حافظ ابو عبید الآجری صاحبِ "سؤالات" کی توثیق وعلمی مقام

 


اس مضمون کو پی ڈی ایف کی شکل میں حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

حافظ ابو عبید الآجری صاحبِ "سؤالات"

کی توثیق وعلمی مقام

                                    فہرست مضامن                    

آجری پر ائمہ کے عدمِ کلام کی وجہ: 2

آجری کی توثیق ضمنی: 3

1-   ایک سے زائد حفاظ کا آجری سے روایت کرنا: 3

2-    محدثین کا انہیں "صاحبِ ابی داود" کہنا: 6

3-    محدثین کا انہیں "الحافظ" کہنا: 7

4-    محدثین کا ان کی کتاب کو "مفید" کہنا: 9

5-    امام ذہبیؒ کا ان سے جرح کی نفی کرنا 11

6-    امام مزی کا ان کی ضمنی توثیق کرنا: 12

7-    محدثین کا ان کے اقوال سے حجت لینا: 13

8-    آجری کی کتاب کا ان کے علم ومقام پر دلالت کرنا: 16

شیخ زبیر علی زئیؒ کے منہج پر آجری کی توثیق: 19

غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب کے منہج پر آجری کی توثیق: 20

 

اعتراض:

بعض لوگوں نے اپنے مخصوص اور منفرد منہج میں بعض ایسی شاذ باتیں کہی ہیں جن میں ان کا کوئی متقدم نہیں ہے۔ انہی میں سے ایک ان کا یہ دعوی ہے کہ:

"سؤالات الآجری لابی داود" کے راوی حافظ ابو عبید الآجری رحمہ اللہ کا ثقہ وصدوق ہونا ثابت نہیں ہے۔

(دیکھیں ماہنامہ نور الحدیث: 36/72)

اور اس بنیاد پر انہوں نے ابو عبید الآجری سے مروی امام ابو داود کے علم الرواۃ اور علم علل الحدیث پر مشتمل تمام اقوال کو ردّ کیا ہے، حالانکہ محدثین صدیوں سےان کے اقوال پر اعتماد کرتے آئے ہیں، اور کسی نے آج تک ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ اس اعتراض کا تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیں۔

جواب:

آجری پر ائمہ کے عدمِ کلام کی وجہ:

یہ بات سچ ہے کہ کسی محدث نے صراحت کے ساتھ ابو عبید الآجری کی توثیق نہیں کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آجری صاحبِ روایت تھے ہی نہیں۔ محدثین نے عموما انہی رواۃ پر جرح وتعدیل کے ذریعے کلام کیا ہے جن سے مسند روایات مروی ہیں اور اس فن کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ دینی روایات نقل کرنے والے رواۃ کو روایتِ حدیث ہی کے اصولوں کے مطابق پرکھا جائے۔ لیکن جن لوگوں نے مسند روایات ہی بیان نہیں کی تو ان کو کون سی روایات کی بنیاد پر پرکھا جاتا؟ چنانچہ امام ذہبیؒ عوانہ بن الحکم کے بارے میں فرماتے ہیں:

"عالم بالشعر وأيام الناس، وَقَلَّ أَنْ رَوَى حديثًا مسنَدًا، ولهذا لم يُذكر بجرح ولا تعديل، والظاهر أَنَّهُ صدوق" (وہ شعر اور تاریخ کے عالم تھے، اور انہوں نے مشکل ہی کوئی مسند حدیث بیان کی ہے، اور اسی لیے ان کو جرح وتعدیل کے ساتھ کہیں ذکر نہیں کیا گیا ہے، ظاہر یہ ہوتا ہے کہ وہ صدوق ہیں) (تاریخ الاسلام: 4/174)۔

نیز ابو عبید الآجری نے بھی کوئی مسند روایت بیان نہیں کی ہے، بلکہ وہ محض راویِ کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں، اور کتاب کی روایت کرنے والوں کو ویسے بھی حفظ وضبط کے کڑے اصولوں کی بنیاد پر پرکھا نہیں جاتا ہے۔

آجری کی توثیق ضمنی:

اس کے باوجود ابو عبید الآجری کے بارے میں محدثین کی بہت سی ضمنی توثیقات موجود ہیں اور صدیوں سے محدثین نے ان کی روایات سے حجت لی ہے اور ان کی بنیاد پر راویوں پر حکم لگایا ہے۔ ابو عبید الآجری کی توثیق پر درج ذیل قرائن دلالت کرتے ہیں، ان میں سے ہر ایک قرینہ ایک دوسرے کی تقویت کے بعد آجری کی توثیق کو مزید مضبوط کر دیتا ہے۔

1-          ایک سے زائد حفاظ کا آجری سے روایت کرنا:

ثقہ راوی کا کسی راوی سے روایت کرنا عام طور پر اس کی توثیق شمار نہیں کی جاتی کیونکہ ثقہ راوی اپنے جیسوں اور اپنے سے کم تر راویوں سے بھی روایت کر لیتے ہیں۔ لیکن ثقہ راوی کا ایسے راوی سے روایت کرنا جس پر کوئی جرح نہیں کی گئی ہے یہ اس راوی کی عمومی صداقت وعدالت پر دلیل ہے خاص طور سے جب اس راوی سے کوئی منکر روایت منقول نہ ہو اور اس سے ایک سے زائد ثقہ رواۃ روایت کرتے ہوں۔ چنانچہ امام ابن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل میں باب قائم کیا ہے کہ:

"باب في رواية الثقة عن غير المطعون عليه أنها تقويه، وعن المطعون عليه أنها لا تقويه"
(
باب: ثقہ راوی کا غیر مطعون علیہ راوی سے روایت کرنا اس کی تقویت (کی دلیل) ہے، اور مطعون علیہ سے ثقہ کی روایت اس کی تقویت (کی دلیل) نہیں ہے)

(الجرح والتعدیل: 2/36)

اور اس باب کے تحت انہوں نے روایت کیا ہے کہ:

"حدثنا عبد الرحمن قال سألت ابي عن رواية الثقات عن رجل غير ثقة مما يقويه ؟ قال إذا كان معروفا بالضعف لم تقوه روايته عنه وإذا كان مجهولا نفعه رواية الثقة عنه"

(میں نے اپنے والد (امام ابو حاتم الرازیؒ) سے ثقہ رواۃ کی غیر  ثقہ راوی سے روایت کے بارے میں پوچھا کہ آیا یہ اسے تقویت دیتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: اگر وہ راوی ضعف کے ساتھ معروف ہے تو ثقہ کی اس سے روایت اسے تقویت نہیں دیتی، اوراگر وہ مجہول ہو (یعنی اس پر کوئی جرح نہیں) تو ثقہ کا اس سے روایت کرنا اس کے لیے نفع بخش ہے)

(الجرح والتعدیل: 2/36)

اور یہ بات انہوں نے امام ابو زرعہ الرازیؒ سے بھی نقل کی ہے۔

اسی طرح امام ذہبیؒ نے اس قول کو جمہور محدثین کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا:

"والجمهور على أن من كان من المشايخ قد روى عنه جماعة ولم يأت بما ينكر عليه أن حديثه صحيح"

(جمہور (محدثین) کا موقف یہ ہے کہ مشائخ رواۃ میں سے جس سے ایک جماعت روایت کرے اور وہ کوئی منکر روایت بیان نہ کرے تو اس کی حدیث صحیح ہوتی ہے)

(میزان الاعتدال: 3/426)

تو آیئے ہم دیکھتے ہیں کہ ابو عبید الآجری سے کون کون روایت کرتا ہے۔ ابو عبید الآجری سے روایت کرنے والے ان کی کتاب کے ہی راوی ہیں۔ الغرض ان سے اس کتاب کو چار لوگوں نے روایت کیا ہے جن کی مختلف روایات بیشتر کتب میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے نام درج ذیل ہیں:

(1)          ابو احمد الحسن بن عبد اللہ بن سعید العسکری صاحبِ کتاب "تصحیفات المحدثین" (م 382 ھ)

امام ومحدث ابو احمد العسکری نے الآجری سے اپنی کتاب تصحیفات المحدثین میں مختلف مقامات پر آجری کی کتاب سے نصوص نقل کی ہیں۔ امام ذہبیؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: "الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، الأَدِيبُ، العَلاَّمَةُ" (سیر اعلام النبلاء: 16/413)۔ اور امام ابو طاہر السلفیؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: " كان أبو أحمد العسكري من الأئمة المذكورين بالتصرف في أنواع العلوم والتبحر في فنون الفهوم ومن المشهورين بجودة التأليف وحسن التصنيف... انتهت إليه رئاسة التحدث والإملاء للآداب والتدريس بقطر خوزستان" (سیر اعلام النبلاء: 16/414)۔

(2)          ابو بکر بن الجعابی، محمد بن عمر بن محمد بن سلم التمیمی البغدادی (م 355 ھ)

امام خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں عبد اللہ بن عبد اللہ الرازی کے ترجمہ میں حافظ ابن الجعابی کے طریق سے آجری کی ایک نص نقل کی ہے (10/5) جسے انہوں نے دوسری جگہ بعینہ آجری کی کتاب کے راوی محمد بن عدی المنقری کے طریق سے بھی روایت کیا ہے (9/5)۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حافظ ابن الجعابی نے بھی اس کتاب کو یا کم از کم اس کتاب کی بعض نصوص کو آجری سے نقل کیا ہے۔

حافظ ابن الجعابی پر ان کے مذہب اور نماز میں غفلت وغیرہ کے لیے کلام کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے حفاظ میں سے تھے، ان کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں: "الحافظ البارع فريد زمانه" (تذکرۃ الحفاظ: 3/92)۔

اور ابن رزقویہ فرماتے ہیں: "كان ابن الجعابي يمتلئ مجلسه، وتمتلئ السكة التي يملي فيها والطريق، ويحضر الدارقطني، وابن المظفر، ويملي من حفظه" (ابن الجعابی کی مجلس لوگوں سے بھری ہوتی تھی، اور جس گلی میں وہ املاء کرواتے تھے وہ گلی اور سڑک ساری بھری ہوتی تھی، اور ان کی مجلس میں دارقطنی اور ابن المظفر بھی حاضر ہوتے تھے، اور ابن الجعابی اپنے حفظ سے املاء کرواتے تھے) (تاریخ بغداد: 3/28)۔

امام ابو علی التنوخی فرماتے ہیں: "ما شاهدنا أحدا أحفظ من أبي بكر بن الجعابي، وسمعت من يقول: إنه يحفظ مائتي ألف حديث، ويجيب في مثلها، إلا أنه كان يفضل الحفاظ بأنه كان يسوق المتون بألفاظها، وأكثر الحفاظ يتسمحون في ذلك، وكان إماما في معرفة العلل والرجال وتواريخهم، وما يطعن على الواحد منهم، لم يبق في زمانه من يتقدمه " (ہم نے ابو بکر بن الجعابی سے زیادہ حافظہ رکھنے والا کوئی نہیں دیکھا۔۔۔ وہ دیگر حفاظ پر اس لحاظ سے برتری رکھتے تھے کہ وہ متون کو ان کے اصل الفاظ کے ساتھ بیان کرتے تھے، جبکہ زیادہ تر حفاظ اس معاملے میں نرمی برتتے تھے۔ وہ علل، رجال، ان کی تاریخوں، اور ہر ایک پر کی جانے والی تنقید کے بارے میں گہری معلومات رکھنے والے امام تھے۔ اپنے زمانے میں کوئی ان سے آگے نہیں تھا) (تاریخ بغداد: 3/28)۔

ابن الجعابی پر کیسی بھی جرح کی گئی ہو اس معاملے میں ان کا مقام مسلم ہے کہ وہ علل اور رجال کے ماہر تھے بلکہ اس فن کے ائمہ میں سے تھے، جیسا کہ امام ذہبی نے بھی کہا ہے کہ: "من أئمة هذا الشأن ببغداد" (میزان الاعتدال: 3/670)۔ چنانچہ ایسا ماہر شخص جب کسی شخص سے روایت کرے اور اس پر کوئی تنقید نہ کرے تو یہ چیز ایک عام ثقہ راوی کی روایت سے زیادہ اعلیٰ اور بڑا قرینہ ہے۔

(3)          محمد بن عدی بن زحر المنقری – یہ آجری کی کتاب کے راوی ہیں ۔ ان کا تفصیلی ذکر عیسی بن جاریہ والے مضمون میں گزر چکا۔

(4)          حسین بن محمد الشافعی – انہوں نے بھی آجری سے ان کی کتاب کو نقل کیا ہے، نیز امام خطیب بغدادی نے ان کے طریق آجری کی 58 نصوص نقل کی ہیں۔

الغرض ابو عبید الآجری سے دو حفاظ نے روایت کی ہے جبکہ روایت کرنے والوں کی کل تعداد چار ہے جسے ایک جماعت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نیز آجری سے کوئی منکر روایت بھی منقول نہیں ہے اور نہ ہی ان پر کوئی جرح ہے۔ چنانچہ امام ذہبی اور جمہور علماء کے اصول کے مطابق ایسے راوی کی روایت مقبول ہوتی ہے جب تک رد کا کوئی قرینہ نہ ملے۔

2-          محدثین کا انہیں "صاحبِ ابی داود" کہنا:

امام مزیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے ایک سے زائد مقام پر ان کے بارے میں لکھا ہے:

"صاحب أبي داود"

(تہذیب الکمال: 14/247، 24/490، وتہذیب التہذیب: 5/321)

اگرچہ یہ کلمہ اپنے آپ میں کوئی توثیق نہیں ہے لیکن اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ محدثین کے نزدیک آجری کا امام ابو داود سے تعلق بہت گہرا تھا، اور ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ابو عبید الآجری نے امام ابو داود کے ساتھ ایک طویل عرصہ مصاحبت کی ہے یہاں تک کہ ان کی وفات تک بھی وہ ان کے ساتھ تھے کیونکہ وہ معلومات جو اس کتاب میں پائی جاتی ہیں وہ ایسی معلومات ہیں جو محض تھوڑے سے عرصے میں حاصل ہونا ممکن نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اس کتاب میں ایسی نصوص بھی پائی جاتی ہیں جنہیں ابو عبید الآجری نے امام ابو داود کی عمومی عادات اور بعض رواۃ سے روایت یا عدمِ روایت پر ان کے عمومی منہج کے لحاظ سے بیان کی ہیں اور یہ چیز کسی کو تب تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک وہ طویل عرصے تک کسی کو لازم نہ پکڑ لے۔ اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو، آجری امام ابو داود کے بارے میں فرماتے ہیں: "كان (أي أبو داود) لا يحدث عن ابن الحماني، ولا عن سويد، ولا عن ابن كاسب، ولا عن ابن حميد، ولا عن سفيان بن وكيع" (1899)۔

اور اسی طرح آجری فرماتے ہیں: "ومات – يعني أبا داود – لأربع عشرة بقيت من شوال سنة خمس وسبعين ومائتين. وصلي عليه عباس بن عبد الواحد الهاشمي

3-          محدثین کا انہیں "الحافظ" کہنا:

·      امام مزیؒ امام ابو داود کے شاگردوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"وأَبُو عُبَيد مُحَمَّد بْن عَلِيِّ بْن عُثْمَانَ ‌الآجُرِّيّ الحافظ"

(تہذیب الکمال: 11/361)

·      امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:

"وأبو عبيد محمد بن علي بن عثمان الآجري الحافظ"

(سیر اعلام النبلاء: 13/206)

·      حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:

" وأبو عبيد محمد بن علي بن عثمان ‌الآجري ‌الحافظ راوي المسائل عنه"

(تہذیب التہذیب: 6/391)

·      اسی طرح علامہ عبد الرحمن معلمیؒ فرماتے ہیں:

"الحافظ محمد بن علي بن عثمان ‌الآجري.... ولم أطلق كلمة «الحافظ» إلا على من أطلقها عليه أهل العلم - لا كالكوثري يطلقها على من دب ودرج من أصحابه"

(الحافظ محمد بن علی بن عثمان الآجری۔۔۔ میں کسی پر بھی "الحافظ" کے کلمہ کا اطلاق نہیں کرتا سوائے اس پر جس پر اہل علم نے اس کا اطلاق کیا ہو، کوثری کی طرح نہیں جنہوں نے اپنے اصحاب میں سے ہر ایڑے غیرے پر اس کا اطلاق کیا ہے)

(التنکیل: 2/675)

کلمہ "حافظ" مطلق توثیق کا کلمہ نہیں ہے کیونکہ توثیق کے لیے دو چیزوں کی شرط ہے "عدالت" اور "ضبط"۔ اس کلمہ میں "ضبط" کی شرط پر دلیل ملتی ہے لیکن عدالت پر دلیل نہیں ملتی۔ اگرچہ جس شخص کی تعریف میں "الحافظ" کہا جائے اس میں عدالت کا بھی پہلو موجود ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ بعض حفاظ ایسے بھی ہیں جن پر کلام کیا گیا ہے اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے اس لیے عدالت کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ہونا تو یہی چاہیے کہ جس کے بارے میں الحافظ کہا جائے اور اس کی عمومی عدالت ثابت ہو، جب تک اس کی عدالت پر کوئی کلام نہ کیا جائے اس لفظ میں عدالت کو بھی مقدور سمجھا جائے، لیکن اس کے باوجود ہم نے اس سے عدالت کو خارج کر دیا ہے تا کہ معترضین کی مزید تسلی ہو سکے۔

 چنانچہ جس شخص کے بارے میں یہ کلمہ کہا جائے گا تو دیکھا جائے گا کہ اس کی "عدالت" دیگر طرق سے ثابت ہے یا نہیں؟ اگر عدالت ثابت ہو جائے اور اس کے منافی کوئی چیز نہ ملے تو اس کلمہ سے راوی کی ضبط کی شرط کو مکمل کر کے اسے ثقہ تسلیم کیا جائے گا۔

آجری کے بارے میں ہم نے دیگر طرق وقرائن سے ثابت کر دیا ہے کہ ان کی عدالت ثابت ہے اور ان کے بارے میں ایسی کوئی چیز نہیں ملتی جو ان کی عدالت کے منافی ہو، چنانچہ ایک شرط مکمل ہونے کے بعد اس کلمہ "الحافظ" سے دوسری شرط بھی مکمل ہوئی اور آجری کی توثیق کامل ہوئی۔

ورنہ اگر ائمہ ومحدثین کے عمومی تعامل کو دیکھا جائے تو وہ عام طور پر الحافظ کا لفظ بطورِ لقب ان ائمہ ومحدثین کے لیے استعمال کرتے تھے جو حدیث اور اس کے علوم وفنون اور رجال پر کلام کرنے میں ماہر تھے۔ نیز امام حاکم نے اسے تعدیل کے اعلیٰ مراتب میں ذکر کیا ہے ، دیکھیں: المدخل الی الصحیح للحاکم: ص 113۔

اور امام ذہبی جنہوں نے خود آجری کو "الحافظ" کہا ہے ان کے نزدیک حافظ کا رتبہ ضبط واتقان کے رتبے سے بھی بڑھ کر ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

"الثقة: تشترط العدالة في الراوي، كالشاهد. ويمتاز الثقة بالضبط والإتقان. فإن انضاف إلى ذلك المعرفة والإكثار، فهو حافظ."

(ثقہ میں راوی کی عدالت شرط ہے جیسے گواہ میں ہوتی ہے، لیکن ثقہ اپنے ضبط اور اتقان کی وجہ سے ممتاز ہوتا ہے۔ اور اگر ثقہ کے ساتھ معرفت (رجال وعلل) اور کثرت بھی شامل ہو جائے تو وہ حافظ ہوتا ہے)

(الموقظہ: ص 67-68)

4-          محدثین کا ان کی کتاب کو "مفید" کہنا:

·      سؤالات الآجری سمیت کئی کتب کے راوی، اور اپنے زمانے میں سب سے زیادہ علم الروایہ والتحدیث کو جاننے والے، شیخ الاسلام، محدث، حافظ، مفتی، امام ابو طاہر السلفیؒ (م 576 ھ) معالم السنن کے مقدمہ میں فرماتے ہیں، جو معالم السنن کے محقق نسخہ کے آخر میں چھپا ہے:

"وقد كان رحمه الله في زمانه يراجع في الجرح والتعديل ويدون كلامه ويعول عليه غاية التعويل وعندي من ذلك سؤالات في غاية الجودة مفيدة ممتعة وفي الاعلام لعلة الجسم مقنعة، ومن جملتها ما رواه عند أبو عبيد الآجري في خمسة أجزاء ضخام بخطي في كل جزء ثلاثون ورقة سوى الرابع والخامس فهما انقص من ذلك واذكر ههنا يسيراً منها واجعلها أنموذجاً عنها.

أخبرنا أبو الحسين المبارك بن عبد الجبار بن أحمد الصيرفي ببغداد أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن منصور العتيقي قال كتب إلينا محمد بن عدي بن زحر المنقري من البصرة، حَدَّثنا أبو عبيد محمد بن علي بن عثمان الآجري البصري، قال سأنت أبا داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو السجستاني... هذا القدر يغني عما هو أكثر ويقتنع به عن الذي منه أوفر ويستدل به على علم أبي داود بالرجال وأنه كان في معرفة الحديث وروايته جبلاً من الجبال

(ابو داود رحمہ اللہ سے ان کے زمانے میں جرح وتعدیل میں رجوع کیا جاتا تھا، ان کے کلام کو مدون کیا جاتا تھا اور ان پر بہت زیادہ اعتماد کیا جاتا تھا۔ میرے پاس ان کے کلام پر مشتمل سؤالات موجود ہیں جو نہایت ہی عمدہ مفید اور دلچسپ ہیں، اور جسم کی علل کے بارے میں قانع ہیں، ان میں سے جملہ (سؤالات) وہ ہیں جنہیں ابو عبید الآجری  نے پانچ ضخیم اجزاء میں روایت کیا ہے، جو کہ میرے ہاتھ سے لکھی گئی ہے، اس کے ہر جزء میں تیس اوراق ہیں سوائے چوتھے اور پانچویں جزء کے کہ وہ اس سے کم ہیں، میں یہاں ان میں سے تھوڑا سا ذکر کروں گا اور انہیں اس کی مثال بنا کر پیش کروں گا ۔۔۔ (اس کتاب سے ایک مثال ذکر کرنے کے بعد فرمایا)۔۔۔ یہ مقدار اس کے اکثر کے لیے کافی ہے، اور اس سے زیادہ میں جو کچھ ہے اس سے مطمئن کرتی ہے، اس سے ابو داود کے علمِ رجال پر استدلال کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ وہ حدیث کی معرفت اور روایت میں پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ تھے)

(معالم السنن: 4/372-373)

اگر امام ابو طاہر السلفی کے نزدیک یہ کتاب غیر معتبر ہوتی تو کیا وہ اس کی تعریف میں ایسے عظیم الفاظ کہتے؟ نیز نہ صرف انہوں نے اس کتاب کو مفید اور تشفی بخش کہا بلکہ اس سے امام ابو داود کے علم پر استدلال بھی کیا۔

·      امام مزی فرماتے ہیں:

" وأَبُو عُبَيد مُحَمَّد بْن عَلِيِّ بْن عُثْمَانَ ‌الآجُرِّيّ الحافظ لَهُ عنه مسائل مفيدة"

(ابو عبید محمد بن علی بن عثمان الآجری الحافظ ان کے امام ابو داود سے مفید مسائل ہیں)

(تہذیب الکمال: 11/361)

·      حافظ ابن حجر سے ان کے شاگرد حافظ سخاوی نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"ولأبي عبيد ‌الآجري عنه أسئلة في الجرح والتعديل والتصحيح والتعليل كتاب مفيد "

(ابو عبید الآجری کے پاس امام ابو داود سے جرح وتعدیل، تصحیح اور تعلیل کے موضوع پر اسئلہ پر مشتمل ایک مفید کتاب ہے)

(فتح المغیث: 1/102)

کوئی کتاب مفید تبھی ہوتی ہے جب وہ ثابت ہو اور قابلِ اعتبار ہو۔

5-          امام ذہبیؒ کا ان سے جرح کی نفی کرنا

امام ذہبیؒ آجری کے دفاع میں فرماتے ہیں:

" قال أبو عبيد محمد بن علي الآجري صاحب كتاب (مسائل أبي داود) - وما علمت أحدا لينه"

(ابو عبید محمد بن علی الآجری صاحبِ کتاب "مسائل ابی داود" نے فرمایا – اور میں نہیں جانتا کہ کسی نے بھی انہیں کمزور کہا ہے)

(سیر اعلام النبلاء: 11/377)

اس سیاق میں کسی ضعف کی کمی کرنا امام ذہبیؒ کی طرف سے توثیق ضمنی شمار ہو گی، کیونکہ ہر قسم کے ضعف کی نفی سے مراد یہی ہے کہ ان اقوال میں آجری کی روایت قابلِ قبول ہے۔

6-          امام مزی کا ان کی ضمنی توثیق کرنا:

امام مزیؒ تہذیب الکمال کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:

"وما لم نذكر إسناده فيما بيننا وبين قائله: فما كان من ذلك بصيغة الجزم، فهو مما لا نعلم بإسناده عن قائله المحكي ذلك عنه بأسا"

(اور جس قول کی سند ہم نے اپنے اور اس کے قائل کے درمیان ذکر نہیں کی: تو جو روایت بصیغہ جزم ہو، وہ ایسی ہے جس کی سند میں ہم اس کے قائل تک کسی حرج کو نہیں جانتے۔)

(تہذیب الکمال: 1/153)

یہ توثیق ضمنی اپنے استدلال پر بالکل واضح ہے۔ الغرض امام مزی نے جس قول کو اس کتاب میں بالجزم نقل کیا ہے اس کی سند ان کے نزدیک "لا باس بہ" ہے، یعنی اس قسم کے اقوال میں وہ ان سے حجت لینے میں کوئی حرج نہیں جانتے۔

اس پر جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ امام مزی نے ضعیف اسناد سے بھی بالجزم روایت کی ہے تو عرض ہے کہ یہی الزام آپ پر بھی بنتا ہے جب آپ صحیح ابن حبان وصحیح ابن خزیمہ وغیرہ سے ضمنی توثیق ثابت کرتے ہیں۔ پس جو جواب آپ کا وہاں ہے وہی جواب یہاں بھی تسلیم کر لیں۔

مزید یہ کہ جب کوئی امام اپنی کتاب پر صحت یا "لا بأسیت" کی شرط لگاتا ہے تو ممکن ہے کہ اس کتاب میں بعض نادر اقوال میں وہ تساہل کر لے یا وہ اس سے نظر انداز ہو جائیں لیکن امام مزی نے آجری سے نہ صرف نادراً روایت کیا ہے بلکہ انہوں نے ان سے بکثرت روایت کیا ہے اور اس کتاب میں انہوں نے آجری کی کتاب کو بنیادی مصادر میں سے شمار کیا ہے۔ چنانچہ ان کے مقدمہ کی جو شرط انہوں نے عائد کی ہے وہ آجری پر بالاولیٰ فٹ ہوتی ہے۔

7-          محدثین کا ان کے اقوال سے حجت لینا:

آجری کی کتاب صدیوں سے محدثین کے ہاں متداول رہی ہے اور وہ صدیوں سے ہی اس کتاب اور اس میں موجود اقوال سے حجت لیتے آئے ہیں۔ آج تک کسی محدث نے یہ نہیں کہا کہ یہ کتاب غیر ثابت ہے یا آجری غیر معتبر ہیں۔ صدیوں بعد جا کر بعض معاصر اہل حدیثوں کو یہ سوجھی کہ تمام ائمہ ومحدثین کے اتفاقی تعامل کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ وہ ان ائمہ سے زیادہ محتاط ہیں لہٰذا اب وہ آجری پر اعتماد نہیں کریں گے۔ ان کو ان کا منہج مبارک ہو، لیکن جو ائمہ ومحدثین کے منہج کے پیروکار ہیں ان کے لیے یہ بات کافی ہے کہ تمام محدثین نے آجری کے اقوال سے حجت لی ہے اور ان پر اعتماد کیا ہے۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

(1)          امام خطیب بغدادیؒ (م 463 ھ):

امام خطیب بغدادی نے آجری سے اپنی تاریخ سمیت دیگر کئی کتب میں اقوال نقل کیے ہیں اور ان سے استدلال کیا ہے، مثلا: ایک جگہ انہوں نے امام ابو داود کا قول آجری کی سند سے نقل کرتے ہوئے فرمایا:

" أَخْبَرَنَا أَحْمَد بن أبي جَعْفَر الْقطيعِي أَخْبَرَنَا أَبُو بكر مُحَمَّد بن عدي بن زحر الْبَصْرِيّ فِي كِتَابه حَدَّثَنَا أَبُو عبيد مُحَمَّد بن عَليّ ‌الْآجُرِيّ قَالَ سَأَلت أَبَا ‌دَاوُد سُلَيْمَان بن الْأَشْعَث عَن أبي إِسْحَاق الحميسي قَالَ حُصَيْن بن عمر روى مَنَاكِير حدث عَنهُ أَبُو مُعَاوِيَة

وَقد وهم أَبُو ‌دَاوُد فِي هَذَا القَوْل لِأَن أَبَا إِسْحَاق الحميسي اسْمه خازم بن الْحُسَيْن وَأما حُصَيْن بن عمر فَهُوَ أحمسي يكنى أَبَا عمر ذكر ذَلِك مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل البُخَارِيّ وَمُسلم بن الْحجَّاج النَّيْسَابُورِي" (موضح اوہام الجمع والتفریق: 1/306)

اس قول میں انہوں نے آجری کی روایت پر اعتماد کیا اور اسے امام ابو داود کی طرف بالجزم منسوب کیا ہے، بلکہ اس قول میں انہوں نے امام ابو داود کی طرف وہم کو منسوب کیا ہے۔ اگر ان کے نزدیک یہ سند ضعیف ہوتی تو پہلے وہ سند پر کلام کرتے نہ کہ براہِ راست امام ابو داود کی طرف وہم کی نسبت کرتے۔

(2)          امام ابو طاہر السلفیؒ (م 576 ھ) – ان کا تفصیلی قول اوپر گزر چکا ہے۔

(3)          امام ذہبیؒ (م 748 ھ)

امام ذہبیؒ نے اپنی کتب میں لا تعداد جگہوں پر آجری کے اقوال کو نقل کیا ہے اور ان سے حجت لی ہے، کہیں راویوں کی توثیق پر ان کے اقوال سے حجت لیتے ہوئے بالجزم فرمایا کہ "وثقہ ابو داود"، کہیں راوی کی تضعیف پر حجت لیتے ہوئے فرمایا: "ضعفہ ابو داود" یا "ترکہ ابو داود"، اور کہیں دیگر ائمہ کے اقوال ہوتے ہوئے بھی صرف امام ابو داود کے قول پر اکتفاء کیا۔ یہاں تک کہ آجری کی کتاب سے تعارض پر بھی انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان میں سے ایک قول ثابت نہیں ہے۔ چنانچہ ایک جگہ امام ابو داود کے دو متضاد اقوال نقل کرتے ہوئے فرمایا:

" وثقه أبو داود، وروى عن رجل عنه، ثم وجدت أنى أخرجته في المغنى وقلت: قال أبو داود: ضعيف، ثم وجدت في سؤالات أبي عبيد الله الآجرى لأبي داود: عبد العزيز الاويسى ضعيف" (میزان: 2/630)

اور المغنی میں اس راوی کے بارے میں کہا:

" عبد العزيز بن عبد الله الأويسي ثقة مشهور قال أبو داود ضعيف وقال أيضا ثقة" (3739)

حالانکہ تعارض کی صورت میں ان کے پاس سب سے زیادہ قوی وجہ تھی آجری کے قول کو رد کرنے کی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اسے امام ابو داود کے دو اقوال پر محمول کیا۔

(4)          علامہ مغلطائیؒ (م 762 ھ):

علامہ مغلطائیؒ نے بھی بے شمار جگہوں پر آجری کی کتاب سے اقوال نقل کر کے ان پر اعتماد کیا ہے۔ یہاں تک کہ امام مزی کے بعض اقوال پر نقد ہی انہوں نے آجری کی نقول کی بنیاد پر کی ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

" وفي قول المزي: روى عن: عائشة، وأبي هريرة، وأبي موسى، وعبد اللَّه بن مغفل، وعدي بن حاتم. ثم نظر؛ لقول ‌الآجري: قلت ‌لأبي ‌داود: سمع سعيد بن جبير من عبد اللَّه بن مغفل؟ فقال: لا إنما هو مرسل؛ يعني: حديث الخذف. قيل ‌لأبي ‌داود: سمع سعيد من عدي بن حاتم؟ فقال: لا أُراه. قيل له: سمع من عمرو بن حريث؟ قال: نعم"

(مزی کے قول کہ: "سعید بن جبیر نے عائشہ، ابو ہریرہ، ابو موسی، عبد اللہ بن مغفل، اور عدی بن حاتم سے روایت کی ہے" میں نظر ہے آجری کے اس قول کی بنیاد پر کہ میں نے ابو داود سے پوچھا: کیا سعید بن جبیر نے عبد اللہ بن مغفل سے سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: نہیں بلکہ وہ مرسل ہے، یعنی حدیث الخذف، (پھر) ابو داود سے پوچھا گیا: کیا انہوں نے عدی بن حاتم سے سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: نہیں۔۔۔ پھر کہا: کیا عمرو بن حریث سے سنا ہے؟ فرمایا: ہاں)

(اکمال: 3/276)

اسی طرح ایک دوسری جگہ پر امام مزی پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

" وفي ذكر المزي روايته عن عائشة المشعرة بالاتصال عنده، نظر؛ لما ذكره أبو عبيد ‌الآجري: قلت ‌لأبي ‌داود سمع علي بن الحسين من عائشة؟ قال: لا

(مزی کے قول کہ: "ان کی عائشہ سے روایت اتصال کی طرف اشارہ کرتی ہے" نظر ہے اس بنیاد پر کہ ابو عبید الآجری نے ذکر کیا ہے: میں نے ابو داود سے پوچھا: کیا علی بن الحسین نے عائشہ سے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں)

(اکمال: 5/340)

(5)          حافظ ابن حجرؒ (م 852 ھ):

حافظ ابن حجر نے بھی کئی جگہوں پر آجری کے اقوال سے حجت لی ہے۔ مثلا: ایک حدیث کی علت پر آجری کے قول سے استدلال اور اسی پر اکتفاء کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

" حديث ظاهره الصحة، له علة، ذكرته للمعرفة: قال الآجري: قيل لأبي داود: سفيان - هو الثوري - عن عبد الملك بن عمير، عن عبد الله بن شداد، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: "لا نكاح إلا بولي". فقال: هذا باطل ما كان حديث قط بهذا الإسناد ولا يكون. فقيل له: حدث بهذا عبد الرزاق. قال: ولو حدث بهذا عبد الرزاق أهل صنعاء لعلمنا أنه باطل، ولو كان هذا عند سفيان لما احتاجوا إلى هذه المراسيل"

(اتحاف المہرہ: 21801)

اور ان کے علاوہ بے شمار محدثین نے آجری کے اقوال کو اپنی اپنی کتب میں بغیر کسی جرح کے، بالجزم، اور بطورِ حجت ذکر کیا ہے، جن کا ذکر یہاں کرنا ممکن نہیں۔ الغرض آجری کی شہرت اور ان کی کتاب کے محدثین کے درمیان متداول ہونے کے باوجود آج تک کسی محدث نے ان پر جرح کا ایک کلمہ بھی نہیں کہا ہے، بلکہ سبھی نے ان کے اقوال کو بلا نکیر ذکر کیا ہے، ان پر اعتماد کیا ہے، اور ان کی بنیاد پر راویوں پر کلام کیا ہے۔

8-          آجری کی کتاب کا ان کے علم ومقام پر دلالت کرنا:

 راویوں کو پرکھنے کا اصل معیار اس کی بیان کردہ روایتیں ہوتی ہیں، نیز ائمہ ومحدثین کی توثیق وتجریح کا بھی یہی بنیادی مصدر ہے۔ چنانچہ آجری کو پرکھنا ہے تو دوسروں کے اقوال کو تلاش کرنے اور ان کی تقلید کرنے سے بہتر ہے خود اس اصل مصدر کی طرف رجوع کریں جس سے ائمہ ومحدثین اپنے اقوال اخذ کرتے ہیں – یعنی راوی کی روایت۔

آجری کی روایت کی بنیاد چونکہ ان کی کتاب ہے، لہٰذا ہمیں ان کی روایات کو جمع کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ انہوں نے خود اپنا سارا علم ایک جگہ جمع کر دیا ہے۔ چنانچہ کسی کی مرتب شدہ کتاب سے اس کے علمی مقام کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

امام ذہبیؒ ایک جگہ امام ساجیؒ کے بارے میں فرماتے ہیں:

"وللساجي مصنف جليل في علل الحديث يدل على تبحره وحفظه"

(امام ساجی کی علل الحدیث پر ایک تصنیف ہے جو ان کے تبحر اور حفظ پر دلالت کرتی ہے)

(سیر اعلام النبلاء: 14/199)

چنانچہ جس طرح امام ذہبیؒ نے امام ساجیؒ کی کتاب سے ان کے علمی مقام کو جان لیا، اسی طرح کسی صاحبِ علم کے لیے آجری کی کتاب سے ان کا مقام جاننا بھی ناممکن نہیں ہے۔

نیز آجری کی کتاب کا مطالعہ کرنے والا ہر ماہرِ فن عالم اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ آجری معرفتِ رجال اور عللِ احادیث میں عظیم مقام رکھتے ہیں، اور اسی لیے بعض محدثین نے ان پر "الحافظ" کے لقب کا اطلاق کیا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے علمِ حدیث کا اصل ذائقہ ہی نہیں چکھا اور وہ محض ائمہ  کے اقوال کی گنتی کرنے، اور ان کی لفظ با لفظ تقلید میں اپنی ساری کاوشیں صرف کردیتے ہیں، وہ کبھی اس مقام پر نہیں پہنچ سکتے جس مقام پر اس فن کے اصل ماہرین پہنچتے ہیں۔ اور اسی لیے وہ لوگ خود تحقیق کرنےکی بجائے ہمیشہ دوسروں کے اقوال  کا مطالبہ کرتے رہ جاتے ہیں۔

چنانچہ اس کتاب کے محقق شیخ محمد علی قاسم العمری فرماتے ہیں:

" والذي ظهر لي أن الآجري - رحمه الله - كان من العلماء النابهين حيث كان يلم بعلم حديثي غزير وخاصة في علم الرواة، مما جعل أهل العلم يطلقون عليه لقب الحافظ كما تقدم، وهذه الكلمة ذات مدلول علمي رفيع. ولعل أهم مقومات علمه أن عاش في عصر ازدهار العلوم، إلى جانب ملازمته لأبي داود - رحمه الله - وهو العارف العالم بالصناعة الحديثية. ومن هنا فقد ألم الآجري - رحمه الله - بعلم الحديث إلماماً كبيراً نحكم من خلاله على مدى تمكنه فيه فنراه البادئ بالسؤال في جزئيات هذا الكتاب، بل وعن أمور ذات قيمة كبيرة في مجال النقد الحديثي، كما أن اختلاف طبيعة الأسئلة وتنوعها لدليل على غزارة علمه فيه، ولم يقتصر الآجري على البدء بالسؤال فحسب بل كان أحياناً يقوم بتفسير وتوضيح ما قد يشكل أو يصعب فهمه من عبارات أبي داود، وفي بعض الأحايين بدلي بما عنده من معلومات إذا اقتضت الحاجة، وهذه الأمور لا تصدر إلا عن عالم متمكن في هذا الفن. "

(میرے سامنے جو بات واضح ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ الآجری، رحمہ اللہ، نمایاں علماء میں سے تھے، کیونکہ ان کے پاس حدیث کا وسیع علم تھا، خاص طور پر علم الرواة میں۔ اسی وجہ سے اہل علم نے انہیں حافظ کا لقب دیا جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، اور یہ لفظ ایک بلند علمی مقام کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کے علم کی اہم بنیادوں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے علوم کے عروج کے دور میں زندگی گزاری، اور امام ابو داود، رحمہ اللہ، کے ساتھ مضبوطی سے بنے رہے جو کہ فن حدیث کے ماہر عالم تھے۔

اسی وجہ سے الآجری، رحمہ اللہ، حدیث کے علم میں بڑی مہارت رکھتے تھے، جس سے ہم ان کے اس میدان میں مہارت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اس کتاب کی جزئیات میں سوالات کی ابتدا کرتے ہیں، بلکہ حدیثی تنقید کے میدان میں بھی اہم امور پر سوال کرتے ہیں۔ سوالات کی نوعیت اور تنوع ان کے وسیع علم کا ثبوت ہے۔ الآجری نے صرف سوالات کی ابتدا ہی نہیں کی، بلکہ کبھی کبھار ابو داود کی عبارات میں جو مشکل یا مبہم بات ہوتی، اس کی وضاحت اور تشریح بھی کرتے تھے، اور بعض اوقات ضرورت پڑنے پر اپنی معلومات بھی فراہم کرتے تھے۔ یہ امور صرف اِس فن میں ماہر عالم سے ہی صادر ہو سکتے ہیں

(سؤالات الآجری بتحقیق العمری: ص 40)

اسی طرح سؤالات الآجری کے دوسرے محقق اور برصغیر کے مشہور محدث اور عالم، ڈاکٹر عبد العلیم بن عبد العظیم البستویؒ اپنی تحقیق کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:

"لم يقتصر دور أبي عبيد في جمع المعلومات التي اشتمل عليها هذا الكتاب وترتيبها بل ترك بصمات واضحة تدل علي مكانته العلمية ومعرفته بالرواة وعلل الأحاديث ويتبين ذلك من عدة أمور"

(ابو عبید الآجری کا دور صرف اس کتاب میں شامل معلومات کے جمع کرنے اور ترتیب دینے تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے واضح نقوش چھوڑے جو ان کے علمی مقام اور علم الرواة اور علل الاحادیث کی معرفت کو ظاہر کرتے ہیں، اور یہ کئی امور سے ظاہر ہوتا ہے)

اس کے بعد انہوں نے آجری کی کتاب سے مختلف مثالوں کے ذریعے مختلف ابواب کے تحت یہ ثابت کیا ہے کہ کیسے ابو عبید الآجری نے اس کتاب میں اپنے علم حدیث اور علل احادیث کی معرفت کا مظاہرہ کیا ہے۔

(دیکھیں: سؤالات الآجری بتحقیق البستوی: 1/109)

اتنی واضح دلیلوں کے بعد بھی اگر کوئی آجری کی روایت کو یہ کہہ کر رد کرے کہ ان کی توثیق ثابت نہیں، تو اس کا علاج ہمارے پاس نہیں ہے۔ البتہ یہ لوگ اپنے اس منہج میں جنہیں اپنا سربراہ اور امام مانتے ہیں وہ دو لوگ ہیں:

ایک شیخ زبیر علی زئیؒ

اور دوسرے غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب۔

اگرچہ ان دونوں نے ہی آجری کی روایت کو رد کیا ہے، لیکن ذیل میں ہم ان کے اپنے منہج کے مطابق آجری کی توثیق بطورِ الزام ثابت کریں گے، شاید یہ لوگ انہی کی سن لیں:

شیخ زبیر علی زئیؒ کے منہج پر آجری کی توثیق:

اختصار علوم الحدیث کے حاشیہ میں شیخ زبیر علی زئیؒ فرماتے ہیں:

"زمانہ تدوینِ حدیث اور تیسری صدی ہجری کے بعد اگر کوئی راوی روایتِ حدیث، علم اور کسی نیک صفت کے ساتھ مشہور ہو جائے اور اس پر کوئی جرح ثابت نہ ہو تو یہ ضروری نہیں کہ ضرور اس کی توثیق ثابت کی جائے بلکہ راجح یہی ہے کہ ایسے راوی کی روایت حسن لذاتہ کے درجے سے نہیں گرتی۔ واللہ اعلم"

(اختصار علوم الحدیث: ص 59)

اسی طرح دوسری جگہ فرمایا:

"تیسری صدی ہجری کے بعد مشہور عالم پر اگر جرح نہ ہو تو اس کی توثیق کی صراحت ضروری نہیں بلکہ علم، فقاہت، نیکی اور دینداری کے ساتھ مشہور ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایسے شخص کی حدیث حسن درجے سے کبھی نہیں گرتی اور اس کا مقام کم از کم صدوق ضرور ہوتا ہے"

(اضواء المصابیح: 1/251)

ان دونوں اقوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شیخ زبیر علی زئیؒ نے تیسری صدی ہجری کے بعد کی شرط اس لیے لگائی کیونکہ ان کے مطابق یہ زمانہ تدوین کے بعد کا زمانہ ہے جیسا کہ پہلے قول سے واضح ہے، حالانکہ یہ قول کتنا حق کے قریب ہے وہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ بہرحال ان کے نزدیک جس راوی کا عمل دخل تدوینِ حدیث میں نہ ہو اس کے لیے توثیق لازم نہیں ہے بلکہ عمومی عدالت ان کے لیے کافی ہے۔ اس شرط کے مطابق حافظ آجری ثقہ ٹھہرتے ہیں کیونکہ: اگرچہ وہ تدوینِ حدیث کے دور میں گزرے ہیں لیکن ان کی روایات کا تعلق تدوینِ حدیث سے ہرگز نہیں ہے کیونکہ وہ کتاب کے راوی ہیں گویا عملا ًان کا معاملہ انہی کے موافق ہے جنہیں شیخ زبیر علی زئی نے ذکر کیا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ محدثین نے انہیں الحافظ کا لقب دیا ہے جو عموما ماہرِ علم وعلل حدیث کو دیا جاتا ہے۔ اور انہوں نے ان کی کتاب کو بھی مفید کہا ہے اور اس کی تعریف کی ہے، اور امام ذہبی نے ان سے ہر قسم کی جرح کی نفی کی ہے۔ نیز تمام محدثین نے ان کے اقوال سے حجت لی ہے۔ الغرض ان کی عدالت مشہور ومعروف ہے۔ چنانچہ شیخ زبیر علی زئی کے بیان کردہ اصول کے مطابق آجری کی روایت حسن درجے سے نیچے نہیں گرتی۔

مولانا غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب کے منہج پر آجری کی توثیق:

مولانا امن پوری صاحب نے اپنے فتاوی کی قسط نمبر 188 میں امام بخاری کے دو مشہور اجزاء "جزء رفع الیدین" اور "جزء القراۃ خلف الامام" کے راوی "محمود بن اسحاق" کی توثیق کو درج ذیل دلائل سے ثابت کیا ہے:

1-   محدثین کا اس بات کا ذکر کرنا کہ محمود بن اسحاق نے امام بخاری سے ان کے اجزاء روایت کیے ہیں۔

2-   محدثین نے ان دونوں کتابوں کو امام بخاری کی تصنیف کہا ہے۔

3-   حافظ ابن حجر نے اپنی سند سے جزء رفع الیدین کی روایات ذکر کی ہیں۔

4-   محمود بن اسحاق امام بخاری کے مشہور شاگرد ہیں۔

 

اور ان دلائل کی بنیاد پر امن پوری صاحب فرماتے ہیں:

"اس طرز کے راوی سند کتاب میں معتبر ہوتے ہیں۔"

(فتاوی امن پوری، قسط نمبر 188)

الغرض ہر اعتبار سے آجری سے کم تر راوی کی توثیق کو انہوں نے اس طرح ثابت کیا ہے، حالانکہ یہ تمام دلائل اور اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر مزید دلائل آجری کی توثیق پر پائے جاتے ہیں، لیکن پھر بھی آجری ہی غیر معتبر ٹھہرے! اس طرح کے دوہرے اصول پختہ محقق کی نشانی نہیں ہیں، اور اہل حدیث کہلوانے والوں کو خاص طور سے اس سے اجتناب کرنا چاہیے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ اہل حدیث اور خاص طور سے مخصوص حضروی منہج کو اپنانے والوں میں ان دوہرے اصولوں اور موقف پر تعصب بہت زیادہ ہوتا ہے۔

 

بہرحال غیر جانبدار اور تعصب وتقلید سے پاک علم کے طلبہ کے لیے جو دلائل ہم نے پیش کر دیے ہیں وہ کافی ہیں حافظ آجری کی توثیق ثابت کرنے کے لیے۔ وللہ الحمد۔

 


0/کمنٹس: