفوظ، لا يرويه غير إبراهيم بن فهد... وسائر أحاديث إبراهيم بن فهد مناكير، وهو مظلم الأمر" (1/436)۔

·      ایک دوسری جگہ "غیر محفوظ" کو "منکر" سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "وله سوى ما ذكرت منكرات من جهة الأسانيد غير محفوظة" (1/442)۔

·      اسماعیل بن سیف نامی راوی کے بارے میں فرمایا: "حدث بأحاديث عن الثقات غير محفوظة، ويسرق الحديث" (1/527)۔

نیز اس طرح کی مثالیں الکامل لابن عدی میں بے شمار مل جائیں گی، مذکورہ بالا مثالیں تو ابھی صرف پہلی جلد میں سے چند مثالیں ہیں۔

الغرض امام ابن عدی کے نزدیک غیر محفوظ سے مراد صرف ثقہ کی مخالفت والی روایت نہیں ہے بلکہ اس سے ان کی مراد مطلق غلطی پر مبنی اور معروف روایت کے مخالف روایت مراد ہے چاہے اسے ثقہ بیان کرے یا غیر ثقہ۔

ثانیا:

یہ ایک بنیادی عقل والی بات ہے کہ جب امام ابن عدی نے خود عیسی بن جاریہ کی تمام روایات کو غیر محفوظ قرار دے دیا تو وہ ثقہ کیسے رہا؟ الغرض جب راوی کی تمام روایات ہی غلط اور مبنی بر مخالفت ہیں تو اس کو ثقہ کس بنیاد پر کہا گیا؟

چنانچہ شیخ صاحب کا یہ استدلال بالکل باطل ہے۔ نیز مسلک کی تائید میں ایسی بعید ترین تاویلات معنوی تحریف کے زمرے میں آتی ہیں۔

اعتراض نمبر 2: کیا امام ابن عدی کی جرح کی بنیاد دیگر ائمہ کے غیر ثابت اقوال پر ہے؟

پچھلے اعتراض سے بھی زیادہ یا اس کے برابر نہایت قابلِ تردید اعتراض یہ بھی کیا گیا ہے کہ:

"امام ابن عدی نے یہ تبصرہ کرنے سے قبل عیسیٰ بن جاریہ پر بعض محدثین سے نکارت کی جرح نقل کی ہے جو ثابت نہیں ہے، جس سے معلوم ہوا کہ امام ابن عدی کی جرح کی بنیاد غیر ثابت اقوال ہیں، لہٰذا امام ابن عدی کی جرح غیر مسموع ہے۔"

(مسنون رکعات تروایح: ص 133)

جواب:

اولا:

امام ابن عدی نے اپنی جرح میں کہیں یہ نہیں کہا ہے کہ انہوں نے اپنی جرح کی بنیاد کسی دوسرے قول پر رکھی ہے۔ بلکہ ہر صاحبِ علم جانتا ہے کہ امام ابن عدی ناقد امام ہیں اور ہر راوی پر اپنے اجتہاد سے حکم لگاتے ہیں، وہ الگ بات ہے کہ جب کسی راوی کی روایات کی بنیاد پر وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے تو بعض اوقات دیگر ائمہ کی نقول پر اعتماد کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ معاملہ تو ہر صاحبِ نقد کے ساتھ ہے، اس میں امام ابن عدی منفرد نہیں ہیں اور یہاں پر وہ معاملہ ہے بھی نہیں کیونکہ امام ابن عدی نے صاف طور پر اس راوی کی روایات کی بنیاد پر فیصلہ سنایا ہے جیسا کہ ان کے ترجمہ سے واضح ہے۔

چنانچہ امام ذہبیؒ امام ابن عدی کے بارے میں فرماتے ہیں:

"هو: الإمام، الحافظ، الناقد، الجوال... وجرح وعدل وصحح وعلل، وتقدم في هذه الصناعة"

(وہ امام حافظ ناقد، اور صاحبِ رحلات تھے۔۔۔ انہوں نے راویوں پر جرح کی، تعدیل کی، اور روایات کی تصحیح کی اور ان کی تعلیل بیان کی، اور اس فن میں ممتاز مقام حاصل کیا)

(سیر اعلام النبلاء: 16/155)

نیز ان کی کتاب الکامل میں ان کا منہج بیان کرتے ہوئے امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:

"يذكر في (الكامل) كل من تكلم فيه بأدنى شيء لو كان من رجال (الصحيحين) ، ولكنه ينتصر له إذا أمكن، ويروي في الترجمة حديثا أو أحاديث مما استنكر للرجل. وهو منصف في الرجال بحسب اجتهاده"

(انہوں نے الکامل میں ہر اس شخص کا ذکر کیا ہے جس پر کسی بھی قسم کی معمولی تنقید کی گئی ہو، چاہے وہ صحیحین کے راویوں میں سے ہو۔ تاہم، اگر ممکن ہو تو ان کی حمایت بھی کی ہے، اور (کسی راوی کے) ترجمہ میں اس شخص کی وہ حدیث یا احادیث بھی ذکر کی ہیں جن پر اعتراض کیا گیا ہو۔ وہ اپنے اجتہاد کے مطابق رجال (راویوں) کے بارے میں منصفانہ رائے دیتے تھے

(سیر اعلام النبلا: 16/155-156)

امام ذہبیؒ کے اس قول سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امام ابن عدی رجال کے بارے میں صاحبِ اجتہاد ہیں اور وہ راویوں پر دیگر لوگوں کا کلام نقل کرنے کے بعد اس پر اپنے اجتہاد سے فیصلہ سناتے ہیں۔ بلکہ ان کی کتاب سے ایسی بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جہاں پر امام ابن عدی نے جمہور ائمہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد اس کے خلاف فیصلہ سنایا ہے، یا اس سے اختلاف کیا ہے۔ اگر ان کا منہج محض نقول پر اعتماد کرنا ہی ہوتا تو وہ کبھی راوی کے تراجم میں اس کی روایات ذکر کر کے ان کی بنیاد پر جرح وتعدیل نہ کرتے، بلکہ اقوال پر ہی اکتفاء کرتے۔ چنانچہ  ایسے امام کے بارے میں بلا دلیل یہ کہنا کہ انہوں نے اپنے قول کی بنیاد کسی اور چیز پر رکھی ہے بالکل بے بنیاد اور باطل ہے۔

ثانیا:

معترض کے مطابق امام ابن عدی نے "عیسٰی بن جاریہ پر بعض محدثین سے نکارت کی جرح نقل کی ہے جو ثابت نہیں ہے"، حالانکہ امام ابن عدی نے عیسی بن جاریہ کے ترجمہ میں صرف دو ائمہ کے اقوال نقل کیے ہیں، ایک امام یحیی بن معین اور دوسرے امام نسائی، اور ان دونوں سے ہی یہ اقوال ثابت ہیں تو پھر معترض کس "غیر ثابت" جرح کی یہاں بات کر رہے ہیں؟

ثالثا:

امام ابن عدی نے عیسیٰ بن جاریہ کے ترجمہ میں ان ائمہ کے اقوال نقل کرنے کے بعد فیصلہ نہیں سنایا، بلکہ انہوں نے اس کے بعد عیسی بن جاریہ کی روایات اپنی سند سے نقل کی ہیں، اور ان روایات پر انہوں نے حکم لگایا ہے کہ یہ "غیر محفوظ" ہیں۔ الغرض ان کا یہ حکم کسی دوسرے کی نقل کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ راوی کی روایات کی بنیاد پر ہے۔ نیز انہوں نے راوی پر حکم نہیں لگایا بلکہ اس کی روایات پر حکم لگایا ہے۔ لہٰذا معترض کا یہاں یہ اعتراض بنتا ہی نہیں کہ انہوں نے عیسی بن جاریہ پر کسی اور کے قول کی وجہ سے حکم لگایا ہے۔ امام ابن عدی کے تعامل سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے عیسی بن جاریہ کی تمام روایات کا تتبع کر کے اور ان کو ذکر کر کے ان پر ایک خاص حکم لگایا ہے۔

رابعا:

اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ امام ابن عدی نے "غیر محفوظ" کی جرح کو امام ابن معین اور امام نسائی کے اقوال کی بنیاد پر کہا ہے تو یہ معترض کے اپنے استدلال کو فاسد کرنے کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ معترض کے مطابق امام نسائی اور امام ابن معین نے محض تفرد کے معنی میں جرح کی ہے جس کا جواب ہم نے اوپر دے دیا ہے، لیکن اگر ہم یہاں امام ابن عدی کی جرح کو اسی نکارت والی جرح کی بنیاد قرار دیں تو اس کا مطلب ہے کہ امام ابن عدی کے نزدیک بھی اس نکارت سے مراد روایت کا "غیر محفوظ" ہونا ہے۔ چنانچہ ان ائمہ کے سب سے قریب اور خود  ایک ناقد امام ہونے کے ناطے امام ابن عدی سے بہتر کون ان ائمہ کی اصطلاحات کی توضیح کر سکتا ہے!؟ لہٰذا آپ اِدھر جائیں یا اُدھر جائیں، دونوں طرف سے آپ ہی پر حجت قائم ہوتی ہے۔

 

5-        حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر المقدسی، ابن القیسرانی (م 507 ھ) کی جرح:

حافظ ابن القیسرانی کا مختصر تعارف:

حافظ ابن القیسرانی پر ان کے مذہب اور اپنی کتب میں غلطیاں کرنے کی وجہ سے جرح کی گئی ہے لیکن یہ تصنیفی غلطیاں ہیں جو نقولات وحکایات وغیرہ کی نقل میں پیش آتی ہیں، اس قسم کی غلطیوں سے امام ابن الجوزی، امام مزی، علامہ مغلطائی اور حافظ ابن حجر وغیرہ کو بھی متصف کیا گیا ہے، اسی طرح ان کی غلطیوں کی ایک وجہ لحن (یعنی زبان ولہجے کی غلطیوں) بھی بتایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس سےعلوم حدیث میں ان کے علمی مقام میں کوئی کمی نہیں آتی ہے۔

·      چنانچہ امام ابن نقطہ (م 629 ھ) ان کے بارے میں فرماتے ہیں: "صنف كتبا حسنة في معرفة علوم الحديث وكان ثقة في الحديث" (انہوں نے علوم حدیث کی معرفت میں عمدہ کتابیں تصنیف کیں اور حدیث میں ثقہ تھے) (التقیید لمعرفہ رواۃ السنن والمسانید: ص 68)

·      حافظ ابن خلکانؒ (م 681 ھ) ان کے بارے میں فرماتے ہیں: "كان من المشهورين بالحفظ والمعرفة بعلوم الحديث، وله في ذلك مصنفات ومجموعات تدل على غزارة علمه وجودة معرفته" (وہ حفظ اور علوم حدیث کی معرفت میں مشہور تھے، اور اس بارے میں ان کی کئی تصنیفات اور مجموعے ہیں جو ان کے وسیع علم اور عمدہ معرفت کی گواہی دیتے ہیں) (وفیات الاعیان: 4/287)۔

·      امام ذہبی نے میزان میں ان پر جرح کرنے کے باوجود فرمایا: "الإمام الحافظ الجوال الرحال ذو التصانيف... وكتب ما لا يوصف كثرة بخطه السريع القوي الرفيع وصنف وجمع وبرع في هذا الشأن وعني به أتم عناية وغيره أكثر إتقانا وتحريا منه" (امام، حافظ، سیاح، صاحب تصانیف... انہوں نے اپنی تیز، مضبوط اور عمدہ خطاطی کے ساتھ بے شمار کتابیں لکھیں، تصنیف و تالیف کی اور اس میدان میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے اس کام میں بھرپور توجہ دی، لیکن دوسروں نے ان سے زیادہ محنت اور تحقیق کے ساتھ کام کیا) (سیر اعلام النبلاء: 19/361)۔

·      امام یحیی بن عبد الوہاب ابن الحافظ محمد بن اسحاق بن مندہ (م 511 ھ) ان کے بارے میں فرماتے ہیں: "كان أحد الحفاظ جميل الطريقة صدوقا عالما بالصحيح والسقيم كثير التصانيف" (وہ بڑے حفاظ میں سے تھے، ان کا طریقہ کار خوبصورت تھا، صدوق (سچے) تھے، صحیح اور ضعیف احادیث کی معرفت رکھتے تھے اور ان کی بہت سی تصانیف تھیں) (سیر اعلام النبلاء: 19/363)۔

·      اسماعیل بن محمد الحافظ فرماتے ہیں: "أحفظ من رأيت محمد بن طاهر" (محمد بن طاہر سب سے بڑے حافظ ہیں جن کو میں نے دیکھا ہے) (سیر اعلام النبلاء: 19/363)۔

·      شیرویہ بن شہردار اپنی تاریخ ہمذان میں فرماتے ہیں: "كان ثقة صدوقا حافظا عالما بالصحيح والسقيم حسن المعرفة بالرجال والمتون كثير التصانيف جيد الخط لازما للأثر بعيدا من الفضول والتعصب " (وہ ثقہ، صدوق، حافظ، صحیح اور ضعیف احادیث کی معرفت رکھنے والے، رجال اور متون کی اچھی شناخت رکھنے والے، بہت سی تصانیف کے مالک، عمدہ خطاط، اثر کے پابند، فضول باتوں اور تعصب سے دور رہنے والے تھے) (سیر اعلام النبلاء: 19/365)۔

حافظ ابن القیسرانی کی جرح:

اس مختصر تعارف کے بعد عرض ہے کہ حافظ ابن القیسرانیؒ نے بھی عیسی بن جاریہ پر جرح کی ہے۔ چنانچہ عیسی بن جاریہ کی ایک روایت کے تحت فرماتے ہیں:

"رَوَاهُ عِيسَى بن جَارِيَة: عَن جَابر. وَعِيسَى لَيْسَ بذلك، وَلم يرو عَنهُ غير يَعْقُوب الْعمي، وعنبسة قَاضِي الرّيّ غير مَحْفُوظ"

(اسے عیسی بن جاریہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور عیسی لیس بذاک ہے، اور اس سے یعقوب القمی اور عنبسہ ری کے قاضی کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا ہے، یہ روایت غیر محفوظ ہے)

(تذکرۃ الحفاظ: 1/482)

اور ایک دوسری جگہ فرمایا:

"وَعِيسَى لَيْسَ بِذَاكَ، وَلم يرو عَنهُ غير يَعْقُوب القمي، وَعِيسَى قَاضِي الرّيّ، والْحَدِيث غير مَحْفُوظ"

(عیسی لیس بذاک ہے، اس سے یعقوب القمی اور عیسی قاضی الری کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کی ہے، اور یہ حدیث غیر محفوظ ہے)

(تذکرۃ الحفاظ: 2/1194)

اور عیسی بن جاریہ کی 8 رکعات تراویح والی حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:

" رَوَاهُ عِيسَى بن جَارِيَة: عَن جَابر، قَالَ: صلى بِنَا. وَهَذَا غير مَحْفُوظ"

(اسے عیسی بن جاریہ نے جابر سے روایت کیا، فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی، اور یہ (روایت) غیر محفوظ ہے)

(تذکرۃ الحفاظ: 3/1516)

الغرض حافظ ابن القیسرانی نے عیسی بن جاریہ کے بارے میں ائمہ نقاد کے اقوال سے اتفاق کیا ہے۔

 

6-        حافظ ابن رجب الحنبلی (م 795 ھ) کی جرح:

حافظ ابن رجب الحنبلیؒ نے عیسی بن جاریہ کی سیدنا جابر بن عبد اللہ سے ایک روایت بیان کی جس کی اصل صحیح مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ کی حدیث سے ثابت ہے لیکن عیسی بن جاریہ کی روایت میں بعض الفاظ میں تفرد ہے۔ الغرض عیسی بن جاریہ کی روایت کا مخرج صحیح مسلم کی روایت سے الگ ہے، چنانچہ اس میں نفسِ روایت میں زیادت کا پہلو موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود حافظ ابن رجب نے اس روایت پر کلام کرتے ہوئے فرمایا:

"وعيسى بن جارية، تكلم فيه"

(اور عیسی بن جاریہ پر کلام کیا گیا ہے)

(فتح الباری لابن رجب: 3/183)

"تکلم فیہ" کی جرح اگر علی الاطلاق کسی راوی پر کی جائے اور اس کے خلاف کوئی چیز نہ ہو تو اسے علامہ سخاوی نے جرح کے پہلے طبقہ میں شمار کیا ہے جن کی حدیث بطورِ اعتبار لکھی جاتی ہے لیکن ان کے تفرد سے احتجاج نہیں کیا جاتا۔

لیکن یہاں حافظ ابن رجب نے خاص اس سیاق میں یہ جرح اپنی بیان کردہ روایت کے خلاف اور اس کے رد میں کہی ہے، جو اس روایت کے اس راوی کی وجہ سے مرجوح وضعیف ہونے کی طرف اشارہ ہے۔

 

عیسی بن جاریہ کو کتبِ ضعفاء میں ذکر کرنے والے ائمہ:

مذکورہ بالا ائمہ کے صریح کلام سے عیسی بن جاریہ کا ضعف صاف ظاہر ہوتا ہے اور اسی لیے ان کا ذکر کتب ضعفاء کی تمام امہات کتب میں پایا جاتا ہے۔ نیز عیسی بن جاریہ پر کسی صریح توثیق کی عدمِ موجودگی میں ان ائمہ کا انہیں اپنی کتبِ ضعفاء میں شمار کرنا بھی ان کی طرف سے عیسی بن جاریہ کی تضعیف شمار ہو گی۔ چنانچہ درج ذیل ائمہ نے عیسی بن جاریہ کو اپنی کتبِ ضعفاء میں ذکر کیا ہے:

1-          امام ابو عبد الرحمن النسائی (م 303 ھ)

امام نسائیؒ کی جرح اوپر گزر چکی ہے۔ نیز دیکھیں ان کی کتاب "الضعفاء والمتروکین" (423)۔

2-          امام زکریا بن یحیی الساجیؒ (م  307ھ)

حافظ ابن حجر العسقلانیؒ جو بکثرت امام ساجی کی کتاب الضعفاء سے نقل کرتے ہیں، فرماتے ہیں:

"ذكره الساجي والعقيلي في الضعفاء "

(انہیں (عیسی بن جاریہ کو) ساجی اور عقیلی نے کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے

(تہذیب التہذیب: 4/428)

اس نقل پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ حافظ ابن حجر نے یہاں امام ساجی کی کتاب کے بارے میں خبر دی ہے۔ ہر چیز میں سند کا مطالبہ کرنے والوں کے لیے اس میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

3-          امام ابو جعفر محمد بن عمرو العقیلیؒ (م 322 ھ)

امام عقیلی نے عیسی بن جاریہ کو اپنی کتاب "الضعفاء الکبیر" میں ذکر کیا ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر کا قول اوپر گزرا ہے۔ نیز دیکھیں ان کی کتاب الضعفاء (3/383 ت 1421)۔

4-          امام ابو احمد عبد اللہ بن عدی الجرجانیؒ (م 365 ھ)

امام ابن عدی کی جرح پیچھے گذر چکی ہے۔ نیز دیکھیں ان کی کتاب "الکامل فی ضعفاء الرجال" (6/436 ت 1392)۔

5-          حافظ ابو الفرج ابن الجوزیؒ (م 597 ھ)

علامہ ابن الجوزی نے بھی عیسی بن جاریہ کو اپنی کتاب "الضعفاء والمتروکین" میں ذکر کیا ہے (2637)۔

6-          امام شمس الدین ذہبیؒ (م 748 ھ)

امام ذہبی نے ضعفاء پر دو کتب لکھی ہیں اور عیسی بن جاریہ کو ان دونوں کتب میں درج کیا ہے۔ دیکھیں: المغنی فی الضعفاء (4788)، اور دیوان الضعفاء (3270)۔ نیز دیکھیں اوپر امام ذہبی کا قول۔

توثیق ضمنی کے مقابلے میں تضعیف ضمنی:

جس طرح عیسی بن جاریہ کے ضعف کا دفاع کرنے والوں نے بعض محتمل اور متاخرین علماء کی توثیق ضمنی سے استدلال کرتے ہوئے موثقین کے نمبر بڑھائے ہیں اسی طرح ہم متقدمین ائمہ سے اس کی تضعیف ضمنی پر بھی استدلال کر سکتے ہیں۔ اگر متاخرین کی توثیق ضمنی ان کے لیے حجت ہے تو کبار متقدمین ائمہ کی تضعیف ضمنی بالاولیٰ حجت ہونی چاہیے۔ چنانچہ عیسی بن جاریہ کی تضعیف ضمنی پر درج ذیل ائمہ سے حجت لی جا سکتی ہے:

1-          امام مالک بن انس المدنی (م 179 ھ) کا عیسی کی روایت کو ترک کرنا

امام مالک بن انسؒ مدینہ کے سب سے بڑے امام تھے اور رجال کی تنقید میں بہت زیادہ محتاط تھے۔ اور وہ صرف انہی لوگوں سے روایت لیتے تھے جو ان کے نزدیک ثقہ ہوتے تھے۔ چنانچہ بشر بن عمر الزہرانی فرماتے ہیں:

" سألت مالكا عن رجل فقال هل رأيته في كتبي قُلْتُ: لاَ. قال لو كان ثقة لرأيته في كتبي"

(میں نے امام مالک سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: کیا تم نے اس کو میری کتب میں دیکھا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ انہوں نے فرمایا: اگر وہ ثقہ ہوتا تو تم اسے میری کتب میں ضرور دیکھتے

(مقدمہ صحیح مسلم: 1/26)

اس سے معلوم ہوا کہ کوئی راوی خاص طور سے تابعین میں سے ایسا ہو جو انہی کے شہر یعنی مدینہ سے ہو، اور وہ اصول میں سے کوئی اصل روایت کرتا ہو، لیکن امام مالک اس کی روایت کو ترک کر دیں، تو یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ امام مالک کے نزدیک ثقہ نہیں ہے۔ جبکہ عیسی بن جاریہ کا تعلق انہی کے شہر سے ہے اور وہ ایسی منفرد روایتیں بھی بیان کرتے ہیں جنہیں دیگر کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے، اس کے باوجود اگر امام مالک جیسا امام ان کی روایت کو ترک کریں تو یہ اس کے ضعف کی دلیل ہے۔

چنانچہ علل کے ماہر امام، علی بن المدینیؒ فرماتے ہیں:

"كلَّ مدني لم يحدث عنه مالك ففي حديثه شيء، ولا أعلم مالكاً ترك إنساناً إلا إنساناً في حديثه شيء"

(ہر مدنی (شخص) جس سے مالک نے روایت نہیں کی، اس کی حدیث میں کچھ نہ کچھ (نقص) ہے، اور میں نہیں جانتا کہ مالک نے کسی کو چھوڑا ہو مگر وہ شخص جس کی حدیث میں کچھ نہ کچھ (نقص) ہو)

(الکامل لابن عدی: 1/177)

2-          دیگر ائمہ نقاد جیسے: شعبہ، یحیی القطان، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان الثوری، وکیع، ابن المبارک وغیرہ کا عیسی کی روایت کو ترک کرنا

عیسی بن جاریہ کے ضعف میں اضافہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ امام مالک کے علاوہ دیگر تمام ناقد ائمہ نے اس کی روایت کو ترک کیا ہے، حالانکہ انہوں نے ان کا زمانہ پایا۔

چنانچہ امام ابو حاتم الرازیؒ فرماتے ہیں:

"وإذا رأيت الرجل لا يروي عنه الثوري - وأراه قال: وشعبة - وقد أدركاه، فما ظنك به؟!"

(جب تم دیکھو کہ کوئی شخص جس سے سفیان ثوری روایت نہیں کرتے - اور میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا: اور شعبہ بھی - حالانکہ انہوں نے اسے پایا ہو، تو تم اس کے بارے میں کیا گمان کرو گے؟!)

(علل الحدیث: 3/555)

جبکہ عیسی بن جاریہ کا معاملہ تو اس سے بھی سنگین ہے کیونکہ ان سے ایک بھی ناقد امام نے روایت بیان نہیں کی ہے چاہے بلا واسطہ ہو یا بالواسطہ۔

3-          شیخین (بخاری ومسلم) کا عیسی بن جاریہ کی روایت سے اجتناب کرنا:

امام بخاری وامام مسلم نے عیسی بن جاریہ سے نہ احتجاجاً روایت لی ہے اور نہ ہی اعتباراً، جبکہ عیسی بن جاریہ نے بعض منفرد روایتیں بیان کی ہیں۔ اگر یہ روایتیں واقعی قابلِ احتجاج ہوتیں جیسا کہ فریقِ مخالف کہتے ہیں تو شیخین ان سے کیسے اوجھل رہ گئے؟

·      چنانچہ بعض احادیث پر بحث کرتے ہوئے امام ابن عبد البرؒ فرماتے ہیں:

"ولم يخرج البخاري ولا مسلم بن الحجاج منها حديثاً واحداً. وحسبك بذلك ضعفاً لها"

(ان میں سے کوئی حدیث بھی بخاری اور مسلم نے روایت نہیں کی ہے، یہی بات اس کے ضعف کے لیے کافی ہے)

(التمہید: 10/248)

·      حافظ ابن حجر ابن عبد البر سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"أن البخاري ومسلماً إذا اجتمعا على ترك إخراج أصلٍ من الأصول، فإنه لا يكون له طريقٌ صحيحةٌ. وإن وجِدَت، فهي معلولة»"

(بخاری اور مسلم جب کسی اصل (بنیادی حدیث) کو چھوڑنے پر متفق ہو جائیں، تو اس کی کوئی صحیح سند نہیں ہوتی۔ اور اگر کوئی سند مل بھی جائے، تو وہ معلول (عیب دار) ہوتی ہے)

(النکت علی کتاب ابن الصلاح: 1/319)

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس قول میں مبالغہ ہے، لیکن بہرحال اس سے عیسی بن جاریہ کے ضعف پر موافقت اور قرینہ ملتا ہے۔

·      امام حاکم اپنی کتاب معرفۃ علوم الحدیث میں فرماتے ہیں:

"فإذا وُجِدَ مثل هذه الأحاديث بالأسانيد الصحيحة غير مخرَّجة في كتابي الإمامين البخاري ومسلم، لَزِمَ صاحب الحديث التنقير عن عِلّته، ومذاكرة أهل المعرفة به لتظهر علته"

(جب ایسی احادیث صحیح اسانید کے ساتھ پائی جائیں جو امام بخاری اور مسلم کی کتابوں میں نہ ہوں، تو حدیث کے صاحب (ماہر) پر لازم ہے کہ اس کی علت (عیب) کی تحقیق کرے اور اس کے عیب کو ظاہر کرنے کے لیے اہل علم سے مشورہ کرے)

(معرفۃ علوم الحدیث: ص 40)

·      حافظ ابن رجب الحنبلیؒ فرماتے ہیں:

"فقَلَّ حديثٌ تركاه، إلا وله علة خفية "

(کم ہی کوئی حدیث ایسی ہوتی ہے جو بخاری ومسلم نے ترک کی ہو، مگر اس میں کوئی نہ کوئی پوشیدہ علت (عیب) ہوتی ہے)

(الرد علی من اتبع غیر المذاہب الاربعہ: ص 25)

الغرض یہ قاعدہ کلیہ تو نہیں لیکن ایک قرینہ ہے۔

4-          اصحابِ سنن کا عیسی کی روایت کو ترک کرنا:

عیسی بن جاریہ کی روایت کو نہ صرف شیخین نے ترک کیا ہے بلکہ سننِ اربعہ میں سے تین کتبِ سنن جو چوتھی پر فوقیت رکھتی ہیں، یعنی سنن ابو داود، سنن ترمذی، اور سنن النسائی، ان کے اصحاب نے بھی عیسی کی روایت کو ترک کیا ہے۔ جبکہ امام نسائی اور امام ابو داود سے تو صریح جرح بھی ثابت ہے۔ اس کے برعکس سنن ابن ماجہ کا وہ مقام نہیں جو باقی سنن کا ہے، کیونکہ اس میں ضعیف وموضوع ہر قسم کی روایات پائی جاتی ہیں۔

·      چنانچہ امام مزیؒ کے شاگرد شمس الدین محمد بن علی الحسینی اپنے شیخ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"كل ما انفرد به ابن ماجه فهو ضعيف، يعني بذلك ما انفرد به من الحديث عن الأئمة الخمسة "

(جو کچھ ابن ماجہ نے منفرد طور پر روایت کیا ہے، وہ ضعیف ہے۔ (الحسینی فرماتے ہیں) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث انہوں نے دیگر پانچ ائمہ سے منفرد طور پر روایت کی ہے، وہ ضعیف ہے

(تہذیب التہذیب: 5/316)

اس قول کے تحت حافظ ابن حجر نے کہا ہے:

"وحمله على الرجال أولى"

(اس کو رجال پر محمول کرنا اولیٰ ہے)

یعنی وہ رجال جن سے روایت کرنے میں ابن ماجہ باقی ائمہ خمسہ سے منفرد ہوں وہ ضعیف ہوتے ہیں۔

·      اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

"أفراد ابن ماجه في الغالب غير صحيحة"

(ابن ماجہ کی منفرد روایات عموماً غیر صحیح ہوتی ہیں

(زاد المعاد: 1/420)

اور عیسی بن جاریہ چونکہ کتب ستہ میں سے صرف ابن ماجہ کے راوی ہیں اور اس میں ان سے ایسی منفرد روایت مروی ہے جو کسی دوسرے صاحبِ سنن نے روایت نہیں کی ہے، یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ عیسی اور ان کی روایت دیگر ائمہ کے نزدیک ضعیف ہے۔ بلکہ رمضان میں تراویح والی حدیث کو تو امام ابن ماجہ نے بھی اپنی سنن میں روایت نہیں کیا ہے۔ گویا اس کی نکارت میں اس سے مزید اضافہ ہوتا ہے۔

5-          اکثر کتبِ ثقات میں عیسی بن جاریہ کا ذکر نہ ہونا:

جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا کہ عیسی بن جاریہ کو اکثر کتب ضعفاء میں ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس کے برعکس عیسی کو کتب ثقات میں سوائے ابن حبان کے کسی نے ذکر نہیں کیا ہے۔ حالانکہ ابن حبان کی کتاب کے علاوہ، ثقات پر لکھی جانے والی درج ذیل کتب مشہور ومعروف ہیں:

(1)          کتاب الثقات للامام العجلی

(2)          کتاب الثقات لابن شاہین

(3)          کتاب الثقات لابن خلفون

(4)          الرواۃ الثقات المتکلم فیہم بما لا یوجب ردھم للذہبی

لیکن ان میں سے کسی میں بھی عیسی بن جاریہ کا نام نہیں ملتا ہے۔ اس کے برعکس کتب ضعفاء میں عیسی کا نام ملتا ہے۔ یہ بھی عیسی کے ضعف کا ایک قرینہ ہے۔

 

خلاصۂ التحقیق:

اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ عیسی بن جاریہ المدنی پر کبار اور جمہور ائمہ نے صریح اور قادح جرح کر رکھی ہے، جس کے مقابلے میں ان کی ایک بھی صریح توثیق ثابت نہیں۔ توثیق ضمنی اور بعض محتمل اقوال سے حجت لینے والوں کا جواب ہم نے اس مضمون میں دے دیا ہے۔ چنانچہ عیسی بن جاریہ کے بارے میں خلاصہ یہی ہے کہ وہ ضعیف راوی ہیں، اور ان کے تفردات کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، خاص طور سے ایسی روایت میں جس میں ان کی مخالفت ثابت ہو۔ چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیریؒ عیسی بن جاریہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

"وضعفه أكثر المحدثين" (اور اسے اکثر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے)

(العرف الشذی: 2/79)

لیکن اس کے برعکس اتنی واضح اور صریح جروح کے مقابلے میں عیسی بن جاریہ کا دفاع کرنے والے کیا نتیجہ نکالتے ہیں، یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے، چنانچہ ایک صاحب فرماتے ہیں:

"مذکورہ بالا تصریحات کی موجودگی میں کسی شاذ رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے"

(نور الحدیث: 36/78)

اور دوسرے شیخ فرماتے ہیں:

"خلاصہ یہ کہ عیسیٰ بن جاریہ پر کوئی بھی معتبر جرح ثابت نہیں ہے، لہٰذا یہ ثقہ ہیں، کیونکہ کئی محدثین نے ان کی توثیق کی ہے، جیسا کہ ما قبل میں تفصیل پیش کی گئی ہے"

(مسنون رکعات تراویح: ص 135)

اتنے واضح اور کبار ائمہ جہابذہ کے کلام کے بعد بھی ان کا یہ کہنا کہ دوسرا موقف "شاذ" ہے یا ان کا مطلق "معتبر جرح" کے ثبوت کا ہی انکار کر دینا، ایک بڑی جسارت ہے! جبکہ ہم نے دیکھا کہ عیسی بن جاریہ کی توثیق پر ان کے پاس امام ابو زرعہ اور امام ابن حبان اور امام ابن خزیمہ کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر عالم نہیں ہیں حالانکہ ان کی توثیقات بھی صریح نہیں ہیں۔ جبکہ ان کے برعکس جرح کرنے والے ائمہ نہ صرف ان سے زمانے میں متقدم ہیں بلکہ اس فن کی معرفت اور مہارت میں بھی ان سے اکبر ہیں اور ان کی جروحات بھی صریح اور غیر محتمل ہیں، جن میں امام ابن معین کا نام سرِ فہرست ہے، اور ان کے بعد ائمہ سنن: امام ابو داود، اور امام نسائی آتے ہیں، اور ان کے بعد امام ابن عدی، اور امام ساجی وعقیلی وغیرہ آتے ہیں۔ جبکہ متاخرین میں سے علل کے ماہرین اور کبار علماء میں بھی امام ذہبی، حافظ ابن رجب، حافظ ابن القیسرانی، اور امام ابن الجوزی عیسی بن جاریہ کی جرح کی طرف مائل ہیں۔

آٹھ رکعات تراویح والی حدیث کا حکم:

آٹھ رکعات تراویح والی حدیث میں عیسی بن جاریہ نے آٹھ کا عدد بیان کرنے میں تفرد کیا ہے، بلکہ اس میں ان کی مخالفت بھی ثابت ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے رمضان میں باجماعت تراویح والے قصے کو دیگر صحابہ میں سے درج ذیل صحابہ نے بھی روایت کیا ہے:

1-   سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (صحیح البخاری: 2012، 729، 1129، 2011، وصحیح مسلم: 761)

2-   سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (صحیح البخاری: 6113، وصحیح مسلم: 781)

3-   سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم: 1104)

4-   سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ (مسند احمد: 20910، 20936، وسنن ابو داود: 1375، وسنن ترمذی: 806، وسنن نسائی: 1364، 1605، وسنن ابن ماجہ: 1327)

5-   سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ (سنن نسائی: 1606، ومسند احمد: 17935)

الغرض پانچ جلیل القدر صحابہ نے اس واقعے کو نقل کیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی آٹھ کے عدد کو محفوظ نہیں کیا ہے۔ حالانکہ ان روایات اور ان کے مختلف طرق میں انہوں نے ہر چھوٹی بات کی وضاحت کی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ اتنی واضح بات جو عموم البلوی سے ہے، ان سے رہ گئی، اور صرف ایک متکلم فیہ اور ضعیف راوی ہی اسے یاد کر پایا؟ نیز یہ اور اس طرح کی دیگر چند باتیں اس روایت کی نکارت پر واضح دلیل ہیں، چنانچہ امام ابن عدی وغیرہ کا اس روایت کو "غیر محفوظ" کہنا دلائل وقرائن کی رو سے بالکل حق بجانب ہے۔

 

واللہ اعلم بالصواب

 

 


0/کمنٹس: