شافعی مذہب: تعارف ،تاریخ، ائمہ، وکتب



شافعی مذہب:
 تعارف ،تاریخ، ائمہ، وکتب

مرتب ومترجم: دین پوسٹ

 اس مضمون کو پی ڈی ایف میں ڈاونلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فہرست

مذہب کی تعریف

امام شافعی کے مذہب کی تعریف

شافعیہ کے مذہب کی تعریف

مذہب کے دراسہ ومطالعہ کے فوائد

امام شافعی کا تعارف

شافعی مذہب کے ادوار

پہلا دور:مذہب کی تکوین وبنیاد (195 ھ – 204 ھ)

پہلا مرحلہ: مذہبِ قدیم (195 ھ – 199 ھ)

امام شافعی کےبغداد کے بعض نمایاں تلامذہ:

ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبی البغدادی

الحسین بن علی الکرابیسی البغدادی 

الحسن بن محمد الصباح الزعفرانی البغدادی 

احمد بن محمد بن حنبل 

مذہبِ قدیم پر مشتمل امام شافعی کی اہم تالیفات

دوسرا  مرحلہ: مذہبِ جدید  (199 ھ – 204 ھ)

امام شافعی کے مصر  کے بعض نمایاں تلامذہ:

یوسف بن یحیی البویطی 

اسماعیل بن یحیی المزنی 

الربیع بن سلیمان المرادی 

الربیع بن سلیمان الجیزی 

ابن عبد الحکم: ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم 

ابو حفص حرملۃ بن یحیی بن عبد اللہ بن حرملۃ بن عمران التجیبی 

ابو موسی یونس بن عبد الاعلی الصدفی المصری المقری 

مذہبِ جدید پر مشتمل امام شافعی کی اہم تالیفات

مذہبِ قدیم کے احکام اور مسائل کا کیا حکم ہو گا؟

مذہبِ جدید میں امام شافعی کے اصول

دوسرا  دور:مذہب کی نقل، روایت، اور تبلیغ (204ھ – 516ھ)

امام شافعی کے اصحاب کے تلامذہ

ابو القاسم عثمان بن سعید الانماطی (م 288 ھ)  

عبدان المروزی (220 ھ – 293 ھ)

ابو زرعہ القاضی (م 302 ھ)

ابو عوانہ الاسفرایینی (م 316 ھ)

ابو سعید الاصطخری (244ھ – 328ھ)

ابو العباس بن سریج (249ھ – 306ھ)

مذہب کے دو طریقے

عراقی طریقہ کے مشہور ائمہ:

ابو حامد الاسفرایینی (344ھ – 406 ھ)

ابو الطیب الطبری (348 ھ – 450 ھ)

ابو الحسن الماوردی (364 ھ – 450 ھ)

ابو اسحاق الشیرازی  (393 ھ – 476 ھ)

خراسانی طریقہ کے مشہور ائمہ:

القفال الصغیر المروزی (327 ھ – 417 ھ)

ابو محمد الجوینی (م 438  ھ)

قاضی حسین المروزی (م 462  ھ)

ابو القاسم الفورانی (م 461  ھ)

محیی السنہ ابو محمد البغوی (م 516ھ)

دونوں طریقوں کو جمع کرنے والا تیسرا طریقہ

دونوں طریقوں کو جمع کرنے والے مشہور علماء:

امام الحرمین ابو المعالی الجوینی (419  ھ – 478 ھ)

ابو حامد الغزالی (450  ھ – 505 ھ)

الرویانی (415  ھ – 501 ھ)

ابن الصباغ (400  ھ – 477 ھ)

اس دور کے بعض شافعی محدثین کا تذکرہ:

امام حمیدی (م 219 ھ)

امام زکریا الساجی (220ھ -  307 ھ)

امام ابو عوانہ الاسفرایینی (م 316 ھ)

امام ابو بکر النیسابوری (238ھ – 324 ھ)

امام ابو العباس الاصم (247ھ – 346ھ):

امام ابو بکر الشافعی (260ھ – 354ھ)

امام ابن حبان (م 354 ھ)

امام ابو بكر الاسماعیلی (277ھ -  371 ھ)

امام دارقطنی (306ھ – 385ھ)

امام  ابو عبد اللہ حاکم (321ھ -  405 ھ)

امام بیہقی (384ھ – 458ھ)

امام خطیب بغدادی (392ھ – 463ھ)

تیسرا  دور:مذہب کی تنقیح وتحریر (516ھ – 676ھ)

ابو القاسم الرافعی  (557  ھ – 623 ھ):

ابو زکریا النووی  (631  ھ – 676 ھ):

امام نووی کی فقہی تصانیف:

قواعدِ ترجیح:

چوتھا  دور:مذہب کا استقرار اور تنقیحِ ثانی (676ھ – 1004ھ)

پہلا مرحلہ

دوسرا مرحلہ:

ابن حجر الہیتمی  (909  ھ – 974 ھ)

شمس الدین الرملی  (919  ھ – 1004 ھ)

متاخرین کے نزدیک قواعدِ ترجیح

شافعیہ کی اصطلاحات:

اشخاص سے متعلق اصطلاحات

مؤلفات اور تصنیفات سے متعلق اصطلاحات

تعددِ اقوال اور وجوہ کے بیان کے لئے اصطلاحات

ترجیح واختیار کی مشہور اصطلاحات

اقوالِ فقہاء واحکام ودلائل کی تضعیف کے صیغے

اقوالِ فقہاء واحکام ودلائل کی توضیح کے صیغے

مذہبِ شافعی کا دراسہ کرنے والے کے لئے بعض ہدایات وتنبیہات:

1-   شافعیہ کے نزدیک تعلیمی مراحل کا اہتمام کرے

پہلا مرحلہ: مختصر متون کا دراسہ

دوسرا  مرحلہ: متوسط متون کا دراسہ

تیسرا  مرحلہ: منہاج الطالبین کے متن کا دراسہ

2- مذہب  کے مطالعہ کے پہلؤوں کی معرفت

1)  علم اصول الفقہ

2) علم القواعد الفقهية

3) علم الفروع

3- مذہب کی تعلیم کے ساتھ آدابِ طلبِ علم کی تعلیم لینا

4- مذہب کے مسائل کا معتبر طریقے پر مطالعہ کرنا

اول:ضبطِ ادنی

دوم: ضبطِ تام یا اعلی

5- ضبطِ مذہب میں علماء کے مراتب کی معرفت

1) مجتہدون:

· مجتہد مطلق

· مجتہد منتسب

· مجتہد المذہب

· مجتہد الفتوی والترجیح

2) الضابط فی المذہب

3) المشتغلون بالمذہب

6- مذہب کے اصول وقواعد کی معرفت:

1- اصل اول: قرآن

2- اصل ثانی: سنت

3- اصل ثالث: اجماع 

4- اصل رابع: قولِ صحابی 

5- اصل خامس: قیاس 

شافعی مذہب کی خصوصیات:

1- اس کے بانی ومؤسس کا مطلبی وہاشمی ہونا

2- تمام مکاتبِ فقہیہ کی آراء سے استفادہ

3- مذہب کے امام نے خود مذہب کے اصول مرتب کیے

4- حق ودلیل کی اتباع

5- حتی الامکان ظاہری معنی سے استدلال

6- اقوال کی کثرت

7- مجتہدین اور محدثین کی کثرت

شافعی مذہب کی اہم مطبوعہ کتب:

دورِ تکوین کی اہم کتب

دورِ تدوین کی اہم کتب

دورِ تنقیح وتحریر کی اہم کتب

مذہبِ شافعی کے فقہی موسوعات

مذہبِ شافعی کے مختصر فقہی متون

اصولِ فقہ پر بعض شافعی کتب

قواعدِ فقہیہ پر بعض شافعی کتب

خاتمہ

 

یہ مذہبِ شافعی کے تعارف پر ایک مختصر اور جامع خلاصہ ہے جس میں اس کی تاریخ، نشاءت، ادوار، اور اس کے نمایاں اشخاص اور مؤلفات اور اس کے اہم مقاصد کی نشاندہی کی گئی ہے، اور اس کے ساتھ اس مذہب کے طالب علم کے ساتھ خاص کچھ تنبیہات بھی ذکر کی گئی ہیں۔ اس کے لکھنے کے اسباب میں سے ایک طلبہِ علم کے لئےاس موضوع پر لکھی گئی طویل مؤلفات سے – ان کی اہمیت وضرورت کا اعتراف کرتے ہوئے -  مستغنی کرنا ہے۔ ضروری ہے کہ اس سیاق میں دو امور پر تنبیہ کر دی جائے:

اول: مذہب کا مطالعہ صرف ایک وسیلہ ہے، غایت نہیں۔ اس کا مقصد  فروعی مسائل کے فہم کو بتدریج حاصل کرنا اور علماء کے بنائے مناہج کی روشنی میں تفصیلی ادلہ سے احکام کا استفادہ کرنے کی کیفیت کو جاننا ہے۔

دوسرا: اپنے صحیح مقام پر تقلید کا جائز ہونا۔ اور تقلید سے مراد کسی غیر کے قول کو بغیر حجت کے قبول کرنا ہے[1]۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فرمایا:

" والذي عليه جماهير الأمة أن الاجتهاد جائز في الجملة، والتقليد جائز في الجملة"

"جمہور امت جس قول کی قائل ہے وہ یہ کہ اجتہاد مجموعی طور پر جائز ہے، اور تقلید بھی مجموعی طور پر جائز ہے"[2]

تقلید کے جواز  کی توجیہ صرف یہ ہے کہ ایک عامی اجتہاد پر قادر نہیں ہوتا۔ امام رازی فرماتے ہیں: " يجوز للعامي أن يقلد المجتهد في فروع الشرع" "عامی کے لئے جائز ہے کہ وہ شریعت کے فروعی مسائل میں مجتہد کی تقلید کرے"[3]۔

عامی سے دو معنی مراد لئے جاتے ہیں:

1-            پہلا: وہ غیر مجتہد ہوتا ہے، اور علماءکی صراحت کے مطابق وہ معتبر مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کی بنا تعصب کے پیروی کرتا ہے۔

2-            دوسرا: وہ علم اور اس کی طلب کا اہتمام کرنے والا نہیں ہوتا، اس لئے اس کا مذہب وہی ہوتا ہے جو اس کے مفتی کا مذہب ہے۔

جہاں تک تعلق ہے ممنوع تقلید کا تو وہ مذموم ہے اور اس کو اس طرح حصر کیا جا سکتا ہے:

·      جس کے خلاف دلائل واضح ہو جائیں۔

·      کسی معین امام کی تقلید اس طرح کرنا کہ اس کے تمام اقوال کو قبول کیا جائے اگرچہ وہ حق کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔

·      استنباط، اجتہاد اور تحقیق پر قادر شخص کا تقلید کرنا۔ پس ایک مجتہد کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی اور کی تقلید کرے، یہی جمہور علماء کا مذہب ہے، اور یہ اصل ہے جس میں سے بعض ائمہ نے مجتہد کے لئے کسی اور کی تقلید کے جواز کے لئے ایک استثنائی حالات نکالی ہے وہ یہ کہ جب ایک مجتہد کو کسی حادثے کے گزر جانے کا خوف ہو اور اس کے پاس اجتہاد کرنے کا وقت نہ ہو۔ یہ مذہب مالکیہ میں سے عبد الوہاب بن نصر، اور شافعیہ میں سے احمد بن سریج کا ہے۔[4]

مذہب کی تعریف:

مذہب کا اطلاق اور مراد دو معنی پر ہوتا ہے:

اول: منہجِ فقہی جس پر ایک مجتہد فقیہ چل کر جملہ احکام کے اختیار تک پہنچتا ہے۔

دوسرا: ایک مجتہد کی احکامِ شرعیہ میں جمیع آراء جن کو وہ ادلہِ تفصیلیہ سے مستنبط کرتا ہے، اور وہ قواعد اور اصول جو ان پر مبنی ہوتے ہیں۔

اس معنی کے ساتھ اس کا اطلاق ان قواعدِ اصولیہ پر ہوتا ہے جن کو فروعی مسائل کے استنباط، واستخراج کا منہج شمار کیا جاتا ہے، اور اسی طرح اس کا اطلاق ان فروعی مسائل پر بھی ہوتا ہے جن کا استنباط ہو چکا ہو۔

متاخرین علماء نےایسے مداخل لکھے ہیں جن کی مدد سے مذاہبِ فقہیہ کے طلابِ  علم کے لئے ان کے مطالعے میں آسانی ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میں مذہب پر لکھی اہم کتب، اس کی اصطلاحات، اس کے ادوار، مذہب کے راجح قول تک پہنچنے کی ہدایات، اور اس طرح کے دیگر اہم امور کا بیان ہوتا ہے۔

نیز معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع (یعنی مذہب کے تعارف ومدخل) کا مذاہب میں سب سے زیادہ اہتمام شافعیہ اور حنابلہ نے کیا ہے۔ حنابلہ کی اس موضوع پر کتب میں درج ذیل شامل ہیں: (المدخل إلي مذهب الإمام أحمد بن حنبل) لعبد القادر بن بدران، كتاب (أصول مذهب الإمام أحمد) للدکتور عبد اللہ بن عبد المحسن الترکی، اور کتاب (المدخل المفصل إلي فقه الإمام أحمد بن حنبل وتخريجات الأصحاب) للدکتور بکر عبد اللہ ابو زید – یہ والی کتاب کتبِ مداخل اور مصطلحاتِ مذاہب پر لکھی گئی تمام کتب میں سب سے افضل شمار ہوتی ہے، کیونکہ اس میں مذہبِ حنابلہ سے متعلق ہر چیز کی تفصیل موجود ہے، اور اس میں مؤلف کو مذہبِ حنابلہ کے مقاصد بیان کرنے کا شرف حاصل ہے جو مذہب کے کسی بھی طالبِ علم کے لئے شافی وکافی ہیں۔

جہاں تک شافعیہ کی اس موضوع پر تالیفات کا تعلق ہے تو ان میں درج ذیل کتب شامل ہیں:

·      (مقدمة المجموع للإمام النووي)

·      كتاب (الفوائد المدنية في بيان اختلاف العلماء من الشافعية) لمحمد بن سلیمان الکردی

·      كتاب (الفوائد المكية فيما يحتاجه طلبة الشافعية من المسائل والضوابط والقواعد الكلية) لعلوی بن احمد السقاف

·      کتاب (معجم في مصطلحات فقه الشافعية) لسقاف بن علی الکاف

·      (المذهب عند الشافعية) للدکتور محمد ابراہیم احمد علی

·      کتاب (المذهب عند الشافعية) لمحمد الطیب الیوسف

·      (المدخل إلي مذهب الإمام الشافعي) للدکتور اکرم یوسف القواسمی – یہ اس موضوع پر شافعیہ کے نزدیک  سب سے جامع اور افضل کتاب ہے۔

·      کتاب (سلم المتعلم المحتاج إلي أدلة ورموز المنهاج) لاحمد میقری شمیلۃ الاہدل

·      کتاب (الابتهاج في بيان اصطلاح المنهاج) لاحمد بن سمیط

امام شافعی کے مذہب کی تعریف:

امام شافعی کے مذہب سے مراد ان کے وہ اجتہادات ہیں جو انہوں نے اصول وفروع میں کئے، جنہیں انہوں نے اپنی کتب جیسے الأم اور الرسالہ میں درج کیا، یا انہیں اپنے شاگردوں کو املاء کے ذریعے لکھوایا اور ان کے شاگردوں نے انہیں مشہور تصنیفات کی شکل دی جیسے مختصر المزنی، اور  مختصر البویطی۔

شافعیہ کے مذہب کی تعریف:

شافعی مذہب فقہ اور اصول وقواعد میں  اس علمی جہود کا نام ہے جسے ان اشخاص نےترویج دی جو شافعی مذہب کی طرف منتسب ہیں اور جنہوں نے امام شافعی کے منہج، ان کے اصول اور قواعد کا التزام کیا، اور ان سے تجاوز نہیں کیا۔

مذہب کے دراسہ ومطالعہ کے فوائد:

کسی ایک مذہب کا دراسہ ومطالعہ کرنے کے متعدد فوائد ہیں، جیسے:

1-           فقہاء کے الفاظ کا فہم حاصل ہوتا ہے
 امام ابن دقیق العید فرماتے ہیں: "
 من لم يدقق بألفاظ الفقهاء لم ينل الفقهجو فقہاء کے الفاظ کو باریک بینی سے نہیں سمجھتا وہ فقہ حاصل نہیں کر سکتا۔

2-           مشکل ومختلف فیہ  مسائل میں انسان ذہنی الجھاؤ سے محفوظ رہتا ہے۔

3-           دینی احکام اور اصول وضوابط کو ایک منظم طریقے سے پڑھنے کی آسانی مہیا ہوتی ہے۔

4-           تمام فقہی مسائل کا احاطہ ممکن ہوتا ہے۔

5-           مسائل کے فہم اور ان کے دلائل کے درمیان ربط قائم کرنے میں تدریجا آسانی ہوتی ہے۔

امام شافعی کا تعارف:

الامام المجتہد محمد بن ادریس بن العباس بن عثمان بن شافع، ابو عبد اللہ المطلبی الشافعی الامام، عالم العصر، ناصر الحدیث، فقیہ الملۃ - فلسطین کے شہر غزۃ میں 150 ھ میں پیدا ہوئے۔

آپ غریبی کی حالت میں پلے بھرے اور آپ کو اپنے والد کا سایہ بھی نصیب نہ ہوا، پس آپ نے یتیمی کی حالت میں اپنی والدہ کے گھر تربیت پائی۔ جب دو سال کے ہوئے تو ان کی والدہ انہیں لے کر مکہ منتقل ہو گئیں تا کہ ان کی وہاں اچھی پرورش کر سکیں۔ وہاں پر آپ نے تیر اندازی اور گھر سواری کے فنون میں مہارت حاصل کی، پھر آپ نے اپنی توجہ عربی اور شعر وشاعری سیکھنے میں لگائی یہاں تک کہ آپ عربی زبان کے امام بن کر ابھرے۔ آپ کو اپنے زمانے کا سب سے فصیح وبلیغ انسان کہا گیا۔

پھر آپ کو فقہ سے لگاؤ ہوا اور اس میں بھی اپنے زمانے کے امام بن گئے۔ انہوں نے اپنے شہر مکہ میں مفتیِ مکہ امام مسلم بن خالد الزنجی، اپنے چچا محمد بن علی بن شافع، امام سفیان بن عیینہ اور دیگر کئی فقہاء وائمہ سے علم سیکھا۔

پھر جب آپ بیس سال کی عمر سے کچھ زیادہ کے ہوئے تو مدینہ تشریف لے گئے تا کہ وہاں کے امام اور فقیہ مالک بن انس کی شاگردی اختیار کریں، چنانچہ انہوں نے امام مالک کی موطا کو حفظ کیا اور اس کی امام مالک پر قراءت کی، جس پر امام مالک ان سے بہت خوش ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ امام مالک کے سب سے نمایاں ترین شاگردوں میں شمار ہوئے۔

امام مالک کی وفات کے بعد آپ یمن چلے گئے اور وہاں کے امیر مقرر ہوئے اور آپ نے یمن کے بعض علماء سے بھی علم حاصل کیا جن میں مطرف بن مازن اور، ہشام بن یوسف القاضی شامل ہیں۔

اس کے بعد آپ بغداد پہنچے اور وہاں پر بغداد کے فقیہ امام محمد بن الحسن الشیبانی سے علم حاصل کیا، ان سے بحث ومباحثے کیے، اور ان کی صحبت کو لازم پکڑا۔

اس کے بعد آپ مکہ واپس چلے گئے اور وہاں پر درس وتدریس کرنے لگے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آپ 195 ھ میں پھر بغداد تشریف لائے اور اس بار بطورِ معلم وہاں پر رہے۔ بغداد میں رہ کر انہوں نے اپنے مذہبِ قدیم کو تشکیل دیا۔ اس دوران انہوں نے کئی تصنیفات لکھیں، اور علم کو مدون کیا۔ اس دوران ان کے بے شمار شاگرد ان سے مستفید ہوئے جن میں احمد بن حنبل، زعفرانی، اور ابو ثور وغیرہ شامل ہیں۔

بغداد میں دو سال رہنے کے بعد آپ دوبارہ مکہ واپس گئے اور پھر 199ھ میں تیسری بار بغداد آئے اور اس بار چند مہینے رہنے کے بعد سال کے آخر میں مصر منتقل ہو گئے، اور اپنی وفات تک وہیں پر رہے۔ مصر میں انہوں نے اپنے کئی اجتہادات کی تنقیح وتجدید کی اور اپنے مذہبِ جدید کو تشکیل دیا۔ مصر میں ان کے مشہور ترین تلامذہ میں ربیع مرادی، مزنی، بویطی، حرملہ، اور ابن عبد الحکم وغیرہ شامل ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو امام شافعی نے اپنی فقہ میں کئی قدیم مذاہب کو سمیٹ لیا ہے۔ان کو ایک طرف امام مالک سے فقہ مدنی یا مالکی مذہب تو دوسری طرف امام محمد بن حسن شیبانی سے فقہ عراقی یا حنفی مذہب کو حاصل کرنے اور دونوں علمی حلقوں کے سرمایہ کا حامل بننے کا موقع ملا، اس لئے شافعی مذہب دونوں حلقوں کے مزاج ومزاق کی جامع ہے، نہ ظاہر نص پر جمود محض اور نہ قیاس سے بالکل پہلو تہی ہے، اور نہ ہی نصوص کے مقابلے میں قیاس ورائے کی اتباع ہے، نہ نصوص کے الفاظ پر قناعت اور شریعت کے مصالح ومقاصد سےاغماز (اہمیت نہ دینا) ہے، نہ لوگوں کی ضرورتوں اور چاہتوں سے بے اعتنائی (بے توجہی) ہے، گویا یہ مذہب منقول (قرآن، سنت، واجماع) ومعقول (قیاس واستنباط) دونوں کا جامع ہے۔

اسی طرح امام شافعی نے امام سفیان بن عیینہ کا مذہب اور اپنے مکی اساتذہ جیسے مسلم بن خالد الزنجی،عبد المجید بن عبد العزیز بن ابی رواد، عبد العزیز الدراوردی کے ذریعے سے ابن جریج کے مذہب اور مکی فقہ کا بھی احاطہ کر لیا۔

اس کے بعد اپنی زندگی کے اواخر میں جب آپ مصر گئے تو وہاں رہ کر آپ نے امام لیث بن سعد اور امام اوزاعی کے مذاہب کو بھی اپنی فقہ میں سمیٹ لیا۔ یوں مذہبِ شافعی نے تقریبا تمام مذاہبِ قدیمہ کو اپنے اندر سمیٹ لیا۔

 اس لئے شافعی مکتبِ فقہ سے ہر عہد میں جلیل القدر محدثین، فقہاء، اور مجددین پیدا ہوتے رہے ہیں، اس مذہب نے اپنے زمانہ کے ذہین ترین اہل تحقیق علماء کو متاثر کیا ہے۔ پوری دنیا میں اہل سنت والجماعت میں مجموعی اعتبار سے احناف کے بعد سب سے بڑی تعداد امام شافعی ہی کے متبعین کی ہے۔

شافعی مذہب کے ادوار:

دیگر مذاہب فقہیہ کی طرح شافعی مذہب بھی کئی مراحل وادوار سے گزر کر اپنی موجودہ صورت  تک پہنچا ہے۔ علماء نے ان ادوار کی حقیقت پر اختلاف کیا ہے۔ پس بعض نے انہیں چار ادوار میں تقسیم کیا، اور بعض نے چھ ادوار میں۔ ہماری غرض محض یہ ہے کہ مذہبِ شافعی کی نشاءت ، احوال، اور اس کا تدریجا اپنی آخری صورت تک پہنچنے تک کی کیفیت کو ایک مختصر اور آسان طریقے سے سمجھایا جائے، اس لئے ہم  دکتور محمد ابراہیم احمد علی کے منہج کو اختیار کرتے ہوئے ان ادوار کو چار حصوں میں تقسیم کریں گے، کیونکہ اس میں زیادہ سہولت اور آسانی ہے۔

پہلا دور:مذہب کی تکوین وبنیاد (195 ھ – 204 ھ)

اس دور کی ابتداء امام شافعی کے بغداد کی طرف دوسرے دورے سے (سال 195 ھ) ہوئی اور ان کی وفات تک (سال 204 ھ) رہی۔

یہ مرحلہ دو اساسی حصوں یا مرحلوں پر مشتمل ہے:

پہلا مرحلہ: مذہبِ قدیم (195 ھ – 199 ھ)

اس اصطلاح کا اطلاق شافعی علماء کے نزدیک ان تمام فقہی آراء پر ہوتا ہے جن کی صراحت امام شافعی نے بغداد میں کی جو انہوں نے اپنے اس علم سے استنباط کے نتیجے میں کی جو انہوں نے عراق اور حجاز میں حاصل کیا۔ اس مرحلے میں وہ سب اقوال بھی شامل ہیں جو امام شافعی نے مصر میں داخلے سے پہلے کہے جیسا کہ ابن حجر الہیتمی وغیرہ نے راجح قرار دیا ہے۔

امام شافعی کے بغداد کے بعض نمایاں تلامذہ:

·    ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبی البغدادی:

امام ابو ثور حافظ امام مجتہد حجت اور عراق کے مفتی تھے۔ انہوں نے امام شافعی وغیرہ سے فقہ اخذ کی۔ امام احمد فرماتے ہیں: میں انہیں پچاس سال سے سنت سے منسلک جانتا ہوں اور وہ میرے نزدیک سفیان الثوری کی مثل ہیں۔ انہوں نے کئی کتب لکھیں۔ اولا انہوں نے رائے کا تفقہ کیا اور اہل عراق کے قول کی طرف مائل رہے پھر جب امام شافعی بغداد میں تشریف لائے وہ ان کی طرف مائل ہو گئے اور رائے سے کنارہ کشی اختیار کر کے حدیث کی طرف آ گئے۔ وہ 240 ھ میں فوت ہوئے اور وہ شافعی کے قدیم مذہب کے راوی ہیں۔ امام ابو ثور خود صاحب مذہب تھے۔  امام رافعی نے فرمایا:اگرچہ ابو ثور کو شافعی کے اصحاب کے طبقہ میں شمار وداخل کیا جاتا ہے، لیکن ان کا اپنا ایک مستقل مذہب ہے چنانچہ ان کے تفرد کو مذہبِ شافعی کا ایک وجہ شمار نہیں کیا جائے گا [5]۔

·    الحسین بن علی الکرابیسی البغدادی :

 امام کرابیسی صاحب تصانیف اور بغداد کے فقیہ تھے۔ نہوں نے شافعی  سے فقہ اخذ کی، جب کہ اس سے پہلے وہ اہل الرائے کے مذہب پر تھے۔ انہوں نے شافعی سے ان کی قدیم کتب روایت کی ہیں۔ وہ 245 یا 248 ھ کو فوت ہوئے۔

·    الحسن بن محمد الصباح الزعفرانی البغدادی :

 وہ امام علامہ شیخ الفقہاء ولمحدثین تھے۔ یہ لغت کے بھی  امام تھے اور امام شافعی کے قدیم مذہب کے راویوں میں سب سے زیادہ اثبت تھے۔ امام ابن حبان کتاب الثقات میں فرماتے ہیں: وہ شافعی کے راوی تھے، اور شافعی کی مجلس میں وہ احمد اور ابو ثور کی موجودگی میں شافعی پر ان کی کتب کی قراءت کیا  کرتے تھے۔ امام ساجی فرماتے ہیں کہ میں نے زعفرانی کو کہتے سنا کہ: میں شافعی کی کتب کو پچاس سال سے پڑھتا اور پڑھاتا آ رہا ہوں۔ ان کی وفات 260ھ میں ہوئی۔

·    احمد بن محمد بن حنبل :

امام احمد اس سے بالا تر ہیں کہ ان کا تعارف کروایا جائے۔ امام ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل حنبلی مذہب کے امام ہیں۔ وہ  امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں۔ اور ان کے مناقب پر کتب لکھی جا چکی ہیں۔محمد بن الصباح الزعفرانی فرماتے ہیں: میں نے شافعی پر ایک حرف بھی نہیں پڑھا الا یہ کہ احمد وہاں حاضر ہوتے تھے، اور میں شافعی کی کسی مجلس میں نہیں گیا الا یہ کہ میں نے وہاں احمد کو پایا  [6]۔

مذہبِ قدیم پر مشتمل امام شافعی کی اہم تالیفات

امام شافعی کے مذہبِ قدیم پر مشتمل تالیفات کو مصنفاتِ عراقیہ کہا جاتا ہے، جو انہوں نے سال 195 ھ اور 199 ھ کے درمیان میں لکھی۔ ان میں درج ذیل شامل ہیں:

1-         کتاب الحجۃ – یہ کتاب فقہ کے فروعی مسائل پر  مشتمل تھی۔   اسے ابن الندیم نے اپنی الفہرست میں "المبسوط" قرار دیا ہے۔ یہ در حقیقت وہی کتاب ہے جو "الام" کے نام سے اب معروف ہے۔ قیامِ مصر کے زمانے میں شافعی نے کافی تغیر وتبدل اور حک واضافہ کے بعد از سر نو مرتب کی اور پھر یہ "الام" کے نام سے معروف ہوئی۔[7]

زعفرانی نے اسے کتاب الحجۃ کہا ہے کیونکہ اس کے وضع کرنے کا مقصد حنفی فقہاءِ رائے وغیرہ جو عراق میں موجود تھے ان کا رد کرنا تھا۔ یہ کتاب فروعی مسائل پر مشتمل امام شافعی کی مختلف کتب وابواب کا مجموعہ ہے۔

2-          الرسالہ العراقیہ (القدیمہ) – یہ رسالہ امام شافعی نے بغداد کی طرف اپنے دوسرے دورے کے دوران لکھا تھا، جب امام عبد الرحمن بن مہدی نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اصول پر ایک کتاب لکھیں، تو امام شافعی نے تب یہ کتاب لکھی اور ان کی طرف بصرہ میں ارسال کی۔ چنانچہ اس کی وجہ سے اس کا نام الرسالہ پڑ گیا۔

دوسرا  مرحلہ: مذہبِ جدید  (199 ھ – 204 ھ)

امام شافعی سال 199 ھ کے آخر میں مصر کی طرف منتقل ہو گئے اور وہاں پر جا کر آپ نے اپنے کئی اجتہادات کو تبدیل کیا، جس کے نتیجے میں ان کا مذہبِ جدید رونما ہوا۔ بغداد کو چھوڑنے اور مصر کی طرف روانہ ہونے سے آپ کو جن اسباب نے راضی کیا ان میں  درج ذیل اسباب شامل ہیں [8]:

1-         بغداد پر فارسی عنصر کا غلبہ ہو جانا اور مأمون کا معتزلہ کے قریب ہونا اور ان کی بحث کے مناہج کی طرف مائل ہو جانا۔

2-          ایسے تلامذہ کی جستجو جو ان کے علم اور فقہ کی حفاظت کریں۔ نیز انہیں معلوم ہوا کہ امام لیث بن سعد کے تلامذہ نے اپنے امام کے علم کی حفاظت نہیں کی اور انہیں چھوڑ دیا حتی کہ امام شافعی نے فرمایا: " كان الليث بن سعد أفقه من مالك لكن خذله طلابه"امام  لیث بن سعد  امام مالک سے بڑے فقیہ تھے لیکن ان کے شاگردوں نے انہیں چھوڑ دیا۔ چنانچہ انہوں نے امام لیث بن سعد کے علم  کو ان کے تلامذہ سے اخذ کرنا چاہا۔

3-          ایک نئے ملک اور اس کے لوگوں کی اطلاع لینا۔

4-          عباس بن عبد اللہ الہاشمی کی ان کو مصر کی طرف دعوت کو قبول کرنا کہ وہ وہاں اپنے علم اور دعوت کو نشر کریں۔

نیز بغداد کے  اپنے قدیم مذہب اور اجتہادات کو چھوڑنے یا تبدیل کرنے پر جن اسباب نے انہیں مائل کیا وہ بھی متعدد ہیں، ان میں سب سے نمایاں اسباب درج ذیل ہیں [9]:

1-         بہت سی ایسی سنتوں اور آثار کی انہیں اطلاع لگنا جن کو انہوں نے اس سے قبل نہیں سن رکھا تھا۔ نیز امام لیث بن سعد کے مذہب اور ان کے اجتہادات وآثار کو انہوں نے ان کے تلامذہ سے اخذ کیا، اور امام اوزاعی کے مذہب کی بھی کافی اطلاعات آپ کو وہاں پر ملیں۔ نیز مصر کے دیگر علماء سے بھی آپ نے بحث واستفادہ کیا۔

2-          نئی معلومات کی بنیاد پر ان کا جدید قیاس پر اعتماد کرنا ان کے قدیم قیاس کی نسبت زیادہ راجح معلوم ہوا۔

3-          ماحول کی تبدیلی کا اثر ہونا – مصر میں انہوں نے بعض ایسی اجتماعی عادات اور حالات کا مشاہدہ کیا جو حجاز اور عراق کے احوال وعادات سے مختلف تھے۔

امام شافعی کے مصر  کے بعض نمایاں تلامذہ:

·    یوسف بن یحیی البویطی  :

  امام علامہ، سید الفقہاء یوسف ابو یعقوب بن یحیی المصری البویطی امام شافعی کے مصر میں سب سے کبار اصحاب میں سے تھے۔ یہ بہت بڑے امام، عابد، زاہد اور فقیہ تھے۔انہوں نے امام شافعی سے تفقہ حاصل کیا اور ان کی صحبت کو خاص اختیار کیا۔ امام شافعی نے انہیں اپنے مرض الموت میں اپنے حلقے کا خلیفہ اور جانشین قرار دیا۔  ان کی کتب میں ایک المختصر شامل ہے جسے المختصر البویطی بھی کہا جاتا ہے، اس میں انہوں نے امام شافعی کے کلام کا اختصار کیا ہے۔ امام بویطی کو فتنہ خلق قرآن کے ذریعے امتحان میں ڈالا گیا جس میں آپ نے ثابت قدمی اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیل میں دم توڑ دیا۔ان کی وفات 231 ھ میں ہوئی [10]۔

·    اسماعیل بن یحیی المزنی  :

  امام علامہ فقیہ الملۃ ابو ابراہیم اسماعیل بن یحیی بن اسماعیل المزنی المصری  امام شافعی کے شاگرد تھے اور ان کے  مذہب کے ناصر کہلاتے ہیں۔ وہ 175 ھ میں پیدا ہوئے اور وہ علم کے پہاڑ تھے اور بہت بڑے مناظر تھے۔ امام شافعی نے ان کے بارے میں فرمایا: اگر وہ شیطان کے ساتھ بھی مناظرہ کریں تو اس پر غالب آئیں گے۔ اور امام شافعی نے فرمایا: المزنی ناصر مذہبی – مزنی میرے مذہب کے ناصر ہیں۔ انہوں نے کئی کتب لکھیں جن میں الجامع الکبیر، الجامع الصغیر، المختصر، المنثور، المسائل المعتبرۃ، الترغیب فی العلم، الوثائق، العقارب، اور نہایۃ المختصر شامل ہیں۔

ان کی کتاب (المختصر) مذہبِ شافعی میں خاص اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب کو ان سے خراسان، عراق اور شام کے بے شمار علماء نے اخذ کیا ہے، اور یہی وہ کتاب ہے جو "مختصر المزنی" کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی کئی شروحات بھی لکھی گئی ہیں، اور اس کی سب سے اہم شروحات مذہب میں فقہی موسوعات کی حیثیت رکھتی ہیں جن میں: الماوردی کی (الحاوی)، ابو حامد الاسفرایینی کی (التعلیقہ)، اور امام الحرمین کی (النہایہ) شامل ہیں۔ اس کتاب کی شہرت اتنی زیادہ ہے کہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ کوئی نئی نویلی دلہن شادی کر کے اپنے شوہر کے گھر جاتی تو اس کے جہیز میں مختصر المزنی کا نسخہ موجود ہوتا۔ المزنی 264 ھ میں فوت ہوئے [11]۔

·    الربیع بن سلیمان المرادی :

امام، محدث، فقیہ الربیع بن سلیمان بن عبد الجبار بن کامل ابو محمد المرادی المصری  174 ھ میں پیدا ہوئے۔ وہ مصر کی جامع مسجد کے مؤذن تھے۔ امام شافعی ان سے محبت کرتے تھے اور وہ امام شافعی کے شاگرد اور خادم تھے۔ انہوں نے امام شافعی کی کتب روایت کیں۔ وہ شافعی کے اصحاب میں ان کی کتب کو سب سے  زیادہ  روایت کرنے والے اور ان میں سب سے اوثق راوی تھے۔ البتہ فقہ میں وہ مزنی کے رتبہ کے نہیں تھے جس طرح حدیث میں مزنی ان کے رتبے کو نہیں پہنچے تھے۔ ان کی وفات 270 ھ میں ہوئی جب شافعی کے شاگردوں میں سے ان کے علاوہ کوئی زندہ نہ تھا [12]۔

·    الربیع بن سلیمان الجیزی :

 امام الربیع بن سلیمان الازدی المصری الجیزی الاعرج نیک اور فقیہ تھے۔ انہوں نے امام شافعی سے فقہ حاصل کی۔ ان کی وفات سال 257ھ میں ہوئی۔

·    ابن عبد الحکم: ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم :

یہ 182 ھ میں پیدا ہوئے۔ وہ بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے اور مصر میں مالکیوں کے شیوخ میں سے تھے۔ وہ امام شافعی کے خاص اصحاب میں سے تھے اور امام شافعی کو ان سے خاص لگاؤ ومحبت تھی۔ لیکن پھر امام بویطی سے کسی بات پر بحث کے سبب انہوں نے شافعی کی مجلس کو چھوڑ دیا اور  مالکی مذہب کی طرف لوٹ گئے۔

·    ابو حفص حرملۃ بن یحیی بن عبد اللہ بن حرملۃ بن عمران التجیبی :

 یہ 166 ھ میں پیدا ہوئے۔ وہ جلیل القدر امام تھے اور ابن وہب سے لوگوں میں سب سے زیادہ روایت کرنے والوں میں سے تھے۔ وہ مصر میں 243 ھ میں فوت ہوئے۔ وہ حدیث کے حافظ تھے اور انہوں نے کتاب المبسوط اور المختصر کی تصنیف کی۔

·    ابو موسی یونس بن عبد الاعلی الصدفی المصری المقری :

 یہ بہت بڑے امام تھے۔ وہ 170 ھ میں پیدا ہوئے۔ امام شافعی سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: "میں نے مصر میں یونس بن عبد الاعلی سے زیادہ عقل مند انسان نہیں دیکھا"۔ یحیی بن حسان فرماتے ہیں: "یہ آپ کے یونس اسلام کے ارکان میں سے ہیں"۔ وہ 264 ھ میں فوت ہوئے اسی سال میں امام مزنی بھی فوت ہوئے۔

مذہبِ جدید پر مشتمل امام شافعی کی اہم تالیفات

سال 199 ھ کے اواخر میں مصر منتقل ہونے کے بعد امام شافعی نے اپنے علم ومذہب کو پھیلانا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں ان کی فقہ میں واقع ہونے والے تغیر کا اظہار ان کی کتب میں بھی ہوا۔ یہ بات قابلِ تنبیہ ہے کہ امام شافعی کا اجتہاد میں تغیر ان کے فروع اور اصول دونوں میں اثر انداز ہوا۔ اپنے مذہب کی نشرکے نتیجے میں آپ نے کئی علمی کتب کو تصنیف کیا جن کو مصنفاتِ مصریہ کہا جا سکتا ہے۔ ان میں درج ذیل کتب شامل ہیں:

1-         کتاب الأم – کتاب الام کو امام شافعی کی عظیم ترین کتب میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کے اس دعوے کو بالکل قابلِ توجہ نہیں سمجھا جاتا جو کہتے ہیں کہ یہ کتاب امام شافعی کی اپنی وضع کردہ نہیں بلکہ ان کے تلامذہ کی وضع کردہ کتاب ہے، کیونکہ اس کتاب کا امام شافعی کی اپنی وضع کردہ ہونے کے دلائل اس سے زیادہ قوی اور اشہر ہیں جو اس شبہہ کے حق میں  پیش کئے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ معاصر علماء کی ایک جماعت نے اس دعوے کے رد میں جو کچھ لکھا ہے وہ کافی وشافی ہے۔ یہ کتاب 43 فقہی کتب پر مشتمل ہے، جو کتاب الطہارہ سے شروع ہوتی ہے اور کتاب المکاتب پر ختم ہوتی ہے۔كتاب الام فقہی ابواب وکتب پر مشتمل امام شافعی کی کتب کا مجموعہ ہے جسے امام ربیع المرادی نے جمع کر کے ایک کتاب میں ترتیب دیا ہے۔

2-          کتاب الرسالہ – پیچھے ہم نے واضح کیا کہ امام شافعی نے الرسالہ اصول کے موضوع پر لکھا اور اس کے لکھنے کا سبب یہ بنا کہ امام عبد الرحمن بن مہدی نے ان سے اس کے لکھنے کا مطالبہ کیا۔البتہ امام شافعی نے الرسالہ کی تصنیف مصر جا کر دوبارہ نئے سرے سے کی، اور یہی آج ہمارے درمیان متداول ہے۔ کتاب الرسالہ کی تحقیق شیخ احمد شاکر نے کر رکھی ہے جس کا انہوں نے ایک مفید مقدمہ بھی لکھا ہے۔ اس مقدمہ میں انہوں نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ الرسالہ المصریہ کو کامل طور پر الربیع المرادی نے اپنے استاد امام شافعی کی املاء کے ساتھ لکھا ہے۔

یہاں پر مذہبِ شافعی کے طالب علم کے لئے ایک نہایت اہم سوال سامنے آتا ہے، وہ یہ کہ:

مذہبِ قدیم کے احکام اور مسائل کا کیا حکم ہو گا؟

تو عرض ہے کہ اس مسئلے پر شافعیہ کی رائے کا استقرار دو امور پر ہے:

پہلا: قدیم دور کا قول دو حالتوں میں مذہب شمار کیا جائے گا:

1-           جب اس کی تائید میں صحیح غیر معارض حدیث کی نص موجود ہو۔

2-           جب اس کی مخالفت جدید دور کے قول میں نہ کی گئی ہو، یا اس مسئلےکو جدید دور میں زیرِ بحث نہ لایا گیا ہو۔

دوسرا: اس کے علاوہ ہر اس مسئلے میں جس میں امام شافعی کے دو قول ہوں: قدیم اور جدید، تو جدید قول ہی صحیح تصور کیا جائے گا، اسی کے مطابق عمل ہو گا، اور اسی کو مذہب شمار کیا جائے گا۔ اس لئے کہ قدیم قول مرجوع عنہ ہے، اور مرجوع عنہ قول مذہب نہیں ہوتا۔ [13]

مذہبِ جدید میں امام شافعی کے اصول:

امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے مذہب کے اصول اپنی کتاب الأم میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

"والعلم طبقات شتى: الأولى الكتاب والسنة إذا ثبتت السنة، ثم الثانية الإجماع فيما ليس فيه كتاب ولا سنة، والثالثة أن يقول بعض أصحاب النبي- صلى الله عليه وسلم -قولاً ولا نعلم مخالفاً منهم، والرابعة اختلاف أصحاب النبي- صلى الله عليه وسلم -في ذلك، والخامسة القياس على بعض الطبقات، ولا يصار إلى شيء غير الكتاب والسنة وهما موجودان، وإنما يؤخذ العلم من أعلى"

"علم کے متعدد طبقات ہیں: پہلا طبقہ کتاب وسنت کا ہے جب سنت ثابت ہو جائے، دوسرا طبقہ اجماع کا ہے جس مسئلے میں کتاب وسنت موجود نہ ہوں، تیسرا طبقہ بعض اصحابِ نبی ﷺ کے ایسے قول کا ہے جس کی ان سے کوئی مخالفت ہمیں معلوم نہ ہو، چوتھا طبقہ اصحابِ نبی ﷺ کے مختلف فیہ اقوال کا ہے، پانچواں طبقہ ان طبقات میں سے بعض پر قیاس کا ہے اور کتاب وسنت کی موجودگی کی صورت میں کسی اور چیز پر قیاس نہیں کیا جاتا، اور علم تو (کیونکہ) اعلی چیز سے ہی لیا جاتا ہے۔" [14]

دوسرا  دور:مذہب کی نقل، روایت، اور تبلیغ (204ھ – 516ھ)

سال 204 ھ میں امام شافعی کی وفات کے بعد ان کے تلامذہ نے ان کے حلقہِ علم کو سنبھالا جن میں سب سے اہم نام: البویطی، المزنی، اور  الربیع المرادی کے ہیں۔ ان کے تلامذہ کا عمل درج ذیل چیزوں پر منصب تھا:

1-         امام شافعی کے اقوال کی نقل

2-          اپنے اجتہادات اور تخریجات (یعنی امام شافعی کے اصولوں پر نئے مسائل اخذ کرنے) کے ذریعے مذہب کا تتمہ وتوسیع

3-          ایسے تلامذہ کو تیار کرنا جو مذہب کو ان سے نقل کریں۔

اور یقینا ان ائمہ کے تلامذہ اس معاملے میں فائق رہے۔

امام شافعی کے اصحاب کے تلامذہ:

 امام شافعی کے اصحاب کے سب سے نمایاں تلامذہ درج ذیل ہیں:

·    ابو القاسم عثمان بن سعید الانماطی (م 288 ھ)  :

 امام عثمان بن سعید بن بشار ابو القاسم الانماطی البغدادی بغداد  کے شیخ الشافعیہ تھے۔ آپ نے امام مزنی اور ربیع المرادی سے فقہ حاصل کی۔ اور  آپ سے مستفید ہونے والے تلامذہ میں شیخ المذہب امام ابو العباس بن سریج جیسے کبار ائمہ شامل ہیں، جن کے ذریعے شافعی مذہب کو کافی تقویت ملی۔ امام ابو اسحاق الشیرازی فرماتے ہیں: "بغداد کے لوگوں میں شافعی کی فقہ اور کتب کی نشاط کا سبب امام انماطی تھے"۔ ابو عاصم فرماتے ہیں: "انماطی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے بغداد میں امام مزنی کا علم متعارف کروایا"۔ علامہ سبکی فرماتے ہیں: "امام انماطی کو ان سے علم حاصل کرنے والوں کی وجہ سے جلالت کا مقام حاصل ہے۔ ان سے علم حاصل کرنے والوں میں ابو العباس بن سریج،  ابو سعید الاصطخری،  ابو علی ابن خیران،  منصور التمیمی،  اور ابو حفص بن الوکیل البابشامی وغیرہ شامل ہیں اور یہ طبقہ بہت اعلی ہے"۔ نیز ان کے تلامذہ مذہبِ شافعی کے کبار علماء اور اصحاب الوجوہ میں سے ہیں۔ ان کی وفات سال 288 ھ میں شوال کے مہینے میں ہوئی [15]۔

·    عبدان المروزی (220 ھ – 293 ھ):

عبدان بن محمد بن عیسی ابو محمد المروزی امام کبیر اور زاہد شخص تھے۔ انہوں نےامام شافعی کے اصحاب جیسے المزنی اور الربیع وغیرہ سے فقہ اخذ کی، اور مذہب میں مہارت حاصل کی۔ عبدان نے کتاب الموطاء وغیرہ لکھی ہیں۔ حافظ عبدان  المروزی وہ شخص تھے جنہوں نے مذہبِ شافعی کا تعارف مرو اور خراسان میں احمد بن سیار کے بعد کروایا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ابن سیار امام شافعی کی کتب کو لے کر مرو میں آئے، ان کتب کو دیکھ کر لوگ تعجب کرنے لگے، تو عبدان نے ان میں سے کچھ حصہ دیکھا اور ان کو نسخ (یعنی نقل) کرنے کا ارادہ کیا لیکن ابن سیار نے انہیں ایسا کرنے نہ دیا، تو وہ اپنی زمین کا ایک ٹکڑا بیچ کر خود مصر کی طرف روانہ ہو گئے اور وہاں الربیع، المزنی اور امام شافعی کے دیگر اصحاب سے ملے اور ان سے امام شافعی کی کتب براہ راست نقل کیں، جس کے بعد وہ مرو واپس آگئے ۔ ابن سیار سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنی کتب نقل کرنے سے روکنے پر  اپنا عذر پیش کرتے ہوئے معذرت چاہی، جس کہ جواب میں عبدان نے ان سے کہا: آپ معذرت نہ مانگیں کیونکہ آپ نے تو مجھ پر احسان کیا ہے، اگر آپ مجھے اپنی کتب سے نقل کی اجازت  دے دیتے تو میں کبھی مصر نہ جاتا ۔ آپ سال 293 ھ میں فوت ہوئے[16]۔

·    ابو زرعہ القاضی (م 302 ھ):

الامام الکبیر القاضی، ابو زرعہ، محمد بن عثمان بن ابراہیم بن زرعہ الثقفی الدمشقی، حسن المذہب، نیک، اور متثبت شخص تھے۔ انہیں سال 284 ھ میں دیارِ مصر کا قاضی بنایا گیا۔ اور وہ شافعی المذہب تھے۔ اس کے بعد انہیں دمشق کا قاضی بنایا گیا تو انہوں نے وہاں پر بھی شافعی مذہب کو پھیلایا۔ اس سے پہلے شام میں اوزاعی مذہب کا غلبہ تھا لیکن جب قاضی ابو زرعہ نے دمشق کا منصبِ قضاء سنبھالا تو وہاں شافعی مذہب کو داخل کر دیا اور اسی کے مطابق فیصلے  بھی کیا کرتے تھے۔ ان کے بعد ان کی پیروی دیگر قضاۃ نے کی۔ نیز شام میں شافعی مذہب کو داخل کرنے والے وہ پہلے شخص تھے۔ وہ مختصر المزنی حفظ کرنے پر لوگوں کو 100 دینار انعام میں دیا کرتے تھے۔ ان کی وفات 302 ھ میں ہوئی [17]۔

·    ابو عوانہ الاسفرایینی (م 316 ھ):

الامام الحافظ  الکبیر ابو عوانہ یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم النیسابوری الاسفرایینی، صاحب (الصحیح المستخرج علی مسلم) ائمہ حدیث وفقہ میں سے تھے۔ ان کی پیدائش 230ھ کے بعد ہوئی۔ ان سے ابو علی النیسابوری، طبرانی، ابن عدی، اور ابو بکر الاسماعیلی وغیرہ نے روایت کی ہے۔ امام ابو عوانہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے امام شافعی کے مذہب اور ان کی تصانیف کو اسفرایین میں متعارف کروایا۔ ابو عوانہ نے شافعی مذہب کو الربیع المرادی اور المزنی سے اخذ کیا۔ ان کی وفات 316 ھ میں ہوئی [18]۔

·    ابو سعید الاصطخری (244ھ – 328ھ):

الامام العلامہ شیخ الاسلام ،ابو سعید الحسن بن احمد بن یزید الاصطخری عراق کے فقیہ اور امام ابن سریج کے ہم عصر وساتھی تھے۔ انہی دونوں کے ذریعے سے عراق میں شافعی مذہب پھیلا۔ وہ مذہب کے کبار اصحاب الوجوہ میں سے تھے۔ انہوں نے المزنی اور الربیع کے اصحاب سے فقہ حاصل کی، اور  ان سے مذہب کے کئی کبار ائمہ نے فقہ حاصل کی۔ امام ابو اسحاق المروزی نے فرمایا: "جب میں بغداد میں داخل ہوا تو میں نے کسی کو اس لائق نہیں پایا کہ اس سے درس لیا جائے سوائے ابن سریج اور ابو سعید الاصطخری کے۔"[19]

·    ابو العباس بن سریج (249ھ – 306ھ):

امام شیخ الاسلام  ابو العباس احمد بن عمر بن سریج البغدادی اپنے دور میں شافعیوں کے سب سے بڑے امام تھے۔ اگرچہ ان کا فقہِ شافعی کا اصحابِ شافعی سے اخذ کرنا مذکور نہیں ہے لیکن ان کا امام شافعی کے بعض اصحاب جیسے الحسن بن محمد الزعفرانی اور داود الظاہری سے روایت کرنا اور بحث ومباحثہ کرنا ثابت ہے۔ اس اعتبار سے انہیں شافعی کے اصحاب الاصحاب میں شامل کیا جا سکتا ہے لیکن اصل طور پر فقہ انہوں نے امام ابو القاسم الانماطی سے حاصل کی جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ نیز ان کی شان اور مذہب میں ان کی اہمیت کے سبب بھی انہیں یہاں اصحاب اصحاب الشافعی میں  ذکر کیا گیا ہے۔

امام نووی فرماتے ہیں: "شافعی کے اصحاب کے بعد ابن سریج سب سے  اوحد (یکتا) شخصیت ہیں، اور انہوں نے ہی مذہبِ شافعی کو نشر کیا اور آگے بڑہایا۔" امام خطیب بغدادی نے فرمایا: "وہ اپنے وقت میں اصحابِ شافعی کے امام تھے۔ انہوں نے مذہب کی شرح اور تلخیص کی۔ اور فروع پرمخالفین میں سے اہل رائے اور اہل ظاہر کے رد میں کتب لکھیں  امام ابو اسحاق الشیرازی نے فرمایا: "ابن سریج شافعیوں کی عظیم ہستیوں اور ائمہ مسلمین میں سے تھے۔ انہیں بوڑھا باز کہا جاتا تھا۔ انہوں نے شیراز میں منصبِ قضاء سنبھالا۔ اور انہیں امام شافعی کے تمام اصحاب پر فضیلت دی جاتی تھی حتی کہ امام مزنی پر بھی۔ شیخنا ابو الحسن الشیرجی نے فرمایا:  ابن سریج کی کتب کی فہرست 400 تصنیفات پر مشتمل ہے۔ وہ مذہبِ شافعی کی نصرت میں کھڑے ہوئے اور مخالفین کا رد کیا۔ امام ابو حامد الاسفرایینی نے فرمایا: فقہ کے دقائق کو چھوڑ کر فقہ کے ظواہر میں ہم ابو العباس بن سریج کے ساتھ ہی جاتے ہیں۔ ابن سریج سے کبار فقہاءِ اسلام نے فقہ حاصل کی اور انہی کے ذریعے مذہب شافعی اکثر آفاق میں پھیلا"۔ مذہب کے کبار ائمہ واصحاب الوجوہ نے ان سے فقہ حاصل کی جن میں  ابو اسحاق المروزی (م 340 ھ)، القفال الکبیر الشاشی (م 365 ھ)، ابو الحسین بن القطان (م 359 ھ)، ابو العباس بن القاص (م 335 ھ)، اور قاضی ابو علی ابن ابی ہریرہ  (م 345 ھ)  وغیرہ شامل ہیں۔

آپ سال 306ھ میں جمادی الاولی کے مہینے میں فوت ہوئے [20]۔

مذہب کے دو طریقے:

اس دور میں فقہ شافعی کی تصنیف کے دو طریقے ظاہر ہوئے:

پہلا طریقہ: طريقة العراقيين (عراقیوں کا طریقہاور

دوسرا طریقہ: طريقة الخراسانيين (خراسانیوں کا طریقہ)  کہلایا

امام نووی ان دو طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا وصف ومقارنہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"واعلم أن نَقْلَ أصحابنا العراقيين لنصوص الشافعي، وقواعد مذهبه، ووجوه متقدمي أصحابنا أتقَن وأثبت من نقْلِ الخراسانيِّين غالباً، والخراسانيُّون أحسن تصرفاً، وبحثاً، وتفريعاً، وترتيباً غالباً"

"جان لو کہ ہمارے عراقی اصحاب کا امام شافعی کی نصوص، قواعد، مذہب اور متقدمین اصحاب کے وجوہ نقل کرنے کا جو طریقہ ہے وہ غالب طور پر  زیادہ پر وثوق اور با اعتماد ہے بنسبت خراسانی اصحاب کی نقل کے۔ جبکہ خراسانی اصحاب (مسائل کے) تصرف، بحث، تفریع، اور ترتیب کے  لحاظ سے زیادہ بہتر ہیں۔" [21]

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دو طریقوں میں اختلاف صرف مسائل کی تعریض، ان کے ادلہ، نصوص کی جمع وترتیب، اور اصولوں وقواعد سے استنباط وتخریج کے طریقے پر تھا۔ دونوں طریقوں کے علماء نے اپنے اپنے طریقے پر  کتب لکھی ہیں جن پر علماءِ مذہب کی نقل کا مدار ہے۔ علامہ ابن السبکی نے المجموع کے تکملہ میں ان دونوں طریقوں کی مشہور تصنیفات کا ذکر کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:

"فمن کتب العراقیین وأتباعهم: تعليقة الشيخ أبي حامد الإسفراييني، والذخيرة للبندنيجي، والدريق للشيخ أبي حامد أيضاً، وتعليقة البندنيجي أيضاً، والمجموع، والأوسط، والمقنع، واللباب، والتجريد للمحاملي، وتعليقة القاضي أبي الطيب الطبري، والحاوي للماوردي، والإقناع له، واللطيف لأبي الحسن بن خيران، والتقريب، والمجرد، والكفاية لسليم، والكفاية للعبدري، والتهذيب، والكافي، وشرح الإشارة لنصر المقدسي، والكفاية للمحاجري، والتلقين لابن سراقة، وتذنيب الأقسام للمرعشي، والكافي للزبيدي، والمطارحات لابن القطان، والشافي، والتجريد، والمعاياة للجرجاني، والبيان للعمراني، والانتصار،والمرشد، والتنبيه، والإشارة لابن أبي عصرون، والشامل لأبي نصر بن الصباغ، والعدة لأبي عبد الله الحسين بن علي الطبري، والبحر، والحلية للروياني، والحلية للشاشي، والتنبيه، والمهذب للشيرازي، وشرح التنبيه لابن يونس، وشرح التنبيه لابن الرفعة.

ومن كتب الخراسانيين وأتباعهمالتعليقة، والفتاوى للقاضي حسين، والسلسلة، والجمع والفرق للجويني، والنهاية لإمام الحرمين، والتذنيب للبغوي، والإبانة، والعمدة للفوراني، وتنمية الإبانة للمتولي، والبسيط والوجيز والخلاصة للغزالي، وشرح الوسيط لابن الرفعة، وإشكالات الوسيط والوجيز للعجيلي، وحواشي الوسيط لابن السكري، وإشكالات الوسيط لابن الصلاح، والشرح الكبير، وغيرها."

"عراقیوں اور ان کے پیروکاروں کی کتب میں درج ذیل شامل ہیں:

·      ((التعليقة الكبري)) اور ((الدريق))  از شیخ ابو حامد الاسفرایینی (344ھ – 406ھ)

·       ((الذخيرة)) اور ((التعليقة))  از الحسن بن عبید اللہ البندنیجی (تلمیذ ابی حامد الاسفرایینی)  (م 425 ھ)

·       ((المجموع))،( (الأوسط))،( (المقنع))، ((اللباب))، اور (( التجريد)) از احمد بن محمد بن احمد المحاملی (تلمیذ الاسفرایینی)  (368ھ – 415ھ)

·      ((التعليقة)) از قاضی ابو الطیب الطبری طاہر بن عبد اللہ البغدادی (استاذ صاحب المہذب شیخ ابو اسحاق الشیرازی)  (348ھ – 450 ھ)

·      ((الحاوي الكبير)) اور ((الإقناع))  از علی بن محمد بن حبیب ابو الحسن الماوردی البصری (تلمیذ الاسفرایینی) (م 450ھ)

·      ((اللطيف)) از ابو الحسن علی بن احمد بن خیران البغدادی (شیخ الشیخ ابی اسحاق الشیرازی)

·      ((التقريب))، ((المجرد))، اور ((الكفاية)) [((الإشارة))] از امام سلیم بن ایوب الرازی (تلمیذ الاسفرایینی) (م 447 ھ)

·      ((الكفاية)) از ابو الحسن علی بن سعید بن عبد الرحمن العبدری البغدادی (تلمیذ ابی اسحاق الشیرازی) (م 493)

·      ((تهذيب الأدلة وتقريب الأحكام)) اور ((الكافي))، ((شرح الإشارة)) از شیخ ابو الفتح نصر بن ابراہیم المقدسی المعروف بالشیخ ابی نصر (تلمیذ سلیم الرازی) (م 490 ھ)

·      ((الكفاية)) از المحاجرى (؟) (شاید یہاں الصیمری مراد ہیں – عبد الواحد بن الحسین ابو القاسم الصیمری صاحب الکفایہ – م 386 ھ)

·      ((التلقين)) از ابن سراقۃ- محمد بن یحیی بن سراقۃ العامری البصری (م 410 ھ کے آس پاس)

·      ((تذنيب الأقسام)) از ابو بکر محمد بن الحسن المرعشی

·      ((الكافي)) از الزبیر بن احمد بن سلیمان الزبیری (الزبیدی دال کے ساتھ  متن میں غلطی سے لکھا گیا ہے اصل نام الزبیری ر کے ساتھ ہے) البصری (م 317ھ)

·      ((المطارحات)) از ابن القطان – الحسین بن محمد ابو عبد اللہ القطان

·      ((الشافي))، ((التجريد))، اور ((المعاياة)) از قاضی ابو العباس احمد بن محمد بن احمد الجرجانی (تلمیذ ابی اسحاق الشیرازی) (م482 ھ)

·      ((البيان)) از یحیی بن ابی الخیر العمرانی (أعرف أهل الأرض بتصانيف أبي إسحاق الشيرازي) (489ھ – 558 ھ)

·      ((الإنتصار))، ((المرشد))، ((التنبيه))، اور ((الإشارة)) از قاضی شرف الدین ابن ابی عصرون الموصلی (493ھ – 585 ھ )

·      ((الشامل)) از ابو نصر عبد السید ابن الصباغ البغدادی (تلمیذ ابو الطیب الطبری) (400ھ – 477 ھ)

·      ((العدة)) از امام ابو عبد اللہ الحسین بن علی الطبری (418 ھ – 498 ھ)

·      ((البحر))، اور ((الحلية)) از الرویانی – قاضی ابو المحاسن عبد الواحد بن اسماعیل الرویانی الطبری (415ھ – 501 ھ)

·      ((الحلية)) – از الشاشی – ابو بکر محمد بن احمد الشاشی فخر الاسلام (تلمیذ الشیخ  ابو محمد الجوینی، وابو اسحاق الشیرازی، وابن الصباغ) (429 ھ – 507 ھ)

·      ((التنبيه)) اور ((المهذب)) از امام ابو اسحاق الشیرازی (تلمیذ ابو الطیب الطبری)  (393 ھ – 472 ھ)

·      ((شرح التنبيه)) از ابن یونس – شرف الدین ابو الفضل  (575 ھ – 622 ھ)

·      ((شرح التنبيه)) از ابن رفعہ – ابو العباس احمد بن محمد بن علی بن مرتفع الانصاری (645ھ – 710 ھ)

اور  خراسانیوں  اور ان کے پیروکاروں کی کتب میں درج ذیل شامل ہیں:

·      ((التعليقة)) از قاضی حسین المروزی (م 462 ھ)

·      ((السلسلة))، اور ((الجمع والفرق)) از ابو محمد الجوینی (م 438 ھ)

·      ((النهاية)) از امام الحرمین ابو المعالی الجوینی (419 ھ – 478 ھ)

·      ((التذنيب)) [((التهذيب))] از البغوی محی السنہ الحسین بن مسعود (436 ھ – 510 ھ)

·      ((الإبانة))، اور ((العمدة)) از ابو القاسم  الفورانی (م 461 ھ)

·      ((تتمة الإبانة)) از المتولی – ابو سعد عبد الرحمن بن مأمون (426  (427)ھ – 478 ھ)

·      ((البسيط))، ((الوجيز))، اور ((الخلاصة)) [اور ((الوسيط))] از امام ابوحامد الغزالی (450 ھ – 505 ھ)

·      ((شرح الوسيط)) از ابن رفعہ – ابو العباس احمد بن محمد بن علی بن مرتفع الانصاری (645ھ – 710 ھ)

·      ((إشكالات الوسيط)) اور ((الوجيز)) از ابو الفتوح العجلی (515 ھ – 600 ھ)

·      ((حواشي الوسيط)) از ابن السکری –عماد الدین  عبد الرحمن بن عبد العلی المصری (م 624 ھ)

·      ((إشكالات الوسيط)) از ابن الصلاح (577 ھ –  643 ھ)

·      ((الشرح الکبیر)) از ابو القاسم الر    افعی (557 ھ – 623 ھ)

وغیرہ" [22]

تنبیہ: اصل میں ابن السبکی نے اس فہرست میں دونوں طریقوں کے مصنفین کی کتب اور اُن مصنفین کی کتب جنہوں نے دونوں طریقوں سے نقل کیا ہے کو جمع کر دیا ہے، جیسا کہ امام الحرمین الجوینی، الغزالی، الرویانی، اور ابن الصباغ کی کتب کا حال ہے۔

عراقی طریقہ کے مشہور ائمہ:

·    ابو حامد الاسفرایینی (344ھ – 406 ھ):

الاستاذ العلامہ، شیخ الاسلام، ابو حامد احمد بن ابی طاہر: محمد بن احمد الاسفرایینی، بغداد میں شافعیوں کے شیخ تھے، اور طریقہ عراقیہ کے امام تھے۔ انہیں "شیخ المذہب" بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے ابو الحسن بن المرزبان (من اصحاب الوجوه) سے فقہ حاصل کی۔ ابن المرزبان نے ابو الحسین بن القطان  سے فقہ حاصل کی، انہوں نے ابن سریج سے ، انہوں نے الانماطی سے اور انہوں نے المزنی اور الربیع سے فقہ حاصل کی۔ ابن المرزبان کی موت کے بعد ابو حامد الاسفرایینی نے ابو القاسم الدارکی سے فقہ حاصل کی۔ الدارکی کے فقہ میں استاذ ہیں امام ابو اسحاق المروزی ہیں اور ان کے استاذ ہیں امام ابن سریج اور امام ابو سعيد الاصخری۔

امام نووی فرماتے ہیں: "شیخ ابو حامد کی کتاب التعلیقہ 50 سے زائد جلدوں پر مشتمل ہے جس میں انہوں نے علماء کے مذاہب کو ذکر کیا ہے، ان کے ادلہ کی تفصیل بیان کی اور ان پر جواب لکھے ہیں۔ ایک جماعت نے ان سے فقہ حاصل کی جن میں ابو علی السنجی بھی شامل ہیں اور السنجی امام القفال الصغیر سے بھی فقہ حاصل کر چکے ہیں، اور یہ دونوں (ابو حامد الاسفرایینی اور القفال الصغیر) طریقہِ عراق اور طریقہِ خراسان کے شیخ ہیں اور انہی سے مذہب پھیلا ہے۔ "

امام ابن الصلاح نے فرمایا: "بعض علماء نے ان پر  اس حدیث کا اطلاق کیا ہے کہ (ہر صدی کے شروع میں اللہ اس امت میں ایک ایسے شخص کو بھیجتا ہے جو اس کے دین کی تجدید کرتا ہے) – پس امام شافعی دوسری صدی کے شروع میں آئے، امام ابن سریج تیسری صدی کے شروع میں آئے، امام ابو حامد چوتھی صدی کے شروع میں آئے۔ " امام ابو حامد سال 406 ھ میں شوال کے مہینے میں فوت ہوئے۔ [23]

·    ابو الطیب الطبری (348 ھ – 450 ھ):

الامام العلامہ، شیخ الاسلام، قاضی ابو الطیب، طاہر بن عبد اللہ بن طاہر بن عمر، الطبری الشافعی، بغداد کے فقیہ تھے۔ یہ امام ابو حامد الاسفرایینی کے معاصر تھے، اور شیخ ابو اسحاق الشیرازی صاحب المہذب کے استاذ تھے۔ انہوں نے 102 سال کی عمر پائی، لیکن عقل وفہم میں کوئی کمی نہ آئی اور اپنی وفات تک تدریس وافتاء کرتے رہے۔ وہ  کئی کتب کے مؤلف تھے جن میں سے ایک مشہور کتاب:  مختصر المزنی کی شرح ہے۔امام ابو محمد البافی نے فرمایا: "ابو الطیب الطبری ابو حامد الاسفرایینی سے بڑے فقیہ ہیں"۔ ابو الطیب الطبری ابو حامد الاسفرایینی کے درس میں بھی بیٹھے ہیں۔

اپنے شہر آمل میں   انہوں نے فقہ ابو علی الزجاجی (م قبل 400 ھ) سے اخذ کی، انہوں نےاپنے استاذامام ابو العباس بن القاص (م 335)  (من اصحاب الوجوہ) سے، اور انہوں نے امام ابن سریج (م 306 ھ) سے فقہ حاصل کی۔

اس کے بعد آپ نیسابور چلے گئے اور وہاں پر امام ابو الحسن الماسرجی( من اصحاب الوجوہ) (م 384 ھ) سے فقہ حاصل کی، جن کے اساتذہ میں امام ابو اسحاق المروزی (من کبار اصحاب الوجوہ) (م 340 ھ)، اور امام ابن ابی ہریرہ (من اصحاب الوجوہ) (م 345 ھ) شامل ہیں اور ان دونوں نے فقہ امام ابن سریج (م 306 ھ) سے حاصل کی۔

اس کے بعد آپ بغداد چلے گئے اور وہاں پر امام ابو محمد البافی سے شرفِ تلمذ حاصل کیا، اور وہ  بھی امام ابو اسحاق المروزی (م 340 ھ)، اور امام ابن ابی ہریرہ (م 345 ھ) کے شاگرد ہیں۔ [24]

·    ابو الحسن الماوردی (364 ھ – 450 ھ):

الامام العلامہ ابو الحسن علی بن محمد بن حبیب البصری الماوردی الشافعی، کئی کتب کے مصنف ہیں۔ آپ نے کئی شہروں کی قضاء کا منصب سنبھالا۔ ان کی سب سے مشہور  کتب میں الحاوی الکبیر  اور الاقناع شامل ہیں ۔ انہیں مذہب کا حافظ بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں معتزلہ کے بعض افکار پائے جاتے ہیں۔ البتہ خلق قرآن کے موضوع پر وہ معتزلہ کے ساتھ نہیں ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے انہیں مذہب میں  اصحاب الوجوہ میں سے قرار دیا ہے۔

انہوں نے امام  ابو القاسم الصیمری (من اصحاب الوجوہ) سے فقہ حاصل کی، پھر وہ امام ابو حامد الاسفرایینی سے جا ملے۔

ان کی وفات امام ابو الطیب الطبری کی وفات کے دس دن بعد اسی سال میں ہوئی۔

·    ابو اسحاق الشیرازی  (393 ھ – 476 ھ):

الامام المجتہد، شیخ الاسلام، ابراہیم بن علی بن یوسف بن عبد اللہ ابو اسحاق الشیرازی الفیروزآبادی، اصول اور فروع میں  کبار شافعی ائمہ میں سے تھے جبکہ امام ابن الصلاح نے انہیں اصحاب الوجوہ میں سے قرار دیا ہے۔ ان کی کتبِ فقہ میں التنبیہ اور، المہذب، اور کتب اصولِ فقہ میں التبصرہ اور اللمع مشہور ہیں۔ ان کی کتاب المہذب اپنے زمانے میں مذہب شافعی کی اہم ترین کتب میں سے تھی۔ یہ کتاب رافعی اور نووی کے دور تک شافعی مذہب میں فتوی کی مرجع رہی ہے۔ اس کی شرح کئی علماء نے لکھی، لیکن اس کی سب سے اہم شرح امام نووی کی ہے جس کا نام، المجموع ہے۔ اس کتاب کی ایک اور نہایت اہم شرح امام یحیی العمرانی (م 558 ھ) نے بھی لکھی ہے جس کا نام ہے البيان في مذهب الإمام الشافعي۔  امام شیرازی کے اساتذہ میں ابو عبد اللہ البیضاوی اور ابو الطیب الطبری شامل ہیں۔[25]

خراسانی طریقہ کے مشہور ائمہ:

·    القفال الصغیر المروزی (327 ھ – 417 ھ):

الامام العلامہ الکبیر، شیخ الشافعیہ، ابو بکر، عبد اللہ بن احمد بن عبد اللہ بن المروزی الخراسانی، خراسانی طریقے کے امام تھے۔ فقہ میں ان کے مہذب طریقے کو ان کے اصحاب نے ان سے اخذ کیا اور اس کی ترویج کی۔ انہوں نے تیس سال کی عمر میں جا کر فقہ سیکھنا شروع کی یہاں تک کہ آپ نے اس میں ایسی مہارت حاصل کی کہ ضرب المثل بن گئے۔

انہوں نے ابو زید محمد بن احمد بن عبد اللہ الفاشانی المروزی سے فقہ حاصل کی، یہ وہی ابو زید ہیں جنہوں نے صحیح بخاری امام فربری سے روایت کی ہے۔ اور  ابو زید کے فقہ میں استاذ امام ابو اسحاق المروزی (م 340 ھ) ہیں  جو امام ابن سریج (م 306 ھ) اور ابو سعيد الاصطخری (م 328 ھ) کے شاگرد ہیں۔ اس طرح عراقی اور خراسانی طریقوں کی سند امام ابو اسحاق المروزی  پر جا کر مل جاتی ہے۔

 اور القفال المروزی کے تلامذہ میں قاضی حسین، ابو علی السنجی، ابو القاسم الفورانی، اور شیخ ابو محمد الجوینی شامل ہیں۔[26]

·    ابو محمد الجوینی (م 438  ھ):

شیخ الشافعیہ، ابو محمد، عبد اللہ بن یوسف بن عبد اللہ بن یوسف الطائی، الجوینی، امام الحرمین کے والد،مذہب کے امام اور فقیہ تھے، اور اصحاب الوجوہ میں سے تھے۔ ان کی کئی کتب ہیں۔ انہوں نے ابو الطیب الصعلوکی اور القفال الصغیر سے فقہ حاصل کی [27]۔

·    قاضی حسین المروزی (م 462  ھ):

الامام المحقق قاضی حسین ابو علی بن محمد بن احمد المروزی، یہ القفال الصغیر کے سب سے کبار اصحاب میں سے تھے، اور مذہب میں اصحاب الوجوہ میں سے ہیں۔ انہیں حبر الائمہ کا لقب دیا گیا ہے۔  ان کے تلامذہ میں ابو سعد المتولی، محی السنہ البغوی، اور امام الحرمین الجوینی شامل ہیں۔[28]

·    ابو القاسم الفورانی (م 461  ھ):

امام ابو القاسم عبد الرحمن بن محمد ابن فوران المروزی الفورانی، امام القفال کے شاگرد تھے اور شافعیوں کےشیخ تھے۔ امام الحرمین اور ان کے درمیان ناراضگی تھی جس کی وجہ سے امام الحرمین انہیں اپنی کتب میں نام کے ساتھ ذکر نہیں کرتے بلکہ "في بعض التصانيف" "بعض کتب میں لکھا ہے"، یا "قال بعض المصنفين" "بعض مصنفین نے کہا ہے"، کہہ کر الفورانی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔[29]

·    محیی السنہ ابو محمد البغوی (م 516ھ):

الامام الحافظ شیخ الاسلام، محیی السنہ، ابو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی المفسر، شافعی مذہب کے ائمہ میں سے تھے۔ ان کی تصانیف میں: شرح السنہ، تفسیر معالم التنزیل، مصابیح السنہ، الجمع بین الصحیحین، الاربعین، اور فقہ شافعی میں کتاب التہذیب وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے شیخ الشافعیہ قاضی حسین المروزی سے فقہ حاصل کی۔ امام بغوی کو محیی السنہ اور رکن الدین جیسے القابات سے نوازا گیا ہے۔ وہ مذہبِ شافعی کے کبار اصحاب الوجوہ میں شامل ہیں جیسا کہ الہیتمی نے صراحت کی ہے۔وہ خراسان کے شہر مرو الروذ میں شوال کے مہینے میں سال 516 ھ میں فوت ہوئے، اور انہیں اپنے شیخ، قاضی حسین کے ساتھ دفن کیا گیا۔[30]

دونوں طریقوں کو جمع کرنے والا تیسرا طریقہ:

ان دونوں طریقوں کو اکٹھا کرنے والے سب سے پہلے شخص امام ابو علی السنجی اور الفورانی تھے۔ الفورانی نے شافعی کے اقوال اور اصحابِ مذہب کے وجوہ کے درمیان اصح قول اور وجہ کی وضاحت کا اہتمام کیا، اور اس معاملے میں وہ اول سے اول ترین اشخاص میں شامل ہیں۔ ان کے بعد امام الحرمین نے مذہب کے طرق، اور متقدم اصحاب کے وجوہ وغیرہ کو جمع کرنے کا عظیم کام اپنی مایہ ناز کتاب نهاية المطلب في علم المذهب میں کیا۔ اس میں انہوں نے اصحاب کے درمیان اختلافی مسائل میں مذہب کے قواعد کی روشنی میں  ترجیح دینے کا کام بھی کیا۔ ان کے بعد ان کے تلمیذ امام غزالی بھی اسی منہج پر گامزن ہوئے اور جو کام ان کے شیخ امام الحرمین نے شروع کیا، اس کو انہوں نے تکمیل تک پہنچایا، اور اس کی تہذیب کی۔ انہوں نے اپنے بعد مذہب کی تہذیب اور تنقیح کا راستہ کھول دیا۔ اور اس غرض کی خدمت اور اس کو اختتام تک پہنچانے کا کام امام رافعی اور امام نووی کی کوششوں سے ہوا۔

دونوں طریقوں کو جمع کرنے والے مشہور علماء:

·    امام الحرمین ابو المعالی الجوینی (419  ھ – 478 ھ):

الامام الکبیر، شیخ الشافعیہ، امام الحرمین، ابو المعالی، عبد الملک بن الامام ابی محمد عبد اللہ بن یوسف بن عبد اللہ الجوینی، ثم النیسابوری، ضیاء الدین الشافعی، صاحبِ تصانیف تھے۔ابن النجار ذیل تاریخ بغداد میں فرماتے ہیں: "وہ مشرق اور مغرب کےامام الفقہاء تھے، عرب وعجم پر مقدم تھے، آنکھوں نے ان جیسا کوئی فضیلت میں مثل نہیں دیکھا، نہ کانوں نے ان کی سیرت جیسا منقولا  سنا، وہ اجتہاد کے درجے تک پہنچے ہوئے تھے۔۔۔"۔ نیز ان کو مذہب کے اصحاب الوجوہ میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ ان کی کتب میں: نهاية المطلب في المذهب، كتاب الإرشاد، كتاب الرسالة الناظامية، كتاب الشامل، كتاب البرهان، كتاب مدارك العقول، كتاب غياث الأمم، اور  كتاب غنية المسترشدين وغیرہ شامل ہیں۔ عقیدے میں ان کی رائے مضطرب  تھی۔ ان کا عقیدہ اشعری تھا جس میں اعتزال کا بھی کچھ رنگ موجود تھا۔ لیکن پھر اپنی حیات کے آخر میں انہوں نے منہجِ سلف کی طرف رجوع کر لیا تھا۔[31]

·    ابو حامد الغزالی (450  ھ – 505 ھ):

الامام، حجۃ الاسلام، اعجوبۃ الزمان، زین الدین ابو حامد، محمد بن محمد بن محمد بن احمد الطوسی، الشافعی، الغزالی، صاحب التصانیف طوس میں سال 450 ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ امام الحرمین الجوینی کے شاگرد تھے۔ ان کی متعدد تصانیف میں: كتاب الإحياء، كتاب الأربعين، كتاب القسطاس، كتاب محك النظر، كتاب تهافت الفلاسفة، كتاب الإقتصاد في الإعتقاد، المستصفي في أصول الفقه، اور  فضائح الباطنية، وغیرہ شامل ہیں۔ امام غزالی کے اندر فلسفیوں کے منہج سے متاثر ہونے کے سبب اضطراب آ گیا تھا۔ امام ابو بکر بن العربی نے فرمایا: "ہمارے شیخ ابو حامد فلاسفہ کی طرف پہنچے اور چاہا کہ ان کی اصلاح کریں لیکن وہ ایسا نہ کر پائے، اور وہ (خود) تصوف کے طریقے پر چل پڑے اور اس میں غلو کرنے لگے۔" امام ذہبی نے فرمایا: "اس آدمی نے فلاسفہ کے رد میں کتاب التہافت لکھی اور ان کے عیوب سے پردہ ہٹایا، اور (ساتھ میں)کئی مواقع پر ان کی آراء کو حق اور موافقِ ملہ سمجھتے ہوئے ان کے موافق ہو گئے۔ ان کو آثار کا علم نہیں تھا اور نہ ہی عقل پر فیصلہ کن سنن نبویہ کا کوئی تجربہ تھا۔۔۔۔ جہاں تک الاحیاء کا تعلق ہے تو اس میں کئی باطل احادیث موجود ہیں، اور اس میں کافی خیر بھی ہے۔۔۔"[32]

علامہ ابن رفعہ نے المطلب میں صراحت کی ہے کہ الغزالی مذہب کے اصحاب الوجوہ میں سے نہیں تھے۔ وہ فرماتے ہیں: "أن الغزالي ليس من أصحاب الوجوه بل ولا إمامه" "الغزالی اصحاب الوجوہ میں سے نہیں تھے، اور نہ ہی ان کے امام (یعنی امام الحرمین الجوینی) ان میں سے تھے"  جبکہ اس کے برعکس امام ابن الصلاح نے انہیں اصحاب الوجوہ میں شمار کیا ہے۔ فتاوی ابن الصلاح میں ہے:

مسألة: إمام الحرمين والإمام الغزالي والإمام أبو اسحق رضي الله عنهم هل بلغ أحد هؤلاء الأئمة المذكورين درجة الاجتهاد في المذهب على الإطلاق أم لا وما حقيقة الاجتهاد على الاطلاق وما حقيقة الإجتهاد في المذهب وهل بلغ أحد منهم رتبة الاجتهاد على الإطلاق

أجاب رضي الله عنه لم يكن لهم الاجتهاد المطلق وبلغوا الاجتهاد المقيد في مذهب الشافعي رضي الله عنه ودرجة الاجتهاد المطلق يحصل بتمكنه من تعرف الأحكام الشرعية من أدلتها استدلالا من غير تقليد والاجتهاد المقيد درجته تحصل بالتبحر في مذهب إمام من الأئمة بحيث يتمكن من إلحاق ما لم ينص عليه ذلك الإمام بما نص عليه معتبرا قواعد مذهبه وأصوله

"مسئلہ:   کیا امام الحرمین، امام غزالی، اور امام ابو اسحاق (الشیرازی) میں سے کوئی امام مذہب میں  درجہ اجتہادِ مطلق تک پہنچا تھا یا نہیں؟ اجتہادِ مطلق اور اجتہاد فی المذہب کی کیا حقیقت ہے؟

جواب: ان میں سے کسی کو اجتہادِ مطلق حاصل نہیں ہوا، البتہ وہ سب مذہبِ شافعی میں  اجتہادِ مقید تک پہنچ چکے تھے۔ اجتہادِ مطلق کا حصول اس طرح ممکن ہے کہ انسان  احکامِ شرعیہ کو ان کے ادلہ سے استدلال کرتے ہوئے بغیر تقلید کے جان لے، جبکہ اجتہادِ مقید کا درجہ ائمہ میں سے کسی امام کے مذہب کا تبحر کر کے حاصل ہوتا ہے جس میں ان مسائل کا الحاق جن میں اس (مذہب کے) امام سے کوئی نص منقول نہ ہو، ان  سے کیا جائے جو اس سے منصوص ہیں، ان کے مذہب کے اصول وقواعد کا اعتبار کرتے ہوئے۔" [33] واللہ اعلم۔

·    الرویانی (415  ھ – 501 ھ):

القاضی العلامہ، فخر الاسلام، شیخ الشافعیہ، ابو المحاسن عبد الواحد بن اسماعیل بن احمد بن محمد الرویانی الطبری،طبرستان کے شہر رویان میں پیدا ہوئے۔ وہ مذہب کے اصحاب الوجوہ میں سے تھے۔ انہوں نے مذہبِ شافعی پر کمال مہارت حاصل کی یہاں تک کہ انہوں نے فرمایا: "اگر شافعی کی کتب آگ میں جل کر ضائع بھی ہوجائیں تو میں انہیں اپنے حفظ سے املاء کروا سکتا ہوں"۔ انہیں اپنی کتاب کی نسبت سے صاحب البحر بھی کہا جاتا ہے۔ کتاب البحر ان کی  مذہبِ شافعی پر ایک بہت ضخیم کتاب ہے جو فوائدسے بھرپور ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کتب میں مناصیص الشافعی، حلیۃ المؤمن اور الکافی شامل ہیں۔ انہیں 501 ھ میں قتل کیا گیا۔[34]

·    ابن الصباغ (400  ھ – 477 ھ):

الامام العلامہ، شیخ الشافعیہ، ابو نصر، عبد السید بن محمد بن عبد الواحد البغدادی، الفقیہ المعروف بابن الصباغ، قاضی المذہب، فقیہ العراق، اور کبار اصحاب الوجوہ میں سے تھے۔ انہوں نے مدرسہ النظامیہ میں امام ابو اسحاق الشیرازی کے بعد درس دیا۔ انہوں نے امام القاضی ابو الطیب الطبری سے فقہ حاصل کی، اور اس میں مہارت حاصل کی حتی کہ یہ کہا گیاکہ آپ ابو اسحاق الشیرازی سے زیادہ مذہب جو جاننے والے تھے۔ امام ابن کثیر نے فرمایا: ان کی کتاب الشامل ہمارے اصحاب کی سب سے صحیح ترین کتب میں سے ہے اور ادلہ کے اعتبار سے سب سے اثبت بھی۔ ان کی دیگر کتب میں الکامل، اور تذكرة العالم والطریق السالم شامل ہیں۔[35]

اس دور کے بعض شافعی محدثین کا تذکرہ:

اس دور (204ھ – 516ھ) کے  مشہور شافعی محدثین جنہوں نے علم حدیث کی خدمت کی، اور محدثانہ طرز پر شافعی مذہب کی تدوین ونصرت کی، یا امام شافعی کے علم کی روایت کی، ان میں سے چند مشہور محدثین حسب ذیل ہیں:

·    امام حمیدی (م 219 ھ)

امام ابو بکر عبد اللہ بن الزبیر بن عیسی بن عبید اللہ الحمیدی القرشی المکی صاحبِ (مسند حمیدی) امام شافعی کے ساتھی اور رفیق تھے۔ ان کے اور امام شافعی کے کئی شیوخ مشترک ہیں۔ امام شافعی کے بغداد سے مصر کے سفر میں امام حمیدی ان کے ساتھ تھے۔ نیز ان کی وفات تک امام حمیدی نے امام شافعی کا ساتھ نبھایا اور اس کے بعد وہ مکہ واپس چلے گئے اور وہاں کے لوگوں میں امام شافعی کے علم کو نشر کیا اور اس پر فتوی دیا۔[36]

·    امام زکریا الساجی (220ھ -  307 ھ)

امام المحدث الفقیہ ابو یحیی زکریا بن یحیی بن عبد الرحمن بن بحر بن عدی البصری الشافعی بصرہ کے محدث اورمفتی تھے۔ وہ حدیث کے ائمہ میں سے تھے۔ انہوں نے فقہ شافعی کو مزنی اور الربیع المرادی سے اخذ کیا۔اور ان سے ابن عدی اور ابو بکر الاسماعیلی وغیرہ نے علم حاصل کیا۔ ابن السبکی فرماتے ہیں: انہوں نے فقہ اور خلافیات پر کتاب لکھی جس کا نام اصول الفقہ رکھا۔ اس میں انہوں نے ابوابِ فقہ اکٹھے کیے اور ذکر کیا کہ اس کتاب کو انہوں نے اپنی ایک دوسری ضخیم کتاب سے مختصر کیا ہے۔ اس کے خطبہ میں انہوں نے ائمہ وفقہاء کا ذکر کرتے ہوئے جن کے اختلافات  کو انہوں نے ذکر کیا، فرمایا:"میں نے اپنی کتاب میں امام شافعی کے ذکر سے شروعات کی ہے حالانکہ وہ ان فقہاء میں سے بعض سے عمر میں چھوٹے ہیں کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا: (قدمُوا قُريْشًا... قریش کو مقدم رکھو۔۔۔الخ)۔ اور میں نے ان میں سے کسی کو امام شافعی سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کا متبع اور اس سے اخذ کرنے والا نہیں پایا۔[37]

·    امام ابو عوانہ الاسفرایینی (م 316 ھ)

صاحب المستخرج۔ ان کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔

·    امام ابو بکر النیسابوری (238ھ – 324 ھ)

الامام الحافظ العلامہ، شیخ الاسلام، ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن زیاد بن واصل النیسابوری الحافظ الشافعی صاحب تصانیف تھے۔ انہوں نے امام مزنی، امام ربیع المرادی، اور ابن عبد الحکم سے شافعی فقہ اخذ کی۔ اور ان کے علاوہ امام محمد بن یحیی الذہلی، امام ابو زرعہ الرازی، ابن راوۃ، الحسن بن محمد الزعفرانی، ابو بکر الصاغانی، اور خلق کثیر سے علم حاصل کیا۔

اور ان سے موسی بن ہارون الحافظ (ان کے شیخ)، ابن عقدہ، امام دارقطنی، ابن شاہین،ابو علی النیسابوری اور ابو حفص الکتانی وغیرہ نے علم حاصل کیا۔

امام حاکم نے فرمایا: "عراق میں وہ اپنے دور کے شافعیوں کے امام تھے، اور تمام لوگوں میں فقہیات اور اختلافِ صحابہ کے سب سے بڑے حافظ تھے"۔ امام دارقطنی نے فرمایا: "میں نے ابو بکر النیسابوری سے بڑا حافظ نہیں دیکھا"۔اور دوسری جگہ فرمایا: "ہم نے اپنے مشائخ میں سے کوئی ان جیسا نہیں دیکھا۔ نہ ہم نے ان سے بڑا اسانید اور متون کا حافظ دیکھا ہے۔ وہ تمام مشائخ میں سب سے بڑے فقیہ تھے۔ وہ مزنی اور ربیع کی مجلس میں بیٹھے ہیں، اور وہ متون میں الفاظ کی زیادتیوں کو خوب جانتے تھے"۔ امام ابو اسحاق الشیرازی فرماتے ہیں: "ابن زیاد کی ایک کتاب (زیادات کتاب المزنی) بھی تھی[38]

·    امام ابو العباس الاصم (247ھ – 346ھ):

امام محمد بن یعقوب نیسابوری ابو العباس الاصم، 247 ھ میں پیدا ہوئے۔ حدیث وفقہ کی جامع شخصیت تھی، فقہ پر حفظ حدیث کو فوقیت دیتے تھے۔ امام شافعی کے طویل العمر شاگرد رشید امام ربیع مرادی کے آخری زمانہ میں آپ نے ان سے امام شافعی کی تصانیف کو پڑھ کر انہیں ملتِ اسلامیہ کے تشنگان علوم نبوت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ امام اصم کی وفات 346 ھ میں ہوئی۔ آپ کے شاگردوں کا "عالی سند" کا شرف خصوصی طور پر حاصل رہا۔[39]

·    امام ابو بکر الشافعی (260ھ – 354ھ)

امام المحدث الحجۃ الفقیہ، مسنِد العراق، ابو بکر محمد بن عبد اللہ بن ابراہیم بن عبدویہ البغدادی الشافعی البزاز، صاحب الاجزاء (الغیلانیات) 260ھ میں امام طبرانی کے پیدائش والے سال پیدا ہوئے۔ انہوں نے امام شافعی کی جدید دور کی کتب کو ابو بکر بن جون الفرغانی الفقیہ سے لکھا جو امام ربیع المرادی کے ساتھی تھے۔اس کے علاوہ انہوں نے محمد بن اسماعیل الترمذی، اسماعیل بن اسحاق القاضی، ابن ابی دنیا،محمد بن سلیمان الباغندی، موسی بن ہارون الحمال، اور عبد اللہ بن احمد بن حنبل وغیرہ سے سنا ہے۔

ان سے امام دارقطنی، ابن شاہین، ابن مندہ، ابن مردویہ، امام حاکم، ابو القاسم بن بشران، استاذ ابو اسحاق الاسفرایینی، اور دیگر کئی افراد نے اخذ کیا ہے۔

امام خطیب بغدادی نے فرمایا: "وہ ثقہ ثبت، کثیر الحدیث، حسن التصنیف تھے۔ انہوں نے شیوخ وابواب کو جمع کیا"۔امام دارقطنی نے فرمایا: "وہ ثقہ جبل تھے۔ ان کے وقت میں ان سے زیادہ ثقہ کوئی نہیں تھا

ان کی وفات 354 ھ میں امام ابن حبان کی وفات والے سال ہوئی۔

·    امام ابن حبان (م 354 ھ)

الامام العلامہ الحافظ المجود شیخِ خراسان، ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان التمیمی الدارمی البستی، 270ھ کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کے شیوخ میں امام ساجی، امام نسائی، امام سراج، اور امام ابن خزیمہ وغیرہ شامل ہیں۔ان سے امام ابن مندہ، اور امام حاکم وغیرہ نے علم حاصل کیا ہے۔ ابو سعد الادریسی فرماتے ہیں: "کچھ دیر تک وہ سمرقند کے قاضی رہے اور وہ فقہاءِ دین اور حفاظِ آثار میں سے تھے۔۔۔"

انہوں نے صحیح ابن حبان (الانواع والتقاسیم)، الثقات، اور المجروحین وغیرہ جیسی بے شمار کتب لکھیں جن میں سے یہ تین ہی ہم تک پہنچی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے (مناقب الشافعی) پر بھی ایک کتاب لکھی۔ اور آپ امام شافعی کے ہی مسلک پر تھے۔ صحیح ابن حبان میں ایک جگہ فرماتے ہیں:

" هذا الخبر ينفي الارتياب عن القلوب أن شيئا من هذه الأخبار يضاد ما عارضها في الظاهر ولا يتوهمن متوهم أن الجمع بين الأخبار على حسب ما جمعنا بينها في هذا النوع من أنواع السنن يضاد قول الشافعي رحمة الله ورضوانه عليه وذلك أن كل أصل تكلمنا عليه في كتبنا أو فرع استنبطناه من السنن في مصنفاتنا هي كلها قول الشافعي وهو راجع عما في كتبه وإن كان ذلك المشهور من قوله وذاك أني سمعت ابن خزيمة يقول: سمعت المزني يقول: سمعت الشافعي يقول: إذا صح لكم الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فخذوا به ودعوا قولي" "یہ روایت دلوں سے شک کو ختم کر دیتی ہے کہ ان روایات میں بظاہر کوئی تضاد پایا جاتا ہے اور کوئی بھی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ ہم نے ان روایات کے درمیان جو تطبیق دی ہے وہ امام شافعی کے اس قول کے برخلاف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر وہ بنیادی اصول جس کے بارے میں ہم نے اپنی کتابوں میں کلام کیا، اور ہر وہ فروعی مسئلہ جس کے بارے میں ہم نے احادیث سے استنباط کیا اور ان سب کو اپنی تصنیفات میں ذکر کیا، وہ سارے کے سارے امام شافعی کے اقوال ہی ہوں گے۔ اور وہ اس بارے میں اس چیز کی طرف لوٹیں گے جو ان کی کتابوں میں مذکور ہیں، اگرچہ یہ بات ان کے مشہور قول کے طور پر ہی کیوں نہ ہو جو میں نے ابن خزیمہ کو بیان کرتے سنا، کہ میں نے امام مزنی کو کہتے سنا، کہ وہ کہتے ہیں میں نے امام شافعی کو یہ بیان فرماتے ہوئے سنا: (جب نبی ﷺ کے حوالے سے کوئی مستند حدیث تمہارے سامنے ثابت ہو جائے تو تم اس کو اختیار کر لو اور میرے قول کو چھوڑ دو)"۔[40]

·    امام ابو بكر الاسماعیلی (277ھ -  371 ھ)

الامام الحافظ الحجۃ الفقیہ شیخ الاسلام، ابو بکر احمد بن ابراہیم بن العباس الجرجانی الاسماعیلی الشافعی، صاحب المستخرج علی صحیح البخاری، اور شیخ الشافعیہ تھے۔امام حاکم نے فرمایا: "اسماعیلی شیخ المحدثین والفقہاء تھے"۔ الحسن بن علی الحافظ نے فرمایا: "شیخ ابو بکر  کو چاہیے کہ اپنے لئے ایک سنن کی تصنیف کریں اور خود اختیار اور اجتہاد کریں کیونکہ وہ اپنی کثرتِ کتابت اور علم وفہم وجلالت کی فراوانی کے سبب اس پر قادر ہیں۔ اور ان کے لائق یہ نہیں کہ وہ محمد بن اسماعیل البخاری کی کتاب (صحیح بخاری) کے ساتھ قید ہو کر رہیں کیونکہ وہ اس بات سے زیادہ بلند وبالا ہیں کہ کسی اور کی اتباع کریں"۔ شیخ ابو اسحاق الشیرازی نے فرمایا: "اسماعیلی میں فقہ، حدیث اور دین ودنیا کی ریاسہ جمع ہیں۔"[41]

·    امام دارقطنی (306ھ – 385ھ)

الامام الحافظ المجود شیخ الاسلام، ابو الحسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی البغدادی الدارقطنی بہت بڑے قاری، محدث اور فقیہ تھے۔

انہوں نے ابو القاسم البغوی، یحیی بن محمد بن صاعد، ابو بکر بن زیاد النیسابوری، ابن عقدہ، ابو بکر الشافعی،اور ابن حیوہ النیسابوری وغیرہ سے علم حاصل کیا۔ اس کے علاوہ خطیب بغدادی فرماتے ہیں: "مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے فقہ شافعی کا درس امام ابو سعید الاصطخری (ان کا ذکر اوپر گزر چکا) سے لیا۔"

وہ علم کے سمندر، اور ائمہِ دنیا میں سے تھے۔ علل الحدیث اور رجال کے علم کی معرفت کی ان پر انتہاء تھی۔ اس کے ساتھ وہ قراءات اور ان کے طرق میں بھی ماہر تھے، اور فقہ، اختلاف، مغازی، اور ایام الناس وغیرہ جیسے علوم میں بھی برابر کی  مہارت رکھتے تھے۔

ان کے تلامذہ میں امام حاکم، حافظ عبد الغنی، تمام الرازی، الفقیہ ابو حامد الاسفرایینی (ان کا ذکر اوپر گزر چکا ہے)، ابو عبد الرحمن السلمی، ابو نعیم الاصبہانی، ابو بکر البرقانی، قاضی ابو الطیب الطبری (ان کا بھی ذکر گزر چکا)،ابو بکر ابن بشران، اور حمزہ السہمی وغیرہ شامل ہیں۔

قاضی ابو الطیب الطبری (جن کا ذکر اوپر ہوا) نے فرمایا: "دارقطنی امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں[42]

·    امام  ابو عبد اللہ حاکم (321ھ -  405 ھ)

الامام الحافظ الناقد العلامہ شیخ المحدثین، ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ الضبی الطہمانی النیسابوری الشافعی المعروف بابن البیع صاحب تصانیف تھے۔انہوں نے اپنے والد اور ماموں کی وجہ سے بچپن ہی میں علم وسماع حاصل کرنا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے 13 سال کی عمر میں امام ابن حبان پر حدیث کی املاء کی۔ اور خراسان، عراق، ما وراء النہر، اور وغیرہ کی طرف سفر کے ذریعے کئی اسانیدِ عالیہ کو اکٹھا کیا۔ انہوں نے اپنے والد، ابو العباس الاصم،ابو علی النیسابوری الحافظ،دارقطنی،اور دیگر کئی لوگوں سے علم حاصل کیا۔

اور ان سے امام دارقطنی (حالانکہ وہ ان کے شیخ ہیں)، ابو الفتح ابن ابی الفوارس، ابو ذر الہروی، ابو یعلی الخلیلی، ابو بکر البیہقی، ابو بکر احمد بن علی الشیرازی اور کئی لوگوں نے اخذ کیا ہے۔

انہوں نے فقہ شافعی کو امام ابو علی بن ابی ہریرہ،امام ابو الوليد حسان بن محمد النیسابوری، اور امام ابو سہل الصلعوکی سے اخذ کیا۔ جبکہ فنونِ حدیث کو انہوں نے ابو علی الحافظ، حافظ جعابی، ابو احمد الحاکم، اور دارقطنی وغیرہ سے حاصل کیا ہے۔

ان کی کتب میں مستدرک علی الصحیحین، معرفۃ علوم الحدیث، تاریخ نیسابور، المدخل الی علم الصحیح، کتاب الاکلیل، اور فضائل الشافعی وغیرہ شامل ہیں۔[43]

·    امام بیہقی (384ھ – 458ھ)

الحافظ العلامہ الثبت الفقیہ شیخ الاسلام، ابو بکر احمد بن الحسین بن علی بن موسی الخسروجردی الخراسانی البیہقی النیسابوری ائمہ مسلمین میں سے تھے۔ انہوں نےحدیث کی سماعت وجمع کے لئے حجاز وعراق کے اسفار کئے اور علم حدیث میں روایت ودرایت کے اعتبار سے مہارت حاصل کی۔ انہوں نے ابو طاہر الزیادی، ابو عبد اللہ الحاکم، ابو عبد الرحمن السلمی، ابو بکر بن فورک، ابو علی الروذباری، اور ابو زکریا المزکی وغیرہ جیسے اصحابِ امام اصم سے کثرت سے سماع کیا۔ انہوں نے امام شافعی کے مسلک کی فقہ میں تبحر حاصل کیا اور مسلکِ شافعی کی فقہ واصول، حدیث وتخریج وغیرہ علومِ شرعیہ کے اعتبار سے بہترین خدمات انجام دیں۔

آپ کی علمی تصانیف میں (معرفۃ السنن والآثار) ایسی کتاب ہے جس کے بغیر ایک شافعی فقیہ کا گزارا نہیں ہوتا۔ اس نام سے مراد ہے (معرفۃ الشافعی بالسنن والآثار)۔

ان کی کتاب (المبسوط فی نصوص الشافعی) اپنی نوع کی ایک انوکھی کتاب ہے اس میں انہوں نے امام شافعی کی تمام کتب سے ان کی نصوص کو ایک جگہ جمع کیا ہے۔ افسوس کہ یہ کتاب اب مفقود ہے۔

اس کے علاوہ ان کی کتب میں (السنن الکبری)، (شعب الایمان)، (دلائل النبوۃ)، (مناقب الشافعی)، (الدعوات الکبیر)، (الاسماء والصفات)، (الخلافیات)، (مناقب الامام احمد)، (احکام القرآن للشافعی)، (البعث والنشور)، (الزہ الکبیر)، (الاعتقاد)، (الآداب)، (السنن الصغیر)، (الاربعین)، اور (فضائل الاوقات) وغیرہ شامل ہیں۔

یہاں تک کہ امام الحرمین نے کہا: " ما من شافعي إلا وللشافعي في عنقه منة إلا البيهقي فإنه له على الشافعي منة لتصانيفه في نصرته لمذهبه وأقاويله" یعنی مسلکِ شافعی سے وابستہ ہر فرد پر امام شافعی کے احسانات ہیں سوائے امام بیہقی کے کہ آپ نے امام شافعی پر احسانات کئے ہیں، کیونکہ آپ نے ان کے مسلک کی تائید اور ان کے اقوال کی تشریح وتحقیق میں گرانقدر کتابیں لکھیں ہیں۔

ایک مدت کے لئے آپ کو نیسابور کا قاضی بھی مقرر کیا گیا تھا۔ 458ھ میں وہیں آپ کی وفات ہوئی۔[44]

·    امام خطیب بغدادی (392ھ – 463ھ)

الامام العلامہ المفتی الحافظ الناقد، محدث الوقت، ابو بکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی البغدادی 362 ھ میں پیدا ہوئے۔ انہیں اپنے وقت کا دارقطنی کہا جاتا ہے۔ آپ پر علومِ حدیث کی معرفت، حفظ، اور اتقان کی انتہاء تھی۔ وہ شافعی المذہب تھے، اور انہوں نے شافعی فقہ قاضی ابو الطیب الطبری اور ابو الحسن المحاملی سے حاصل کی، جبکہ شیخ ابو اسحاق الشیرازی، اور ابن الصباغ وغیرہ سے بھی فقہ میں استفادہ کیا۔ یہاں تک کہ حافظ ابن کثیر نے انہیں: "من المتعصبين لمذهب الشافعي" یعنی مذہبِ شافعی کے متعصبین میں سے قرار دیا ہے۔ آپ کی پچاس سے زائد تصانیف ہیں۔

امام ابو اسحاق الشیرازی نے فرمایا: "ابو بکر الخطیب حدیث کی معرفت اور حفظ میں دارقطنی اور ان کے جیسے ائمہ کے مشابہ ہیں

آپ 7 ذی الحجہ 463 ھ کو فوت ہوئےاور ان کے جنازے کو امام ابو اسحاق الشیرازی نے اٹھایا۔

ان کی تصانیف میں (تاریخ بغداد)، (شرف اصحاب الحدیث)، (الکفایہ فی علم الروایہ)، (الفقیہ والمتفقہ)، (الاحتجاج بالشافعی)، (المتفق والمفترق)، اور (المؤتلف والمختلف) وغیرہ شامل ہیں۔[45]

تیسرا  دور:مذہب کی تنقیح وتحریر (516ھ – 676ھ)

مذہبِ شافعی کی مصنفات کی کثرت  کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ ان کی تنقیح اور تحریر کی جائے، اور اس کا مقصد یہ تھا کہ مرجوح اور شاذ اقوال سے  مذہب کی تہذیب کی جائے، اور اس کے فقہاء کے نزدیک جو قول جملہ ابوابِ فقہ میں فتوی کے لئے معتمد ہے اسے بیان کیا جائے، تا کہ شرعی حکم بیان کرنے کے لئے مفتی اور قاضی حضرات کے لئے ایک مرکزی مرجع  ثابت ہو جو ان کے ائمہ کے اجتہادات کے موافق ہو[46]۔ یقینا فقہ شافعی کی تنقیح کا یہ اہم امر بہت ہی محنت وجد وجہد کا طالب تھا، جس میں چار صدیوں پر مشتمل فقہاء شوافع کی کثیر ووقیع تصانیف کو کھنگالنے، ان کا باریک بینی سے جائزہ لے کر تحقیق وتدقیق کے بعد غیر مرجوح اور شاذ اقوال کو الگ کر کے راجح اور مفتی بہ اقوال کی وضاحت کرنے جیسی محنتیں شامل تھیں۔

مذہب کی تحریر اور تنقیح کا یہ عظیم کام دو جلیل القدر ائمہ کے ہاتھوں سر انجام ہوا:

1-            امام ابو القاسم الرافعی، اور

2-            امام محیی الدین النووی

ان ائمہ کی تنقیح کے دور کو  تنقیحِ اول بھی کہا جاتا ہے۔

·    ابو القاسم الرافعی  (557  ھ – 623 ھ):

شیخ الشافعیہ، علامہ ابو القاسم عبد الکریم بن العلامہ ابی الفضل محمد بن عبد الکریم بن الفضل الرافعی القزوینی، علماء عاملین میں سے تھے۔ ان کو عبادت گزاری، زہد، اور تواضع سے متصف کیا گیا ہے۔ان پر  مذہبِ شافعی کی معرفت کی انتہاء ہے۔ وہ فقہ، تفسیر، حدیث اور اصول میں امام ہیں۔ ابو عبد الله الصفار الاسفرایینی نے فرمایا: "وہ اپنے دور میں علومِ دینیہ کے اصول وفروع میں یکتا  تھے اور اپنے زمانے میں مذہبِ شافعی کے مجتہد تھے۔۔۔"۔ انہوں نے امام غزالی کی الوجیز کی 10 سے زائد جلدوں میں ایک کبیر شرح لکھی۔ امام نووی اس کے بارے میں فرماتے ہیں: "الوجیز کی اس جیسی شرح پہلے کبھی نہیں لکھی گئی"۔ اس کا نام "العزيز في شرح الوجيز" ہے، جبکہ متاخرین کے ہاں اسے "فتح العزيز" اور "الشرح الكبير" کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ الوجیز پر ان کی ایک اور شرح ہے جس کا نام "الشرح الصغير" ہے۔ فقہ میں ان کی ایک اور اہم کتاب "المحرر في فقه الإمام الشافعي" ہے جس کا خلاصہ امام نووی نے "منہاج الطالبین" کے نام سے لکھا ہے ۔ ان کی دیگر کتب میں: شرح مسند الشافعي، الأربعون، التذنيب فوائد علي الوجيز، الأمالي الشارحة لمفردات الفاتحة، الإيجاز في أخطار الحجاز، اور المحمود في الفقه وغیرہ شامل ہیں۔[47]

·    ابو زکریا النووی  (631  ھ – 676 ھ):

شیخ الاسلام، استاذ المتاخرین، محیی الدین ابو زکریا یحیی بن شرف بن مری، الحزامی، النووی، الدمشقی مذہبِ شافعی کے محرر تھے۔ انہوں نے فقہ اپنے استاذ الکمال اسحاق بن احمد المغربی سے حاصل کی، اور الکمال  امام ابن الصلاح کے تلمیذ تھے۔ آپ زاہد، عبادت گزار، اور بکثرت مطالعہ کرنے والے تھے۔ امام نووی میں فقہ اور حدیث دونوں کی امامت جمع تھی، اور ان میں وہ تحقیق اور اتقان کی غایت اور عالی درجہ تک پہنچ چکے تھے۔ جہاں تک مذہبِ شافعی میں ان کے مکان کا تعلق ہے تو ان کے مذہب کے فروع اور اصول میں مہارت کے سبب وہ اپنے زمانے کے سب سے نمایاں فقہاء شافعیہ میں شمار ہوئے۔ وہ مذہب کی کتب پر وسیع مطالعہ اور دقیق نظر رکھتے تھے جس کی وجہ سے وہ اس مقام تک پہنچ گئے کہ مذہب کی تنقیح جیسی ضخیم جہد کو انجام دیں۔

امام سیوطی نے ان کےبارے میں فرمایا: " محرر المذهب ومهذبه، ومحققه ومرتبه، إمام أهل عصره علماً وعبادة،وسيد أوانه ورعاً وسيادة، العلم الفرد، فدونه واسطة الدر والجوهر، السراج الوهاج، فعنده يخفى الكوكب الأزهر، عابد العلماء وعالم العباد، وزاهد المحققين ومحقق الزهاد" "وہ مذہب کے محرر، اس کے مہذب، محقق،اور مرتب تھے۔ وہ علم اور عبادت میں اپنے زمانے کے امام تھے، اور پرہیزگاری اور سیادت میں وہ اپنے وقت کے سید تھے۔۔۔۔ وہ علماء کے عابد اور عباد کے عالم تھے، وہ محققین کے زاہد اور زھاد کے محقق تھے"[48]

امام نووی نے کئی کتب ورسائل لکھے جو کہ ان کی کم عمر سے بالکل مناسبت نہیں رکھتیں، اور یہ ان کے لئے اللہ کی خاص توفیق کی دلیل ہے۔ ابن السبکی فرماتے ہیں: "یہ بات کسی ذی بصیرت شخص پر مخفی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نووی اور ان کی مصنفات پر خاص عنایت تھی[49]

امام نووی نے جن علوم پر لکھا ہے ان میں حدیث، فقہ، ادب الطلب، اصول الاعتقاد، اور لغت وغیرہ شامل ہیں۔ ہمیں یہاں اس سیاق میں جس سے سروکار ہے وہ مذہبِ شافعی میں ان کی اہم تصنیفات کا بیان ہے یہ جانتے ہوئے کہ امام نووی نے کئی مسائل میں صحیح ادلہ پر اعتماد کرتے ہوئے مذہب کی نقد کا اظہار بھی کیا ہے بنا مذہب میں راجح قول کی قید لگائے۔ اس لئے امام نووی فروع میں محققین میں شمار ہوتے ہیں اگرچہ انہوں نے بعض مسائل میں مذہب اور اس کے معتمد قول کا التزام نہیں کیا ہے۔ اور متاخرین میں سے بعض کے قول پر توجہ نہیں دینی چاہیے جیسا کہ الاہدل نے مقدمہ المنہاج کی شرح میں نقل کیا ہے کہ: " واعلم: أن اختيارات الإمام النووي رحمه الله كلها ضعيفة من حيث المذهب، قوية من حيث الدليل" "اور جان لو  کہ امام نووی رحمہ اللہ کے اختیارات مذہب کے اعتبار سے سب ضعیف ہیں، جبکہ دلیل کے اعتبار سے قوی ہیں۔" [50]

امام نووی کی فقہی تصانیف:

·      روضة الطالبين وعمدة المفتين: یہ امام رافعی کی کتاب (الشرح لكبير) کا اختصار ہے۔ اور یہ کتاب مذہبِ شافعی میں معتمد شمار ہوتی ہے۔ اس میں فقہی مسائل کی تعریض میں وسعت ہے۔

·      تصحيح التنبيه: یہ امام ابو اسحاق الشیرازی کی کتاب (التنبيه) پر امام نووی کی تعلیقات ہیں۔ کتاب التنبیہ متقدمین کے نزدیک مذہبِ شافعی کی معتمد کتاب شمار ہوتی ہے۔ امام نووی نے اس کتاب میں ایک ہزار کے قریب مسائل پر امام شیرازی کا استدراک کیا ہے، اور اس میں معتمد قول یا دلیل کے مطابق اقوال کو ترجیح دی ہے۔ شیخ عبد الغنی الدقر رحمہ اللہ نے اس کتاب کو امام نووی کی اولین کتب میں شمار کیا ہے لیکن یہ ان کا وہم ہے، اس کے برعکس ابتداء میں  امام نووی نے جو کتاب لکھی وہ کتاب النکت علی التنبیہ تھی، تصحیح التنبیہ نہیں، جبکہ  تصحیح التنبیہ الگ کتاب ہے۔ امام نووی نے اس کو سال 669 ھ میں مکمل کیا، جس سے اس بات کی دلیل ملتی ہے کہ یہ ان کی اواخر کتب میں سے ہے اوائل میں سے نہیں۔

·      كتاب الأيضاح في المناسك: اس کتاب کو امام نووی نے مناسکِ حج سے متعلق معلومات کے لئے خاص کیا۔اس میں انہوں نے بہت سی قیمتی معلومات درج کی ہیں جو کسی بھی طالبِ حج کے لئے مناسب نہیں کہ انہیں نظر انداز کرے۔

·      المنهاج في شرح صحيح مسلم بن الحجاج: یہ امام نووی کی مشہور شرح صحیح مسلم ہے، جو کہ ان کی صحیح مسلم کی احادیث پر مختصر تعلیقات پر مشتمل ہے۔ اس میں انہوں نے مشکل الفاظ کی تفصیل، غیر واضح کی توضیح، اور احکام کا استنباط واستخراج کیا ہے۔ نووی کی مسلم پر شرح کو اس کی سب سے مشہور اور مفید ترین شروح میں شمار کیا جاتا ہے۔

·      المجموع شرح المهذب: یہ فروع پر لکھی کتب میں سب سے افضل کتب میں سے ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ابن کثیر نے فرمایا: "المہذب کی شرح جس کو انہوں نے المجموع کا نام دیا ہے، کتاب الربا تک پہنچی تھی،پس اس میں انہوں غیر معمولی جدت واختراع اوت نقد وتحقیق سے کام لیا ہے، اور انہوں نے مذہب کی فقہ کی تحریر کی، اور حدیث کی اس کے لائق تحریر کی، اوراس میں غریب الفاظ، لغت، اور دیگر اہم چیزیں ہیں جو کسی اور میں نہیں پائی جاتی۔۔۔ کتبِ فقہ میں اس سے بہتر کسی کتاب کو میں نہیں جانتا۔"[51]

·      التحقيق: یہ ان کی آخری کتب میں سے ہے۔ اس کو وہ باب صلاۃ المسافر تک ہی مکمل کر پائے، اس میں انہوں نے المہذب کے اکثر مسائل کو دقیق اور مختصر عبارت کے ساتھ جمع کیا ہے۔

·      التنقيح: یہ امام غزالی کی الوسیط پر حاشیہ ہے۔ اس میں نووی صرف باب شروط الصلاۃ تک ہی پہنچے۔

·      الفتاوي، المسمي: المنثورات وعيون المسائل المهمات: یہ امام نووی کے فتاوی ہیں جن کو ان کے شاگرد علامہ ابن العطار نے شافعی مذہب کے مطابق مختلف فقہی ابواب میں مرتب کیا ہے۔

·      منهاج الطالبين وعمدة المفتين: یہ کتاب مفتی بہ اقوال بیان کرنے کے اعتبار سے فقہ شافعی کی سب سے معتمد کتاب ہے۔ یہ امام رافعی کی "المحرر" کا اختصار ہے جسے مصنف نے تقریبا نصف ضخامت میں کیا ہے اور اس میں چند امور کا اضافہ فرمایا ہے:

1)             محرر میں بعض مسائل جو چھوٹ گئے ان پر تنبیہ۔

2)              امام رافعی نے بعض مسائل میں مذہب مختار کے خلاف لکھا ہے اس کی وضاحت وتوضیح۔

3)             غریب یا معنیِ مقصود کے خلاف دلالت کرنے والے الفاظ کی وضاحت۔

خصوصیتِ کتاب:

o    جس نے یہ کتاب پڑھی گویا اس نے محرر سے لے کر الام تک تمام کتابوں کو پڑھ لیا۔

o    اس کتاب میں امام نووی نے ائمہ مذہب کے اقوال پیش کرنے میں انوکھا طرز اختیار کیا ہے، اختلافات کو چند الفاظ میں سمیٹا ہے۔ منہاج کے خطبہ میں مصطلحاتِ فقہ کو واضح کیا ہے۔ قاری بیک وقت معارفِ فقہیہ اور مصطلحاتِ فقہ سے متعارف ہوتا ہے، اسی وجہ سے اس کتاب کو "زبدة الفقه الشافعي" کہا جاتا ہے۔

o    یہ کتاب فقہ شافعی کی امہات کتب میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ کتاب فقہ شافعی کا نچوڑ اور مذہب شافعی کا عرق اور خلاصہ ہے۔

o    بہت سارے علماء نے اس کی شرح لکھی ہے۔ اس کے شارحین کی تعداد سو سے زائد ہے۔

o    اس کتاب کے بارے میں مشہور مقولہ ہے: "من قرأ المنهاج هاج" جس نے منہاج پڑھی سیراب ہو گیا۔

قواعدِ ترجیح:

متاخرین شافعیہ کے نزدیک یہ بات طے شدہ ہے کہ مذہب میں معتمد قول وہی ہے جس پر شیخین یعنی رافعی اور نووی نے اتفاق کیا ہے۔ اگر ان دونوں کے درمیان اختلاف ہو جائے تو معتمد قول امام نووی کا ہو گا۔ امام نووی کی مذکورہ کتاب (منہاج الطالبین) کو یہ شرف حاصل ہے کہ علماء، فقہاء، اور طلابِ علم نے اس کا حفظ، تصنیف، شرح، اختصار، اور حاشیہ وغیرہ کے ذریعے بھرپور اہتمام کیا ہے۔ اس کتاب پر بے شمار شروح اور طویل حواشی لکھے گئے ہیں، جن کا ذکر آگے  ان کی جگہ پر آئے گا۔

یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ امام نووی کی کتب میں اگر اختلاف ہو جائے تو غالب طور پر معتمد قول وہ ہو گا جو ان کی کتاب التحقیق میں ہے، اس کے بعد جو المجموع میں ہے، اس کے بعد جو التنقیح میں ہے، اس کے بعد جو الروضہ میں ہے، اس کے بعد جو منہاج الطالبین میں ہے، اس کے بعد جو ان کے فتاوی میں ہے، اس کے بعد جو شرح مسلم میں ہے، اس کے بعد جو تصحیح التنبیہ میں ہے، اس کے بعد جو النکت علی التنبیہ میں ہے [52]۔ اس مسلک کو بعض متاخرین نے اختیار کیا ہے جیسا کہ الکردی نے فوائد المدنیہ میں نقل کیا ہے۔ اس میں ان مصنفات کی زمنی ترتیب کا اعتماد کیا گیا ہے، جب نووی کی کسی اول الذکر کتاب میں نص نہ ملے۔ البتہ یہ مسلک بعض باحثین کے نزدیک درست نہیں ہے، جس کی دو وجوہات ہیں:

اول: یہ کہ مذہب میں معتمد کتاب المنہاج ہی کو مانا جاتا ہے، اور یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کتاب کو نووی کی دیگر فقہی کتب پر فوقیت حاصل ہے، اور اس کے خلاف فتوی دینا جائز نہیں، جیسا کہ کئی علماء نے بیان کیا ہے۔ تو پھر ان کی کسی اور کتاب کو اس پر ترجیح دینے کی کیا توجیہ ہے؟

دوسرا: ان میں سے بعض تصنیفات کی زمنی ترتیب درست نہیں ہے جیسا کہ کتاب تصحیح التنبیہ کا حال ہے۔ کیونکہ بعض نے یہ بات کہی ہے کہ یہ کتاب نووی کی اولین کتب میں سے ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ہم نے اوپر واضح کیا ہے کہ یہ کتاب دراصل ان کی اواخر  کی کتب میں سے ہے۔ اس لئے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے میں صحیح مسلک یہ ہے کہ نووی کی کتب میں مسائل کی تعریض اور نووی کے اختیارات کے درمیان اختلاف کی صورت میں ترجیح اس بات کو دی جائے گی جو دلیل کے موافق ہو یا اس تعلیل کو جس پر خود نووی نے اعتماد کیا ہے۔ یہی منہج امام نووی کی کتب اور منہج کے موافق ومناسب ہے۔

چنانچہ امام نووی نے کتاب المجموع کے مقدمہ میں ان قواعد کو ذکر کیا ہےجن پر ایک صاحب نظر وتبحر مذہب کے اقوال اور وجوہ  (میں اختلاف)کے معاملے میں چلتا ہے۔ اور یہ قواعد ہماری مذکورہ بالا ترجیح کے موافق ہیں۔ اسی طرح وہ قواعد جن پر وہ شخص چل سکتا ہے جو اہل نظر وتبحر میں سے نہیں ہے۔ پس:

1-           صحیح غیر معارض دلیل سے مستند قول کو شافعی کا قول اعتبار کیا جائے گا، چاہے وہ قول قدیم ہو یا جدید۔

2-           قولِ جدید ہی شافعی کا مذہب شمار ہو گا سوائے ان دو حالتوں کے جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔

3-           جب دو اقوال جدید، قدیم یا دلیل کے اعتبار سے برابر ہوں تو ان میں سے آخری قول پر عمل کیا جائے گا اگر یہ معلوم ہو جائے کہ ان میں سے آخری قول کون سا ہے، ورنہ اس پر عمل کیا جائے گا جسے شافعی نے ترجیح دی۔

4-           اگر شافعی سے ایک ہی حالت پر دو قول مروی ہوں اور ان میں ترجیح کا کوئی قرینہ نہ ہو، یا ان میں سے سابق قول کی پہچان نہ ہو پائے، تو اس میں راجح کی تحدید امام شافعی کے قواعد اور ان کی نصوص میں تطبیق کی روشنی میں ہو گی۔

اور جب کوئی شخص تبحر کے رتبہ تک نہ پہنچا ہو، تو وہ درج ذیل قرائن پر اعتماد کرے:

1-           مذہب کے اصحاب میں سےاکثریت، اعلم (زیادہ جاننے والے)، اور اورع ( زیادہ متقی) کو فوقیت دے۔

2-           دونوں اقوال یا وجوہ کو نقل کرنے والوں کی صفات کا اعتبار کرے، مثال کے طور پر جو کچھ امام بویطی، امام ربیع المرادی، اور امام مزنی نے امام شافعی سے نقل کیا ہے وہ اس پر مقدم ہے جو الربیع الجیزی اور التجیبی نے نقل کیا ہے۔

3-           جس قول پر دیگر مذاہبِ فقہیہ کے اکثر ائمہ نے موافقت کی ہے اس کو ترجیح دے۔

4-           جو قول اس کے باب یا اس کے متعلقہ ابواب میں مذکور ہے اس کو ترجیح دی جائے اس قول پر جو اپنے باب کے علاوہ کسی جگہ پر مذکور ہے۔

چوتھا  دور:مذہب کا استقرار اور تنقیحِ ثانی (676ھ – 1004ھ)

اس دور کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

پہلا مرحلہ:

امام نووی کی وفات سے لے کر شیخ الاسلام زکریا الانصاری کی وفات تک (676 ھ – 926 ھ) کا دور اس مرحلے پر مشتمل ہے جس میں مذہبِ شافعی کی تنقیحِ ثانی کا راستہ ہموار کیا گیا۔ پس اس میں کئی بے مثال علماءِ شافعیہ نے دونوں اماموں یعنی: رافعی اور نووی کی کتب پر خاص طور پر، اور ان سے قبل کے علماء کی کتب پر بطور عموم اپنی شروح اور حواشی کے ذریعے خدمات انجام دیں۔ اس مرحلے کے علماء میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں:

·      امام ابن دقیق العید (م 702 ھ)

·      علامہ ابن الرفعہ (م 710 ھ) صاحب کتاب  (المطلب العالي في شرح وسيط الغزالي) اور (كفاية في شرح التنبيه للشيرازي)

·      علامہ تقی الدین السبکی (م 756 ھ) صاحبِ کتاب (الإبتهاج في شرح المنهاج للنووي) اور (الإبهاج في شرح المنهاج للبيضاوي)

·      علامہ تاج الدین السبکی (م 771 ھ)صاحبِ کتاب (طبقات الشافعية الكبري) اور (جمع الجوامع في أصول الفقه)

·      علامہ جمال الدین الاسنوی (م 762 ھ)

·      علامہ شہاب الدین ابن النقیب  (م 769 ھ) صاحبِ کتاب (عمدة السالك وعدة الناسك)

·      علامہ شہاب الدین الاذرعی (م 783 ھ)

·      علامہ بدر الدین الزرکشی (م 794ھ)

·      امام ابن الملقن (م 804 ھ)

·      امام سراج الدین البلقینی (م 805ھ)

·      علامہ ابن رسلان الشافعی (م 844 ھ) صاحبِ کتاب (الزبد في الفقه الشافعي)

·      امام ابن حجر العسقلانی (م 852 ھ)

·      علامہ جلال الدین المحلی (م 864 ھ)

·      علامہ عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکر بَافَضل الحضرمی (م 918 ھ) صاحبِ (المقدمة الحضرمية)

·      علامہ جلال الدین السیوطی (م 911 ھ)

·      اور آخر میں امام شیخ الاسلام زکریا الانصاری (م 926)

اس مرحلے کا ایک امتیاز یہ ہے کہ اس میں اصولِ فقہ کی تحقیق اور تحریر پر تالیفات کا  نئے سرے سے رواج  ہوا، اور خاص طور پر کتب تخریج کا، جیسے امام شہاب الدین الزنجانی (م 656 ھ) کی کتاب (تخريج الفروع علي الأصول) اور جمال الدین الاسنوی (م 772 ھ) کی کتاب اسی عنوان کے ساتھ۔ اسی طرح قواعدِ فقہیہ پر بھی تالیفات لکھی گئیں، بلکہ شافعیہ کو اس فن پر تالیف میں باقیوں پر سبقت حاصل ہے۔ ان میں سے بعض مشہور کتب درج ذیل ہیں:

·      كتاب ((الأشباه والنظائر))،از امام صدر الدین ابن الوجیل (م 716ھ)

·      كتاب ((الأشباه والنظائر))، از علامہ تاج الدین السبکی (م 771 ھ)

·      کتاب ((القواعد))، از  علامہ تقی الدین الحصنی (م 829 ھ)

·      کتاب ((الأشباه والنظائر))، از علامہ جلال الدین سیوطی (م 911 ھ)

دوسرا مرحلہ:

سال 926 ھ سے لے کر 1004 ھ تک کا یہ مرحلہ مذہبِ شافعی کی تنقیح کا اختتام شمار ہوتا ہے جسے تنقیحِ ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ اور اس تنقیحِ ثانی میں دو علماء کا کردار سب سے اہم ہے:

1-            ابن حجر الہیتمی (م 974 ھ)

2-            شمس الدین الرملی (م 1004 ھ)

تنقیحِ اول اور تنقیحِ ثانی میں دو اہم فرق ہیں:

پہلا: امام نووی اور امام رافعی نے اپنے اجتہادات کا محور امام شافعی کے بعد سے اپنے زمانہ تک کہ فقہاء شوافع کی فقہی تالیفات یعنی تقریبا چار سو صدیوں کی فقہی تالیفات وتصنیفات کو بنایا کہ ان میں منتشر بہت سے شاذ ومرجوح مسائل میں سے راجح اور مفتی بہ اقوال متعین فرما کر امت مسلمہ کے لئے سہولت پیدا کر دی، اس کے برعکس علامہ ہیتمی اور علامہ رملی نے اپنی تحقیق واجتہادات کا محور امام نووی کے بعد کے علماء، فقہاء، ومجتہدین کی فقہی کتابوں کو بنایا۔

دوسرا: امام نووی اور امام رافعی نے اپنی فقہی تحقیقات میں کسی ایک یا چند فقہاء کی تحقیقات سے تعرض نہیں کیا، بلکہ انہوں نے امام شافعی اور اپنے زمانے کے مابین چار صدیوں میں تصنیف وتالیف شدہ فقہ شافعی کی عمومی کتابوں کو اپنی تحقیقات کا مظہر بنایا، جبکہ علامہ ہیتمی اور علامہ رملی نے اپنی تحقیقات میں امام نووی اور امام رافعی کی فقہی تصانیف کو ہی زیادہ مظہر بنایا ہے، کہ جن مسائل میں شیخین کا اختلاف رہا، اس میں انہوں نے راجح اور مفتی بہ قول کو متعین کر دیا، اسی طرح زمانہ کے اعتبار سے پیش آنے والے نئے مسائل جن کا تذکرہ شیخین کی کتابوں میں نہیں ہے، ان میں بھی مفتی بہ قول کی تعین فرمائی ہے۔

چنانچہ متاخرین میں سے فقہاءِ شافعیہ کے ہاں یہ طے پایا کہ جو شخص  مذہب میں اہل ترجیح اور تصحیح پر قادر علماء میں سے ہو گا وہ اپنے فتاوی میں شیخین  یعنی: رافعی اور نووی کے کلام میں سے جو اسے راجح معلوم ہو اسے چن لے۔ اور جو شخص مذہب میں اہل ترجیح میں سے نہ ہو تو وہ ابن حجر کی التحفة اور الرملی کی النهاية سے ان کے کلام کو اخذ کر لے، اس طرح متاخرین کے ہاں وہ دونوں مذہب کے معتمد شمار ہوئے۔

·    ابن حجر الہیتمی  (909  ھ – 974 ھ):

شہاب الدین ابو العباس احمد بن محمد بن محمد بن حجر، الہیتمی، السعدی، الانصاری، الشافعی، الامام العلامہ، الہمام 909 ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے بارے میں ابن العماد الحنبلی رحمہ اللہ نے فرمایا: "بالجملہ وہ شیخ الاسلام، خاتمۃ العلماء الاعلام تھے، وہ ایک سمندر تھے جس  سے ایک ڈول انڈیلنے سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ امام الحرمین تھے جیسا کہ کئی لوگوں نے اتفاق کیا ہے۔" اس کے برعکس وہ بعض عقیدے کی خرابیوں سے خالی نہیں تھے۔ ابن حجر – اللہ ان کو معاف کرے – پر بہت کبیر مؤاخذات ہیں جن کے نتیجے میں وہ غالی صوفیہ کے مذہب پر گامزن ہو گئے تھے جو کہ قرآن وسنت اور سلفِ امت کے عین مخالف ہے۔ ان مؤاخذات میں: نبی ﷺ سے مطلق طور پر توسل کا جواز، اشعری عقیدے پر متعصب اور متشدد ہونا،قبرِ نبی ﷺ کی زیارت کے لئے سفر کا جواز، اور ان کا شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر اپنے مذہب اور اعتقاد کی طرف تعصب کے سبب شدید زبان درازی کرنا جو ان جیسے عالم سے صادر ہونا انتہائی نا مناسب ہے، وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے مناقشہ اور رَد پر علامہ نعمان الآلوسی رحمہ اللہ نے ایک مفید کتاب لکھی ہے: ((جلاء العينين في محاكمة الأحمدين)) جس میں انہوں نے ابن حجر کے شیخ الاسلام پر لگائے الزامات اور فیصلوں کا مناقشہ کیا ہے۔ اسی طرح ایک دوسری کتاب بھی ان کے عقیدے کے مناقشے پر بہت مفید ہے: ((آراء ابن حجر الهيتمي الاعتقادية ..عرض وتقويم في ضوء عقيدة السلف)) تالیف: محمد بن عبد العزیز الشایع۔

انہوں نے کئی تصانیف لکھی جن میں: ((تحفة المحتاج شرح المنهاج))، ((شرح المشكاة))، ((شرحان علي الإرشاد لابن المقري))، ((شرح الهمزية البوصيرية))، ((شرح الأربعين النووية))، ((الصواعق المحرقة علي أهل الرفض والضلال والزناقة))، ((كف الرعاع عن محرمات اللهو والسماع))، ((المنهج القويم شرح مسائل التعليم))، ((الإحكام في قواطع الإسلام))، ((شرح العباب المسمي الإيعاب))، ((تحذير الثقات عن أكل الكفتة والقات))، اور  ((شرح قطعة من ألفية ابن مالك)) شامل ہیں۔

·    شمس الدین الرملی  (919  ھ – 1004 ھ):

الشیخ الامام، شمس الدین محمد بن احمد بن حمزہ (الجمال) الرملی، المنوفی، المصری ، 919ھ میں پیدا ہوئے۔ انہیں الشافعی الصغیر (چھوٹا شافعی) بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے والد مذہبِ شافعی کے علماء میں سے تھے اور انہیں سے انہوں نے مذہب کی تربیت پائی۔ ان کی متعدد تصانیف ہیں جن میں: ((نهاية المحتاج إلي شرح المنهاج))، ((شرح البهجة الوردية))، ((عمدة الرابح شرح الطريق الواضح لأحمد الزاهد))، ((شرح العباب للمزجد)) (اس کتاب کو انہوں نے مکمل نہیں کیا)، ((غاية البيان شرح زبد ابن رسلان))، ((شرح أيضاح المناسك))، ((شرح أبيات السيوطي في تبعية الفروع الأصول))، ((شرح رسالة في شروط المأموم والإمام لوالده))، اور ((شرح العقود في النحو)) شامل ہیں۔ انہوں نے سال 1004 ھ میں وفات پائی۔

متاخرین کے نزدیک قواعدِ ترجیح:

جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ متاخرین کے نزدیک یہ طے پایا کہ مذہب میں راجح اور معتمد وہ ہو گا جو امام نووی کی کتاب المنہاج میں ہے۔ اور المنہاج کی کئی شروحات لکھی گئی ہیں جن میں سے معتمد دو شرحیں ہیں:

1-            ابن حجر الہیتمی کی ((تحفة المحتاج))

2-            اور الرملی کی ((نهاية المحتاج))

ابن شطا فتح المعین پر اپنے حاشیے میں فرماتے ہیں: "مذہب میں حکم اور فتوی کے لئے معتمد وہ ہے جس پر شیخین (یعنی الہیتمی اور الرملی) نے اتفاق کیا، پھر وہ جس پر نووی اور پھر رافعی نے جزم کیا، پھر وہ جس کو اکثر نے راجح کہا، پھر وہ جس کو اعلم اور اورع (عالم) نے راجح کہا۔"

ابن شطا شیخ احمد الدمیاطی کے فتاوی سے نقل کرتے ہوئے مزید فرماتے ہیں: "اگر تم پوچھو کہ کتب میں سے مفتیٰ بہ کون سی ہیں اور ان میں اور شروح اور حواشی میں سے کون سی مقدم ہیں جیسے: کتبِ ابن حجر، الرملیین، شیخ الاسلام، ابن قاسم، المحلی، الزیادی، الشبراملسی، ابن زیاد الیمنی، القلیوبی، اور شیخ خضر وغیرہ۔ پس کیا ان کی کتب معتمد ہیں یا نہیں؟ اور کیا ان میں سے ہر کسی کے قول سے اخذ کرنا جائز ہے جب وہ اختلاف کریں یا نہیں؟ اور جب ابن حجر کی کتب میں اختلاف ہو جائے تو کیا مقدم ہو گا؟ اور کیا ضعیف قول پر عمل اور فتوی دینا جائز ہے؟ اور مرجوح یا خلافِ اصح یا خلافِ اوجہ یا خلافِ متجہ  پر عمل جائز ہے یا نہیں؟

تو اس کا جواب علامہ سعید بن محمد سنبل المکی سے ماخوذ یہ ہے کہ: بعض کا بعض پر تقدیم (فوقیت) کا لحاظ رکھتے ہوئے  ان میں سے ہر کتاب معتمد ومعتبر ہے۔ جبکہ اپنے خود کے عمل کے لئے ان میں سے کسی سے بھی اخذ کرنا جائز ہے۔

جہاں تک افتاء کا تعلق ہے تو اختلاف کی صورت میں ان میں سے التحفة اور النهاية کو فوقیت حاصل ہے۔ جب ان دونوں میں اختلاف ہو جائے تو اگر مفتی اہل ترجیح میں سے نہ ہو تو وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر سکتا ہے۔ اور اگر وہ ترجیح کے قابل ہو تو وہ راجح قول پر فتوی دے گا۔ ان دونوں کتب کے بعد شیخ الاسلام (زکریا الانصاری) کی  شرح البهجة الوردية، پھر ان کی شرح المنہج (سے لیا جائے گا) لیکن اس میں بعض ضعیف مسائل بھی موجود ہیں۔ اور اگر ابن حجر کی کتب کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو ان میں سب سے مقدم التحفة کو رکھا جائے گا، پھر فتح الجواد، پھر الإمداد، پھر الفتاوي اور شرح العباب (برابری پر) لیکن شرح (العباب) کو ان دونوں میں  فوقیت حاصل ہے۔

اور متاخرین کے حواشی غالب طور پر الرملی کے موافق ہوتے ہیں اس لئے ان پر فتوی معتبر ہے۔ اگر التحفة اور النهاية میں اختلاف ہو جائے تو ان پر اعتماد نہیں ہو گا۔ اہل حواشی میں سے درج ذیل پر اعتماد ہو گا: الزیادی، پھر ابن قاسم، پھر عمیرۃ، پھر باقیوں پر۔ لیکن جن مسائل میں وہ مذہب کے اصول کے خلاف جائیں تو ان سے اخذ نہیں کیا جائے گا۔ اور جہاں تک بات ہے ضعیف اقوال کی تو ان پر اپنے نفس کے حق میں عمل کرنا جائز ہے اگر ان کا ضعف شدید نہ ہو، لیکن دوسرے کے حق میں عمل جائز نہیں اور ان پر افتاء اور حکم دینا جائز نہیں۔"[53]

نظری طور پر اگرچہ متاخرین شافعیہ نے اغلبی طور پر اس تقریر پر اتفاق کیا ہے، لیکن تطبیقی طور پر یہ درست نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے جیسا کہ علامہ  الکردی نے فوائد المدنیہ میں فرمایا ہے کہ: "ہمارے شیخ مرحوم علامہ شیخ سعید مکی نے جو مفتی وغیرہ کے لئے التحفة اور النهاية پر اعتماد کرنے کو کہا ہے اس شرط کے ساتھ جو میں نےبیان کی ہے وہ ظاہر ہے اس کی صحت پر توقف نہیں کیا گیا۔ اور جہاں تک بات ہے کہ ان دونوں کتابوں کے خلاف بات پر فتوی یا فیصلہ سنانا غیر جائز ہونے کی  جیسا کہ انہوں نے ذکر کیا ہے تو اس کی توجیہ ظاہر نہیں ہوئی ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ عجیب بات ان کا اس بات پر اتفاق نقل کرنا ہے۔ کیونکہ:

اولا: اگر ہمارے ائمہ کے کلام کا تحقیقی جائزہ لیا جائے تو وہ اس کے بالکل خلاف معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ابن حجر اور الرملی کے بعد میں آنے والے ان کے دور سے لے کر ہمارے زمانے تک  کے علماء نے  بلا کسی نکیر کہ ابن حجر اور الرملی کی بے شمار مسائل میں مخالفت کی ہے۔۔۔۔

اور دوسرا یہ کہ: ہمارے شافعی ائمہ کے کلام میں اس بارے میں جو بات معروف ہے وہ تخییر کی ہے (یعنی کوئی شخص ان میں سے جن سے چاہے اخذ کر سکتا ہے)۔۔۔" [54]

اور الکردی رحمہ اللہ نے طویل کلام میں ذکر کیا ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ ایک مفتی اگر اہل ترجیح میں سے ہو تو وہ اسے ہی اخذ کرے جو اس کے نزدیک راجح ہے، اور اگر وہ اہل ترجیح میں سے نہیں ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ جسے چاہے چن لے۔

شافعیہ کی اصطلاحات:

اصطلاح سے مراد: کسی مخصوص امر پر ایک گروہ کا آپس میں اتفاق ہونا ہے۔

شافعیہ کے ہاں کچھ اصطلاحات پائی جاتی ہیں جو ان کے ساتھ خاص ہیں۔ اور مذہب کے طالب کے لئے ضروری ہے کہ ان میں اہم اصطلاحات کا علم رکھے تا کہ اس کے لئے مسائل کے تصور اور  ان کی بنیاد کو ان کے اصولوں پر رکھنے کے طریقے میں آسانی ہو۔

اشخاص سے متعلق اصطلاحات:

·      الإمامکتبِ فروع میں اس سے مراد: امام الحرمین ابو المعالی الجوینی ہوتے ہیں۔

·      الإمام: کتبِ اصول میں اس سے مراد: فخر الدین الرازی صاحب المحصول ہوتے ہیں۔

·      القاضيقاضی حسین المروزی

·      القاضيانالرویانی اور الماوردی

·      الربیع: جب الربیع مطلقا بولا جائے تو اس سے مراد الربیع بن سلیمان المرادی ہوتے ہیں۔ جب الربیع الجیزی مراد ہوں تو اس کی وضاحت کر دی جاتی ہے۔

·      الشارح جب مطلقا الشارح بولا جائے تو اس سے جلال الدین المحلی شارح المنہاج مراد ہوتے ہیں۔

·      شارح: اس سے کسی بھی کتاب کے شارح مراد ہیں۔

·      قال بعضهم: یہ شارح سے زیادہ عام ہے۔

·      الشيخان يا الشيخين: اس سے مراد رافعی اور نووی ہیں۔

·      الشيوخ: اس سے مراد رافعی، نووی اور السبکی ہیں۔

·      شيخنا: اگر ابن حجر الہیتمی اور خطیب الشربینی کہیں تو مراد: شیخ الاسلام زکریا الانصاری ہیں۔

·      شيخي: اگر یہ خطیب الشربینی مطلق طور پر کہیں تو مراد: شہاب الدین الرملی (م 957 ھ) ہوتے ہیں (یہ نہایۃ المحتاج  والے شمس الدین الرملی کے والد  ہیں)۔

·      الأصحاب: اصلا تو یہ لفظ امام شافعی کے اصحاب کے لئے بولا جاتا تھا،  پھر اس میں توسیع کرتے ہوئے مذہب کے تمام افراد اور اس کے فقہاء کو شامل کر دیا گیا۔ابن حجر الہیتمی کے نزدیک اصحاب سے مراد مذہب کے متقدمین ائمہ ہیں جو کہ غالب طور پر اصحاب الوجوہ ہیں، اور ان کی اکثریت 400ھ تک ہے۔

چنانچہ اس سے مراد اگر متقدمین ہوں (مثلا امام نووی کا کہناأصحابنا المتقدمين) تو وہ غالب طور پر وه اصحاب ہوتے ہیں جن كو  زمنی طور پر 400 ھ سے ضبط کیا گیا ہے (یعنی 400ھ اور اس سے پہلے والے اصحاب متقدمین شمار ہوتے ہیں)۔

اور اگر اس سے مراد متاخرین ہوں رافعی اور نووی کے کلام میں (مثلا نووی کا کہنا: أصحابنا المتأخرين)، تو وہ 400ھ کےبعد والے اصحاب  ہوتے ہیں۔اور ان دونوں کے علاوہ کے کلام میں اس سے مرادشیخین کے بعد والے لوگ ہوتے ہیں۔

·      أصحاب الوجوه: یہ لفظ اصحاب کے لفظ سے اخص ہے۔ یہ وہ فقہاءِ شافعیہ ہیں جو مذہب میں درجہ اجتہاد کا رتبہ رکھتے ہیں اور ان کےاپنے اپنے فقہی اجتہادات ہوتے ہیں جن کا استنباط وہ امام شافعی کے اصولوں اور ان کے قواعد کی تطبیق کی روشنی میں کرتے ہیں۔ اور اس میں وہ امام شافعی اور ان کے مذہب کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔  انہیں "اصحاب الطرق" ، "مجتہد مقید"، اور "مجتہد التخریج"  بھی کہا جاتا ہے۔ کسی بھی شافعی فقیہ کا اصحاب الوجوہ میں سے ہونے کا تعین غالب طور پر  دیگر ائمہ کی تصریحات سے کیا جاتا ہے۔ اور اس کا سب سے زیادہ اہتمام امام نووی نے اپنی تہذیب الاسماء واللغات میں کیا ہے، جس میں انہوں نے کئی شافعی فقہاء کو صاحبِ وجہ ہونے سے متصف کیا ہے۔

·      المحققوناس کا استعمال سب سے زیادہ امام الحرمین نے نهاية المطلب میں اور ان کی اتباع میں العز بن عبد السلام نے  (الغاية في اختصار النهاية) میں کیا ہے۔ دکتور الدیب رحمہ اللہ نے نهاية المطلب میں الجوینی کے نزدیک اس لفظ کا تتبع کیا اور ان پر یہ ظاہر ہوا کہ اس سے مراد ان کے نزدیک درج ذیل لوگ ہیں:

1-            صاحب التقريب: القاسم بن محمد بن علي، ابن القفال الكبير المروزي (ت: 399 ھ).

2-           القفال الصغير المروزي، عبد الله بن أحمد (ت: 417 ھ).

3-           الأستاذ أبو إسحاق الإسفراييني (ت: 418 ھ).

4-           الشيخ أبو بكر الصيدلاني (ت: 427 ھ).

5-           الشيخ أبو علي السِّنْجِيّ (ت: 430 ھ).

6-           الشيخ أبو محمد الجُوَيْنِيّ (ت: 438 ھ).

7-           القاضي حسين (ت: 462 هـ).

·      أفتي به الوالد (والد صاحب نے اس پر فتوی دیا)الجمال الرملی (یعنی شمس الدین الرملی صاحب النهاية) کی اس سے مراد ان کے والد شہاب الرملی ہوتے ہیں۔

·      أبو العباس: جب امام شیرازی (م 476 ھ) اپنی کتاب المہذب میں مطلقا ابو العباس کا ذکر کریں تو اس سے مراد ابن سریج (م 306 ھ) ہوتے ہیں۔ ان کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔

·      أبو سعيداگر شیرازی ابو سعید کا مطلقا ذکر کریں تو اس سے مراد الاصطخری (244 ھ -  328 ھ) ہوتے ہیں۔  ان کا ذکر بھی اوپر گزر چکا ہے۔

·      أبو إسحاقاگر ابو اسحاق کا مطلقا ذکر ہو تو اس سے مراد المروزی (م 340 ھ) ہوتے ہیں۔ امام نووی ان کے بارے میں تہذیب الاسماء واللغات (2/175) میں فرماتے ہیں: "مذہب میں جب ابو اسحاق کو مطلقا ذکر کیا جائے تو وہ المروزی ہوتے ہیں۔۔۔ وہ ہمارے جماہیر اصحاب کے امام اور شیخ المذہب تھے۔ ان پر طریقہِ عراقیین اور طریقہِ خراسانیین کی انتہاء ہوتی ہے۔۔۔ انہوں نے ابن سریج سے فقہ حاصل کی اور مذہبِ شافعی کو عراق اور باقی شہروں میں پھیلایا۔ ان کا نام ابراہیم بن احمد المروزی ہے۔ ان کی عدالت اور روایت ودرایت میں توثیق پر اتفاق ہے۔"۔اپنے زمانے میں وہ مذہب کے سب سے بڑے امام تھے۔  اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ مصر میں منتقل ہو گئے اور وہیں پر فوت ہوئے۔ انہیں امام شافعی کے مقبرے میں دفنایا گیا۔

·      الأستاذ أبو إسحاق، والشيخ أبو إسحاق:پہلے والے سے مراد استاذ ابو اسحاق الاسفرایینی ہیں، انہیں غالب طور پر: استاذ ابو اسحاق کہا جاتا ہے۔ ان کا نام: ابراہیم بن محمد بن ابراہیم بن مہران الاستاذ الاسفرایینی ہے وہ مجتہد ومتکلم واصولی تھے۔ ان سے ابو الطیب الطبری نے درس لیا، اور نیسابور کے عام شیوخ نے انہی سے علم الکلام اور اصول اخذ کیے۔ان کی وفات (418 ھ) میں ہوئی۔

جبکہ الشیخ ابو اسحاق سے مراد ابراہیم بن علی بن یوسف بن عبد اللہ الشیرازی الفیروزآبادی ہیں۔ یہ المہذب ، التنبیہ اور الطبقات کے مصنف ہیں۔ یہ عراقی تھے جبکہ استاذ ابو اسحاق خراسانی تھے۔ ان کی وفات (472 ھ) میں ہوئی۔

·      القاضي أبو حامد، والشيخ أبو حامد:  پہلے والے سے مراد قاضی ابو حامد احمد بن بشر بن عامر العامری المَرْوَرُّوْذِيُّ ہیں ان کی نسبت مرو الروذ کی طرف ہے۔ یہ امام ابو اسحاق المروزی (م 340 ھ) کے شاگرد تھے۔ انہوں نے الجامع فی المذہب،  شرح مختصر المزنی، اور اصول پر کتب لکھی ہیں۔وہ بصرہ میں رہے اور وہاں کے فقہاء نے ان سے فقہ اخذ کی۔ان کی وفات (362 ھ) میں ہوئی۔

جبکہ شیخ ابو حامد سے ابو حامد الاسفرایینی (م 406 ھ) مراد ہوتے ہیں، جن کا ذکر طریقہِ عراقیین کے اصحاب میں گزر چکا ہے۔

·      القفالاگر امام نووی اپنی کتاب المجموع میں القفال کا مطلقا ذکر کریں تو اس سے مراد القفال الصغیر المروزی (م 417 ھ) ہوتے ہیں۔ اور جب وہ القفال الکبیر الشاشی (م 365 ھ) کا ذکر کرتے ہیں تو انہیں الشاشی کے وصف سے ذکر کرتے ہیں۔

·      المحمدون الأربعةاس سے مراد ہیں: (1) محمد بن نصر ابو عبد اللہ المروزی (م 294 ھ)، (2) محمد بن ابراہیم بن المنذر (م 310 ھ)، (3) محمد بن جریر الطبری (م 310 ھ)، اور (4) محمد بن اسحاق بن خزیمہ (م 311ھ)۔ یہ چاروں اصحاب شافعی مذہب کی طرف منتسب ہونے کے ساتھ ساتھ درجہِ اجتہادِ مطلق تک پہنچے ہوئے تھے۔

مؤلفات اور تصنیفات سے متعلق اصطلاحات:

تعددِ اقوال اور وجوہ کے بیان کے لئے اصطلاحات:

·      القول القديممام شافعی نے اپنی آخری زندگی میں مصر منتقل ہونے سے پہلے اپنی تصنیف وتالیف، درس وتدریس، اور فقہ وفتاوی وغیرہ میں جو بات ارشاد فرمائی، جو احکام ومسائل بیان کئے، چاہے بعد میں ان سے رجوع کیا ہو یا نہ کیا ہو، اسے قولِ قدیم کہتے ہیں ۔ اور اس میں وہ اقوال بھی شامل ہیں جو انہوں نے مصر کے راستے میں کہے۔ جب کہا جائے کہ  "یہ قدیم قول ہے" تو مطلب یہ ہو گا کہ جدید قول اس کے خلاف ہے۔ قولِ قدیم کو "المذهب القديم" سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔

·      القول الجديد: امام شافعی نے اپنی آخری زندگی میں مصر منتقل ہونے کے بعد اپنی تصنیف وتالیف، درس وتدریس، اور فقہ وفتاوی وغیرہ میں جو بات ارشاد فرمائی، جو احکام ومسائل بیان کئے، اسے قولِ جدید کہتے ہیں۔ جب کہا جائے کہ "یہ جدید قول ہے" تو مطلب یہ ہو گا کہ قدیم قول اس کے خلاف ہے۔ اور اسے "المذهب الجديد" سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔

·      الأقوال: اس سے مراد امام شافعی کے اجتہادات اور خود ان کے اپنے بیان کردہ اقوال ہیں، چاہے وہ قدیم ہوں یا جدید۔

·      القولان: یہ امام شافعی کے دو اقوال میں اختلاف کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی کسی مسئلے میں امام شافعی کے دو قول ہونا۔ ان میں راجح وہ ہو گا جس کی ترجیح پر نص وارد ہو۔

·      الطرق: اس کا اطلاق اصحاب کا مذہب کی حکایت ونقل میں اختلاف پر ہوتا ہے۔

·      الأوجه يا الوجوه: اس سے مراد ان اصحاب کے اجتہادات ہیں جو امام شافعی اور ان کے مذہب کی طرف منتسب ہیں۔ اصحابِ وجوہ اور مجتہدینِ منتسبین فقہائے شوافع نے امام شافعی کے بعد پیش آنے والے مسائل میں امام شافعی کے بتلائے ہوئے اصول وضوابط کے مطابق کتاب وسنت سے ہم آنگ انکا جو شرعی حل پیش کیا ان کے اس حل کو "وجہ" کہتے ہیں۔

ترجیح واختیار کی مشہور اصطلاحات:

·      المذهب يا المعتمد: کسی مسئلہ کے حکم میں مذہبِ شافعی کے نقل کرنے میں اصحابِ وجوہ کا اختلاف ہو یعنی الگ الگ طرق پر مسئلہ کی تخریج ہو، ایسے اقوال کو ذکر کرنے کے بعد کوئی شافعی مصنف دلائل کی بناء پر کسی ایک قول وطریق کو راجح قرار دے کر اسے "المذہب" یا "المعتمد" کے لفظ سے نقل کرتے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ یہ حکم مذہبِ شافعی کے اصول وضوابط کے مطابق قابلِ عمل ولائقِ فتوی ہے۔اور وہ اسے یوں کہے گا: "علي المذهب" یعنی مذہب پر یہ مسئلہ اس طرح ہے (یعنی طرق میں سے راجح طریق کے مطابق مذہب یہ ہے)۔

·      النص: یہ امام شافعی کا وہ قول ہے جو ان کی کتاب میں منصوص (لکھا ہوا) ہے۔ اسے نص اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ مذہب کے امام (یعنی شافعی) کی قول پر خود صراحت ووضاحت کی وجہ سے اس کی قدر ومنزلت بلند واعلی ہے۔ اختلاف کی صورت میں نص راجح قرار پائے گی۔ اس کے مقابلے میں امامِ مذہب کے اصول وضوابط کی روشنی میں کسی مسئلہ میں تخریج شدہ قول کو  القول المخرّج کہا جاتا ہے۔

·      المشهور والغريب: کسی مسئلے پر امام شافعی کے دو یا دو سے زائد اقوال ہوں تو ان میں سے راجح قول کو مشہور قول کہا جاتا ہے بشرطیکہ ان کے دیگر اقوال میں اختلاف کی نوعیت ان اقوال  کی کمزور دلیل کی وجہ سے ضعیف ہو۔ اس کے مقابلے میں جو قول کمزور دلیل والا ہو اسے غریب قول کہتے ہیں۔

·      الأظهر والظاهر: کسی مسئلے پر امام شافعی کے دو یا دو سے زائد اقوال ہوں تو ان میں سے راجح قول کو اظہر قول کہا جاتا ہے بشرطیکہ ان کے دیگر اقوال میں دلائل کی قوت کے اعتبار سے اختلاف قوی ہو۔ اس کے مقابلہ میں جو قول ہو اسے ظاہر کہتے ہیں۔

·      الأصح: کسی مسئلے پر امام شافعی کے اصحاب کے دو   یا دو سے  زیادہ وجوه ہوں تو ان میں سے راجح وجه کو اصح کہا جاتا ہے بشرطیکہ دیگر وجوه میں اختلاف ان کی مضبوط دلیل کی وجہ سے قوی ہو۔ پس اصح کو راجح کہا جائے گا اور اس کے بالمقابل کو صحیح۔ اس معنی کے مطابق اصح یہ اظہر کے مترادف ہے، اور صحیح یہ ظاہر کے ہم معنی ہے۔

·      الصحيح: کسی مسئلے پر امام شافعی کے اصحاب کے دو   یا دو سے  زیادہ وجوه ہوں تو ان میں سے راجح وجه کو صحیح کہا جاتا ہے بشرطیکہ دیگر وجوه میں اختلاف ان کی کمزور دلیل کی وجہ سے ضعیف ہو۔ پس صحیح کو راجح کہا جائے گا اور اس کے بالمقابل کو ضعیف یا فاسد کہتے ہیں۔

·      الأشبه: اس سے مراد وہ حکم ہے  جو علت کے اعتبار سے قوی تر ہو۔ اگر کسی مسئلے میں دو حکم ہوں جو قیاس پر مبنی ہوں لیکن ان میں سے ایک کی علت زیادہ قوی ہو، تو اسے اشبہ کہتے ہیں۔

·      التخريج: اس کی تفصیل یہ ہے کہ امام شافعی نے دو مختلف مگر ملتی جلتی صورتوں پر دو الگ الگ حکم بیان فرمائے لیکن ان دونوں کا فرق واضح نہ ہو، جس کے سبب اصحاب نے ان کے ہر دو جوابوں کو ان ہر دو مسئلوں میں نقل کیا تو اس طرح ہر صورت میں امام شافعی کے دو اقوال حاصل ہوئے: ایک منصوص دوسرا مخرج۔ ایک مسئلے میں منصوص قول دوسرے مسئلے میں مخرج قول ٹھہرا، اور دوسرے مسئلے میں منصوص قول پہلے مسئلے میں مخرج ٹھہرا۔ تو کہا جائے گا: اس مسئلے میں امام شافعی کے دو قول ہیں ایک بذریعہ نقل اور ایک بذریعہ تخریج (قولان بالنقل والتخريج

·      علي الأوجه: اس سے مراد اصحاب کے وجوہ میں سے اصح وجہ کی طرف اشارہ ہے۔

·      عليه العمل يا عليه الفتوي: یہ ترجیح وقابلِ عمل قول وفتوی کا بیان ہے۔

·      كما يا لكن: تحفہ المحتاج میں کما یا لکن کہنے کے بعد جو ہو گا وہی معتمد ہو گا الا یہ کہ اس کے بعد صراحتا کسی بالمقابل قول کی ترجیح یا تضعیف کردی جائے۔ اور مزید یہ کہ لکن کے بعد جو ہو گا وہ معتمد ہو گا اگر اس سے پہلے کما نہ کہاگیا ہو۔

اقوالِ فقہاء واحکام ودلائل کی تضعیف کے صیغے:

·      في قولٍ يا في وَجْهٍ: یہ اختلاف کی طرف اشارہ ہے۔اور اس میں امام شافعی کے اقوال یا اصحاب کے وجوہ دونوں شامل ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ قول یا یہ وجہ ضعیف ہے۔ اور اس قول کے مقابلہ میں جو قول ہے وہ اظہر یا مشہور ہے، یا اس وجہ کے مقابلہ میں جو وجہ ہے وہ اصح یا صحیح ہے۔

·      إن صح هذا: بظاہر یہ عدم اعتماد کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ ابن حجر نے التحفہ میں کتاب الجنائز میں بیان کیا ہے۔

·      وقع لفلان كذا: اس کے بعد اگر ترجیح یا تضعیف کی طرف اشارہ کر دیا جائے تو اسی پر اعتماد ہو گا، ورنہ اسے قول کی تضعیف شمار کیا جائے گا، جیسا کہ شیخ محمد بن احمد بن عبد الباری، اور علامہ سلیمان بن محمد بن عبد الرحمن مفتی زبید نے بیان  کیا ہے۔

·      زعم فلان: (فلاں کا گمان وخیال ہے کہ)۔ کبھی یہ "فلاں نے کہا" کہ معنی میں بولا جاتا ہے لیکن اکثر اوقات یہ اس پر کہا جاتا ہے جس میں شک ہو۔

·      فهو محتمل: اس کو اگر دوسرے میم کے فتحہ کے ساتھ لکھا گیا ہے (محتمَل) تو یہ ترجیح کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ یہ قریب کے معنی میں ہے یعنی مذکورہ رائے یا حکم درستگی یا حق سے قریب ہے۔ اور اگر اسے دوسرے میم کے کسرہ کے ساتھ لکھا گیا ہے (محتمِل) تو یہ ترجیح کے معنی میں نہیں ہو گا بلکہ یہ احتمال کے معنی میں ہے، یعنی مذکورہ رائے یا حکم میں تاویل کی گنجائش ہے اور یہ کمزوری کی علامت ہے۔ اور اگر اسے کسی بھی اعراب کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا تو اس مسئلے کی حقیقتِ حال جاننے کے لئے دیگر متاخرین کی کتب کی مراجعت کی جائے گی۔

·    إن قيل: اس سے مراد معترض کے ضعیف اعتراض کو بیان کرنا ہے۔

·    وقد يقال: اس سے مراد ایسے اعتراض کو بیان کرنا ہے جس کا ضعف شدید ہو۔

·    لقائل: اس سے مراد ضعیف استدلال کا بیان ہے۔

·    صيغ التمريض: جيسے قیل، إن قيل،قیل فیہ، وغیرہ، یہ سب ضعف پر دلالت کرتے ہیں۔

·    فيه نظر: کسی مسئلہ کے کسی حکم کے فساد وضعف کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

اقوالِ فقہاء واحکام ودلائل کی توضیح کے صیغے:

·      لا يبعد كذا: یہ احتمال کے لئے ہے۔ اس پر بولا جاتا ہے جو دلیل کے قریب ہو۔

·      علي ما شمله كلامهم: یہ اشارہ ہے مصنف کا کسی چیز سے احتراز کرنے پر یا اس کے مشکل ہونے پر۔

·      كذا قالوه يا كذا قاله فلان: یہ معنی کے اعتبار سے اس سے پہلے جیسا ہی ہے۔

·      علي ما اقتضاه كلامهم يا علي ما قاله فلان يا هذا كلام فلان: یہ صیغہِ احترازہے جیسا کہ صراحت کی گئی ہے۔ بعض اوقات اس سے ترجیح بھی کی جاتی ہے لیکن اکثر اوقات تضعیف کی جاتی ہے، تو اس کے بالمقابل جو ہو گا وہ معتمد ہو گا۔

·      الذي يظهر: یعنی کسی کلام میں جو فہم واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔

·      لم نر فيه نقلا: اس سے مراد نقلِ خاص ہے، نقلِ عام نہیں۔

·      الإختيار: اس سے مراد کسی عالم  کا اپنا اجتہاد ہے جو اس نے ادلہِ اصولیہ سے استنباط وتحقیق کر کے اختیار کیا اور وہ مذہب کے کسی امام کی نقل پر مشتمل نہیں ہوتا، یعنی اس عالم نے یہ مسئلہ کسی صاحبِ مذہب کی نقل سے نہیں اخذ کیا، چنانچہ مذہب میں اس کا اعتبار نہیں ہو گا۔

·      المختار: یہ امام نووی کے نزدیک مذہب کے زیادہ مشہور موقف کے خلاف کسی مسئلہ میں ترجیح دینے کا ایک لفظ ہے۔  امام نووی فرماتے ہیں: "جب کوئی مسئلہ ایسا آئے جس کوبہت کم فقہاء شوافع نے راجح قرار دیا ہو جبکہ صحیح وصریح دلیل اس کی تائید میں موجود ہو، تو میں کہتا ہوں: «المختار كذا» پس مختار اس بات کی تصریح ہے کہ یہ مسئلہ دلیل کے اعتبار سے راجح ہے اور فقہاء شوافع میں سے بہت  کم لوگوں نے اس کو ترجیح دی ہے جبکہ مذہب کا زیادہ مشہور قول اس کے خلاف ہے[55]

اس کے برعکس جب امام نووی کتاب الروضہ میں اس کا استعمال کریں تو اس سے مراد مذہب کے اندر اصح قول ہوتا ہے، چنانچہ وہاں پر یہ لفظ "اصح" کے مترادف ہو گا جس کا ذکر اوپر گزرا۔

·      أصل الروضة: اس سے مراد امام نووی کی کتاب روضۃ الطالبین کی وہ عبارت ہے جس کو امام نووی نے امام رافعی کی کتاب العزیز شرح الوجیز سے ملخصا واختصارا بیان کیا ہے۔

·      زوائد الروضة: اس سے مراد امام نووی کی زیادت ہے جو انہوں نے العزیز پر کی۔

·      الروضة: اس میں روضہ اور زوائد روضہ میں سے کسی کی طرف نسبت پر عدمِ تاکید ہے۔ اس سے دونوں میں سے کوئی بھی مراد ہونا محتمل ہے۔ بعض اوقات اسے اصل الروضہ کے معنی بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

·      كذا في الروضة وأصلها يا كذا في الروضة كأصلها: پہلے والے کا معنی یہ ہے کہ جو عبارت نقل کی گئی ہے اس کے الفاظ روضہ اور اس کی اصل یعنی العزیز دونوں میں ایک ہیں اور ان کے الفاظ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جبکہ دوسرے والے سے مراد یہ ہے کہ الروضہ اور اس کی اصل یعنی العزیز میں الفاظ کا معمولی سا فرق ہے۔

·      سكت عليه: فلاں نے اس پر خاموشی اختیار کی یعنی وہ اس سے راضی تھے۔

·      أقره فلان: یعنی اس نے اس کا رد نہیں کیا تو وہ اس میں جازم کی طرف ہے۔

·      لم يتعقبه: عدمِ تعقب ترجیح کو لازم نہیں کرتا، لیکن یہ اس میں ظاہر ہے۔

·      الإقتضاء: یہ ظاہر سے اوپر کا رتبہ ہے۔ یعنی یہ بیان کیے گئے معنی کو لازم کرتا ہے۔ ائمہ کا کلام اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اقتضاء سے مراد کسی حکم میں بابِ اول سے داخل ہونا  ہے ۔ اس کے برعکس ظاہر وہ مفہوم ہے جو بلا تصریح ہو۔

·      نبه عليه: اس سے مراد  اصحاب کے کلام سے معلوم شدہ بات ہے۔

·      كما ذكره: جیسے ان کا کہنا: (كما ذكره الأذرعي)، اس سے مراد یہ ہے کہ یہ کلام اس شخص کی اپنی طرف سے ہے۔

·      الظاهر كذا: یہ کہنے والے کی بحث کا حصہ ہے، اس کا کسی نقل سے تعلق نہیں۔

·      الفحوي: کسی کلام کے مراد کو بطریقِ قطع سمجھ لینا۔

·      مقتضي الكلام، قضية الكلام: کسی چیزپر بغیر صراحت کے حکم لگانے کے لئے بولا جاتا ہے۔

·      قال بعض العلماء: اس کا استعمال عموما تب کیا جاتا ہے جب منقول عنہ (جس سے نقل کیا گیا) حیات  ہو، کیونکہ ہو سکتا ہے وہ اپنے قول سے رجوع کر لے، لیکن جب وہ فوت ہو جائے تو ان کے نام کی صراحت کی جاتی ہے۔

·      وعبارته كذا: اس سے مرادعبارتِ منقولہ کے الفاظ کا تعین کرنا ہے، نیز اس میں سے کسی بھی قسم کی تبدیلی جائز نہیں۔

·      قال فلان: اس میں اختیار ہے کہ عبارت کے عین لفظ کو ذکر کیا جائے، یا پھر اس کے معنی کو بیان کیا جائے، نیز اس میں الفاظ کے معانی میں کسی قسم کی تبدیلی جائز نہیں۔

·    اهـ مُلَخَّصًااس سے مراد یہ ہے کہ جو بیان کیا گیا وہ بطورِ خلاصہ بیان ہوا، یعنی کہنے والے کے الفاظ سے جو مقصود تھا وہ بیان کیا گیا، باقی سب کے علاوہ۔

·    المعني: اس سے مراد الفاظ کے مفہوم کی تعبیر بیان کرنا ہے۔

·    حاصل الكلام: (بات کا مطلب ومعنی یہ ہے کہ): کسی مسئلہ کو مختصرا واجمالی طور پر پیش کرنے کے بعد اس کی مکمل وضاحت وتفصیل کرنے کے لئے یہ تعبیر استعمال ہوتی ہے۔

·    مُحَصَّل الكلام: (خلاصۂ کلام یہ کہ):  کسی مسئلہ کو تفصیلی طور پر پیش کرنے کے بعد اس کی چند جملوں میں وضاحت کرنے کے لئے یہ تعبیر استعمال ہوتی ہے۔

·    تحرير الكلام أو تنقيحه: (اس مسئلہ کی اصلیت وحقیقت یہ ہے کہ):  فقہ کی کتابوں کے حاشیہ نگار اور تشریح وتفصیل بیان کرنے والے حضرات اصلِ مسئلہ میں موجود کسی کمی وخامی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے یا پھر عبارت میں موجود زائد چیزوں کو الگ کرنے کے لئے یا کبھی عبارت ومسئلہ کی مزید توضیح وتفصیل کے لئے مذکورہ تعبیرات استعمال کرتے ہیں ۔

·    تنزل منزلته، أنيب منابه، أقيم مقامه: پہلے والے سے مراد ہے کسی اعلی چیز کا کسی ادنی چیز کی جگہ یا مقام پر آنا، دوسرے والے سے مراد ہے دو چیزوں کا عکس ہونا، اور تیسرے والے سے مراد دو چیزوں میں برابری ہونا ہے۔

·    تأمل، فتأمل، فليتأمل: (یعنی غور کرو): اس سے اس مسئلہ کی اہمیت وباریکی کی طرف توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے، یا پھر عبارت و زیرِ بحث مسئلہ سے اعتراضات، اشکالات وشبہات کو دور کرنے کا ارادہ ہوتا ہے یا پھر مصنف وہاں اپنا مقصود ومطلوب واضح کرنا چاہتا ہے۔ عموما تأمل میں قوی جواب کی طرف اشارہ ہے، فتأمل میں کمزور جواب کی طرف اشارہ ہے، اور فليتأمل میں کمزور تر جواب کی طرف اشارہ ہے۔

·    السؤال وجوابه: کسی اعتراض یا شبہ کو سوال وجواب کے اسلوب میں پیش کیا جائے تو اگر کوئی سوال قوی ہو تو کہا جاتا ہے: (ولقائل اور اس کے جواب میں کہا جاتا ہے: (أقول) يا (تقول) ۔ اگر کوئی سوال ضعیف ہو تو کہا جاتا ہے: (فإن قلت)، (قلتَ)، یا (قيل)، اور اس کے جواب میں کہا جاتا ہے: (قلنا

·    العمدة: (قابلِ اعتماد): کسی کلام یا حکم کو اگر ہم عالم کی تصنیف اور اس کے فتوے دونوں میں پائیں تو عمدہ (قابلِ اعتماد) وہی ہو گا جو اس کی تصنیف میں ہے۔ اور اگر کوئی حکم یا مسئلہ ایک ہی کتاب میں اس کے متعلقہ باب اور غیر متعلقہ باب دونوں میں پائیں تو عمدہ وہی ہو گا جو اس مسئلہ کے متعلقہ باب میں ہے۔ اور کوئی کلام اس کی جگہ اور اس کی جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ پایا جائے تو عمدہ وہی ہو گا جو اس کی جگہ پر پایا جائے۔

·      اتفقوا يا لا خلاف فيه يا هذا مجزوم به: اس سے مراد اہل مذہب کا اتفاق ہے فقط، دیگر مذاہب کا اتفاق اس میں شامل نہیں۔

·    مجمع عليه: اس  پر کہا جاتا ہے جس پر تمام ائمہِ اسلام کا اجماع ہو۔

·    يجوز: یہ جب معاہدوں پر بولا جائے تو صحت کے معنی میں ہوتا ہے، اور جب افعال پر بولا جائے تو حلال یا جائز کے معنی میں ہوتا ہے۔

·    ينبغي: اس كا غالب استعمال مندوب و مستحب وسنت کو بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے اور کبھی وجوب کو بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ ان میں سے کسی پر بھی اس کو محمول کرنا کسی قرینے کے ساتھ ممکن ہے۔

·    لا ينبغي: اس كا استعمال کبھی حرمت کو بیان کرنے کے لئے تو کبھی کراہت کو بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے۔

مذہبِ شافعی کا دراسہ کرنے والے کے لئے بعض ہدایات وتنبیہات:

شافعی مذہب کا مطالعہ کرنے والے طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ وہ درج ذیل تنبیہات کا خیال رکھے۔

1-      شافعیہ کے نزدیک تعلیمی مراحل کا اہتمام کرے

اس میں تین مراحل ہیں:

پہلا مرحلہ: مختصر متون کا دراسہ:

یہ موضعِ اجتہاد ہے۔ طالب علم کے لئے ممکن ہے کہ وہ بعض ایسے رسائل کا اختیار کرےجن میں شافعی مذہب کے راجح اور معتمد اقوال جمع ہوں۔یہ مرحلہ تین مراتب پر مشتمل ہے:

پہلا مرتبہ: اس میں درج ذیل رسائل  کا مطالعہ کرے:

1)             الرسالة الجامعة والتذكرة النافعة لأحمد بن زيد الحبشي، اس کے بعد

2)              المختصر الصغير لعبد الله بن عبد الرحمن بافضل، اس کے بعد

3)             سفينة النجاة لابن سمير۔

دوسرا مرتبہ: اس میں درج ذیل کتاب کا مطالعہ کرے:

1)             المختصر الكبير لعبد الله بن عبد الرحمن بافضل المشهور بالمقدمة الحضرمية أو مسائل التعليم

تیسرا مرتبہ: اس میں درج ذیل کتاب کا مطالعہ کرے:

1)             الياقوت النفيس في مذهب ابن إدريس لأحمد بن عمر الشاطري

دوسرا  مرحلہ: متوسط متون کا دراسہ:

اس میں طالب علم کے لئے ممکن ہے کہ درج ذیل دو متون میں سے کسی ایک کا مطالعہ کر لے:

1)             عمدة السالك وعدة الناسك لابن النقيب

2)             متن الغاية والتقريب المشهور بمتن أبي شجاع – اس پر ایک تنبیہ یہ ہے کہ اس متن میں بعض مسائل ایسے بھی ہیں جو مذہب میں راجح قول کے خلاف ہیں۔ العمریطی نے اس متن کو ایک نظم میں ڈھالا ہے اور اس میں ان مسائل کا ذکر کیا ہے جن میں مذہب کے راجح قول کی مخالفت ہے اور ان میں راجح قول کی نشاندہی بھی کی ہے۔

تیسرا  مرحلہ: منہاج الطالبین کے متن کا دراسہ:

یہ مذہب کے طلب کا آخری مرحلہ ہے۔ اور اس میں منہاج الطالبین کی چار شروح پر خاص تاکید ہے:

1)             تحفة المحتاج لابن حجر الهيتمي

2)             نهاية المحتاج للرملي

3)             كنز الراغبين لجلال الدين المحلي

4)             مغني المحتاج للخطيب الشربيني

2-       مذہب  کے مطالعہ کے پہلؤوں کی معرفت

یہ تین اساسی علوم پر مشتمل ہے:

1)         علم اصول الفقہ

علم الاصول کا مطالعہ مراحل میں کیا جائے:

پہلا مرحلہ: كتاب الورقات لإمام الحرمين أبي المعالي الجويني

دوسرا مرحلہ: كتاب اللمع لأبي إسحاق الشيرازي

تیسرا مرحلہ: جمع الجوامع لابن السبكي

2)         علم القواعد الفقهية

قواعدِ فقہیہ کا مطالعہ درج ذیل مراحل میں ممکن ہے:

پہلا مرحلہ: إيضاح القواعد الفقهية لعبد الله بن سعيد اللحجي

دوسرا مرحلہ: منظومة الأهدل

تیسرا مرحلہ: الأشباه والنظائر للسيوطي

3)         علم الفروع

اس کی تفصیل اوپر دے دی گئی ہے۔

3-       مذہب کی تعلیم کے ساتھ آدابِ طلبِ علم کی تعلیم لینا

اس کے لئے ممکن ہے کہ درج ذیل کا مطالعہ کیا جائے:

1)             مقدمہ کتاب المجموع للنووی

2)              تذكرة السامع والمتکلم فی ادب العالم والمتعلم لابن جماعۃ

3)             جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر

4)              اخلاق العلماء للآجری

5)              کتاب العلم للعثیمین

4-       مذہب کے مسائل کا معتبر طریقے پر مطالعہ کرنا

اس کی دو جہتیں ہیں:

اول:ضبطِ ادنی

اس سے مراد یہ ہے کہ فقہ کا طالبِ علم ہر ایک مسئلے میں چار امور کی معرفت رکھے:

1)             صورة المسألة (مسئلے کی صورت یا اس کی حقیقت کا علم ہونا)

2)              معرفة حكمها علي المعتمد (مسئلے کے معتمد حکم کا علم) – یعنی اس مسئلے کا مذہب کے معتمد قول کے مطابق جو حکم ہے جیسے فرض، مستحب، مکروہ، حرام، مباح  وغیرہ، اس  کا علم ہونا ۔

3)             معرفة قيود الحكم (اس حکم کے قیود/ شروط کا علم) – مثلا: شافعیہ کے نزدیک فاتحہ کی قراءت نماز کا رکن ہے، اور اس کی شروط ہیں: الفاظ کی ترتیب، اور مخارج کا ضبط۔ تو اگر یہ شروط پوری نہ ہوں تو حکم مکمل نہ ہو گا۔

4)              الاستثناءات (حکم کی استثنائی حالتیں) – مثلا: نماز میں قراءتِ فاتحہ کے مسئلے میں ایک استثنائی حالت ایسے جاہل اور اَن پڑھ شخص کی ہے جسے فاتحہ نہیں آتی، تو اس کی نماز اس کے بغیر بھی صحیح ہو گی۔

دوم: ضبطِ تام یا اعلی

اس میں بھی چار امور ہیں:

1)             دلیل کی معرفت ہونا، اور یہ کہ اس مسئلے پر امامِ مذہب کی نص ہے یا مذہب کے مجتہد کا قول، اور ضروری ہے وہ دونوں امام کے قواعد اور مقررہ اصولوں کے موافق ہوں۔

2)              شافعی فقہاء کے مابین اختلاف اور اتفاق کی معرفت ہونا۔

3)             قولِ قدیم وقولِ جدید، اور مذہب کے وجوہ کی معرفت ہونا۔

4)              مذہب کی طرف منتسب فقہاء کی معرفت ہونا۔

5-       ضبطِ مذہب میں علماء کے مراتب کی معرفت

اور یہ تین مراتب ہیں:

1)         مجتہدون:

مجتہدین کے بھی چار مراتب ہیں:

·    مجتہد مطلق

وہ مجتہد جو اصول، فروع، ادلہ سے استنباط، روایتوں کی تصحیح وتضعیف اور ان میں ترجیح، اور راویوں کی تعدیل وتجریح وغیرہ جیسی شروطِ اجتہاد میں مستقل طور پر خود اجتہاد کرے۔ اپنے اجتہاد کی عمومی اساس کو وضع کرے اور قواعد کا سانچا تیار کرے، اور ادلہ کی راہ ہموار کرے۔ نیز اس سلسلے میں وہ کسی دوسرے امام کی طرف منتسب نہیں ہوتا اور نہ کسی کی تقلید کرتا ہے۔ یہ حال قرونِ اولی کے ائمہ مجتہدین ومتبوعین کا ہے جیسے ابو حنیفہ، مالک، شافعی، احمد، ثوری، اوزاعی،اور  لیث بن سعد، وغیرہ۔

·    مجتہد منتسب

یہ وہ مجتہد ہے جو کتاب وسنت سے اخذ کرنے میں اجتہادِ مطلق کے رتبہ کو پہنچ چکا ہو لیکن استقلالِ کامل کے اس درجہ تک نہیں پہنچا جس میں اصولوں کی تاصیل کرے جو اس کے ساتھ خاص ہے۔ پس وہ مجتہد مطلق ائمہ میں سے کسی امام کے اصولوں پر احکام کا استخراج واستنباط کرتا ہے لیکن وہ اپنے امام کا مقلد نہیں ہوتا، نہ اس کے مذہب میں، نہ اس کی دلیل میں۔ اور وہ اجتہاد میں اس امام کے طریقے پر چلنے کی وجہ سے اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ وہ اس امام کی موافقت بھی کرتا ہے اور مخالفت بھی۔ اگر وہ اپنے اجتہاد میں امام کی موافقت کرے تو وہ تقلید کی قبیل سے نہیں ہو گا بلکہ اداء میں اتفاق کی قبیل سے ہو گا۔ اور اگر وہ امام کی مخالفت کرے تو اس کا خلاف اپنے نزدیک ادلہ واستنباط کے سبب کسی چیز کے راجح ہونے کی وجہ سے ہو گا۔

مذہبِ شافعیہ میں مجتہد منتسب کی مثال: امام ابو بکر محمد بن ابراہیم بن المنذر، امام اسماعیل بن یحیی المزنی، امام محمد بن نصر المروزی، امام محمد بن جریر الطبری، اور امام محمد بن خزیمہ وغیرہ کی ہے۔

·    مجتہد المذہب

یہ وہ مجتہد ہے جو مجتہد مطلق اور مجتہد منتسب کے درجے تک نہیں پہنچتا لیکن اس کا مبلغ علم اس رتبے تک پہنچتا ہے کہ وہ اس قابل ہو سکے کہ وہ مختلف واقعات کو دیکھ کر ان کے حکم کو امامِ مذہب کی نصوص سے ان کی علت اور حقیقت کو جان کر ان سے تخریج کر سکے۔ وہ اس طرح کہ مذہب کے امام نے جس مسئلے پر سکوت کیا اس کو ان کے اس مسئلے پر قیاس کیا جائے جس میں ان کی نص موجود ہو، یا وہ مسئلہ  اس منصوص مسئلے کی عموم کے تحت شامل ہو،یا وہ مسئلہ امام کے قواعد میں سے کسی قاعدہِ عامہ میں شامل ہوتا ہو۔ اسی طرح یہ مجتہد بعض اوقات اپنے امام کے اصول وقواعد اور ان کے مقتضیات کی قید کے ساتھ شرعی نصوص سے براہِ راست بھی شرعی احکام کا استنباط کرتا ہے جس طرح ایک مجتہد منتسب کرتا ہے۔

شافعیہ کے نزدیک مجتہد المذہب کو اصحاب الوجوہ کہا جاتا ہے۔ اور امام شافعی کے اصحاب وتلامذہ میں سے مجتہد المذہب کی مثال: امام بویطی، امام یونس بن عبد الاعلی، اور امام الربیع المرادی کی ہے۔ اور ان کے اصحاب کے علاوہ مجتہد المذہب کی مثال: امام الانماطی، امام ابن سریج، امام الاصطخری، امام ابو اسحاق المروزی،  امام ابن خیران، قاضی ابن ابی ہریرہ، ابو القاسم الصیمری، اور ابو بکر الصیدلانی وغیرہ  کی ہے۔

·    مجتہد الفتوی والترجیح

وہ مجتہد جو اصحاب الوجوہ کے طبقہ کے نیچے ہو، یعنی  ان کا درجہ مذہب کے حفظ، اس کے اصول وقواعد کے تجربے، استنباط میں مہارت، اور اجتہاد کے دیگر مسالک ووسائل میں اصحاب الوجوہ کے درجے تک نہیں پہنچتا۔ یہ صفت متاخرین میں سے اکثر علماء کی ہے جنہوں نے مذہب کی ترتیب اور تحریر کا کام کیا۔ اور بعض اوقات یہ لوگ امام کی نصوص، اور اس کے قواعد کی بناء پر ادلہ شرعیہ سے براہ راست بھی استنباط کرتے ہیں چنانچہ ان کے اپنے وجوہ، واختیارات بھی ہوتے ہیں لیکن ان کی اکثر محنت وجد وجہد ترجیح وتنقیح پر ہوتی ہے۔ ان مجتہدین میں: ابو الحسن الماوردی، ابو الطیب الطبری، امام الحرمین الجوینی، ابو اسحاق الشیرازی، الرویانی، الرافعی اور النووی وغیرہ شامل ہیں۔

2)         الضابط فی المذہب:

یہ وہ عالم ہے جس کا مذہب کا ضبط مشہور اور متفق علیہ ہو جیسے شیخ الاسلام  زکریا الانصاری، ابن حجر الہیتمی، اور الرملی وغیرہ۔

3)         المشتغلون بالمذہب:

یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے درجات میں متفاوت ہونے کے سبب مذہب کے عالم سے لے کر مذہب کے ابتدائی طالب علم بھی ہو سکتے ہیں۔

6-       مذہب کے اصول وقواعد کی معرفت:

مذہبِ شافعی کو باقی مذاہب پر یہ امتیاز حاصل ہے کہ مذہب کے امام نے خود اپنے مذہب کے اصول مرتب کیے ہیں اور ان کو تفصیلا اور اجمالا اپنی کتابوں: الرسالہ اور الام میں کئی جگہ ذکر کیا ہے۔ استاذ علی الخفیف فرماتے ہیں:

"وقد امتاز مذهب الشافعي بأصوله التي ذكرها صاحبه، ففصَّلها وناضل عنها في كتابيه (الأم) و(الرسالة)؛ التي وضعها في هذا الغرض، فكانت أصولاً لمذهبه مقطوعاً بها غير مظنونة؛ مرويَّة عن الشافعي نفسه، غير مستنبطة من النظر في مذهبه"

"مذہبِ شافعی اپنے اصولوں کے ساتھ ممتاز ہے جو اس کے امام نے (خود) ذکر کیے اور انہوں نے اپنی دو کتابوں الام اور الرسالہ میں ان کا دفاع کیا، جو انہوں نے اسی غرض سے وضع کیں۔ پس ان کے مذہب کے اصول ان میں قطعی ویقینی ہیں ظنی نہیں، (اور) وہ خود امام شافعی سے مروی ہیں، ان کے مذہب کی تحقیق سے مستنبط نہیں۔" [56]

مذہبِ شافعی کے اصول جنہیں "اصول الاستنباط العامہ فی المذہب" سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، بالترتیب درج ذیل ہیں:

1-       اصل اول: قرآن:

قرآن امام شافعی کے نزدیک دین کی اصل اور شریعت کا پہلا مصدر ہے۔ امام شافعی نے فرمایا: "فليست تنزل بأحد من أهل دين الله نازلة إلا وفي كتاب الله الدليلُ على سبيل الهدى فيها" "اللہ تعالیٰ کے دین کے ماننے والوں پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آتی جس کے بارے میں اسے اللہ کی کتاب سے راہنمائی نہ مل رہی ہو۔[57]

اور  فرمایا: "وليس يُؤمر أحدٌ أن يَحكُم بحق إلا وقد علم الحق، ولا يكون الحق معلوماً إلا عن الله نصاً، أو دلالة من الله؛ فقد جعل الله الحق في كتابه، ثم سُنة نبيه صلى الله عليه وسلم؛ فليس تنزل بأحدٍ نازلة إلا والكتاب يدل عليها نصاً أو جملةً" "کسی شخص کو حق کے علم کے بغیر اس کا حکم نہیں دیا گیا، اور حق معلوم نہیں ہوتا سوائے اللہ کی طرف سے نص یا اس کی کسی دلالت کے ذریعے۔ یقینا اللہ نے حق کو اپنی کتاب میں اور پھر اپنے نبی ﷺ کی سنت میں رکھا ہے۔ پس کسی شخص پر کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی الا یہ کہ قرآن میں اس کے بارے میں ہدایت ہوتی ہے نصاً  (یعنی قرآن کی نص میں ہی کوئی ہدایت ہو)یا جملۃ ً (یعنی قرآن میں اشارۃً کوئی ہدایت ہو جس کی تفصیل سنت میں ہو)[58]

2-        اصل ثانی: سنت:

امام شافعی نے ایک جگہ پر سنت کو قرآن کے ساتھ ایک ہی مرتبہ میں رکھا ہے، پس انہوں نے فرمایا: " العلم طبقات شتَّى: الأولى الكتاب والسنة إذا ثبتت..." "علم کے متعدد طبقات ہیں: پہلا طبقہ کتاب اور سنت کا ہے جب سنت ثابت ہو جائے۔۔۔"[59]

جبکہ ایک دوسری جگہ آپ نے انہیں دو مرتبوں میں رکھا ہے: پہلا مرتبہ کتاب کا دوسرا سنت کا۔ انہوں نے فرمایا: " ...والاتباع: اتباع كتاب؛ فإن لم يكن؛ فسنة..." "۔۔۔اتباع قرآن کی اتباع ہے، اور اگر اس میں نہیں تو سنت۔۔۔"[60]

ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ان کی اس سے مراد صرف یہ ہے کہ سنت قرآن کی وضاحت اور اس کی تفصیل ہے، اور اس اعتبار سے وہ قرآن کے مرتبے میں ہے یا یہ کہ وہ دونوں ان پر عمل کے واجب ہونے کے اعتبار سے ایک ہی مرتبے میں ہیں۔ جبکہ ان کا دو مرتبوں میں ہونا ان کی طرف رجوع کے اعتبار سے ہے۔ امام شافعی کی رائے کے مطابق ہمارا سنت کو قبول کرنے کا وجوب اس اعتبار سے ہے کہ اللہ نے قرآن میں رسول ﷺ کی اطاعت کو فرض کیا ہے۔ چنانچہ امام شافعی نے فرمایا: " وقد فرض الله في كتابه طاعة رسوله صلى الله عليه وسلم والانتهاء إلى حُكمه؛ فَمَن قَبِلَ عن رسول الله؛ فَبِفَرض الله قَبِل " "اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے رسول ﷺ کی اطاعت اور ان کے حکم کی طرف رجوع کو فرض کیا ہے، پس جو رسول اللہ ﷺ کی کسی بات کو قبول کرتا ہے تو وہ اللہ کے فرض کی وجہ سے قبول کرتا ہے۔"[61]

چنانچہ امام شافعی نے اسلام کی طرف منسوب تین فرقوں کا تعاقب اور رد کیا ہے جن میں سنت کی حجیت کا انکار جمع ہے۔

پہلا فرقہ: ان لوگوں کا جنہوں نے تمام سنت کی حجیت کا انکار کیا۔

دوسرا فرقہ: ان کا جنہوں نے سنت کے اس حصے کا انکار کیا جو قرآن سے زائد ہے۔

تیسرا فرقہ: ان کا جو اخبار آحاد یا اخبارِ خاصہ کی حجیت کا انکار کرتے ہیں۔[62]

نیز امام شافعی نے روایت کی صداقت وقبولیت کے معیار کی اپنے نزدیک حد مقرر کرتے ہوئے فرمایا: " لا تقوم الحُجَّة بخبر الخاصة حتى يَجمَعَ أموراً؛ منها: أن يكون من حَدَّث به ثقة في دينه، معروفاً بالصدق في حديثه، عاقلاً لما يُحدِّث به، عالماً بما يُحيل معاني الحديث من اللفظ. وأن يكون ممن يؤدي الحديث بحروفه كما سمع؛ لا يُحدِّث به على المعنى؛ لأنه إذا حدَّث على المعنى -وهو غير عالم بما يُحيل معناه- لم يَدْرِ؛ لعله يُحيل الحلال إلى حرام، وإذا أدَّاه بحروفه؛ فلم يبق وجهٌ يُخاف فيه إحالته الحديث. حافظاً إذا حدَّث به من حفظه، حافظاً لكتابه إذا حدَّث من كتابه. إذا شَرِكَ أهل الحفظ في الحديث وافق حديثهم. بريَّا (يعني أن يكون بريئاً) من أن يكون مُدلِّساً يُحدِّث عن من لَقِي ما لم يَسمع منه، ويُحدِّث عن النبي صلى الله عليه وسلم ما يُحدِّث الثقات خلافه عن النبي صلى الله عليه وسلم. ويكون هكذا من فوقه ممن حدَّثه حتى يُنتَهَى بالحديث موصولاً إلى النبي أو إلى من انتهى به إليه دونه؛ لأن كل واحد منهم مُثْبِت لمن حدَّثه، ومُثبت على مَن حدَّث عنه؛ فلا يُستغنى في كل واحد منهم عمّا وصَفْت "

"خبرِ خاص (یعنی خبر واحد) سے حجت نہیں لی جائے گی جب تک اس میں کچھ امور جمع نہ ہو جائیں:

·      جو حدیث بیان کر رہا ہے وہ اپنے دین کے معاملے میں قابل اعتماد شخص ہو۔

·      حدیث کو منتقل کرنے میں اس کی شہرت ایک سچے انسان کی ہو۔

·      جو حدیث وہ بیان کر رہا ہو، اسے سمجھنے کی عقل رکھتا ہو۔

·      الفاظ کی ادائیگی کے نتیجے میں معانی کی جو تبدیلی ہو جاتی ہو، اس سے واقف ہو۔

·      جن الفاظ میں وہ حدیث کو سنے، انہی میں آگے بیان کرنے کی استطاعت رکھتا ہو نہ کہ جو سنے اپنے الفاظ میں بیان کر دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حدیث کا صرف مفہوم بیان کیا جائے گا اور بیان کرنے والے شخص کو یہ علم نہیں ہو گا کہ (حدیث کا محض مفہوم بیان کرنے سے) معنی کس طرح تبدیل ہو جایا کرتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی حلال حکم کو حرام میں تبدیل کر دے۔ اگر حدیث کو لفظ بہ لفظ منتقل کیا جائے گا تو اس میں تبدیلی کا کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔

·      اگر وہ حدیث کو اپنی یادداشت کے سہارے منتقل کر رہا ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حدیث کو اچھی طرح یاد کرنے والا ہو (یعنی اس کی یادداشت کمزور نہ ہو۔)

·      اگر وہ حدیث کو لکھ کر منتقل کر رہا ہو تو اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ اس نے جو کچھ لکھا ہو وہ اسے محفوظ رکھنے والا ہو۔

·      اگر اس حدیث کو دوسرے حفاظ بھی محفوظ کر رہے ہوں تو اس شخص کی بیان کردہ حدیث ان افراد کی بیان کردہ حدیث کے موافق ہونا ضروری ہے۔

·      تدلیس" کے الزام سے بری ہو۔ (تدلیس یہ ہے) کہ وہ یہ کہہ دے کہ میں نے حدیث کو فلاں سے سنا ہے جبکہ اس کی اس شخص سے ملاقات نہ ہوئی ہو اور اس نے اس سے حدیث کو اس سے سنا نہ ہو۔

·      (اور بری ہو اس بات سے کہ) وہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے ایسی بات منسوب کر دے جو کہ قابل اعتماد راویوں کی بیان کردہ حدیث کے خلاف ہو۔

·             یہی تمام خصوصیات اس راوی سے اوپر والے راویوں میں بھی پائی جانا ضروری ہے جن سے یہ شخص روایت کر رہا ہے یہاں تک کہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم یا آپ کے علاوہ کسی (صحابی) تک پہنچ جائے جہاں روایت کا سلسلہ ختم ہو رہا ہے۔ چونکہ (راویوں کی اس زنجیر میں موجود) ہر شخص اس حدیث کو پیش کر رہا ہے اس وجہ سے میری بیان کردہ صفات کا ان میں سے ہر شخص میں موجود ہونا ضروری ہے۔ "[63]

نیز امام شافعی فرمایا کرتے تھے:

" متى عرفت لرسول الله صلى الله عليه وسلم حديثاً، ولم آخذ به؛ فأنا أٌشهدكم أن عقلي قد ذهب"

"رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث مجھے معلوم ہو جائے اور میں اس سے (علم) اخذ نہ کروں تو میں تمہیں  گواہی دیتا ہوں کہ میری عقل جا چکی ہے۔"[64]

3-        اصل ثالث: اجماع :

امام شافعی نے صراحت کی ہے کہ اجماع حجت ہے اور اسے قرآن وسنت کے بعد تیسرے مرتبہ میں رکھا ہے، اور اس پر اللہ تعالیٰ کے اس قول سے استدلال کیا ہے:

" وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءتْ مَصِيرًا"

" جو شخص باوجود راهِ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بُری جگہ ہے۔"[65]

اور مذکورہ ترتیب پر اس اصل کی صراحت میں ان کا قول یہ ہے:

" والعلم من وجهين: اتِّباع، واستنباط. والاتباع: اتباع كتاب؛ فإن لم يكن؛ فسنة؛ فإن لم تكن؛ فقول عامة من سَلَفَنا لا نعلم له مخالفاً"

"علم دو طریقوں سے حاصل ہوتا ہے: اتباع اور استنباط۔ اتباع: کتاب کی اتباع ہے، اور اگر اس میں نہیں تو سنت، اور اگر اس میں نہیں تو ہمارے پچھلوں کا وہ قولِ عام جس کی کوئی مخالفت ہمیں معلوم نہ ہو۔"[66]

اور ایک جگہ فرمایا: " لست أقول - ولا أحد من أهل العلم -: "(هذا مجتمعٌ عليه)؛ إلا لما لا تَلْقَى عالماً أبداً إلا قاله لك، وحكاه عن من قبله؛ كالظهر أربع، وكتحريم الخمر، وما أشبه هذا" "میں یا اہل علم میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ "اس پر اجماع ہے" الا یہ کہ (اس سے مراد یہ ہے کہ) تم  جس بھی عالم سے ملو گے وہ تمہیں وہی بات بتائے گا، اور وہ اس بات کو اپنےسے پہلے والوں سے نقل کرے گا جیسے ظہر کا چار رکعات ہونا، شراب کی حرمت، اور اس جیسے امور۔"[67]

شافعیہ کے نزدیک اجماع کے متعلق چند اہم امور:

·      ایک وقت کے تمام علماء جب کسی امر پر متفق ہو جائیں تو ان کا اجماع حجت ہو گا۔

·      صحابہ کا اجماع پہلے درجے کا اجماع شمار ہوتا ہے، کیونکہ وہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی سنت سن رکھی ہے جس پر انہوں نے اجماع کیا، اگرچہ وہ ان کے اجتہاد میں سے ہی ہو۔

·      شافعیہ کے نزدیک تمام امت اور تمام شہروں کے علماء کا اجماع ہی معتبر ہے، اسی لئے انہوں نے اہل مدینہ کے اجماع کا رد کیا ہے جس سے امام مالک نے حجت پکڑی ہے۔

4-        اصل رابع: قولِ صحابی :

امام شافعی کے نزدیک قولِ صحابی حجت ہے اس صورت میں جب کسی مسئلہ میں قرآن، سنت اور اجماع سے کوئی دلیل نہ ہو۔ امام شافعی نے کتاب الام میں فرمایا:

" ما كان الكتاب والسنة موجودين؛ فالعُذر عمَّن سَمِعَهُما مقطوعٌ إلا باتباعهما، فإذا لم يكن ذلك صِرْنا إلى أقاويل أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، أو واحدٍ منهم، ثم كان قول الأئمة أبي بكر، أو عمر، أو عثمان؛ -إذا صِرْنا فيه إلى التقليد- أحب إلينا، وذلك إذا لم نجد دلالة في الاختلاف تدل على أقرب الاختلاف من الكتاب والسنة؛ فنتَّبع القول الذي معه الدلالة "

"جب تک کتاب وسنت موجود ہیں، ان کو سننے والے کی طرف سے کوئی بھی عذر ان کی اتباع کے بغیر مقطوع (بے کار) ہو گا۔ اور اگر یہ معاملہ نہ ہو تو ہم رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے اقوال یا ان میں سے کسی ایک کے قول کی طرف رخ کریں گے۔ نیز ائمہ میں سے ابو بکر، یا عمر، یا عثمان کے قول کی ہم اگر تقلید کو اختیار کریں تو وہ ہمارے لئے زیادہ محبوب ہے۔ اور یہ اس صورت میں ہے جب ہمیں ان کے اختلاف کی صورت میں کوئی ایسی دلیل نہ ملے جو ان میں سے کتاب وسنت کے قریب تر اختلاف کی طرف دلالت کرتی ہو تا کہ ہم اس قول کی اتباع کر سکیں جو دلالت پر مبنی ہے۔"[68]

پس یہ اصل ان کے نزدیک سابقہ تین اصولوں کے بعد اور قیاس کے پہلے آتی ہے (یعنی قیاس پر قولِ صحابی مقدم ہے) جیسا کہ ان کا الام میں ایک قول اس پر دلالت کرتا ہے:

" إنما الحُجة في كتاب، أو سنة، أو أثر عن بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، أو قول عامة المسلمين؛ لم يختلفوا فيه، أو قياس داخلٍ في معنى بعض هذا"

"حجت صرف کتاب، سنت، بعض اصحاب النبی ﷺ کے اثر، یا عامۃ المسلمین کے اس قول میں ہے جس میں ان کا کوئی اختلاف نہ ہو، یا (ایسا) قیاس جو ان (اصولوں) میں سے بعض کے معنی میں داخل ہو۔"[69]

البتہ صحابہ کے اختلاف کی صورت میں ان میں سے جو مذکورہ اصولوں کی ترتیب پر ان کے اقرب ہو گا اس کو لیا جائے گا – پھر وہ جو قیاس کے اقرب ہو گا۔ امام شافعی نے فرمایا:

" نَصِير منها إلى ما وافق الكتاب، أو السنة، أو الإجماع، أو كان أصحَّ في القياس" "اقوالِ صحابہ میں سے ہم اس کی طرف جاتے ہیں جو قرآن، سنت، اجماع کے موافق ہو یا پھر وہ قیاس میں اصح ہو۔"[70]

اسی طرح انہوں نے فرمایا: " ولو اختلف بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم في شيء؛ فقال بعضهم فيه شيئاً، وقال بعضهم بخلافه؛ كان أصل ما نذهب إليه أنَّا نأخذ بقول الذي معه القياس"

"اگر اصحاب النبی ﷺ کے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہو جائے، ان میں سے بعض کچھ کہیں اور بعض اس کے خلاف کہیں۔ تو جس اصل پر ہم گامزن ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم اس صحابی کے قول کو اخذ کرتے ہیں جس کے ساتھ قیاس ہو۔"[71]

5-        اصل خامس: قیاس :

اور یہ پانچویں مرتبے میں ہے۔ امام شافعی نے صراحت کی ہے کہ جب ایک فقیہ کو سابقہ مصادر میں سے کچھ نہ ملے تو اس پر لازم ہے کہ وہ شرعی حکم کو جاننے کے لئے اجتہاد کرے۔ اور اجتہاد اور قیاس ایک ہی معنی کے دو نام ہیں۔ امام شافعی نے فرمایا:
"
 كل ما نزل بمسلم فقيه حكم لازم، أو على سبيل الحقِّ فيه دلالةٌ موجودة، وعليه إذا كان فيه بعينه حكمٌ: اتباعُه، وإذا لم يكن فيه بعينه طُلِب الدلالة على سبيل الحق فيه بالاجتهاد. والاجتهادُ القياسُ"

"ایک مسلمان فقیہ جب کسی معاملے میں غور کرتا ہے تو یا تو وہ (قرآن وسنت کے) کسی لازمی حکم پر پہنچتا ہے اور یا پھر کسی دلیل کی بنیاد پر درست بات تک پہنچتا ہے۔ اگر اس معاملے میں (قرآن وسنت کا) کوئی واضح حکم موجود ہے تو اس کی پیروی کی جائے گی اور اگر ایسا واضح حکم نہ ملے تو پھر اجتہاد کے ذریعے درست بات معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اور اجتہاد قیاس ہی کو کہتے ہیں۔"[72]

اور اسی طرح ادلہِ شرعیہ میں قیاس کے مرتبے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " وجِهَة العلم بعد الكتاب، والسنة، والإجماع، والآثار: ما وصفت من القياس عليها" "اور علم کی بنیاد کتاب، سنت، اجماع،اور آثار کے بعد:  ان کے کسی حکم پر قیاس ہے جیسا میں نے بیان کیا ہے۔"[73]

ان ادلہ کی مذکورہ ترتیب کے بیان میں امام شافعی کا قول ہے کہ:

"والعلم طبقات شتى: الأولى الكتاب والسنة إذا ثبتت السنة، ثم الثانية الإجماع فيما ليس فيه كتاب ولا سنة، والثالثة أن يقول بعض أصحاب النبي- صلى الله عليه وسلم -قولاً ولا نعلم مخالفاً منهم، والرابعة اختلاف أصحاب النبي- صلى الله عليه وسلم -في ذلك، والخامسة القياس على بعض الطبقات، ولا يصار إلى شيء غير الكتاب والسنة وهما موجودان، وإنما يؤخذ العلم من أعلى"

"علم کے متعدد طبقات ہیں: پہلا طبقہ کتاب وسنت کا ہے جب سنت ثابت ہو جائے، دوسرا طبقہ اجماع کا ہے جس مسئلے میں کتاب وسنت موجود نہ ہوں، تیسرا طبقہ بعض اصحابِ نبی ﷺ کے ایسے قول کا ہے جس کی ان سے کوئی مخالفت ہمیں معلوم نہ ہو، چوتھا طبقہ اصحابِ نبی ﷺ کے مختلف فیہ اقوال کا ہے، پانچواں طبقہ ان طبقات میں سے بعض پر قیاس کا ہے اور کتاب وسنت کی موجودگی کی صورت میں کسی اور چیز پر قیاس نہیں کیا جاتا، اور علم تو (کیونکہ) اعلی چیز سے ہی لیا جاتا ہے۔" [74]

نیز ظاہر یہ ہوتا ہے کہ امام شافعی ان مذکورہ اصولوں کے علاوہ کسی دوسرے اصول کو تشریع کی اساس نہیں سمجھتے جیسے مصالح مرسلہ، استصحاب، اور عرف وغیرہ، اگرچہ وہ شرعی احکام کے استنباط میں ان پر عمل کرنے کی رائے رکھتے ہیں (کیونکہ وہ قیاس کے اندر ہی آ جاتے ہیں)۔[75]

شافعی مذہب کی خصوصیات:

شافعی مذہب کی کچھ خصوصیات درج ذیل ہیں:

1-       اس کے بانی ومؤسس کا مطلبی وہاشمی ہونا

شافعی مذہب کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس کے بانی اور مؤسس امام محمد بن ادریس الشافعی، قریشی، مطّلبی اور ہاشمی ہیں اور قریش کو عربوں میں بلکہ اسلام میں ایک خاص مقام حاصل ہے، جس کی بنا پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "الناس تبع لقريش في هذا الشأن، فمسلمهم تبع لمسلمهم، وكافرهم تبع لكافرهم" " لوگ اس معاملے میں قریش کے تابع ہیں۔ عام مسلمان قریش مسلمانوں کے تابع ہیں جس طرح ان کے عام کفار قریش کفار کے تابع رہتے چلے آئے ہیں۔ "[76]

ایک دوسری حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " قدموا قريشا ولا تقدموها" "قریش کو مقدم رکھو اور ان سے آگے مت بڑھو[77]

2-        تمام مکاتبِ فقہیہ کی آراء سے استفادہ

جو فقہاء اہلِ علم کے درمیان معروف ومقبول رہے ہیں اور جن کی آراء نے مرتب ہو کر قبولِ عام اور بقائے دوام حاصل کیا ہے، ان میں امام شافعی ایک خاص امتیاز کے مالک ہیں۔ آپ بیک وقت بلند پایہ محدث بھی ہیں اور فقیہ ومجتہد بھی، اس لئے اہلِ روایت واہلِ درایت دونوں کے یہاں آپ کی وجاہت تسلیم شدہ ہے۔

اس کے علاوہ عام طور پر فقہاء خاص علاقوں کے علماء کی روایات اور اجتہادات کے نمائندے ہوا کرتے تھے اور دوسرے علاقوں کے اہل علم سے استفادہ کی نوبت کم آتی تھی، لیکن امام شافعی کی تشنہ لبی نے اپنے زمانے کے تمام علمی سر چشموں سے خود کو سیراب کیا اور اصحابِ حدیث اور اصحابِ رائے کے اعلی ترین نمائندوں سے کسبِ فیض کیا، جیسے مکہ میں انہوں نے امام سفیان اور امام مسلم بن خالد الزنجی سے، تو مدینہ میں امام مالک اور دیگر اساطینِ علم سے، عراق میں امام وکیع، اور امام محمدبن الحسن الشیبانی سے، اور یمن میں امام ہشام بن یوسف اور امام عمرو بن ابی سلمہ (امام اوزاعی کے شاگرد) سے علم حاصل کیا، گویا فقہ شافعی اپنے وقت کے تمام مکاتبِ فکر کا نچوڑ ہے۔[78]

3-        مذہب کے امام نے خود مذہب کے اصول مرتب کیے

شافعی مذہب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ خود صاحبِ مذہب امام شافعی نے مسائل کے ساتھ اپنے طریقِ استنباط اور اصولِ اجتہاد کو باضابطگی سے مرتب فرما دیا ہے، جیسے اصول میں آپ نے "الرسالہ" اور "ابطال الاستحسان" اور فروع میں "الام" وغیرہ کتابیں تصنیف فرمائی، اسی وجہ سے بعد کے فقہاء کے لئے امام کے نقطۂ نظر کی وضاحت اور تخریج وتفریع نیز مختلف اقوال میں انتخاب وترجیح اور تنقیح آسان ہو گئی۔ نیز اسی بناء پر فقائے شوافع کا اپنے امام سے بہت ہی کم اختلاف ہوا ہے۔[79]

4-        حق ودلیل کی اتباع:

مذہبِ شافعی کی ایک نمایاں خصوصیت حق ودلیل کا اتباع ہے، کسی خاص شخصیت اور کسی خاص شہر کی رعایت کئے بغیر امام شافعی کے یہاں خاص دلیل کا اتباع تھا۔ اس لئے آپ نے اپنے جلیل القدر شاگرد امام احمد بن حنبل سے فرمایا تھا:

"أنتم أعلم بالحديث والرجال مني، فإذا كان الحديث صحيحا فأعلموني كوفيا كان أو بصريا أو شاميا حتي أذهب إليه إن كان صحيحا"

"تم حدیث ورجال کے مجھ سے بڑے عالم ہو، جب کوئی حدیث صحیح ہو تو مجھے بتلا دیا کرو چاہے اس کے راوی کوفی ہوں، بصری ہوں، یا شامی، تا کہ اگر وہ حدیث صحیح ہو تو میں اسے اختیار کروں۔"[80]

امام مزنی فرماتے ہیں کہ امام شافعی نے فرمایا: " إذا صح لكم الحديث، فخذوا به، ودعوا قولي " "جب کوئی حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو اس کو اختیار کر لو اور میرے قول کو چھوڑ دو[81]

5-        حتی الامکان ظاہری معنی سے استدلال:

امام شافعی کا زمانہ وہ تھا جب عالمِ اسلام پر مختلف گمراہ فرقوں کے بادل چھائے ہوئے تھے اور کتاب وسنت ان کا تختۂ مشق بنے ہوئے تھے، خبرِ واحد کے انکار کے علاوہ ان کا طریق خاص نصوص کی دور دراز تاویلات، بعید از عقل ولغت، توجیہات اور ظاہری معنی سے گریز اور انحراف تھا، امام شافعی کو اس فتنے کی نزاکت اور اس کے دور رس اثرات ونتائج کا اندازہ تھا، اس لئے آپ نے اس بات پر خاص زور دیا کہ نصوص کے ظاہری اور متبادر معنی ہی مراد لئے جائیں۔[82]

6-        اقوال کی کثرت:

شافعی مذہب میں اقوال کی کافی درجہ کثرت ہے، حتی کہ بعض مواقع پر امام شافعی سے ہی ایک ہی مسئلہ میں دو قول منقول ہیں، اقوال کی اس کثرت کی وجہ سے امام کی رائے پر توقف کے باوجود بحث ونظر، ترجیح وانتخاب اور استدلال کا دروازہ بند نہیں ہوتا اور اہل علم کے لئے ایک حد تک اجتہاد کی گنجائش باقی رہتی ہے۔

7-        مجتہدین اور محدثین کی کثرت:

مذہبِ شافعی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ شوافع میں مجتہدین اور محدثین کی کثرت ہے، چاہے مجتہد مطلق ہو جیسے امام مزنی، امام ابن منذر، امام ابن خزیمہ اور امام ابن جریر طبری وغیرہ، چاہے مجتہدمقید جیسے بویطی، ربیع مرادی، انماطی، ابن سریج اور اصطخری وغیرہ۔

بلکہ امام شافعی کے کئی تلامذہ بعد میں خود مجتہد مستقل اور صاحبِ مذہب بھی بنے جن میں امام احمد بن حنبل (حنبلی مذہب کے مؤسس)، امام ابو ثور (ثوری مذہب کے مؤسس)، امام داود الظاہری (ظاہری مذہب کے مؤسس)،اور امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ شامل ہیں۔

اسی طرح ہر زمانے کے بے شمار کبار محدثین مذہبِ شافعی کے متبعین رہے ہیں جیسے امام حمیدی، امام ابو حاتم الرازی، امام ابو زرعہ الرازی، امام ساجی، امام ابن ابی حاتم، امام ابو عوانہ، امام ابن حبان، امام سراج، امام ابو بکر الاسماعیلی، امام ابو بکر النیسابوری، امام ابن عدی، امام ابن مندہ، امام حاکم، امام بیہقی،امام دارقطنی، امام ابو نعیم، امام خطیب بغدادی، امام ابن عساکر، امام ابن اثیر، امام مزی، امام ذہبی، امام ابن کثیر،حافظ علائی، حافظ ابن حجر، امام ابن دقیق العید،اور امام سیوطی وغیرہ۔

شافعی مذہب کی اہم مطبوعہ کتب:

شافعی مذہب کی چند مشہور اور اہم مطبوعہ کتبِ فقہیہ ان کے لنک کے ساتھ درج ذیل ہیں:

دورِ تکوین کی اہم کتب:

1-           كتاب الأم للشافعي (ط. دار الوفاء) (ط. الكليات الأزهرية) (ط. بيت الأفكار)

2-            مختصر المزني - (ط. دار الكتب العلمية) (اس کو امام مزنی نے اپنے شیخ امام شافعی کی کتاب الام سےمختصر کیا ہے۔ اس کتاب پر بہت سے علماء نے کام کیا ہے۔ امام نووی نے اس کتاب کو شافعی مذہب کی پانچ امہات الکتب میں سے قرار دیا ہے۔)

3-           مختصر البويطي (یہ کتاب امام بویطی کو امام شافعی کے املاء کردہ احکام ومسائل پر مشتمل ہے)

دورِ تدوین کی اہم کتب:

1-           كتاب (المقنع)، وكتاب (اللبابللمحاملي أحمد بن محمد بن أحمد (م 415 ه)

2-           کتاب (السلسلة في معرفة القولين والوجهين)، وكتاب (الجمع والتفريقلأبي محمد الجويني (م 438 ه) – (امام جوینی کی کتاب الجمع والفروق علم الفروق کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ علم الفروق میں ان مشتبہ مسائل پر بحث کی جاتی ہے جو دکھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں لیکن ان کے احکام، دلیل اور علت میں فرق ہوتا ہے۔)

3-           كتاب (الشامل في فروع الشافعيةلأبي نصر ابن الصباغ (م 477 ه)

4-           كتاب (الإشارة في الفقهلسليم بن أيوب الرازي (م 447 ه)

5-           كتاب (الإقناع في الفقه الشافعيلأبي الحسن الماوردي (م 450 ه)

6-           كتاب (التعليقةللقاضي حسين (م 462 ه(یہ مختصر المزنی پر قاضی حسین کی تعلیق وشرح ہے)

7-           كتاب (المهذب في فقه الإمام الشافعيلأبي إسحاق الشيرازي (م 476 ه) – (ت. الزحيلي) (ط. دار الكتب العلمية(یہ ان کے استاذ قاضی ابو الطیب الطبری کی کتاب التعلیقہ الکبری کا اختصار ہے)

8-           كتاب (التنبيه في الفقه الشافعيلأبي إسحاق الشيرازي (امام نووی نے امام شیرازی کی ان دونوں کتابوں یعنی المہذب اور التنبیہ کو شافعی مذہب کی پانچ امہات الکتب میں سے قرار دیا ہے۔ یہ کتاب امام ابو حامد الاسفرایینی کی کتاب التعلیقہ سے ماخوذ ہے جو امام نووی کی تشریح کے مطابق 50 سے زائد جلدوں پر مشتمل تھی۔ نیز الاسفرایینی کی التعلیقہ اور ابو الطیب الطبری کی التعلیقہ پر اکثر شافعی مذہب کا مدار ہے۔ امام شیرازی نے اپنی ان دو کتابوں کے ذریعے ان دونوں ضخیم کتابوں کا اختصار کیا ہے۔)

9-           كتاب (البسيط)، وكتاب (الوسيط)، وكتاب (الوجيز ط. العلمية) (ط. الأرقم)، للغزالي (م 505 ه) (امام غزالی نے البسیط کو اپنے شیخ امام الحرمین کی کتاب نہایۃ المطلب سے مختصر کیا، پھر اس کا آپ نے ایک اختصار الوسیط میں کیا، اور الوسیط کو آپ نے الوجیز میں مختصر کیا۔ امام نووی نے الوسیط اور الوجیز کو شافعی مذہب کی پانچ امہات الکتب میں سے قرار دیا ہے۔)

10-    كتاب (حلية العلماء في معرفة مذاهب الفقهاءلأبي بكر الشاشي (م 507 ه)

11-    كتاب (التهذيب في فقه الإمام الشافعيللبغوي (م 516 ه)

12-    كتاب (الإنتصارلابن أبي عصرون (م 585 ه)

13-    کتاب (شرح مشكل الوسيطلابن الصلاح (م 643 ه)

دورِ تنقیح وتحریر کی اہم کتب:

1-           كتاب (المحرر في فقه الإمام الشافعيللرافعي  623 ه)

2-           كتاب الشرح الكبير (فتح العزيز بشرح الوجيز) للرافعي (یہ امام غزالی کی کتاب الوجیز کی شرح ہے)

3-           كتاب (منهاج الطالبين وعمدة المفتين) للإمام محيي الدين النووي (م 676 ه(یہ امام رافعی کی کتاب المحرر کا خلاصہ واختصار ہے)

4-           كتاب (روضة الطالبين وعمدة المفتيينللنووي (م 676 ه) - (ط. المكتب الإسلامي) (ط. عالم المكتبات) (یہ امام رافعی کی الشرح الکبیر کا اختصار ہے)

5-           كتاب (كنز الراغبين شرح منهاج الطالبينلجلال الدين المحلي (م 864 ه)

6-           شیخ الاسلام زکریا الانصاری (م 926 ھ) کی تمام کتب خاص طور پر ان کی کتاب (فتح الوهاب بشرح منهج الطلاب) جو کہ منہاج الطالبین کے اختصار کی شرح ہے۔

7-           كتاب (تحفة المحتاج في شرح المنهاجلابن حجر الهيتمي (م 974 ه)

8-           كتاب (مُغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاجللخطيب الشربيني (م 977 ه) (ط. دار المعرفة)

9-           كتاب (الإقناع في حل ألفاظ أبي شجاعللخطيب الشربيني (م 977 ه(یہ متن ابی شجاع کی شروح میں سے سب سے زیادہ مقبول ومتداول ہے)

10-    كتاب (نهاية المحتاج إلي شرح المنهاجللرملي (م 1004 ه)

مذہبِ شافعی کے فقہی موسوعات:

1-           كتاب (التعليقة الكبريللقاضي أبي الطيب الطبري (م 450 ه(یہ مختصر المزنی کی سب سے افضل شروح میں سے ہے۔ علامہ ابن سبکی فرماتے ہیں: "قاضی ابو الطیب کی التعلیقہ اور امام ابو حامد الاسفرایینی کی التعلیقہ ان دونوں کتب پر عراقی طریقے بلکہ سارے مذہب کا مدار ہے۔ اس کتاب کا اختصار وخلاصہ ان کے شاگرد امام شیرازی نے المہذب کے نام سے کیا ہے"۔)

2-           كتاب (الحاوي الكبيرلأبي الحسن الماوردي (م 450 ه(یہ مختصر المزنی کی شرح ہے)

3-           كتاب (نهاية المطلب في دراية المذهب) لإمام الحرمين أبو المعالي الجويني (م 478 هـ) (یہ بھی مختصر المزنی کی شرح ہے، جس کا اختصار وخلاصہ امام غزالی نے البسیط میں کیا ہے)

4-           كتاب (بحر المذهب في فروع المذهب الشافعيلأبي المحاسن الروياني (م 502 ھ) – (ط. إحياء التراث العربي)

5-           كتاب (البيان في مذهب الإمام الشافعي) للإمام يحيى بن أبي الخير العِمْراني اليماني (م 558 هـ) (یہ امام شیرازی کی کتاب المہذب کی شرح ہے)

6-           كتاب (المجموع شرح المهذبللنووي (م 676 ھ) – (ط. إدارة الطباعة المنيرية) (ط. الإرشاد) (یہ بھی امام شیرازی کی المہذب کی شرح ہے)

7-           كتاب (كفاية النبيه في شرح التنبيهلابن الرفعة (م 710 ھ) (یہ امام شیرازی کی کتاب التنبیہ کی شرح ہے)

مذہبِ شافعی کے مختصر فقہی متون:

1-           كتاب (متن أبي شجاع المسمي الغاية والتقريبللقاضي أبو شجاع الأصفهاني (م 593 ه) (یہ کتاب فقہ شافعی کی مقبول ومتداول متون میں سے ہے۔ اس میں مفتی بہ مسائل کے ذکر کا اہتمام کیا گیا ہے لیکن چونکہ یہ دورِ تنقیح سے قبل کی تصنیف ہے اس لئے اس میں بعض ضعیف وغیر مفتی بہ مسائل بھی شامل ہیں جن کی تنبیہ عموما حواشی وغیرہ میں کر دی جاتی ہے۔ اس کتاب کی کئی شروحات وحواشی لکھے گئے ہیں۔)

2-           كتاب (الحاوي الصغير) للعلامة نجم الدين القزويني (م 665 ه) (علامہ قزوینی امام رافعی کے شاگرد تھے اور ان کی اس کتاب کو فقہ شافعی کی مختصرات میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔ بہت سے علماء نے اس کے حفظ کا اہتمام کیا ہے۔ اس کتاب میں علامہ قزوینی نے اختلاف کو نہیں چھیڑا ہے، اور مفتی بہ قول کو ذکر کیا ہے البتہ آپ نے بعض مسائل میں اختلاف ذکر کیا ہے۔ ابن الوردی فرماتے ہیں: "ہمارے مذہب میں الحاوی جیسی جمع، ایجاز اور فتاوی میں کوئی کتاب نہیں"۔ علامہ ابن حجر ہیتمی فرماتے ہیں: "مختصرات میں اس جیسی نظیر نہیں ملتی، کہ مؤلف سے قبل اس کی مثل میں کسی نے ان پر سبقت نہیں لی ہے"۔ دیگر علماء کے اس کتاب پر تعریفی کلمات کے لئے کتاب کا مقدمہ دیکھ لیں۔ اس کتاب کا مقارنہ المحرر، منہاج الطالبین، الوجیز اور التنبیہ جیسی امہات الکتب کے ساتھ کیا جاتا ہے۔)

3-           كتاب (عمدة السالك وعدة الناسكلابن النقيب (م 769 ه) (یہ کتاب فقہ شافعی کی نہایت معتمد اور مستند کتاب ہے۔ اس کتاب کو فقہ شافعی کے حامل مدارس میں وہی مرتبہ حاصل ہے جو فقہ حنفی کے مدارس میں قدوری کو حاصل ہے۔ اس کتاب میں راجح اور مفتی بہ مسائل کے ذکر کا التزام کیا گیا ہے۔ ابن النقیب نے اس میں دورِ تنقیح کے دونوں اماموں نووی اور رافعی کی تحقیق وتنقیح کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ اگر دونوں میں موافقت ہے تو آپ نے اختلاف کو ذکر کئے بغیر مسئلہ بیان کر دیا ہے، اور اگر کسی مسئلہ میں دونوں کا اختلاف ہو تو آپ نے امام نووی کی تحقیق کوراجح قرار دے کر ان کی تحقیق کو لیا ہے اور "قیل" کے ذریعے امام رافعی کے قول کو ذکر کر دیا ہے۔ اس کتاب کی کئی شروحات ہیں۔)

4-           كتاب (التذكرة في الفقه الشافعيلابن الملقن (م 804 ه)

5-           كتاب (الزبد في الفقه الشافعيلابن رسلان الشافعي (م 844 ه) (یہ کتاب ایک نظم کی شکل میں فقہ شافعی کی فروع کا خلاصہ ہے تا کہ انہیں حفظ کرنے میں آسانی ہو۔ اس کتاب کی کئی شروحات ہیں جن میں سے سب سے مشہور شرح علامہ شہاب الدین الرملی کی (فتح الرحمن بشرح زبد ابن رسلان) اور ان کے بیٹے علامہ شمس الدین الرملی کی( غایۃ البیان شرح زبد ابن رسلان) ہے۔)

6-           كتاب (المقدمة الحضرمية في فقه السادة الشافعيةلعبد الله بن عبد الرحمن بافضل الحضرمي (م 981 ه) (اسے المختصر الکبیر اور مسائل التعلیم بھی کہا جاتا ہے۔  یہ کتاب فقہ شافعی کے ابتدائی طالب علم کے لئے کافی مفید ہے اس کی ایک شرح علامہ ابن حجر الہیتمی نے بھی لکھی ہے۔ دیکھیں)

7-           كتاب (قرة العين بمهمات الدين) للعلامة زين الدين المليباري الهندي  987 ه) وشرحه للمؤلف: (فتح المعين بشرح قرة العين بمهمات الدين (علامہ زین الدین ملیباری کی یہ کتاب فقہ شافعی کی مختصر اور مفید کتابوں میں سے ہے۔ اس کی شرح بھی مصنف نے خود لکھی ہے۔ ان کی فتح المعین اہل علم کے درمیان "بنت التحفہ" کے نام سے مشہور ہے کہ ابن حجر ہیتمی کی "تحفۃ المحتاج" کا اختصار ہے۔)

8-           کتاب (الرسالة الجامعة والتذكرة النافعةلأحمد بن زيد الحبشي (م 1144 ه) (یہ نہایت ہی مختصر رسالہ ہے جس میں دین کے بنیادی امور ومسائل کو امام غزالی کی مختلف کتب سے جمع کیا گیا ہے۔)

9-           كتاب (متن سفينة النجاة في ما يجب علي العبد لمولاهلابن سمير (م 1271 ه) (یہ صرف عبادات کے مسائل پر ایک مختصر رسالہ ہے)

10-    كتاب (الياقوت النفيس في مذهب ابن إدريسلأحمد بن عمر الشاطري (م 1360 ه) (یہ کتاب ابتدائی، متوسط اور انتہائی، ہر طبقہ کے طلبہ کے لئے نہایت مفید ہے۔ اسے کئی مدرسوں میں بطورِ نصاب پڑھایا جاتا ہے۔)

اصولِ فقہ پر بعض شافعی کتب:

1-           كتاب الرسالة للشافعي (اس کا اردو اور انگریزی ترجمہ بھی ہو چکا ہے(اصولِ فقہ میں تصنیف کی جانے والی یہ سب سے پہلی کتاب ہے۔)

2-           كتاب (التبصرة في أصول الفقهلأبي إسحاق الشيرازي (م 476 ه)

3-           كتاب (اللمع في أصول الفقهللشيرازي (یہ کتاب امام شیرازی نے التبصرہ کے بعد تصنیف فرمائی اور اس میں اپنے راجح اصولوں کو بیان فرمایا۔ اسے التبصرۃ کا اختصار بھی مانا جاتا ہے۔ بہت سے شافعی مدارس وجامعات میں یہ درجات ثانویہ میں داخلِ نصاب ہے۔)

4-           كتاب (شرح اللمعلليشرازي (یہ بھی علامہ شیرازی کی مستقل فن اصول فقہ کی مطول کتاب۔ اسے "الوصول إلي مسائل الأصول" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔)

5-           كتاب (البرهان في أصول الفقهللإمام الحرمين الجويني  478 ه) (علامہ ابن سبکی فرماتے ہیں: "اصولِ فقہ پر میں نے کوئی کتاب القواطع سے زیادہ احسن اور جامع نہیں دیکھی، اور نہ ہی امام الحرمین کی البرہان سے زیادہ عظیم وشاندار کوئی دیکھی۔"[83])

6-           كتاب (التلخيص في أصول الفقهللإمام الحرمين الجويني (یہ امام ابو بکر الباقلانی جو کہ ایک مالکی متکلم فقیہ تھے ان کی کتاب "التقريب والإرشاد" کی تلخیص واختصار ہے۔ امام الحرمین کی اس تلخیص سے علامہ  ابن السبکی نے الابہاج میں اور علامہ الزرکشی نے البحر المحیط میں بکثرت نقل کیا ہے۔ اس کتاب کی تعریف میں علامہ سبکی فرماتے ہیں: "میں نے متقدمین اور متاخرین کی کتبِ اصولیہ کا بکثرت اور دقیق مطالعہ کیا ہے لیکن میں نے التلخیص سے زیادہ عالی مرتبہ کوئی کتاب نہیں دیکھی۔"[84])

7-           كتاب (الورقات في أصول الفقهللإمام الحرمين الجويني (امام الحرمین جوینی نے فقہ شافعی کے اصول میں مختصر رسالہ تصنیف فرمایا لیکن اس میں بہت سے اصول، فوائد، اور کثیر معانی بیان فرمائے ہیں، متاخرین شوافع اصولیین نے بعد میں اس کتاب کی خوب شروحات وحواشی لکھے ہیں۔ عموما یہ کتاب شروحات کے ساتھ شوافع کے مدارس میں فن اصول فقہ کے مبادیات کے طور پر داخل نصاب ہے۔)

8-           كتاب (قواطع الأدلة في أصول الفقهلأبي المظفر السمعاني  489 ه) (اصولِ فقہ پر لکھی جانی بہترین کتب میں سے ہے۔ امام ابو المظفر السمعانی نے حنفی مذہب چھوڑ کر شافعی مذہب اختیار کیا تھا لیکن اپنی اس کتاب میں انہوں نے شافعی مذہب کے اصولوں،اور مذہب کے اصحاب کی نقل کا التزام کیا ہے۔ یہ کتاب بہت احسن طریقے پر لکھی گئی ہے نہ زیادہ اختصار ہے اور نہ زیادہ تفصیل؛ نیز اصولِ فقہ کے تقریبا تمام مسائل کا اس میں احاطہ کیا گیا ہے۔علا مہ ابن سبکی فرماتے ہیں: "اصولِ فقہ پر میں نے کوئی کتاب القواطع سے زیادہ احسن اور جامع نہیں دیکھی، اور نہ ہی امام الحرمین کی البرہان سے زیادہ عظیم وشاندار کوئی دیکھی۔"[85] اور علامہ بدر الدین الزرکشی فرماتے ہیں: "القواطع اصولِ فقہ میں شافعیہ کی سب سے اعلی ترین کتاب ہے"[86])

9-           كتاب (المنخول من تعليقات الأصولللغزالي (م 505 ه) (امام غزالی نے اس کتاب میں اپنے استاذ علامہ جوینی کی کتاب "البرہان فی اصول الفقہ" کو مختصر طور پر پیش کیا ہے۔)

10-    كتاب (شفاء الغليل في بيان الشبه والمخيل ومسالك التعليلللغزالي (اصول فقہ کے متخصص طلبہ کے لئے مفید کتاب ہے۔)

11-    كتاب (المستصفي من علم الأصولللغزالي (امام غزالی کی یہ تصنیف ایک عظیم اصولی کتاب ہے اور ان کی آخری کتب میں سے ہے۔ چنانچہ مسائلِ اصولیہ میں اسے علمِ غزالی کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے۔)

12-    كتاب (أساس القياسللغزالي (یہ کتاب اصولِ فقہ کے متخصص طلبہ کے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس کتاب میں اصول فقہ کے ایک اختلافی پہلو یعنی قیاس پر بحث کی گئی ہے۔ بعض اسے قبول کرتے اور اس پر عمل کرتے ہیں اور بعض اسے رد کرتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں۔ اس کتاب میں ان سب باتوں پر بحث کی گئی ہے اور ان کے جواب دئے گئے ہیں۔)

13-    كتاب (المحصول في علم الأصول) للإمام فخر الدين الرازي (م 606 ه) (امام فخر الدین الرازی کی وہ عظیم کتاب جسے اصول فقہ کا انسائیکلوپیڈیا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ چھ جلدوں میں مطبوع ہے۔)

14-    كتاب (الإحكام في أصول الأحكاملأبي الحسن سيف الدين الآمدي (م 631 ه) (یہ کتاب اصول فقہ کے اہم ترین مصادر میں سے ہے۔ علامہ ابن عبد السلام سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا: "بحث کے قواعد کو میں نے صرف آمدی سے سیکھا ہے)

15-    كتاب (الحاصل من المحصول في أصول الفقهلتاج الدين الأرموي  653 ه) (یہ امام رازی کی کتاب المحصول کا اختصار ہے جسے ان کے شاگرد تاج الدین ارموی نے تالیف فرمایا ہے۔)

16-    كتاب (المحقق من علم الأصول فيما يتعلق بأفعال الرسول صلى الله عليه وسلم) لأبي شامة المقدسي (م 665 ه) (نبی ﷺ کے افعال کی اصولی بحث پر ایک مستقل کتاب ہے)

17-    كتاب (منهاج الوصول إلي علم الأصولللقاضي عبد الله بن عمر البيضاوي (م 685 ه) (یہ ایک عظیم کتاب ہے جو شافعی فقہاء کے نزدیک فن اصول فقہ کا عظیم متن مانا گیا ہے۔ اس کی کئی شروحات لکھی گئی ہیں۔ علامہ اسنوی فرماتے ہیں: "مصنف (بیضاوی) کی یہ کتاب ارموی کی الحاصل سے ماخوذ ہے، اور الحاصل فخر الدین رازی کی المحصول سے ماخوذ ہے، جبکہ المحصول میں دو کتابوں سے مدد لی گئی ہے جن کے باہر غالب طور پر کچھ نہیں کہا گیا: ایک امام غزالی کی المستصفی اور دوسری ابو الحسن البصری (المعتزلی) کی المعتمد ہے۔ یہاں تک کہ میں نے انہیں ان دونوں کتابوں سے پورا کا پورا صفحہ بعینہ نقل کرتے پایا ہے۔")

18-    كتاب (تلقيح الفهوم في تنقيح صيغ العموملصلاح الدين العلائي (م 761 ه) (اس کتاب میں عموم اور اس کے صیغوں پر بحث کی گئی ہے۔)

19-    كتاب (تحقيق المراد في أن النهي يقتضي الفسادلصلاح الدين العلائي

20-    كتاب (إجمال الإصابة في أقوال الصحابةلصلاح الدين العلائي (اس میں اصولِ فقہ کے ایک اہم پہلو "قولِ صحابی" پر اصولی بحث کی گئی ہے۔)

21-    كتاب (الإبهاج شرح المنهاج) للشيخ تقي الدين السبكي  756 ه) (یہ قاضی بیضاوی کی مذکورہ بالا کتاب منہاج الوصول کی سب سے بہترین اور فقہاء شوافع کے نزدیک اہم ومقبول ترین شرح ہے۔ اس کا تتمہ علامہ تقی الدین کے صاحبزادی علامہ تاج الدین سبکی نے کیا ہے۔)

22-    كتاب (رفع الحاجب عن مختصر ابن الحاجب) للشيخ تاج الدين السبكي (م 771 ه) (یہ مالکی فقیہ ابن الحاجب (م 646 ھ) کی اصول فقہ پر مشہور کتاب "مختصر منتہی السول" کی شرح ہے۔)

23-    كتاب (جمع الجوامع) للشيخ تاج الدين السبكي (یہ علامہ تاج الدین سبکی کی سب سے عظیم اصولی کتاب ہے جو اصولِ شریعت کا بہت ہی عظیم مختصر شاہکار ہے۔ جامع عبارات، معانی، ومطالب کا انبار اور وہ فوائد جو بیان سے باہر ہیں۔ عوام وخواص میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی بہت سے شروحات اور حواشی لکھے گئے ہیں۔ شوافع کے مدارس میں منتہی درجات وتخصص فی الفقہ کے شعبہ جات میں داخلِ نصاب ہے۔ اس کتاب میں علامہ سبکی نے اپنی دونوں مذکورہ کتابوں یعنی رفع الحاجب اور الابہاج شرح المنہاج کے فوائد وابحاث کو جمع کیا ہے۔)

24-    كتاب (نهاية السول في شرح منهاج الوصول) للعلامة جمال الدين الأسنوي (م 772 ه) (یہ علامہ اسنوی کی عظیم تصنیف ہے جو کہ قاضی بیضاوی کی منہاج الوصول کی بہت ہی مشہور شرح ہے، جو شیخ محمد نجیب المطیعی کے حاشیہ "سلم الوصول" کے ساتھ چھپی ہے۔)

25-    كتاب (البحر المحيط في أصول الفقه) للعلامة بدر الدين الزركشي  794 ه) (علامہ زرکشی کی اصولِ فقہ میں ایسی حیرت انگیز تصنیف ہے جو اصولِ شوافع کا انسائیکلوپیڈیا ہے، جس میں آپ سے سابق جمیع اصولیین کے اقوال وآراء کو شرح وبسط سے ساتھ جمع کیا گیا ہے۔ اصولِ شوافع میں مستقل اصولی انداز میں تصنیف کی جانے والی آخری کتاب ہے، اس لئے اس کے بعد تصنیف کی جانے والی تقریبا تمام ہی اصول کی کتابیں امام جوینی کی ورقات یا پھر علامہ سبکی کی جمع الجوامع کی شروحات ہیں یا حواشی، مختصرات یا پھر منظوم انداز میں انہیں پیش کرنے کی عظیم کاوش ہے۔ اس لئے "البحر المحیط" کو شوافع میں اصول فقہ میں خصوصی درجہ حاصل ہے۔)

قواعدِ فقہیہ پر بعض شافعی کتب:

اصولِ فقہ اور قواعدِ فقہیہ کے مابین جو فروق ہیں انہیں اہل تحقیق ونظر بخوبی جانتے ہیں، اسی کے پیش نظر جیسے شوافع اصولیین نے اصولِ فقہ میں اپنی خدمات انجام دی ہیں، اسی طرح انہوں نے قواعدِ فقہیہ میں بھی وہ کمالات پیش کئے جن سے علمی دنیا عش عش کر اٹھی ہے، جن کے چند نمونے درج ذیل ہیں:

1-           كتاب (الأشباه والنظائرلابن الوكيل المصري  716 ه)

2-           كتاب (المجموع المذُهَب في قواعد المذهب) للعلامة صلاح الدين العلائي (م 761 ه)

3-           كتاب (الأشباه والنظائر) للشيخ تاج الدين السبكي  771 ه) (علامہ سبکی کی یہ کتاب مذہبِ شافعی کے قواعدِ فقہیہ میں سب سے بہترین کتاب ہے۔)

4-           كتاب (المنثور في ترتيب القواعد الفقهية) للعلامة بدر الدين الزركشي  794 ه)

5-           كتاب (القواعد) للعلامة أبي بكر بن محمد الحصني  829 ه)

6-           كتاب (مختصر من قواعد العلائي وكلام الأسنوي) للعلامة ابن خطيب الدهشة  834 ه) (اس میں اصولِ فقہ، قواعدِ فقہیہ، اور مذہبِ شافعی کے احکام ومسائلِ شرعیہ شامل ہیں۔ اصلا علامہ ابن خطیب نے اس میں تین کتابوں کو جمع فرمایا ہے: (1) المجموع المذہب فی قواعد المذہب، (2) علامہ اسنوی کی التمہید، (3) اور علامہ اسنوی کی الکوکب الدری۔

7-           كتاب (الأشباه والنظائر في قواعد وفروع الشافعية) للعلامة جلال الدين السيوطي (م 911 ه) (یہ امام سیوطی کی قواعدِ فقہیہ پر بہت ہی عظیم تصنیف ہے جو کہ شوافع کے نزدیک قواعدِ فقہیہ میں اصولی موسوعہ (انسائیکلوپیڈیا) شمار ہوتا ہے۔ شوافع کے مدارس میں تخصص فی الفقہ کے شعبہ جات میں داخلِ نصاب ہے۔ قواعدِ فقہیہ میں شوافع کے نزدیک سب سے مقبول ترین کتاب ہے۔ اس پر حواشی، شروحات، مختصرات، تعلیقات ومنظومات لکھی گئی ہیں۔)

8-           كتاب (الفرائد البهية في نظم القواعد الفقهية في الأشباه والنظائر في مذهب الشافعية) للعلامة أبي بكر الأهدل اليمني  1035 ه) (علامہ اھدل کا شعری قصیدہ جس میں آپ نے شافعی مذہب کے مطابق فقہی وقواعد اصول وضوابط اپنی بے پناہ شعری مہارت سے 423 اشعار میں بیان فرمائے ہیں۔ اس کے بعد علامہ عبد اللہ بن سلیمان جرہزی (م 1201 ھ) نے الفرائد کی شرح "المواہب السنیہ شرح الفرائد البہیہ" کے نام سے تحریر فرمائی، پھر عظیم فقیہ علامہ محمد یسین بن عیسی الفادانی المکی (م 1411 ھ) نے المواہب السنیہ پر حاشیہ "الفوائد الجنیۃ حاشیہ المواہب السنیہ" کے نام سے لکھا ہے۔)

خاتمہ:

مذہبِ شافعی کے اس تعارف کے بعد ضروری ہے کہ اس بات کی وضاحت وتنبیہ کی جائے کہ متاخرین کے ہاں مذہبِ شافعیہ میں تقلید غالب آ چکی ہے۔ جس مذہب میں مجتہدین پیدا ہوا کرتے تھے، اس کے اصحاب نے اب اپنے فقہاء میں سے ابن حجر ہیتمی اور الرملی کے اقوال سے بالخصوص اپنے آپ کو باندھ کر رکھ دیا ہے، یہاں تک کہ انہوں نے زبانِ مقال سے نہ سہی لیکن اپنی زبانِ حال سے اسے شریعت کا ہی رکن بنا لیا ہے۔ بلکہ اہل مصر نے تو الرملی صاحب النہایہ کے دور کے بعد یہ عہد کر لیا ہے کہ وہ اُس سے باہر نکلیں گے ہی نہیں جو الرملی نے اپنی کتاب النہایہ میں لکھ دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تقلید نے متاخرین کی مباحث میں کتنا بڑا اثر چھوڑا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں بہت سی مشکلات پیدا ہوئی، جن میں سب سے خطرناک یہ کہ: زمانے کے ساتھ پیدا ہونے والے نئے واقعات اور نوازل میں مذہب کے احکام میں کفایت نہیں رہی۔ اس حقیقت پر بعض معاصرین فقہاء نے بھی روشنی ڈالی ہےجب انہوں نے بہت سے نئے وجدید مسائل اور خاص طور سے عدالتی احکام  میں مذہب میں کمی وخامی کو محسوس کیا۔ انہی میں سے ایک شیخ عبد الرحمن عبد اللہ بکیر حفظہ اللہ ہیں، انہوں نے اس متعلق فرمایا:

" ولما كان المذهب الشافعي نفسه يضيق أحياناً بمتطلبات الحياة الحديثة.

وفي غيره من المذاهب سعة، ولما كان أيضاً لا يتسع صدره لبعض التطورات الزمنية، وفي غيره من المذاهب فرصة لمسايرة التطورات، وفي بعض الأحيان يكون في معتمده حرج لا يطيقه العصر ولا أبناء العصر، لما كان كل ذلك فقد فكر المفكرون من رجالات الدولة القعيطية في عهد السلطان صالح ثم فيما تبعه، فكروا في وضع المخارج من بعض التقييدات التي يأباها التطور وتضيق عن حاجة الناس ولم يخرجوا في كل ذلك عن فقه الإسلام وآراء كبار رجال الإسلام"

" جدید دور کی زندگی کی ضروریات کے معاملے میں بعض اوقات مذہبِ شافعی میں تنگی آ جاتی ہے، جبکہ دیگر مذاہب میں وسعت ہے۔ اسی طرح زمانے کی بعض ترقیوں کے پیشِ نظر مذہب کے اندر وسعت کی کوئی جگہ نہیں رہتی، جبکہ دیگر مذاہب کے اندر ترقیات کے ساتھ چلنے کا موقع ہوتا ہے۔ اور بعض موقعوں پر مذہب کے معتمد قول میں کوئی حرج ہوتا ہے جو جدید دور اور اس کے لوگوں کے اعتبار سے مناسب نہیں ہوتا۔ اس سب کی موجودگی میں سلطان صالح کے عہد میں حکومتِ قعیطیہ کے بعض مفکرین اور ان کی اتباع میں بعد والوں نے غور وفکر کرنے کے بعد سوچا کہ   ان بعض باپندیوں سے نکلنے کا راستہ بنایا جائے جو مذہب کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں اور لوگوں کی حاجت کے راستے کو تنگ کرتی ہیں۔ اور اس سب میں ان لوگوں نے فقہِ اسلامی اور کبار ائمہ اسلام کی آراء سے خروج نہیں کیا۔" [87]

چنانچہ اس قول سےہمیں اس مشکل کے حجم  کا اندازہ ہوتا ہے جس کا سامنا فقہاء شوافع کو نوازل اور جدید مسائل میں ہوتا ہے۔ اور اس کا سبب صرف اجتہاد کے دروازے کو بند کر دینا اور ہر مسئلے میں متقدمین کے اقوال  میں کفایت کرنے کا دعوی کرنا ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ اتباع کے طریقے کو اپنایا جائے اور اُسے غیر مشروع تقلید کے طریقے پر مقدم رکھا جائے، پس اپنے اسلاف میں سے صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین کے نمونۂ عمل اور اہل علم محققین کے مسلک پر چلا جائے۔ اور یہ اجتہاد کے باب کو کھلے عام کھول دینے کی دعوت بھی نہیں ہے، بلکہ یہ صرف علماء کے مسالک ومناہج کو منضبط کرنے کی دعوت ہےجس کے دائرے میں وہ احکام کے استنباط واستخراج میں سلف کی ہدایت کو ظاہر کر سکیں۔ اور یہ مذہب کی پیروی کے جواز کو بھی مانع نہیں ہے، اس مقصد کے ساتھ کہ علم کو تدریجا حاصل کیا جائے اور اس میں اس کے ابواب سے داخل ہوا جائے۔

وصلي الله علي نبينا محمد وعلي آله وصحبه وسلم.

 

مصادر:

یہ مضمون مندرجہ ذیل تین مصادر سے ماخوذ ہے، اور بعض تفصیلات اور اضافات  دیگر کتبِ عامہ سےلی گئی ہیں:

·      https://www.alukah.net/sharia/0/6202/

·      شافعية - ويكيبيديا (wikipedia.org)

·      شافعی مسلک تاریخ اور خدمات کے آئینہ میں.pdf (archive.org)



[1] (المستصفی للغزالی: 4/139)

[2] (مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ: 20/203)

[3] (المحصول فی اصول الفقہ: 6/73)

[4] (الفتوى: نشأتها وتطورها ـ أصولها وتطبيقاتها، د. حسين محمد الملاح، ص388)

[5]  («فتح العزيز» (11/291))

[6]  («الأنساب» (6/298)، «اللباب» (2/69)، «وفيات الأعيان» (2/73، 74))

[7] (آثار امام شافعی، مترجم، ابو زہرہ مصری: ص 309)

[8]  (المدخل إلى مذهب الإمام الشافعي، ص100، تاريخ التشريع الإسلامي، ص361)

[9] (المدخل إلى مذهب الإمام الشافعي، ص307)

[10] (سیر اعلام النبلاء: 12/58، وطبقات الشافعیہ الکبری للسبکی: 1/275)

[11]  (سیر اعلام النبلاء: 12/492)

[12]  (سیر اعلام النبلاء: 12/587)

[13]  (دیکھیں: المجموع شرح المهذب لنووي: 1/707)

[14]  (کتاب الأم: 7/265)

[15] (تاریخ الاسلام: 6/779،و طبقات الشافعیہ الکبری للسبکی: 2/301، وطبقات الشافعیین لابن کثیر: 1/176)

[16] (طبقات الشافعيين لابن كثير: 1/174، وطبقات الشافعية الكبري للسبكي: 2/297، والإعلان بالتوبيخ للسخاوي: ص 189)

[17] (سیر اعلام النبلاء: 14/231)

[18] (سیر اعلام النبلاء: 14/417)

[19] (سیر اعلام النبلاء: 15/250)

[20]  (تاریخ بغداد؛ 5/43، وتہذیب الاسماء واللغات للنووی: 2/251، وسیر اعلام النبلاء: 14/201، وطبقات الشافعیہ الکبری للسبکی: 3/21، وطبقات الشافعیین لابن کثیر: 1/193)

[21]  (المجموع شرح المهذب ، 1/69)

[22]  (مقدمة تكملة المجموع لابن السبكي: 5/11)

[23]  (تهذيب الأسماء واللغات: 2/210، وسير أعلام النبلاء: 17/193)

[24]  (تهذيب الأسماء واللغات: 2/247، وسير أعلام النبلاء: 17/668، وطبقات الشافعية الكبري: 5/12)

[25]  (تهذيب الأسماء واللغات:2/172 و سير أعلام النبلاء: 18/452)

[26]  (سير أعلام النبلاء: 16/283، وطبقات الشافعيين لابن كثير: 1/371)

[27] (سير أعلام النبلاء: 23/96)

[28]  (تهذيب الأسماء واللغات: 1/164، وطبقات الشافعيين لابن كثير: 1/443)

[29]  (سیر اعلام النبلاء: 14/417، وطبقات الشافعية للحسيني: 1/163)

[30] (سیر اعلام النبلاء: 19/439)

[31] (سير أعلام النبلاء:18/468)

[32] (سير أعلام النبلاء: 19/322، وطبقات الشافعية الكبري: 4/101، وطبقات الشافعية للإسنوي: 2/860)

[33] (فتاوی ابن الصلاح: 1/203)

[34] (سیر اعلام النبلاء: 19/260،وطبقات الشافعيين لابن كثير: 1/524)

[35] (سیر اعلام النبلاء: 18/464، وطبقات الشافعيين لابن كثير: 1/464)

[36] (سیر اعلام النبلاء: 10/616، وطبقات الشافعیین لابن کثیر: 1/139)

[37] (طبقات الشافعیہ الکبری للسبکی: 3/301)

[38] (سیر اعلام النبلاء: 15/65)

[39] (طبقات الشافعیہ للاسنوی: 1/76-77)

[40] (سیر اعلام النبلاء: 16/92، وصحیح ابن حبان: 5/496 ح 2125)

[41] (سیر اعلام النبلاء: 16/292)

[42] (سیر اعلام النبلاء: 16/449)

[43] (سیر اعلام النبلاء: 17/162)

[44] (سیر اعلام النبلاء:18/163 وطبقات الشافعیہ الکبری: 4/8)

[45] (سیر اعلام النبلاء: 18/270، وطبقات الشافعیین لابن کثیر: 1/441)

[46] (المدخل إلي مذهب الإمام الشافعي، ص 373)

[47] (سير أعلام النبلاء: 22/252، وطبقات الشافعية الكبري: 5/119، وتهذيب الأسماء واللغات: 2/264)

[48] (المنهاج السوي للسيوطى: ص 26)

[49] (طبقات الشافعية الكبري: 8/398)

[50] (سلم المتعلم المحتاج إلى معرفة رموز المنهاج، أحمد ميقري شميلة الأهدل، في مقدمة كتاب النجم الوهاج شرح المنهاج للدميري، ج1ص132)

[51] (البدایہ والنہایہ لابن کثیر: 13/278)

[52] (الفوائد المكية فيما يحتاجه طلبة الشافعية، لعلوي بن أحمد السقاف، ص 171)

[53] (حاشية إعانة الطالبين، السيد البكري: 1/32)

[54] (الفوائد المدنية فيمن يفتي بقوله من أئمة الشافعية للشيخ محمد بن سليمان الكردي، دار نور الصباح، ص 259-279)

[55] (التحقیق للنووی: ص 31، 32)

[56] (اسباب اختلاف الفقہاء: ص 264)

[57] (الرسالہ للشافعی: ص 19)

[58] (کتاب الام للشافعی – کتاب ابطال الاستحسان: 7/313)

[59] (کتاب الام: 7/265)

[60] (کتاب الام: 1/179)

[61] (الرسالہ للشافعی: ص 22)

[62] (انظر: مناهج التشريع الإسلامي للبلتاجي، ص: 491، وانظر رد الإمام الشافعي في كتاب (جماع العلم) من كتاب (الأم) 7/ 250-270)

[63] (الرسالہ للشافعی: ص 369، مترجم: ص 186)

[64] (آداب الشافعی لابن ابی حاتم: ص 50)

[65] (سورت النساء 4:115)

[66] (کتاب الام للشافعی: 1/153)

[67] (کتاب الرسالہ للشافعی: ص 534)

[68] (کتاب الام للشافعی: 7/280)

[69] (کتاب الام للشافعی: 2/29)

[70] (الرسالہ للشافعی: ص 596)

[71] (کتاب الام للشافعی: 3/78)

[72] (الرسالہ للشافعی: ص 476)

[73] (الرسالہ للشافعی: ص 507)

[74]  (کتاب الأم: 7/265)

[75] (انظر: أسباب اختلاف الفقهاء للشيخ علي الخفيف، ص: 256-266)

[76] (صحیح البخاری: 3495، صحیح مسلم: 1818)

[77] (مسند الشافعی: 1776، فضائل الصحابہ لاحمد بن حنبل: 1066، السنہ لابن ابی عاصم: 1519-1521، حلیۃ الاولیاء: 9/64۔ شیخ البانی نے ارواء الغلیل (2/295 ح  519) میں اسے صحیح کہا ہے)

[78] (نہایۃ المطلب: 1/111)

[79] (الحیاۃ الفکریہ والادبیہ بمصر: 44)

[80] (آداب الشافعی ومناقبہ لابن ابی حاتم: ص 70)

[81] (آداب الشافعی: ص 247)

[82] (تاریخ التشریع الاسلامی: 54، المدخل الی الفقہ الاسلامی: 153-154)

[83] (طبقات الشافعیۃ الکبری: 5/343)

[84] (الابہاج شرح المنہاج للسبکی: 2/109)

[85] (طبقات الشافعیۃ الکبری: 5/343)

[86] (البحر المحیط للزرکشی: 1/11)

[87] (نماذج من فقه القضاء وفقه الفتوي بحضرموت: ص 18)

0/کمنٹس: