قر آنِ حکیم، احادیثِ نزولِ مسیح اور دبستانِ غامدی
تحریر: وقار
اکبر چیمہ
پچھلے سو،
ڈیڑھ سو برس میں عالم اسلام کے مختلف حصوں
میں مجددین پر ایک تازہ الہام ہوا ہے کہ قرب قیامت نزول مسیح علیہ السلام کا عقیدہ
بغیر کسی محکم دلیل کے امت میں رائج چلا آ رہا ہے۔ ہمارے ہاں اس نظریہ کے حاملین
کی باقیات میں سے ایک جاوید احمد غامدی صاحب بھی ہیں۔ موصوف کا نظریہ بظاہر دو مقدمات پر قائم ہے:
· (الف) قرآن حکیم میں سیدنا
عیسی علیہ السلام کی وفات کا تذکرہ ہے، اور
· (ب) یہ باور کرنا آسان نہیں کہ قرآن ایک جلیل القدر
پیغمبر کے آسمان سے زندہ نزول کے بارے میں خاموش رہے۔[1]
اس تحریر
میں ہم غامدی صاحب کے ان دو مقدمات اور موضوع سے متعلق احادیث
پر ان کے موقف کا تنقیدی جائزہ پیش کریں گے۔ ساتھ ہی غامدی صاحب کی صفائی
میں ان کے شاگرد عمار خان ناصر صاحب کی بوالعجبیوں
پر بھی نظر ڈالیں گے جو کہتے ہیں کہ غامدی صاحب کے فہم کے مطابق "یہ روایات قرآن مجید کے خلاف ہیں۔" [2]
کیا قرآن حکیم میں سیدنا مسیح علیہ السلام کی وفات کا تذکرہ ہے؟
غامدی صاحب
کا بنیادی استدلال وہی ہے جو عام طور سے
قادیانی حضرات پیش کرتے آئے ہیں کہ قرآن حکیم میں سیدنا عیسی علیہ السلام کے
حوالے سے ارشاد ہے:
إِذْ
قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ
مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ
كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
غامدی صاحب اس
آیت کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں؛
"جب الله نے کہا: اے عیسی، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور (تیرے) ان منکروں سے تجھے پاک کروں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک ان منکروں پر غالب رکھوں گا۔" [3]
گویا انہوں
نے یہاں " مُتَوَفِّيكَ" کے معنی وفات یا موت کے لئے ہیں۔
یہ معنی
جمہور کی اختیار کردہ تفسیر کے خلاف ہے۔ خود غامدی صاحب کے منہ بولے استاد مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم نے جمہور کی رائے کی تائید میں احادیث کا حوالہ
لائے بغیر قرآن حکیم کے الفاظ اور اسلوب
سے استدلال کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
" تَوَفِّي کے
اصل معنی عربی لغت میں 'الاخذ بالتمام' کسی
شَے کے پورا پورا لے لینے یا کسی چیز کو اپنی طرف قبض کر لینے کے ہیں۔ موت دینے کے
معنی میں اس لفظ کا استعمال حقیقتا نہیں مجازاً ہوا ہے۔ ایسے الفاظ جو اپنے حقیقی
اور مجازی دونوں معنوں میں استعمال ہوتے ہیں، اپنے صحیح مفہوم کے تعین میں قرائن
کے محتاج ہوتے ہیں۔
یہاں مندرجہ ذیل قرائن اس بات کے خلاف ہیں کہ اس
کے معنی یہاں موت دینے کے لئے جائیں:
·
ایک تو
یہ کہ یہ موقع الله تعالی کی طرف سے سیدنا مسیح اور ان کے ساتھیوں کے لئے بشارت
اور وعدۂِ نصرت کا ہے۔ جملہ رسولوں کی
سرگزشتیں اس امر کی شاہد ہیں کہ جب ان کی قوموں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا تو الله
تعالی نے ان کو اپنی حفاظت و نصرت کی بشارت دی ہے۔ یہاں بھی آیت پر نگاہ
ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ پوری آیت بشارت اور وعدۂِ نصرت ہی کی ہے۔ اس سیاق و سباق میں آخر یہ کہنے
کا کیا محل ہے کہ میں تمہیں موت دینے والا ہوں، یہ تو وہی چیز ہوتی جس کے خواہاں
یہود تھے۔ فرق صرف ذریعے کا ہوتا کہ موت یہود کے ہاتھوں نہیں بلکہ قدرت کے ہاتھوں
واقع ہوتی۔
·
دوسرا
یہ کہ اگر اس لفظ سے یہاں موت دینا مراد ہوتا تو اس کے بعد "رَافِعُكَ
إِلَيَّ" کے الفاظ بالکل غیر ضروری ہو کے رہ جاتے ہیں۔ آخر یہ کہنے کا کیا فائدہ
کہ میں تمہیں موت دینے والا اور اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں؟ موقع دلیل ہے کہ یہاں
"مُتَوَفِّيكَ"
کے بعد "رَافِعُكَ إِلَيَّ"
کے الفاظ "تَوَفِّي"
کے مفہوم کو واضح کر رہے ہیں کہ تمہاری "تَوَفِّي"
کی شکل یہ ہو گی کہ میں تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا۔۔
·
تیسرا
یہ کہ "رَافِعُكَ إِلَيَّ "
کے معنی مجرد رفع درجات لینا صحیح نہیں ہے۔ اس صورت میں "إِلَيَّ "
کا لفظ بالکل بے ضرورت ہو کر رہ جاتا ہے اور قران میں کوئی لفظ بھی بے ضرورت
استعمال نہیں ہوا ہے۔ اگر صرف درجے کی بلندی کا اظہار مقصود ہوتا تو عربیت کے لحاظ
سے رَافِعُكَ" کافی تھا، "إِلَيَّ "
کی ضرورت نہیں تھی۔ قران میں دیکھ لیجئے جہاں بھی یہ لفظ بلندی مرتبہ کے مضمون کے
لئے استعمال ہوا ہے بغیر "الی" کے استعمال ہوا ہے ۔۔۔ اگر حرف "إِلَيَّ"
کا صحیح حق ادا کیا جائے اور یہ حق ادا کرنا ضروری ہے تو "رَافِعُكَ
إِلَيَّ" کے معنی یہ ہوں گے کہ میں تمہیں عزت و اکرام کے ساتھ اپنی جانب اٹھا
لینے والا ہوں۔
·
چوتھا
یہ کہ قران نے دوسرے مقام میں جہاں یہ مضمون بیان کیا ہے وہاں "مُتَوَفِّيكَ "
کا لفظ بالکل اڑا دیا ہے، قتل اور سولی کی نفی کے بعد جس چیز کا اثبات کیا ہے وہ
صرف اٹھا لئے جانے کا ہے۔ "بَلْ
رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْه" (بلکہ
الله نے اس کو اپنی جانب اٹھا لیا) یہ اس
بات کا نہایت واضح قرینہ ہے کہ قران نے یہ "تَوَفِّي"
کی اصل شکل بتائی ہے کہ الله تعالی نے ان کو اپنی جانب اٹھا لیا۔ آیت
ملاحظہ ہو؛
"وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ
وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ
مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا
(157) بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (158)"
"اور نہ انہوں نے اس کو قتل کیا اور نہ اس
کو سولی دی بلکہ معاملہ ان کے لئے گھپلا کر دیا گیا اور جن لوگوں نے اس بارے میں
اختلاف کیا وہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، انھیں اس کے بارے میں کوئی علم نہیں، محض
اٹکل کے تیر چلا رہے ہیں اور انہوں نے اس کو قتل یقینا نہیں کیا بلکہ اس کو الله
نے اپنی طرف اٹھا لیا اور الله غالب اور حکمت والا ہے۔" (النساء
١٥٧-١٥٨)
یہ آیت سب سے زیادہ موزوں مقام اپنے اندر رکھتی تھی اس بات کے بیان کے لئے کہ حضرت عیسیٰ کی موت کس طرح ہوئی؟ اس لئے کہ قران نے بڑی تاکید اور شدت کے ساتھ ان لوگوں کی تردید کی ہے جو ان کے قتل یا ان کی سولی کے مدعی تھے۔ اگر آپ کی موت واقع ہوئی ہوتی تو اس موقع پر قران صاف صاف یوں کہتا کہ نہ ان کو قتل کیا گیا اور نہ ان کو سولی دی گئی بلکہ الله نے ان کو وفات دی۔ لیکن قران میں نہ صرف یہ کہ یہ نہیں کہا بلکہ یہاں "تَوَفِّي" کا لفظ بھی استعمال نہیں کیا، صرف "رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْه" کا لفظ استعمال کیا۔ ہر صاحب ذوق اندازہ کر سکتا ہے کہ قتل اور سولی کی نفی کے بعد اس رفع سے موت مراد لینے کی کس حد تک گنجائش ہے۔[4]
یہ لیجئے
خود غامدی صاحب کے "استاذ امام" کلام الله کے اسلوب کی شہادت سے ثابت کر
رہے ہیں کہ سیدنا عیسی کی وفات کا موقف کسی طور بھی درست نہیں۔
اگر یہ کہا
جائے کہ مذکورہ دلائل سے تو صرف يہ ثابت
ہوتا ہے کہ سيدنا عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا ليا گيا تھا، اس سے يہ
تو ثابت نہيں ہوتا کہ ان کا نزول بھى ہو گا تو عرض ہے کہ اس نکتہ سے جہاں حيات و رفع اور نزول کے تعلق پر
سوچنے کا سبق ملتا ہے وہيں موت اور نزول کے تعلق پر غور کرنے کي دعوت بھي ہے۔ ا گر
یہ بات قابل غور ہے کہ بحالت زندگی رفع سے
نزول لازم آتا ہے يا نہيں؟ تو یہ بھی غور طلب ہے کہ بالفرض يہ مان بھی ليا جائے کہ
"مُتَوَفِّيكَ" کا معنی واقعی موت ہے تو کيا اس سے نزولِ عیسیٰ علیہ
السلام کے تمام دلائل کا انکار لازم آتا ہے؟ کيا قران ميں کوئی دليل خاص نزولِ
عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف بھي ہے؟
مسئلہ کی
مزيد وضاحت اس طرح ہے کہ:
سورۃ آل عمران آيت ٥٥ کي روشنی ميں عیسیٰ عليہ السلام
کى حيات کا مسئلہ ايک طرف جمہور امت مسلمہ اور دوسري طرف قاديانی و غامدی فکر کے
درميان مختلف فيہ ہے۔ بحالت زندگی رفع سے نزول لازم نہ بھی آئے تو نزول کی تو
مستقل دليل درجنوں صحيح احاديث کی صورت
میں ہے ہي ليکن وفات کے موقف کو مان بھی ليا جائے تو اس سے نزول کا
انکار لازم نہيں آتا۔
سیدنا عیسی
علیہ السلام کے حوالے سے قران میں استعمال کئے گئے لفظ "توفّی" کے
کوئی بھی معنی لے لئے جائیں احادیث نزولِ مسیح علیہ السلام کا قرآن سے کوئی تعارض لازم نہیں آتا ہے اور اس لفظ کی
تفسیر میں اختلاف کے باوجود تمام امت کا نزولِ مسیح علیہ السلام کے اثبات پر مکمل
اجماع رہا ہے۔ لفظ " توفّی" کی تفسیر میں مختلف اقوال اور نزولِ مسیح علیہ
السلام کے حوالے سے ان کے نتائج کا اجمالی بیان پیشِ خدمت ہے؛
1-جمہور کا موقف یہ ہے کہ سیدنا
عیسی علیہ السلام کے حوالے سے " توفّی " موت کے معنی میں
استعمال نہیں ہوا بلکہ اس کی وضاحت رفع سے ہوتی ہے کہ آپ کو جسم سمیت الله نے اپنی
طرف بلا لیا۔
2-سیدنا ابن عباس رضی الله عنہ
سے ایک روایت اور اسی طرح حضرت قتادہ سے منقول ہے کہ " توفّی " کے
معنی تو موت کے ہی ہیں لیکن آیت "مُتَوَفِّيكَ
وَرَافِعُكَ" میں تقدیم و تاخیر ہے
کہ پہلے رفع ہوا اور بعد از نزول، توفی بمعنی موت ہو گی۔ (موسوعة التفسير المأثور، ج ٥، ص ٢٣٨ و ٢٤٠
روایت ١٣٠٩٦، ١٣١٠٩)
3-بعض حضرات سے منقول ہے کہ
" توفّی " کے معنی موت کے ہیں اور سیدنا عیسی علیہ السلام کو
واقعی موت دی گئی لیکن بہرحال قیامت سے قبل ان کا نزول ہو گا اور پھر ایک عرصه
زمین پر گزارنے کے بعد ان کی دوبارہ وفات ہو گی۔ (فتح الباری، ج ٦ ص ٤٩٣)۔
جیسا کہ ہم
پہلے عرض کر چکے ہیں اس مسئلہ میں قران و حدیث کے درمیان تعارض کا دعوی سرے سے ہے ہی باطل اور قران میں نزول عیسی علیہ
السلام کے خلاف اشارہ تک نہیں۔ عصرِ حاضر میں حدیث رسول (ﷺ) پر اپنی تُک بندی کو ترجیح
دینے والوں کے علاوہ امّت میں سے آج تک کسی نے نزولِ عیسی کا انکار نہیں کیا اور یہ
عقیدہ متواتر احادیث کی بنیاد پر ظاہر ہونے والے امّت کے عِلمی تواتر کا حصّہ ہے۔
قرآن اور نزول عیسی :
رہ گئی یہ
مشکل کہ قرآن حکیم میں نزول عیسی علیہ السلام کے نہ ہونا باور کرنا آسان نہیں تو اول تو یہ کہ
دین کے ماخذ ایک نہیں دو ہیں۔ اور ضروری
نہیں کہ ہر بات کا ذکر ہر ماخذ میں ہو۔ سنت
و حدیث کے باہمی تعلق پر غامدی مذھب اور
جمہور کے اختلاف کی تفصیل میں جائے بغیر
یہ تو طے ہے کہ امت مسلسل نزول عیسی کی
معتقد چلی آ رہی ہے۔ اور اس بات کا قطعا کوئی ثبوت نہیں کہ کسی بھی دور میں امت
میں اس حوالے سے کوئی اختلاف رہا ہو یا اس
حوالے سے امت اجتماعی طور پر ابہام کا
شکار رہی ہو۔ اور پھر صحابہ و تابعین نے
متعدد آیات سے بھی نزول عیسی پر استدلال کیا ہے جس کا ذکر آگے آئے گا۔
احادیث نزول مسیح:
احادیث نزول مسیح کے حوالے سے
دبستان غامدی کی طرف سے جو دلائل دیئے
جاتے ہیں ان کو دیکھ کر اگر ایک طرف تفنن
طبع کا سامان میسر آتا ہے تو سچ پوچھیں
ساتھ ہی افسوس بھی ہوتا ہے کہ یہ حال ہے
ان حضرات کی علمیت کا جو بے شمار معاملات میں مسلمات و متفقات سے ہٹ کر رائے
اختیار کرنے میں گویا فخر محسوس کرتے ہیں۔
موطا امام مالک اور نزول مسیح :
ایک سوال کے جواب میں غامدی صاحب اس
مضمون سے متعلق احادیث پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حدیث کی پہلی کتاب موطا ہے اور اس میں نزول مسیح کے حوالے سے کوئی روایت نہیں اور بعد کی کتابوں
میں ایسی روایات نقل ہونا شروع ہوئیں۔
اول تو یہ کہ دستیاب کتب حدیث میں موطا اولین کتاب نہیں۔ امام معمر بن راشد کی کتاب "الجامع" موطا سے زمانی اعتبار سے مقدم ہے اور
مصنف عبد الرزاق کے ساتھ شائع بھی ہو چکی
ہے۔ اس میں نزول عیسی مسیح علیہ السلام سے متعلق
متعدد روایات ہیں۔ پھر موطا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ایک خواب سے
متعلق روایت ہے جس میں دجال اور سیدنا
عیسی کا حلیہ بتایا گیا ہے اور ذکر ہے کہ آنحضور (ﷺ) نے دیکھا سیدنا عیسی کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ غامدی صاحب نے خود اس کا ذکر کیا ہے اور اس کی
بنیاد پر فرمایا ہے کہ امام مالک نے جناب عیسی علیہ السلام کے موضوع کو ترک نہیں
کیا ۔ خود یہ روایت بھی واضح کرتی ہے کہ قرب قیامت دجال کے ساتھ ساتھ سیدنا مسیح علیہ
السلام کا بھی ظہور ہو گا اور سیدنا عیسی کعبہ کا طواف بھی کریں گے کیونکہ انبیاء
کے خواب وحی ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ امام مالک
کا رسول عربی صلی الله علیہ وسلم کے علاوہ انبیاء میں سے صرف سیدنا عیسی
علیہ السلام کے حلیے سے متعلق روایات نقل
کرنا بھی معنی خیز ہے۔
اس پر مستعاد یہ کہ موطا امام
مالک بروایہ ابن وھب، عبد الرحمن بن القاسم، سعید بن داود ،
اور معن بن عیسی، وغیرہ میں درج ذیل روایت بھی
نقل کی گئی ہے؛
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفس
محمد بيده، ليهلن ابن مريم بفج الروحاء، حاجا أو معتمرا، أو ليثنينهما
"ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله (ﷺ) نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے ، یقینا عیسی ابن مریم روحاء کی گھاٹی میں حج، عمرہ یا دونوں کے لئے لبیک پکاریں گے ۔"[5]
جیسا کہ
امام نووی وغیرہ نے وضاحت کی ہے اس روایت کا تعلق حیات بعد از نزول سے ہی ہے۔
نزول مسیح سے متعلق احادیث کا تواتر :
نزول عیسی (علیہ
السلام) سے متعلق روایات درجہ تواتر تک پہنچتی ہیں۔ متعدد اہل علم نے اس امر کی
صراحت کی ہے جن میں امام طبری، ابو الحسن الآبري،
ابن عطیہ اندلسی ، قاضی
ابن رشد، حافظ ابن کثیر، حافظ ابن حجر عسقلانی ، امام
شوکانی، امام آلوسی ، محمد بن جعفر الکتانی، علامہ زاہد
کوثری اور کئی معاصر اہل علم شامل
ہیں۔ [6]
اسی طرح
متعدد علماء نے خاص اس مضمون پر مستقل
تصانیف بھی چھوڑی ہیں جن میں امام شوکانی، علامہ زاہد
کوثری، شیخ عبد الله بن صدیق غماری، شیخ حبیب
اللہ شنقیطی ، شیخ محمد علی اعظم،
شیخ التبانی الجزائری، اور علامہ انور شاہ کشمیری شامل ہیں۔[7]
شیخ ابو غدہ
مرحوم کی تحقیق کے ساتھ علامہ کشمیری کی کتاب التصريح
بما تواتر في نزول المسيح ایک شاہکار ہے۔ (مفتی رفیع عثمانی صاحب نے اس کتاب میں شامل روایات کا
ترجمہ اپنی کتاب "علامت قیامت اور نزول مسیح" میں کر
دیا ہے اور ان کی اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی
ہو چکا ہے ) شیخ ابو غدہ کے استدرکات کو شامل کر کے کتاب میں ١٥٠ سے زائد احادیث و
آثار نقل کئے گئے ہیں۔ مرفوع روایات ٢٧ صحابہ سےنقل کی گئی ہیں اور مرسلات اس کے
علاوہ ہیں۔
مستقل
تصانیف میں مرتب درجنوں روایات اور مشاہیر
اہل علم کے بر خلاف عمار صاحب کے ہاتھ آیا بھی تو
علامہ تفتازانی کی علم کلام پر کتاب "شرح المقاصد
في علم الكلام" کا حوالہ جہاں انہوں
نے اس مضمون کی روایات کو آحاد کہا ہے۔
غالبا علامہ تفتازانی کے بارے میں ہی علامہ زاہد کوثری نے فرمایا تھا:
وأما تواتر الأحاديث المهدي والدجال والمسيح، فليس بموضع ريبة عند أهل العلم
بالحديث، وتشكك بعض المتكلمين في تواتر بعضها، مع اعترافهم بوجوب اعتقاد أن أشراط
الساعة كلها حق، فمن قلة خبرتهم بالحديث، وهم معذورون في ذالك
مہدی، دجال، اور (نزول) مسیح سے متعلق احادیث کا متواتر ہونا حدیث کا علم رکھنے والوں کے نزدیک شک سے بالاتر ہے۔ اور جو بعض متکلمین نے(حدیث میں مذکور) تمام علامت قیامت پر ایمان لانے کے وجوب کو تسلیم کرتے ہوئے ان میں سے کچھ کے تواتر کے حوالے سے شک ظاہر کیا ہے وہ ان کی حدیث کے بارے میں کم علمی کی وجہ سے ہے اور اس حوالے سے وہ معذور ہیں (کہ یہ ان کا میدان ہی نہیں)۔[8]
چناچہ علامہ تفتازانی نے اسی کتاب میں علامت قیامت بشمول نزول مسیح پر ایمان کو طريقة أهل السنة قرار دیا ہے۔[9]
اس تناظر میں عمار خان ناصر صاحب
کا دعوی کہ اس مضمون کی روایات کے تواتر کا قول
تحقیق سے درست ثابت نہیں ہوتا [10] واضح طور پر خود تحقیق
سے عاری ہے۔ پھر یہ کہنا کہ "صدر اول یعنی صحابہ و تابعین کے دور میں اس بات کا ذکر اخبار
آحاد ہی کے طریقے پر ہوتا رہا ہے، جبکہ
انھیں "متواتر" شمار کرنے کا زاویہ نگاہ بہت بعد میں اس وقت پیدا
ہوا جب احادیث کے مجموعے مدون ہو چکے تھے" مہمل قول ہے کیونکہ
ظاہر ہے تواتر کی اصطلاح تو بعد ہی میں معروف ہوئی لیکن صحابہ کے ہاں جس اسلوب میں
نزول مسیح کا ذکر ملتا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس کا ہونا قطعی تھا ۔
صحابہ کے لئے تو تواتر اور احاد کی تقسیم
بے معنی تھی کہ خود زبان نبوی سے سن لینے کے بعد ان کے لئے تردد کی گنجائش نہیں
تھی۔ یوں بھی ان کے دور تک
"المورد" کی داغ بیل نہیں ڈلی تھی۔
احادیث و
آثار میں نزول عیسی علیہ السلام کا ذکر مختلف سیاق میں آیا ہے:
· کہیں مطلق قیامت کی نشانیوں
کے بیان میں(صحیح مسلم ، حدیث ٢٩٠١ -٣٩ )
· تو کہیں امت محمدیہ کی مدح کے
طور پر کہ سیدنا عیسی علیہ السلام کا ظہور مسلمانوں کے درمیان ہو گا اور وہ
مسلمانوں کے امیر کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے (صحیح بخاری، حدیث ٣٤٤٩)۔
·
معراج کی رات کی تفصیل میں
بھی نزول عیسی علیہ السلام کا تذکرہ آیا
ہے (مسند احمد، حدیث ٣٥٥٦)
·
اور متعدد آیات قرانی کی
تفسیر میں بھی صحابہ نے اس کو بیان کیا ہے۔ اسی طرح استمرار جہاد کے بیان میں بھی
آپ کے دوبارہ ظہور کا ذکر ہے (مسند احمد، حدیث ١٩٨٥١)
· اور آپ کے ہاتھوں ہی دجال کے قتل کا تذکرہ بھی کئی روایات میں آیا ہے
(مثلا مسند طیالسی، حدیث ٢٦٢٦)۔
· آنحضور (ﷺ) کو خواب میں بھی عیسی علیہ السلام دجال کے با لمقابل دکھائے گئے
(موطا امام مالک، حدیث ٣٤٠٥)۔
· آپ کے نزول اور دجال کے قتل
کے مقام کا ذکر بھی آیا (سنن ابو داود ، حدیث
٤٣٢١ وغیرہ)
· کہیں آپ کو پہچاننے کے لئے آپ
کے حلیہ مبارک کی تفصیل ہے (سنن ابو داود ، حدیث
٤٣٢٤)
·
تو کہیں سیدنا عروہ بن
مسعود سے آپ کی شباہت کا بتایا گیا ہے(صحیح مسلم، حدیث ٢٩٤٠-١١٦)
·
اور حج و عمرہ کے لئے آپ
کی مکہ آمد کی پیشگی اطلاع بھی دی گئی ہے
(مسند احمد، حدیث ٧٦٨١)۔
· ابن صیاد کا معاملہ کھڑا ہوا
اور سیدنا عمر نے اسے قتل کرنا چاہا تو بھی رسول الله (ﷺ) نے فرمایا کہ اگر وہ
واقعی دجال ہے تو اس کا قتل عیسی علیہ السلام کے ہاتھوں ہی ہو گا (مسند احمد، حدیث
١٤٩٥٥)۔
· نجران کے عیسایوں سے مذاکرہ
ہوا تو بھی فرمایا گیا کہ جناب عیسی علیہ السلام کی وفات مستقبل میں ہو گی (تفسیر
طبری، روایت نمبر ٦٥٤٤)۔
·
اسی طرح یہودیوں کو خبردار کیا گیا
کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات
نہیں ہوئی اور قیامت سے قبل وہ ان کی طرف واپس آئیں گے(تفسیر طبری، روایت نمبر ٧١٣٣)
· رسول اللہ (ﷺ) نے ابو ہریرہ
سے فرمایا کہ اگر عیسی علیہ السلام سے ملاقات ہو تو ان کو
آپ کا سلام پہنچائیں (مسند احمد، حدیث ٧٩٧٠، ٩١٢١)،
· رسول الله (ﷺ) کی یہی وصیت
حضرت انس نے بھی روایت کی ہے (مستدرک الحاکم، حدیث ٨٦٣٥)۔
· حضرت ابو ہریرہ اپنے شاگردوں
کو بھی یہی وصیت کرتے تھے (مسند احمد، حدیث ٧٩٧٨)۔
· اسی طرح حضرت ابو ذر غفاری
بھی فرمایا کرتے تھے، "میری ہڈیوں
کی کمزوری اور بالوں کی سفیدی نے مجھے عیسی ابن مریم کی ملاقات سے مایوس نہیں کیا۔"
(طبقات الکبریٰ لابن سعد، ج ٤، ص ١٧٤)
·
جب رسول الله (ﷺ) کی وفات ہو گئی تو
سیدنا عمر اور بعض دیگر صحابہ فرط غم میں واقعہ کی مختلف
تعبیریں کرنے لگے، کسی نے کہا کہ آنحضور (ﷺ) کا جانا بھی ایسے ہی ہے جیسے موسی
علیہ السلام چالیس روز کے لئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تھے تو کسی نے یہ بھی کہا
کہ آنحضور (ﷺ)کو الله تعالی نے عیسی علیہ السلام کی طرح
زندہ اٹھا لیا ہے (اور آپ بھی لوٹ آئیں گے) (طبقات الکبریٰ لابن سعد، ج ٢، ص ٢٠٨)۔
· اسی طرح متعدد حضرات صحابہ اور تابعین کے نزدیک نزول مسیح کا عقیدہ بعض آیات قرانی
جیسے آل عمران ٤٦، النساء ١٥٩، اور
خاص کر الزخرف ٦١ سے بھی اخذ ہوتا ہے بلکہ الزخرف ٦١ سے نزول عیسی مراد ہونا تو خود
آنحضور صلی الله علیہ وسلم سے بھی صحیح سند کے ساتھ منقول ہے۔ دیکھئے صحیح
ابن حبان، حدیث ٦٨١٧ اور مستدرک الحاکم حدیث،
٣٠٠٣، اور علامہ البانی کی سلسلة
الأحاديث الصحيحة، حدیث ٣٢٠٨
یہ سب امور
واضح کرتے ہیں کہ حضرات صحابہ کے نزدیک سیدنا عیسی علیہ السلام کا زندہ ہونا اور
ان کا نزول قطعی تھا ۔
عمار خان ناصر صاحب کے روایات سے
استدلال پر ایک نظر:
ان واضح دلائل کو یکسر نظر انداز کر کے
نزول عیسی علیہ السلام سے متعلق غامدی صاحب کے خانہ زاد نظریہ کا دفاع کرتے
ہوئے غامدی مذھب کے "صاحب تخریج" عمار خان ناصر صاحب نے عربی دانی کے کمال جوہر دکھائے
ہیں، مصنف ابن ابی شیبہ و طبرانی وغیرہ نے درج ذیل روایت نقل کی ہے :
"قال رجل عند المغيرة بن شعبة : صلى الله على محمد خاتم الأنبياء ، لا
نبي بعده ، قال المغيرة : حسبك إذا قلت : خاتم الأنبياء ، فإنا كنا نحدث ، أن عيسى
خارج ، فإن هو خرج ، فقد كان قبله وبعده"
عمار صاحب نے اس کا ترجمہ کچھ
یوں کیا ہے؛
"ایک شخص نے مغیرہ بن شعبه کی مجلس میں نبی علی
الله علیہ وسلم کے لئے 'خاتم الأنبياء ، لا نبي بعده' کے الفاظ کہے تو مغیرہ نے کہا
کہ، 'تمہیں یہی کافی تھا کہ خاتم الانبیاء کہہ دیتے، کیونکہ ہمیں یہ بتایا جاتا تھا
کہ عیسی علیہ السلام بھی آنے والے ہیں۔ سو اگر وہ آ گئے تو وہ نبی صلی الله
علیہ وسلم سے پہلے بھی ہوں گے اور آپ کے بعد بھی۔'"
(براھین، ص ٧١٠)
اس کے بعد موصوف فرماتے ہیں؛
"ظاہر ہے کہ ایک قطعی الثبوت عقیدہ کے ذکر کے لئے
یہ اسلوب کسی طرح موزوں نہیں۔" (براھین، ص
٧١٠)
لیجئے عربی دانی کے جوہر دکھا
کر ثابت فرمایا گیا ہے کہ صحابہ کے نزدیک نزولِ مسیح کا عقیدہ قطعی الثبوت نہیں تھا۔
اور حدیثِ رسول جان لینے کے بعد بھی صحابہ اس کے بارے میں تردد کا شکار رہتے تھے۔
یہاں موصوف نے روایت کے الفاظ
"فإن
هو خرج" کو شرط کے معنی دیے ہیں
کہ "اگر عیسی علیہ السلام ظاہر ہوئے"،
حقیقت یہ ہے کہ لفظ "إن" ہمیشہ
شرط کے معنی میں نہیں آتا بلکہ "إذ"
کی طرح وقت کا بیان کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قران حکیم اور کلامِ عرب کے اسلوب
سے استدلال کرتے ہوے امام جصاص لکھتے ہیں؛
"إن": قد تكون بمعنى: "إذا" أيضًا ۔۔۔ فإن الناس لا يفرقون في العادة بين:
"إذا"، و: "إن" ۔۔۔ "إذا": لها حظ من الوقت، ومن الشرط،
وليست هي شرطًا محضًا، ولا وقتًا محضًا، وإنما تكون تارة في معنى الشرط، وتارة في
معنى الوقت، على حسب قيام الدلالة عليه
"إن" "إذا" کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔۔۔ اور عادتاً بھی لوگ "أذا" اور "إن" میں فرق نہیں کرتے ۔۔۔ "إذا" میں وقت کا عنصر بھی ہے اور شرط کا بھی، یہ نہ تو محض شرط کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور نہ محض وقت کے معنوں میں۔ بلکہ دلیل کے مطابق کبھی یہ شرط کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی وقت کے معنوں میں۔ [11]
اور یہاں واضح ہے کہ استعمال وقت
کے معنوں میں ہی ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ صحابہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم
کا فرمان سن کر اس کے بارے میں کسی بھی درجہ میں شک کا اظہار کریں۔
اس روایت کا صحیح ترجمہ وہی ہے
جو مفتی محمد شفیع صاحب نے کیا ہے:
"تمہارے لئے صرف خاتم الانبیاء کہہ دینا کافی ہے (لا نبی بعدی کہنے کی ضرورت نہیں) کیونکہ ہم سے حدیث بیان کی گئی ہے کہ عیسی علیہ السلام نکلنے والے ہیں، پس جب وہ نکلیں گے تو وہ آپ سے پہلے بھی ہوئے اور بعد میں بھی۔" [12]
چناچہ معلوم
ہوا کہ نزول مسیح کو غیر یقینی بنانے کی
کوشش میں نقل کی گئی یہ روایت خود ان کے نزول پر دلالت کر رہی ہے۔ فرطِ عقیدت کا شکار
ہو کر اپنے استاد کے لئے عذر تراشتے ہوئے عمار صاحب شائد بھول گئے کہ صحابہ کو موصوف
کی طرح غامدی صاحب سے کسبِ فیض کا موقعہ نہیں ملا تھا کہ فرمان رسول صلی الله علیہ
وسلم سن کر بھی اس پر ایمان نہ رکھتے۔
عقیدہ نزول مسیح علیہ السلام کو
ظنی ثابت کرنے کی کوشش میں عمار صاحب مزید فرماتے ہیں:
"عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ جیسے جلیل القدر اور حاضر باش صحابی سرے سے
اس سے واقف نہیں تھے۔ چناچہ ایک روایت میں انہوں نے دجال کے واقعے کی تفصیلات بیان
کرتے ہوے یہ کہا کہ؛
ويزعم أهل الكتاب أن المسيح ينزل فيقتله (مستدرک
حاکم، رقم ٨٥١٩ ، المعجم الکبیر للطبرانی، رقم ٩٧٦١، مصنف ابن ابی شيبة رقم ٣٧٦٣٧)
"اہل کتاب یہ دعوی کرتے ہیں کہ مسیح علیہ
السلام نازل ہو کر دجال کو قتل کریں گے۔"
گویا انھیں نبی صلی الله علیہ وسلم کی نسبت سے اس بات کا کوئی علم نہیں تھا۔" (براھین، ص ٧١٠)
موصوف کے استدلال کا مدار روایت
کا لفظ "زعم" ہے۔
لیجئے ایک روایت لی گئی، اس کا
من مانا ترجمہ کیا گیا اور ابن مسعود رضی الله عنہ سے مروی اس موضوع سے متعلق روایات
کی تلاش کی کوشش کئے بغیر، کمال اعتماد سے فیصلہ صادر فرما دیا گیا کہ صحابی مذکور
نے اس سے متعلق کوئی روایت الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے نہیں سنی تھی۔
موصوف کے اس دعوی کے برخلاف، سنن
ابن ماجہ اور مسند احمد وغیرہ میں روایت ہے؛
عن عبد الله بن مسعود، قال: " لما كان
ليلة أسري برسول الله صلى الله عليه وسلم، لقي إبراهيم، وموسى، وعيسى فتذاكروا
الساعة ۔۔۔، فذكر خروج الدجال، قال: فأنزل، فأقتله"
"عبدالله بن مسعود نے فرمایا: معراج کی رات رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ملاقات
ابراہیم، موسی، اور عیسی سے ہوئی، ان سب نے قیامت کا ذکر کیا ۔۔۔ ۔۔۔ عیسی علیہ السلام
نے دجال کے خروج کا ذکر کیا اور فرمایا: میں نازل ہوں گا اور اسے قتل کروں گا۔" (سنن
ابن ماجہ ، حدیث ٤٠٨١)
اس روایت کی سند کو حاکم، ذہبی،
بوصیری، احمد شاکر، زبیر علیزئی اور حسین سلیم اسد نے صحیح/حسن کہا ہے۔ البانی اور
شعیب ارناؤوط نے جو ضعیف کہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے راوی حدیث مؤثر بن عفازة
کی توثیق کرنے والے امام العجلی کو بھی امام ابن حبان کی طرح متسأهل گردانا ہے جو صحیح
نہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے شیخ حاتم العونی کی تحریر "بحث حول توثيق العجلي"
اسی طرح تاریخ دمشق میں حافظ ابن
عساکر نے روایت نقل کی ہے؛
قال عبد الله ابن مسعود: إن المسيح بن مريم
خارج قبل يوم القيامة وليستغن به الناس عن من سواه
عبدالله بن مسعود نے فرمایا: بے شک مسیح ابن مریم
قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گے اور ان کی وجہ سے لوگ دوسروں سے مستغنی ہو جائیں گے۔
(تاریخ دمشق، ، ج ٤٧، ص ٥٠١، ایڈمن: اس کی اسناد حسن ہے)
۔پھر لفظ "زعم" ہمیشہ شک کے اظہار کے لئے استعمال نہیں
ہوتا۔ امام نووی لکھتے ہیں؛
أن زعم ليس مخصوصا بالكذب والقول المشكوك فيه بل يكون أيضا في القول المحقق
والصدق الذى لاشك فيه وقد جاء من هذا كثير في الأحاديث وعن النبي صلى الله عليه
وسلم قال زعم
جبريل كذا وقد أكثر سيبويه وهو إمام العربية في كتابه
الذي هو إمام كتب العربية من قوله زعم الخليل زعم أبو الخطاب يريد بذلك القول
المحقق
"لفظ "زعم" جھوٹ یا مشکوک قول کے لئے ہی خاص نہیں، بلکہ یہ محقَّق اورسچے قول کہ جس میں ذرہ شک نہ ہو کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، ایسا متعدد احادیث میں ہے اور نبی علی الله علیہ وسلم سے بھی روایت ہے کہ جبریل نے یوں زعم کیا (یعنی کہا) ۔ اور سیبویہ جو کہ لغت عرب کے امام ہیں نے بھی اپنی کتاب میں بارہا محقق اقوال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے "زعم خلیل" اور "زعم ابو الخطاب"۔ [13]
خلاصہ و نتیجہ
بحث:
جن آیات سے غامدی صاحب
نے وفات مسیح علیہ السلام کا موقف
کشید کیا ہے خود ان کے "استاذ امام" مولانا
امین احسن اصلاحی کی صراحت کے مطابق ان میں اس معنی کی گنجائش نہیں بلکہ
احادیث کو ایک طرف رکھ کر آیات پر
صرف سیاق اور نظم کی رو سے ہی غور
کیا جائے تو ان سے حضرت مسیح کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا واضح ہو جاتا ہے ۔ اور
نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق
احادیث متواتر اور صریح ہیں جو متقدم اور اصح تر کتب میں نقل ہوئی ہیں۔
قران کی جس
آیت سے غامدی صاحب نے وفات مسیح علیہ
السلام کا نظریہ دریافت کیا ، اسی میں ان
کے اپنے "استاذ الامام" کے بقول عدم وفات کی دلیل موجود ہے۔ اور عمار صاحب نے جن
اقوال سے اس باب کی روایات کے تواتر کو
مشکوک ٹھہرانے کی کوشش کی ان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو عقیدہ نزول
مسیح علیہ السلام کی مؤید ہیں۔ سچ کہا تھا امام ابن تیمیہ نے:
"أهل البدع لا يكادون يحتجون بحجة سمعية ولا عقلية إلا وهي عند التأمل
حجة عليهم لا لهم"
"اہل بدعت جب بھی کوئی نقلی یا عقلی دلیل پیش كرتے ، غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو ان کے خلاف دلیل ہے نہ کہ حق میں۔" [14]
اصولی سوال
یہ ہے کہ آیا حدیث رسول (ﷺ) کا اتنا بھی مقام نہیں کہ ایک ہی انداز سے
قرآن پر "تدبر" کرنے والے استاد اور
شاگرد کی باہم متضاد آراء میں فیصل قرار پائیں؟ اگر نہیں تو جو حدیث کو یہ مقام بھی نہ دے اس کا
منکر حدیث کہلائے جانے پر شکوہ
کیسا؟ بلکہ خود قران کی ان آیات پر ایمان
کہاں گیا جن کی رو سے بعثت رسالت مآب (ﷺ) کا مقصد ہی تبیین کتاب الله ہے؟
Post a Comment