تحریر: دین پوسٹ
اس مضمون کو پی ڈی ایف میں ڈاونلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔
سید الفقہاء امام شافعی رحمہ اللہ
الامام المجتہد محمد بن ادریس بن العباس بن عثمان بن شافع، ابو عبد اللہ
المطلبی الشافعی الامام، عالم العصر، ناصر الحدیث، فقیہ الملۃ - فلسطین کے
شہر غزۃ میں 150 ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے نسب میں ایک صحابی حضرت شافع بن سائب رضی اللہ عنہ ہوئے ہیں جن سے آپ کو
شافعی کہا جاتا ہے۔
حلیہ و ہیئت
مزنی کا بیان ہے کہ: " ما رأيت أحسن وجها من الشافعي -رحمه
الله-! وكان ربما قبض على لحيته، فلا يفضل عن قبضته
" امام شافعی سے زیادہ خوبصورت چہرے
والا آدمی میں نے نہیں دیکھا، جب داڑھی پر ہاتھ رکھتے تو ایک قبضہ سے زائد نہ ہوتی
تھی ۔[1]
زعفرانی فرماتے
ہیں: " كان يخضب بالحناء، وكان
خفيف العارضين " آپ حناء کا استعمال کیا کرتے تھے، اور ان کے
دونوں رخسار ہلکے پھلکے سے تھے ۔[2]
امام رازی فرماتے ہیں: "ان کے حلیے کے بارے لوگ کہتے ہیں کہ
وہ لمبے ، اچھی خلقت والے، اور لوگوں میں محبوب انسان تھے۔ نفیس لباس، فصیح زبان،
اور بڑے وقار والے تھے۔ مخلوق پر بہت زیادہ احسان کرنے والے تھے۔ اور وہ سنت کی
خاطر جمرۃ سے خضاب کا استعمال کیا کرتے تھے۔۔۔ وہ کلام پر قدرت
میں غایت پر تھے، اور فصاحت کی ان پر انتہاء تھی۔ عمر کے آخری دور میں انہیں ایک
مرض لاحق ہو گیا جو شدت اختیار کر گیا حتی کہ آپ کی جسمانی حالت بگڑ گئی، اور بعض
دفعہ سوار ہوتے وقت آپ سے خون نکلتا تھا حتی کہ آپ کے کپڑے، جوتے، اور کاٹھی اس سے
بھر جاتی۔۔۔ پھر آپ اس بیماری سے شفا یاب ہوئے تو لوگوں نے ان کے لئے ایک پلنگ نصب
کیا اور اس کے نیچے ہاتھ منہ دھونے کا ایک طشت رکھوایا۔"[3]
امام شافعی فرماتے ہیں: " أخذت اللبان سنة للحفظ
فأعقبني صب الدم سنة"قوتِ حافظہ کے لیے میں لبان کا
استعمال کیا کرتا تھا، اِسی وجہ سے ایک سال تک مرض نکسیر میں مبتلا رہا۔[4]
مورخ اسلام علامہ ابن
کثیر الدمشقی لکھتے ہیں کہ: " كان طويلا، جسيما، نبيلا، خفيف
العارضين، وكان يخضب، خلافا للشيعة، وكان مهيبا
" امام شافعی دراز قد، جسامت
والے،شریف، اور ہلکی رخساروں والے تھے اور وہ شیعوں کی مخالفت میں حناء یعنی مہندی
کا استعمال فرمایا کرتے تھے۔ اور با رُعب انسان تھے ۔[5]
والدین:
امام شافعی کے والد ادریس بن
عباس بن عثمان بن شافع بن سائب بن عبید بن عبد یزید بن ہاشم بن مطلب بن عبد مناف قرشی
مطلبی ہاشمی ہیں ۔ امام شافعی کے نسب میں سائب صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سائب بن عبید غزوہ بدر میں گرفتار ہونے کے بعد اسلام
لائے ۔ بنی ہاشم کا علم اِن کے ہاتھ میں تھا۔ فدیہ اداء کرکے مسلمان ہوگئے اور
لوگوں نے اِس پر تعجب کیا تو کہنے لگے : میں نے مسلمانوں کو اُن کے حق سے محروم
کرنا پسند نہیں کیا۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ ظاہری طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔ ایک بار سائب بیمار ہوئے تو عمر
فاروق اُن کی عیادت کو گئے۔ شافع نے
اپنے والد سائب کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرفِ ملاقات کو حاصل کیا
ہے۔ عثمان بن شافع تابعی ہیں جو امام شافعی کے پردادا ہیں ۔
امام شافعی کی والدہ ازدیہ تھیں۔ خطیب بغدادی اور قاضی عیاض مالکی نے
لکھا ہے کہ امام شافعی کی والدہ قبیلہ بنو
الاَزد سے تھیں جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ:
"قبیلہ ازد کے لوگ کتنی بہترین قوم ہیں ان کے
منہ پاکیزہ، ایمان عمدہ، اور دل صاف ستھرے ہوتے ہیں"[6]۔
ولادت اور ابتدائی
تعلیم:
مشہور روایات کے مطابق
امام شافعی کی ولادت ماہِ رجب 150ھ مطابق ماہِ
اگست 767ء میں بمقام غزہ بلاد الشام (موجودہ فلسطین) میں ہوئی ۔
ربیع
بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ: "ولد الشافعي يوم مات
أبو حنيفة" امام شافعی اُس سال پیدا ہوئے جس سال امام ابوحنیفہ
فوت ہوئے[7]۔
امام شافعی کا اپنا قول ہے کہ میری ولادت 150ھ میں ملک
شام کے شہر غزہ میں ہوئی اور 2 سال کی عمر میں مجھے مکہ لایا گیا، یعنی 152ھ مطابق
769ء میں۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ امام شافعی فرماتے
ہیں کہ میں عسقلان میں پیدا ہوا اور دو سال کا ہوا تو میری والدہ مجھے مکہ لے آئیں۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ میں یمن میں پیدا ہوا اور میری والدہ کو خطرہ ہوا کہ کہیں
میرا نسب ضائع نہ ہوجائے اِس لیے 10 سال کی عمر میں مجھے مکہ لے آئیں۔ [8]
امام شافعی یتیم تھے ۔ اُن کے والد ادریس بن عباس کا انتقال اُن کی ولادت سے قبل یا بعد
میں جلد ہی ہوا۔ اِس حوالہ سے مورخین خاموش دکھائی دیتے ہیں۔ خود امام شافعی کے اِس بیان سے کہ : میری والدہ مجھے 2 سال کی
عمر میں مکہ لے آئیں، معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالت یتیمی میں ہی مکہ لائے گئے کہ کہیں
نسب ضائع نہ ہو جائے۔مراد اِس سے یہ تھی کہ کہیں لوگ اِس بچہ کو قریش کے علاوہ کسی
دوسرے قبیلہ کا خیال کریں گے۔
ابن ابی
حاتم نے عمرو
بن سواد سے امام شافعی کا قول نقل کیا
ہے کہ : "ولدت بعسقلان، فلما أتى علي سنتان حملتني أمي إلى مكة"
میری ولادت عسقلان میں ہوئی اور مجھے دو سال کی عمر میں میری والدہ مکہ مکرمہ لے
آئیں۔[9]
ابن عبدالحکم نے
امام شافعی کا قول بیان کیا ہے کہ: "ولدت بغزة، سنة خمسين
ومائة، وحملت إلى مكة ابن سنتين" میری ولادت غزہ میں 150ھ میں ہوئی اور مجھے دو
سال کی عمر میں مکہ مکرمہ لایا گیا ۔ [10]
دونوں روایات میں تطبیق
یوں ہوتی ہے کہ قریہ غزہ عسقلان کے جوار میں ہی واقع ہے اور آپ 152ھ کے وسط میں
مکہ مکرمہ لائے گئے۔ چنانچہ جب امام شافعی نے
کہا غزہ تو مراد قریہ یعنی گاؤں کو لیا،
اور جب کہا عسقلان تو مراد شہر کو لیا۔ ابن عبد الحکم
کے ایک دوسری طریق میں اس طرح
تطبیق ہوتی ہے کہ امام شافعی نے فرمایا:
"ولدت بغزة وحملتني أمي إلى عسقلان"
میں غزۃ میں پیدا ہوا اور میری والدہ مجھے عسقلان لے گئیں۔[11]
چنانچہ تمام روایات مل کر یہ دلالت کرتی ہیں کہ امام شافعی
غزہ میں پیدا ہوئے، پھر عسقلان لے جائے گے، اور وہاں سے مکہ گئے اور وہیں
پر پرورش پائی۔
جہاں تک بات ہے اس
روایت کی جس میں امام شافعی فرماتے ہیں کہ:
" ولدت باليمن، فخافت أمي
علي الضيعة، وقالت: إلحق بأهلك، وتكون معهم، فإني أخاف أن تغلب على نسبك، فجهزتني
إلى مكة، فقدمتها وأنا يومئذ ابن عشر أو شبيها بذلك" میں یمن میں پیدا ہوا اور میری والدہ کو خطرہ ہوا کہ
کہیں میرا نسب ضائع نہ ہوجائے اِس لیے 10 سال کی عمر میں مجھے مکہ لے آئیں۔ [12] تو ابن حجر
فرماتے ہیں کہ اس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے
ہیں: "هذا القول غلط إلا إن يريد باليمن القبيلة"
یہ قول غلط ہے الا یہ کہ اس سے مراد یمن کا قبیلہ مراد لیا جائے۔ اور ابن حجر امام بیہقی سے
نقل فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں احتمال ہے، یا پھر راوی کو وہم ہوا ہے، اس نے
"ولدت (میں پیدا ہوا)" کہا جب کہ اس کی مراد "نشأت (میری پرورش ہوئی)"
کہنا تھی۔ اس طرح تمام اقوال میں اس طرح جمع کی جا سکتی ہے کہ امام شافعی عسقلان
کے (گاؤں) غزہ میں پیدا ہوئے اور جب دو سال کے ہوئے تو ان کی والدہ انہیں حجاز لے
آئیں جہاں پر وہ اپنی قوم کے لوگوں سے جا ملیں جو کہ یمن سے تھے کیونکہ ان کی
والدہ بھی ازدیہ ہیں تو اپنی قوم کے پاس رہائش اختیار کر لی۔ پھر جب وہ دس سال کے
ہوئے تو ان کی والدہ کوخوف ہوا کہ کہیں ان کا عالی نسب ضائع نہ ہو جائے تو وہ
انہیں مکہ لے آئیں۔[13]
امام شافعی خود بیان کرتے ہیں کہ بچپن میں میری ساری توجہ
دو باتوں کی طرف ہی تھی: تیر اندازی اور تحصیل علم۔ تیراندازی میں مجھے اِتنی
مہارت ہوگئی تھی کہ دس میں دس نشانے صحیح بیٹھتے تھے۔ اِسی زمانہ میں مجھے گھوڑے کی
سواری کا شوق بھی ہوگیا تھا۔[14] تیراندازی
اور شہ سواری کے موضوعات پر کتاب السبق والرمی لکھی جو اپنے موضوع میں عربی ادب کی
پہلی کتاب تھی۔ تحصیل علم میں آپ مکملاً منہمک رہتے اور بحالت یتیمی و غریبی کے
باوجود شب و روز پڑھنے میں مشغول رہا کرتے تھے۔
ابتدائی تعلیم:
امام شافعی نے مکہ مکرمہ میں مکتب سے تعلیم کی ابتداء
فرمائی۔ بعد ازاں مدینہ منورہ میں تحصیل علم کیا۔ مکہ مکرمہ میں ہی آپ نے تیر
اندازی، شہ سواری کے ساتھ ساتھ مکتبی تعلیم کے بعد بنو ہذیل میں رہتے ہوئے زبان
عربی اور اشعار عرب میں خوب مہارت حاصل کرلی۔ اِسی دوران میں آپ نے اپنے چچا محمد بن شافع اور مسلم
بن خالد الزنجی (متوفی 181ھ) سے حدیث کا سماع کیا۔امام شافعی اپنے زمانہ طالب علمی کے متعلق خود بیان کرتے
ہیں کہ:
میں یتیم تھا، والدہ
میری کفالت کیا کرتی تھیں۔ میرے پاس معلم کی خدمت کے لیے رقم نہیں تھی، مگر ایسی
صورت پیدا ہوگئی کہ معلم اُس کے بغیر پڑھانے پر راضی ہوگیا، وہ بچوں کو جو سبق دیتا
تھا میں زبانی یاد کرلیتا تھا اور اُس کی عدم موجودگی میں بچوں کو پڑھا دیا کرتا
تھا، میری اِس بات پر معلم بہت خوش ہوا اور مجھے مفت تعلیم دینے پر راضی ہوگیا۔[15]
مکتب کی تعلیم کے بعد میں قبیلہ بنو ہذیل میں
چلا گیا جو فصاحت و بلاغت میں عرب میں مشہور تھا، اور کافی عرصہ تک اِس طرح اُن کے ساتھ رہا کہ سفر و حضر میں
اُن کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ مکہ مکرمہ میں واپس آ کر اُن کے اشعار سنانے لگا۔ اِس
زمانے میں عربی زبان کا ادب اور شعر و شاعری کا میرے ذوق پر بہت غلبہ تھا۔ اِسی
دوران میں اپنے چچا (محمد بن شافع) ،مسلم بن خالد الزنجی، اور سفیان
بن عیینہ وغیرہ سے حدیث کی روایت
کرتا تھا۔میں علماء کی مجلس درس میں احادیث اور مسائل سن کر یاد کرلیتا تھا چونکہ
میری والدہ کے پاس اتنی رقم نہیں رہتی تھی کہ کاغذ خرید سکوں اِس لیے اِدھر اُدھر
سے ہڈیاں، ٹھیکرے اور کھجور کے پتے چن کر اُن ہی پر لکھ لیا کرتا تھا۔ سات سال کی
عمر میں قرآن اِس طرح حفظ کرلیا تھا کہ
اُس کے معانی و مطالب مجھ پر عیاں ہوگئے تھے البتہ دو مقام سمجھ میں نہ آ سکے اُن
میں سے ایک "دساہاً " ہے۔ دس سال کی عمر میں موطاء امام مالک یاد کرلی تھی۔[16]
ا حمد بن ابراہیم الطائی الاقطع نے مزنی سے امام شافعی کا
قول نقل کیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ: " حفظت القرآن وأنا ابن
سبع، وحفظت الموطأ وأنا ابن عشر" میں نے سات سال کی عمر میں قرآن حفظ کرلیا تھا
اور جب موطاء امام مالک حفظ کی تب میں دس سال کا تھا۔[17]
مکہ مکرمہ میں امام شافعی
نے قرات قرآن مجید کی تعلیم مقری اسماعیل بن قسطنطین سے حاصل کی بعد ازاں عبداللہ ابن کثیر سے قرآت قرآن مجید کی تعلیم حاصل
کرتے رہے۔ امام شافعی خود فرماتے ہیں کہ :
" كنت أقرئ الناس وأنا
ابن ثلاث عشرة سنة، وحفظت (الموطأ) قبل أن أحتلم"
میں لوگوں میں نماز کے لیے قرآن کی قرات تیرہ
سال کی عمر میں کرنے لگا تھا اور موطاء امام مالک بالغ ہونے سے قبل حفظ کر چکا تھا۔[18]
فتویٰ دینے کی
اجازت:
ربیع
بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ امام شافعی کو 15 سال کی عمر میں فتویٰ دینے کی باقاعدہ
اجازت مل چکی تھی ۔ جبکہ وہ ابھی مکہ مکرمہ میں ہی مقیم تھے۔ یہ اجازت اُنہیں مسلم بن خالد الزنجی نے دی تھی۔امام حمیدی فرماتے ہیں: " قال الزنجي بن خالد
-يعني مسلما- للشافعي: افت يا أبا عبد الله فقد والله آن لك أن تفتي، وهو ابن خمس
عشرة سنة" "امام مسلم بن خالد الزنجی
(مفتیِ مکہ) نے امام شافعی سے فرمایا: اے ابو عبد اللہ لوگوں کو فتوی دو، واللہ
تمہارے لئے اب وہ وقت آ پہنچا ہے کہ تم لوگوں کو فتوی دو – جبکہ امام شافعی صرف 15
سال کے تھے"[19]۔ یہ
واقعہ غالباً 165ھ کا ہے۔
امام مالک کی مجلسِ
درس میں:
امام شافعی کے بیان سے واضح ہوچکا کہ اُنہوں نے ابتدائی
تعلیم کی تحصیل مکہ مکرمہ میں کی تھی اور بعد ازاں حدیث و فقہ کی تعلیم بھی وہیں
کے فقہا و محد ثین سے حاصل کی۔ اِس کے بعد وہ شعر و ادب سے وابستہ ہوئے اور ایام
عرب میں انتہائے کمال حاصل کرلیا، اِنہی دنوں میں آپ بنو ہذیل کے اشعار سنایا کرتے
تھے۔ مگر یہاں ایک دم سے زندگی نے رخ بدلا اور ایک بزرگ کی نصیحت سے مدینہ منورہ
جاکر امام مالک کی شاگردی اختیار کرلی۔ خود
فرماتے ہیں کہ:
"
اُس
زمانہ میں آل زبیر کے ایک صاحب میرے پاس سے گزرے اور کہنے لگے کہ یہ بات مجھے بہت
گراں گزر رہی ہے کہ تم اِس فصاحت اور ذکاوت کے ہوتے ہوئے تفقہ سے محروم رہو اور تم
کو دینی سیادت حاصل نہ ہو۔ میں نے کہا کہ تحصیل فقہ کے لیے کس کے پاس جاوں؟ اُنہوں
نے کہا: "هذا مالك سيد المسلمين اليوم"
(اُن کا اشارہ مدینہ منورہ کے امام مالک کی جانب
تھا)۔ اِس کے بعد میں نے 9 راتوں میں موطاء امام مالک کو یاد کرلیا اور امیر مکہ
سے ایک خط امام مالک کے نام اور ایک خط امیر مدینہ کے نام لیا اور مدینہ پہنچا
(ایک روایت میں ہے کہ ایک خط مسلم بن خالد الزنجی سے بھی لکھوایا امام مالک کے
نام)۔ امیر مدینہ کو امیر مکہ کا خط دے کر کہا کہ آپ یہ خط کسی کے ذریعہ سے امام
مالک تک پہنچا کر اُن کو بلائیں اور میرے بارے میں سفارش کریں۔ امیر مدینہ نے کہا
کہ کیا اچھا ہو کہ ہم خود ہی آپ کے ساتھ اُن کی خدمت میں حاضر ہوں اور اُن کے
دروازے پر اِتنی دیر بیٹھیں کہ وادی عقیق کا گردو غبار ہم پر پڑے، پھر اندر اجازت
ملے۔ بہرحال عصر کے بعد امیر مدینہ اپنے حشم و خدام کو لے کر نکلا اور میں بھی
ساتھ تھا۔ ہم سب وادی عقیق میں پہنچے جہاں امام مالک کا مکان تھا، اور اجازت چاہی
۔ اندر سے کنیز نے کہا کہ شیخ کہتے ہیں کہ اگر آپ کو مسائل معلوم کرنے ہیں تو ایک
کاغذ پر لکھ کر بھیج دیں، میں جواب دے دوں گا۔امیر مدینہ نے کہا کہ ایک ضرورت کے
سلسلہ میں امیر مکہ نے خط لکھا ہے، کنیز یہ سن کر اندر چلی گئی، تھوڑی دیر کے بعد
خود امام مالک باہر آئے اور امیر مدینہ نے امیر مکہ کا خط دیا۔ امام مالک نے خط
پڑھنا شروع کیا اور جب سفارشی عبارت پر آئے تو کہا: "سبحان اللہ! رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کا علم وسیلوں اور سفارشوں سے حاصل کیا جانے لگا ہے۔" میں نے
دیکھا کہ امیر مدینہ امام مالک سے بات کرتے ہوئے گھبرا رہا ہے تو خود آگے بڑھ کر
کہا کہ میں مطلبی آدمی ہوں (یعنی آل مطلب سے) اور میرا واقعہ یہ ہے (یعنی اشارہ
اُس سفارش کی جانب تھا)۔ امام مالک نے میری باتیں سن کر تھوڑی دیر میری طرف دیکھا
اور نام پوچھا، میں نے بتایا کہ میرا نام محمد ہے، امام مالک نے نے کہا کہ:"
محمد! اللہ سے خوف کرو اور گناہوں سے بچو، کیونکہ آئندہ تم بہت باحیثیت بنو گے۔"
پھر کہا: "ٹھیک ہے تم کل آنا اور اپنے ساتھ ایسے آدمی کو لانا جو تمہارے لیے
موطاء پڑہے، میں نے کہا کہ میں خود اُس کی قرات کروں گا۔ چنانچہ میں امام مالک کے
حلقہ درس میں شامل ہوکر موطاء امام مالک زبانی پڑھتا تھا اور کتاب میرے ہاتھ میں
ہوتی تھی۔ بعض اوقات امام مالک کی ہیبت سے پڑھنا بند کردیتا تو پڑھنے کی فرمائش
کرتے۔ اِس طرح میں نے چند دنوں میں موطاء امام مالک پڑھ لی اور امام مالک کی وفات
تک مدینہ منورہ میں مقیم رہا۔[20]
امام مالک کا سال ولادت 93ھ ہے اور اگر خیال کیا جائے کہ
امام شافعی اُن کے پاس مدینہ منورہ میں غالباً
169ھ یا 173ھ میں آئے ہوں جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ امام شافعی نے فرمایا: " أتيت مالكا وأنا ابن تسع عشرة سنة
" میں امام مالک کے پاس آیا تو میری
عمر 19 سال تھی۔[21] اور امام ذہبی نے
فرمایا: " والظاهر أنه كان ابن
ثلاث وعشرين سنة " ظاہر یہ ہوتا کہ وہ جب امام
مالک کے پاس گئے تو 23 سال کے تھے[22]۔ تو یہ زمانہ امام مالک کی
ضعیفی کا زمانہ ہے، وہ غالباً 76 سال یا 80 سال کے ہوں گے، اِسی لیے اُنہوں نے
امام شافعی سے کہا کہ اپنے لیے کسی شخص کو لے
آنا جو موطاء امام مالک کی قرات کرے، یعنی
زمانہ ضعیفی میں اُن کا قرات کرنا چھوٹ چکا ہوگا، اِسی لیے تو یہ فرمایا۔ اور یہ وقت
امام شافعی کا عین عالم شباب کا زمانہ ہے ۔ یہ
مسلمہ ہے کہ جب 179ھ میں امام مالک کی وفات ہوئی تب امام شافعی
کی عمر 29 سال تھی۔
امام مالک کی وفات ماہ ربیع الاول 179ھ مطابق جون 795ء میں
مدینہ منورہ میں ہوئی۔ تو اِس سے مراد یہ ہے کہ 179ھ تک امام شافعی مدینہ منورہ میں مقیم تھے۔
سفر یمن اور امارت
یمن:
امام مالک
کی وفات کے بعد امام شافعی مکہ مکرمہ
واپس چلے آئے۔ یہ غالباً 180ھ کا واقعہ ہے۔ مکہ مکرمہ واپسی پر امام شافعی کی عمر کے تین عشرے گزر چکے تھے اور اُن کا
عہد شباب گزر چکا تھا۔ امام مالک کی مجالس درس
میں رہ کر امام شافعی نے دینی علوم میں مہارت
تامہ حاصل کرلی تھی۔ امام مالک کی وفات کے بعد
آپ دوبارہ مکہ مکرمہ لوٹ آئے تو اِن کی دینی و علمی شہرت عام ہوگئی۔ اِسی زمانہ میں
(غالباً 180ھ یا 181ھ میں) یمن کا امیر مکہ مکرمہ آیا۔ امام شافعی بیان کرتے ہیں کہ:
"قریش کے سربرآوردہ افراد نے امیر یمن
سے بات کی تاکہ وہ مجھے اپنے ساتھ یمن لے جائے مگر میری والدہ کے پاس اِتنی رقم نہ
تھی کہ وہاں کے سفر کی تیاری کرسکتا اور لباس وغیرہ بنوالیتا، میں نے مجبوراً والدی
کی ایک چادر 16 دینار میں رہن گروی رکھ کر سامانِ سفر مہیا کیا۔ یمن پہنچ کر مجھے
ایک مقام پر مقرر کردیا گیا اور میں نے نہایت ذمہ داری کے ساتھ اور سلیقہ کے ساتھ
سے مفوضہ خدمت انجام دی۔ اُس نے خوش ہوکر اور مطمئن ہوکر مجھے ترقی دی اور چند
دنوں کے بعد مزید ترقی دی اور میں نے حسن کارکردگی میں اچھی خاصی شہرت حاصل کرلی۔
اُسی زمانہ میں یمن سے عمرہ کرنے والوں کا وفد ماہ رجب میں مکہ آیا اور اُن لوگوں
نے یہاں میرا تذکرہ نہایت اچھے انداز سے کیا جس کی وجہ سے میری تعریف مکہ مکرمہ میں
بھی ہونے لگی۔جب میں یمن سے مکہ آیا اور ابن ابی یحیی (یعنی ابراہیم بن محمد بن ابی
یحیی السمعانی متوفی 184ھ) کی خدمت میں پہنچا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ اُنہوں نے
سخت لہجہ میں مجھے ڈانٹا اور کہا تم لوگ ہماری مجلس درس میں بیٹھتے ہو اور جب کسی
کو کوئی کام مل جاتا ہے تو اُس میں لگ جاتا ہے (اشارہ امارت یمن کی طرف تھا)۔ اِس
طرح کی مزید سخت باتیں کیں اور میں وہاں سے چلا آیا۔ اِس کے بعد میں امام سفیان
ابن عیینہ کے پاس گیا، میں نے اُن کو سلام کیا، اُنہوں نے خندہ پیشانی سے مرحبا
کہا محبت سے پیش آئے اور کہا کہ ہم کو تمہارے امیر ہونے کی اطلاع مل گئی تھی، مگر
تم نے وہاں رہ کر علم دین کی اشاعت نہیں کی اور اللہ کی طرف سے تم پر جو ذمہ داری
ہے اُس کو پورے طور پر پورا نہیں کیا، اب وہاں نہ جانا۔ امام سفیان ابن عینیہ کی
نصیحت میرے لیے ابن ابی یحییٰ کی باتوں سے زیادہ کارگر ثابت ہوئی"۔[23]
اگر اِس واقعہ پر غور کیا جائے تو
معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی 180ھ میں یمن گئے
اور غالباً 182ھ یا 183ھ میں واپس مکہ آئے ہوں گے جو ابن
ابی یحیی کی خدمت میں پہنچے، اور ایسا ممکن بھی ہے کیونکہ 179ھ تک آپ مدینہ
منورہ سے باہر نہیں نکلے اور 180ھ میں مکہ مکرمہ آئے اور امارت یمن پر 187ھ تک
فائز رہے۔ مکہ مکرمہ میں آپ کی ملاقات امام ابن ابی یحییٰ
سے 182ھ یا 183ھ میں ہوئی ہوگی کیونکہ اُن کی وفات 184ھ میں مکہ مکرمہ میں
ہوئی۔
یمن میں آپ سرکاری عہدہ پر فائز تو
رہے مگر زیادہ عرصہ مقامی رقابتوں اور سازشوں کی وجہ سے یہ منصب آپ نے چھوڑ دیا۔
187ھ مطابق 803ء میں مخالفین نے آپ پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ آپ در پردہ زیدی
مدعیِ خلافت یحییٰ بن عبداللہ کے حامی و حمایتی ہیں۔ اس الزام کی پاداش میں آپ کو
گرفتار کرکے مقام الرقہ لایا گیا جہاں عباسی خلیفہ ہارون
الرشید موجود تھا۔ خلیفہ کے سامنے آپ کو پیش کیا گیا تو ہارون الرشید نے آپ کے دلائل و براہین سنتے ہوئے آپ
کو بے قصور قرار دیا اور رہا کردیا۔ ہارون الرشید آپ
کے حسن بیان اور وسعتِ علم سے بہت متاثر ہوا۔ وہیں آپ کی ملاقات امام محمد بن حسن شیبانی متوفی 189ھ سے ہوئی اور یہ
ملاقات گہرے مراسم میں تبدیل ہوگئی۔ آپ نے کئی کتب امام محمد
بن حسن شیبانی کی اپنے لیے نقل کرلیں۔ کم و بیش آپ امارت یمن کے عہدہ پر
سات سال فائز رہے یعنی 180ھ سے 187ھ تک۔
امام محمد بن حسن شیبانی
کی مجلس درس میں
مورخین کے مطابق آپ کی امام محمد بن حسن شیبانی سے ملاقات الرقہ سے واپسی پر
187ھ مطابق 803ء میں بغداد شہر میں ہوئی تھی مگر بعض کا خیال ہے کہ امام شافعی کو امام سفیان
ابن عیینہ نے نصیحت کی تھی کہ بغداد جاکر امام محمد
بن حسن شیبانی سے تعلیم فقہ کی تکمیل کرو۔ پہلا بیان قوی ہے کیونکہ
187ھ مطابق 803ء میں آپ الرقہ سے واپسی پر
عراق داخل ہوئے اور یہاں کم و بیش ایک سال تک مقیم رہے۔ امام محمد بن حسن شیبانی امام ابوحنیفہ
کے تلمیذ خاص تھے اور عراق میں اُن کے علم و تفقہ کے نمائندہ خاص اور مبلغ و ناشر تھے۔
قاضی ابو یوسف صاحبِ امام ابوحنیفہ امام شافعی کے بغداد میں آمد سے قبل ہی اِنتقال کرچکے تھے۔
امام شافعی
کا قول ہے کہ: " ما رأيت أعقل من محمد بن الحسن " میں نے محمد بن
الحسن سے زیادہ عقل مند شخص نہیں دیکھا۔[24]
مزید کہتے ہیں کہ: " ما رأيت سمينا أخف روحا
من محمد بن الحسن، وما رأيت أفصح منه، كنت إذا رأيته يقرأ كأن القرآن نزل بلغته " "میں
نےمحمد بن الحسن سے زیادہ ہلکی چال چلنے والا کوئی موٹا نہیں دیکھا، اور نہ ان سے
زیادہ کوئی فصیح دیکھا ہے۔ جب میں انہیں قرآن کی قراءت کرتے دیکھتا تو یوں معلوم
ہوتا گویا قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے (یعنی ان کی فصاحت کی وجہ سے)"[25]
اور فرمايا: " أمن الناس علي في الفقه
محمد بن الحسن " " فقہ میں لوگوں میں مجھ
پر سب سے زیادہ احسان محمد بن الحسن نے کیا ہے"[26]
اور فرمايا: " ما ناظرت أحدا إلا
تمعر وجهه ما خلا محمد بن الحسن " میں نے جس سے بھی
مناظرہ کیا اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ما سوائے محمد بن الحسن کے۔[27]
امام شافعی
نے اپنی شاگردی کا ثبوت اِن الفاظ میں دیا ہے کہ: " حملت عن محمد بن الحسن وقر بختي كتبا " "میں نے
امام محمد بن حسن شیبانی سے ایک اونٹ کے بھار کے برابر حدیث سنی ہے۔"[28]
امام شافعی
فرماتے ہیں کہ: " أنفقت على كتب محمد بن
الحسن ستين دينارا، ثم تدبرتها، فوضعت إلى جنب كل مسألة حديثا، يعني: ردا عليه " میں نے امام محمد بن حسن شیبانی کی کتابوں پر 60
دینار خرچ کر کے اُن کو حاصل کیاپھر ان میں تدبر کیا، اور اُن کے ہر مسئلہ کے پہلو
میں (اس کے رد میں) دلیل کے لیے حدیث لکھی۔[29]
ابو حسان الزیادی کہتے
ہیں کہ میں نے امام محمد بن حسن شیبانی کو اہل
علم کی اتنی زیادہ تعظیم کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنی تعظیم وہ امام شافعی کی کیا کرتے تھے۔ ایک دن امام محمد بن حسن شیبانی کہیں جانے کے لیے سواری پر بیٹھ
گئے تھے، اِسی حال میں امام شافعی آ گئے۔ امام محمد
بن حسن شیبانی فوراً سفر ملتوی کرکے گھر آ گئے اور رات گئے تک امام شافعی کے ساتھ رہے اور اِس درمیان میں کسی تیسرے شخص
کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی۔ [30]
امام شافعی
کا آخری تعلیمی سفر بغداد میں امام محمد بن حسن شیبانی کی درسگاہ پر منتہا
ہوا۔ بغداد سے آپ نے اپنے فقہی آراء اور اقوال مرتب کیے جن کو اقوال قدیمہ کہا
جاتا ہے۔ قاضی عیاض مالکی لکھتے ہیں کہ:
" الشافعي... سمع الموطأ
من مالك، وسرّ به مالك. ثم سار الشافعي إلى العراق، فلزم محمد بن الحسن وناظره على
مذهب أهل المدينة. وكتب كتبه ورتب هناك قوله القديم، وهو كتاب الزعفراني
" "امام شافعی نے امام مالک سے موطاء امام مالک کا سماع کیا
جس سے امام مالک خوش ہوئے۔ پھر امام شافعی عراق جا کر امام محمد بن حسن شیبانی کے یہاں
رہ گئے۔ اہل مدینہ کے مذہب کے بارے میں اُن سے بحث و مذاکرہ کیا اور امام محمد بن
حسن شیبانی کی کتابیں لکھ لیں (یعنی نقل کیں) اور وہیں اپنا قول قدیم مرتب کیا جو
زعفرانی کی کتاب میں ہے۔"[31]
عراق میں قیام
187 ھ
مطابق 803ء میں الرقہ سے واپسی پر آپ عراق ٹھہرے۔ یہاں آپ کو علمی و فقہی
ماحول میسر آیا۔ اِس ماحول سے فائدہ اُٹھاتے
ہوئے آپ نے اپنے لیے تحصیل علوم شرعیہ کی راہ پسند فرمائی اور فقہی مسائل میں درک
حاصل کرنے کے لیے کمر بستہ ہوگئے۔ عراقی فقہا سے تبادلہ خیالات اور بعض اوقات
مناظروں نے امام شافعی کے فکر و عمل پر گہرے
نقوش ثبت کیے۔ 188ھ مطابق 804ء میں آپ عراق کو اپنے لیے ناموزوں قرار دیتے ہوئے
حران اور شام سے ہوتے ہوئے دوبارہ مکہ مکرمہ آگئے۔ یہاں ابتداء میں اِنہیں امام
مالک کا شاگرد ہونے کی حیثیت سے بہت پرتپاک استقبال و خیرمقدم کیا گیا۔ حرم مکہ
مکرمہ میں آپ نے مجلس درس شروع کی اور فقہی جزئیات میں جب امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے
اختلافات کا ذکر کرتے تو طلبا بہت متاثر ہوتے۔ البتہ اِن اختلافات کے باعث بہت سے
حضرات مالکیہ آپ سے مایوس بلکہ بدظن ہوگئے۔
مشائخ
امام شافعی
نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بغداد میں تحصیل علم کی تکمیل کی اور اُس
زمانہ کے مشاہیر و آئمہ علم دین سے اکتساب فیض کیا۔ اِن مشہور اُساتذہ میں سے چند یہ
ہیں:
مقری اسماعیل بن قسطنطین
المکی (متوفی 190ھ) — یہ
مقری و قاری اسماعیل بن عبداللہ بن قسطنطین المکی
ہیں۔ مکہ مکرمہ میں یہ امام شافعی کے پہلے استاد
ہیں جن سے امام شافعی نے سات سال کی عمر میں
حفظ قرآن کریم اور تجوید کی تعلیم حاصل کی۔ بنی مخزوم کے غلام تھے اور "قسط"
کے لقب سے مشہور تھے۔ 100ھ میں مکہ مکرمیں ہی پیدا ہوئے اور 90 سال کی عمر میں
190ھ میں اِن کا اِنتقال مکہ مکرمہ میں ہوا۔ تابعی ابن
کثیر کے آخری شاگرد تھے۔
محمد بن علی بن شافع— امام
شافعی نے اِن سے مکہ مکرمہ مین تعلیم حاصل کی۔
یہ امام شافعی کے چچا ہیں، نسب یوں ہے: محمد بن علی بن شافع بن سائب بن عبید المطلبی قریشی الہاشمی۔
اِنہوں نے عبداللہ بن علی بن سائب بن عبید،
اور امام شہاب الدین الزہری متوفی 124ھ سے حدیث
روایت کی تھی۔ ثقہ اور محدث تھے۔
مسلم بن خالد الزنجی
(متوفی 181ھ) — یہ امام شافعی
کے مکی استاد ہیں۔ نام ابو خالد مسلم بن خالد
بن فروہ الزنجی المخزومی ہے۔ فقیہ مکہ اور شیخ الحرم تھے۔ عابد و زاہد اور
صائم الدہر بزرگ تھے۔ فقہ میں فقیہ مکہ عبدالملک بن
عبدالعزیز ابن جُریج کے شاگرد تھے۔ امام شافعی
نے اِنہی سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اور اِنہی کی اجازت سے مسند افتاء پر بیٹھے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں
لکھا ہے کہ: "امام مالک کی ملاقات سے قبل ہی امام شافعی نے اِنہی سے فقہ کی تعلیم حاصل کی"
۔شمس الدین داودی نے لکھا ہے کہ : امام شافعی نے
مسلم الزنجی سے فقہ کی تعلیم پائی ہے۔
الحافظ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا
ہے کہ: مسلم
الزنجی نے ہی امام شافعی کو فتویٰ دینے کی اجازت دی تھی۔ سمعانی نے لکھا ہے کہ: مسلم الزنجی سے امام شافعی نے علم
الحدیث و علم فقہ سیکھا اور امام مالک کی ملاقات سے قبل شافعی اِن ہی کے حلقہ میں
بیٹھتے تھے۔
امام مالک بن انس (متوفی
179ھ)— امام
دارالہجرۃ کے لقب سے مشہور ہیں۔ نام مالک بن انس اصبحی
ہے۔ 93ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ربیع الاول 179ھ مطابق جون 795ء
میں فوت ہوئے۔ امام شافعی کے مدنی استاد ہیں۔
اِن کی ذات سے امام شافعی کو بے حد فیض پہنچا۔
امام شافعی خود لکھتے ہیں کہ جب امام مالک کو
کسی حدیث میں شک ہوجاتا تو اُس حدیث کو ہی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ ان کی حدیث میں
مشہور تصنیف موطاء امام مالک ہے جسے امام شافعی نے مکہ مکرمہ میں ہی حفظ کرلیا تھا اور مدینہ
منورہ میں موطاء امام مالک کو امام مالک کے سامنے پڑھا۔
ابراہیم بن ابو یحیی
الاسلمی المدنی (متوفی 184ھ)— یہ
فقیہ ومحدث ابو اسحاق ابراہیم بن محمد بن ابویحیی
السمعانی الاسلمی المدنی ہیں۔ امام شافعی کے
مدنی شیوخ میں سے ایک ہیں۔ 184ھ میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ اِنہوں نے امام مالک کی موطاء امام مالک
جیسی کئی گنا طویل کتاب الموطاء تصنیف کی تھی۔ البتہ محدثین کے نزدیک مجروح
و متہم ہیں۔ ابن حبان اِن کے متعلق کہتے ہیں
کہ: امام
شافعی اِن کی مجلس درس میں نو عمری میں بیٹھا کرتے تھے۔ محدث الساجی کہتے ہیں کہ : امام شافعی نے اِن سے احکام سے متعلق
کوئی حدیث نہیں لی بلکہ فضائل میں اِن سے روایت کیا ہے۔
امام سفیان بن عیینہ
(متوفی 198ھ)— 107ھ میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے
اور 198ھ میں فوت ہوئے۔ امام شافعی کے مکی
استاد ہیں۔ بہت بڑے مرتبہ و مقام کے مالک تھے۔
اِن کے متعلق خود امام شافعی فرماتے ہیں کہ : اگر امام مالک
بن انس اور سفیان بن عینیہ نہ ہوتے تو حجاز سے علم کا خاتمہ ہی ہوگیا ہوتا۔
مزید فرماتے ہیں کہ: وہ (یعنی امام سفیان بن عیینہ) حجاز کی احادیث کے سب سے بڑے
عالم تھے، میں نے اُن سے بہتر حدیث کی تشریح کرنے والا نہیں دیکھا۔ میں نے امام
مالک کے یہاں احکام کی تمام احادیث 30 احادیث کے علاوہ پائیں اور اُن 30 احادیث میں
سے 6 کے علاوہ سب کو امام سفیان بن عیینہ کے یہاں پایا۔
امام محمد بن حسن شیبانی
صاحب ابو حنیفہ (متوفی 189ھ)— یہ
امام شافعی کے بغدادی استاد ہیں۔ 189ھ میں
بغداد میں فوت ہوئے۔ امام ابوحنیفہ کے تلامذہ
میں سے ہیں اور صاحب ابو حنیفہ کے لقب سے مشہور ہیں۔ اِنہوں نے خود مدینہ منورہ میں
امام مالک بن انس کی شاگردی اِختیار کی تھی گویا
یہ امام شافعی کے استاد بھی ہیں اور استاد
بھائی بھی۔ علم الحدیث اور علم فقہ میں جامع سمجھے جاتے تھے۔
اِن اساتذہ کے علاوہ مشہور اساتذہ یہ
ہیں:
ابراہیم بن سعد،
سعید بن سالم القراح، عبدالوہاب بن عبدالمجید الثقفی، اسماعیل
بن عُلَیہ، ابو ضمرہ، حاتم بن اسماعیل، ابراہیم
بن محمد بن ابو یحییٰ، محمد بن خالد الجندی،
اسماعیل بن جعفر، عمر
بن محمد بن علی بن شافع، عطاف بن خالد المخزومی،
ہشام بن یوسف الصنعانی، عبدالعزیز بن ابوسلمہ، ماجشونی،
یحییٰ بن حسان، مروان
بن معاویہ، محمد بن اسماعیل، ابن ابی فدیک، ابن ابی
سلمہ، امام قعنبی، فضیل بن عیاض، امام
داود بن عبدالرحمٰن، عبدالعزیز بن محمد دَراوردی،
عبدالرحمٰن بن ابوبکر ملیکی، عبداللہ بن مومل المخزومی، ابراہیم
بن عبدالعزیز بن ابو محذورہ، عبدالمجید بن
عبدالعزیز بن ابورداد، محمد بن عثمان بن صفوان
الجُمحی، اسماعیل بن جعفر، مطرف بن مازن، ہشام بن یوسف،
یحییٰ بن ابوحسان تینسی۔
عالم شباب میں
جامعیت
امام شافعی
نے نو عمری میں ہی فقہ فتویٰ، حدیث و تفسیر، تعبیر الرویاء ، ایام عرب،
اشعارِ عرب ، نحو و عربیت ، تیراندازی اور شہ سواری میں شہرت کی حد تک کمال حاصل
کرلیا تھا۔ حتیٰ کہ آپ کے شیوخ و اصحاب معاصرین بھی آپ کے معترف ہوگئے تھے۔
20 سال سے کم ہی عمر میں آپ کے استاد مسلم بن خالد الزنجی نے آپ کو فتویٰ دینے کی اجازت
دے دی تھی۔
ان کے دوسرے استاد
امام مالک نے فرمایا: " ما يأتيني قرشي أفهم من هذا الفتى
-يعني الشافعي" "میرے پاس کوئی قرشی اس
نوجوان سے زیادہ سمجھ دار نہیں آیا – مراد شافعی تھے۔"[32]
آپ کے ایک اور اہم
استاد امام سفیان بن عیینہ کے پاس تفسیر یا
فتوی کے لئے کوئی سوال آتا تو آپ امام شافعی کی
طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے: " سلوا هذا"
اس سے پوچھو[33]۔
بشر مریسی جو
ایک متکلم اور مبتدع شخص تھے اور ان سے امام شافعی نے
مناظرے بھی کیے، وہ بھی جب حج سے واپس ہوکر بغداد پہنچے تو اپنے
دوستوں کو بتانے لگے کہ: میں نے مکہ میں ایک (قریشی) جوان کو دیکھا ہے، میں نے اس جیسا
عقل مند نہیں دیکھا، وہ سوال کرے یا جواب دے (میں نے دونوں میں اسے بے مثال پایا)
(اُس قریشی جوان سے مراد امام شافعی تھے)[34]۔
امام عبدالرحمٰن
بن مہدی نے جب امام شافعی کو اُن کے
عہد شباب میں ایک مکتوب لکھا کہ آپ میرے لیے ایک کتاب لکھیں جس میں حدیث کے جملہ
فنون، اجماع اور کتاب و سنت میں ناسخ و منسوخ کا بیان ہو تو امام شافعی نے اپنی مشہور کتاب " الرسالۃ" تصنیف
کی۔ امام عبد الرحمن بن مہدی کہتے ہیں میں جب
بھی نماز پڑھتا ہوں تو اس میں شافعی کے لئے
دعا کرتا ہوں۔[35]
بغداد آمد
امام حسن
بن محمد زعفرانی کا قول ہے کہ: امام شافعی 195ھ
میں بغداد آئے۔ اس وقت ان کے بالوں میں خضاب لگا ہوا تھا۔ اِس بار 2 سال تک آپ
ہمارے یہاں مقیم رہے ، پھر مکہ چلے گئے اور دوبارہ 198ھ مطابق 814ء میں آئے اور ہمارے
پاس چند مہینے ٹھہر کر واپس ہو گئے اور پھر آپ مصر چلے گئے۔[36]
بغداد میں ان کے
حلقہِ علم کے بارے میں کرابیسی کہتے ہیں:
"میں
نے کوئی مجلس شافعی کی مجلس سے زیادہ پروقار نہیں دیکھی۔ ان کی مجلس میں اہل حدیث،
اہل فقہ، اور اہل شعر سب حاضر ہوتے تھے۔ اور فقہ وشعر کے کبار ماہرین بھی ان کے
پاس آتے اور ان سے علم حاصل کرتے اور مستفید ہوتے" ۔[37]
ابو الفضل الزجاج کا
بیان ہے کہ "جس وقت امام شافعی بغداد میں تشریف لائے ، وہاں کی جامع مسجد میں چالیس، پچاس
علمی اور درسی حلقے جاری تھے اور امام شافعی ایک ایک حلقہ میں بیٹھ کر حاضرین سے
کہتے تھے: قال اللہ اور قال الرسول ، اور وہ لوگ قال اصحابنا کہتے تھے۔ نتیجہ یہ
ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد مسجد میں اُن کے حلقہ کے علاوہ کوئی حلقہ باقی نہیں رہ گیا
تھا۔"[38]
خود امام شافعی
کا قول ہے کہ: میں بغداد میں "ناصر الحدیث" کے لقب سے مشہور ہوگیا
تھا۔[39]
مورخین کا بیان ہے کہ امام شافعی پہلی بار بغداد میں 195ھ مطابق 811ء میں آئے
مگر یہ بیان درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ آپ پہلی بار عراق میں داخلہ کے سال یعنی187ھ
مطابق 803ء میں آئے جب ہارون الرشید خلیفہ
تھا۔ دوسری آمد بغداد میں 195ھ مطابق 811ء میں ہوئی اِسی کے متعلق زعفرانی کا قول ہے اور بغداد میں آپ کی تیسری آمد
198ھ مطابق 814ء میں ہوئی جس کے متعلق بھی زعفرانی کا
قول اوپر گزر چکا۔ ان شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی
بغداد میں تین بار آئے۔
قیام بغداد میں آپ کے مشہور تلامذہ میں
سے ایک امام احمد بن حنبل (متوفی 241ھ) ہیں۔ ایک
مرتبہ کسی نے احمد بن حنبل کو شافعی کے ساتھ اِس حال میں دیکھا ہے کہ شافعی ایک خچر پر سوار ہیں اور امام احمد رکاب تھامے ہوئے پیدل چل رہے ہیں۔ جب یہ بات
امام یحیی بن معین کو پہنچی تو انہوں نے امام احمد کو پوچھا: "سبحان اللہ، کیا آپ کا دماغ خراب ہو
گیا ہے جو آپ شافعی کی سواری کی جانب ہو
کر پیدل رہے ہیں؟" تو اُنہوں نے کہا کہ: "اگر شافعی کی
سواری کی دوسری رکاب کو آپ تھام لیں تو آپ کے لئے بہتر ہو گا۔" پھر
کہا: "جو شخص فقیہ بننا چاہتا ہے تو اس خچر
کی دُم کی بُو سونگھ لے (یعنی شافعی کے
پیچھے پیچھے چلے)"[40]۔
دوسری روایت جو خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں نقل کی ہے اُس میں
ہے کہ: صالح بن احمد بیان کرتے ہیں کہ میرے
والد احمد بن حنبل کو امام شافعی کی سواری کے
ساتھ جاتے ہوئے یحییٰ
ابن معین نے دیکھا تو اُن کے پاس کہلا بھیجا کہ ابو عبداللہ (احمد بن حنبل کی کنیت
ہے) آپ شافعی کی سواری کے ساتھ چلنے کو پسند کرتے ہیں؟ والد نے اُس کے جواب
میں کہا کہ ابو زکریا ! (یحییٰ ابن معین کی کنیت ہے) اگر آپ اُس کے بائیں جانب چلتے تو زیادہ
فائدہ میں رہتے۔ [41]
امام شافعی
بغداد آئے تو ہم چھ اہم طلباء اُن کے درس میں آنے جانے لگے۔ احمد بن حنبل، ابو ثور،
الحارث النقال، ابو
عبدالرحمٰن الشافعی ، الحسن بن محمد الزعفرانی،
اور الحسین بن علی الکرابیسی ۔ یہ سب امام شافعی کی مجلس میں ان کی کتب کی قراءت کیا کرتے تھے۔
امام زعفرانی لغت کے امام تھے اس لئے امام احمد اور ابو ثور وغیرہ
نے انہیں کتب کی قراءت کے لئے چن رکھا تھا، جبکہ باقی لوگ سننے والے تھے۔ اور بعد
میں زعفرانی ہی امام شافعی
کی قدیم کتب کے راوی بنے، اور شافعی کی
کتب کی قراءت کرنے کے لئے ان کی طرف لوگ سفر کر کے آیا کرتے تھے۔[42]
زعفرانی فرماتے
ہیں: "میں جب بھی شافعی کی مجلس میں جاتا تو احمد بن حنبل کو وہیں پاتا وہ مجھ سے
پہلے پہنچ جاتے تھے۔" اور فرمایا: "ابو ثور ہمارے ساتھ شافعی کی مجلس میں
بیٹھتے تھے اور ہم شافعی کی کتب کا سماع کیا کرتے تھے۔" اسی طرح امام ساجی نے زعفرانی سے
الکرابیسی کے متعلق پوچھا توفرمایا: "میں نے انہیں
شافعی کے بغداد کے پہلے دورے (یعنی 195 ھ) میں ان کی مجلس میں نہیں دیکھا، لیکن جب
شافعی دوسرے دورے پر آئے تو انہوں نے شافعی کو لازم پکڑ لیا۔"[43]
امام احمد
بن حنبل امام شافعی کے متعلق فرماتے ہیں
کہ: " اُس قریشی نوجوان سے زیادہ کتاب اللہ کا فقیہ میری نظر سے آج تک نہیں گزرا۔"مزید
کہتے ہیں کہ: " فقہ کا قفل بے کلید لوگوں پر جس شخص نے کھولا، وہ شافعی ہی تو
تھے۔"[44]
سفر ِمصر
امام شافعی
بغداد میں دوسری بار 195ھ مطابق 811ء میں گئے۔ اور بغداد میں آپ کا قیام 2
سال رہا اور واپس مکہ مکرمہ چلے آئے۔ بغداد میں آپ کی تیسری آمد 198ھ مطابق814ء میں
ہوئی اور آپ اِس بار چند ماہ قیام کرکے199ھ یا 200ھ میں مصر چلے گئے۔ ابن
ندیم نے محمد بن شجاع کا قول نقل کیا
ہے کہ امام شافعی مصر میں 200ھ میں آئے اور یہیں
مقیم ہوئے۔ سفر مصر کے دوران میں آپ کا
غزہ شہر جانا بھی ثابت ہے۔قرآئن و شواہد سے آپ کی مصر آمد دو بار معلوم ہوتی ہے،
پہلی بار تب جب آپ بغداد سے مصر کے سفر کو تشریف لے گئے اور بروز منگل 28 شوال
198ھ مطابق 20 جون 814ء کو مصر کے شہر فسطاط پہنچے مگر وہاں فسادات کی وجہ سے آپ
دوبارہ مکہ مکرمہ چلے آئے۔ دوسری بار آپ 200ھ میں مصر پہنچے اور پھر اواخر عمر تک
وہیں مقیم رہے۔ مصر کو روانہ ہوتے ہوئے آپ نے یہ اشعار پڑہے:
لقد أصبحتْ نفسي تتوق
إلى مصرِ
ومن دونها قطعُ
المهامةِ والفقرِ
فوالله ما أدري، الفوزُ
والغنى
أُساق إليها أم أُساق
إلى القبرِ
میرا نفس مصر جانے کے شوق
میں ہے
حالانکہ اِس سفر میں بڑی
مشکلات ہیں۔
واللہ! مجھے معلوم نہیں
کہ اطمینان و اِستغناء کے لیے وہاں جا رہا ہوں
یا قبر میں جانے کے لیے۔
چنانچہ امام شافعی
کے اِن اشعار سے آپ کی پیشگوئی ثابت ہوگئی کہ آپ وہاں مستغنی بھی ہوئے اور
وہیں فوت بھی ہوئے۔قاضی عیاض مالکی نے سعید بن عبداللہ بن عبدالحکم المصری کے بیان کو نقل
کیا ہے کہ جس وقت امام شافعی ہمارے یہاں مصر میں
آئے تو سخت قلت و افلاس میں تھے۔ میرے بھائی محمد نے
بعض مالداروں سے پانچ سو دینار وصول کیے اور والد صاحب نے پانچ سو دینار دئیے ،
اِس طرح ایک ہزار دینار امام شافعی کی خدمت میں
پیش کیے۔ دوسری روایت میں ہے عبداللہ بن عبدالحکم
المصری نے خود ایک ہزار دینار دئیے اور اپنے دوستوں سے دو ہزار دینار وصول
کرکے کل تین ہزار دنانیر امام شافعی کی خدمت میں
پیش کیے۔ امام شافعی کو مصر میں عبداللہ بن عبدالحکم سے خصوصی تعلق تھا اور یہ تعلق
تا وفات قائم رہا۔ حتیٰ کہ اُن ہی کے گھر وفات پائی۔ روزانہ عبداللہ بن عبدالحکم کے گھر چلے جایا کرتے اور اگر
وہ گھر موجود نہ ہوتے تو دریافت کرکے اُن کے پاس جاتے تھے۔مصر میں امام شافعی کو عبداللہ بن
عبدالحکم سے خاص تعلق رہا جو مصر کے مشہور عالم اور امام مالک کے مسلک کے امام تھے۔ اُن کے بیٹے کا بیان ہے
کہ امام شافعی روزانہ ہمارے یہاں سے امام مالک کی کتابوں کے دو اجزاء لے جاتے اور دوسرے دن
اُن کو واپس کردیا کرتے تھے اور مزید دوسرے دو اجزاء لے جایا کرتے ۔ یہ سلسلہ مدت
مدید جاری رہا۔ عبداللہ
ابن عبدالحکم کے مکان پر بھی امام شافعی جایا
کرتے تھے، اُن کے بھائی سعد بن عبداللہ کا بیان
ہے کہ بسا اوقات امام شافعی سواری پر ہمارے یہاں
آتے اور مجھ سے کہتے کہ محمد کو بلاؤ، میں اُن
کو لے آتا اور اُن کے ساتھ جاتے اور دیر تک رہتے اور وہیں قیلولہ بھی کرتے تھے۔
امام شافعی
جب مصر آئے تو اُس کا سن قریباً 50 سال کے قریب قریب تھا۔ ابن ندیم کے قول کے مطابق تسلیم کیا جائے تو امام
شافعی صرف چار سال یعنی 200ھ سے 204ھ تک مصر میں مقیم رہے۔
خلافتِ عباسیہ اور
خلفاء
امام شافعی
نے اپنی حیات مبارکہ میں کل 6 عباسی خلفاء کا زمانہ دیکھا جو یہ ہیں:
·
ابو جعفر المنصور :— 10 جون 754ء تا 6 اکتوبر
775ء۔
·
محمد المہدی :— 6 اکتوبر 775ء تا 24
جولائی 785ء۔
·
موسیٰ الہادی:— 24 جولائی 785ء تا 14
ستمبر 786ء۔
·
ہارون الرشید:— 14 ستمبر 786ء تا 24
مارچ 809ء۔
·
امین الرشید:— 24 مارچ 809ء تا 27
ستمبر 813ء۔
·
مامون الرشید:— 27 ستمبر 813ء تا 7
اگست 833ء۔
خلیفہ مامون
الرشید کی خلافت کے چھٹے سال میں امام شافعی فوت
ہوئے۔
وفات وتدفین
امام شافعی
کو اواخر ایام میں مرض بواسیر ہوا
اور اسی مرض کی شدت سے آپ نے بعمر 54 سال بروز جمعرات 29رجب 204ھ مطابق 19
جنوری 820ء کو مصر کے شہر فسطاط میں بوقت عشاء وفات پائی۔ آپ کی تدفین بروز جمعہ
30 رجب204ھ مطابق 20 جنوری 820ء کو مغرب کی نماز کے بعد جبل مقطم کے قریب قرافہ
صغریٰ میں کی گئی۔وصیت کے مطابق اواخر ایام عبداللہ
بن الحکم کے پاس گزارے اور وہیں اِنتقال کیا۔ امیر مصر نے نماز جنازہ پڑھائی
اور عبداللہ بن الحکم کے بیٹوں نے تجہیز و تکفین
کی سعادت پائی۔امام شافعی کے شاگرد ربیع بن سلیمان مرادی کہتے ہیں کہ امام شافعی کی تدفین سے واپسی پر میں نے شعبان کا چاند دیکھا
تھا اور رات میں امام شافعی کو خواب میں دیکھا
تو پوچھا: اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ امام صاحب نے بتایا کہ اللہ
تعالیٰ نے مجھے نور کی کرسی پر بٹھایا۔ امام شافعی کے
فرزند عثمان بن محمد کہتے ہیں کہ والد کی عمر
بوقت اِنتقال 58 سال کی تھی۔
بعض مورخین نے آپ کی تاریخ وفات کا تعین
ماہِ رجب کا اِختتام کہا ہے اور دن میں مختلف اقوال ہیں کہ جمعرات تھا یا جمعہ۔
البتہ امام شافعی کے شاگرد ربیع بن سلیمان مرادی کا قول زیادہ قوی ہے ان دونوں
روایات کو جمع کرلیا جائے تو صحیح یوں معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی کی وفات بروز جمعرات 29 رجب 204ھ مطابق 19
جنوری 820ء کو بوقت عشاء ہوئی اور تدفین اگلے روز جمعہ 30 رجب 204ھ مطابق 20 جنوری
820ء کو بعد از نماز مغرب کی گئی اور بقول ربیع بن سلیمان
مرادی کہ واپسی پر شعبان کا چاند نظر آیا۔
امام شافعی
کے فرزند کی روایت درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ تمام مورخین نے آپ کی ولادت
اُسی مہینہ میں لکھی ہے جس مہینے امام ابو حنیفہ فوت
ہوئے یعنی ماہ رجب 150ھ مطابق اگست 767ء۔ ماہ رجب 150ھ سے ماہ رجب204 ھ تک مکمل 54
سال ہوتے ہیں نہ کہ 58 سال۔ابو الفتح بن نحوی کہتے
ہیں کہ مجھے ابوالحسن بن الصابونی المصری نے
بتایا کہ ابو عبداللہ الشافعی کی قبر مبارک
مصر میں بیطار بلال اور برکتین کے درمیان میں دیکھی ہے، اُس کے سرہانے تانبے کی ایک
لوح آویزاں تھی جس پر یہ اشعار لکھے ہوئے تھے:
میری موت کا وقت تو آپہنچا لیکن احمق
اور خوابِ غفلت میں مبتلا لوگ کچھ اِس طرح خوش ہیں کہ گویا ہمارا یومِ مرگ تو حتمی
تھا اور دشمنوں پر یہ دن نہیں آئے گا۔
ربیع بن سلیمان مرادی کہتے
ہیں کہ امام شافعی کے بعد ہم لوگ اُن کے حلقہ
درس میں بیٹھے تھے کہ ایک اعرابی نے آ کر سلام کیا اور بعد سلام کے سوال کیا: اِس
حلقہ کے شمس و قمر کہاں ہیں؟ ہم نے بتایا کہ اُن کا تو اِنتقال ہوگیا، یہ سن کر وہ
پھوٹ پھوٹ کر رویا اور یہ الفاظ کہہ کر چلا گیا: "اللہ تعالیٰ اُس پر رحم
فرما اور اُس کی مغفرت فرما، کس خوبی سے دلیل و حجت کی گتھیوں کو اپنے بیان سے
سلجھاتا تھا، اپنے مقابل کو واضح دلیل سے ہدایت دیتا تھا، شرمندہ چہروں سے عار کو
دھوتا تھا، اپنے اِجتہاد سے مسائل کے بند دروازے کھولتا تھا۔"
اولاد
امام شافعی
کی اولاد کے متعلق ابن حزم نے لکھا ہے
کہ آپ کے 2 صاحبزادے تھے، ایک ابوالحسن محمد جو
علاقہ قنسرین اور عواصم میں قاضی تھے، اِنہوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی اور دوسرے عثمان تھے جو احمد بن
حنبل کے شاگرد ہوئے، اِن سے بھی اولاد کا سلسلہ منقطع رہا۔
علامہ تاج
الدین سبکی نے طبقات الشافعیۃ الکبریٰ میں لکھا ہے کہ امام شافعی کے 2
صاحبزادے تھے : ایک قاضی ابو عثمان محمد اور
دوسرے ابو الحسن محمد، ابو عثمان بڑے تھے اور امام شافعی کے اِنتقال کے وقت مکہ میں تھے، یہ اپنے والد امام شافعی، امام سفیان بن عیینہ،
امام عبدالرزاق صاحب المصنف، اور احمد بن حنبل سے روایت کیا کرتے تھے۔ حلب میں بھی
عہدہ قضا پر فائز رہے، اِن کی تین اولادیں ہوئیں: عباس، ابوالحسن،
اور ایک بیٹی فاطمہ۔ عباس
اور ابوالحسن تو بچپن میں ہی فوت ہوگئے
تھے اور بیٹی فاطمہ سے اولاد کا سلسلہ منقطع
رہا۔ ابوعثمان محمد کا اِنتقال 240ھ مطابق
854ء میں الجزیرہ کے مقام پر ہوا۔ دوسرے صاحبزادے ابو
الحسن محمد تھے جن کی والدہ دنانیر کنیر تھیں۔ یہ بچپن میں ہی اپنے والد
امام شافعی کے ہمراہ مصر آ گئے تھے اور یہیں
مصر میں ماہ شعبان 231ھ مطابق ماہ اپریل 846ء کو فوت ہوئے۔ ابوالحسن محمد کی
ایک صاحبزادی زینب تھیں جس سے ابو محمد احمد بن محمد بن عبداللہ بن عباس بن عثمان بن شافع
پیدا ہوئے۔ یہ اپنے والد کے ذریعہ سے اپنے پر نانا امام شافعی سے روایت کیا کرتے تھے۔ آل شافع یعنی خاندان
امام شافعی میں اِن کے مثل کوئی عالم پیدا نہیں
ہوا، اِن کو اپنے نانا امام شافعی کی برکت
حاصل تھی۔
کتب امام شافعی
امام شافعی
نے اصول فقہ اور فروعِ فقہ میں کئی کتابیں تصنیف کیں، جن کا ذکر امام بیہقی رحمہ اللہ نے مناقب الشافعی میں کیا ہے۔ ان
میں سے چند درج ذیل ہیں:
امام شافعی
کی اصولی کتب:
1-
كتاب الرسالة القديمة.
2-
كتاب الرسالة الجديدة.
3-
كتاب اختلاف الأحاديث.
4-
كتاب جماع العلم.
5-
كتاب إبطال الاستحسان.
6-
كتاب أحكام القرآن.
7-
كتاب بيان فرض الله، عز وجل.
8-
كتاب صفة الأمر والنهي.
9-
كتاب اختلاف مالك والشافعي.
10- كتاب اختلاف العراقيِّين.
11- كتاب الردّ على محمد بن
الحسن.
12- كتاب عليّ وعبد الله.
13- كتاب فضائل قريش.
فروعِ فقہ میں امام شافعی کی کتب:
1- كتاب الأم
امام شافعی
نے فروع میں کئی مختصر کتب ورسائل لکھے ہیں جن سب کو ایک کتاب میں اکٹھا کر
کے انہیں کتاب الام کا نام دیا گیا ہے۔ اصلا کتاب الام میں موجود تمام ابواب
وکتب امام شافعی
کی مستقل کتب ورسائل پر مشتمل تھے، انہیں ایک کتاب میں جمع کرنے والے امام ربیع مرادی ہیں۔ کتاب الام پر مشتمل امام شافعی کی فروعی کتب کی تعداد تقریبا 128 ہے۔
اس کے علاوہ بھی امام شافعی کی فروعی مسائل پر مشتمل کئی مستقل کتب تھیں۔
امام ابو
یعقوب یوسف بن یحیی البویطی اور امام ربیع بن
سلیمان مرادی نے امام شافعی کی روایت
سے مختصرات بھی لکھے ہیں جو ان کی ان کتب پر مشتمل ہیں، اور ان میں کئی زیادات بھی
موجود ہیں۔
اس کے علاوہ امام شافعی کی ایک کتاب:
2- كتاب السنن
بھی تھی جو فروعی
مسائل پر ان کی مذکورہ کتب پر مشتمل تھی اور اس میں روایات، آثار، اور مسائل میں
کئی اضافے موجود تھے۔ اس کتاب کو ان سے حرملہ بن یحیی
المصری اور ابو ابراہیم اسماعیل بن یحیی المزنی نے روایت کیا
ہے۔
ان میں سے اکثر کتب
کو امام شافعی نے اپنے قدیم مذہب کے دور میں
ہی تصنیف کر لیا تھا جن کو ان سے الحسن بن محمد بن
الصباح الزعفرانی نے نقل کیا ہے۔ اور پھر جب آپ مصر تشریف لائے تو آپ نے ان
میں سے اکثر کتب کی دوبارہ مراجعت فرمائی اور ان کو اپنے مصری تلامذہ سے قراءت
کروایا اور ان میں جو تبدیلی یا اضافہ کرنا ہوتا آپ انہیں بتا دیتے۔ اس طرح ان کی
قدیم کتب کو جب ان کے جدید دور کے تلامذہ نے ان پر قراءت کیا تو وہی کتب ان کی
جدید کتب شمار ہوئیں۔
امام شافعی کی ان کتب کی تصنیف میں اچھی نیت شامل تھی، جس
کی طرف ان کا یہ قول اشارہ کرتا ہے۔ امام شافعی نے
فرمایا:
" وَدْدِتُ أن الناس، أو
الخلق، تعلّموا هذا - يعني كتبه - على أن لا ينسب إلي منه شيء."
"میری خواہش ہے کہ لوگ میری ان کتب
کو میری طرف ان میں سے کچھ بھی منسوب کئے بغیر پڑھیں" [45]
کتب امام شافعی کی
شہرت اور علماء کی ان کی طرف رغبت
امام شافعی
کی کتب ان کی حُسن تالیف، حُسن نظم وترتیب، ذکرِ ادلہ ولحاظِ اصول،اور
ایجاز واختصار کی خصوصیتوں کے سبب اپنے زمانے کے تمام فقہاء میں بالکل منفرد تھیں۔
نیز ان کے زمانے اور ان کے بعد والے علماء نے ان کی کتب کو حاصل کرنے، ان سے علم
اخذ کرنے،اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے حد
درجہ جدوجہد کی اور ان کی طرف خوب رغبت اختیار کی۔
·
امام
احمد بن حنبل ہر کسی کو امام شافعی کی کتب پڑھنے اور ان کو اخذ کرنے کی تلقین کیا
کرتے تھے۔
امام محمد بن مسلم بن وارۃ
الرازی فرماتے ہیں:
" قدمت من مصر، فدخلت على
أحمد بن حنبل، فقال لي: من أين جئت؟ قلت: جئت من مصر. قال: أكتبت كُتُبَ الشافعي؟
قلت: لا. قال: فلم؟ ما عرفنا نَاسِخَ سُنَنِ رسول الله، صلى الله عليه وسلم، من
مَنْسُوخِها. ولا خاصَّها من عامِّها ولا مَجْمَلَها من مُفَسَّرِها حتى
جَالَسْنَا الشافعي. قال ابن وَارَة: فحملني ذلك على أن رجعت إلى مصر فكتبتها"
"میں مصر سے آیا
تو احمد بن حنبل کے پاس داخل ہوا، انہوں نے مجھ سے پوچھا: 'آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟'
میں نے کہا: 'میں مصر سے آ رہا ہوں'۔ انہوں نے پوچھا: 'آپ نے شافعی کی کتب کو
لکھا؟' میں نے کہا: 'نہیں۔' انہوں نے فرمایا: 'کیوں نہیں؟ ہمیں رسول اللہ ﷺ کی سنن
میں سے ناسخ ومنسوخ، خاص وعام، اور مجمل ومفسر کی معرفت نہیں تھی جب تک امام شافعی
ہمارے درمیان نہیں بیٹھے۔' ابن وراۃ نے فرمایا: 'اس بات نے مجھے ہمت دی کہ میں مصر واپس جاؤں اور ان کی کتب کو
لکھوں'" [46]
·
ابن راوۃ ہی فرماتے ہیں کہ امام احمد امام شافعی کی
کتب کو امام مالک، امام ثوری، امام اوزاعی،
(اسی طرح ابن ہانی کی روایت میں امام ابو حنیفہ، اور امام ابو
یوسف) کی کتب پر ترجیح دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ شافعی ان میں سب سے زیادہ صحیح رائے والے یا سب سے زیادہ آثار کی
پیروی کرنے والے ہیں۔ [47]
·
المیمونی فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل نے مجھ سے فرمایا:
" ما لك لا تنظر في كتب الشافعي؟ ما من
أحد وضع الكتب منذ ظهرت أنفع للسنة من الشافعي. "
"کیا وجہ ہے کہ تم
شافعی کی کتب کا مطالعہ نہیں کرتے ہو؟ کسی شخص نے آج تک ایسی کتب نہیں تیار کی ہیں
جو سنت کے لئے اس سے زیادہ فائدہ مند ہوں
جو امام شافعی نے تیار کی ہیں" [48]
·
امام
ابو زرعہ الرازی فرماتے ہیں: " سمعت كتب الشافعي من الربيع أيام يحيى
بن عبد الله بن بكير، سنة ثمان وعشرين ومائتين، وعندما عزمت على سماع كتب الشافعي
بِعْتُ ثوبين رقيقين كنت حملتهما لأُقَطِّعَهُمَا لنفسي، فبعتها بستين درهما
واشتريت مائة ورقة كاغذ بعشرة دراهم كتبت فيها كتب الشافعي "
"میں نے امام
شافعی کی کتب کا سماع یحیی بن عبد اللہ بن بکیر کے ایام میں 228 ھ میں ربیع
المرادی سے کیا۔ جب میں نے شافعی کی کتب کے سماع کا عزم کیا تو میرے پاس دو باریک
کپڑے تھے جنہیں میں نے اپنے سلوانے کے لئے رکھا ہوا تھا، میں نے ان کو 60 درہم کے
عوض بیچا، اور ان سے 100 ورقے کاغذ کے 10 درہم میں خریدے، اور ان پر میں نے شافعی
کی کتب کو لکھا۔" [49]
· یہاں تک کہ امام اسحاق بن راہویہ نے ایک خاتون سے شادی صرف اس لئے کی
کیونکہ ان کے پاس امام شافعی کی کتب تھیں۔ احمد بن سلمہ بن عبد اللہ النیسابوری فرماتے ہیں:
"تزوج إسحاق بن راهويه، بِمرو، بامرأة
كان عند زوجها كتب الشافعي، فتوفى، ولم يتزوج بها إلا لحال كتب الشافعي، فوضع
جامعه الكبير على كتاب الشافعي، ووضع جامعه الصغير على «جامع الثوري» الصغير"
"اسحاق
بن راہویہ نے مرو میں ایک خاتون سے شادی کی جن کے مرحوم خاوند کے پاس امام شافعی
کی کتب تھیں۔ اور اسحاق نے ان سے صرف امام شافعی کی کتب کے لئے شادی کی، اور اپنی
جامع الکبیر کو امام شافعی کی کتاب سے وضع کیا، اور انہوں نے اپنی الجامع الصغیر
کو امام ثوری کی الجامع الصغیر سے وضع کیا۔" [50]
· امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
" إني لا أترك للشافعي
حرفاً واحداً إلا كتبته، فإن فيه معرفة "
"میں
امام شافعی کے کلام سے ایک حرف بھی لکھے بغیر نہیں چھوڑتا، کیونکہ اس میں معرفت
ہوتی ہے" [51]
اور اسی طرح امام ابن المدینی نے
علی بن مبارک سے فرمایا:
" عليكم بكتب الشافعي
"
"آپ
کو چاہیے کہ شافعی کی کتب کو لازم پکڑیں" [52]
· ادب کے امام عمر بن بحر الجاحظ فرماتے ہیں:
"نظرت في كتب هؤلاء النبغة الذين نبغوا
فلم أر أحسن تأليفا من المطلبي، كأن كلامه ينظم درا إلى در"
"میں
نے ان ماہرین کی کتب میں نظر ڈالی ہے جنہوں نے کمال مہارت حاصل کی، لیکن میں نے
کسی کو اس مطلبی (یعنی شافعی) سے زیادہ احسن تالیف والا نہیں دیکھا۔ گویا ان کا
کلام موتی در موتی پِرو رہا ہو۔"
[53]
امام شافعی اور
قرآن
قراءت وحفظ وحُسن صوت:
·
امام شافعی قرآن کی
قراءت کے ماہر تھے اور امام عبد اللہ بن کثیر کی
قراءت پر قرآن کی قراءت کیا کرتے تھے۔
امام شافعی نے فرمایا:
" أخبرنا إسماعيل بن قُسْطَنْطِين، قال: قرأت على شِبْل، وأخبر
شبل أنه قرأ على عبد الله بن كثير، وأخبر عبد الله بن كثير أنه قرأ على مجاهد،
وأخبر مجاهد أنه قرأ على ابن عباس، وأخبر ابن عباس أنه قرأ على أُبَيّ، وقال ابن
عباس: وقرأ أبي على النبي: صلى الله عليه وسلم"
"ہم
نے اسماعیل بن قسطنطین پر (قرآن) پڑھا، انہوں نے کہا: میں نے شبل (بن عباد) پر
(قرآن کی) قراءت کی، اور شبل نے فرمایا کہ انہوں نے عبد اللہ بن کثیر پر قراءت کی،
اور عبد اللہ بن کثیر نے فرمایا انہوں نے مجاہد پر قراءت کی، اور مجاہد نے فرمایا
انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر قراءت کی، اور ابن عباس نے ابی (بن کعب) پر قراءت کی، اور ابن
عباس نے فرمایا، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ پر قراءت کی"
[54]
·
مبرد کہتے ہیں:
" رحم الله الشافعي؛
فإنه كان من أشعر الناس، وآدب الناس، وأعرفهم بالقراءات"
"اللہ امام شافعی پر رحم فرمائے وہ سب سے بڑے شاعروں، سب سے بڑے ادیبوں
اور سب سے زیادہ قراءآت کا علم رکھنے والوں میں سے تھے" [55]
·
اس کے علاوہ اوپر امام شافعی کی
"ابتدائی تعلیم" کے تحت ذکر ہوا کہ امام شافعی
نے فرمایا انہوں نے سات سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا اور13 سال کی عمر
میں وہ مکہ میں لوگوں پر نماز کے لئے قراءت کرنا شروع کر دی تھی۔
·
امام حاکم بحر بن نصر کے
طریق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
" كنا إذا أردنا أن نبكي
قلنا: اذهبوا بنا إلى هذا المطلبي يقرأ القرآن فإذا أتيناه استفتح القرآن حتى
يتساقط الناس بين يديه ويكثر عجيجهم بالبكاء من حسن صوته فإذا رأى ذلك أمسك"
"ہم
جب رونا چاہتے تو کہتے: چلو ہمارے ساتھ اس مطلبی آدمی کے پاس جو قرآن کی قراءت
کرتا ہے۔ پس جب ہم ان کے پاس جاتے اور وہ قرآن کی قراءت شروع کرتے تو ان کی
خوبصورت آواز کے سبب لوگ ان کے سامنے گِر پڑتے اور رونے کی وجہ سے ان کی آوازیں
زیادہ ہو جاتیں، تو جب وہ یہ سب دیکھتے تو رُک جاتے۔" [56]
·
امام ربیع المرادی فرماتے
ہیں:
" كان الشافعي يختم في كل
شهر ثلاثين ختمة، وكان يختم في شهر رمضان ستين ختمة، سوى ما يقرأ في الصلاة."
"امام
شافعی ہر مہینے میں تیس قرآن ختم کیا کرتے تھے، اور رمضان کے مہینے میں وہ ساٹھ
بار قرآن ختم کرتے تھے، یہ اس کے علاوہ ہے جو وہ نماز میں پڑھتے تھے" [57]
تفسیر ومعانیِ قرآن کا علم:
·
یونس بن عبد الاعلی فرماتے ہیں:
" كنت أولا أجالس أصحاب
التفسير وأناظر عليه وكان الشافعي إذا أخذ في التفسير كأنّه شَهِدَ التنزيل"
"میں
اولا اصحابِ تفسیر کی مجلسوں میں بیٹھا کرتا تھا اور ان سے بحث کرتا تھا۔ امام
شافعی کا حال یہ تھا کہ جب تفسیر بیان کرتے تو ایسا لگتا کہ گویا قرآن آپ کے سامنے
نازل ہوا ہے" [58]
·
امام داود بن علی الظاہری اپنی
کتاب مناقب الشافعی میں فرماتے ہیں کہ امام اسحاق بن راہویہ نے ان سے کہا:
" أعلمني جماعة من أهل
الفهم بالقرآن أنه كان أعلم الناس في زمانه بمعاني القرآن، وأنه قد أوتي فيه فهما
فلو كنت عرفته للزمته، قال داود: ورأيته يتأسف على ما فاته منه."
"مجھے
قرآن کا فہم رکھنے والے لوگوں کی ایک جماعت نے بتایا کہ امام شافعی اپنے زمانے میں
تمام لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن کے معانی کو جاننے والے ہیں، اور یہ کہ انہیں اس
معاملے میں فہم عطاء کیا گیا ہے۔ پس اگر یہ بات مجھے پہلے معلوم ہوتی تو میں انہیں
لازم پکڑتا۔" امام داود نے فرمایا: "میں نے انہیں شافعی (کی صحبت وعلم) کا
ان سے چھوٹ جانے پر افسوس کا اظہار کرتے دیکھا ہے۔" [59]
·
ابن بنت الشافعی روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد اور چچا کو کہتے سنا،
کہ:
" كنا عند ابن عيينة،
وكان إذا جاءه شيء من التفسير والفتيا يسأل عنها التفت إلى الشافعي فقال: سلوا
هذا."
"ہم
سفیان بن عیینہ کے پاس بیٹھتے اور جب بھی تفسیر یا فتوی کے متعلق کوئی سوال ان کے
پاس آتا تو وہ شافعی کی طرف متوجہ ہوتے اور کہتے: اس سے پوچھو۔" [60]
·
امام احمد بن حنبل نے
فرمایا:
ما رأيت احدا افقه في
كتاب الله عزوجل من هذا الفتى القرشى، قلت من هذا؟ قال محمد بن إدريس الشافعي"
" میں نے کسی کو
اللہ کی کتاب کا اس قرشی نوجوان سے زیادہ بڑا فقیہ نہیں دیکھا ہے۔ "[61]
·
امام ابو حسان الزیادی فرماتے
ہیں:
" لما رأيت إكرام الشافعي
وإصغاءه إلى ما نقول وانتزاعه من القرآن المعاني والعبارة عن المعاني أنست به فكنت
أسأله عن معاني القرآن فما رأيت أحدا أقدر على معاني القرآن والعبارة عن المعاني
والاستشهاد على ذلك من قول الشعر أو اللغة منه"
"جب میں نے امام شافعی کو دیکھا کہ وہ سب کا اکرام کرتے ہیں اور ہماری
باتوں کو غور سے سنتے ہیں اور قرآن کریم سے لطیف معانی کا استنباط کرتے ہیں، اور
اس کے لئے نہایت فصیح زبان استعمال کرتے ہیں، تو مجھے آپ سے بڑا اُنس ہوا، پھر میں
آپ سے قرآن کریم کے معانی ومطالب دریافت کرنے لگا، میں نے قرآن کریم کے معانی
ومطالب پر ایسی قدرت رکھنے والا اور ان کو اس عمدگی سے بیان کرنے والا اور اس کے لئے
عربی شاعری اور لغت سے دلائل فراہم کرنے والا آپ جیسا کسی کو نہیں دیکھا" [62]
·
امام فخر الدین الرازی نے
فرمایا:
"... كان بحرا لا ساحل له في
هذا العلم"
"امام شافعی تفسیر میں ایک ایسا سمندر تھے جس کا کوئی کنارہ نہ تھا" [63]
·
امام شافعی کی
"احکام القرآن" اس موضوع پر اولین کتاب تھی
قاضی حسین کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی
نے تفسیر سے متعلق کچھ کتابیں لکھی تھیں، بلکہ خود ان کے شاگردوں نے بیان
کیا ہے کہ امام شافعی
نے "احکام القرآن" کے نام سے کتاب لکھی تھی، جیسا کہ ربیع نے بیان کیا ہے کہ امام شافعی نے جب "احکام القرآن" تصنیف کرنے کا
ارادہ کیا تو سو دفعہ پورا قرآن پڑھا [64]۔
مگر امام شافعی کی یہ
کتاب موجود نہیں ہے، تاہم امام شافعی کی
تفسیری اقوال کی اہمیت کے پیش نظر امام بیہقی نے
آیات احکام سے متعلق ان کی تفسیر کو احکام قرآن کے نام سے جمع کیا ہے جو علامہ زاہد الکوثری کے مقدمے اور شیخ عبد الغنی عبد الخالق کے حواشی کے ساتھ شائع ہوا ہے۔
اس سلسلے میں دوسرا کام مجدی بن
منصور بن سید الثوری نے کیا ہے، انہوں نے امام شافعی
کے تفسیری اقوال کو احکام القرآن جمع البیہقی، الرسالہ، اور الام کی بنیاد
پر جمع کیا ہے اور "تفسیر الشافعی" کے نام سے ایک جلد میں شائع ہے۔
اس سلسلے میں سب سے عمدہ کام حال میں ڈاکٹر احمد بن مصطفی الفران نے "تفسیر الامام
الشافعی" کے نام سے کیا ہے، انہوں نے امام شافعی
کی تمام کتابوں بلکہ ان پر لکھی ہوئی بعض کتابوں سے اخذ کر کے قرآن کریم کی
سورتوں کی ترتیب پر امام شافعی کے جملہ تفسیری
اقوال کو جمع کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، یہ دراصل ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔
دار التدمریہ، الریاض سے تین جلدوں میں شائع ہوا ہے۔ تمہیدی مباحث میں انہوں نے
امام شافعی کے مقررہ اہم قواعدِ تفسیر کو بھی
بیان کیا ہے۔ [65]
امام شافعی اور
حدیث
معانی وفقہ حدیث کا علم:
جہاں تک فقہ حدیث کا
تعلق ہے تو اکثر اصحاب الحدیث کا حال یہ تھا کہ ان کی ساری توجہ کثرتِ سماع اور
روایتِ حدیث پر تھی، اور فقہ حدیث سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
·
امام احمد بن حنبل فرماتے
ہیں:
" ما كان أصحاب الحديث،
يعرفون معاني حديث رسول الله، صلى الله عليه وسلم، حتى قدم الشافعي فبيَّنَها لهم."
"اصحاب
الحدیث رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے معانی نہیں جانتے تھے جب تک امام شافعی نہیں آئے
اور انہیں لوگوں کے لئے بیان کیا۔" [66]
·
امام احمد نے فرمایا:
" لولا الشافعي ما عرفنا
فقه الحديث "
"اگر
شافعی نہ ہوتے تو ہم حدیث کی فقہ نہ جان پاتے" [67]
·
الحسین بن علی الکرابیسی فرماتے
ہیں:
" رحمة الله على الشافعي
ما فهمنا استنباط أكثر السّنن إلا بتعليم الشافعي أبي عبد الله إيَّانَا."
" شافعی پر اللہ
کی رحمت ہو، ہم نے اکثر سنن کے استنباط کو شافعی کی ہمیں تعلیم کے بغیر نہیں سمجھا۔"
[68]
·
امام علی بن معبد العبدی فرماتے
ہیں:
"ما عرفنا الحديث حتى جاءنا
الشافعي"
"ہمیں حدیث کا پچان نہیں تھی جب تک شافعی ہم میں نہیں آئے" [69]
·
امام احمد بن سنان الواسطی فرماتے
ہیں:
"لولا الشافعي لا ندرس العلم
بالسنن"
"اگر شافعی نہ ہوتے تو ہم سنن کے علم کو نہ پڑھتے" [70]
·
امام بیہقی نے مناقب
الشافعی میں امام شافعی کے حوالے سے متعدد
حدیثوں کی تشریح کے بعد لکھا ہے:
"وكان الشافعي نسيج وحده في
هذه المعاني"
"ان مطالب کو بیان کرنے یعنی ان احادیث کی اس طرح تشریح وتوضیح میں امام
شافعی کی کوئی مثال نہیں" [71]
اصولِ حدیث کا علم:
جہاں تک علم اصول
الحدیث کا تعلق ہے تو اس میں امام شافعی کی
امامت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے متعدد اصول وقواعد
پہلی دفعہ بیان کیے تھے، بلکہ اپنے اجتہاد سے یہ اصول مقرر کیے تھے۔ حدیث کے یہ
متعدد اصولی مباحث ان کی تصنیفات میں، بالخصوص الرسالہ میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اسی
طرح امام شافعی پر لکھی ہوئی ابتدائی کتابوں
میں، خاص طور پر ابن ابی حاتم کی آداب الشافعی
ومناقبہ میں اور بیہقی کی مناقب الشافعی میں
اصول حدیث سے متعلق بہت سی باتیں امام شافعی سے مذکور ہیں، بیہقی نے اپنی کتاب میں کئی ابواب اس علم میں امام شافعی کے مقام کی توضیح اور اس سلسلے میں ان کی بیان
کی ہوئی باتوں کی تفصیل کے لئے قائم کیے ہیں۔
محقق ومحدث ڈاکٹر شیخ
نور الدین عتر لکھتے ہیں: امام شافعی نے الرسالہ میں قابل حجت حدیث پر جو کلام کیا
ہے اور حدیثِ صحیح کی جو شرطیں بیان کی ہیں، راوی کے حفظ کے لئے جو شرط لگائی ہے،
روایت بالمعنی پر جو بحث کی اور مدلس اور اس کی حدیث کی قبولیت پر جو کلام کیا ہے،
ایسے ہی کتاب الام میں حدیث حسن کا جو ذکر کیا ہے، اسی طرح حدیث مرسل پر جو بحث کی
ہے اور اس سے احتجاج کے سلسلے میں جو طاقت ور کلام کیا ہے اور ان کے علاوہ اصول
حدیث پر جو دیگر بحثیں کی ہیں، یہ علوم حدیث کی اولین چیزیں ہیں جو کسی کتاب میں
مدون طور پر موجود ہیں۔ [72]
روایتِ حدیث میں ثقاہت:
·
امام احمد بن حنبل نے
امام شافعی سے موطا امام مالک کا سماع کیا
باوجود اس کے کہ انہوں نے موطا کو پہلے سے ہی راویوں کی ایک جماعت سے سن رکھا تھا،
کیونکہ انہوں نے فرمایا:
"إني رأيته فيه ثبتا"
"میں نے انہیں موطا میں ثبت پایا ہے" [73]
·
امام احمد سے امام شافعی کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا:
" حديث صحيح ورأي صحيح"
"ان کی حدیث بھی صحیح اور رائے بھی صحیح" [74]
·
محدثین کے درمیان اس بات پر اختلاف رہا ہے کہ سب سے صحیح
ترین اسناد کون سی ہے۔ اس فن کے امام، امام محمد بن
اسماعیل البخاری نے فرمایا:
"لا إسناد أصح من مالك عن
نافع عن ابن عمر"
"کوئی اسناد مالک عن نافع عن ابن عمر سے زیادہ صحیح نہیں ہے"
اور اس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ امام مالک سے
روایت کرنے والوں میں سے کوئی بھی امام شافعی سے
زیادہ جلیل القدر نہیں ہے کیونکہ امام مالک کے سارے تلامذہ فقہ اور مہارت میں امام
شافعی سے کم تر ہیں۔ تو اس کے پیشِ نظر اہل
علم کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ:
"أشرف الأسانيد في الدنيا ما
رواه الشافعي عن مالك عن نافع عن ابن عمر"
"پوری دنیا کی سب سے عالی مرتبہ اسناد وہ ہے جو شافعی نے مالک سے انہوں
نے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے روایت کیا ہے" [75]
حدیث کے بڑے سے بڑے حفاظ اور ائمہ نے بھی حدیث میں غلطیاں
کی ہیں لیکن امام شافعی ان چنندہ لوگوں میں سے
ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ حدیث میں ان کی کوئی غلطی ہمیں معلوم نہیں ہے۔
چنانچہ:
·
امام ابو داود السجستانی فرماتے
ہیں:
" ليس من العلماء أحد
إلا وقد أخطأ في حديثه إلا بشر بن المفضل ، وما أعرف للشافعي حديثا خطأ "
"علماء میں سے ایسا کوئی نہیں جس نے اپنی حدیث میں کوئی غلطی نہ کی ہو
سوائے بشر بن المفضل کے، اور امام شافعی کی بھی کسی حدیث میں غلطی کو میں نہیں
جانتا۔" [76]
·
اور امام ابو زرعہ الرازی جو
حدیث اور اس کی علل کے ارکان میں سے ہیں نے فرمایا:
" ما عند الشافعي حديث
غلط فيه"
"شافعی کی کوئی حدیث ایسی نہیں جس میں انہوں نے غلطی کی ہو" [77]
·
امام یحیی بن سعید القطان جو
حدیث ورجال میں متشدد شمار ہوتے ہیں نے فرمایا:
" إني لأدعو الله
للشافعي في كل صلاة"
"میں شافعی کے لئے ہر نماز میں اللہ سے دعا کرتا ہوں" [78]
اسماء الرجال، انساب اور تاریخوں کا
علم:
·
امام بیہقی نے اس پر
ایک طویل باب لکھا ہے جس میں انہوں نے مثالوں وروایتوں کے ذریعے امام شافعی کا انساب وایام الناس کے علم میں مہارت کو
واضح کیا ہے۔ [79]
·
امام احمد بن حنبل (جن
کا شمار متفقہ طور پر اسماء الرجال کے ماہرین میں ہوتا ہے) فرماتے ہیں:
" إني كنت أجالس محمد بن
إدريس الشافعي بمكة، فكنت أذاكره بأسماء الرجال، فقال: روينا عن عمر بن الخطاب عن
أهل المدينة، عن فلان بن فلان، وفلان بن فلان، فلا يزال يسمي رجلا، رجلا، وأسمى له
جماعة، ثم يذكر هو عدداً من أهل مكة، فأذكر له أنا جماعة منهم "
"میں مکہ میں امام شافعی کی مجلسوں میں بیٹھتا تھا اور اسماء الرجال کے سلسلے
میں ان سے مذاکرہ کرتا تھا مثلا وہ کہتے کہ ہم نے حضرت عمر کی یہ حدیثیں اہل مدینہ
سے حاصل کی، فلاں بن فلاں نے ہم سے بیان کی، اورفلاں بن فلاں نے اس کو نقل کیا، اس
طرح وہ ایک ایک آدمی کا نام لیتے اور میں ایک جماعت کا ان کے سامنے ذکر کرتا، پھر
مکہ کے رجال کا سلسلہ شروع کرتے، اسی طرح میں بھی مکی رجال کا ذکر کرتا" [80]
·
امام مصعب بن عبد اللہ الزبیری
فرماتے ہیں:
" ما رأيت أحداً أعلم
بأيام الناس من الشافعي"
"میں نے کسی کو ایام الناس (یعنی تاریخ) کو شافعی سے زیادہ جاننے والا
نہیں دیکھا" [81]
·
امام مزنی فرماتے ہیں:
" قدم علينا الشافعي
فأتاه ابن هشام صاحب المغازي فذاكره أنساب الرجال فقال له الشافعي بعد أن تذاكرا:
دع عنك أنساب الرجال فإنها لا تذهب عنا وعنك، وحدثنا في أنساب النساء، فلما أخذ
فيها بقي ابن هشام - يعني سكت"
"امام شافعی جب ہمارے ہاں آئے تو ان کے پاس ہشام (بن عبد الملک) صاحب
المغازی تشریف لائے اور ان سے رجال کے انساب پر مذاکرہ کرنے لگے، جب وہ مذاکرہ کر
چکے تو امام شافعی نے ان سے فرمایا: آدمیوں کے انساب کو چھوڑو وہ تو آپ کو اور
ہمیں بھی آتے ہیں، ہمیں عورتوں کے انساب کے بارے میں بتائیں۔ پس جب امام شافعی نے
اس پر مذاکرہ شروع کیا تو ابن ہشام چپ ہو کر رہ گئے۔" [82]
·
ابو العباس بن سریج نے بعض انساب کے ماہرین سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا:
" كان الشافعي من أعلم
الناس بالأنساب؛ لقد اجتمعوا معه ليلة فذاكرهم بأنساب النساء وإلى الصباح، وقال:
أنساب الرجال يعرفها كل أحد."
"امام شافعی انساب کے بارے میں تمام لوگوں میں سب سے بڑے عالم ہیں۔ ان کے
پاس انساب کے ماہرین ایک رات جمع ہوئے تو انہوں نے ان سے صبح تک عورتوں کے انساب
پر مذاکرہ کیا۔ اور کہا: مردوں کے انساب تو ہر کوئی جانتا ہے" [83]
·
ابن بنت الشافعی فرماتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا:
" أقام الشافعي على العربية
وأيام الناس عشرين سنة، فقلنا له في ذلك؟ فقال: ما أردت بهذا إلا الاستعانة للفقه"
"شافعی نے بیس سال عربی اور ایام الناس (یعنی تاریخ) کی تعلیم پر لگائے،
تو ہم نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اس تعلیم کو حاصل کرنے کا
میرا مقصد صرف فقہ میں معاونت لینا تھی" [84]
جرح وتعدیل کا علم:
·
استاذ ابو منصور البغدادی (م
429 ھ) نے فرمایا:
" بالغ مسلم في تعظيم
الشافعي في كتاب الانتفاع بجلود السباع وفي كتاب الرد على محمد بن نصر وعده في هذا
الكتاب من الأئمه الذين يرجع إليهم في الحديث وفي الجرح والتعديل"
"امام مسلم نے کتاب الانتفاع بجلود السباع اور کتاب الرد علی محمد بن نصر
میں امام شافعی کی تعظیم میں مبالغہ کیا ہے۔ نیز انہوں نے شافعی کو اپنی کتاب میں
ان ائمہ میں سے شمار کیا ہے جن کی طرف حدیث میں اور جرح وتعدیل میں رجوع کیا جاتا
ہے" [85]
·
امام ذہبی رحمہ اللہ نے
امام شافعی کا موازنہ حدیث کے بعض نقاد ائمہ
سے کرتے ہوئے فرمایا:
" نعم لم يكن الشَّافِعِي
رَحمَه الله فِي الحَدِيث كيحيى الْقطَّان اَوْ ابْن مهْدي أَو احْمَد بن حَنْبَل
بل مَا هُوَ فِي الحَدِيث بِدُونِ الْأَوْزَاعِيّ وَلَا مَالك وَهُوَ فِي الحَدِيث
وَرِجَاله وَعلله فَوق أبي مسْهر وابي يُوسُف القَاضِي وَعبد الرَّحْمَن بن
الْقَاسِم واسحاق بن الْفُرَات واشهب وامثالهم فرحم الله الْجَمِيع"
"ہاں شافعی رحمہ اللہ حدیث میں یحیی القطان، ابن مہدی، یا احمد بن حنبل
جیسے نہیں ہیں بلکہ وہ حدیث میں اوزاعی اور مالک سے کم درجے کے نہیں ہیں۔ حدیث، اس
کے رجال، اور اس کی علل میں امام شافعی ابو مسہر، ابو یوسف القاضی، عبد الرحمن بن
القاسم، اسحاق بن الفرات، اشہب اور ان جیسے لوگوں سے بالا تر ہیں۔ اللہ ان سب پر
رحم فرمائے" [86]
·
امام ذہبی نے امام شافعی کو رجال پر جرح وتعدیل کرنے والوں کی تیسری
قسم میں شمار کیا ہے، پہلی قسم وہ جنہوں نے اکثر رواۃ پر کلام کیا ہے جیسے ابن معین اور ابو حاتم
الرازی۔ دوسری قسم وہ جنہوں نے بہت راویوں پر کلام کیا ہے جیسے مالک اور شعبہ۔
اور تیسری قسم وہ جنہوں نے متعدد راویوں پر کلام کیا ہے جیسے ابن عیینہ اور شافعی۔
[87]
حدیث کی صحت و علل کا علم:
·
امام محمد بن عبد اللہ بن عبد
الحکم فرماتے ہیں:
"ما رأيت مثل الشافعي، كان أصحاب
الحديث ونقاده يجيؤون إليه فيعرضون عليه، فربما أعل نقد النقاد منهم ووقفهم على
غوامض من نقل الحديث، لم يقفوا عليها فيقومون وهم يتعجبون"
"میں
نے شافعی جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ اصحاب الحدیث اور نقاد الحدیث ان کے پاس آتے اور
حدیثیں بیان کرتے تو بعض اوقات وہ نقاد کی نقد کی علت بیان کرتے اور نقلِ حدیث پر
انہیں ایسی دقیق باتوں سے واقف کرواتے جن سے وہ پہلے واقف نہ ہوتے، پس وہ حیران
ومتعجب ہو کر وہاں سے اٹھتے۔ "
[88]
·
امام داود بن علی الظاہری نے
اپنی کتاب مناقب الشافعی میں فرمایا:
" للشافعي من الفضائل
ما لم يجتمع لغيره، من شرف نسبه، وصحة دينه ومعتقده، وسخاوة نفسه، ومعرفته بصحة
الحديث وسقمه..."
"امام شافعی میں ایسے فضائل جمع ہیں جو کسی اور میں جمع نہیں ہیں: ان کا
عالی نسب، ان کے دین اور اعتقاد کی صحت، ان کے نفس کی سخاوت، اور ان کا حدیث کی
صحت وضعف کی معرفت رکھنا۔۔۔" [89]
·
امام ابن ابی حاتم نے
اپنی کتاب آداب الشافعی ومناقبہ میں "قول
الشافعي في علل الحديث"
کے نام سے ایک باب قام کر کے اس سلسلے میں امام شافعی
سے منقول متعدد باتیں نقل کی ہیں، نیز امام بیہقی
نے بھی اپنی کتاب میں اس قسم کی مزید کچھ باتیں نقل کی ہیں۔
ہم اگر یہ ساری باتیں نقل کریں تو بات بہت طویل ہو جائے گی،
ہاں البتہ امام شافعی کی علل میں مہارت میں کا
اندازہ لگانے کے لئے صرف دو تین مثالیں پیش کر رہے ہیں:
پہلی مثال:
سفیان بن عیینہ نے ایک حدیث بیان کی ہے: عن
يزيد بن أسامة بن الهاد عن عمارة بن خزيمة بن ثابت عن أبيه
عن النبي ﷺ
أنه قال: إن الله لا يستحي من الحق لا تأتو النساء في أدبارهن۔ امام شافعی فرماتے
ہیں "غلط سفيان في إسناد هذا الحديث" وجہ اس کی یہ ہے کہ ثقات نے اس کی اسناد میں سفیان کی مخالفت کی ہے، چنانچہ عبد العزیز بن محمد نے یہ حدیث عن
يزيد بن الهاد عن عبيد
الله بن عبد الله الحصين عن هرمي بن عبد الله عن
خزيمة بن ثابت
سے روایت کی ہے۔ اسی طرح ولید
بن کثیر نے عن عبيد الله الخطمي عن عبد
الملك بن عمرو بن قيس الخطمي عن هرمي بن عبد
الله عن خزيمة سے روایت کی ہے۔
دوسری مثال:
امام شافعی فرماتے ہیں:
امام مالک نے (تین لوگوں کے ناموں میں) تصحیف
کی ہے، انہوں نے عمر بن عثمان میں تصحیف کی
جبکہ صحیح عمرو بن عثمان ہے، جابر بن عتیک کے نام میں تصحیف کی جبکہ صحیح جبر بن عتیک ہے، اسی طرح عبد
الملک بن قُرَیر میں تصحیف کی جبکہ صحیح عبد
العزیز بن قریر ہے۔
ابن ابی حاتم اس کو نقل کر کے فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد سے اس کا
تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا شافعی نے صحیح کہا،
بات ویسی ہی ہے جو انہوں نے فرمائی۔ پھر کہنے لگے کہ امام یحیی بن معین عبد العزیز بن قریر کے بارے میں فرماتے ہیں: " ليس هو عبد العزيز بن قرير،
وإنما هو: عبد الملك بن قريب الأصمعي..." یعنی یہ عبد العزیز بن قریر نہیں ہے بلکہ وہ عبد الملک بن قریب الاصمعی
ہے۔ تو اس پرامام ابن ابی حاتم اپنے والد امام ابو حاتم سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " غلط يحيى بن معين،
وما يقول الشافعي أشبه..."
یحیی بن معین نے غلطی کی ہے اور جو امام شافعی نے فرمایا ہے وہی زیادہ
راجح ہے۔ [90]
تیسری مثال:
سفیان بن عیینہ ایک روایت بیان کرتے ہیں: عن الزهري، عن عروة، عن عبد الرحمن بن عبد القاري، قال: «صلى عمر بن
الخطاب رضي الله عنه الصبح بمكة، ثم
طاف بالبيت سبعا، ثم خرج، وهو يريد المدينة، فلما كان بذي طوى، وطلعت الشمس، صلى
ركعتين»
اس روایت کی اس سند کے بارے میں امام شافعی کا کہنا ہے چونکہ زہری
کثرت سے عروہ سے روایت کرتے ہیں اس لئے سفیان
بن عیینہ سمجھے کہ یہاں بھی ایسا ہی ہے، جب کہ ایسا نہیں ہے، اس لئے مالک اور یونس بن یزید وغیرہ
نے یہ حدیث زہری سے بایں سند نقل کی ہے: عن حميد بن عبد الرحمن يعني عن عبد
الرحمن بن عبد القاري، عن عمر
ابن عیینہ سے یہاں غلطی ہوئی ہے اور صحیح وہ ہے جو مالک نے روایت کیا ہے۔[91] [92]
امام شافعی اور فقہ
·
محمد بن الفضل البزاز فرماتے ہیں میں نے اپنے والد کو کہتے سنا:
" حججت مع احمد بن حنبل
ونزلنا في مكان واحد فلما صليت الصبح درت المسجد فجئت إلى مجلس سفيان بن عيينه
وكنت ادور مجلسا مجلسا طلبا لاحمد بن حنبل حتى وجدت احمد عند شاب اعرابي وعليه
ثياب مصبوغة وعلى رأسه جمة فزاحمته حتى قعدت عند احمد بن حنبل فَقُلْتُ يَا أَبَا
عَبْدِ اللَّهِ تركت ابن عيينة عنده الزهري وعمرو بن دينار وزياد بن علاقة
والتابعون ما الله به عليم؟ فقال لى اسكت فان فاتك حديث بعلو تجده بنزول ولا يضرك
في دينك ولا في عقلك وان فاتك عقل هذا الفتى اخاف ان لا تجده إلى يوم القيامة، ما
رأيت احدا افقه في كتاب الله عزوجل من هذا الفتى القرشى، قلت من هذا؟ قال محمد بن
إدريس الشافعي"
"میں احمد بن حنبل
کے ساتھ حج پر گیا اور ہم ایک ہی جگہ پر رُکے۔ جب میں نے صبح کی نماز پڑھ لی تو
میں نے مسجد کا دورہ کیا اور سفیان بن عیینہ کی مجلس پر پہنچا، پھر میں احمد بن
حنبل کی تلاش میں مجلس در مجلس دورہ کرتا گیا یہاں تک کہ میں نے احمد کو ایک
نوجوان عربی شخص کے پاس پایا، اس کے کپڑے رنگے ہوئے اور سر پر جمۃ تھا، تو میں اس سے مزاحمت کرتے ہوئے آیا
حتی کہ میں احمد بن حنبل کے پاس بیٹھ گیا۔ تو میں نے ان سے کہا: اے ابو عبد اللہ،
آپ ابن عیینہ – جن کے پاس زہری، عمرو بن دینار، زیاد بن علاقہ اور دیگر تابعین جن
کو اللہ ہی جانتا ہے کی روایات ہیں – کی مجلس کو چھوڑ کر (یہاں کیا کر رہے ہیں)؟
تو انہوں نے مجھ سے کہا: چپ کرو، اگر تم سے (ابن عیینہ کی) حدیث کی عالی روایت
چھوٹ بھی جائے تو تمہیں وہ نازل سند سے بھی مل جائیں گی (یعنی ان کے تلامذہ سے بھی
ان کی روایات مل سکتی ہیں) اور یہ بات تمہارے دین اور عقل کو کوئی نقصان نہیں
پہنچائے گی، لیکن اگر تم سے اس نوجوان کی عقل چھوٹ گئی تو مجھے خوف ہے کہ تم اسے
یومِ قیامت تک نہیں پاؤ گے، میں نے کسی کو اللہ کی کتاب کا اس قرشی نوجوان سے
زیادہ بڑا فقیہ نہیں دیکھا ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: یہ
محمد بن ادریس الشافعی ہیں۔" [93]
·
امام احمد بن حنبل نے
فرمایا:
" كان أفقه الناس في كتاب
الله وفي سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم"
"شافعی
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے بارے میں تمام لوگوں میں سب سے بڑے فقیہ تھے۔" [94]
·
امام احمد نے فرمایا:
" كان الفقه قفلا على
أهله حتى فتحه الله تعالى بالشافعي "
"فقہ
والوں کے لئے فقہ ایک تالا تھی جسے اللہ تعالی نے شافعی کے ذریعے کھولا" [95]
·
امام حمیدی فرماتے ہیں:
" قال الزنجي بن خالد -يعني مسلما-
للشافعي: افت يا أبا عبد الله فقد والله آن لك أن تفتي، وهو ابن خمس عشرة سنة"
"امام مسلم بن خالد الزنجی (مفتیِ مکہ) نے امام شافعی سے فرمایا: اے ابو عبد
اللہ لوگوں کو فتوی دو، واللہ تمہارے لئے اب وہ وقت آ پہنچا ہے کہ تم لوگوں کو
فتوی دو – جبکہ امام شافعی صرف 15 سال کے تھے"[96]۔
·
امام حمیدی کے سامنے جب
امام شافعی کا ذکر ہوتا تو فرماتے:
" حدثنا سيد الفقهاء
الشافعي "
"ہمیں
فقہاء کے سردار امام شافعی نے بتایا ہے کہ۔۔۔" [97]
·
ہارون الجمال فرماتے ہیں امام یحیی بن سعید
القطان نے فرمایا:
" ما رأيت أعقل أو أفقه
منه، قال: وعرض عليه كتاب الرسالة له"
"میں
نے کسی کو شافعی سے زیادہ عقل مند یا ان سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا ہے"۔ راوی
کہتے ہیں: "اور شافعی نے ان پر اپنی کتاب الرسالہ پیش کی۔" [98]
·
امام زعفرانی فرماتے
ہیں:
" كان أصحاب الحديث لا
يعرفون تفسير الحديث حتى جاء الشافعي "
"اصحاب
الحدیث حدیث کی تفسیر نہیں جانتے تھے جب تک شافعی نہیں آئے" [99]
·
ایک
شخص امام ابو ثور کے پاس آیا اور کہا:
" سمعت فلانا يقول قولا عظيما، سمعته
يقول: الشافعي أفقه من الثوري"
"میں نے ایک شخص
کو بہت بڑی بات کہتے سنا ہے، میں نے اسے کہتے سنا کہ: شافعی ثوری سے بھی بڑے فقیہ
ہیں"
تو
امام ابو ثور نے اس سے فرمایا:
" يستنكر أن يقال الشافعي أفقه من
الثوري، وهو عندي أفقه من الثوري ومن النخعي"
"تمہیں یہ بات
عجیب لگتی ہے کہ شافعی کو ثوری سے بڑا فقیہ کہا گیا جبکہ میرے نزدیک تو وہ ثوری
اور نخعی سے بھی بڑے فقیہ ہیں" [100]
·
امام حجاج بن الشاعر فرماتے
ہیں:
"من الله على هذه الأمة بأربعة،
الشافعي تفقه بالحديث، وأحمد تمسك بالسنة، وأبو عبيد فسر الغريب، ويحيى بن معين
نفى الكذب عن حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم"
"اللہ
نے اس امت پر چار لوگوں کے ذریعے احسان کیا ہے: شافعی جنہوں نے حدیث کا تفقہ کیا،
احمد جنہوں نے سنت کا دامن نہ چھوڑا، ابو عبید جنہوں نے مشکل الفاظ کی تفیسر کی،
اور یحیی بن معین جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے جھوٹ کی نفی کی" [101]
امام شافعی اور
اصولِ فقہ
·
امام
فخر الدین رازی فرماتے ہیں:
"اتفق الناس علي أن
أول من صنف في هذا العلم هو الشافعي، وهو الذي رتب أبوابه، وميز بعض أقسامه عن
بعض، وشرح مراتبه في الضعف والقوة"
"تمام
لوگوں کا اس پر اتفاق ہے اس علم (یعنی اصول الفقہ) پر لکھنے والے سب سے پہلے شخص
امام شافعی ہی تھے، انہوں نے ہی اس کے ابواب کی ترتیب فرمائی، اور اس کی بعض اقسام
کی بعض سے تمیز کی، اور اس کے مراتب کی ضعف وقوت کے اعتبار سے تفصیل بیان کی" [102]
یہاں
تک امام رازی نے فرمایا:
"نسبة الشافعي إلي علم
أصول الفقه كنسبة أرسطاطاليس الحكيم إلي علم المنطق، وكنسبة الخليل بن أحمد إلي علم
العروض"
"علم اصولِ فقہ سے امام شافعی کو وہی نسبت ہے جو ارسطو کو علم منطق سے
اور خلیل بن احمد کو علم عروض (یعنی شاعری کے علم) سے ہے" [103]
·
امام
ابو ثور فرماتے ہیں:
" كتب عبد الرحمن بن مهدي إلى الشافعي
وهو شاب أن يضع له كتابا في معاني القرآن، ويجمع فيه قبول الأخبار وحجة الإجماع
وبيان الناسخ في القرآن والسنة، فوضع له كتاب الرسالة، قال عبد الرحمن: ما أصلي
صلاة إلا وأنا أدعو للشافعي فيها."
"امام عبد الرحمن
بن مہدی نے امام شافعی کی طرف خط لکھا جب وہ جوان تھے اور ان سے درخواست کی کہ وہ
معانیِ قرآن پر ایک کتاب لکھیں، اور اس میں اخبار کی قبولیت، اجماع کی حجیت، اور
قرآن وسنت میں ناسخ (ومنسوخ) کے بیان کو جمع کریں، تو انہوں نے ان کے لئے کتاب
الرسالہ تیار کی۔" عبد الرحمن فرماتے ہیں: "میں کوئی نماز نہیں پڑھتا
الا یہ کہ اس میں امام شافعی کے لئے دعا کرتا ہوں۔" [104]
·
محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم فرماتے ہیں: میرے والد نے مجھ سے فرمایا:
" يا بني إلزم هذا الرجل
فما رأيت أبصر منه بأصول الفقه، أو قال: بأصول العلم قال محمد: ولولا الشافعي ما
عرفت الذي عرفت."
"اے
میرے بیٹے، اس آدمی (یعنی امام شافعی) کو لازم پکڑ لو کہ میں نے اصول الفقہ یا کہا
کہ اصول العلم میں اس سے زیادہ بصیرت والا شخص نہیں دیکھا۔" محمد نے مزید
فرمایا: "اگر شافعی نہ ہوتے تو میں وہ سب نہ جان پاتا جو میں جانتا ہوں۔" [105]
·
امام حسین بن علی الکرابیسی فرماتے
ہیں:
" ما كنا ندري ما الكتاب
والسنة والإجماع، حتى سمعنا الشافعي يقول: الكتاب والسنة والإجماع
"
"ہم
نہیں جانتے تھے کہ کتاب، سنت اور اجماع (صحیح معنوں میں) کیا ہیں جب تک ہم نے
شافعی کو نہیں کہتے سنا: کتاب، سنت، اور اجماع" [106]
·
امام احمد بن حنبل فرماتے
ہیں:
" ما عرفنا نَاسِخَ
سُنَنِ رسول الله، صلى الله عليه وسلم، من مَنْسُوخِها. ولا خاصَّها من عامِّها
ولا مَجْمَلَها من مُفَسَّرِها حتى جَالَسْنَا الشافعي."
" ہمیں رسول اللہ
ﷺ کی سنن میں سے ناسخ ومنسوخ، خاص وعام، اور مجمل ومفسر کی معرفت نہیں تھی جب تک
امام شافعی ہمارے درمیان نہیں بیٹھے۔" [107]
امام شافعی اور لغت
وادب اور فصاحت
لغت میں امام شافعی آخری درجے کی امامت پر فائز تھے۔ اس میں ان کی کوئی مثال
نہیں تھی، تمام قدیم وجدید ائمہ لغت نے لغت میں امام شافعی
کی امامت کا کھل کر اعتراف کیا ہے۔
·
نحو ولغت کے مشہور امام فرّاء (یحیی بن زیاد الکوفی المتوفی 207 ھ) فرماتے ہیں:
"الشافعي لغة، هو قرشي مطلبي
عربي فقيه، وقوله حجة يعتمد عليها، واللغة من مثله أولي لعلمه وفقهه وفصاحته، وأنه
من القوم الذين تغلب لغاتهم علي سائر اللغات"
"شافعی خود زبان ہیں وہ قریشی ہیں مطلبی ہیں، فقیہ ہیں، ان کی بات حجت
ہے، جس پر اعتماد کیا جاتا ہے، ان جیسے لوگوں کی طرف سے لغت آئے تو وہ زیادہ اولی
ہے ان کے علم، فقاہت اور فصاحت کی وجہ سے، ان کا تعلق اس قوم سے ہے جس کی زبان
تمام زبانوں پر غالب ہے" [108]
·
اسی طرح کا قول ان کے ہم پلہ کے ایک بہت مشہور امام، کسائی (ابو الحسن علی
بن حمزہ الکوفی المتوفی 189 ھ) کا بھی ہے۔ [109]
یہ ایک بہت بڑی شہادت ہے اس لئے کہ وہ امام شافعی سے تقریبا تیس سال بڑے تھے اور اگر یہ بات عمر
کے آخری مرحلہ میں بھی کہی ہو تو امام شافعی ابھی
چالیس سال کے بھی نہیں ہوئے تھے۔
·
امام شافعی کو خود اپنے
اس علم پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ فرماتے ہیں:
" ما بلغني أن أحداً
أفهم لهذا الشأن مني، وقد كنت أحب أن أرى «الخليل» بن أحمد"
مجھے نہیں معلوم کہ کوئی بھی اس علم یعنی لغت کی مجھ سے زیادہ سمجھ رکھتا ہو۔
میری خواہش تھی کہ میں الخلیل بن احمد کو دیکھوں" [110]
امام خلیل بن احمد الفراہیدی (م
170 ھ) لغت کے امام اور فنِ عروض کے موجد تھے، یہ بصرہ میں رہتے تھے۔ امام شافعی کے عراق میں قدم رکھنے سے پہلے ہی وہ فوت ہو
چکے تھے۔
·
امام احمد فرماتے ہیں
کہ امام شافعی نے فرمایا:
"أنا قرأت على «مالك» وكان
يعجبه قراءتي. قال: لأنه كان فصيحا"
"میں امام مالک پر (موطا کی) قراءت کرتا تو وہ میری قراءت پر تعجب
کرتے" احمد نے فرمایا: "کیونکہ امام شافعی فصیح اللسان تھے" [111]
·
امام
احمد نے فرمایا:
"الشافعي فيلسوف في
أربعة أشياء: في اللغة، واختلاف الناس، والمعاني، والفقه"
"امام شافعی چار
چیزوں میں اتھارٹی ہیں: لغت میں، لوگوں کے اختلاف میں، معانی میں (قرآن وحدیث سے
معانی کے استنباط واستخراج میں ان کے مطالب کی تہہ تک پہنچنے میں)، اور فقہ میں" [112]
·
امام
احمد بن حنبل نے فرمایا:
" كلام الشافعي في اللغة حجة "
"لغت میں شافعی کا
کلام حجت ہے" [113]
·
امام احمد نے فرمایا:
" ما رأيت أفصح منه ولا
أفهم للعلوم منه "
"میں
نے کوئی شخص شافعی سے زیادہ فصیح اور علوم کی سمجھ رکھنے والا نہیں دیکھا" [114]
·
زبیر بن بکار فرماتے ہیں میرے چچا مصعب بن
عبد اللہ بن الزبیری نے مجھ سے کہا:
"كتبت عن فتى من بني شافع من أشعار
هذيل ووقائعها، وقراً لم تر عيناني مثله، قلت: أي عم أن تقول لم تر عيناني مثله؟
قال: لم تر عيناني مثله."
"میں
نے بنی شافع کے ایک نوجوان سے ہذیل کے اشعار اور واقعات لکھے ہیں، میری آنکھوں نے
اس جیسا کوئی نہیں دیکھا ہے۔" زبیر کہتے ہیں کہ میں نے کہا: آپ بالعموم کہہ
رہے ہیں کہ آپ کی آنکھوں نے اس جیسا کوئی نہیں دیکھا؟ تو انہوں نے فرمایا:
"(ہاں)، میری آنکھوں نے اس جیسا کوئی نہیں دیکھا" [115]
·
امام زعفرانی فرماتے
ہیں:
" ما رأيت أحداً قطّ
أفصح ولا أعلم من الشافعي. كان أعلم الناس، وأفصح الناس، وكان يقرأ عليه من كل
الشعر فيعرفه"
"میں نے کبھی کسی کو امام شافعی سے زیادہ فصیح، اور ان سے زیادہ علم والا
نہیں دیکھا۔ وہ لوگوں میں سب سے زیادہ علم والے اور ان میں سب سے زیادہ فصیح تھے۔
ان کے سامنے کوئی بھی شعر پڑھا جاتا تو وہ اس کا علم رکھتے تھے" [116]
·
امام ربیع بن سلیمان المرادی فرماتے
ہیں:
"لو رأيتموه لقلتم: إن هذه ليست كتبه،
كان والله لسانه أكبر من كتبه"
"اگر
تم شافعی کو دیکھتے تو کہتے یہ سب کتب ان کی نہیں ہیں، واللہ ان کی زبان ان کی کتب
سے بڑی (یعنی فصیح) تھی۔" [117]
ایک دوسری جگہ فرمایا:
" لو رأيتَ الشافعي وحُسنَ
بيانه وفصاحته لتعجبت منه، ولو أنه ألف هذه الكتب على عربيته التي كان يتكلم بها،
لم يُقْدَر على قراءة كتبه"
"اگر تم شافعی اور ان کے حُسن بیان اور زبان کی فصاحت کو دیکھ لیتے تو
تعجب کرتے، اور اگر انہوں نے یہ کتب اپنی اس عربی پر لکھی ہوتیں جس پر وہ کلام
کرتے تھے تو کوئی بھی ان کی کتابوں کو سمجھ نہ پاتا" [118]
·
امام ابو الولید موسی بن ابی الجارود فرماتے ہیں:
" كان يقال: إن محمد بن إدريس
الشافعي لغة وحده، يحتج به كما يُحتج بالبَطْنِ من العرب"
"کہا جاتا تھا
کہ امام شافعی تنہاء لغت ہیں۔ ویسے ہی ان کی زبان کو حجت سمجھا جاتا تھا جیسے عرب
کے کسی قبیلے کی زبان سے حجت لی جاتی ہے" [119]
·
امام یونس بن عبد الاعلی فرماتے
ہیں:
"كانت ألفاظ الشافعي كأنها
سكر"
"امام شافعی کے الفاظ ایسے تھے گویا کوئی نشہ ہو" [120]
اور ایک جگہ فرمایا:
"كنا إذا قعدنا حوله لا ندري
كيف يتكلم كأنه سحر"
"جب ہم شافعی کے ارد گرد بیٹھتے تو پتہ نہیں وہ کیسے کلام کرتے تھے، گویا
کوئی جادو ہو" [121]
·
امام محمد بن عبد اللہ بن عبد
الحکم سے کسی نے پوچھا:
" أكان الشافعي حجة في اللغة؟
فقال: إن كان أحد من أهل العلم حجة فالشافعي حجة في كل شيء"
"کیا امام شافعی لغت میں حجت تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: اگر کوئی اہل علم
حجت ہوتا تو امام شافعی ہر چیز میں حجت ہیں" [122]
·
نحو ومغازی کے امام، عبد الملک
بن ہشام النحوی فرماتے ہیں:
"طالت مجالستنا للشافعي فما
سمعت منه لحنة قط ولا كلمة غيرها أحسن منها"
"ہم شافعی کی مجلس میں طویل عرصے تک بیٹھے لیکن میں نے کبھی ان کے منہ سے
کوئی زبان کی غلطی نہیں سنی اور نہ ہی ان کے کلام سے بہتر کوئی کلام سنا۔" [123]
اسی طرح عبد الملک بن ہشام نے
فرمایا:
"الشافعي ممن يؤخذ عنه اللغة"
"شافعی ان لوگوں میں سے ہیں جن سے لغت اخذ کی جاتی ہے" [124]
یہی بات امام ابو عبید القاسم
بن سلام نے بھی کہی۔
اور ایک جگہ امام عبد الملک بن
ہشام نے فرمایا:
" قول الشافعي رضي الله
عنه في اللغة حجة"
"لغت میں شافعی رضی اللہ عنہ کا قول حجت ہے" [125]
·
اپنے زمانے کے لغت کے سب سے بڑے امام، امام ابو سعید عبد الملک بن قریب الاصمعی سے پوچھا گیا:
"على من قرأت شعر هذيل؟ قال:
على رجل من آل المطلب يقال له محمد بن إدريس"
"آپ نے ہذیل کے اشعار کو کس سے پڑھا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: آل مطلب کے
ایک شخص سے جس کا نام محمد بن ادریس ہے" [126]
·
نحو اور لغت کے امام، ابو
العباس احمد بن یحیی ثعلب (المتوفی 291 ھ) سے کسی نے امام شافعی کے بعض کلام پر اعتراضا سوال کیا تو انہوں نے
فرمایا امام شافعی کا کلام صحیح ہے اور
فرمایا:
"يأخذون على الشافعي، وهو من
بيت اللغة، يجب أن يؤخذ عنه"
"لوگ شافعی پر اعتراض کر رہے ہیں جبکہ وہ خود لغت کے گھرانے سے ہیں، اور
لغت کو (الٹا) ان سے سیکھا جانا چاہیے"
[127]
·
ابن بنت الشافعی فرماتے ہیں کہ میرے والد نے فرمایا:
" أقام الشافعي على العربية
وأيام الناس عشرين سنة، فقلنا له في ذلك؟ فقال: ما أردت بهذا إلا الاستعانة للفقه"
"شافعی نے بیس سال عربی اور ایام الناس (یعنی تاریخ) کی تعلیم پر لگائے،
تو ہم نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: اس تعلیم کو حاصل کرنے کا
میرا مقصد صرف فقہ میں معاونت لینا تھی" [128]
·
امام مصعب بن عبد اللہ الزبیری
جو تاریخ، انساب اور لغت کے ماہرین میں سے تھے، نے فرمایا:
" قرأ على محمد بن
إدريس الشافعي أشعار هذيل حفظا، ثم قال لي: لا تخبر بهذا أهل الحديث فإنهم لا
يحتملون هذا"
"محمد بن ادریس الشافعی نے قبیلہ ہذیل کے اشعار مجھے زبانی سنائے پھر
فرمایا اصحاب الحدیث کو مت بتانا وہ اس کا تحمل نہیں کرتے" [129]
اسی طرح مصعب کے بھتیجے
امام الزبیر بن بکار فرماتے ہیں:
" أخذت شعر هذيل
ووقائعها وأيامها من عمّي مُصْعَب، فسألته عمن أخذها فقال: من شاب من قريش لم أر
مثله فصاحة، يقال له: محمد بن إدريس الشافعي، حفظا"
"میں نے قبیلہ ہذیل کے اشعار، واقعات، اور تاریخ کو اپنے چچا مصعب سے
حاصل کیا، اور میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اسے کہاں سے حاصل کیا تو انہوں نے
فرمایا: قریش کے ایک نوجوان سے جس کے جیسا میں نے فصیح نہیں دیکھا اس کا نام محمد
بن ادریس الشافعی تھا، انہوں نے زبانی مجھے سنایا" [130]
امام شافعی کی
تعریف میں ائمہ کے عمومی اقوال
·
امام مالک رحمہ اللہ نے
فرمایا:
"ما يأتيني قرشي أفهم من هذا الفتى
-يعني الشافعي"
"میرے
پاس کوئی قرشی اس نوجوان یعنی امام شافعی سے زیادہ سمجھدار نہیں آیا۔" [131]
·
امام سفیان بن عیینہ کو
یہ افواہ پہنچی کہ امام شافعی فوت ہو گئے ہیں
تو انہوں نے فرمایا:
" إن كان مات فقد مات أفضل أهل زمانه"
"اگر
وہ فوت ہو گئے ہیں تو یقینا ایک ایسا شخص فوت ہوا جو اپنے زمانے میں سب سے افضل ہے" [132]
·
الحسن بن محمد بن الصباح الزعفرانی فرماتے ہیں کہ امام محمد بن
الحسن الشیبانی نے فرمایا:
" إن تكلم أصحاب الحديث
يوما فبلسان الشافعي"
"اگر
آج اصحاب الحدیث بولتے ہیں تو وہ شافعی کی زبان سے بولتے ہیں" [133]
·
امام ابو عبید القاسم بن سلام فرماتے
ہیں:
" ما رأيت رجلا أعقل من
الشافعي"
"میں
نے شافعی سے زیادہ عقل مند کوئی شخص نہیں دیکھا ہے" [134]
·
امام شافعی خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں حاضر ہوئے اور خلیفہ نے
آپ کا کلام سنا تو فرمایا:
" أكثر الله في أهلي مثلك"
"اللہ
میرے گھر میں آپ جیسوں کی کثرت کرے"
[135]
·
ایوب بن سوید الرملی فرماتے ہیں:
" ما ظننت أني أعيش حتى أرى مثل هذا
الرجل قط"
"مجھے
نہیں لگتا تھا کہ میں کبھی بھی اس وقت تک زندہ رہوں گا جب میں اس آدمی جیسا کوئی
شخص دیکھوں گا – یعنی امام شافعی"
[136]
·
امام زعفرانی فرماتے
ہیں:
" كنا نحضر مجلس بشر
المريسي فكنا لا نقدر على مناظرته، فقدم الشافعي فأعطانا كتاب الشاهد واليمين
فدرسته في ليلتين، ثم تقدمت إلى حلقة بشر فناظرته فيه فقطعته، فقال: ليس هذا من
كيسك، هذا من كلام رجل رأيته بمكة معه نصف عقل أهل الدنيا."
"ہم
بشر المریسی (متکلم بدعتی) کی مجلس میں حاضر ہوتے تو اس سے مناظرے کی قدرت نہ
رکھتے۔ پھر امام شافعی ہم میں تشریف لائے اور ایک ایسی کتاب عطاء کی جو شاہد ویمین
کا مقام رکھتی تھی، پس میں نے اس کا دو راتوں میں مطالعہ کر لیا، پھر میں نے بشر
کے حلقہ میں قدم رکھا اور اس سے مناظرہ کیا اور اسے چِت کر دیا۔ تو اس نے کہا: یہ
تمہاری اپنی ذہانت سے نہیں ہے بلکہ یہ اس آدمی کا کلام ہے جسے میں نے مکہ میں
دیکھا تھا، جس کہ پاس دنیا کی آدھی عقل تھی۔" [137]
·
امام قتیبہ بن سعید نے
فرمایا:
"مات الثوري ومات الورع، ومات الشافعي
وماتت السنن، ويموت أحمد وتظهر البدع" وقال: الشافعي إمام
"ثوری
فوت ہوئے تو پرہیزگاری فوت ہو گئی، شافعی فوت ہوئے تو سنن فوت ہو گئی، اور جب احمد
فوت ہوئے تو بدعت ظاہر ہو جائے گی"۔ قتیبہ نے ایک مرتبہ فرمایا: "شافعی امام ہیں۔" [138]
·
صالح بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ:
"جاء الشافعي إلى أبي زائرا، وهو عليل
يعوده، فوثب أبي إليه فقبل ما بين عينيه وأجلسه في مكانه وجلس بين يديه، فلما قام
ليركب راح أبي فأخذ بركابه ومشى معه"
"امام شافعی
میرے والد (امام احمد) کے پاس زیارت کے لئے آئے جب وہ بیمار تھے، تو میرے والد ان
کی طرف بڑھے اور ان کی آنکھوں کے درمیان (یعنی پیشانی پر) بوسہ دیا اور انہیں اپنی
جگہ پر بٹھا دیا اور خود ان کے سامنے بیٹھ گئے۔ جب امام شافعی واپسی پر سواری پر
بیٹھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو میرے والد بھی ان کے ساتھ گئے اور ان کی سواری کی رکاب
پکڑ کر اس کے ساتھ چلنے لگے" [139]
- امام اسحاق بن
راہویہ فرماتے ہیں:
" لقيني أحمد بن حنبل
بمكة، فقال: تعال حتى أريك رجلا لم تر عيناك مثله، قال: فجاء فأقامني على الشافعي "
"احمد بن حنبل مجھ
سے مکہ میں ملے اور کہا: آؤ میں تمہیں ایسے شخص سے ملاؤں جس کے جیسا تمہاری آنکھوں
نے پہلے نہیں دیکھا ہو گا۔ پس وہ چلے اور مجھے شافعی کے سامنے کھڑا کر دیا۔"
[140]
- امام احمد بن حنبل نے فرمایا:
" هذا الذي ترون كله أو عامته من
الشافعي، وما بت منذ ثلاثين سنة إلا وأنا أدعو الله للشافعي وأستغفر له
"
"یہ
جو تم دیکھ رہے ہو یہ سب یا اس کی اکثریت شافعی کی طرف سے ہے۔ اور میں پچھلے تیس
سال سے ایک رات بھی نہیں سویا الا یہ کہ میں نے اس میں شافعی کے لئے دعا کی اور ان
کے لئے استغفار کیا" [141]
- امام ابو داود فرماتے ہیں:
" ما رأيت أحمد يميل إلى
أحد ميله إلى الشافعي "
"میں
نے احمد (بن حنبل) کو کسی طرف اتنا مائل ہوتے نہیں دیکھا جتنا وہ شافعی کی طرف
مائل تھے" [142]
- امام احمد بن حنبل نے فرمایا:
" ما أحد مس محبرة ولا
قلما إلا وللشافعي في عنقه منة "
"جس
کسی نے قلم اور دوات کو ہاتھ لگایا ہے اس کی گردن پر شافعی کا احسان ہے۔" [143]
- صالح
بن احمد فرماتے ہیں:
" مشى أبي مع بغلة الشافعي فبعث إليه
يحيى بن معين يعاتبه، فقال أحمد: لو مشيت من الجانب الآخر كان أنفع لك
"
"میرے
والد (امام احمد) امام شافعی کی سواری کے ساتھ پیدل چل رہے تھے تو امام یحیی بن
معین نے ان کی طرف پیغام بھیجا اور انہیں ملامت کیا، تو احمد نے فرمایا: اگر آپ ان
کی سواری کی دوسری جانب سے پیدل چلیں تو یہ آپ کے لئے زیادہ فائدہ مند ہو گا" [144]
- امام ابراہیم الحربی امام احمد
بن حنبل سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" سئل «أحمد بن حنبل» عن
«مالك بن أنس» فقال: حديث صحيح ورأي ضعيف.
وسئل عن
«الأَوْزَاعِي» فقال: حديث ضعيف ورأي ضعيف.
وسئل عن «الشافعي»
فقال: حديث صحيح ورأي صحيح.
وسئل عن «أبي حنيفة»
فقال: لا رأي ولا حديث"
"امام احمد بن حنبل سے امام مالک بن انس کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ان
کی حدیث صحیح اور رائے ضعیف ہے۔
پھر ان سے امام اوزاعی کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ان کی حدیث ضعیف اور
رائے بھی ضعیف ہے
پھر ان سے امام شافعی کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ان کی حدیث بھی صحیح
اور رائے بھی صحیح ہے
پھر ان سے امام ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ان کے پاس نہ رائے
ہے اور نہ حدیث" [145]
اس قول کے تحت امام بیہقی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
امام احمد نے امام مالک کی رائے کو ضعیف اس لئے کہا کیونکہ وہ بعض مسائل میں اپنی صحیح حدیث
کو چھوڑ کر اہل مدینہ کے عمل پر عمل کرتے تھے۔
اور انہوں نے امام اوزاعی کے بارے میں یہ اس لئے کہا کیونکہ وہ بعض مسائل میں مقطوع اور مرسل
روایات سے بھی حجت لیتے تھے اور پھر ان پر قیاس کرتے تھے۔
اور انہوں نے امام شافعی کے بارے میں یہ اس لئے کہا کیونکہ وہ صرف صحیح معروف حدیث سے حجت
لیتے تھے اور پھر فروع کو ان پر قیاس کرتے تھے جن کی اصل کتاب وسنتِ صحیحہ اور
اجماع سے ثابت ہو۔
اور پھر امام ابو حنیفہ کے منہج کے بارے میں انہوں نے ایک طویل بحث بیان کی ہے۔ [146]
- امام احمد ایک جگہ فرماتے ہیں:
" إذا سئلت عن مسألة لا
أعْرِفُ فيها خبراً، قلت فيها بقول الشافعي"
"جب مجھ سے کوئی ایسا مسئلہ پوچھا جاتا ہے جس کے بارے میں مجھے کسی خبر
کا علم نہ ہو تو اس پر میں شافعی کے قول پر فتوی دیتا ہوں" [147]
- امام احمد فرماتے ہیں:
" ما تكلم في العلم رجل أقل
خَطاءً، ولا آخَذَ بسنة النبي، صلى الله عليه وسلم، من الشافعي"
"علم میں کلام کرنے والا کوئی شخص شافعی سے کم غلطی والا اور ان سے زیادہ
سنتِ نبوی ﷺ کو اخذ کرنے والا نہیں ہے" [148]
·
امام اسحاق بن راہویہ نے
ثوری، اوزاعی اور
دیگر ائمہ کا ذکر کیا اور فرمایا:
" ما تكلم أحد بالرأي إلا
والشافعي أكثر اتباعا وأقل خطأ منه "
"کسی
نے بھی رائے سے کلام نہیں کیا الا یہ کہ شافعی ان میں سب سے زیادہ (نصوص کی) اتباع
کرنے والے اور سب سے کم غلطی کرنے والے ہیں"
اور فرمایا: " الشافعي إمام (شافعی امام ہیں)" [149]
·
امام ربیع بن سلیمان المرادی فرماتے
ہیں:
" لو وزن عقل الشافعي
بنصف عقل أهل الأرض لرجحهم، ولو كان في بني إسرائيل لاحتاجوا إليه
"
"اگر
شافعی کی عقل کا وزن دنیا کی آدھی عقل سے کیا جائے تو ان کی عقل ان پر بھاری ہو
گی، اور اگر وہ بنی اسرائیل میں ہوتے تو لوگ ان کی طرف محتاج ہوتے" [150]
·
ربیع نے ایک جگہ فرمایا:
" كان أصحاب الحديث رقودا
حتى أيقظهم الشافعي "
"اصحاب
الحدیث سوئے ہوئے تھے حتی کہ امام شافعی نے انہیں جگایا" [151]
·
امام ابو ثور فرماتے
ہیں:
" لما ورد الشافعي العراق جاءني حسين بن
علي الكرابيسي وكان يختلف معي إلى أهل الرأي فقال لي: ورد رجل من أصحاب الحديث
يتفقه فقم بنا نسخر منه، فذهبنا إليهِ، فسأله الحسين عن مسألة، فلم يزل يقول: قال
الله، قال رسول الله، حتى أظلم علينا البيت، فتركنا ما كنا فيه واتبعناه
"
"جب
شافعی عراق تشریف لائے تو حسین بن علی الکرابیسی میرے پاس آئے، وہ میرے ساتھ اہل
رائے کی پیروی کیا کرتے تھے، تو انہوں نے مجھ سے کہا: اصحاب الحدیث میں سے ایک
آدمی آیا ہے جس نے فقہ حاصل کی ہے، چلو آؤ اس کا مذاق بنائیں، تو ہم ان کی طرف چلے
گئے۔ حسین نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا تو (اس کے جواب میں) امام شافعی لگاتار قال
اللہ، قال رسول اللہ بولتے رہے یہاں تک کہ ہمارا راستہ تنگ ہو گیا، تو ہم نے رائے
کو چھوڑ کر ان کی اتباع کو اختیار کر لیا۔" [152]
·
امام محمد بن عبد اللہ بن عبد
الحکم فرماتے ہیں:
"ما رأيت مثل الشافعي، كان أصحاب
الحديث ونقاده يجيؤون إليه فيعرضون عليه، فربما أعل نقد النقاد منهم ووقفهم على
غوامض من نقل الحديث، لم يقفوا عليها فيقومون وهم يتعجبون، ويأتيه أصحاب الفقه
المخالفون والموافقون فلا يقومون إلا وهم مذعنون له بالحذق والدراية، ويجيئه أصحاب
الأدب فيقرؤون عليه الشعر فيفسره، ولقد كان يحفظ عشرة آلاف بيت من شعر هذيل
بإعرابها وغريبها ومعانيها، وكان من أضبط الناس للتاريخ، وكان يعينه شيئان وفور
عقل وصحة ذهن، وملاك أمره إخلاص العمل لله."
"میں
نے شافعی جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ اصحاب الحدیث اور نقاد الحدیث ان کے پاس آتے اور
حدیثیں بیان کرتے تو بعض اوقات وہ نقاد کی نقد کی علت بیان کرتے اور نقلِ حدیث پر
انہیں ایسی دقیق باتوں سے واقف کرواتے جن سے وہ پہلے واقف نہ ہوتے، پس وہ حیران
ومتعجب ہو کر وہاں سے اٹھتے۔ اور ان کے پاس اصحاب الفقہ میں سے ان کے مخالفین اور
موئیدین دونوں آتے اور وہ ان کی مہارت ودرایت کو تسلیم کیے بغیر وہاں سے نہ اٹھتے۔
اور ان کے پاس اصحاب الادب آتے اور ان پر اشعار پڑھتے تو وہ ان کی تفسیر بیان
کرتے، اور شافعی نے ہذیل قبیلہ کے اشعار کے دس ہزار ابیات کو ان کے اعراب، غرائب،
اور معانی کے ساتھ یاد کر رکھا تھا۔ اور وہ تاریخ کے معاملے میں تمام لوگوں میں سب
سے زیادہ پختہ تھے۔ اور ان کو دو چیزوں سے مدد ملی: تیز عقل وصحتِ ذہن اور عمل میں
اللہ کے لئے اخلاص کا ہونا۔"
[153]
·
امام ابن عبد الحکم فرماتے
ہیں:
"وكنت إذا رأيت من يناظر
الشافعي رحمته، وعنه قال: الشافعي علم الناس الحجج."
"جب میں کسی کو امام شافعی سے مناظرہ کرتے دیکھتا تو مجھے اس پر رحم
آجاتا۔" اور انہوں نے فرمایا: "شافعی نے لوگوں کو دلائل سکھائے ہیں" [154]
·
امام ابو نعیم الفضل بن دکین فرماتے
ہیں:
"ما رأيت ولا سمعت أعقل عقلا ولا أحضر
فهما ولا أجمع علما من الشافعي."
"میں
نے شافعی سے زیادہ عاقل، حاضر فہم اور علم میں جامع شخص نہ دیکھا ہے اور نہ سنا ہے" [155]
·
امام ابراہیم بن اسحاق الحربی فرمایا
کرتے تھے:
"قال أستاذ الأستاذين، فيقال
له: من هو: فيقول الشافعي أليس هو أستاذ أحمد بن حنبل."
"استادوں کے استاد نے فرمایا۔۔۔ تو ان سے کسی نے پوچھا: وہ کون ہے؟ تو
فرمایا: امام شافعی، کیا وہ امام احمد بن حنبل کے بھی استاذ نہیں؟" [156]
·
امام ابن خزیمہ نے
فرمایا:
"ما كان أحمد إلا من أتباع
الشافعي"
"امام احمد تو امام شافعی کے متبعین میں سے تھے" [157]
امام ابن خزیمہ سے
پوچھا گیا:
"هل يعرف لرسول الله صلى الله
عليه وسلم سنة في الحلال والحرام لم يودعها الشافعي في كتابه؟ قال: لا."
"کیا رسول اللہ ﷺ کی سنت سے کوئی حلال یا حرام ایسا ہے جس کو شافعی نے
اپنی کتاب میں بیان نہ کیا ہو؟" تو انہوں نے فرمایا: "نہیں" [158]
·
امام ابو زرعہ الرازی نے
فرمایا:
"ما أعلم أحدا أعظم منة على
أهل الإسلام من الشافعي"
"میں کسی انسان کو نہیں جانتا جس نے اہل اسلام پر امام شافعی سے زیادہ
بڑا احسان کیا ہو۔" [159]
·
امام
ابو عبد اللہ محمد بن ابراہیم البوشنجی فرماتے ہیں:
"تصفحنا أخبار الناس فلم نجد
بعد الصدر الأول من هذه الأمة أوضح شأنا ولا أبين بيانا ولا أفصح لسانا من
الشافعي، مع قرابته من رسول الله صلى الله عليه وسلم"
"ہم نے انسانوں کی تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھا تو پہلی صدی (ہجری) کے
بعد ہمیں اس امت میں امام شافعی سے زیادہ واضح شان والا، صاف بیان والا، اور فصیح
زبان والا کوئی نہیں ملا، ساتھ ان کی رسول اللہ ﷺ سے قرابت کے۔" [160]
یہ محض چند اقوال نقل کیے گئے ہیں۔
مزید اقوال کے لئے امام شافعی کے مناقب پر
لکھی کتب کی طرف رجوع کریں، خاص طور پر امام بیہقی کی
کتاب مناقب الشافعی۔
امام شافعی بحیثیتِ
مجدد
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا
ہےکہ آپ ﷺ نے فرمایا:
" إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ- عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ
سَنَةٍ- مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا"
" بیشک اللہ ذوالجلال ہر سو سال کے سِرے پر اس امت کے اندر ایک
آدمی پیدا کرتا رہے گا جو اس کے دین کی تجدید (یعنی ازسر نو قائم اور مضبوط) کرتا
رہے گا ۔" [161]
اس حدیث میں لفظ
"من" واحد اور جمع دونوں کے لئے آ سکتا ہے، اس لئے یہ ایک شخصیت بھی ہو
سکتی ہے اور متعدد شخصیات بھی۔ "رأس" کا لفظ ابتداء اور انتہاء اول وآخر دونوں کے لئے
استعمال ہوتا ہے، اس لیے بہت سے علماء کے نزدیک ابتداء یا انتہاء میں اس کے کام کا
ظہور ضروری ہے، لیکن وجود کے لحاظ سے بھی وہ کسی صدی کے اوائل واواخر میں ہو اور
اس کے کام میں تجدیدی روح نظر آئے تو اس پر اس کا اطلاق ہونا چاہیے۔ تجدید یعنی
سنت کی خوب اشاعت اور بدعت کی پر زور مخالفت، بڑے پیمانے پر بگاڑ کی اصلاح اور
عظیم دعوتی واصلاحی کام، مختصر لفظوں میں اس کے کام میں دینی انقلاب کی روح نظر
آئے، اور وہ ہوا کا رخ موڑنے میں کامیاب ہو جائے، اور اس کے اثراے دیر پا اور دور
رس ثابت ہوں۔
· اس حدیث کے حوالے سے
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
" فكان في المائة
الأولى: عمر بن عبد العزيز، وفي المائة الثانية: الشافعي"
"پہلی صدی کے مجدد عمر بن عبد العزیز تھے، اور دوسری صدی کے مجدد امام
شافعی تھے" [162]
نیز اس بات پر تمام
اہل علم کا اتفاق ہے۔
· اسی لئے حافظ ابن حجر تقریب میں امام شافعی
کے بارے میں خلاصے کے طور پر فرماتے ہیں:
" هو المجدد لأمر الدين
على رأس المائتين"
"وہ دوسری صدی میں دین کے مجدد تھے" [163]
امام شافعی
کے بعض تجدیدی کارناموں کو مندرجہ ذیل خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
·
اصحاب الحدیث اور اصحاب الرائے کے درمیان تطبیق
امام احمد بن حنبل فرماتے
ہیں:
"ما زلنا نلعن أصحاب الرأي
وهم يلعنوننا حتي جاء الشافعي فمزج بيننا"
"ہم اصحاب الحدیث مسلسل اصحاب الرائے کو لعنت کرتے تھے اور وہ ہمیں لعنت
کرتے تھے، یہاں تک کہ امام شافعی تشریف لائے تو ہم لوگوں کے درمیان جوڑ پیدا کیا۔" [164]
اس سے پہلے محدثین کی حیثیت عطار یعنی پنساری کی تھی جو صرف
دوائیں پیچتا ہے علاج نہیں جانتا، اور فقہاء طبیب تھے جو علاج جانتے تھے مگر علاج
کے لئے دوائیں نہیں رکھتے تھے۔ امام شافعی طبیب
بھی تھے، عطار بھی۔ امام احمد نے اس حقیقت کا
ادراک کر لیا تھا، چنانچہ فرماتے ہیں:
"كان الفقهاء أطباء والمحدثون
صيادلة، فجاء محمد بن إدريس طبيبا صيدلانيا، ما مقلت العيون مثله"
"فقہاء طبیب تھے اور محدثین کی حیثیت عطار کی تھی، امام شافعی اس شان سے
جلوہ گر ہوئے کہ بیک وقت آپ طبیب بھی تھے اور عطار بھی، آنکھوں نے آپ کی نظیر نہیں
دیکھی" [165]
·
قرآن وسنت کے فہم کے اصولوں کو منضبط کیا
شریعت کے بنیادی اصول یعنی قرآن وحدیث اور اجماع وقیاس تمام
اہل حق کے نزدیک مسلم اور فی الجملہ ہر جگہ رائج تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض
حلقوں میں استحسان اور مصالح مرسلہ کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی تھی، اور بسا
اوقات قیاس کے مقابلے میں اس کو ترجیح دی جانے لگی تھی، جس کی وجہ سے فقہائے
محدثین بڑی تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے۔
دوسری طرف مخصوص حالات کی وجہ سے ایسی صورت حال پیدا ہو گئی
تھی کہ بہت سی احادیث متروک ہوئی جا رہی تھیں، اور لوگوں کے سوچنے کے انداز بدل
رہے تھے، اپنے علاقے کے آثار کو دوسری صحیح حدیثوں کے مقابلے میں فوقیت دی جا رہی
تھی، ان حالات میں محدثین کو فکر لاحق ہوئی کہ یہی صورت حال رہی تو آگے بہت خطرات
پیدا ہوں گے اور انکار حدیث کے دروازے کھلیں گے، ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے
ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو فقہ وحدیث دونوں میں کمال رکھتی ہو، اس کے لئے امام
شافعی سے بڑھ کر کوئی شخصیت نہیں ہو سکتی تھی، چنانچہ سرخیلِ محدثین امام عبد
الرحمن بن مہدی کی نگاہ آپ پر پڑی اور انہوں نے خط لکھ کر آپ سے درخواست کی کہ
ایسی کتاب لکھیں جس میں قرآن وحدیث کو سمجھنے کے اصول بیان کیے جائیں۔۔۔
ان کی فرمائش کو وقت کا تقاضا اور زمانے کی ضرورت سمجھ کر
آپ نے قلم اٹھایا اور اپنی بے نظیر کتاب "الرسالہ" لکھ کر ان کی خدمت
میں بھیجی۔ اس کتاب کے متعدد مباحث نے سوچنے کے انداز بدل دیے اور فکر ونظر کو
اعتدال بخشا۔
امام شافعی سے پہلے فقہ
کوئی منضبط علم نہیں تھا، بلکہ چند فتاوی اور فیصلوں کے مجموعے کا نام تھا، اور
زیادہ سے زیادہ پیش آمدہ یا فرضی مسائل کا وقتی اور جزئی حل تھا۔ کوئی کلی قاعدہ
یا اصول نہیں تھا، جس پر بعد کے لوگ آسانی سے چل سکیں، امام شافعی نے کلی اصول وقواعد وضع کر کے بعد والوں کے
لئے راستہ ہموار کیا۔
آپ کی اس شان کو تسلیم کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل نے یہاں تک کہہ دیا کہ:
" ما أحد مس محبرة ولا
قلما إلا وللشافعي في عنقه منة "
"جس
کسی نے قلم اور دوات کو ہاتھ لگایا ہے اس کی گردن پر شافعی کا احسان ہے۔" [166]
·
حدیث کے رد وقبول کے اصول متعین کیے
امام شافعی کا ایک بڑا
تجدیدی کارنامہ حدیث کے رد وقبول کے اصول متعین کرنا ہے۔ امام شافعی کے زمانے تک تنقید حدیث کا کوئی صاف راستہ
نہیں نکلا تھا، لوگ رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے کوئی بات بیان کرتے تھے جس کی سند میں
کبھی ایک راوی چھوٹ جاتا تھا، کبھی دو، یا سند کی انتہا کا پتا نہ چلتا تھا۔ یا
کوئی آدمی جس نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ نہ پایا ہو، کہہ دیتا تھا کہ رسول اللہ کے
زمانے میں ایسا ہوتا تھا، اور عموما اس طرح کی باتوں پر اعتبار کیا جاتا تھا۔ اس
طرح منقطع، مرسل اور موقوف روایتیں خوب چلنے لگیں۔ امام شافعی
نے مجددانہ جرات کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھائی کہ مرسل کو مطلقا قبول
کرنا فاش غلطی ہے (البتہ اس کو چند شرطوں کے ساتھ قبول کیا جا سکتا ہے)۔
اسی طرح سلف سے حسنِ ظن ہی کی بنیاد پر موقوف ومقطوع
روایتوں کو مسند مرفوع حدیثوں پر بعض حلقوں میں صاف ترجیح دی جانے لگی تھی۔ امام
شافعی نے اصول متعین کیے کہ موقوفات کو کب قبول کیا جائے گا۔ یہ اور اس طرح کے بہت
سے اصول امام شافعی نے وضع کر کے حدیث کی دنیا
میں انقلاب عظیم برپا کر دیا۔
·
حدیث وسنت کا دفاع
امام شافعی
کا ایک بڑا تجدیدی کارنامہ حدیث وسنت کا دفاع، خبر آحاد کی حجیت کا اثبات،
اور حدیث پر اعتماد کا بحال کرنا ہے۔ امام شافعی کے زمانے میں ایسے لوگ پیدا ہو
گئے تھے جو غیر متواتر حدیثوں کی حجیت کا مطلق انکار کرنے لگے تھے، امام شافعی کے
زمانے میں انکار حدیث کے سلسلے میں تین طرح کے لوگ تھے:
·
(الف)
جو کلی طور پر سنت کے منکر تھے، ان کا دعوی تھا کہ صرف قرآن حجت ہے اور بس۔
· (ب) وہ لوگ جو سنت کو اسی صورت میں قبول کرتے
تھے جب کہ اس کی تائید میں قرآن کی کوئی آیت ہو۔
· (ج) وہ لوگ جو صرف حدیث متواتر کو قبول کرتے
تھے اور غیرمتواتر یعنی خبر آحاد کا کوئی اعتبار نہیں کرتے تھے۔[167]
امام شافعی نے اپنی متعدد اہم ترین کتابوں
"الام"، "الرسالہ"، "بیان فرائض اللہ" اور
"جماع العلم" میں اس فتنے کا مقابلہ کرتے ہوئے مخالفین اور معترضین کو
دندان شکن جواب دیا ہے۔
انکار حدیث کا ایک بڑا سبب بہت سی
حدیثوں کا ظاہری تعارض تھا، تعارض دور کرنا ہر کسی کے بس کا کام نہیں تھا، اللہ نے
خاص طور پر امام شافعی کو اس فتنے کی سرکوبی کے لئے کھڑا کیا، وہ پورے اعتماد کے
ساتھ میدان میں اترے اور "اختلاف الحدیث" کتاب لکھ کر اس اشکال کو دور
کیا اور متعارض حدیثوں میں تطبیق دے کر حقیقت واضح کی، اور اس طرح بھی متشککین یا
مشککین فی الحدیث کا رد کیا۔ امام شافعی نے اس کتاب میں دو سو سے زیادہ متعارض
حدیثوں میں تطبیق دی ہے۔
بعد میں علماء نے اس کتاب کو بنیاد
بنا کر اس موضوع پر لکھا، مگر سب کے امام اور اس موضوع کے بانی مبانی امام شافعی ہی تھا، انہوں نے ہی یہ راہ ہموار کی تھی۔
امام احمد
امام شافعی کے اس تجدیدی کام کی عظمت
محسوس کرتے ہوئے فرماتے تھے:
"رحمه الله كان يذب عن
الآثار"
"اللہ ان پر رحمت نازل کرے وہ حدیث کا دفاع کرتے تھے"
[168]
·
حدیثِ رسول کی اہمیت کو معاشرے میں اجاگر کیا
امام
شافعی کا ایک بڑا کارنامہ قولِ رسول ﷺ کی
اہمیت اور سنت کی عظمت کو معاشرے میں جاری وساری کرنا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ
تمام فقہاء اس کو اہمیت دیتے تھے، اور اس کی عظمت کے پورے قائل اور داعی تھے، مگر
امام شافعی نے جس قوت اور کثرت سے اس کو اپنی
زبان وقلم سے بیان کیا، اس نے علمی فضا پر خاص اثر ڈالا اور اہل علم کو مخصوص طرز
فکر کی راہ پر گامزن کیا۔
امام
شافعی کی یہ بات نہایت مشہور ہے کہ جب کوئی
صحیح حدیث مل جائے تو میری بات کا کوئی اعتبار نہیں، پھر کہیں دیکھنے کی ضرورت
نہیں، حدیث لے لو اور میری بات چھوڑ دو، اس طرح کی بات انہوں نے مختلف مجلسوں میں
اور متعدد شاگردوں کو الگ الگ نصیحت کرتے ہوئے فرمائی۔
· اپنے شاگرد اور خادم
خاص ربیع بن سلیمان مرادی کو نصیحت کرتے ہوئے
فرمایا:
" قد أعطيتك جملة تغنيك
إن شاء الله: لا تدع لرسول الله، صلى الله عليه وسلم، حديثاً أبداً، إلا أن يأتي
عن رسول الله، صلى الله عليه وسلم خلافه، فتعمل بما قلت لك في الأحاديث إذا اختلفت"
"تمہیں ایک (بنیادی) بات بتاتا ہوں یہ بات ان شاء اللہ تم کو سب باتوں سے
بے نیاز کر دے گی، کبھی رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو ترک مت کرنا مگر یہ کہ خود رسول
اللہ ﷺ سے اس کے خلاف کوئی بات منقول ہو، تو پھر مختلف متعارض حدیثوں کی صورت میں
جو بات میں نے تم کو بتائی ہے اس پر عمل کرنا۔"
· نیز فرمایا:
" إذا وجدتم في كتابي
خلاف سنة رسول الله، صلى الله عليه وسلم، فقولوا بسنة رسول الله، صلى الله عليه
وسلم، ودعوا ما قلت"
"میری کتابوں میں کوئی بات سنت کے خلاف دیکھو تو اس کو چھوڑ دو اور سنت
پر عمل کرو"۔
· ایک دفعہ فرمایا:
" كل مسألة تكلمت فيها
صح الخبر فيها عن النبي، صلى الله عليه وسلم، عند أهل النقل بخلاف ما قلت - فأنا
راجع عنها في حياتي وبعد موتي"
"جس مسئلے پر بھی میں نے کلام کیا ہے کوئی حدیث اس کے خلاف ثابت ہو جائے
تو میں اپنی بات سے ہمیشہ کے لئے رجوع کرتا ہوں زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی"۔
· ایک دفعہ فرمایا:
"ما من أحد إلا ويَذهب عليه سنّة
رسول الله، صلى الله عليه وسلم، وتعزب عنه. فمهما قلتُ من قولٍ أو أصَّلْتُ من
أصْلٍ فيه عن رسول الله، صلى الله عليه وسلم، خلاف ما قلتُ - فالقول ما قال رسول
الله، صلى الله عليه وسلم، وهو قولي. قال: وجعل يردد هذا الكلام"
"رسول اللہ ﷺ کے سامنے کسی کی بات کا کوئی اعتبار نہیں جو بھی میں نے بات
کہی اور جو بھی مسئلہ مستنبط کیا ہے، کوئی حدیث اس کے خلاف پڑ جائے تو بس وہی میرا
قول ہے جو حدیث ہے اور میری بات کا کوئی اعتبار نہیں، اور بار بار یہ بات دہرانے
لگے"۔
· ایک مرتبہ ایک حدیث
بیان کی، ایک شخص نے سوال کیا: کیا آپ اس کو لیتے ہیں؟ انہوں نے کہا:
" متى رويتُ عن رسول
الله، صلى الله عليه وسلم، حديثاً صحيحاً فلم آخذ به والجماعة - فأُشهدكم أنّ عقلي
قد ذهب. وأشار بيده عن رءوسهم"
"میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی صحیح حدیث روایت کروں اور اس پر عمل نہ کروں تو
میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میری عقل ماری جا چکی ہے" راوی کہتے ہیں: "اور
اپنے ہاتھ سے ان کے سروں کی طرف اشارہ کیا"۔
· ایک دفعہ ایک شخص نے
آپ سے ایک مسئلہ پوچھا، آپ نے مسئلہ بتا دیا اور حدیث پیش کی، اس شخص نے کہا کہ آپ
اس حدیث کے مطابق کہتے ہیں؟ تو شافعی تھرتھر
کانپنے لگے اور غصے سے لال پیلے ہو گئے اور اس سے کہا:
" ويحك. أيّ أرض
تقلّني؟ وأي سماء تظلّني؟ إذا رويت عن رسول، لله صلى الله عليه وسلم، شيئاً فلم
أقل به. نعم على الرأس والعينين، على الرأس والعينين"
"تمہارا ستیاناس ہو! کس زمین پر میں رہ سکوں گا اور کس آسمان کے نیچے
زندگی گزار سکوں گا اگر کوئی حدیث روایت کروں اور اس کے مطابق نہ کہوں! آپ ﷺ کی
بات سر آنکھوں پر، آپ کی بات سر آنکھوں پر!!" [169]
· امام شافعی کی
یہ بات کہ حدیث صحیح کے سامنے ہماری بات کا کوئی اعتبار نہیں، جب حدیث ملے تو
ہماری بات اٹھا کر پھینک دو اور حدیث لو، اس کے بارے میں امام ابن حبان دعوے کے ساتھ کہتے تھے کہ:
"ما تكلم بها أحد في
الإسلام قبله ولا تفوه بها أحد بعده إلا والمأخذ فيها كان عنه"
"یہ ایسی بات ہے
کہ امام شافعی سے پہلے کسی نے نہیں کہی، اور بعد میں کسی نے کہی تو اس کی اصل امام
شافعی ہی کی بات ہے" [170]
·
فرق باطلہ بالخصوص معتزلہ کا زور توڑنے میں امام شافعی کا کردار
کلامی مباحث میں پڑنا اور عقائدی مسائل میں الجھنا امام شافعی کو بالکل پسند نہیں تھا، بلکہ آپ اس کو کفر کا
راستہ قرار دیتے تھے، مگر عقلی راہ سے جب اسلامی عقائد پر راست حملے ہو رہے ہوں تو
اس کا جواب دینا بھی ضروری سمجھتے تھے۔
امام شافعی کو دلائل
واستحضار اور عقل وذہانت میں اہل زمانہ پر جو تفوق حاصل تھا، اس کی وجہ سے عقائدی
اور کلامی بحثوں اور مناظروں میں سب آپ سے گھبراتے تھے، آپ کو کوئی شکست نہیں دے
سکتا تھا، علمائے اہل سنت بجا طور پر آپ سے توقعات رکھتے تھے، اور آپ کو اپنا
نمائندہ سمجھتے تھے۔
بغداد کا مشہور معتزلی عالم بشر
المریسی مناظروں کا بڑا دلدادہ تھا، وہ حج کے لئے مکہ مکرمہ آیا تو امام شافعی سے ملا اور کچھ بحث کی اور نہایت مرعوب ہوا اس
نے سمجھ لی کہ ان سے مناظرہ نہیں کیا جا سکتا، اس کو ان سے بڑا خطرہ محسوس ہوا اور
اس نے برملا اس کا اظہار کیا، چنانچہ واپس جا کر اپنے ساتھیوں سے کہا:
"رأيت شابا من قريش بمكة، ما
أخاف علي مذهبنا إلا منه"
"میں نے مکہ میں ایک قریشی نوجوان کو دیکھا ہے، مجھے تو اپنے مسلک پر بس
اسی سے خطرہ ہے" [171]
امام شافعی نے ان لوگوں
سے بڑے مناظرے کیے اور ان کا زور توڑنے میں کامیابی حاصل کی، مگر اس کو میدان نہیں
بنایا، بلکہ وہ اس سے گریز ہی کرنے کی کوشش کرتے تھے، مگر وقت ضرورت اس میں حصہ
لیتے رہے۔
اسی طرح آپ مصر گئے تو وہاں کے علمائے حق نے اطمینان کا
سانس لیا کہ اب یہاں معتزلہ کا زور ٹوٹ جائے گا، چنانچہ امام شافعی نے ان سے ٹکر لی اور انہیں چت کر دیا۔
یہی وجہ ہے کہ امام شافعی کے
بعد جب معتزلہ کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوئی تو بغداد اور مصر دونوں جگہ حکومت سے
ٹکر لے کر فتنے کا مقابلہ کرنے میں امام شافعی کے
شاگردوں کا نمایاں کردار رہا۔ بغداد میں امام احمد جس
آزمائش سے گزارے گئے اور جس استقامت کا مظاہرہ کیا دنیا جانتی ہے، مصر میں حکومت
کے موقف کی مخالفت کرتے ہوئے حق پر تا دم اخیر ڈٹے رہنے والوں میں امام شافعی کے شاگرد اور جانشین امام بویطی کا نام سب سے نمایاں ہے، وہ بیڑیوں میں جکڑے
رہے یہاں تک کہ حق کی خاطر جیل ہی میں جان دی، استقامت کے ان عملی مظاہروں کو امام
شافعی کے موقف کا تسلسل سمجھنا چاہیے۔ [172]
امام شافعی کے
مناقب وحالات پر کتب
امام شافعی
کی فضیلت ومناقب میں ایک بات یہ بھی شامل ہے کہ بڑے سے بڑے ائمہ نے آپ کے
مناقب پر کتب لکھی ہیں۔ اور یہ بھی کہ کسی بھی انسان کے مناقب پر اتنی زیادہ کتب
کبھی نہیں لکھی گئیں جتنی کتب امام شافعی کے مناقب پر ملتی ہیں۔
امام شافعی
کے حالات پر اتنے لوگوں نے مستقل کتابیں لکھی ہیں جن کا شمار آسان نہیں اور
شروع ہی سے یہ معاملہ رہا، چنانچہ امام نووی نے
چند حضرات کا نام لکھ کر لکھا ہے:
"وخلائق لا يحصون" "اور اتنے لوگوں نے لکھا ہے جن کا شمار نہیں ہو سکتا" [173]
اور حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
"وقد سبق الي تأليف في
ذلك من يتعسر استيعابهم بالذكر"
"اس سے پہلے امام شافعی کے حالات میں اتنے لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں جن
کا شمار مشکل ہے" [174]
امام شافعی پر ڈیڑھ سو سے زیادہ کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔
ان میں سے بعض کا ذکر درج ذیل ہے:
·
فضائل
الشافعي – از امام محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم المصری
المالکی (م 268 ھ): یہ امام شافعی کے
خاص تلامذہ میں سے ہیں، امام شافعی کی وفات کے
بعد خاص وجہ سے اپنے آبائی مسلک مالکی اختیار کیا تھا، اس کے باوجود امام شافعی کے بڑے گرویدہ تھے، ان کی کتاب فضائل الشافعی
امام شافعی کے مناقب پر سب سے پہلی کتاب ہے۔
·
فضائل
الشافعي – از امام اہل الظاہر داود بن علی الظاہری (م
270 ھ)
·
مناقب
الشافعي – از امام زکریا بن یحیی الساجی (م 307 ھ)
·
آداب الشافعي ومناقبه
– از امام عبد
الرحمن بن ابی حاتم الرازی (م 327 ھ)
·
مناقب
الشافعي – از امام ابن حبان البستی (م 354 ھ)
·
مناقب
الإمام الشافعي – از امام محمد بن الحسین الآجری (م 360 ھ)
·
مناقب الإمام الشافعي
– از امام ابو
الحسن محمد بن الحسین الأبری (م 363 ھ) – یہ ایک نہایت جامع کتاب ہے جو چوہتر (74) ابواب پر مشتمل تھی۔ اس
سے بیہقی اور ابن
حجر وغیرہ نے بکثرت نقل کیا ہے۔ اس کتاب کا ایک چھوٹا سا حصہ جو ترکی کے ایک مخطوطے کی شکل میں موجود ہے کو
شائع کیا گیا ہے، جبکہ مکمل کتاب مفقود ہے۔
·
مناقب
الشافعي – از امام ابو الحسن الدارقطنی (م 385 ھ)
·
مناقب
الشافعي – از امام ابو سلیمان الخطابی (م 388 ھ)
·
فضائل
الشافعي – از امام ابو عبد اللہ الحاکم (م 405 ھ)
صاحب المستدرک
·
مناقب
الإمام الشافعي – از امام ابو نعیم الاصبہانی (م 430 ھ)
·
مناقب الشافعي
– از امام ابو
بکر البیہقی (م 458 ھ) – یہ سب سے بہترین اورجامع کتاب ہے۔
·
مناقب
الشافعي – از امام خطیب بغدادی (م 463 ھ)
·
مناقب
الإمام الشافعي – از امام الحرمین ابو المعالی عبد الملک بن عبد
اللہ الجوینی (م 478 ھ)
·
مناقب
الإمام الشافعي – از امام ابن ابی الخیر العمرانی (م 558 ھ)
·
مناقب
الشافعي – از امام ابن عساکر الدمشقی (م 571 ھ)
·
مناقب
الشافعي – از امام ابو الفرج ابن الجوزی الحنبلی (م
597 ھ)
·
مناقب الإمام الشافعي – از امام فخر الدین الرازی (م 606 ھ)
·
مناقب الإمام الشافعي – از علامہ ابن اثیر الجزری (م
606 ھ)
·
مناقب
الشافعي – از امام نووی (م 676 ھ)
·
مواهب الوفي في مناقب الشافعي – از علامہ ابراہیم بن عمر
الجعبری شیخ القراء (م 732 ھ)
·
مناقب
الإمام الشافعي – از علامہ تاج الدین السبکی (م 771 ھ)
·
الواضح النفيس في مناقب ابن إدريس – از امام ابن کثیر الدمشقی (م
774 ھ)
·
مناقب
الإمام الشافعي – از امام ابن الملقن (م 804 ھ)
·
توالي التأسيس بمعالي ابن إدريس–
از امام ابن حجر العسقلانی (م
852 ھ)
·
شافي
العي في مناقب الشافعي – از علامہ جلال الدین السیوطی (م
911 ھ) [175]
اردو میں امام شافعی کی سیرت وسوانح پر مشتمل بعض کتابیں جو آن
لائن ملی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
·
امامشافعی مجدد قرن ثانی - از عبد السبحان ناخدا ندوی مدنی
·
امامشافعی کا علمی مقام – از فیصل احمد ندوی
·
حیات امام شافعی
– از کامران اعظم سہدروی
·
فرزندحرم امام شافعی کے علمی سفر – از ڈاکٹر اختر حسین
عزمی
·
فقہشافعی تاریخ وتعارف - مفتی محمد سراج الدین قاسمی
اس مضمون کے مصادر:
· مضمون: "امام
شافعی"؛ بلاگ: اسلام اِن اردو بلاگ؛ لنک: "https://islaminurdublog.wordpress.com/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%B4%D8%A7%D9%81%D8%B9%DB%8C/"
· کتاب: "امام
شافعی کا علمی مقام"؛ مصنف: فیصل احمد ندوی؛ لنک: "https://kitabosunnat.com/kutub-library/imam-shafi-ka-ilami-muqam"
·
کتاب: "مناقب الشافعی"؛ تصنیف: امام ابو بکر
البیہقی؛ لنک: "https://waqfeya.net/book.php?bid=2758"
·
كتاب: "مناقب الامام الشافعی"؛ تصنیف: امام فخر
الدین الرازی؛ لنک: "https://ia600904.us.archive.org/33/items/waq54447/54447.pdf"
[1] - (سیر اعلام
النبلاء: 10/11)
[2] - (سیر اعلام النبلاء: 10/85)
[3] - (مناقب الشافعی للرازی: ص 35)
[4] - (آداب الشافعی
لابن ابی حاتم: ص 245، وتوالی التاسیس: ص 114)
[5] - (طبقات الشافعیین: 1/46)
[6] - (مسند احمد: 8615، وحسنہ الشیخ الارناؤط)
[7] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/72، نیز دیکھیے
مناقب الشافعی للرازی: ص 34، وسیر اعلام النبلاء: 10/12، وتوالی التاسیس لابن حجر:
ص 109۔ امام بیہقی نے فرمایا: "اس روایت میں دن کی تقیید کو میں نے بعض
روایتوں کے علاوہ کہیں نہیں پایا، جبکہ سال کی تقیید مؤرخین کے نزدیک مشہور
ہے"۔ اور حافظ ابن حجر نے فرمایا: "اس لفظ میں تاویل کی جا سکتی ہے
کیونکہ وہ لوگ الیوم (دن) کے اطلاق کے ساتھ مطلق زمانہ بھی مراد لیتے تھے"۔
چنانچہ اس لفظ میں "یوم مات" سے مراد وہ والا سال ہے۔)
[8] - (آداب الشافعی
ومناقبہ لابن ابی حاتم: ص 17)
[9] - (آداب الشافعی
ومناقبہ لابن ابی حاتم: ص 19)
[10] - (سیر اعلام
النبلاء: 10/10، وتوالی التاسیس لابن حجر: ص 107)
[11] - (توالی التاسیس لابن حجر: ص 108)
[12] - (آداب الشافعی
ومناقبہ لابن ابی حاتم: ص 17، وتوالی التاسیس لابن حجر: ص 108-109)
[13] - (توالی التاسیس لابن حجر: ص 109)
[14] - (آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم: ص
19)
[15] - (آداب الشافعی لابن ابی حاتم: ص 20، ومناقب
الشافعی للرازی: ص 37، وتوالی التاسیس: ص 110)
[16] - (آداب الشافعی لابن ابی حاتم: ص 20، ومناقب
الشافعی للرازی: ص 37، وتوالی التاسیس: ص 110-111، وسیر اعلام النبلاء: 10/12-13)
[17] - (تاریخ بغداد: 2/60، وتوالی التاسیس: ص
110و سیر اعلام النبلاء: 10/11)
[18] - (سیر اعلام النبلاء: 10/54)
[19] - (سیر اعلام النبلاء: 10/16، سیر کے محقق نے
اس قول کی تخریج میں درج ذیل حوالے نقل کیے ہیں: " مناقب
البيهقي " 2 / 243، و" معرفة السنن والآثار " 1 / 124، و"
تاريخ ابن عساكر " 14 / 405 / 1، و" آداب الشافعي ": 39، 40،
و" تاريخ بغداد " 2 / 64، و" الحلية " 9 / 93، و" مناقب
الرازي ": 18، و" توالي التأسيس ": 54)
[20] - (آداب الشافعی لابن ابی حاتم:ص 22-23 ،
ومناقب الشافعی للبیہقی: 1/102-103، وتوالی التاسیس: ص 111)
[21] - (توالی التاسیس: 1/112)
[22] - (سیر اعلام النبلاء: 10/12)
[23] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/106، وتوالی
التاسیس: ص 160و آداب الشافعی لابن ابی حاتم: ص 95)
[24] - (تاریخ بغداد:
2/172)
[25] - (تاریخ بغداد: 2/172)
[26] - (تاریخ بغداد: 2/173)
[27] - (تاریخ بغداد: 2/174)
[28] - (تاریخ بغداد: 2/173)
[29] - (آداب الشافعی لابن ابی حاتم: ص 27)
[30] - (توالی التاسیس: ص 164)
[31] - (ترتیب المدارک وتقریب المسالک:
3/179)
[32] - (توالی التاسیس: ص 124)
[33] - (توالی التاسیس: ص 125)
[34] - (توالی التاسیس: ص 134، 135)
[35] - (توالی التاسیس: ص 127)
[36] - (مناقب الشافعی
للبیہقی: 1/220، وتاریخ بغداد: 2/66)
[37] - (مناقب الشافعی
للبیہقی: 1/226)
[38] - (تاریخ بغداد: 2/67)
[39] - (تاریخ بغداد: 2/66)
[40] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/253، وتاریخ
بغداد: 2/64)
[41] - (تاریخ بغداد: 2/64)
[42] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/358)
[43] - (مناقب الشافعی: 2/358)
[44] - (توالی
التاسیس: ص 131)
[45] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/258)
[46] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/262)
[47] - (مناقب الشافعی: 1/263)
[48] - (توالی التاسیس: ص 133)
[49] - (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 1/340،
ومناقب الشافعی للبیہقی: 1/264، وتاریخ دمشق لابن
عساکر: 51/370)
[50] - (آداب الشافعی لابن ابی حاتم: ص 48، ومناقب
الشافعی للبیہقی: 1/266)
[51] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/270)
[52] - (توالی التاسیس: ص 133)
[53] - (توالی التاسیس: ص 137)
[54] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/276)
[55] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/279)
[56] - (توالی التاسیس: ص 139)
[57] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/279)
[58] - (احکام القرآن
للشافعی جمع البیہقی: 1/19، ومناقب الشافعی للبیہقی: 1/284)
[59] - (تاریخ دمشق لابن عساکر: 51/330، توالی
التاسیس لابن حجر: ص 135)
[60] - (توالی التاسیس: ص 125)
[61] - (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 7/203 ،
وآداب الشافعی لابن ابی حاتم: ص 45، ومناقب الشافعی للبیہقی: 1/339)
[62] - (تاریخ دمشق لابن عساکر: 51/362)
[63] - (مناقب الشافعی للرازی: ص 193)
[64] - (مناقب الشافعی: 1/244)
[65] - (دیکھیے: "امام شافعی کا علمی
مقام" از فیصل احمد ندوی: ص 97-98)
[66] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/301)
[67] - (توالی التاسیس: ص 132)
[68] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/301)
[69] - (توالی التاسیس: ص 137)
[70] - (توالی التاسیس: ص 138)
[71] - (مناقب الشافعی: 1/306)
[72] - (منہج النقد فی علوم الحدیث: ص 60، نیز
دیکھیں: "امام شافعی کا علم مقام" از فیصل احمد ندوی: ص 112)
[73] - (بيان
خطأ من أخطأ على الشافعي للبيهقي: ص 7)
[74] - (توالی التاسیس: ص 132)
[75] - (مناقب الشافعی للرازی: ص 220)
[76] - (بيان
خطأ من أخطأ على الشافعي للبيهقي: ص 4)
[77] - (بيان
خطأ من أخطأ على الشافعي للبيهقي: ص 5)
[78] - (توالی التاسیس: ص 126)
[79] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/486)
[80] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/487)
[81] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/488)
[82] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/488 وتوالی
التاسیس: ص 138)
[83] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/489)
[84] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/499)
[85] - (تہذیب التہذیب: 9/31)
[86] - (الرواۃ الثقات المتکلم فیہم بما لا یوجب
ردہم للذہبی: ص 32-33)
[87] - (ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل
للذہبی: ص 171)
[88] - (توالی التاسیس: ص 137)
[89]- (البدایہ والنہایہ لابن کثیر:
1023)
[90] - (آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم: ص
173-174)
[91] - (مناقب الشافعی وآدابہ لابن ابی حاتم: ص
175)
[92] - (دیکھیں: "امام شافعی کا علم
مقام" از فیصل احمد ندوی: ص 118-120)
[93] - (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 7/203 ،
وآداب الشافعی لابن ابی حاتم: ص 45، ومناقب الشافعی للبیہقی: 1/339)
[94] - (توالی التاسیس: ص 131)
[95] - (توالی التاسیس: ص 131)
[96] - (سیر اعلام النبلاء: 10/16، سیر کے محقق نے
اس قول کی تخریج میں درج ذیل حوالے نقل کیے ہیں: " مناقب
البيهقي " 2 / 243، و" معرفة السنن والآثار " 1 / 124، و"
تاريخ ابن عساكر " 14 / 405 / 1، و" آداب الشافعي ": 39، 40،
و" تاريخ بغداد " 2 / 64، و" الحلية " 9 / 93، و" مناقب
الرازي ": 18، و" توالي التأسيس ": 54)
[97] - (توالی التاسیس: ص 133)
[98] - (توالی التاسیس: ص 126)
[99] - (توالی التاسیس: ص 136)
[100] - (توالی التاسیس: ص 136)
[101] - (توالی التاسیس: ص 137)
[102] - (مناقب الشافعی للرازی: ص 153)
[103] - (مناقب الشافعی للرازی: ص 156)
[104] - (توالی التاسیس: ص 127)
[105] - (توالی التاسیس: ص 129)
[106] - (توالی التاسیس: ص 133، ومناقب الشافعی
للبیہقی: 1/368)
[107] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/262)
[108] - (جزء فیہ حکایات عن الشافعی وغیرہ لمحمد بن
الحسین الآجری بحوالہ اتحاف الامۃ بصحۃ قرشیۃ الامام الشافعی فقیہ الامۃ: ص 68)
[109] - (دیکھیے: رد الانتقاد علی الفاظ الشافعی، ص
92)
[110] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/52)
[111] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/41)
[112] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/41)
[113] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/42، وتوالی
التاسیس: ص 132)
[114] - (توالی التاسیس: ص 132)
[115] - (توالی التاسیس: ص 136)
[116] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/49)
[117] - (توالی التاسیس: ص 137)
[118] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/49)
[119] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/49)
[120] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/50، توالی
التاسیس: ص 138)
[121] - (توالی التاسیس: ص 138)
[122] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/54)
[123] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/43، وتوالی
التاسیس: ص 138)
[124] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/43، وتوالی
التاسیس: ص 138)
[125] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/42)
[126] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/44، وتوالی
التاسیس: ص 138)
[127] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/52، توالی
التاسیس: ص 143)
[128] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/499)
[129] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/46)۔ اس سے ہم
اس دور کے عام علماء کی نفسیات سمجھ سکتے ہیں جیسے آج بھی بہت سے علماء کی ہے کہ
وہ زبان وادب کی تعلیم کو دین کے خلاف سمجھتے ہیں۔
[130] - (مناقب الشافعی للبیہقی:2/46)
[131] - (توالی التاسیس: ص 124)
[132] - (توالی التاسیس: ص 125)
[133] - (توالی التاسیس: ص 126)
[134] - (توالی التاسیس: ص 128)
[135] - (توالی التاسیس: ص 128)
[136] - (توالی التاسیس: ص 128)
[137] - (توالی التاسیس: ص 129)
[138] - (توالی التاسیس: ص 130)
[139] - (توالی التاسیس: ص 130)
[140] - (توالی التاسیس: ص 131)
[141] - (توالی التاسیس: ص 131)
[142] - (توالی التاسیس: ص 132)
[143] - (توالی التاسیس: ص 132)
[144] - (توالی التاسیس: ص 132)
[145] - (مناقب الشافعی
للبیہقی: 1/166، وتاریخ بغداد: 13/416)
[146] - (دیکھیں: مناقب الشافعی للبیہقی: 1/166)
[147] - (مناقب الشافعی اللبیہقی: 1/54، 2/258)
[148] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 2/258)
[149] - (توالی التاسیس: ص 133)
[150] - (توالی التاسیس: ص 134)
[151] - (توالی التاسیس: ص 136)
[152] - (توالی التاسیس: ص 134)
[153] - (توالی التاسیس: ص 137)
[154] - (توالی التاسیس: ص 139)
[155] - (توالی التاسیس: ص 137)
[156] - (توالی التاسیس: ص 141)
[157] - (توالی التاسیس: ص 141)
[158] - (توالی التاسیس: ص 143)
[159] - (توالی التاسیس: ص 142)
[160] - (توالی التاسیس: ص 142)
[161] - (سنن ابو داود: 4291، حدیث صحیح)
[162] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/55)
[163] - (تقریب التہذیب: 5717)
[164] - (ترتیب المدارک: 1/195)
[165] - (تاریخ دمشق: 51/334)
[166] - (توالی التاسیس: ص 132)
[167] - (یہ تفصیل خود امام شافعی کی کتاب جماع
العلم سے معلوم ہوئی ہے۔)
[168] - (تاریخ دمشق: 51/345)
[169] - (یہ سب اور مزید اقوال کے لئے دیکھیے: آداب
الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم: ص 68-70، ومناقب الشافعی للبیہقی: 1/472-476)
[170] - (صحیح ابن حبان: 5/498)
[171] - (مناقب الشافعی للبیہقی: 1/203)
[172] - (یہ بحث اختصار کے ساتھ فیصل احمد ندوی صاحب
کی کتاب "امام شافعی کا علمی مقام" کے باب "امام شافعی بحیثیت مجدد"
ص 303 -315سے نقل کی گئی ہے۔)
[173] - (تہذیب الاسماء واللغات: 1/44)
[174] - (توالی التاسیس: ص 26)
[175] - (مزید تفصیل کے لئے دیکھیں: "امام
شافعی کا علمی مقام" از فیصل احمد ندوی: باب پنجم: "ان کے حالات اور
کارناموں پر ہونے والے کام کی کثرت": ص 244)
Post a Comment