آداب تلاوتِ قرآن

 

آداب تلاوتِ قرآن

اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو سید المرسلین اور خاتم النّبیین کے طورپر مبعوث فرمایا ۔ اور اُنہیں قرآن کریم کی شکل میں ایک دائمی معجزہ عنایت کیا۔قرآنِ مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی اور نبی مکرمﷺکے فرائض میں قرآنی آیات کو پڑھ کر سنانا، لوگوں کا تزکیۂ نفس کرنا، اور کتاب وحکمت کی تعلیم دینا شامل کئے،جو اس مشہور آیت میں بیان ہوئے ہیں:

﴿قَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى المُؤمِنينَ إِذ بَعَثَ فيهِم رَسولًا مِن أَنفُسِهِم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَإِن كانوا مِن قَبلُ لَفى ضَلـٰلٍ مُبينٍ ﴿١٦٤

’’اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر احسان فرمایا کہ ان پرایک رسول انہی میں سے مبعوث کیا جو ان پر اس کی آیاتِ کریمہ کی تلاوت کرتا ہے، ان کا تزکیۂ نفس کرتا اورانہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس سے پہلے تو یہ واضح گمراہی میں تھے۔‘‘

(سورۃ آل عمران: 164)

  گویا منصبِ رسالت کے بنیادی تقاضوں میں سے یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی آیات کی تلاوت کرکے ، لوگوں کا تزکیۂ نفس کیا جائے۔

قرآن كريم كے مسلمانوں پر عائد حقوق میں، ایک حق اس کو اچھی طرح تلاوت کرنا ہے۔قرآنی آیات کی تلاوت کے بارے میں  اہل اسلام کا رویہ قرآن کریم میں یہ بیان ہوا ہے:

﴿الَّذينَ ءاتَينـٰهُمُ الكِتـٰبَ يَتلونَهُ حَقَّ تِلاوَتِهِ أُولـٰئِكَ يُؤمِنونَ بِهِ﴾

’’جن لوگوں کو ہم نے کتا ب دی ہے ، وہ اس کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں۔ یہی لوگ اس پر ایمان لانے والے ہیں۔‘‘

(سورۃ البقرۃ: 121)

یعنی ایمان کے تقاضوں اور حقوقِ قرآن میں سے ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت ، اس طرح کی جائے جیسا کہ اس کا حق ہے۔ اور یہ تلاوت نبی کریم ﷺ کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ قرآنِ کریم کی تلاوت بذات خود بہت بڑی نیکی ہے، جیساکہ ارشادِ نبوی ہے:

مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لاَ أَقُولُ الْم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلاَمٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ

’’جس نے قرآن کریم کا ایک حرف پڑھا، اس کے لیے نیکی لکھ دی جاتی ہیں، اور ایک نیکی 10 گنا کے برابر ہوتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے۔ لیکن الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔‘‘

(جامع ترمذی: 2910)

نبی ﷺنے ایسےحروفِ مقطعات کی مثال بیان کی جس کا مفہوم واضح نہیں ہے، اس مثال میں ایسے لوگوں کا رد ّہے جو کہتے ہیں کہ ترجمے کے بغیر قرآنِ مجید پڑھنے کا کچھ فائدہ ؍ثواب نہیں ہے۔

تلاوتِ قرآن کریم کو سننا بھی نیکی ہے، جیسا کہ یہ حدیثِ نبوی ہے:

مَنِ اسْتَمَعَ إلىٰ آيَةٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ تَعَالىٰ كُتِبَ لَهُ حَسَنَةٌ مُضَاعَفَةٌ، ومَنْ تَلَاهَا كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ

’’جس نے کتاب اللہ کی ایک آیت سنی، اس کے لیے دوہری نیکی لکھی جاتی ہے، اور جس نے اسے تلاوت کیا، وہ تلاوت روز قیامت اس کے لیے باعثِ نور ہوگی۔‘‘

(مسند احمد: 8494  یہ حدیث ضعیف ہے۔( ضعیف الجامع: 5408))

قرآن كریم کی تلاوت کی مہارت کا کیا ثواب ہے اور دوسری طرف اس میں مشقت برداشت کرنے کا کیا اجرہے؟ اس فرمانِ نبوی میں ملاحظہ فرمائیں:

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «الْـمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ، وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ، لَهُ أَجْرَانِ

’’ قرآن کریم کے ماہر کا انجام مقرب ومعزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ او رجو قرآن پڑھتے ہوئے اَٹکتا ہے، اور روانی سے اچھی تلاوت نہیں کرسکتا، اس کے لیے دو اجر ہیں۔‘‘ (ایک تلاوت کا اور دوسرا اس کے لیے مشقت برداشت کرنے کا)۔

(صحیح بخاری: 4937  وصحیح مسلم: 798)

ذیل میں قرآن،   احادیث اور علماء دین سے تلاوتِ قرآن کے آداب کی تفصیل پیش کی جاتی ہے:

پہلا ادب: قراءت خالصتا اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائے 

تلاوت کے آداب میں سے سب سے اول اور اہم ادب یہ ہے کہ اسے خالص اللہ کی رضا وخوشنودی اور اس سے اجر وثواب کی امید کے لئے کیا جائے۔ کوئی مسلمان اس کے علاوہ کسی مقصد کے لئے تلاوت کرتا ہے جیسے کسی منصب یا رتبے کو حاصل کرنے یا مال دودولت کے حصول کے لئے، تو وہ اپنے اس عمل میں غیر مخلص ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ

" انھیں یہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ بندگی کو اللہ کے لیے خالص کریں''

(سورۃ بینہ: 5)

اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

" مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ, لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَة ِ-  يَعْنِي: رِيحَهَا "

" جس نے اللہ کی رضا مندی والا علم اس غرض سے حاصل کیا کہ دنیا حاصل کرے ‘ تو ایسا آدمی قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہیں پا سکے گا  "

(سنن ابی داود: 3664، قال البانی: صحیح)

دوسرا ادب: طہارت کی حالت میں تلاوت کرنا

ایک مسلمان کے لئے یہ ایک مستحب امر ہے کہ وہ تلاوتِ قرآن کے وقت طہارت کا التزام کرے، اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ حدث یعنی بے وضگی سے طاہر ہو جائے۔ اور اگر طہارت کے بغیر قرآنی آیات کی تلاوت کی جائے تو امت کے علماء کے اجماع کے ساتھ ایسا کرنا جائز ہے لیکن افضل نہیں۔

تیسرا ادب: جہاں کتاب اللہ کی تلاوت کی جائے وہ جگہ پاک ہو

تلاوتِ قرآن کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ مسلمان تلاوت کے لئے کسی پاک جگہ کو اختیار کرے جو کتاب اللہ کی شان کے لائق ہو۔

چوتھا ادب:تلاوت شروع کرنے سے پہلے شیطان سے پناہ مانگنا

تلاوت شروع کرنے سے پہلے أعوذ بالله من الشيطان الرجيم پڑھ لینی چاہیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

" فَإِذَا قَرَأْتَ ٱلْقُرْءَانَ فَٱسْتَعِذْ بِٱللَّهِ مِنَ ٱلشَّيْطَـٰنِ ٱلرَّجِيمِ "

" اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو "

(سورۃ النحل: 98)

پانچواں ادب: قراءت کی ابتداء بسم اللہ سے کرنا

اگر سورت کی ابتداء سے تلاوت شروع کی جائے تو بسم الله الرحمن الرحيم پڑھ لینا مستحب ہے، سوائے سورۃ توبہ کی ابتداء میں۔ اسی طرح اگر سورت کے درمیان سے قراءت شروع کی جائے تو پھر بسملہ پڑھنا مشروع نہیں ہے۔

چھٹا ادب: سوز اور رِقّت سے تلاوتِ قرآن

قرآنِ کریم کی تلاوت سوز اور رقت کے ساتھ کرنی چاہیے اور اسے تلاوت کی سب سے بہترین خوبی قرار دیا گیا ہے، فرمانِ نبویﷺ ہے:

إِنَّ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صَوْتًا بِالْقُرْآنِ، الَّذِي إِذَا سَمِعْتُمُوهُ يَقْرَأُ، حَسِبْتُمُوهُ يَخْشَى الله

"قرآن کی تلاوت میں اچھی آواز والا وہ ہے جسے تم تلاوت کرتے سن کر یہ گمان کرو کہ وہ اللہ کا خوف رکھتا ہے"

(سنن ابن ماجہ: 1339، قال البانی: صحیح)

آپﷺ بذاتِ خود قرآن کریم کی تلاوت بے حد سوز اور خشوع کے ساتھ فرمایا کرتے، سیدنا جبیر بن معطم﷜ راوی ہیں کہ

سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقْرَأُ فِي الْـمَغْرِبِ بِالطُّورِ، فَلَمَّا بَلَغَ هَذِهِ الآيَةَ :﴿أَم خُلِقوا مِن غَيرِ شَىءٍ أَم هُمُ الخـٰلِقونَ ﴿٣٥﴾ أَم خَلَقُوا السَّمـٰو‌ٰتِ وَالأَرضَ بَل لا يوقِنونَ ﴿٣٦﴾ أَم عِندَهُم خَزائِنُ رَبِّكَ أَم هُمُ المُصَۣيطِرونَ ﴿٣٧﴾قَالَ: كَادَ قَلْبِي أَنْ يَطِيرَ

’’میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ آپ نماز مغرب میں سورۃ الطّور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ جب آپ ان آیات پر پہنچے تو [شدتِ تاثیر سے] مجھے لگا کہ میری روح پرواز کرجائے گی۔‘‘

(صحیح بخاری: 4854)

قرآنِ کریم کی تلاوت کی یہ تاثیر اس آیت کریمہ میں بیان ہوئی ہے:

﴿اللَّهُ نَزَّلَ أَحسَنَ الحَديثِ كِتـٰبًا مُتَشـٰبِهًا مَثانِىَ تَقشَعِرُّ مِنهُ جُلودُ الَّذينَ يَخشَونَ رَبَّهُم ثُمَّ تَلينُ جُلودُهُم وَقُلوبُهُم إِلىٰ ذِكرِ اللَّهِ﴾

’’اللہ تعالیٰ نے بہترین کتاب نازل کی، جس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی جانے والی آیات ہیں۔ اللہ کی خشیت رکھنے والوں کے دل اس سے کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کی جلدیں اور دل اللہ کے ذکر کے لیے نرم ہوجاتے ہیں۔‘‘

(سورۃ الزمر: 23)

نبی کریمﷺ اپنے صحابہ﷢سے قرأتِ قرآن سنا کرتے اور اسے سن کر آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ، سیدنا عبد اللہ بن مسعود راوی ہیں:

قَالَ رَسُولُ اللّه ﷺ: «اقْرَأْ عَلَيَّ» قَالَ: قُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ قَالَ: «إِنِّي أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي» قَالَ: فَقَرَأْتُ النِّسَاءَ حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ: ﴿فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِيْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِيْدًاؕ﴾ [النساء:41] قَالَ لِي: «كُفَّ - أَوْ أَمْسِكْ -» فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَذْرِفَانِ

’’مجھے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے قرآن کی تلاوت سناؤ۔ میں نے کہا : میں آپ کو کیسے قرآن سناؤں ، حالانکہ آپ پر تو قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ آپﷺ کہنے لگے: میرا جی چاہتا ہے کہ میں دوسرے سے تلاوت سنوں۔ سو میں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی، حتی کہ جب میں اس آیت پرپہنچا کہ وہ کیسا وقت ہوگا جب ہم ہر اُمّت سے گواہ بلائیں گے، اور آپﷺ کو ان تما م لوگوں پرگواہ بنائیں گے تو آپ کہنے لگے: بس بس، رک جاؤ۔ میں نے دیکھا ،آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔‘‘

(صحیح بخاری: 5050، 5055،  4582 وصحیح مسلم: 800)

قرآن پڑھتے ہوئے اگر خشیت نہ بھی طاری ہوتو ارشادِ نبوی ؐہے کہ رونے کی سی شکل بنا لی جائے اور تلاوت میں رِقت آمیز لہجہ اختیار کیا جائے، عبد الرحمن بن سائب سے مروی ہے:

قَدِمَ عَلَيْنَا سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَقَدْ كُفَّ بَصَرُهُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِابْنِ أَخِي، بَلَغَنِي أَنَّكَ حَسَنُ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ، سَمِعْتُ رَسُولَ الله ﷺ يَقُولُ: «إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ نَزَلَ بِحُزْنٍ، فَإِذَا قَرَأْتُمُوهُ فَابْكُوا، فَإِنْ لَمْ تَبْكُوا فَتَبَاكَوْا، وَتَغَنَّوْا بِهِ، فَمَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِهِ فَلَيْسَ مِنَّا»

’’سعد بن ابی وقاص ﷜ ہمارے ہاں آئے جبکہ آپ کی بصارت ختم ہوچکی تھی۔ میں نے انہیں سلام کہا تو پوچھنےلگے: کون؟ میں نے تعارف کرایا، بولے: بھانجے خوش آمدید، مجھے پتہ چلا ہے کہ تم قرآن بڑی خوبصورت آواز میں تلاوت کرتے ہو، میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتےسنا تھا کہ یہ قرآن پرغم کی کیفیت غالب ہے، جب تم اسے پڑھو تو رویا کرو۔ اگر رو نہ پاؤ تو رونے کی صورت بنا لیا کرو۔ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھو، کیونکہ جو اسے خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہمارے طریقے پر نہیں۔‘‘

(سنن ابن ماجہ:رقم 1337، تحقیق:شیخ شعیب ارناؤوط (2/361)... یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے اور اکثر میں ضعف پایا جاتا ہے، تاہم کثرتِ طرق کی بنا پر یہ احادیث مقبول درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔)

ساتواں اَدب: معانی میں غور کرکے دہرانا اور اُس کے مطابق دعا کرنا

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو فکر وتدبر اور تذکیر ونصیحت کے لیے نازل کیا ہے، اور نبی کریمﷺ کی تلاوت بھی ان تقاضوں کے مطابق ہوتی تھی، قرآنِ کریم میں ہے :

﴿كِتـٰبٌ أَنزَلنـٰهُ إِلَيكَ مُبـٰرَكٌ لِيَدَّبَّروا ءايـٰتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُوا الأَلبـٰبِ ﴿٢٩

’’یہ کتاب ہم نے آپ پر اُتاری ہے تاکہ وہ اس کی آیات میں تدبر کریں، اور باشعور لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔‘‘

(سورۃ ص: 29)

نبی کریمﷺ آیات کی تلاوت کے ساتھ اس کے معانی میں غور کرکے، اُس کے مطابق عمل کیا کرتے، سیدنا حذیفہ روایت کرتے ہیں کہ

قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَافْتَتَحَ الْبَقَرَةَ، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ عِنْدَ الْمِائَةِ، ثُمَّ مَضَى، فَقُلْتُ: يُصَلِّي بِهَا فِي رَكْعَةٍ، فَمَضَى، فَقُلْتُ: يَرْكَعُ بِهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ النِّسَاءَ، فَقَرَأَهَا، ثُمَّ افْتَتَحَ آلَ عِمْرَانَ، فَقَرَأَهَا، يَقْرَأُ مُتَرَسِّلًا، إِذَا مَرَّ بِآيَةٍ فِيهَا تَسْبِيحٌ سَبَّحَ، وَإِذَا مَرَّ بِسُؤَالٍ سَأَلَ، وَإِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ تَعَوَّذَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ»، فَكَانَ رُكُوعُهُ نَحْوًا مِنْ قِيَامِهِ، ثُمَّ قَالَ: «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ»، ثُمَّ قَامَ طَوِيلًا قَرِيبًا مِمَّا رَكَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَقَالَ: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى»، فَكَانَ سُجُودُهُ قَرِيبًا مِنْ قِيَامِهِ.

’’میں نے ایک رات نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے سورۃ البقرۃ سے آغاز کیا۔ میں نے سوچا کہ آپ سو آیات پڑھ کر رکوع کرلیں گے، آپ کی تلاوت جاری رہی۔میں نے سوچا کہ اس سورۃ کو ایک رکعت میں ختم کرلیں گے۔ آپ کی تلاوت جاری رہی، پھر آپ نے سورۃ النساء کا آغاز کردیا، اس کو پڑھا، پھر سورۃ آل عمران کا آغاز کردیا، اس کوبھی پڑھا۔ آپ ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے۔ جب بھی کسی تسبیح والی آیت سے گزرتے تو اللہ کی تسبیح بیان کرتے، جب بھی کسی سوال کی آیت سے گزرتے تو اللہ سے مانگتے، اور جب بھی کسی پناہ والی آیت پر پہنچتے تو اللہ سے پناہ طلب کرتے۔ پھر آپ نے رکوع کیا۔آپ کا رکوع آپ کے قیام کے برابر ہی طویل تھا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا جو رکوع کے برابر لمبا تھا، پھر سجدہ کیا اور سبحان ربی الاعلیٰ کہا، آپ کے سجدے بھی قیام کے بقدر لمبے تھے۔‘‘

(صحیح مسلم: 772)

آپ ﷺ نماز میں آیات کے معانی پر غور کرتے ہوئے آیات کو دہرایا کرتے، جیساکہ ابوذرّ غفاری ﷜سے مروی ہے :

قَامَ النَّبِيُّ ﷺ بِآيَةٍ حَتَّى أَصْبَحَ يُرَدِّدُهَا وَالْآيَةُ: ﴿اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ﴾

’’ایک رات نبی ﷺ نے قیام کیا، تو ساری رات گزر گئی اور اسی آیتِ کریمہ کو آپ دہراتے رہے کہ ’’یاالٰہی! یہ تیرے ہی بندے ہیں، اگر تو انہیں معاف کردے تو تو غالب ودانا ہے۔‘‘

(سورۃ المائدة: 118... سنن ابن ماجہ:1؍429، رقم1350،قال الألبانی:حسن)

آپ قرآنی آیات میں غور وفکر فرمایا کرتے، اور تلاوتِ قرآن کے دوران بہت زیادہ رویا کرتے، جیساکہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں :

لَمَّا كَانَ لَيْلَةٌ مِنَ اللَّيَالِي قَالَ: «يَا عَائِشَةُ! ذَرِينِي أَتَعَبَّدُ اللَّيْلَةَ لِرَبِّي». قُلْتُ: وَالله إِنِّي لَأُحِبُّ قُرْبَكَ وَأُحِبُّ مَا سَرَّكَ. قَالَتْ: فَقَامَ فَتَطَهَّرَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي. قَالَتْ: فَلَمْ يَزَلْ يَبْكِي حَتَّى بَلَّ حِجْرُهُ. قَالَتْ: ثُمَّ بَكَى فَلَمْ يَزَلْ يَبْكِي حَتَّى بَلَّ لِحْيَتَهُ. قَالَتْ: ثُمَّ بَكَى فَلَمْ يَزَلْ يَبْكِي حَتَّى بَلَّ الْأَرْضُ. فَجَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ. فَلَمَّا رَآهُ يَبْكِي. قَالَ يَا رَسُولَ الله! لِمَ تَبْكِي وَقَدْ غَفَرَ الله لَكَ مَا تَقَدَّمَ وَمَا تَأَخَّرَ. قَالَ: «أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَيَّ اللَّيْلَةَ آيَةٌ وَيْلٌ لِمَنْ قَرَأَهَا وَلَمْ يَتَفَكَّرْ فِيهَا: ﴿اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِۚۙ﴾ الآية كلها

’’راتوں میں سے ایک رات نبی کریم ﷺ کہنے لگے: یا عائشہ! مجھے چھوڑ دو میں اس رات اپنے رب کی بندگی کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا: واللہ! مجھے آپ کی قربت بڑی عزیز ہے لیکن آپ کی خوشی بھی مجھے محبوب ہے۔ کہتی ہیں کہ آپ کھڑے ہوگئے اور وضو کیا۔کہتی ہیں کہ نماز میں روتے رہے حتی کہ آپ کی گود تر ہوگئی۔پھر کہتی ہیں کہ روتے رہے حتی کہ ڈاڑھی مبارک بھی بھیگ گئی۔ پھر روتے رہے اور اتنا روئےحتی کہ زمین بھی گیلی ہوگئی۔ پھر بلال آگئے ، نماز کی اطلاع دینے کے لیے۔ جب انہیں روتے دیکھا تو کہا: یارسول اللہ! آپ کیوں روتے ہیں؟ اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیے ہیں۔ تو جواب دیا: میں اللہ کا شکرگزار بندہ کیوں نہ بنوں، آج رات مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ، افسوس اس پر جو اس کو پڑھے لیکن اس میں غور وفکر نہ کرے۔(  آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں) ‘‘

(آل عمران: 190؛صحيح ابن حبان ،محقق:2؍ 387،رقم 620 ۔شیخ شعیب ارناؤوط نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)

آٹھواں  ادب: نماز میں لمبی تلاوت کرنا

قرآن کریم میں بھی آپ کو لمبے قیام کی تلقین ان الفا ظ میں کی گئی ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا المُزَّمِّلُ ﴿١﴾ قُمِ الَّيلَ إِلّا قَليلًا ﴿٢﴾ نِصفَهُ أَوِ انقُص مِنهُ قَليلًا ﴿٣﴾ أَو زِد عَلَيهِ وَرَتِّلِ القُرءانَ تَرتيلًا ﴿٤

’’اے کملی اوڑھنے والے! رات کو قیام کر مگر تھوڑا، نصف رات یا اس سے کچھ کم وبیش اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کر۔‘‘

(سورة المزمل: 1تا 4)

آپ کی قراءت اس قدر لمبی ہوتی کہ مذکورہ بالاحدیث حذیفہ ﷜کے مطابق آپﷺ نے قیام میں تقریباً سوا پانچ پارے تلاوت کیے۔ اور سیدنا عوف بن مالک کی مذکورہ بالا حدیث کے مطابق سورۃ البقرۃ ، دوسری رکعت میں سورۃ آل عمرا ن اور ایسی ہی طویل سورتیں تلاوت کیں۔اور ایسی ہی ایک حدیث سیدنا عبد اللہ بن مسعود﷜ سے بھی مروی ہے:

صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ، فَأَطَالَ حَتَّى هَمَمْتُ بِأَمْرِ سَوْءٍ." قَالَ: قِيلَ: وَمَا هَمَمْتَ بِهِ؟ قَالَ: "هَمَمْتُ أَنْ أَجْلِسَ وَأَدَعَهُ"

’’عبد اللہ ﷜کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات نبی کریم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے لمبا قیام کیا،حتیٰ کہ میں نے ایک بُرا اِرادہ کیا۔ پوچھا گیا: کیا بُرا اِرادہ؟ کہنے لگے : میں نے سوچا کہ میں بیٹھ جاؤں اور آپ کو قیام میں اکیلا چھوڑ دوں۔‘‘

 (صحيح مسلم :1/ 537،رقم 204... باب استحباب تطویل القراءة في الصلاة)

سیدہ حفصہؓ بنت عمر بیان کرتی ہیں :

مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ صَلَّى فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا، حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ، فَكَانَ يُصَلِّي فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا، وَكَانَ يَقْرَأُ بِالسُّورَةِ فَيُرَتِّلُهَا حَتَّى تَكُونَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا

’’میں نے نبی کریم ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ نے نفلی نمازبیٹھ کر پڑھی ہو، حتی کہ وفات سے ایک سال قبل آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے۔آپ ایک سورۃ پڑھتے اور اس کو ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرےحتیٰ کہ وہ لمبی سے لمبی ہوتی جاتی۔‘‘

(صحیح مسلم: رقم 118)

نواں ادب: بلند آواز سے تلاوتِ قرآن کرنا

آپ ﷺ بلند آواز سے تلاوتِ قرآن کیا کرتے، جیساکہ اس حدیث میں ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ الله عَنْهُمَا: فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا ﴾، قَالَ: «نَزَلَتْ وَرَسُولُ الله ﷺ مُخْتَفٍ بِمَكَّةَ، فَكَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالقُرْآنِ، فَإِذَا سَمِعَهُ المُشْرِكُونَ، سَبُّوا القُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ»، فَقَالَ الله لِنَبِيِّهِ ﷺ: ﴿وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ﴾: أَيْ بِقِرَاءَتِكَ فَيَسْمَعَ المُشْرِكُونَ فَيَسُبُّوا القُرْآنَ: ﴿ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا ﴾، عَنْ أَصْحَابِكَ فَلاَ تُسْمِعُهُمْ ﴿وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا﴾

’’سیدنا ابن عباس سے آیتِ کریمہ وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا کے بارے میں مروی ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب نبی کریمﷺ مکہ میں روپوش تھے۔ جب آپ اپنے صحابہ کو نماز پڑھاتے تو آواز کو بلند کیا کرتے۔مشرکوں نے جب ایسا سنا تو قرآن کو اور قرآن جس پر نازل ہوا ،جو قرآن لے کر آیا، سب کو گالیاں بکیں ۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا کہ (تو اپنی عبادت یعنی اپنی قرأت میں بلند آواز اختیار نہ کر)کیونکہ مشرک قرآن کو سن کراسے گالیاں بکتے ہیں۔ (اور نہ آواز کو اتنا پست کر) کہ تیرے ساتھ سن ہی نہ سکیں۔ (اور دونوں کے درمیان رویہ اختیار کر)۔‘‘

(صحيح بخاری:9/153،رقم 7525)

عبد اللہ بن ابو قیس نے سیدہ عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا:

عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَاءَةِ أَمْ يَجْهَرُ؟ قَالَتْ: «كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ قَدْ كَانَ رُبَّمَا أَسَرَّ وَرُبَّمَا جَهَرَ». فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِله الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً

’’آپ ﷺ کی قراءت کے بارے میں کہ آپ آہستہ تلاوت کیا کرتے، یا بلند آواز سے تو آپ نے جواب دیا: آپ دونوں طرح تلاوت کرتے، کبھی بلند اور کبھی آہستہ۔ تو میں نے کہا: سب تعریفیں اس اللہ جل شانہ کی ، جس نے اس معاملے میں گنجائش رکھی۔‘‘

(الشمائل المحمديةاز اما م ترمذی،ص: 259، رقم 318، المكتبة التجارية)

نبی کریمﷺ کی تلاوت کی آواز بعض اوقات اس قدر بلند ہوتی کہ ابن عباس کہتے ہیں :

كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ ﷺ رُبَّمَا يَسْمَعُهَا مَنْ فِي الْحُجْرَةِ وَهُوَ فِي الْبَيْتِ

’’آپ کی تلاوت کو کبھی کوئی شخص بند کمرے میں سن لیا کرتا او رآپ اپنے گھر میں سے تلاوت کررہے ہوتے۔‘‘

(الشمائل المحمديةاز اما م ترمذی،ص: 262،رقم 322، المكتبة التجارية)

سیدہ اُمّ ہانی بیان کرتی ہیں:

كُنْتُ أَسْمَعُ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ ﷺ بِاللَّيْلِ وَأَنَا عَلَى عَرِيشِي

’’میں نبیﷺکی رات کو کی جانیوالی تلاوت کو سن لیا کرتی ، حالانکہ میں اپنی چارپائی پر ہوتی۔‘‘

(الشمائل المحمديةاز اما م ترمذی،ص: 260،رقم 319، المكتبة التجارية)

بلند آواز سے تلاوت کرنے کی وجہ وہ ہے جس کو ابوسعید خدری﷜ نے بیان کیا ہے:

قَالَ لَهُ: إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الغَنَمَ وَالبَادِيَةَ، فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ أَوْ بَادِيَتِكَ فَأَذَّنْتَ لِلصَّلاَةِ، فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنَّهُ: «لاَ يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ الْـمُؤَذِّنِ جِنٌّ وَلاَ إِنْسٌ، وَلاَ شَيْءٌ، إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ القِيَامَةِ»، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ الله ﷺ

’’ایک بار ابو سعید خدری﷜ کہنے لگے کہ تجھے بکریاں اور جنگل پسند ہیں۔جب تو بکریوں اوربیابان میں ہوتو نماز کے لیے اذان کہا کر اور اپنی آواز کو بہت بلند کیا کر۔ کیونکہ ’’مؤذن کی آواز کو کوئی جن وانس نہیں سنتا مگر روزِ قیامت وہ اس کی گواہی دے گا۔‘‘ ابو سعید﷜کہتے ہیں کہ یہ بات اللہ کے رسول کا ارشاد ہے۔‘‘

(صحيح بخاری:9؍159،رقم 7548)

دسواں ادب :ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرنا

قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَرَتِّلِ القُرءانَ تَرتيلًا ﴿٤

’’اے نبی! آپ قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کریں۔‘‘

(سورة المزمل: 4)

نبی کریمﷺ نے اہل جنت کی نشانی بھی یہ بیان کی ہے کہ وہ قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں گے اور جنت کی منازل طے کرتے جائیں گے:

قَالَ رَسُولُ الله ﷺ: «يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ: اقْرَأْ، وَارْتَقِ، وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا

’’آپﷺنے فرمایا: صاحب قرآن کو کہا جائے گا: قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجے طے کرتا جا۔ اس طرح ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھ جیسے تو دنیا میں اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا۔ تیرا جنت میں مقام وہ ہے جہاں تو آخری آیت کی تلاوت کرے گا۔‘‘

(سنن أبو داود :2/73،رقم 1464، قال الالبانی: حسن صحیح)

سیدہ اُمّ سلمہ آپ کی تلاوت کی کیفیت ان الفا ظ میں بیان کرتی ہیں:

كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَقْطَعُ قِرَاءَتَهُ يَقُولُ: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ﴾ ثُمَّ يَقِفُ، ثُمَّ يَقُولُ:﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِۙ﴾ ثُمَّ يَقِفُ، وَكَانَ يَقْرَأُ ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِؕ

’’نبی کریمﷺ رک رک کر تلاوت قرآن کریم کیا کرتے۔ آپ کہتے : الحمد للہ رب العٰلمین، پھر رک جاتے۔ پھر کہتے: الرحمٰن الرحیم، پھر رک جاتے۔ پھر کہتے: مالک یوم الدین۔‘‘

(الشمائل المحمديةاز اما م ترمذی،ص: 259،رقم 317، المكتبة التجارية)

آپ کی زوجہ مطہرہ امّ المؤمنین سیدہ اُمّ سلمہ سے نبی کریمﷺ کی قراءت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے جواب دیا:

سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ، زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَصَلَاتِهِ... ثُمَّ نَعَتَتْ قِرَاءَتَهُ، فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا

’’اُمّ سلمہ زوجۂ نبیﷺ سے آپ کی قراء ت اور نماز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے نبی کریمﷺ کی قراءت کی تفصیل یوں بیان کی کہ آپ کی قراءت میں ایک ایک حرف بالکل واضح ، اور علیحدہ علیحدہ ہوتاتھا۔‘‘

(جامع ترمذی: 2923 ... قال الترمذی: حسن صحیح غریب)

گیارہواں  ادب: خوش الحانی سے قرآنِ کریم پڑھنا

   سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالقُرْآنِ»، وَزَادَ غَيْرُهُ: «يَجْهَرُ بِهِ»

’’وہ آدمی ہم میں سے نہیں جو قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا۔ اور بعض راویوں نے ان الفاظ کا بھی اضافہ کیا ہے کہ خوش الحانی اور بلند آوازی سے نہیں پڑھتا۔‘‘

(صحيح بخاری:9/154، رقم 7527)

سیدنا براء بن عازب﷜ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ»

’’قرآن کریم کو اپنی آوازوں کے ساتھ مزین کیا کرو۔‘‘

(سنن ابوداود :2/74... رقم: 1468 ، قال الالبانی: صحیح)

براء بن عازب﷜ سے مروی یہی فرمانِ نبوی ، اس سے وسیع تر الفاظ میں یوں بھی آیا ہے :

«زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ» وَفِي رِوَايَةٍ: «حَسِّنُوا الْقُرْآنُ بِأَصْوَاتِكُمْ، فَإِنَّ الصَّوْتَ الْحَسَنَ يَزِيدُ الْقُرْآنَ حُسْنًا»

’’قرآن کریم کو اپنی آوازوں سے حسن دیا کرو۔ کیونکہ خوبصورت آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کردیتی ہے۔‘‘

(صحيح ابو داود 1320، السلسلةالصحيحة771، مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر :ص 137،صحيح الجامع الصغیروزيادتہ:1؍601، رقم 3145، سنن دارمی ابن نصر فی الصلاة ، صحیح، مشكاة المصابیح:2208)

نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:

سَمِعْتُ رَسُولَ الله ﷺ يَقُولُ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ»، قَالَ: فَقُلْتُ لِابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، أَرَأَيْتَ إِذَا لَمْ يَكُنْ حَسَنَ الصَّوْتِ؟ قَالَ: «يُحَسِّنُهُ مَا اسْتَطَاعَ»

’’میں نے اللہ کے نبیﷺ کو کہتے سنا کہ وہ ہم میں سے نہیں جو قرآ ن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے کہا: یا ابو محمد! اگر انسان کی آواز خوبصورت نہ ہو تو پھر ؟ کہنے لگے: وہ بقدرِ استطاعت اس کو اچھا بنانے کی کوشش کرے۔‘‘

(سنن ابو داود :2/75،   رقم 1471... حكم البانی : حسن صحيح)

خوش الحانی نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ﷢کی سنّت ہے اور اس کو توجہ سے سننا اللہ تعالیٰ، نبی کریمﷺ اور آپ کے صحابہ کا طریقہ ہے!

نبی کریمﷺ بہت خوبصورت انداز میں قرآن کریم کی تلاوت فرمایا کرتے، براء بن عازب﷜ سے مروی ہے کہ

سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقْرَأُ فِي العِشَاءِ: وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ فَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ صَوْتًا أَوْ قِرَاءَةً مِنْهُ

’’میں نے نبی ﷺ کو سنا کہ آپ نماز عشا میں سورت والتین کی تلاوت کررہے تھے، میں نے آپ سے اچھی آواز اور اچھی قراءت والا کوئی ایک بھی نہیں سنا۔‘‘

(صحيح بخاری:9/158، رقم 7546)

آغاز میں نبی کریم ﷺکی سورۃ الطّور کی تلاوت کی تاثیر کا تذکرہ بھی ایک حدیث مبارکہ میں آیاتھا۔سیدنا ابو ہریرہ﷜ نبی کریمﷺ کا یہ فرمان روایت کرتے ہیں:

مَا أَذِنَ اللهُ لِشَيْءٍ مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ حَسَنِ الصَّوْتِ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ، يَجْهَرُ بِهِ

’’اللہ تعالیٰ کسی شے کو اتنا توجہ او رانہماک سے نہیں سنتے، جتنا نبی کریمﷺ کی خوبصورت تلاوت کو سنتے ہیں کہ وہ خوش الحانی اور بلند آواز سے قرآن پڑھتے ہیں۔‘‘

(صحيح مسلم :1/545، رقم 233، صحيح بخاری:9/158،رقم 7544، 6/191،رقم 5023)

صحیح مسلم کی اس حدیث کے شارح شیخ محمد فواد عبد الباقی﷫ لکھتے ہیں:

يتغنى بالقرآن، معناه عند الشافعي وأصحابه وأكثر العلماء من الطوائف وأصحاب الفتوى يحسن صوته به وقال الشافعي وموافقوه: معناه تحزين القراءة وترقيقها واستدلوا بالحديث الآخر «زينوا القرآن بأصواتكم» قال الهروي معنى يتغنى به يجهر به.

’’خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا مطلب امام شافعیاور ان کے اصحاب ، مختلف طبقوں کے اکثر علما اور مفتیانِ کرام کے نزدیک یہ ہے کہ آپ اس کے ساتھ آواز کو خوبصورت کیا کرتے۔امام شافعیاور ان کے ہم نوا کہتے ہیں: اس کا مطلب ہے قرآن کو رقت اورخشیت الٰہی سے پڑھنا۔اور انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ قرآن کو اپنی آوازوں سے حسن دو۔ امام ہروی کہتے ہیں کہ خوشی الحانی کا مطلب بلندآواز سے قرآن پڑھنا ہے۔‘‘

اس حديث میں أَذِنَ  كا لفظ آیا ہے جس کا مطلب کان لگا کر سننا ہے ، جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت میں آتا ہے:

﴿إِذَا السَّماءُ انشَقَّت ﴿١وَأَذِنَت لِرَبِّها وَحُقَّت ﴿٢

’’جب آسمان پھٹ جائے گا، اور وہ اپنے ربّ کے حکم پر (کاربند ہونے کے لیے) کان لگائے ہوئے ہوگا اور یہی اس کو لائق ہے۔‘‘

(سورة انشقاق:1،2)

بارہواں ادب: اپنے ارد گرد کے لوگوں کا خیال رکھتے ہوئے تلاوت کرنا

تلاوت قرآن اونچی آواز میں کرنا بالکل جائز وسنت ہے لیکن اگر اس سے ارد گرد کے لوگوں کی عبادت میں خلل آئے یا انہیں کسی بھی قسم کی پریشانی ہو تو اونچی آواز میں تلاوت کرنا جائز نہیں ہے۔

ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

" اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، فَسَمِعَهُمْ يَجْهَرُونَ بِالْقِرَاءَةِ، فَكَشَفَ السِّتْرَ، وَقَالَ: أَلَا إِنَّ كُلَّكُمْ مُنَاجٍ رَبَّهُ، فَلَا يُؤْذِيَنَّ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، وَلَا يَرْفَعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الْقِرَاءَةِ - أَوْ قَالَ: فِي الصَّلَاةِ"

" رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں اعتکاف فرمایا ۔ آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ اونچی آواز سے قرآت کر رہے ہیں ۔ آپ ﷺ نے پردہ ہٹایا اور فرمایا ” خبردار ! تم بلاشبہ سب کے سب اپنے رب سے مناجات کر رہے ہو مگر کوئی دوسرے کو ہرگز ایذا نہ دے اور قرآت میں اپنی آواز دوسرے پر بلند نہ کرے ۔ “ یا فرمایا ” نماز میں ( اپنی آواز بلند نہ کرے )۔"  (سنن ابی داود: 1332، قال البانی: صحیح)

نوٹ: اس سے ضمناً یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ مساجد میں کسی معقول وجہ کے بغیر لاؤڈ سپیکر کا استعمال مناسب نہیں۔ ایسے ہی گھروں میں ریڈیوں اور ٹیپ کی آواز سے ہمسایوں کو اذیت دینا بھی جائز نہیں ہے۔

تیرہواں  ادب: تھکاوٹ اور نیند کی حالت میں تلاوت کو ترک کرنا

جب انسان پر تھکاوٹ اور نیند طاری ہو جائے تو اسے چاہیے کہ تلاوت کو روک دے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اس حالت میں آیات کے الفاظ کو آگے پیچھے کر دے یا غلط تلاوت کرے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

" إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ مِنْ اللَّيْلِ فَاسْتَعْجَمَ الْقُرْآنُ عَلَى لِسَانِهِ فَلَمْ يَدْرِ مَا يَقُولُ فَلْيَضْطَجِعْ "

"جب تم میں سے کوئی شخص رات کو قیام کرے اور اس کی زبان پر قراءت مشکل ہوجائے اور اسے پتہ نہ چلے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے تو اسے لیٹ جانا چاہیے۔"

(صحیح مسلم: 787)

چودہواں  ادب: تلاوتِ قرآن سننے والے پر واجب ہے کہ وہ خاموش رہے

قرآن کی قراءت سنتے وقت خاموش رہنا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے :

وَإِذَا قُرِئَ ٱلْقُرْءَانُ فَٱسْتَمِعُوا۟ لَهُۥ وَأَنصِتُوا۟ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

''اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے (کان لگا کر ) سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے "

(سورۃ الاعراف: 204)

پندرہواں ادب: قرآن کی تلاوت کو معمول بنایا جائے تا کہ اسے بھول جانے کا عارضہ پیش نہ آئے

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"مَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ إِذَا عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَكَهَا وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ"

"قرآن کو یاد کرنے والے (حافظ قرآن) کی مثال بندھے ہوئے اونٹوں کے مالک کی طرح ہے۔ اگر وہ ان کا خیال رکھے گا تو انھیں محفوظ رکھے گا اور اگر انھیں کھول دے گا تو وہ بھاگ جائیں گے۔"

(صحیح مسلم: 789)

اسی طرح عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"بِئْسَمَا لِأَحَدِهِمْ أَنْ يَقُولَ نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ بَلْ هُوَ نُسِّيَ اسْتَذْكِرُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ أَسْرَعُ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنْ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِهِ"

"کسی مسلمان کے لیے بری بات ہے کہ وہ کہے: میں فلاں آیت بھول گیا ہوں بلکہ وہ اسے بھلا دیا گیا ہے۔ قرآن مجید دہراتے رہو کیونکہ قرآن مجید لوگوں کے سینوں سے زیادہ جلدی نکل جاتا ہے بہ نسبت ان اونٹوں کے جنھیں رسی سے باندھ دیا گیا ہو۔"

(سنن نسائی: 943، قال الالبانی: صحیح)

سولہواں  ادب: قرآن کو تجوید کے قواعد کے ساتھ پڑھا جائے

تجوید کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کے حکم کے دو پہلو ہیں: نظری اور عملی۔

جہاں تک نظری یا علمی پہلو کا تعلق ہے – یعنی نظری جانب سے تجوید کے قواعد واحکام کو جاننا جیسے یہ بتا پانا کہ یہ اخفاء حقیقی ہے یا شفوی، وغیرہ – تو اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ فرض کفایہ ہے، فرض عین نہیں۔

جہاں تک عملی پہلو کا سوال ہے – یعنی ایک قاری عملا تلاوت کے دوران مد کے موقع پر اسے مد یعنی لمبا پڑھے، اور قصر کے موقع پر قصر پڑھے وغیرہ – تو اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے:

پہلا قول: یہ ہے کہ اس کا التزام تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ یہ قول علماء تجوید کا ہے۔

دوسرا قول: یہ ہے کہ یہ واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ یہ رائے علماء فقہ یعنی فقہاء کرام کا ہے۔

نیز احکام تجوید کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنا سنت ہے اور قرآن کریم کی تلاوت کے آداب میں سے ہے۔

ستارہواں ادب: تلاوت کے دوران فضول باتوں اور کاموں سے پرہیز کرنا

تلاوت کے دوران بے فائدہ باتوں اور لہو  کو ترک کر کے قرآن کا احترام کیا جائے اور بے فائدہ باتوں کے لیے قراءت منقطع نہ کی جائے اور نہ ہی لہو حرکت جیسے ہنسنا، اشارے کرنا، اور بلا وجہ حرکت کی جائے۔  قراءت کے وقت ہاتھوں کو بے فائدہ ادھر ادھر نہ ہلایا  جائے اور نہ ہی بلاضرورت اپنی آنکھیں ادھر ادھر پھیری جائیں۔

اٹھارہواں ادب: سجدہ تلاوت پر سجدہ کیا جائے

قراءت کے دوران سجدے کی جگہ پر سجدہ کرنا، مستحب ہے۔ جمہور فقہاء - جن میں مالکی، شافعی، اور حنبلی مذاہب شامل ہیں - کے نزدیک سجدہ تلاوت سنت ومستحب ہے، واجب نہیں، سوائے حنفیوں کے۔

انیسواں  ادب:مصحف سے دیکھ کر قرآن پڑھنا

امام نووی رحمہ اللہ الاذکار میں فرماتے ہیں:

" قراءة القرآن من المصحف أفضل من القراءة من حفظه ، هكذا قال أصحابنا ، وهو مشهور عن السلف رضي الله عنهم ، وهذا ليس على إطلاقه ، بل إن كان القارئ من حفظه يحصل له من التدبر والتفكر وجمع القلب والبصر أكثر مما يحصل من المصحف فالقراءة من الحفظ أفضل وإن استويا فمن المصحف أفضل ، وهذا مراد السلف "

" قرآن دیکھ کر پڑھنا حفظ کے ساتھ پڑھنے سے افضل ہے ، ہمارے سب احباب کا یہی قول ہے اور سلف رضی اللہ تعالی عنہ سے یہی معروف ہے لیکن یہ مطلقا نہیں بلکہ اگر قاری اپنے حفظ میں سے پڑھنے کے ساتھ قرآن کریم پر غور وفکر کرنے اور تدبر کرنے اور دل اور نظر کو قرآن کے ساتھ قرآن کو دیکھ کرپڑھنے سے اکثر جمع کرسکتا ہے تو اس کے لئے یہی افضل ہے اور اگر دونوں طریقوں میں برابری ہو تو پھر اس کے لئے قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا افضل ہے ، اور یہی چیز سلف کی مراد ہے ۔ "

(الاذکار: ص 90-91)

بیسواں ادب: مصحف کا احترام کرنا

ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ مصحف (قرآن ) کا احترام کرے،ا سے زمین پر رکھے نہ اس کے اوپر کوئی چیز رکھے اور نہ اسے اپنے کسی ساتھی کے پاس پھینکے کہ وہ اسے پکڑ لے اور اسے اس حالت میں چھوئے جب وہ پاک ہو ـ

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ ـ فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ

"(وہ) قابل احترام صحیفوں میں ( محفوظ ) ہے ـ جو بلند و بالا اور پاکیزہ ہیں ''

(سورۃ عبس: 13، 14)

مصادر

·       [Mohaddis Magazine] محدث میگزین - تلاوتِ قرآن کا نبوی طریقہ

·       حكم قراءة القرآن خارج الصلاة بدون بسملة - الإسلام سؤال وجواب (islamqa.info)

·       آداب تلاوة القرآن - موضوع (mawdoo3.com)

·       قرآن کی تلاوت کے آداب | محدث فورم [Mohaddis Forum]

·       حكم سجود التلاوة في الصلاة - إسلام ويب - مركز الفتوى (islamweb.net)

·     هل تلاوة القرآن من المصحف أفضل أم من الحفظ ؟ - الإسلام سؤال وجواب (islamqa.info)


0/کمنٹس: