سیّد الحفاظ امام ابو زرعہ الرازیؒ حیات و خدمات: علمی و اعتقادی جہات کا مطالعہ



سیّد الحفاظ امام ابو زرعہ الرازیؒ

حیات و خدمات: علمی و اعتقادی جہات کا مطالعہ

فہرست

نام اور نسب: 4

شہرِ "ری" سے ان کی نسبت: 4

کنیت: 5

ولادت.. 5

ان کا خاندان اور علم سے دلچسپی... 6

ان کے والد اور چچاؤں کا تذکرہ: 6

امام ابو زرعہ کے بھائی: 9

امام ابو حاتم الرازی (امام ابو زرعہ کے پھوپھی زاد بھائی). 9

ان کی پرورش اور تحصیلِ علم: 10

حدیث کے حصول کے لیے ان کے سفر: 14

پہلا علمی سفر (213-214ھ): 16

دوسرا علمی سفر (227-232ھ): 17

تیسرا علمی سفر (227-232ھ): 18

امام ابو زرعہ کا بعض قریبی علاقوں کی طرف سفر: 19

شیوخ واساتذہ: 23

کیا امام ابو زرعہ کے تمام شیوخ ثقہ ہیں؟. 28

تلامذہ اور ان سے روایت کرنے والے رواۃ: 30

ابو زرعہؒ کی علم القراءات میں مہارت: 33

ابو زرعہ کی موطاء امام مالک سے واقفیت اور مہارت: 33

امام ابو زرعہ کی کتب وتصنیفات: 34

امام ابو زرعہؒ کا حافظہ: 37

علماء کے درمیان ان کا مقام: 47

ائمہ محدثین کی طرف سے امام ابو زرعہ کی خدماتِ سنت پر تحسین آمیز خطوط: 59

ائمہ کی ابو زرعہ الرازی کے لیے دعائیں اور محبت کا اظہار: 60

امام ابو زرعہ کا فقہی مذہب: 61

امام ابو حنیفہ کی پیروی کا دور: 61

حفظِ حدیث کا دور: 62

فقہاءِ امصار کے فقہی مسائل  کے جمع ومطالعے کا دور: 63

شافعی فقہ کے اعتناء کا دور: 64

امام احمد بن حنبل کے فقہی مذہب کی ترجیح کا دور: 65

امام ابو زرعہ کا درجہِ اجتہاد پر فائز ہونا: 66

عقیدہ اور عقیدے کے بارے میں ان کے اقوال. 71

ابن ابی حاتم اور ابو القاسم لالکائی کی کتابوں سے عقیدے کا اصل متن: 72

امام ابو زرعہ کا صحابہ کرام پر طعن کرنے والوں کے بارے میں موقف: 76

امام ابو زرعہ کا صفاتِ الٰہی سے متعلق احادیث کے بارے میں موقف: 77

صحابہ کرامؓ میں تفصیل کے بارے میں امام ابو زرعہؒ کا عقیدہ: 78

بعض فرقوں کے بارے میں ان کا قول: 79

امام ابو زرعہ کا زہد اور تقوی: 80

رسول اللہ ﷺ کے طرزِ عمل اور سنت کے سب سے زیادہ مشابہ: 83

وفات: 84

 

زیرِ نظر مقالہ کتاب 'أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية' سے بعض ضروری اضافوں اور تعبیراتی تصرفات کے ساتھ ماخوذ ہے۔

نام اور نسب:

ان کا پورا نام عبید اللہ بن عبد الکریم بن یزید بن فروخ بن داؤد ہے۔

یہ عیاش بن مطرف بن عبید اللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ القرشی المخزومی کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) تھے۔

ابن عساکر نے اپنی "تاریخ" میں اپنی سند کے ساتھ ابو زرعہ سے روایت نقل کیا ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے:

"میں عیاش بن مطرف کا مولیٰ ہوں"، اور اسی نسبت سے وہ خود کو عبید اللہ بن عبد الکریم بن یزید بن فروخ، مولیٰ عیاش بن مطرف کہا کرتے تھے۔

(تاریخ دمشق: 38/15)

شہرِ "ری" سے ان کی نسبت:

امام ابو زرعہ کو شہر "ری" کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں "الرازی" کہا جاتا ہے، کیونکہ وہیں ان کی پیدائش ہوئی، اسی میں پرورش پائی، علم حاصل کیا، اور اپنی زندگی کے آخر تک اسی شہر کی مسجد میں تدریس کرتے رہے — رحمہ اللہ۔

یہ شہر بلاد الجبال کے علاقے میں واقع ہے، اور آج بھی اس کے کھنڈرات کو دیکھا جا سکتا ہے جو تہران (ایران کے دارالحکومت) کے جنوب مشرق میں تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر ہیں۔

یہ شہر البرز پہاڑوں کی ایک شاخ کے جنوب میں واقع ہے جو میدان کی طرف پھیلتی ہے، اور شاہ عبدالعظیم کا گاؤں اور ان کا مزار ان کھنڈرات کے بالکل جنوب میں موجود ہے۔

یہ شہر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 20 ہجری (یا بعض کے مطابق 19 ہجری) میں مسلمانوں نے فتح کیا۔

اس کی جغرافیائی اہمیت کے باعث، خاص طور پر مشرقی علاقوں میں فوجی اور انتظامی نقطۂ نظر سے، اور اس کی تجارتی شہرت کی بنا پر، مسلمانوں نے اس شہر کو خاص اہمیت دی۔

یوں اس شہر نے اپنے قدیم ورثے اور اسلامی تعلیمات کے امتزاج سے عظمت حاصل کی، یہاں تک کہ یہ ایک اہم علمی مرکز بن گیا جس کی شہرت صدیوں اور نسلوں تک قائم رہی۔

(دارئرہ المعارف الاسلامیہ: 10/285، وفتوح البلدان: ص 306)

کنیت:

ان کی کنیت أبو زُرْعَة ہے۔
یہ کنیت ان سے پہلے، ان کے ہم عصر، یا بعد میں آنے والے پچاس سے زیادہ علماء کے ساتھ مشترک تھی۔
لیکن ان کی شہرت کی وجہ سے جب یہ کنیت بلامعرفت یا بلا نسبت ذکر کی جائے تو مراد ابو زرعہ رازی ہی ہوتے ہیں۔

یہ کنیت رازیوں نے اس وقت اختیار کی جب وہ دمشق آئے اور ابو زرعہ دمشقی (م 281 ھ) سے ملاقات کی۔
ابن عساکر نے اپنی "تاریخ" میں سند کے ساتھ ابو زرعہ دمشقی کا قول نقل کیا کہ:
"
ابو زرعہ رازی کو میری کنیت دی گئی، بات یہ ہے کہ اہلِ ری کا ایک گروہ دمشق آیا، ان میں ابو یحییٰ مزحویہ بھی تھے۔ جب وہ واپس ری پہنچے تو (جیسا کہ مجھے کئی لوگوں نے بتایا جن میں ابو حاتم بھی شامل ہیں) انہوں نے اس نوجوان (یعنی ابو زرعہ رازی) کو کہا: ہم تمہیں ابو زرعہ دمشقی کی کنیت دیں گے۔ پھر جب ابو زرعہ رازی مجھ سے دمشق میں ملے، تو میرے ساتھ مجلس میں شریک ہوئے، اور مجھے یہ واقعہ سنایا اور کہا: مجھے تمہاری کنیت دی گئی ہے

(تاریخ دمشق: 38/16)

ولادت

امام ابو زرعہ رازیؒ کی تاریخِ ولادت کے متعلق مختلف اقوال ملتے ہیں:

1.    امام خطیب بغدادی نے امام ابو زرعہ سے روایت کی کہ انہوں نے خود کہا: "میں 200ھ میں پیدا ہوا۔" (تاریخ بغداد: 10/327)۔ لیکن اس کا راوی ضعیف ہے۔

البتہ امام ابو الحسین احمد بن جعفر بن محمد ابن المنادی (م 336 ھ) نے بھی فرمایا ہے کہ: "ابو زرعہ کی پیدائش 200ھ میں ہوئی" (تاریخ بغداد: 10/334، واسنادہ صحیح)۔

2.    امام ذہبی فرماتے ہیں کہ امام حاکم نے اپنی کتاب (الجامع لذِكر أئمة الأمصار المزكّين لرواة الأخبار) میں کہا: "میں نے عبد الله بن محمد بن موسیٰ سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے احمد بن محمد بن سلیمان الرازی الحافظ کو کہتے سنا: (ابو زرعہ کی پیدائش سنہ 194 ہجری میں ہوئی)۔" (دیکھیں: سیر اعلام النبلاء: 13/77-78)

3.    امام ذہبی نے کہا: "ان کی پیدائش 200ھ کے بعد ہوئی۔" (سیر اعلام النبلاء: 13/65)۔ جبکہ اسی جگہ تھوڑا آگے جا کر فرمایا: "والظاهر أنه ولد سنة مائتين، والله أعلم" (ظاہر یہ ہے کہ وہ 200ھ میں پیدا ہوئے، واللہ اعلم) (السیر: 13/77)۔ اور اپنی دوسری کتاب میں امام ابن المنادی کے قول کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: " كذا قال، (والصحيح): أته وُلد سنة تسعين ومائة؛ فإنه رحل سنة إحدى عشرة ومائتين إلى الكوفة" (ابن المنادی نے ایسا ہی کہا، لیکن درست بات یہ ہے کہ ان کی ولادت سنہ 190 ہجری میں ہوئی، کیونکہ وہ 211 ہجری میں کوفہ کا سفر کر چکے تھے) (تذہیب تہذیب الکمال: 6/225)۔ اور الکاشف میں بھی انہوں نے 190ھ ہی کو ذکر کیا ہے (3568)۔

الغرض امام ذہبی اس معاملے میں 190ھ اور 200ھ کے درمیان متردد معلوم ہوتے ہیں۔

اللہ اعلم۔

ان کا خاندان اور علم سے دلچسپی

امام ابو زرعہ رازی کا خاندان ان مشہور و معروف خانوادوں میں سے ہے جو اسلامی علوم، خصوصاً حدیثِ نبوی سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔

ان کے والد اور چچاؤں کا تذکرہ:

ان کے دادا یزید بن فروخ رازی نے اپنے بعد تین محدّثین چھوڑے:

1-  اسماعیل بن یزید بن فروخ:

اسماعیل بن یزید نے حدیث کا علم حاصل کیا اور اس کی روایت میں معتبر تھے۔

امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں: "إسماعيل بن يزيد خال أبي وعم أبي زرعة روى عن السندي ابن عبدويه وإسحاق بن سليمان وعبد الصمد العطار وعبد الله بن هاشم روى عنه أبي، سئل أبي عنه فقال صدوق."

(اسماعیل بن یزید میرے والد (ابو حاتم) کے ماموں اور ابو زرعہ کے چچا تھے، انہوں نے السندی ابن عبدویہ (سہل بن عبد الرحمن)، اسحاق بن سلیمان، عبد الصمد العطار، اور عبد اللہ بن ہاشم سے روایت کی۔ میرے والد نے ان سے روایت کی، اور میرے والد کوان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: "وہ صدوق ہیں")۔

(الجرح والتعدیل: 2/205 ت 693)

نیز اسماعیل اپنے خاندان کے نوجوانوں کو حدیث کی طلب میں اپنے سفر پر ساتھ لے جایا کرتے تھے۔
ابن ابی حاتم نے محمد بن حاتم الجرجرائی کے ترجمے میں اپنے والد سے روایت نقل کی کہ انہوں نے کہا:
"قدمنا جرجرايا وكان خالي اسمعيل معى وهو مريض وكان بها محمد بن حاتم فاشتغلت بعلة خالي ولم اسمع منه وكان صدوقا"

(ہم جرجرايا آئے، اور میرے ساتھ میرے ماموں اسماعیل بھی تھے جو بیمار تھے، وہاں محمد بن حاتم موجود تھے، لیکن میں اپنے ماموں کی بیماری میں مشغول رہا، اس لیے ان سے حدیث نہیں سن سکا، حالانکہ وہ سچے (صدوق) تھے)۔

(الجرح والتعدیل: 7/238)

2-  محمد بن یزید بن فروخ (ابو جعفر الأحدب):

انہوں نے بھی حدیث کا طلب علم کیا اور حبویہ اسحاق بن اسماعیل، السندی ابن عبدویہ اور اسحاق بن سلیمان سے روایت کی۔

امام ابن ابی حاتم لکھتے ہیں:

"محمد بن يزيد أبو جعفر الاحدب خال أبي وعم أبي زرعة روى عن حبويه اسحاق بن اسماعيل والسندى بن عبدويه وإسحاق بن سليمان روى عنه ابى ووثقه وصفه بالعبادة والحفظ والفقه لرأى القوم. نا عبد الرحمن قال سئل ابى عنه فقال: صدوق."

"محمد بن یزید ابو جعفر الأحدب میرے والد (ابو حاتم) کے ماموں اور ابو زرعہ کے چچا تھے۔ انہوں نے حبویہ اسحاق بن اسماعیل، سندی بن عبدویہ اور اسحاق بن سلیمان سے روایت کی۔ میرے والد نے ان سے روایت کی اور ان کی عبادت، حافظے اور فقہ میں مہارت کی بنیاد پر ان کی توثیق کی، اور انہیں معتبر قرار دیا۔ عبد الرحمٰن (ابن ابی حاتم) کہتے ہیں: میرے والد سے ان کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: "وہ صدوق ہیں"

(الجرح والتعدیل: 8/130 ت 582)

3-  عبد الکریم بن یزید بن فروخ (ابو زرعہ کے والد):

ابن ابی حاتم نے ان کے بارے میں لکھا:
"والد ابى زرعة روى عنه أبي سألت أبي عنه فقال شيخ"

(یہ ابو زرعہ کے والد ہیں۔ میرے والد نے ان سے روایت کی۔ میں نے اپنے والد سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: شیخ ہیں)

(الجرح والتعدیل: 6/61 ت 324)

وہ علماء کے قریب رہنے والے، ان کی مجلسوں میں بیٹھنے کے خواہش مند اور علم حدیث کے طلب میں کوشاں شخص تھے۔ وہ ابو زرعہ کی تربیت محدثین کے طریقے پر کرتے، اور انہیں علماء کی مجلسوں میں لے جاتے تاکہ وہ عادت ڈال سکیں اور اہلِ علم سے آشنا ہوں، حالانکہ ابو زرعہ اس وقت چھوٹے بچے ہی تھے۔

ابو زرعہ خود بیان کرتے ہیں:
"میرے والد مجھے عبد الرحمٰن بن عبد اللہ بن سعد الدشتکی کے پاس لے گئے۔ جب میں نے انہیں دیکھا تو ان کی ہیبت سے گھبرا گیا۔ میرے والد ان کے پاس آگے بڑھے، سلام کیا اور ان کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ میں تھوڑا تھوڑا قریب ہوتا رہا اور ان کی طرف دیکھتا رہا، لیکن ان کی ہیبت کی وجہ سے قریب جانے کی ہمت نہ ہوئی۔

جب انہوں نے دیکھا کہ میں قریب آ رہا ہوں، تو میرے والد سے پوچھا: 'یہ کون ہے؟' میرے والد نے کہا: 'یہ میرا بیٹا ہے۔' انہوں نے کہا: 'اسے بلاؤ۔' تو میرے والد نے مجھے بلایا، اور میں آ کر ان کے قریب ہوا۔ عبد الرحمٰن نے مجھ سے کہا: 'میرے قریب آؤ۔' میں آہستہ آہستہ قریب ہوتا رہا، اور وہ مسلسل کہتے رہے: 'قریب آؤ، قریب آؤ،' یہاں تک کہ میں بالکل قریب آ گیا۔ شاید انہوں نے مجھے اپنی ران پر بٹھا لیا یا اپنے پہلو میں۔پھر انہوں نے مجھ سے کہا: 'اپنا ہاتھ نکالو۔' میں نے اپنا ہاتھ نکالا، تو انہوں نے میری انگلیوں کے اندرونی جوڑوں کی لکیروں کو غور سے دیکھا اور میری طرف غور سے نگاہ کی، پھر میرے والد سے کہا: 'تمہارا یہ بیٹا بڑا شان و مقام حاصل کرے گا، قرآن یاد کرے گا اور علم حاصل کرے گا،' اور بھی کئی باتیں ذکر کیں"

(الجرح والتعدیل: 1/339)

ابو زرعہ نے اپنے والد سے رجال اور حدیث کی پہچان حاصل کی۔

ابن ابی حاتم نے قاضی علاء بن حصین کی سوانح میں لکھا کہ ابو زرعہ نے کہا:

"سمعت ابى يقول كان العلاء ابن الحصين قاضيا بالرى نزل الاردان وكان يقضى في حصن الاردان"

(میں نے اپنے والد (عبد الکریم) کو کہتے سنا: علاء بن حصین ری شہر میں قاضی تھے، وہ اردان میں آ کر مقیم ہوئے، اور قلعۂ اردان میں فیصلے کیا کرتے تھے)

(الجرح والتعدیل: 6/354)

امام ابو زرعہ کے بھائی:

اسی طرح ابن ابی حاتم نے امام ابو زرعہ کے ایک بھائی کا بھی ذکر کیا جو حدیث سے دلچسپی رکھتے تھے۔
ابن ابی حاتم نے عمرو بن حکام کے ترجمے میں فرمایا:

"سألت أبا زرعة عن عمرو بن حكام فقال قدم الرى وكتب عنه اخى أبو بكر وليس بالقوى"

"میں نے ابو زرعہ سے عمرو بن حکام کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: وہ "ری" آئے تھے، اور میرے بھائی ابو بکر نے ان سے حدیث لکھی تھی، لیکن وہ مضبوط (ثقہ) راوی نہیں تھے۔"

(الجرح والتعدیل: 6/228)

امام ابو حاتم الرازی (امام ابو زرعہ کے پھوپھی زاد بھائی)

اسی طرح امام ابو زرعہ نے اپنے پھوپھی کے شوہر، ادریس بن منذر الحنظلی کے خاندان سے بھی استفادہ کیا، کیونکہ انہوں نے اپنے پھوپھی زاد بھائی ابو حاتم (محمد بن ادریس بن المنذر) الرازی کی رفاقت اختیار کی تھی۔

وہ امام ابو زرعہ کے ساتھ بچپن ہی سے حدیث کے طلب میں شریک سفر رہے، اور دونوں نے شام، عراق، حجاز اور مصر سمیت کئی علاقوں کا اکٹھا سفر کیا۔ دونوں نے باہمی مشورے سے اساتذہ کا انتخاب کیا اور علمی میدان میں ایک دوسرے کے ہم رَکاب رہے۔ اور وہ جرح و تعدیل کے اصولوں پر کامل عبور رکھتے تھے۔ علمائے جرح و تعدیل میں ان کا شمار امام یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، اور امام بخاری کے ہم پلہ کیا جاتا ہے۔

اپنی قریبی دوستی اور علمی رفاقت کے باعث، امام ابو زرعہ اور امام ابو حاتم کا نام اکثر ساتھ ساتھ لیا جاتا ہے۔ بہت سی احادیث و روایات پر دونوں نے مشترکہ تحقیق پیش کی، اور علمِ علل الحدیث و حفظِ حدیث میں دونوں کا علمی مقام بھی ایک دوسرے کے نہایت قریب ہے۔

امام ابو حاتم کی تفصیلی سیرت ایک مستقل تحریر کی متقاضی ہے، جس کی تکمیل ان شاء اللہ جلد عمل میں آئے گی۔

 

ان تمام مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو زرعہ کا پورا خاندان حدیثِ نبوی سے دلچسپی رکھتا تھا، اور یہی ماحول ابو زرعہ کے لیے سنت کی خدمت میں اعلیٰ مقام کا ذریعہ بنا۔

ان کی پرورش اور تحصیلِ علم:

شہرِ ری میں علمی تحریک کی بلوغت نے امام ابو زرعہؒ کے علمی سفر پر گہرا اثر ڈالا، خاص طور پر اس خانوادے کا ماحول جس میں وہ پروان چڑھے — والد اور چچاؤں کی تربیت، اور بعد ازاں ان کے علمی اسفار، حدیث کے حصول میں صبر و استقامت، اور اپنے دور کے جلیل القدر محدثین و رواۃ کے ساتھ ملاقات نے انہیں حفاظِ حدیث کے اماموں کی صف میں شامل کر دیا۔ وہ جرح و تعدیل اور سند و متن کی علتوں کے بیان میں مرجع بنے، اور ان کے اقوال بعد کے ائمہ کے لیے حجت بنے، یہاں تک کہ ان سے اصول اخذ کیے جانے لگے — رحمہ اللہ۔

ابو زرعہؒ نے کم عمری میں حدیث کے طلب کا آغاز کیا۔ ان کے والد انہیں محدثین کی مجالس میں لے جایا کرتے، جیسے کہ الدشتکی وغیرہ۔ امام صاحب خود کہتے ہیں:

" كنا نبكر بالأسحار إلى مجلس الحديث نسمع من الشيوخ، فبينما أنا يوماً من الأيام قد بكرت، وكنت حدثاً إذ لقيني في بعض طرق الري من سماه أبي ونسيته أنا شيخ مخضوب بالحناء فيما وقع لي فسلم عليّ فرددت السلام فقال لي: يا أبا زرعة سيكون لك شأن وذكر..."

(ہم سحر کے وقت ہی حدیث کی مجلس کے لیے نکل پڑتے اور شیوخ سے سماع کرتے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ میں حسبِ معمول جلدی نکلا، اور اس وقت میں کم عمر تھا۔ راستے میں، شہر ری کی ایک گلی میں، ایک ایسے بزرگ سے ملاقات ہوئی جن کا نام میرے والد نے لیا تھا مگر میں بھول گیا ہوں۔ ان کی داڑھی حنا سے خضاب کی ہوئی تھی (جیسا کہ مجھے یاد پڑتا ہے)۔ انہوں نے مجھ پر سلام کیا، میں نے سلام کا جواب دیا، تو انہوں نے مجھ سے کہا: "اے ابو زرعہ! تمہارا ایک دن بڑا مقام اور ذکر ہوگا"۔۔۔)

(تاریخ دمشق: 38/33)

وہ ری میں آنے والے یا وہاں مقیم محدثین کی مجالس میں شرکت کرتے اور ان سے حدیث حاصل کرتے۔ ان کے شہر کے علماء ان کی فضیلت اور حدیث کے حفظ کو بچپن ہی سے جانتے تھے، اور جب بھی کوئی بڑا حافظ ان کے پاس آتا، تو وہ ابو زرعہ پر فخر کیا کرتے تھے۔
خطيب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو العباس محمد بن اسحاق الثقفی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

"لما انصرف قتيبة بن سعيد إلى الري سألوه أن يحدثهم فامتنع وقال: أحدثكم بعد أن حضر مجالسي أحمد بن حنبل، ويحيى بن معين، وعلي بن المديني، وأبو بكر بن أبي شيبة وأبو خيثمة؟ قالوا له: فإن عندنا غلاماً يسرد كل ما حدثت به مجلساً مجلساً، قم يا أبا زرعة، فقام أبو زرعة فسرد كل ما حدث به قتيبة، فحدثهم قتيبة"

(جب قتیبہ بن سعید ری آئے تو لوگوں نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں حدیث سنائیں۔ قتیبہ نے انکار کرتے ہوئے کہا: کیا میں تمہیں حدیث سناؤں جبکہ میری مجالس میں احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن مدینی، ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو خیثمہ جیسے اکابر شریک ہوتے رہے؟ لوگوں نے کہا: ہمارے پاس ایک ایسا نوجوان ہے جو آپ کی ہر مجلس کو مکمل یاد رکھتا ہے۔ ابو زرعہ! کھڑے ہو جاؤ۔ چنانچہ ابو زرعہ کھڑے ہوئے اور قتیبہ کی تمام احادیث مجلس بہ مجلس بیان کر دیں۔ یہ دیکھ کر قتیبہ نے خود حدیث بیان کرنا شروع کر دی۔)

(تاریخ بغداد: 10/331)

اور ان کے طلبِ علم میں جلدی اور حدیث لکھنے کی ابتدا کی دلیل یہ ہے کہ وہ خود فرماتے ہیں:

"إن في بيتي ما كتبته منذ خمسين سنة ولم أطالعه منذ كتبته..."

(میرے گھر میں کچھ ایسی چیزیں (احادیث) موجود ہیں جو میں نے پچاس سال پہلے لکھی تھیں اور آج تک انہیں دوبارہ نہیں دیکھا۔)

(تاریخ بغداد: 10/330)

اگرچہ ایسا کوئی صریح بیان ہمیں نہیں ملا جو اس بات کی بالکل درست تعیین کرے کہ امام ابو زرعہ نے کب باقاعدہ علم حاصل کرنا اور حدیث روایت کرنا شروع کیا، البتہ حاکم نیشاپوری نے ذکر کیا ہے کہ ابو زرعہ تیرہ سال کی عمر میں شہر ری سے طلبِ حدیث کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ بات معروف ہے کہ طلب علم کے ابتدائی مرحلے میں طالب علم پہلے اپنے شہر کے شیوخ اور آس پاس کی بستیوں یا ان میں آنے والے اہلِ علم سے احادیث محفوظ کرتا اور انہیں لکھتا ہے اور پھر علمی سفر کا آغاز کرتا ہے، چنانچہ امام ابو زرعہ فرماتے ہیں:

"كتبت بالري قبل أن أخرج إلى العراق عن نحو ثلاثين شيخا منهم عبد الله بن الجراح وعبد العزيز بن المغيرة وعبد الصمد بن حسان وجعفر بن عيسى وبشر ابن يزيد وسلمة بن بشير وعبيد بن إسحاق وذكر شيوخا كثيرة."

(میں نے عراق جانے سے پہلے ری میں تقریباً تیس شیوخ سے حدیث لکھی، ان میں شامل تھے: عبد اللہ بن الجراح، عبد العزیز بن مغیرہ، عبد الصمد بن حسان، جعفر بن عیسیٰ، بشر بن یزید، سلمہ بن بشیر، اور عبید بن اسحاق (راوی ابن ابی حاتم کہتے ہیں) اور انہوں نے بہت سے دیگر شیوخ کا بھی ذکر کیا)

(الجرح والتعدیل: 1/335)

 اور ابو زرعہ ان گنے چنے افراد میں سے تھے جنہوں نے اتنی کم عمری میں طلبِ حدیث کے لیے باقاعدہ سفر کیا، اور جب وہ اپنے وطن سے قریب اور دور کے علمی مراکز کی طرف نکلے تو یہ ان کی علمی زندگی کا نیا باب تھا — جہاں انہوں نے ایسے ائمہ و حفاظ سے ملاقات کی جن کی طرف لوگ دور دراز سے سفر کیا کرتے تھے، ان کے وسیع علم اور حافظے کی کثرت کی بنا پر۔

امام ابو زرعہ سے پوچھا گیا:

"في أي سنة كتبتم عن أبي نعيم- الفضل بن دكين-؟ قال: "في سنة أربع عشرة ومائتين ومات في سنة ثماني عشرة ومائتين"

("آپ نے ابو نعیم الفضل بن دکین سے کس سنہ میں حدیث لکھی؟" تو انہوں نے جواب دیا: "214 ہجری میں، اور وہ 218 ہجری میں وفات پا گئے۔")

(الجرح والتعدیل: 1/399)

انہوں نے تفسیر ان بڑے ائمہ سے حاصل کی جو اس فن کے ماہر اور روایت میں ثقہ تھے، اور علمِ قراءات بھی خوب سیکھا — جیسے عيسى بن ميناء (قالون المقرئ)، حفص الدوري، خلف البزار اور دیگر معتبر قراء سے۔

وہ فرمایا کرتے تھے:

"أنا أحفظ ستمائة ألف حديث صحيح وأربعة عشر ألف إسناد في التفسير والقراءات، وعشرة آلاف حديث مزورة، قيل له: ما بال المزورة تحفظ؟ قال: إذا مرّ بي منها حديث عرفته"

(میں چھ لاکھ صحیح احادیث، چودہ ہزار اسنادِ تفسیر و قراءات، اور دس ہزار موضوع (جھوٹی) احادیث یاد رکھتا ہوں۔" ان سے پوچھا گیا: "جھوٹی احادیث یاد رکھنے کا کیا فائدہ؟" تو فرمایا: "تاکہ جب ان میں سے کوئی میرے سامنے آئے، تو میں فوراً پہچان سکوں۔")

(شرح علل الترمذی لابن رجب: 1/494)

اور جتنا ان کا حفظ بڑھتا، اتنا ہی حدیث کا شوق اور محبت بھی بڑھتی۔ وہ بڑے ائمہ جیسے امام احمد بن حنبل، ابن ابی شیبہ اور دیگر جلیل القدر محدثین کی صحبت کو اختیار کرتے، اور ان سے مسلسل حدیث لکھتے رہتے تھے۔

خطيب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو زرعہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا:

"كتبت عن رجلين مائتي ألف حديث، كتبت عن إبراهيم الفراء مائة ألف حديث، وعن ابن أبي شيبة عبد الله مائة ألف حديث"

(میں نے دو اشخاص سے دو لاکھ احادیث لکھی ہیں: ابراہیم الفراء سے ایک لاکھ حدیثیں، اور عبد اللہ بن ابی شیبہ سے ایک لاکھ حدیثیں)۔

(تاریخ بغداد: 10/326)

ابو زرعہ نے ابراہیم بن موسیٰ الفراء الرازی کی صحبت آٹھ سال اختیار کی — سن 214 کے آخر سے لے کر سن 222 ہجری تک۔ (دیکھیں: الجرح والتعدیل: 1/335)
اسی طرح انہوں نے ابو سلمہ التبوذکی سے دس ہزار احادیث اور حماد بن سلمہ سے بھی دس ہزار احادیث لکھی تھیں۔ (ایضا)

علم حاصل کرنے، حدیث روایت کرنے اور اس کے ضبط و کتابت کے ساتھ ساتھ وہ سنتِ نبوی کی اشاعت، اس کی تعلیم، اور مخالفین و معترضین کے رد کا بھی کام کرتے تھے۔ طلبہ کی بڑی تعداد ان کی طرف متوجہ رہتی وہ ان کو حدیث سناتے، ان سے سنتے، صحیح کو درست کرتے اور ضعیف کو اس کی علت سمیت واضح کرتے۔

ابن ابی حاتم ان کے بارے میں کہتے ہیں:

"كان أبو زرعة قل يوم إلا يخرج معه إلى المسجد كتابين أو ثلاثة كتب، لكل قوم كتابهم الذي سألوا فيه فيقرأ على كل قوم ما يتفق له القراءة من كتاب، ثم يقرأ للآخر كتابه الذي قد سأل فيه أوراق ثم يقرأ للثالث كمثل ذلك فإذا رجعوا أولئك في يومهم يكون قد أخرج معه كتابهم فيجئ إلى الموضع الذي كان يقرأ عليهم إلى ذلك المكان فيبتدئ فيقرأ من غير أن يسألهم: إلى أين بلغتم؟ وما أول مجلسكم؟ فكان ذاك دأبه كل يوم لا يستفهم من احد منهم أو مجلسه وهذا بالغداة، وبالعشي كمثل ولا أعلم أحدا من المحدثين قدر على هذا."

(ابو زرعہ کا یہ معمول ہوتا کہ وہ مسجد جاتے وقت دو یا تین کتابیں ضرور ساتھ رکھتے، ہر قوم کے لیے وہی کتاب جس کے بارے میں ان لوگوں نے سوال کیا ہوتا۔ وہ ہر گروہ کے سامنے اس کتاب سے اتنا پڑھتے جتنا وقت اجازت دیتا، پھر دوسرے گروہ کے لیے ان کی مخصوص کتاب سے اوراق پڑھتے، پھر تیسرے گروہ کو بھی اسی طرح ان کی کتاب سے پڑھتے۔ جب وہ طلبہ دوبارہ اگلے دن آتے تو وہ انہی کی کتاب نکالتے اور بالکل اسی جگہ سے پڑھنا شروع کر دیتے جہاں پچھلی بار رکے تھے بغیر یہ پوچھے کہ: 'آپ کا پہلا درس کہاں سے شروع ہوا تھا؟' یا 'کہاں تک پہنچے تھے؟' ان کا یہی معمول صبح و شام ہوتا، اور میں نہیں جانتا کہ کسی دوسرے محدث میں یہ اہلیت ہو کہ وہ اس انداز پر عمل کر سکے۔)

(الجرح والتعدیل: 1/332)

حدیث کے حصول کے لیے ان کے سفر:

تیسری صدی ہجری کو سنتِ نبویؐ کا سنہری دور شمار کیا جاتا ہے، کیونکہ اس زمانے میں محدثین نے سنت کے مختلف شعبوں میں زبردست محنتیں کیں۔ انہوں نے صحیح حدیث کو پہچاننے کے اصول وضع کیے اور صحابہ و تابعین کے اقوال سے الگ کرکے صرف احادیثِ نبویہ کی تدوین کی۔ اسی طرح جرح و تعدیل (راویوں کی توثیق یا تضعیف) کے قواعد وضع کیے، صحیح احادیث کے بظاہر متعارض پہلوؤں میں جمع و تطبیق کا طریقہ اپنایا، غریب الفاظ کی وضاحت پر توجہ دی، اور دیگر کئی علمی خدمات انجام دیں۔

انہی عظیم کوششوں میں سے ایک ایسی چیز بھی ہے جس پر ہر مومن فخر کر سکتا ہے: اور وہ ہے علم حدیث کے حصول کے لیے محدثین کے سفر۔ یہ سلسلہ تیسری صدی میں پہلے سے کہیں زیادہ فعال ہوا علماء اپنے وطن، گھر بار اور عزیزوں کو اللہ کی رضا اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو حاصل کرنے اور محفوظ کرنے کی نیت سے چھوڑ کر نکل کھڑے ہوتے۔ کیونکہ صحابہ کرام مختلف علاقوں میں پھیل چکے تھے، اور ہر ایک نے وہ سب نہیں سنا تھا جو دوسرے نے سنا لہٰذا ضرورت تھی کہ اقوال و افعال، نشست و برخاست، غزوات، اخلاق، لباس، اور سفر و حضر کی تمام باتیں ترتیب سے یکجا کی جائیں۔

ان علماء نے بڑی مشقتیں اٹھائیں، بیابانوں اور سنسان وادیوں کو عبور کیا، اور ان لوگوں سے علم حاصل کیا جو خود سفر نہیں کرتے تھے۔ یحییٰ بن معین نے یہاں تک کہا:

"أربعة لا تؤنس منهم رشداً، منهم رجل يكتب في بلده ولا يرحل في طلب الحديث"

(چار قسم کے لوگ ایسے ہیں جن میں رشد کی توقع نہیں، ان میں ایک وہ ہے جو اپنے شہر میں ہی حدیث لکھتا ہے اور سفر نہیں کرتا)۔

(الرحلہ فی طلب الحدیث للخطیب البغدادی: ص 89)

امام ابراہیم بن ادہم نے کہا:

"إن الله تعالى يرفع البلاء عن هذه الأمة برحلة أصحاب الحديث"

(اللہ تعالیٰ اس امت سے بلاؤں کو دور کرتا ہے ان اہلِ حدیث کے سفروں کی برکت سے۔)

(الرحلہ للخطیب: ص 89)

ان کے یہ سفر محض شیوخ سے ملاقات اور احادیث کی تحریر کے لیے نہ ہوتے تھے بلکہ ان کا مقصد راویوں کی ثقاہت اور جرح و تعدیل کی حقیقت جاننا، ان کے علمی مقام، تصنیفی خدمات، اور شہر یا گاؤں میں علمی اثرات کا مشاہدہ کرنا بھی ہوتا تھا۔ اسی طرح وہ اعلیٰ اسناد کے حصول اور بڑے حفاظِ حدیث سے ملاقات کو بھی اہم سمجھتے تھے۔

اہلِ ری کا اس بابرکت جدوجہد ميں قابلِ ستائش حصہ تھا۔ امام رامہُرْمُزی نے شہر ري کو ان علمي مراکز ميں شمار کيا ہے جہاں محدثين علمِ حديث کو محفوظ کرنے کے ليے سفر اختيار کرتے تھے اور وہاں کے علماء سے حديث روايت کرتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے ان محدثين کی فہرست ميں امام ابو زرعہ اور امام ابو حاتم کا ذکر کيا ہے جو مختلف علاقوں — عراق، حجاز، جزيرہ اور شام — سے علم حاصل کرنے کے ليے سفر کرتے رہے (المحدث الفاصل: ص 230)۔

حافظ مزیؒ نے امام ابو زرعہ کو ان محدثين ميں شمار کيا ہے جو بکثرت علمی سفر کرتے تھے (تہذیب الکمال: 19/89)۔

پہلا علمی سفر (213-214ھ):

ری کے علماء سے، اور جو وہاں وارد ہوتے، ان سے نبوی سيرت و حديث کے پاکيزہ سرچشمے سے علم حاصل کرنے کے بعد، امام ابو زرعہ نے اپنے زمانے کے علماء کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سفر کا عزم کيا، اور ان کا پہلا مقصد کوفہ تھا — وہ شہر جو اُس وقت علماء و محدثين سے بھرا ہوا تھا۔

طلبہ عموماً  گروہوں ميں اور کسی قابلِ اعتماد قافلے کے ساتھ سفر کيا کرتے تھے، کيونکہ راستے خطرناک، دشوار گزار اور ڈاکوؤں اور بدکاروں سے پُر تھے۔ ايک محقق نے اہلِ علم کے اس طرزِ سفر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

(اکثر افراد تنہا سفر نہيں کرتے تھے کيونکہ عام راستے محفوظ نہ تھے۔ عام طور پر لوگ کسی قافلے کے ساتھ ايک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے تھے۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ اکثر علما — اگر نہ کہيں کہ سب — تعليم کے ساتھ ساتھ کام بھی کيا کرتے تھے۔ وہ تاجر بن کر سفر کرتے اور شہروں ميں قيام کے دوران اپنا وقت علم کے حصول ميں لگاتے، خواہ قيام مختصر ہوتا يا طویل)۔

اسی طرح، امام ابو زرعہ نے بھی — جب ان کی عمر صرف تیرہ سال تھی — اہلِ ری کے ايک قافلے کے ساتھ علمِ حديث کے طلب ميں سفر کيا۔

يہ قافلہ کوفہ پہنچنے سے پہلے یقیناً ان کئی علمی مراکز سے گزرا ہوگا جو اپنے علماء اور مجالسِ حديث کي وجہ سے مشہور تھے۔ امام ابو زرعہ نے اپنے اس پہلے سفر ميں کوفہ ميں تقریباً دس ماہ قيام کيا۔

بظاہر اسی قيام کے دوران انہوں نے ابو نعيم الفضل بن دُکين سے سماعِ حديث کيا، کيونکہ ان سے پوچھا گيا کہ آپ نے ابو نعيم سے کس سال حديث لکھی؟ تو انہوں نے فرمايا: "سنہ 214ھ ميں، اور وہ سنہ 218ھ ميں فوت ہوئے" (الجرح والتعدیل: 1/399)۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام ابو زرعہ نے اپنے پہلے علمی سفر کا آغاز 213ھ میں کیا تھا۔ اور اگر ان کے ولادت کے سال کو 200ھ تسلیم کیا جائے تو اس حساب سے ان کی عمر 13 سال ہی بنتی ہے جو کہ حاکم کی روایت کےایک حصے سے موافقت رکھتی ہے، البتہ اس روایت میں ان کا سالِ ولادت 194ھ بتایا گیا ہے۔

 اس بات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام ابو حاتم الرازی کا پہلا علمی سفر بھی اسی سال ہوا اور امام ابو حاتم وامام ابو زرعہ کا ایک ساتھ علمی رحلات میں شریک ہونا معروف بات ہے۔ چنانچہ امام ابن ابی حاتم ایک راوی کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:

"سمع منه أبي في الرحلة الأولى سنة ثلاث عشرة ومائتين"

(ان سے میرے والد (ابو حاتم) نے اپنے پہلے علمی سفر سال 213ھ میں سماع کیا تھا)۔

(الجرح والتعدیل: 968)

دوسرا علمی سفر (227-232ھ):

ان کا دوسرا علمی سفر سب سے طویل سفر شمار کیا جاتا ہے، اور شاید یہی سب سے اہم بھی تھا۔ یہ سفر سن 227 ہجری میں شروع ہوا اور سن 232 ہجری کے آغاز تک جاری رہا۔ اس دوران انہوں نے کئی علمی مراکز، شہر اور دیہات کا دورہ کیا۔ آئیں، خود ان کی زبانی ان کے اس سفر کے بارے میں سنتے ہیں، وہ بیان کرتے ہیں:

"خرجت من الري المرة الثانية سنة سبع وعشرين ومائتين، ورجعت سنة اثنتين وثلاثين في أولها، بدأت فحججت ثم خرجت إلى مصر فأقمت بمصر خمسة عشر شهراً، وكنت عزمت في بدو قدومي مصر أني أقل المقام بها، فلما رأيت كئرة العلم بها وكثرة الاستفادة عزمت على المقام ولم أكن عزمت على سماع كتب الشافعي، فلما عزمت على المقام وجهت إلى أعرف رجل بمصر بكتب الشافعي فقبلتها منه بثمانين درهماً أن يكتبها كلها وأعطيته الكاغد وكنت حملت معي ثوبين ديبقيين لأقطعهما لنفسي فلما عزمت على كتابتها أمرت ببيعها فبيعا بستين درهماً واشتريت مائة ورقة كاغد بعشرة دراهم كتبت فيها كتب الشافعي. ثم خرجت إلى الشام فأقمت بها ما أقمت، ثم خرجت إلى الجزيرة وأقمت ما أقمت، ثم رجعت إلى بغداد سنة ثلاثين في آخرها،  ورجعت إلى الكوفة وأقمت بها ما أقمت، وقدمت البصرة فكتبت بها عن شيبان وعبد الأعلى"

(میں ری (شہر) سے دوسری مرتبہ سن 227 ہجری میں روانہ ہوا، اور 232 ہجری کے شروع میں واپس آیا۔ میں نے پہلے حج کیا، پھر مصر گیا اور وہاں پندرہ ماہ قیام کیا۔ جب میں مصر آیا تھا، میرا ارادہ تھا کہ میں وہاں کم قیام کروں گا، لیکن جب میں نے وہاں علم کی کثرت اور فائدہ اٹھانے کے مواقع دیکھے تو میں نے وہیں قیام کا فیصلہ کر لیا۔

میرا ارادہ نہیں تھا کہ میں امام شافعی کی کتابیں سنوں، لیکن جب میں نے قیام کا فیصلہ کر لیا، تو میں نے مصر میں امام شافعی کی کتابوں کے سب سے زیادہ واقف شخص سے رجوع کیا۔ میں نے اس سے یہ شرط پر ان کتابوں کی نقول لی کہ وہ تمام کتابیں لکھ دے گا، اور میں نے اسے اس کے عوض 80 درہم دیے، اور تحریر کے لیے کاغذ بھی مہیا کیا۔

میرے پاس دو قیمتی دیباج کے کپڑے تھے جو میں نے اپنے لیے بنوانے کے لیے ساتھ لائے تھے۔ لیکن جب میں نے کتابیں لکھوانے کا پختہ ارادہ کر لیا، تو میں نے وہ کپڑے بیچنے کا حکم دیا۔ وہ 60 درہم میں فروخت ہوئے، اور میں نے ان میں سے 10 درہم کے 100 ورق کاغذ خریدے، جن پر امام شافعی کی کتابیں لکھی گئیں۔

پھر میں شام گیا اور وہاں کچھ مدت قیام کیا، پھر جزیرہ (عراق و شام کے درمیانی علاقے) گیا اور وہاں بھی کچھ مدت قیام کیا۔ پھر میں بغداد آیا، یہ سفر سن 230 ہجری کے آخر میں ہوا، پھر میں کوفہ گیا اور وہاں کچھ وقت رہا۔ پھر میں بصرہ آیا اور وہاں شیبان اور عبد الأعلى سے روایتیں لکھیں)۔

(الجرح والتعدیل: 1/340)

تیسرا علمی سفر (227-232ھ):

امام ابو زرعہ اپنے تیسرے علمی سفر کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

"أقمت في خرجتي الثالثة بالشام، والعراق، ومصر أربع سنين وستة أشهر فما أعلم أني طبخت فيها قدراً بيد نفسي"

(میں اپنے تیسرے سفر میں شام، عراق اور مصر میں چار سال اور چھے ماہ مقیم رہا، اور مجھے یاد نہیں کہ اس دوران میں نے کبھی خود اپنے ہاتھ سے کوئی ہانڈی پکائی ہو

(الجرح والتعدیل: 1/340)

ان نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام ابو زرعہ رحمہ اللہ نے تین بڑے علمی سفر کیے، جن میں عراق، شام، مصر اور دیگر اہم علمی مراکز شامل تھے۔ ان سفرات کی نمایاں خصوصیات یہ تھیں کہ وہ طویل المدت تھے، اور مختلف شہروں و علاقوں کا احاطہ کرتے تھے۔ ان طویل سفرات کے علاوہ بھی انہوں نے کئی مختصر علمی سفر کیے ہوں گے، جو چند دن یا ہفتوں پر مشتمل رہے ہوں گے — مثلاً شہر ری اور دیگر مشرقی اسلامی شہروں کے درمیان۔

وہ اس قدر حریص تھے کہ مسلمانوں کے ہر علاقے میں حدیث سننے کے لیے جاتے، حتیٰ کہ وہ مسلمانوں کی سرحدوں پر جا کر ان علماء مجاہدین سے بھی روایت سنتے جو جہاد اور رباط (سرحدی پہرہ) پر ہوتے تھے۔

چنانچہ امام خلیلی نے اپنی سند کے ساتھ برذعی سے روایت نقل کی کہ وہ کہتے ہیں:

"سمعت أبا زرعة الرازي يقول: لم أعرف لنفسي رباطاً خالصاً في ثغرة قصدت قزوين مرابطاً ومن همتي أن أسمع الحديث من الطنافسي ومحمد بن سعيد بن سابق، ودخلت بيروت مرابطاً ومن همتي أن أسمع عن العباس ابن الوليد، ودخلت رها مرابطاً ومن نيتي أن أسمع عن أيى فروة الرهاوي فلا أعرف لنفسي رباطاً خلصت نيتي فيه، ثم بكى "

(میں نے امام ابو زرعہ رازی کو یہ کہتے ہوئے سنا: "میں نے اپنے لیے کبھی کوئی ایسا رباط (سرحد پر پہرہ دینے کا عمل) نہیں پایا جس میں میری نیت بالکل خالص رباط ہی کے لیے ہو۔ میں قزوین گیا مرابط (پہرہ دار) بن کر، لیکن میری نیت یہ تھی کہ وہاں (علی بن محمد بن اسحاق) الطنافسی اور محمد بن سعید بن سابق سے حدیث سنوں۔ میں بیروت گیا مرابط بن کر، لیکن میری نیت یہ تھی کہ عباس بن الولید (بن مزید) سے روایت حاصل کروں۔ میں شہر رُہاء گیا مرابط بن کر، لیکن میری نیت یہ تھی کہ (محمد بن) ابی فروہ الرہاوی سے حدیث سنوں۔ تو میں اپنے لیے کوئی ایسا رباط نہیں جانتا جس میں میری نیت صرف رباط (پہرے داری) کے لیے خالص ہو"۔ پھر وہ رو پڑے)۔

(الارشاد للخلیلی: 2/469)

امام ابن عساکر نے بھی اس قول کو البرذعی سے روایت کیا ہے اور انہوں نے اس پر درج ذیل الفاظ کا مزید اضافہ کیا:

"وأما عسقلان: فأردنا محمد بن أبي السري"

(اور عسقلان میں ہم محمد بن ابی السری کے ارادے سے گئے تھے)۔

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 38/14، وانظر سیر اعلام النبلاء: 13/67)

امام ابو زرعہ کا بعض قریبی علاقوں کی طرف سفر:

1-  گاؤں وہبن:

ابن ابی حاتم کے مطابق، مغیرہ بن یحییٰ رازی کا تعلق "وہبن" نامی گاؤں سے تھا۔ ان کے والد یحییٰ بن مغیرہ سے امام ابو زرعہ اور ان کے والد (ابو حاتم) دونوں نے حدیث حاصل کرنے کے لیے سفر کیا۔ (الجرح والتعدیل: 1045)

2-  افرندین:

ابن ابی حاتم لکھتے ہیں کہ امام ابو زرعہ اور ان کے والد نے وهبن سے فراغت کے بعد اسحاق بن حجاج سے ملاقات کا ارادہ کیا، لیکن محمد بن مقاتل مروزی کے افرندین پہنچنے کی اطلاع ملی، تو وہ دونوں افرندین روانہ ہو گئے۔ (الجرح والتعدیل: 745)۔

3-  قزوین کا سفر:

امام ابو زرعہ نے قزوین کا سفر کیا جہاں انہوں نے کئی مشہور محدثین سے روایت لی اور وہاں کے طلبہ نے ان سے سماع کیا۔ ان سے قزوین میں ابن ماجہ، موسى بن هارون، حسین بن علی الطنافسی اور دیگر محدثین نے روایت کی۔ ابو زرعہ اور ابو حاتم نے قزوین کے بڑے محدثین جیسے علی و حسن الطنافسی اور محمد بن سعید بن سابق سے بھی ملاقات کی۔ غالباً ابو زرعہ نے قزوین کا یہ سفر سن 213 ہجری میں کیا، کیونکہ محمد بن سعید کی وفات 216 ہجری سے پہلے ہوئی تھی، اور ابو حاتم نے بھی قزوین 213 ہجری میں اپنے ماموں محمد بن یزید کے ساتھ داخل ہونے کا ذکر کیا ہے (الارشاد للخلیلی: 2/296)۔

4-  ساوہ کا سفر:

امام ابو زرعہ اور ابو حاتم نے ساوہ کا سفر کیا تاکہ محمد بن امیہ الساوی سے عیسیٰ بن موسیٰ غنجار کی متعدد احادیث سماعت کر سکیں (الارشاد: 3/955)۔

5-  نیشاپور کا سفر:

امام اسحاق بن راہویہ سے کہا گیا: "یہ رازی نوجوان — یعنی امام ابو زرعہ — آپ کے پاس آنے والا ہے۔"
تو (اسحاق بن راہویہ) دو دن تک (مسجد میں) نماز پڑھ کر واپس گھر آ جاتے اور کسی کو ملاقات کی اجازت نہ دیتے۔
لوگوں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:
"
مجھے خبر ملی ہے کہ یہ نوجوان آنے والا ہے، اور میں نے اس کے لیے ڈیڑھ لاکھ احادیث تیار کر رکھی ہیں، جن میں سے پچاس ہزار معلول (عیب دار) احادیث ہیں جو صحیح نہیں ہیں۔" (الارشاد للخلیلی: 3/910)

6-  بغداد کا سفر:

امام ابو زرعہ متعدد بار بغداد آئے، جہاں انہوں نے امام احمد بن حنبل کی مجلسوں میں شرکت کی، ان سے مذاکرہ کیا اور احادیث بیان کیں۔ بغداد اس وقت علم و حدیث کا مرکز تھی، اس لیے ابو زرعہ نے اس کے بڑے محدثین سے استفادہ کیا اور خود بھی ان پر اثر ڈالا۔ امام احمد بن حنبل نے بھی ابو زرعہ سے فائدہ اٹھایا اور بعض احادیث کی تصحیح ابو زرعہ کے ذریعے کی۔

ایک بار امام احمد نے ایک حدیث پر تردد ظاہر کیا تو ابو زرعہ نے اس کی صحت دلائل سے واضح کی، جس پر احمد بن حنبل نے اس پر تین بار لکھا: "صح، صح، صح" اور حدیث کو درست تسلیم کیا۔ (تاریخ بغداد: 10/326)۔

ابو زرعہ جب بغداد آئے تو حفاظ ان کا امتحان لینے کے لیے جمع ہوئے، لیکن وہ ان سب پر غالب آ گئے۔ ایک شخص نے حسد میں آ کر انہیں برا بھلا کہا، تو ابو زرعہ نے مسکرا کر کہا: "اے شخص! علم میں مشغول رہ، یہ (گالی دینا) اس مقام سے بہت دور ہے جہاں ہم کھڑے ہیں۔" (تاریخ دمشق: 38/27)۔

7-  واسط کا سفر:

ابو یعلیٰ الموصلی نے ابو زرعہ کے حوالے سے کہا: "وكتبنا بانتخابه بواسط ستة آلاف" (ہم نے واسط میں ان کے انتخاب سے چھ ہزار احادیث لکھی تھیں) (تاریخ بغداد: 10/332)۔

8-  حدیثہ النورہ میں قیام:

ابو زرعہ مصر سے واپسی پر عراق کے شہر حدیثہ النورہ میں داخل ہوئے اور وہاں کے اہلِ علم سے فائدہ اٹھایا۔ سوید بن سعید کے ترجمہ میں برذعی کو بتاتے ہوئے ابو زرعہ فرماتے ہیں: "لما قدمت من مصر مررت به فأقمت عنده" (جب میں مصر سے واپس آیا تو وہاں سے گزرا اور سوید کے ہاں قیام کیا۔۔۔) (سؤالات البرذعی: 2/407)۔

9-  بصرہ کا سفر:

امام ابو زرعہ نے بصرہ کا بھی کئی مرتبہ سفر کیا، اور اسے بغداد و کوفہ کی طرح ایک اہم علمی مرکز سمجھا۔ وہاں کے محدثین ان کی عزت کرتے تھے اور ان سے روایات لیتے تھے۔ ابو زرعہ نے ابو الولید الطیالسی اور موسى بن اسماعیل التبوذکی جیسے بڑے محدثین سے ہزاروں احادیث روایت کیں اور ان کا انتخاب کیا۔ وہ ہر روایت کو نہیں لکھتے تھے بلکہ حفظ کر لیتے اور صرف صحیح روایات کو قلمبند کرتے۔

انہوں نے اہلِ بدعت سے سخت اجتناب کیا اور ان سے روایت لینے سے انکار کیا، جیسے کہ انہوں نے ایک قرآن کے مخلوق ہونے کے قائل شخص سے ملنے سے انکار کیا (العلو للذہبی: ص 138)۔ بصرہ میں ان کے علمی مناظرے بھی مشہور ہیں، جیسے کہ ان کا پہلا مجلس میں ہی سلیمان الشاذکونی کی دو روایات میں غلطی کی نشاندہی کرنا، اور پھر دلائل سے بات ثابت کرنا (تاریخ بغداد: 10/328)۔ ان کی یادداشت اور علمی مہارت کا یہ بھی ثبوت ہے کہ انہوں نے پرانی احادیث بغیر دیکھے درست انداز میں یاد رکھی تھیں۔ یہ سب ان کے عظیم علمی مقام، گہری بصیرت اور حق پر ثابت قدمی کو ظاہر کرتا ہے۔

10-       حرمین (مکہ ومدینہ) کا سفر:

امام ابو زرعہ الرازی نے متعدد بار حرمین (مکہ اور مدینہ) کا سفر کیا۔ ان کے دوسرے بڑے علمی سفر کے آغاز میں وہ حج کر کے مصر گئے۔ وہ اس سے پہلے بھی 215ھ یا اس سے پہلے مکہ آئے تھے، کیونکہ انہوں نے بعض ایسے محدثین سے مکہ میں روایت لی جن کا انتقال 215ھ میں ہوا۔ مکہ مکرمہ میں انہوں نے بہت سے علماء سے حدیث حاصل کی، جیسے یعقوب بن اسحاق البصری، موسى بن حماد النخعی، محمد بن سلام الایلی، اور عمرو بن ہاشم البیروتی۔

مدینہ منورہ میں وہ تین بار گئے، لیکن مشہور محدث اسماعیل بن ابی اویس سے روایت نہ لے سکے کیونکہ کبھی وہ بیمار، کبھی روپوش، اور کبھی غیر حاضر ہوتے تھے۔

11-       شام کا سفر:

امام ابو زرعہ نے شام کے مختلف شہروں کا متعدد بار سفر کیا، خاص طور پر اپنی دوسری اور تیسری علمی سفر میں۔ دمشق کو انہوں نے خاص اہمیت دی، کیونکہ وہاں صحابہ، تابعین، اور مشہور محدثین کی بڑی تعداد موجود رہی ہے۔ دمشق میں انہوں نے صفوان بن صالح، القعنبی، محمد بن سعید بن سابق اور دیگر مشہور علماء سے سماع کیا۔

دمشق میں موجود محدثین جیسے محمد بن عائذ جیسے سخت مزاج عالم بھی ان کی علمی عظمت کے قائل تھے اور انہیں اپنے خاص نسخے فراہم کیے۔ امام ابو زرعہ نے دمشق، بیروت، حلب، حمص، حران اور دیگر دیہی علاقوں تک جا کر محدثین سے روایت حاصل کی۔

شامی علماء نے ان کی غیر معمولی علمی قابلیت، حفظ، دیانت اور وقار کی تعریف کی۔ ان کے علم، ضبط اور حسنِ سلوک نے اہلِ شام کو بہت متاثر کیا۔

12-       عسقلان کا سفر:

امام ابو زرعہ نے عسقلان کا سفر اس لیے کیا کہ وہ مشہور محدث محمد بن المتوکل العسقلانی سے حدیث سن سکیں۔ انہوں نے وہاں طیب بن زبان سے بھی سنا۔ یہ ان کے علم کے حصول کی جدوجہد کا حصہ تھا کہ وہ دور دراز شہروں تک جا کر مشائخ سے ملاقات کرتے۔

13-       بیروت کا سفر:

بیروت میں بھی وہ مرابط (سرحد پر مقیم) رہے اور وہاں کے مشہور شیخ عباس بن الولید سے حدیث کے لیے گئے۔ ایک بیروتی شیخ نے ان کی علمی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ "دنیا میں اس جیسا حافظ کوئی نہیں" ، لیکن امام ابو زرعہ نے انکساری سے اس بات کو رد کیا، جو ان کے تواضع کو ظاہر کرتا ہے (الجرح والتعدیل: 1/334)۔

14-       مصر کا سفر:

امام ابو زرعہ نے مصر کا سفر دوسری بار 227 ہجری میں حج کے بعد کیا اور وہاں پندرہ مہینے قیام کیا۔ اس دوران انہوں نے مشہور شیوخ سے حدیث سنی، خاص طور پر امام شافعی کی کتب مکمل طور پر ربیع سے سنیں۔ علمی ماحول سے متاثر ہو کر وہاں طویل قیام کیا اور اپنے قیمتی کپڑے بیچ کر کاغذ خریدے تاکہ شافعی کی کتب لکھ سکیں۔

انہوں نے مصر میں امام ابن وہب کی روایات پر خاص توجہ دی اور فرمایا کہ مصر میں ان کی 80 ہزار احادیث دیکھی ہیں۔ مصر کے علماء نے ان سے بے حد محبت کی، اور ان کے علم و مقام کو سراہا۔ یونس بن عبد الأعلى نے کہا: "ابو زرعہ دنیا میں دنیا سے زیادہ مشہور ہیں" (تاریخ دمشق: 38/28)، اور ربیع بن سلیمان نے کہا: "ابو زرعہ اور ابو حاتم جیسے علماء ہم نے کبھی نہیں دیکھے" (الارشاد للخلیلی: 2/683)۔

شیوخ واساتذہ:

امام ابو زرعہ نے اپنے دور کے بڑے بڑے محدثین اور جلیل القدر علماء کی کثیر تعداد سے علم حاصل کیا ہے۔ "أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية" کے مصنف نے ان کے 580 شیوخ کے نام ذکر کیے ہیں۔ ان میں سے بعض نمایاں نام درج ذیل ہیں:

1- أحمد بن إبراهيم بن كثير بن زيد الذورقي النكري البغدادي ت (246) هـ

2- أحمد بن أبي بكر واسمه القاسم بن الحارث بن زرارة أبو مصعب الزهري المدني ت (242) هـ

3- أحمد بن الحسن بن جنيدب، أبو الحسن الترمذي الحافظ ت قبل (250) هـ

4- أحمد بن سعيد بن صخر الدارمي، أبو جعفر السرخسي ت (253) هـ

5- أحمد بن صالح المصري، أبو جعفر الحافظ المعروف بابن الطبري ت (248) هـ

6- أحمد بن الصباح النهشلي، أبو جعفر بن أبي سريج الرازي ت بعد (240) هـ

7- أحمد بن عبد الله بن يونس بن عبد الله بن قيس التميمي اليربوعي الكوفي ت (227) هـ

8- أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني المروزي نزيل بغداد أبو عبد الله ت (241) هـ

9- أحمد بن منيع بن عبد الرحمن البغوي، أبو جعفر الأصم الحافظ نزيل بغداد ت (244) هـ

10-      إبراهيم بن عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمان بن خواستي، العبسي، أبو شيبة بن أبي شيبة الكوفي ت (265) هـ

11-      إبراهيم بن موسى بن يزيد بن زاذان التميمي، أبو إسحاق الرازي الفراء المعروف بالصغير ت (220) هـ

12-      إسحاق بن إبراهيم بن مخلد بن إبراهيم بن مطر الحنظلى ، أبو محمد و أبو يعقوب ، المعروف بابن راهويه المروزى (238) ه

13-      إسحاق بن منصور بن بهرام الكوسج، أبو يعقوب التميمي المروزي ت (251) هـ

14-      إسماعيل بن إبراهيم بن معمر بن الحسن الهذلي، أبو معمر القطيعي الهروي نزيل بغداد ت (236) هـ

15-      حبان بن موسى بن سوار، السلمي، أبو محمد ا لمروزي، الكشميهني، ت (233) هـ

16-      الحسين بن حريث بن الحسن بن ثابت بن قطبة، الخزاعي، أبو عمار المروزي ت (244) هـ

17-      الربيع بن سليمان بن عبد النجار بن كامل المرادي مولاهم أبو محمد المصري صاحب الشافعي ت (270) هـ

18-      زهير بن حرب بن شداد، أبو خيثمة النسائي، نزيل بغداد ت (234) هـ

19-      زياد بن أيوب بن زياد البغدادي، أبو هاشم الطوسي، دلويه ت (252) هـ

20-      سريج بن يونس بن إبراهيم البغدادي، أبو الحارث العابد مروزي الأصل ت (235) هـ

21-      سعيد بن سليمان الضبي، أبو عثمان الواسطي البزار المعروف بسعدويه ت (225) هـ

22-      سعيد بن محمد بن سعيد، الجرمي، أبو محمد، وقيل أبو عبيد الله الكوفي

23-      سعيد بن منصور بن شعبة، الخراساني، أبو عثمان، المروزي، الطالقاني ت (229) هـ

24-      سعيد بن يحيى بن سعيد بن أبان بن سعيد ابن العاصي، الأموي، أبو عثمان البغدادي ت (249) هـ

25-      سليمان بن حرب، الأزدي، الواشحي، البصري، القاضي بمكة ت (224) هـ

26-      سليمان بن داود العتكي، أبو الربيع، الزهراني، البصري

27-      عباس بن الوليد بن مزيد، العذري، أبو الفضل، البيروتي ت (270) هـ

28-      عباس بن الوليد بن نصر، النرسي، أبو الفضل، البصري ت (238) هـ

29-      عبد الله بن الزبير بن عيسى بن عبيد الله الحميدي، المكي، القرشي ت (219) هـ

30-      عبد الله بن سعيد بن حصين، الكندي، أبو سعيد الأشج، الكوفي ت (257) هـ

31-      عبد الله بن صالح بن مسلم بن صالح، أبو صالح، العجلي، الكوفي، المقرئ ت (211) هـ

32-      عبد الله بن الصباح بن عبد الله، الهاشمي، العطار، البصري، المربدي ت (250) هـ

33-      عبد الله بن عبد الرحمن بن الفضل بن بهرام بن عبد الصمد، التميمي، الدارمي أبو محمد ت (255) هـ

34-      عبد الله بن عمرو بن أبي الحجاج، ميسرة التميمي، أبو معمر المقعد، المنقري البصري ت (224) هـ

35-      عبد الله بن عون بن أيى عون عبد الملك بن يزيد الهلالي، أبو محمد البغدادي، الخراز ت (232) هـ

36-      عبد الله بن محمد بن أبي شيبة إبراهيم بن خواستي العبسي مولاهم، أبو بكر الحافظ الكوفي ت (235) هـ

37-      عبد الله بن محمد بن أسماء بن عبد بن مخارق، الضبعي، أبو عبد الرحمن البصري ت (231) هـ

38-      عبد الله بن محمد بن عبد الله بن جعفر، الجعفي، أبو جعفر البخاري، الحافظ المسندي ت (229) هـ

39-      عبد الله بن محمد بن علي بن نفيل بن زراع، وقيل أبو عبد الله ابن قيس القضاعي، أبو جعفر النفيلي الحراني ت (234) هـ

40-      عبد الله بن مسلمة بن قعنب، القعنبي، الحارثي، أبو عبد الرحمن المدني ت (221) هـ

41-      عبد الأعلى بن حماد بن نصر، الباهلي مولاهم، البصري، أبو يحيى المعروف بالنرسي ت (237) هـ

42-      عبد الرحمن بن إبراهيم بن عمرو القرشي الأموي مولى آل عثمان، أبو سعيد، الدمشقي القاضي المعروف بدحيم الحافظ ابن اليتيم ت (245) هـ

43-      عبيد الله بن سعيد بن يحيى بن برد، اليشكري مولاهم أبو قدامة السرخسي الحافظ ت (241) هـ

44-      عبيد الله بن عمر بن ميسرة الجشمي مولاهم القواريري، أبو سعيد البصري ت (235) هـ

45-      عبيد الله بن معاذ بن نصر الخشخاشي العنبري أبو عمرو البصري الحافظ ت (238) هـ

46-      عثمان بن محمد بن إبراهيم بن عثمان بن خوستي العبسي مولاهم، أبو الحسن بن أبي شيبة

47-      عفان بن مسلم بن عبد الله الصفار، أبو عثمان البصري مولى عزرة بن ثابت الأنصاري ت (219) هـ

48-      علي بن الجعد بن عبيد، الجوهري، أبو الحسن البغدادي مولى بني هاشم ت (230) هـ

49-      علي بن عبد الله بن جعفر بن نجيح، السعدي مولاهم، أبو الحسن المديني ت (234) هـ

50-      علي بن محمد بن إسحاق بن أبي شداد، أبو الحسن الطنافسي، الكوفي، مولى آل الخطاب ت (233) هـ

51-      علي بن نصر بن علي بن نصر بن علي، الجهضمي، أبو الحسن، البصري الصغير ت (250) هـ

52-      عمرو بن رافع بن الفرات بن رافع البجلي، أبو حجر، القزويني، الحافظ ت (237) هـ

53-      عمرو بن علي بن بحر بن كنيز، الباهلي، أبو حفص البصري، الصيرفي الفلاس، ت (249) هـ

54-      عمرو بن عون بن أوس بن الجعد، أبو عثمان، الواسطي، البزار الحافظ، البصري، ت (225) هـ

55-      عمرو بن محمد بن بكير بن سابور، أبو عثمان البغدادي الحافظ نزيل الرقة ت (232) هـ

56-      عيسى بن ميناء، المديني، المعروف بقالون، المقرئ

57-      الفضل بن دكين، الكوفي، واسم دكين، عمرو بن حماد بن زهير، التبعي مولاهم الأحول، أبونعيم الملائي، ت (219) هـ

58-      فضيل بن حسين بن طلحة، البصري، أبو كامل ا لجحدري، ت (237) هـ

59-      فطر بن حماد بن واقد، البصري، روى عن مالك ابن أنس وحماد بن زيد

60-      قبيصة بن عقبة بن محمد بن سفيان السوائي، أبوعامر، الكوفي، ت (213) هـ

61-      قتيبة بن سعيد بن جميل بن طريف الثقفي مولاهم، أبو رجاء البغلاني، ت (240) هـ

62-      محمد بن إدريس بن المنذر بن داود الحنظلي، أبو حاتم الرازي، ت (277) هـ، وهو من أقرانه

63-      محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة، الجعفي مولاهم، أبو عبد الله، البخاري، ت (256) هـ وهو من أقرانه

64-      محمد بن بشار بن عثمان بن داود بن كيسان، العبدي، أبو بكر الحافظ البصري، ت (252) هـ

65-      محمد بن أبي بكر بن علي بن عطاء بن مقدم المقدمي، أبو عبد الله الثقفي، مولاهم البصري، ث (238) هـ

66-      محمد بن جعفر السمناني، القومسي، أبو جعفر ابن أبي الحسين الحافظ، ت قبل (220) هـ

67-      محمد بن رافع بن أبي زيد سابور القشيري، مولاهم أبو عبد الله النيسابوري، ت (245) هـ

68-      محمد بن سعيد بن سليمان بن عبد الله الكوفي، أبو جعفر ابن الأصبهاني لقبه حمدان، ت (220) هـ

69-      محمد بن عبد الله بن نمير الهمداني الخارفي، أبو عبد الرحمن الكوفي الحافظ، ت (234) هـ

70-      محمد بن العلاء بن كريب الهمداني، أبو كريب الكوفي الحافظ ت (248) هـ

71-      محمد بن الفضل السدوسي أبو النعمان البصري المعروف بعارم ت (223) هـ أو (224) هـ

72-      محمد بن كثير العبدي، أبو عبد الله البصري ت (223) هـ

73-      محمد بن المثنى بن عبيد بن قيس العنزي، أبو موسى البصري الحافظ الزمن ت (252) هـ

74-      محمد بن مسلم بن عثمان بن عبد الله الرازي أبو عبد الله بن وارة، ت (270) هـ

75-      محمد بن يحيى بن عبد الله بن خالد، الذهلي الحافظ، أبو عبد الله النيسابوري ت (258) هـ

76-      محمد بن يحيى بن أبي عمر العدني، أبو عبد الله الحافظ نزيل مكة ت (243) هـ

77-      مالك بن إسماعيل بن درهم، أبو غسان النهدي مولاهم الكوفي الحافظ ت (219) هـ

78-      محمود بن غيلان العدوي، مولاهم، أبو أحمد، المروزي الحافظ ت (239) هـ

79-      مسدد بن مسرهد بن مسربل البصري، الأسدي، أبو الحسن الحافظ ت (228) هـ

80-      مسلم بن إبراهيم الأزدي الفراهيدي، مولاهم أبو عمرو البصري الحافظ ت (222) هـ

81-      مصعب بن عبد الله بن مصعب بن ثابت بن عبد الله بن الزبير بن العوام، الأسدي، أبو عبد الله الزبيري، المدني، نزيل بغداد ت (236) هـ

82-      موسى بن إسماعيل، المنقري مولاهم أبو سلمة التبوذكي البصري ت (223) هـ

83-      نصر بن علي بن نصر بن علي بن صهبان، الأزدي، الجهضمي، أبو عمرو البصري ت (250) هـ

84-      هارون بن إسحاق بن محمد الهمداني، أبو القاسم الكوفي الحافظ ت (258) هـ

85-      هارون بن عبد الله بن مروان البغدادي، أبو موسى البزاز الحافظ الجمال ت (243) هـ

86-      هارون بن معروف المروزي، أبو علي الخزاز الضرير نزيل بغداد ت (231) هـ

87-      هدبة بن خالد بن الأسود القيسي، أبو خالد البصري ويقال له هداب، الثوباني ت سنة بضع وثلاثين ومائتين

88-      هشام بن عبد الملك الباهلي مولاهم، أبو الوليد الطيالسي البصري الحافظ الإمام ت (227) هـ

89-      هناد بن السري بن مصعب بن أبي بكر التميمي، الدارمي، الكوفي ت (243) هـ

90-      يحيى بن أيوب المقابري، أبو زكرياء البغدادي ت (234) هـ

91-      يحيى بن عبد الله بن بكير، القرشي، المخزومي مولاهم، أبو زكرياء المصري الحافظ، ت (231) هـ

92-      يحيى بن معين بن عون بن زياد الغطفاني مولاهم أبو زكريا، البغدادي ت (233) هـ

93-      يعقوب بن إبراهيم بن كثير بن زيد، أبو يوسف الدورقي، الحافظ، البغدادي، ت (252) هـ

94-      يونس بن عبد الأعلى بن موسى، الصدفي، أبو موسى المصري، كان إماماً في القراءات، ت (264) هـ

مذکورہ بالا تمام نام امام ابو زرعہ کے بعض ان شیوخ کے ہیں جو ثقہ حفاظ اور ائمہِ وقت ہیں۔

کیا امام ابو زرعہ کے تمام شیوخ ثقہ ہیں؟

ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ابو زرعہ صرف ثقہ (قابلِ اعتماد) راویوں سے روایت کرتے تھے، جیسا کہ انہوں نے داود بن حماد البلخی کے بارے میں کہا (لسان المیزان: 3/396)۔ لیکن تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قاعدہ مطلق نہیں بلکہ اس میں استثناء بھی موجود ہے۔ ابو زرعہ نے بعض ایسے راویوں سے بھی روایت کی جن پر خود انہوں نے یا دوسروں نے جرح کی ہے۔ ممکن ہے وہ احادیث بطورِ شاہد، عبرت یا فائدے کے لیے نقل کی گئی ہوں۔

مثلاً:

1.    سعید بن سلیمان النشیطی: ابو زرعہ نے اس پر کمزوری ظاہر کی، لیکن پھر بھی اس سے روایت کی۔

2.    یعقوب بن حمید بن کاسب: اس پر بھی تحفظات تھے، مگر ابو زرعہ نے اس سے بھی روایت کی۔

3.    احمد بن عیسیٰ التستری: اس پر سخت اعتراضات کیے، مگر روایت کا تسلسل جاری رہا۔

4.    احمد بن عمران: اگرچہ محدثین نے اسے چھوڑ دیا، ابو زرعہ نے اس سے بھی حدیث لی۔

یہ طرزِ عمل صرف ابو زرعہ ہی کا نہیں بلکہ دوسرے بڑے محدثین جیسے امام احمد، ابن مبارک، ابن مہدی، اور سفیان ثوری وغیرہ کا بھی تھا، کہ وہ ضعفاء سے بھی بعض حالات میں روایت کرتے تھے، خاص طور پر زہد، فضائل اعمال یا غیر فقہی امور میں، یا صرف معرفت و شناخت کی خاطر۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابو زرعہ کا منہج بھی انہی جلیل القدر ائمہ کی روش پر تھا۔

حافظ ابن رجب نے امام احمد کے ضعیف راویوں سے روایت کرنے کے بارے میں فرمایا:

"والذي يتبين من عمل الإمام أحمد وكلامه أنه يترك الرواية عن المتهمين والذين كثر خطؤهم للغفلة وسوء الحفظ، ويحدث عمن دونهم في الضعف مثل من في حفظه شيء، ويختلف الناس في تضعيفه وتوثيقه. وكذلك كان أبوزرعة يفعل"

(امام احمد کے عمل اور کلام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان راویوں سے روایت نہیں کرتے تھے جن پر جھوٹ کا الزام ہو یا جن سے کثرتِ خطا کی شکایت ہو، جیسے غفلت یا حافظے کی کمزوری کے باعث۔ البتہ وہ ان راویوں سے روایت کر لیتے تھے جو ان سے کمتر درجے کے ضعیف ہوں — یعنی جن کے حافظے میں کچھ کمزوری ہو، اور جن کے بارے میں محدثین کا توثیق یا تضعیف میں اختلاف ہو۔ اور یہی طرزِ عمل ابو زرعہ کا بھی تھا)۔

(شرح علل الترمذی: 1/386)

اسی طرح ذیل میں یہ چند اقوال ہیں محدثینِ حفاظ کے، جو ہمیں اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ وہ بعض مجروح (یعنی جن پر کلام کیا گیا ہو) راویوں سے روایت کیوں کرتے تھے اور ان کے اس طرزِ عمل کے پیچھے کیا وجوہات تھیں۔

·      حاکم نے اپنی سند کے ساتھ امام احمد بن حنبل سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا: "جب ہم رسول اللہ ﷺ سے حلال و حرام، سنن اور احکام کے بارے میں حدیث روایت کرتے ہیں، تو ہم سختی سے اسناد کی جانچ کرتے ہیں، لیکن جب ہم فضائلِ اعمال اور ایسی باتوں کے بارے میں روایت کرتے ہیں جو کسی حکم کو ثابت یا منسوخ نہ کرتی ہوں، تو ہم اسانید (روایات کی سند) میں نرمی برتتے ہیں۔" (المدخل في أصول الحديث للحاكم النيسابوري ص 4)۔

·      عقیلی نے اپنی سند سے ثوری سے روایت کیا: "میں حدیث تین طریقوں سے روایت کرتا ہوں: (1) کسی سے حدیث سن کر اسے دین کا حصہ بنا لیتا ہوں، (2) کسی سے حدیث سن کر اس پر توقف کرتا ہوں (یعنی نہ رد کرتا ہوں نہ قبول)، (3) کسی سے حدیث سن کر اسے ناقابلِ اعتبار سمجھتا ہوں لیکن اس کی روایت جاننے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔" (الضعفاء للعقيلي: ١/١٥)

·      سلیمان بن احمد دمشقی نے کہا: "میں نے عبدالرحمن بن مہدی سے پوچھا: کیا آپ ایسے شخص سے حدیث لکھتے ہیں جو دس احادیث میں غلطی کرے؟ کہا: ہاں۔ پوچھا: بیس میں؟ کہا: ہاں۔ پوچھا: تیس میں؟ کہا: ہاں۔ پوچھا: پچاس میں؟ کہا: ہاں۔ پھر پوچھا: سو میں؟ کہا: نہیں، سو بہت زیادہ ہیں۔ ابو محمد (یعنی ابن ابی حاتم) نے کہا: اس سے مراد سو احادیث ہیں۔" (الجرح والتعدیل: 2/28، 33)۔

·      ابن ابی حاتم نے کہا: "میرے والد (ابو حاتم) نے عبدہ سے روایت کی، عبدہ نے کہا: ابن مبارک سے کسی نے کہا کہ آپ نے فلاں شخص سے حدیث روایت کی ہے، حالانکہ وہ ضعیف ہے؟ تو ابن مبارک نے جواب دیا: ہو سکتا ہے اتنی مقدار یا ایسی نوعیت کی بات اس سے روایت کی جا سکتی ہو۔ میں نے عبدہ سے پوچھا: کس طرح کی بات؟ انہوں نے کہا: ادب، نصیحت یا زہد پر مبنی۔" (الجرح والتعدیل: 2/30)۔

تلامذہ اور ان سے روایت کرنے والے رواۃ:

امام ابو زرعہ کے بعض مشہور اور حفاظ تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں:

1- أحمد بن شعيب بن علي بن سنان بن بحر بن دينار، أبو عبد الرحمن، النسائي الحافظ صاحب السنن (215 - 303 هـ)

2- أحمد بن علي بن المثنى بن يحيى بن عيسى بن خلال التميمي، أبو يعلى الموصلي صاحب المسند الكبير (215 – 307 ه)

3- إبراهيم بن إسحاق، أبو إسحاق البغدادي الحافظ الإمام (198 - 285 هـ)

4- إبراهيم بن محمد بن عبيد بن جهينة أبو إسحاق، الحافظ، الجوال، الشهرزوري

5- إسحاق بن موسى بن عبد الله بن موسى بن عبد الله بن يزيد الأنصاري الخطمي، أبو موسى، المدني الفقيه، الحافظ الثبت قاضي نيسابور وكان من أئمة الحديث صاحب سنة ت (244) هـ وهو من شيوخه

6- حرملة بن يحيى بن عبدالله بن حرملة بن عمران التجيبي، أبو حفص، المصري الحافظ، العلامة الفقيه صاحب الشافعي، وهو من شيوخه (166 - 244 هـ)

7- الربيع بن سليمان بن عبد الجبار بن كامل المرادي مولاهم أبو محمد المصري المؤذن صاحب الشافعي وراوية كتبه عنه، الحافظ الامام محدث الديار المصرية وهو من شيوخه (174 - 270 هـ)

8- سعيد بن عمرو الأزدي، أبو عثمان البرذعي، الحافظ، الناقدة ت (292) هـ

9- صالح بن محمد بن عمرو بن حبيب، أبو علي، الأسدي مولاهم البغدادي نزيل بخارى، الحافظ العلامة الثبت شيخ ما وراء النهر المعروف بصالح جزرة (205 - 293 هـ)

10-      العباس بن الفضل بن شاذان المقرئ له معرفة عظيمة بالقراءات والتفسير وتصانيف كثيرة

11-      عبد الله بن أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني، أبو عبد الرحمن البغدادي الإمام الحافظ الحجة (213 - 290 هـ)

12-      عبد الله بن سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير الأزدي، السجستاني أبو بكر الحافظ العلامة قدوة المحدثين (230 – 316 ه)

13-      عبد الله بن زياد بن واصل، أبو بكر النيسابوري الحافظ، المجرد الفقيه، الشافعي صاحب التصانيف (238 - 324 هـ)

14-      عبد الرحمن بن أبي حاتم محمد بن إدريس الرازي الإمام الحافظ الناقد شيخ الإسلام أبو محمد (240 - 327 هـ)

15-      عبد الرحمن بن عمرو بن عبد الله بن صفوان بن عمرو، النصري، أبو زرعة الدمشقي، الحافظ، الثقة محدث الشام ت (281) هـ وهو من أقرانه

16-      عبد الملك بن محمد بن عدي، أبو نعيم، الجرجاني، الاستراباذي الحافظ، الحجة، الفقيه (242 - 323 هـ)

17-      علي بن الحسين بن الجنيد، أبو الحسن الرازي، الحافظ، الثبت، المالكي لكونه جمع حديث مالك، كان بصيرا بالرجال والعلل ت (291) هـ

18-      عمرو بن علي بن بحر بن كنيز أبوحفص الحافظ الإمام الثبت الباهلي البصري، الصيرفي الفلاس ت (249) هـ وهو من شيوخه

19-      محمد بن إدريس بن المنذر بن داود بن مهران، الحنظلي، أبوحاتم الرازي الحافظ الكبير أحد الأئمة. (195 - (277) هـ) وهو من أقرانه

20-      محمد بن جرير بن يزيد بن كثير، أبو جعفر الطبري الإمام العام الفرد الحافظ أحد الأعلام وصاحب التصانيف في التفسير والسنن، والتاريخ والأصول والفروع وتفرد بمسائل حفظت عنه (224 - 310 هـ)

21-      محمد بن الحسين بن الحسن، أبو بكر القطان النيسابوري مسند نيسابور

22-      محمد بن حمدون بن خالد بن يزيد، أبو بكر النيسابوري الحافظ الكبير، وأحد الأثبات. قال الحاكم: "كان من الثقات الاثبات الجوالين في الأقطار" ت (320) هـ

23-      محمد بن عبد الله بن عبد الرحمن ويعرف بابن بلبل، الزعفراني، الهمداني ت (320) هـ قال صالح الحافظ "سمعته يقول: عندي عن أبي زرعة الرازي نحو خمسين ألف حديث" (الإرشاد للخليلي)

24-      محمد بن عوف بن سفيان، أبوجعفر، الطائي، الحمصي الحافظ الإمام محدث الشام. قال ابن عدي: "هو عالم بحديث الشام الصحيح منه والضعيف وعليه كان اعتماد ابن جوصاء ومنه يسأل حديث أهل حمص خاصة ت (272) هـ وهومن شيوخه"

25-      محمد بن عيسى بن سورة، أبو عيسى، السلمي الترمذي الإمام الحافظ الضرير مصنف الجامع وكتاب العلل ت (297) هـ

26-      محمد بن هارون الحجاج المقرئ، أبو بكر القزويني من الفضلاء الكبار ت (321) هـ

27-      مسلم بن الحجاج، أبو الحسين، القشيري، النيسابوري الإمام الحافظ حجة الإسلام صاحب التصانيف (204 - (261) هـ)

28-      محمد بن يزيد الربعي مولاهم أبو عبد الله بن ماجة القزويني الحافظ قال الخليلي "ثقة كبير متفق عليه محتج به" ت (273) هـ

29-      موسى بن العباس، أبو عمران الجويني، الحافظ صاحب المسند الصحيح على هيئة مسلم. قال الذهبي: "كان من نبلاء المحدثين"، ت (323) هـ

30-      يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم بن يزيد، أبو عوانة الاسفراييني، النيسابوري الأصل صاحب الصحيح المسند المخرج على صحيح مسلم وله فيه زيادات عدة. طوف الدنيا وعنى بهذا الشأن ت (316) هـ

31-      يونس بن عبد الأعلى، أبوموسى الصدفي، المصري الحافظ المقرئ، الفقيه (170 - (264) هـ) وهو من شيوخه

32-      أبو محمد بن إسحاق بن محمد بن إسحاق بن يزيد بن كيسان. قال الخليلي: "ثقة متفق عليه ارتحل إلى الري وأصبهان والعراق والحجاز ت (319) هـ

ابو زرعہؒ کی علم القراءات میں مہارت:

امام ابو زرعہؒ کو علم القراءات (قرآن کی قراءتوں کے علم) میں غیر معمولی مہارت حاصل تھی، اور انہوں نے اس فن کے بڑے ماہرین سے براہِ راست استفادہ کیا۔ وہ صحیح اور شاذ قراءات میں فرق کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے تھے، اور قراءات سے متعلق احادیث کو نہایت بصیرت سے جانچتے تھے۔

ابن ابی حاتم اور دیگر محدثین نے ان کے قراءات سے متعلق کئی تبصرے اور روایتیں اپنی کتب میں ذکر کی ہیں، جن سے ابو زرعہ کی اس علم میں گہری واقفیت ظاہر ہوتی ہے۔ وہ مختلف علاقوں کے مشہور قرّاء جیسے کہ ابو عمر الدوری، خلف بن ہشام، قالون، روح بن عبد المؤمن، اور دیگر سے روایت کرتے تھے۔

ان کے وسیع حفظ و ضبط کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے کہ ایک بار انہوں نے خود کہا: "میں قراءات اور تفسیر میں چودہ ہزار اسناد اور چھ لاکھ صحیح احادیث یاد رکھتا ہوں" (شرح علل الترمذی لابن رجب: 1/494)۔

وہ نہ صرف قراءات پر احادیث کی جانچ کرتے بلکہ مختلف روایات کو موازنہ کر کے صحیح قراءت کو ترجیح بھی دیا کرتے تھے، جیسے کہ ابن عباس، معاویہ اور عمرو بن العاص کی مختلف قراءات کے بارے میں فیصلہ دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا: "معتمر کی روایت زیادہ صحیح ہے" (علل الحدیث: 2/439)۔

خلاصہ یہ کہ ابو زرعہؒ علم القراءات میں حفاظِ حدیث کے اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے قراءت کی روایت میں بھی سند اور صحت کو اہمیت دی، اور اس باب میں ان کا علمی مقام بہت بلند تھا۔

ابو زرعہ کی موطاء امام مالک سے واقفیت اور مہارت:

امام ابو زرعہؒ کو موطأ امام مالک پر گہری بصیرت اور کامل عبور حاصل تھا۔ انہوں نے اس کتاب کو خوب یاد کیا، اس کی اسانید، منقطع روایات، اور زائد احادیث کا بھرپور ادراک حاصل کیا، اور اس کی صحت و ضعف پر نقد بھی کیا۔

ابو زرعہؒ کا شمار ان محدثین میں ہوتا ہے جنہوں نے موطأ سے حدیث حفظ کرنا شروع کیا۔ وہ نہ صرف اس کے رواة کے طبقات سے واقف تھے بلکہ ان کے رواة کے چھوٹے چھوٹے اختلافات اور اوہام کی بھی نشان دہی کرتے تھے، مثلاً امام مالک کی بعض اسانید میں غلطیوں کو واضح کیا۔

ان کے زمانے کے مالکی علما بھی ان کی موطأ سے متعلق علم پر حیران ہوتے تھے۔ ان کے اساتذہ میں موطأ کے مشہور رواة جیسے ابوطاہر المصري، ابو مصعب الزهری، اور ابن بكير جیسے اہل علم شامل تھے۔

انہوں نے موطأ کے بعض رواة کے اوہام اور روایات کے صحیح صیغے پر تحقیق کرتے ہوئے متعدد مواقع پر صحیح نسخہ کی نشان دہی کی، جو ان کی گہری فہم اور ضبط کی دلیل ہے۔

اسی لیے مشہور مالکی فقیہ اور خود موطا امام مالک کے ماہر، امام علی بن الحسین بن الجنید المالکی فرماتے ہیں:

"ما رأيت أحدا أحفظ لحديث  مالك بن أنس لمسنده ومنقطعه من أبي زرعة. قلت: ما في الموطأ والزيادات التي ليست في الموطأ؟ قال: نعم."

(میں نے کسی کو امام مالک بن انس کی حدیث — خواہ وہ مسند ہو یا منقطع — کا ابو زرعہ سے زیادہ حافظ نہیں دیکھا۔ میں (ابن ابی حاتم) نے پوچھا: کیا وہ موطأ کی روایات کے علاوہ وہ اضافی روایات بھی (یاد رکھتے تھے) جو موطأ میں نہیں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں

(الجرح والتعدیل: 1/331)

خلاصہ:
ابو زرعہؒ کو موطأ امام مالک سے غیر معمولی شغف اور مہارت حاصل تھی، وہ اس کے رواة، متون اور اسانید پر اتنی بصیرت رکھتے تھے کہ راویوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی بھی نشاندہی کر لیتے تھے، اور اس کی احادیث کو مکمل حفظ کے ساتھ نقد و تحقیق کی کسوٹی پر پرکھتے تھے۔

امام ابو زرعہ کی کتب وتصنیفات:

امام ابو زرعہ جیسا امام، جن کے اساتذہ کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی، جنہوں نے روئے زمین کے مختلف علاقوں کا سفر کیا، اور جن کی دور دراز کی علمی رحلتیں اور اکابر ائمہ کی صحبت میں رہنا مشہور ہے — لازم ہے کہ ان کی بڑی علمی تصنیفات موجود ہوں ان علوم میں جن کا انہوں نے طلب کیا، اگرچہ ان میں سے اکثر ہم تک نہ پہنچ سکیں۔ بہت سی نصوص اس بات کی گواہی دیتی ہیں اور اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کی تصانیف نہایت مضبوط، متنوع اور عظیم حجم کی حامل تھیں۔ چنانچہ حافظ خلیلی، جو کہ 'الارشاد' کے مصنف ہیں، ان کی توصیف کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"فضائله أكثر من أن تعد، وفي تصانيفه لايوازيه أحد"

(ان کی فضیلتیں شمار سے باہر ہیں، اور ان کی تصانیف میں ان کا کوئی ہمسر نہیں)۔

(الارشاد: 2/679)

ان کی معروف کتابوں میں درج ذیل شامل ہیں:

1.    فوائد الرازیین اس میں ری کے محدّثین سے روایت کردہ حدیثی فوائد درج ہیں۔

2.    کتاب الفوائد اس میں مختلف حدیثی فوائد اور تنقیدی نکات جمع کیے گئے ہیں۔

3.    کتاب الفضائل مختلف فضائل پر مشتمل ایک مستقل کتاب۔

4.    کتاب أعلام النبوة / دلائل النبوة نبی کریم ﷺ کے معجزات اور نبوت کی علامات پر مفصل کتاب، جسے ابن کثیر، سخاوی، اور ابن ابی حاتم نے بھی نقل کیا۔

5.   کتاب السير،

6.   کتاب المختصر،

7.   کتاب الزهد،

8.   کتاب  الأطعمة،

9.   كتاب الفرائض،

10.        كتاب الصوم،

11.        كتاب الآداب،

12.        كتاب الوضوء،

13.        كتاب الشفعة،

14.كتاب الأفراد

-      یہ موضوعاتی کتب فقہی اور اخلاقی ابواب پر مشتمل ہیں۔

15.کتاب العلل جس میں احادیث کے علت والے پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔

16.کتاب الجرح والتعديل یہ دراصل امام بخاری کی التاریخ الکبیر پر علمی اضافہ اور نقد ہے، جس میں امام ابو زرعہ اور ان کے شاگردوں نے محدثین پر جرح و تعدیل کے اصول کے تحت تبصرے کیے۔

17.کتاب بیان خطأ البخاري في تاريخه امام ابو زرعہ نے بخاریؒ کی التاریخ الکبیر میں پائے جانے والے بعض اغلاط کی نشان دہی کے لیے مستقل کتاب لکھی۔ اس کے بعد امام ابو حاتم اور ان کے بیٹے ابن ابی حاتم نے بھی اس پر کام کیا اور اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔ بعد کے محدثین جیسے الخطیب البغدادی اور المعلمی اليمانی نے ان نقوش کو علمی تناظر میں پرکھا۔

18.تفسیر- امام ابو زرعہ کو مفسرین میں شمار کیا گیا ہے جیسا کہ حافظ الداودی نے "طبقات المفسرین" میں ذکر کیا۔ انہوں نے تفسیر بالمأثور کے اصول پر کام کیا، یعنی رسول اللہ ﷺ، صحابہ، تابعین اور تبع تابعین سے صحیح روایات لے کر قرآن کی تفسیر کی۔ وہ ضعیف روایات کو پہچانتے اور ان سے اجتناب کرتے۔ ان کی بہت سی تفسیری روایات کو ابن ابی حاتم نے اپنی "تفسیر" میں جمع کیا۔ ابو زرعہ نے تفاسیر کو مختلف معروف مفسرین کی سند سے روایت کیا، جن میں سدی، سعید بن جبیر، عطاء بن ابی رباح، ابن عباس، قتادہ، مجاہد، الضحاک، مقاتل بن حیان، محمد بن سیرین، مکحول، عکرمہ اور دیگر شامل ہیں۔

19.البرذعی کے سوالات کے جوابات (الضعفاء کے بارے میں) – ابو زرعہ نے ضعیف راویوں سے متعلق البرذعی کے سوالات کے جوابات بھی لکھے۔

20. کتاب أسماء الضعفاء – انہوں نے ضعیف راویوں کے اسماء پر مستقل کتاب تصنیف کی۔

21.البرذعی کے سوالات کے جوابات (الثقات کے بارے میں) – اسی طرح ثقہ راویوں پر بھی البرذعی کے سوالات کے جوابات دیے، جیسا کہ البرذعی نے خود ذکر کیا ہے۔

22. کتاب الصحابة – صحابہ کرام پر ابو زرعہ نے ایک مستقل کتاب لکھی جس میں ان کی تعداد، فضیلت، مرتبہ، اور صحابی و تابعی میں فرق کو بیان کیا۔ وہ صحابہ پر جرح کرنے والوں کو زندیق قرار دیتے تھے۔ ان کا قول ہے: "إذا رأيت الرجل ينتقص أحدا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعلم أنه زنديق , وذلك أن الرسول صلى الله عليه وسلم عندنا حق , والقرآن حق , وإنما أدى إلينا هذا القرآن والسنن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم , وإنما يريدون أن يجرحوا شهودنا ليبطلوا الكتاب والسنة , والجرح بهم أولى وهم زنادقة" (جب تم کسی شخص کو رسول اللہ ﷺ کے کسی صحابی کی توہین یا تنقیص کرتے دیکھو، تو جان لو کہ وہ زندیق ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک رسول اللہ ﷺ حق ہیں، اور قرآن حق ہے، اور یہ قرآن اور سنت ہم تک رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ہی کے ذریعے پہنچے ہیں۔ پس وہ لوگ درحقیقت ہمارے گواہوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں تاکہ قرآن و سنت کو باطل قرار دے سکیں۔ لہٰذا خود انہی کو مجروح کرنا ان کے لیے زیادہ بہتر ہے، پس یہ لوگ زندیق ہیں) (الکفایہ للخطیب: ص 49)۔

23. المسند – ابو زرعہ نے ایک "مسند" بھی مرتب کی جو شاید شہروں کے اعتبار سے مرتب تھی جیسے مسند الشاميين، مسند المصريين، وغیرہ۔ اس میں انہوں نے صحابہ کی احادیث جمع کیں۔ انہوں نے اپنی مسند میں ان احادیث کو شامل نہیں کیا جن پر انہیں شبہ ہوتا۔ مختلف شہروں میں بسنے والے صحابہ کی احادیث کو الگ الگ جمع کیا گیا، جیسے اہل بصرہ، اہل شام، اہل مصر وغیرہ، اور کئی مسانید کی تفصیلات ابن ابی حاتم کے توسط سے محفوظ ہیں۔

(مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية: ص 183-203)

امام ابو زرعہؒ کا حافظہ:

ہمارے اس محدث کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک "حفظ (یادداشت کی قوت)" ہے، اور اس پر ان کے اساتذہ، ہم عصر ائمہ، اور شاگردوں میں سے کئی ائمہ حفاظِ حدیث نے گواہی دی ہے۔ ذیل میں ان کے بعض اقوال پیش کیے جا رہے ہیں۔

1-  خود امام ابو زرعہ فرماتے ہیں:

" إن في بيتي ما كتبته منذ خمسين سنة، ولم أطالعه منذ كتبته، وإني أعلم في أي كتاب هو، في أي ورقة هو، في أي صفحة هو، في أي سطر هو "

(میرے گھر میں وہ (علمی مواد) موجود ہے جو میں نے پچاس سال پہلے لکھا تھا، اور میں نے اسے لکھنے کے بعد کبھی نہیں دیکھا، مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ کس کتاب میں ہے، کس ورقے میں ہے، کس صفحے پر ہے، اور کس سطر میں ہے)

(تاریخ بغداد: 10/330)

اور ایک دوسری امام ابو زرعہ فرماتے ہیں:

"أنا أحفظ ستمائة ألف حديث صحيح، وأربعة عشر ألف إسناد في التفسير، والقراءات، وعشرة آلاف حديث مزورة، قيل له: ما بال المزورة تحفظ؟ قال: إذا مرّ بي منها حديث عرفته"

(میں چھ لاکھ صحیح احادیث، چودہ ہزار اسنادِ تفسیر و قراءات، اور دس ہزار موضوع (جھوٹی) احادیث یاد رکھتا ہوں۔" ان سے پوچھا گیا: "جھوٹی احادیث یاد رکھنے کا کیا فائدہ؟" تو فرمایا: "تاکہ جب ان میں سے کوئی میرے سامنے آئے، تو میں فوراً پہچان سکوں۔")

(شرح علل الترمذی: 1/494)

اور ایک روایت میں ابو العباس محمد بن جعفر الرازی فرماتے ہیں:

"سئل أبو زرعة الرازي عن رجل حلف بالطلاق أن أبا زرعة يحفظ مائتي ألف حديث، هل حنث؟ فقال: لا، ثم قال أبو زرعة: أحفظ مائتي ألف حديث كما يحفظ الإنسان قل هو الله أحد، وفي المذاكرة ثلاثمائة ألف حديث"

(امام ابو زرعہ الرازی سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے طلاق کی قسم کھا کر کہا کہ "ابو زرعہ دو لاکھ احادیث حفظ رکھتے ہیں"—تو کیا اس کی قسم ٹوٹ گئی؟ انہوں نے فرمایا: نہیں۔ پھر امام ابو زرعہ نے خود فرمایا: میں دو لاکھ احادیث ایسے یاد رکھتا ہوں جیسے انسان "قل هو الله أحد" یاد رکھتا ہے، اور مذاکرہ (علمی بحث) کے اندرتین لاکھ احادیث یاد ہیں)

(تاریخ بغداد: 10/333)

نوٹ: احادیث کی تعداد میں اس فرق کی وجہ مختلف اوقات کا بیان ہونا ہے۔ جب امام ابو زرعہ نے یہ بات کہی کہ انہیں تین لاکھ احادیث یاد ہیں، وہ اس وقت کا حال تھا، اور بعد کے ادوار میں ان کے حفظ میں مزید اضافہ ہوا یہاں تک کہ چھ لاکھ تک یاد کر لیں۔

2-   ان کے استاد، امام ابو بکر بن ابی شیبہؒ سے پوچھا گیا: "آپ نے سب سے بڑا حافظ کس کو دیکھا ہے؟" تو انہوں نے فرمایا:

"ما رأيت أحدا أحفظ من أبي زرعة الرازي"

(میں نے ابو زرعہ الرازی سے بڑا حافظ کوئی نہیں دیکھا)

(الکامل لابن عدی: 1/228)

3-   امام اسحاق بن راہویہؒ فرماتے ہیں:

"كل حديث لا يعرفه أبو زرعة الرازي ليس له أصل"

(ہر وہ حدیث جسے ابو زرعہ رازی نہ جانتے ہوں، اس کی کوئی اصل (بنیاد) نہیں ہوتی)

(الکامل لابن عدی: 1/228)

4-   امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:

"ما جاوز الجسر أفقه من إسحاق بن راهويه ولا أحفظ من أبي زرعة"

(پل کے اس پار (یعنی خراسان کی جانب) نہ اسحاق بن راہویہ سے بڑھ کر کوئی فقیہ ہے، اور نہ ابو زرعہ سے بڑھ کر کوئی حافظ)

(تاریخ بغداد: 10/327)

ایک دوسری جگہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا:

"صح من الحديث سبعمائة ألف حديث وكسر، وهذا الفتى- يعني أبا زرعة- قد حفظ ستمائة ألف"

(صحیح احادیث کی تعداد سات لاکھ سے کچھ اوپر ہے، اور یہ نوجوان — یعنی ابو زرعہ — چھ لاکھ احادیث حفظ کر چکا ہے)

(تاریخ بغداد: 10/331)

حافظ بیہقی نے امام احمد کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:

" إنما أراد ما صح من حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأقاويل الصحابة، وفتاوى من أخذ عنهم من التابعين "

(امام احمد کی مراد وہ احادیث تھیں جو رسول اللہ ﷺ سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہیں، نیز صحابہ کے اقوال اور ان سے علم لینے والے تابعین کے فتاویٰ بھی ان میں شامل ہیں)

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 38/20)

اسی لیے اُنہیں ان معدودے چند حفاظِ حدیث میں شمار کیا جاتا ہے جنہوں نے کلامِ نبوت کی اس عظیم مقدار کو حفظ کیا، جیسے ابن أبی شیبہ، امام بخاری، ابراہیم بن موسیٰ الرازی اور دیگر محدثین۔ حتیٰ کہ امام احمد بن حنبل نے خود اُن کے (ابو زرعہ کے) حفظ اور احادیث کو روانی سے بیان کرنے کا اعتراف اپنے معاصرین کے سامنے کیا۔ ان کے بیٹے عبد اللہ نے اُن سے پوچھا:

"يا أبت من الحفاظ؟" (ابا جان! حفاظ کون ہیں؟)

انہوں نے جواب دیا: "يا بني شباب كانوا عندنا من أهل خراسان وقد تفرقوا" (بیٹے! کچھ نوجوان تھے جو ہمارے پاس خراسان کے تھے، مگر اب منتشر ہو چکے ہیں)

پوچھا: "من هم يا أبت؟" (ابا جان! وہ کون تھے؟)

فرمایا: "محمد بن إسماعيل ذاك البخاري، وعبيد الله بن عبد الكريم ذاك الرازي، وعبد الله بن عبد الرحمن ذاك السمرقندي، والحسن بن شجاع ذاك البلخي" (محمد بن اسماعیل، وہ بخاری ہے۔ عبید اللہ بن عبد الکریم، وہ رازی ہے۔ عبد اللہ بن عبد الرحمن، وہ سمرقندی ہے۔ اور حسن بن شجاع، وہ بلخی ہے

(تاریخ بغداد: 10/326)

اس روایت کا اگلا حصہ تہذیب التہذیب میں یوں درج ہے:

"ثم قال له: "يا أبت: فمن أحفظهم؟ قال: أسردهم أبو زرعة، وأعرفهم محمد بن إسماعيل، وأتقنهم عبد الله، وأجمعهم للأبواب الحسن""

(اے ابا جان! ان سب میں سب سے زیادہ حافظ کون تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا: سب سے زیادہ روانی سے احادیث بیان کرنے والے ابو زرعہ تھے، سب سے زیادہ معرفت رکھنے والے محمد بن اسماعیل (بخاری) تھے، سب سے زیادہ پختگی والے عبداللہ (بن عبدالرحمن السمرقندی) تھے، اور سب سے زیادہ ابواب کے جامع حسن (بن شجاع البلخی) تھے۔)

(تہذیب التہذیب: 2/283)

5-   امام ابو حاتم الرازیؒ فرماتے ہیں:

"رحم الله أبا زرعة كان والله مجتهدا في حفظ آثار رسول الله صلى الله عليه وسلم"

(اللہ ابو زرعہ پر رحم فرمائے، وہ واقعی اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو محفوظ رکھنے میں بڑے محنتی تھے)

(تہذیب الکمال للمزی: 19/95-96)

6-   امام ابو یعلی الموصلیؒ فرماتے ہیں:

"ما سمعنا بذكر أحد بالحفظ إلا كان اسمه أكثر من رؤيته إلا أبو زرعة الرازي، فإن مشاهدته كانت أعظم من اسمه، وكان لا يرى أحدا من هو دونه في الحفظ أنه أعرف منه، وكان قد جمع حفظ الأبواب والشيوخ والتفسير وغير ذلك، وكتبنا بانتخابه بواسط ستة آلاف"

(ہم نے جب بھی کسی کے حافظے کا ذکر سنا تو وہ ذکر ہمیشہ اس کی شہرت سے بڑھ کر نہ ہوتا، سوائے ابو زرعہ رازی کے۔ ان کا مشاہدہ (یعنی عملی حافظہ و مہارت) ان کے نام (شہرت) سے بڑھ کر تھا۔ وہ کسی ایسے شخص کو جو ان سے کم حفظ رکھتا ہو، اپنے سے زیادہ علم والا نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے ابوابِ حدیث، شیوخ، تفسیر اور دیگر علوم کو زبانی یاد کر رکھا تھا۔ ہم نے واسط میں ان کے انتخاب سے چھ ہزار احادیث لکھی تھیں)

(الکامل لابن عدی: 1/228)

7-   امام یحیی بن مندہؒ فرماتے ہیں:

"قيل أحفظ الأمة أبو هريرة، ثم أبو زرعة الرازي"

(کہا گیا: اس امت میں سب سے بڑے حافظ (احادیث کے) حضرت ابو ہریرہ تھے، پھر امام ابو زرعہ رازیؒ)

(شرح علل الترمذی: 1/494)

8-   امام ابو زرعہ کے غیر معمولی حفظ سے ایک محدث اس قدر حیران ہوئے کہ کہنے لگے:

"ما ولدت حواء قط أحفظ من أبي زرعة"

(حوّا نے ابو زرعہ سے زیادہ حافظ کبھی جنا ہی نہیں)۔

(شرح علل الترمذی: 1/494)

9-   ابو بکر محمد بن عمر الرازی الحافظ فرماتے ہیں:

"لم يكن في هذه الأمة أحفظ من أبي زرعة الرازي"

(اس امت میں ابو زرعہ رازی سے زیادہ حافظہ رکھنے والا کوئی نہ تھا)۔

(تہذیب الکمال: 19/98)

10-        امام ابو زرعہ خود ایک شخص کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"مررت يوما ببيروت فإذا شيخ مخضوب متكئ على عصا فلما نظر إلي قال لرجل: ترى هذا ليس في الدنيا أحفظ من هذا. قال أبو زرعة ما يدريه؟ عرف حفاظ الدنيا حتى يشهد لي بهذه الشهادة؟ غير أن الناس إذا سمعوا شيئا قالوه."

(میں ایک دن بیروت سے گزر رہا تھا کہ ایک بوڑھے شخص پر میری نظر پڑی، جس کی داڑھی خضاب شدہ تھی اور وہ ایک لاٹھی کے سہارے ٹیک لگائے ہوئے تھا۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو اپنے قریب کھڑے شخص سے کہا: 'کیا تم دیکھتے ہو اس شخص کو؟ دنیا میں اس سے زیادہ حافظ کوئی نہیں۔' ابو زرعہ نے کہا: "اسے کیا معلوم؟ کیا اس نے دنیا کے تمام حفاظ کو جان لیا ہے جو میرے حق میں یہ گواہی دے رہا ہے؟ ہاں، لیکن لوگ جب کوئی بات سن لیتے ہیں، تو وہی کہنے لگتے ہیں۔)

(الجرح والتعدیل: 1/333-334)

یہ جواب امام ابو زرعہ کی غیر معمولی عاجزی، انکساری اور نفس کی حفاظت کا آئینہ دار ہے۔

امام ابو زرعہ کے غیر معمولی حافظے کے کچھ قصے:

1-  امام ابو العباس محمد بن اسحاق الثقفی السراج فرماتے ہیں:

"لما انصرف قتيبة بن سعيد إلى الري سالوه أن يحدثهم فامتنع، وقال: أحدثكم بعد أن حضر مجالسي أَحْمَد بْن حنبل، ويحيى بْن معين، وعلي بن المديني، وَأبو بَكْر بْن أَبِي شيبة، وَأبو خيثمة؟! قالوا له: فإن عندنا غلاما يسرد كل ما حدثت به مجلسا مجلسا، قم يا أبا زرعة، فقام أبو زرعة فسرد كل ما حدث به قتيبة، فحدثهم قتيبة."

(جب قتیبہ بن سعید ری (الری شہر) آئے، تو لوگوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ انہیں حدیث سنائیں، مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا: "میں تمہیں حدیث سناؤں؟ جبکہ میری مجالس میں احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن مدینی، ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو خیثمہ جیسے لوگ شریک رہے ہیں؟!" لوگوں نے کہا: "ہمارے یہاں ایک نوجوان ہے جو آپ کی ہر مجلس کی احادیث حرف بہ حرف سنا سکتا ہے۔ اے ابو زرعہ، کھڑے ہو جاؤ۔" چنانچہ ابو زرعہ کھڑے ہوئے اور قتیبہ کی ہر مجلس کی تمام احادیث سنا دیں۔ یہ دیکھ کر قتیبہ نے انہیں حدیث سنانا شروع کر دیا۔)

(تاریخ بغداد: 10/330-331)

2-   امام ابن ابی حاتم ان کے بارے میں کہتے ہیں:

"كان أبو زرعة قل يوم إلا يخرج معه إلى المسجد كتابين أو ثلاثة كتب، لكل قوم كتابهم الذي سألوا فيه فيقرأ على كل قوم ما يتفق له القراءة من كتاب، ثم يقرأ للآخر كتابه الذي قد سأل فيه أوراق ثم يقرأ للثالث كمثل ذلك فإذا رجعوا أولئك في يومهم يكون قد أخرج معه كتابهم فيجئ إلى الموضع الذي كان يقرأ عليهم إلى ذلك المكان فيبتدئ فيقرأ من غير أن يسألهم: إلى أين بلغتم؟ وما أول مجلسكم؟ فكان ذاك دأبه كل يوم لا يستفهم من احد منهم أو مجلسه وهذا بالغداة، وبالعشي كمثل ولا أعلم أحدا من المحدثين قدر على هذا."

(ابو زرعہ کا یہ معمول ہوتا کہ وہ مسجد جاتے وقت دو یا تین کتابیں ضرور ساتھ رکھتے، ہر قوم کے لیے وہی کتاب جس کے بارے میں ان لوگوں نے سوال کیا ہوتا۔ وہ ہر گروہ کے سامنے اس کتاب سے اتنا پڑھتے جتنا وقت اجازت دیتا، پھر دوسرے گروہ کے لیے ان کی مخصوص کتاب سے اوراق پڑھتے، پھر تیسرے گروہ کو بھی اسی طرح ان کی کتاب سے پڑھتے۔ جب وہ طلبہ دوبارہ اگلے دن آتے تو وہ انہی کی کتاب نکالتے اور بالکل اسی جگہ سے پڑھنا شروع کر دیتے جہاں پچھلی بار رکے تھے بغیر یہ پوچھے کہ: 'آپ کا پہلا درس کہاں سے شروع ہوا تھا؟' یا 'کہاں تک پہنچے تھے؟' ان کا یہی معمول صبح و شام ہوتا، اور میں نہیں جانتا کہ کسی دوسرے محدث میں یہ اہلیت ہو کہ وہ اس انداز پر عمل کر سکے۔)

(الجرح والتعدیل: 1/332)

3-   امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں:

"سمعت أبا زرعة يقول: سمعت من بعض المشايخ أحاديث فسألني رجل من أصحاب الحديث فأعطيته كتابي فرد علي الكتاب بعد ستة أشهر فأنظر في الكتاب فإذا إنه قد غير في سبعة مواضع، قال أبو زرعة فأخذت الكتاب وصرت إلى عنده فقلت ألا تتقي الله تفعل مثل هذا؟ قال أبو زرعة  فأوقفته على موضع موضع وأخبرته وقلت له أما هذا الذي غيرت فإنه هذا الذي جعلت عن ابن أبي فديك فإنه عن أبي ضمرة  مشهور وليس هذا من حديث ابن أبي فديك، وأما هذا فإنه كذا  وكذا فإنه لا يجئ عن فلان وإنما هذا كذا، فلم أزل أخبره حتى أوقفته على كله ثم  قلت له: فإني حفظت جميع ما فيه في الوقت الذي انتخبت على الشيخ، ولو لم أحفظه لكان لا يخفى علي مثل هذا، فاتق الله عزوجل يا رجل.

قال أبو محمد  فقلت له: من ذلك الرجل الذي فعل هذا؟  فأبى أن يسميه."

(میں نے ابو زرعہ کو کہتے ہوئے سنا: "میں نے بعض مشائخ سے چند احادیث سنی تھیں، پھر ایک شخص — جو اہلِ حدیث میں سے تھا — نے مجھ سے وہ احادیث مانگیں، تو میں نے اسے اپنی کتاب دے دی۔ اس نے وہ کتاب چھ مہینے بعد مجھے واپس لوٹائی۔ جب میں نے کتاب کو دیکھا تو اس میں سات مقامات پر تبدیلی کی ہوئی تھی۔ تو میں وہ کتاب لے کر اس کے پاس گیا اور کہا: کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟ تم ایسا کام کرتے ہو؟" ابو زرعہ نے فرمایا: "میں نے اس شخص کو ہر مقام پر روکا، اور بتایا کہ: یہ جو تم نے ابن أبي فُدَيْك کی طرف منسوب کیا ہے، دراصل یہ روایت ابو ضمرہ کی ہے، اور یہ ابن أبي فُدَيْك کی حدیث نہیں۔ اور یہ دوسرا مقام، یہاں تم نے یہ کیا، حالانکہ یہ فلاں سے یوں آتا ہے۔ میں برابر ہر جگہ کی اصلاح کرتا گیا، یہاں تک کہ میں نے اسے پوری کتاب کے تمام بدلے گئے مقامات بتا دیے۔ پھر میں نے کہا: میں نے یہ سارا مضمون اسی وقت حفظ کر لیا تھا جب میں نے شیخ سے روایت لی تھی۔ اور اگر میں نے اسے حفظ نہ کیا ہوتا، تب بھی یہ تبدیلیاں مجھ سے مخفی نہ رہتیں۔ لہٰذا اللہ سے ڈرو اے شخص!"

ابو محمد (ابن ابی حاتم) کہتے ہیں: میں نے ابو زرعہ سے پوچھا: "وہ شخص کون تھا جس نے یہ کیا؟" تو انہوں نے اس کا نام لینے سے انکار کر دیا۔)

(الجرح والتعدیل: 1/332-333)

4-   امام صالح جزرۃ فرماتے ہیں:

"قال أبو علي جزرة: قال لي أبو زرعة: مر بنا إلى سليمان الشاذكوني نذاكره. قال: فذهبنا، فما زال يذاكره حتى عجز الشاذكوني عن حفظه، فلما أعياه، ألقى عليه حديثا من حديث الرازيين، فلم يعرفه أبو زرعة. فقال سليمان: يا سبحان الله! حديث بلدك، هذا مخرجه من عندكم!؟ وأبو زرعة ساكت، والشاذكوني يخجله، ويري من حضر أنه قد عجز. فلما خرجنا، رأيت أبا زرعة قد اغتم، ويقول: لا أدري من أين جاء بهذا؟ فقلت له: وضعه في الوقت كي تعجز وتخجل. قال: هكذا؟ قلت: نعم، فسري عنه"

(ابو زرعہ نے مجھ سے کہا: "چلو، سلیمان الشاذکونی کے پاس چلتے ہیں، تاکہ ان سے مذاکرہ (علمی تبادلہ) کریں۔" چنانچہ ہم گئے۔ وہ مسلسل مذاکرہ کرتے رہے یہاں تک کہ شاذکونی ابو زرعہ کے حفظ کے مقابلے میں عاجز آ گیا۔ جب وہ تھک گیا اور کچھ نہ بن پڑا، تو اس نے رازیَین (اہلِ ری کے محدثین) کی ایک حدیث پیش کی جسے ابو زرعہ نہ پہچان سکے۔ سلیمان (طنزاً) بولا: "سبحان اللہ! تمہارے ہی شہر کی حدیث ہے، اور اس کا مصدر بھی تمہارے علاقے سے ہے!" اور ابو زرعہ خاموش رہے۔ شاذکونی نے انہیں شرمندہ کرنے کی کوشش کی اور حاضرین کو دکھایا کہ ابو زرعہ لاجواب ہو گئے ہیں۔ جب ہم باہر نکلے، تو میں نے دیکھا کہ ابو زرعہ افسردہ تھے اور کہہ رہے تھے: "مجھے معلوم نہیں کہ وہ حدیث کہاں سے لایا؟" میں نے کہا: "اس نے موقع پر حدیث گھڑ دی، تاکہ آپ عاجز آ جائیں اور شرمندہ ہو جائیں۔" ابو زرعہ بولے: "واقعی؟ ایسے؟" میں نے کہا: "جی ہاں۔" اس پر ابو زرعہ کا دل ہلکا ہوا)۔

(تاریخ دمشق: 38/26، وسیر اعلام النبلاء: 13/73)

5-   امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں، میں نے ابو زرعہ کو کہتے ہوئے سنا:

" ودفع إليه رجل حديثا فقال اقرأ فلما نظر في الحديث قال: من اين لك هذا؟ قال وجدته على ظهر كتاب ليوسف الوراق، قال أبو زرعة: هذا الحديث من حديثي غير أني لم أحدث به، قيل له: وأنت تحفظ ما حدثت به مما لم تحدث به؟ قال بلى، ما في بيتي حديث إلا وأنا افهم موضعه. "

(ایک شخص ان کے پاس ایک حدیث لے کر آیا اور کہا: " اسے پڑھیے۔" جب ابو زرعہ نے اس حدیث کو دیکھا تو فرمایا: "یہ تمہیں کہاں سے ملی؟" اس نے جواب دیا: "میں نے یہ حدیث یوسف الوراق کی کتاب کی پشت پر لکھی ہوئی پائی۔" تو ابو زرعہ نے فرمایا: "یہ حدیث دراصل میری ہی روایت سے ہے، لیکن میں نے اسے بیان نہیں کیا۔" پوچھا گیا: "کیا آپ کو ان احادیث کا بھی علم ہوتا ہے جو آپ نے خود بیان نہیں کیں؟" تو انہوں نے فرمایا: "جی ہاں، میرے گھر میں جو بھی حدیث موجود ہے، میں جانتا ہوں کہ وہ کہاں رکھی ہے اور اس کا مقام کیا ہے۔")

(الجرح والتعدیل: 1/333)

اور اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ ہمارے اس محدث (ابو زرعہ رازی) نے وہ کون سے اسباب اور ذرائع اختیار کیے جن کی بدولت وہ حفظِ حدیث میں اس بلند مرتبے تک پہنچے، تو بلا شک و شبہ وہ (اصل) ذریعہ اللہ کا تقویٰ اور نوافل و طاعات کے ذریعے اس کا قرب حاصل کرنا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ" یعنی "اللہ سے ڈرو، وہ تمہیں علم عطا کرے گا"۔

اسی طرح ان کے مخلص اساتذہ اور نیک صالحین کی دعائیں، جن کی صحبت انہوں نے اختیار کی، بھی اس میں مؤثر رہیں۔ اور چونکہ جزا اعمال کے مطابق دی جاتی ہے، اس لیے چونکہ وہ گناہوں سے بچتے، اور اپنے کانوں کو فضول و باطل باتوں سے محفوظ رکھتے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مسلسل حفظ کی نعمت سے نوازا۔

خطيب بغدادی نے امام ابو زرعہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

" ما سمعت أذني شيئا من العلم إلا وعاه قلبي، وإني كنت أمشي في سوق بغداد فأسمع من الغرف صوت المغنيات فأضع إصبعي في أذني مخافة أن يعيه قلبي "

(میرے کان نے علم کی کوئی بات نہیں سنی مگر میرے دل نے اسے محفوظ کر لیا۔ میں بغداد کے بازار میں چلتا تو اگر کسی کمرے سے گانے والی عورتوں کی آواز آتی، تو میں اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتا، مبادا میرا دل وہ آواز محفوظ نہ کر لے۔)

(تاریخ بغداد: 10/330)

اور وہ نبی کریم ﷺ کے علوم و تراث کی بار بار یاد دہانی اور مذاکرے کا خاص اہتمام کرتے تھے۔ چنانچہ ابو زرعہ اپنے ایک ساتھی سے فرماتے ہیں:

"إذا مرضت شهرا أو شهرين، تبين علي في حفظ القرآن، وأما الحديث، فإذا تركت أياما تبين عليك"

(اگر میں ایک یا دو مہینے بیمار ہو جاؤں، تو مجھے قرآن کے حفظ میں فرق محسوس ہونے لگتا ہے۔ لیکن اگر حدیث کو چند دن بھی چھوڑ دوں، تو فوراً اس کا اثر ظاہر ہونے لگتا ہے۔)

پھر فرمایا:

"ترى قوما من أصحابنا كتبوا الحديث تركوا المجالسة منذ عشرين سنة أو أقل إذا جلسوا اليوم مع الأحداث كأنهم لا يعرفون ولا يحسنون الحديث"

(تم ہمارے بعض ساتھیوں کو دیکھتے ہو کہ انہوں نے حدیث لکھی تو تھی، لیکن بیس سال سے یا کچھ کم عرصے سے علمی مجالس میں شریک نہیں ہوئے، تو اب اگر وہ نوجوان طلبہ کے ساتھ بیٹھیں تو یوں لگتا ہے گویا نہ حدیث جانتے ہیں نہ بیان کرنا)

پھر کہا:

"الحديث مثل الشمس إذا جلس من الشرق خمسة أيام لا يعرف فهذا الشأن تحتاج أن تتعاهده أبدا"

(حدیث سورج کی مانند ہے، اگر مشرق سے پانچ دن غائب ہو جائے، تو لوگ اسے پہچان نہیں پائیں گے۔ اس علم کی یہی شان ہے کہ اسے مسلسل تازہ کرتے رہنا پڑتا ہے۔)

(سیر اعلام النبلاء: 13/79)

وہ حفظ پر اتنے حریص تھے کہ اپنے دور میں پھیلی ہوئی یہ بات کہ "پنیر (چیز) اور سرکہ" حفظ پر برا اثر ڈالتے ہیں — کی وجہ سے انہوں نے ان اشیاء سے بھی پرہیز کیا۔
ابن ابی حاتم کہتے ہیں:

"كان أبو زرعة لا يأكل الجبن، ولا الخل"

(ابو زرعہ نہ پنیر کھاتے تھے نہ سرکہ)۔

(سیر اعلام النبلاء: 13/80)

انہوں نے اس منہج پر اتنی استقامت سے عمل کیا کہ آخر عمر تک ان کی یادداشت انتہائی مضبوط رہی۔ یہاں تک کہ جب وہ آخری سانسوں میں تھے اور بعض حفاظ کو ایک حدیث کی سند یاد نہ آ رہی تھی، تو انہوں نے اسے اپنے حافظے سے بیان کر دیا۔ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے ابو جعفر التستری فرماتے ہیں:

"حضرنا أبا زرعة- يعني الرازي- بما شهران وكان في السوق، وعنده أبو حاتم، ومحمد بن مسلم، والمنذر بن شاذان، وجماعة من العلماء، فذكروا حديث التلقين وقوله صلى الله عليه وسلم: «لقنوا موتاكم لا إله إلا الله» قال: فاستحيوا من أبي زرعة وهابوه أن يلقنوه. فقالوا: تعالوا نذكر الحديث. فقال محمد ابن مسلم: حدثنا الضحاك بن مخلد عن عبد الحميد بن جعفر عن صالح، وجعل يقول ولم يجاوز، وقال أبو حاتم: حدثنا بندار، حدثنا أبو عاصم عن عبد الحميد بن جعفر عن صالح ولم يجاوز، والباقون سكتوا فقال أبو زرعة- وهو في السوق-: حدثنا بندار، حدثنا أبو عاصم، حدثنا عبد الحميد بن جعفر عن صالح بن أبي عريب عن كثير بن مرة الحضرمي عن معاذ بن جبل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة» وتوفي رحمه الله."

(ہم ابو زرعہ رازی کے پاس ان کی وفات سے تقریباً دو ماہ قبل حاضر ہوئے، وہ اس وقت بازار میں تھے، اور ان کے پاس ابو حاتم، محمد بن مسلم، منذر بن شاذان، اور کئی دیگر علماء موجود تھے۔ وہاں حدیثِ تلقین (یعنی نزع کے وقت لا إله إلا الله کی تلقین) کا ذکر ہوا، جس میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: "اپنے مرنے والوں کو لا إله إلا الله کی تلقین کرو۔" سب لوگ ابو زرعہ کے سامنے شرمائے اور ان کی ہیبت کی وجہ سے کوئی ان کو تلقین کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ تو انہوں نے کہا: "آؤ، ہم اس حدیث کو یاد کریں۔"

چنانچہ محمد بن مسلم نے کہا: "ہم سے ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے عبد الحمید بن جعفر سے، انہوں نے صالح سے۔۔۔" لیکن وہ اس سے آگے نہیں بڑھے۔

پھر ابو حاتم نے کہا: "ہم سے بندار نے بیان کیا، انہوں نے ابو عاصم سے، انہوں نے عبد الحمید بن جعفر سے، انہوں نے صالح سے۔۔۔" لیکن وہ بھی آگے نہیں بڑھے۔

باقی سب خاموش رہے۔ تو اس وقت ابو زرعہ، جو خود موت کی حالت میں اور نزع کے عالم میں تھے، بازار میں بیٹھے ہوئے، (آخری قوتِ حافظہ سے) بولے: "ہم سے بندار نے بیان کیا، انہوں نے ابو عاصم سے، انہوں نے عبد الحمید بن جعفر سے، انہوں نے صالح بن أبي عريب سے، انہوں نے کثیر بن مرہ حضرمی سے، انہوں نے معاذ بن جبل سے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 'جس کا آخری کلمہ لا إله إلا الله ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔'" اور اسی کے بعد ان کا انتقال ہو گیا۔ رحمہ اللہ)۔

(تاریخ بغداد: 10/333-334، وانظر: الجرح والتعدیل: 1/345)

 

علماء کے درمیان ان کا مقام:

امام ابو زرعہ الرازیؒ کو اپنے زمانے کے علما کے درمیان ایک بلند مقام حاصل تھا، جو اپنے ہم عصروں پر سبقت اور برتری کا مظہر تھا۔ وہ جس علمی مرکز میں داخل ہوتے، ان کا تذکرہ وہاں پھیل جاتا اور ان کی شہرت ہر طرف پھیل جاتی۔ کوئی بھی بڑا حافظ یا جلیل القدر امام ان سے ملاقات کرتا، تو اپنی محبت اور ان سے متاثر ہونے کو ستائش و تحسین اور مسلسل شکر و مدح کے الفاظ میں ظاہر کرتا۔
ان کی حدیث سے محبت، اس کی طلب اور اس کی حفاظت کا جذبہ، اہل علم کی نظر میں ان کی قدر و منزلت میں اضافہ کرتا جاتا۔ ان کی سنتِ نبوی ﷺ کے علوم پر گہری نظر، اور احادیث کی روایات کی باریکیوں سے واقفیت نے انہیں اس مقام تک پہنچایا کہ جب محدثین کے درمیان اختلاف ہوتا تو فیصلہ انہی کے پاس لایا جاتا۔ رواۃ کے جرح و تعدیل کے باب میں ان کی رائے ایک بنیادی حیثیت رکھتی تھی۔

یہ مقام صرف ان کے شاگردوں تک محدود نہ تھا، بلکہ ان کے ہم عصر اور اساتذہ بھی ان کی علمی رائے کو تسلیم کرتے تھے۔ یہ عزت صرف شہر ری تک محدود نہ رہی، بلکہ دوسرے شہروں میں بھی ان کی علمی عظمت کو تسلیم کیا جاتا تھا۔
 یہاں تک کہ امام اہل سنت احمد بن حنبل، جب ابو زرعہ ان سے ملاقات کے لیے بغداد آتے، تو مذاکرہ حدیث کی حرص میں صرف فرض نماز پر اکتفا کرتے۔

·      عبد اللہ بن احمد فرماتے ہیں:

"لما قدم أبو زرعة نزل عند أبي فكان كثير المذاكرة له، فسمعت أبي يوما يقول: ما صليت غير الفرض، استأثرت بمذاكرة أبي زرعة على نوافلي. "

(جب امام ابو زرعہؒ ہمارے ہاں تشریف لائے، تو وہ میرے والد (امام احمد بن حنبل) کے ہاں قیام پذیر ہوئے۔ والد ان سے کثرت سے مذاکرہ کیا کرتے تھے۔ میں نے ایک دن والد کو یہ کہتے سنا: 'میں نے صرف فرض نمازیں ادا کیں، کیونکہ ابو زرعہ سے مذاکرہ نے میری نفل عبادات پر بھی سبقت لے لی۔')

(تاریخ بغداد: 10/326)

 امام احمد ایسی احادیث کو بھی ابو زرعہ کی معرفت سے صحیح سمجھتے، جن پر انہیں پہلے کچھ تردد ہوتا (تاریخ بغداد: 10/326) نیز امام احمد امام ابو زرعہ کے لیے دعائے خیر کیا کرتے تھے (الجرح والتعدیل: 5/325)۔

ابو زرعہ کے ہم عصر محدثین بھی اکثر اختلافی احادیث کے بارے میں فیصلہ کے لیے انہی کی طرف رجوع کرتے، تاکہ صحیح اور معلول (علت والی) احادیث میں فرق کیا جا سکے۔

یہاں تک کہ حافظ محمد بن مسلم بن وارة، جو خود بڑے محدث تھے، جب کسی حدیث کی فقہی دلالت یا اس کے مشکل الفاظ میں اشکال ہوتا، تو ابو زرعہ سے رجوع کرتے۔

·      چنانچہ ان سے منقول ہے:

"مازلت ‌أستجفي ‌عائشة رضي الله عنها في قولها لرسول الله صلى الله عليه وسلم: وبمنة الله لا بمنتك" حتى سألت أبا زرعة الرازي فقال: وآت الحمد أهله"

(میں ہمیشہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول 'وبِمَنَّةِ اللهِ لا بِمِنَّتِكَ' (اللہ کے احسان سے، تمہارے احسان سے نہیں) پر تعجب کرتا رہا، یہاں تک کہ میں نے ابو زرعہ الرازی سے اس کی وضاحت پوچھی، تو انہوں نے فرمایا: 'اور شکر اسی کے اہل کو دیا جائے' (یعنی مطلب یہ ہے کہ اصل احسان تو اللہ کا ہے)۔"

(وفیات الاعیان: 3/17)

علماء ابو زرعہ کی تصدیق پر مطمئن ہو جایا کرتے تھے۔

·      امام ابن الصلاح نے اپنی "مقدمہ" میں ایک اثر نقل کیا، جس کا تعلق صحابی کی تعریف سے ہے، پھر اس کے بارے میں کہا:

"إسناده جيد، حدث به ‌مسلم ‌بحضرة ‌أبي ‌زرعة"

(اس کی سند اچھی ہے، اور مسلم نے یہ حدیث ابو زرعہ کی موجودگی میں بیان کی)۔

(مقدمہ ابن الصلاح: ص 294)

صحیح مسلم کی احادیث میں صحت اور خلو از علل (نقد و کمزوری سے پاک ہونے) کا بڑا سہرا بھی ابو زرعہ کے سر ہے۔

·      امام نوویؒ لکھتے ہیں:

"ومما جاء في فضل صحيح مسلم ما بلغنا عن مكي بن عبدان احد حفاظ نيسابور أنه قال سمعت مسلم بن الحجاج رضي الله عنه يقول لو أن أهل الحديث يكتبون مائتي سنة الحديث فمدارهم على هذا المسند يعني صحيحه قال وسمعت مسلما يقول عرضت ‌كتابي ‌هذا ‌على ‌أبي ‌زرعة الرازي فكل ما أشار أن له علة تركته وكل ما قال أنه صحيح وليس له علة خرجته"

(صحیح مسلم کی فضیلت میں سے یہ بات منقول ہے کہ نیشاپور کے ایک بڑے حافظ مکّی بن عبدان نے کہا: میں نے مسلم کو کہتے سنا: میں نے اپنی اس کتاب (صحیح مسلم) کو ابو زرعہ الرازی پر پیش کیا، جس حدیث کی طرف انہوں نے اشارہ کیا کہ اس میں علت ہے، میں نے اسے چھوڑ دیا، اور جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ صحیح ہے اور کوئی علت نہیں، میں نے اسے شامل کیا۔)

(شرح النووی علی مسلم: 1/15، وانظر: صیانۃ صحیح مسلم لابن الصلاح: ص 100)

ذیل میں چند مزید اقوال ہیں جو ہمارے اس محدث کی اپنے دور کے علما کے درمیان عظمت اور مقام کو واضح کرتے ہیں۔

·      امام ابو زرعہ کہتے ہیں: میں نے ابراہیم بن موسیٰ کو یہ کہتے سنا:

"أجد منك ريح الولد"

(مجھے تجھ سے اپنی اولاد کی سی خوشبو آتی ہے یعنی وہ انہیں اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے۔

(الجرح والتعدیل: 1/342)

·      امام اسحاق بن راہویہؒ فرماتے ہیں:

"كل ‌حديث ‌لا ‌يعرفه ‌أبو ‌زرعة فليس له أصل"

(ہر وہ حدیث جسے ابو زرعہ نہ پہچانیں، اس کی کوئی اصل نہیں)

(الکامل لابن عدی: 1/228، والارشاد للخلیلی: 2/681، وتاریخ بغداد: 10/331)

امام ابن ابی حاتم کہتے ہیں: میں نے اسحاق بن راہویہ کا اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط ابو زرعہ کے نام پڑھا، جس میں لکھا تھا:

"إني ازداد بك كل يوم سرورا فالحمد لله الذي جعلك ممن يحفظ سنته، وهذا من أعظم ما يحتاج إليه الطالب اليوم"

(میں ہر روز تم سے خوشی میں اضافہ محسوس کرتا ہوں، پس اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمہیں ان لوگوں میں شامل کیا جو اس کی سنت کو محفوظ رکھتے ہیں، اور یہ ان عظیم ترین امور میں سے ہے جن کی آج کے طالب علم کو سب سے زیادہ ضرورت ہے)۔

(الجرح والتعدیل: 5/325)

·      عبد الواحد بن غیاث البصری (م 240 ھ) فرماتے ہیں:

"ما رأى أبو زرعة بعينه مثل نفسه"

(ابو زرعہ نے اپنی آنکھوں سے اپنے جیسا کوئی نہیں دیکھا)

(الجرح والتعدیل: 5/325)

·      عمرو بن سہل بن صرخاب فرماتے ہیں:

"ما ولد في خمسين ومائة سنة مثل أبي زرعة"

یک سو پچاس سال میں ابو زرعہ جیسا کوئی پیدا نہیں ہوا)

(الجرح والتعدیل: 1/339)

·      احمد بن سلیما ن الرھاویؒ فرماتے ہیں:

"ما أحد أحب إلي أن أراه من أبي زرعة"

(ابو زرعہ سے زیادہ مجھے کسی کو دیکھنا محبوب نہیں

(الجرح والتعدیل: 1/342)

·      امام فضلک الصائغ (م 270 ھ) فرماتے ہیں:

"دخلت المدينة فصرت إلى باب أبي مصعب، فخرج الشيخ مخضوبا، وكنت أنا ناعسا فحركني، فقال لي: يا من ذريك من أين أنت شاجردي أي شيء تنام؟ فقلت: ‌أصلحك ‌الله ‌من ‌الري من بعض شاجردي أبي زرعة، فقال: تركت أبا زرعة وجئتني، لقيت مالك بن أنس وغيره فما رأت عيناي مثله"

(میں مدینہ میں داخل ہوا اور (امام) ابو مصعب (الزہری) کے دروازے پر پہنچا۔ شیخ (ابو مصعب) خضاب لگائے ہوئے باہر آئے، اور چونکہ میں اونگھ رہا تھا، تو انہوں نے مجھے جھنجھوڑا اور کہا: اے میرے شاگرد، تم کہاں سے ہو؟ کیا سوتے ہو؟ میں نے کہا: اللہ آپ کی اصلاح فرمائے، میں ری (شہر) سے ہوں، ابو زرعہ کے بعض شاگردوں میں سے ہوں۔ تو انہوں نے کہا: تم ابو زرعہ کو چھوڑ کر میرے پاس آگئے؟ میں نے (امام)  مالک بن انس اور دیگر (ائمہ) سے ملاقات کی ہے، مگر میری آنکھوں نے ابو زرعہ جیسا کوئی نہیں دیکھا)

(الکامل لابن عدی: 1/229، وتاریخ بغداد: 10/329)

·      امام فضلک الصائغ (م 270 ھ) ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں:

" دخلت على الربيع بمصر فقال: من أين أنت؟ قلت: من أهل الري أصلحك الله من ‌بعض ‌شاجردي أبي زرعة فقال: تركت أبا زرعة وجئتني، إن أبا زرعة آية، وإن الله إذا جعل إنسانا آية أبان من شكله حتى لا يكون له ثان تراجع."

(میں مصر میں ربیع بن سلیمان (م 270 ھ) کے پاس داخل ہوا، تو انہوں نے پوچھا: تم کہاں سے ہو؟ میں نے کہا: ری (الری) کے لوگوں میں سے ہوں، اللہ آپ کی اصلاح کرے، ابو زرعہ کے بعض شاگردوں میں سے ہوں۔ تو انہوں نے کہا: تم ابو زرعہ کو چھوڑ کر میرے پاس آگئے؟! بے شک ابو زرعہ ایک نشانی (آیت) ہے، اور جب اللہ کسی انسان کو آیت (نمونہ یا دلیل) بناتا ہے، تو اُسے اُس کے ہم شکلوں سے ممتاز کر دیتا ہے یہاں تک کہ اُس کا کوئی ثانی باقی نہیں رہتا۔)

(الکامل لابن عدی: 1/229، وتاریخ بغداد: 10/329)

·      امام احمد بن محمد بن ساکن الزنجانی (قبل 300 ھ) فرماتے ہیں:

"دخلت مصر والشام فرأيت الكبراء من أصحاب الشافعي، ودخلت البصرة والكوفة ورأيت المبرزين ما رأيت فيهم مثل أبي زرعة ورعاً وديانة وحفظاً"

(میں مصر اور شام میں داخل ہوا تو میں نے امام شافعی کے بڑے بڑے شاگردوں کو دیکھا، اور میں بصرہ اور کوفہ میں داخل ہوا تو ممتاز اہلِ علم کو دیکھا، مگر میں نے ان میں ابو زرعہ جیسا کوئی نہیں پایا — نہ ورع (پرہیزگاری)، نہ دیانت، اور نہ حفظ (یادداشت) میں)

(الارشاد للخلیلی: 2/678)

·      امام محمد بن بشار بندار (م 252 ھ) فرماتے ہیں:

"‌حفاظ ‌الدنيا أربعة: أبو زرعة بالري، ومسلم بن الحجاج بنيسابورى، وعبد الله بن عبد الرحمن الدارمي بسمرقند، ومحمد بن إسماعيل البخاري ببخارى"

(حفاظِ دنیا چار ہیں: ابو زرعہ ری میں، مسلم بن الحجاج نیشاپور میں، عبد اللہ بن عبد الرحمن الدارمی سمرقند میں، اور محمد بن اسماعیل البخاری بخاریٰ میں)

(تاریخ بغداد: 2/16)

امام ذہبی اس قول کے تحت فرماتے ہیں:

"كان بندار يفتخر بكونهم حملوا عنه"

(بندار اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ (یہ ائمہ) ان سے حدیث روایت کرتے تھے)

(سیر اعلام النبلاء: 12/227)

·      امام محمد بن یحیی الذہلی (م 258 ھ) فرماتے ہیں:

"لا يزال المسلمون بخير ما أبقى الله عزوجل لَهُمْ مِثْلَ أَبِي زُرْعَةَ، وَمَا كان الله عزوجل ليترك الارض إِلا وَفِيهَا مِثْلُ أَبِي زُرْعَةَ يعلم الناس ما جهلوه"

(مسلمان خیر پر قائم رہیں گے جب تک اللہ عزوجل ان کے درمیان ابو زرعہ جیسے لوگ باقی رکھے گا، اور اللہ عزوجل زمین کو کبھی خالی نہیں چھوڑے گا مگر اس میں ابو زرعہ جیسے لوگ ضرور ہوں گے جو لوگوں کو وہ علم سکھائیں گے جو وہ نہیں جانتے)

(الجرح والتعدیل: 1/329-330)

·      قاضی عبد الرحمن بن محمد القزوینی کہتے ہیں: ایک دن یونس بن عبد عبد الاعلی (م 264 ھ) نے ہمیں حدیث سنائی اور کہا: "مجھے ابو زرعہ نے حدیث سنائی۔" تو ایک اہلِ حدیث نے پوچھا: "یہ ابو زرعہ کون ہیں؟" انہوں نے جواب دیا:

"إن أبا زرعة ‌أشهر ‌في ‌الدنيا ‌من ‌الدنيا"

(ابو زرعہ دنیا سے زیادہ دنیا میں مشہور ہیں!)

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 38/28)

ایک دوسری روایت میں امام یونس بن عبد الاعلی (م 264 ھ) نے فرمایا:

"أبو زرعة آية، وإذا أراد الله أن يجعل عبدا من عباده آية جعله"

(ابو زرعہ ایک نشانی (آیت) ہیں، اور جب اللہ اپنے بندوں میں سے کسی کو نشانی بنانا چاہتا ہے تو اُسے (ایسا) بنا دیتا ہے)

(تاریخ بغداد: 10/329)

ایک روایت میں امام یونس بن عبد الاعلی نے فرمایا:

"‌ما ‌رأيت ‌أكثر ‌تواضعا ‌من ‌أبي ‌زرعة، هو وأبو حاتم إماما خراسان"

(میں نے ابو زرعہ سے زیادہ متواضع کسی کو نہیں دیکھا، وہ اور ابو حاتم خراسان کے دونوں امام تھے

(الجرح والتعدیل: 5/325)

·      امام ابو حاتم الرازیؒ (م 277 ھ) فرماتے ہیں:

"‌إذا ‌رأيت ‌الرازي ‌وغيره ‌يبغض ‌أبا ‌زرعة ‌فاعلم ‌أنه ‌مبتدع"

(جب تم کسی رازی یا کسی اور کو ابو زرعہ سے بغض رکھتے دیکھو، تو جان لو کہ وہ بدعتی ہے)

(تاریخ بغداد: 10/328)

اور امام ابن ابی حاتم اپنے والد (ابو حاتم) سے بیان کرتے ہیں کہ ان سے امام ابو زرعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:

"إمام" (وہ امام ہیں

(الجرح والتعدیل: 1/334)

اور ایک جگہ پر ان سے روایت کرتے ہوئے امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں:

"حَدَّثَنِي أبو زرعة عبيد الله بن عبد الكريم بن يزيد القرشي، ‌وما ‌خلف ‌بعده ‌مثله ‌علما ‌وفهما، وصيانة وصدقا، وهذا ما لا يرتاب فيه، ولا أعلم من المشرق والمغرب من كان يفهم مثل هذا الشأن مثله، ولقد كان من هذا الأمر بسبيل"

(ابو زرعہ عبید اللہ بن عبد الکریم بن یزید قرشی نے مجھے حدیث بیان کی، اور انہوں نے اپنے بعد علم، فہم، دیانت اور سچائی میں ان جیسا کوئی پیچھے نہ چھوڑا — اور یہ ایسی بات ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ میں مشرق سے مغرب تک کسی کو نہیں جانتا جو اس علم و فن کو ان کی مانند سمجھتا ہو۔ یقیناً وہ اس میدان کے اہل اور اس راہ پر ثابت قدم تھے)

(تاریخ بغداد: 10/333)

ابن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ امام ابو حاتم کے سامنے امام ابو عبد اللہ محمد بن حماد الطھرانی اور امام ابو زرعہ الرازی کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:

"كان ‌أبو ‌زرعة ‌أفهم ‌من ‌أبي ‌عبد ‌الله الطهراني واعلم منه بكل شئ بالفقه والحديث وغيره"

(ابو زرعہ، ابو عبداللہ طہرانی سے زیادہ فہم رکھنے والے تھے، اور ہر چیز میں — فقہ ہو یا حدیث یا دیگر علوم — ان سے زیادہ علم رکھنے والے تھے)

(الجرح والتعدیل: 1/331)

امام ابو حاتم الرازی ان سے اپنی محبت اور وفاداری پر قائم رہے حتیٰ کہ وفات کے بعد بھی۔ اس کی ایک مثال ان کا یہ قول ہے:

" رحم الله أبا زرعة كان والله مجتهدا في حفظ آثار رسول الله صلى الله عليه وسلم"

(اللہ ابو زرعہ پر رحم فرمائے، وہ واقعی اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو محفوظ رکھنے میں بڑے محنتی تھے)

(تہذیب الکمال للمزی: 19/95-96)

اور ان کے بیٹے عبدالرحمن ابن ابی حاتم نے ان سے یہ کہتے سنا:

"الذي كان يحسن صحيح الحديث من سقيمه، وعنده تمييز ذلك ويحسن علل الحديث أحمد ابن حنبل ويحيى بن معين وعلي بن المديني، وبعدهم أبو زرعة كان يحسن ذلك". قيل لأبي- القائل عبد الرحمن- فغير هؤلاء تعرف اليوم أحداً؟ قال: لا"

(جو صحیح حدیث کو سقیم (ضعیف) سے تمیز دینے کا صحیح ادراک رکھتے تھے، اور حدیث کی علتوں کو بخوبی جانتے تھے، وہ احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، اور علی بن مدینی تھے، اور ان کے بعد ابو زرعہ اس علم میں ماہر تھے۔ امام ابو حاتم سے پوچھا گیا: "ان کے علاوہ کیا آج آپ کسی کو جانتے ہیں؟" انہوں نے جواب دیا: "نہیں")۔

(الجرح والتعدیل: 2/23)

·      امام محمد بن مسلم الرازی المعروف بابن وارۃ (م 270 ھ) فرماتے ہیں:

"إن الله تعالى إذا أراد بقوم خيرا جعل فيهم آية، وإن أبا زرعة آية من آيات الله عز وجل"

(بے شک جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو ان میں ایک نشانی (عظیم شخصیت) پیدا فرما دیتا ہے، اور یقیناً ابو زرعہ اللہ عزوجل کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں)

(الارشاد للخلیلی: 2/680-681)

امام ابن وارۃ نے ایک جگہ فرمایا:

"ما خلف أبو زرعة مثله وكان دربندان العلم"

(ابو زرعہ نے اپنے جیسا کوئی پیچھے نہیں چھوڑا، اور وہ علم کے دربان (نگہبان) تھے)

(الجرح والتعدیل: 1/329، 5/326)

·      امام محمد بن اسحاق الصاغانی (م 270 ھ) نے ایک حدیث کا ذکر کرتے ہوئے کہا – جو انہوں نے کوفہ کی حدیثوں میں سے بیان کی – کہ: "یہ حدیث مجھے ابو زرعہ عبید اللہ بن عبد الکریم نے بتائی۔" تو ان کے پاس بیٹھے ایک شخص نے کہا:
"
اے ابا بکر! کیا ابو زرعہ ان حفاظ میں سے ہیں جنہیں آپ نے دیکھا؟" اور اس نے حفاظ کی ایک جماعت کا ذکر کیا، جن میں الفلاس بھی شامل تھے۔ تو انہوں نے کہا:

" أبو زرعة أعلاهم، لأنه جمع الحفظ مع التقوى والورع، وهو ‌يشبه ‌بأبي ‌عبد ‌الله ‌أحمد ‌بن ‌حنبل"

(ابو زرعہ ان سب سے اعلیٰ ہیں، کیونکہ انہوں نے حفظ کو تقویٰ اور ورع کے ساتھ جمع کیا، اور وہ امام احمد بن حنبل سے مشابہت رکھتے ہیں)۔

(تاریخ بغداد: 10/331)

·      امام ابو زرعہ کے شاگرد اور السنن کے مصنف، امام نسائی (م 303 ھ) نے انہیں اپنے مشائخ میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

"ثقة"

(مشیخۃ النسائی: 127)

·      امام ابن حبانؒ (م 354 ھ) فرماتے ہیں:

"كان أحد أئمة الدنيا في الحديث مع الدين والورع والمواظبة على الحفظ والمذاكرة وترك الدنيا وما فيه الناس"

(وہ حدیث کے علم میں ساری دنیا کے ائمہ میں سے تھے، دین داری، تقویٰ، حفظ اور مذاکرہ پر پابندی، اور دنیا اور لوگوں کی مشغولیات کو ترک کرنے میں ممتاز تھے)

(الثقات لابن حبان: 8/407)

·      امام الحسین بن صالح ابن خیران البغدادی (م 320 ھ) فرماتے ہیں:

"ما ‌رأيت ‌أحدا ‌يحدث ‌لله ‌غير ‌أبي ‌زرعة ‌الرازي، ‌ويحيى ‌الكرابيسي"

(میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو اللہ کے لیے حدیث بیان کرتا ہو، سوائے ابو زرعہ رازی اور یحییٰ کرابیسی کے

(الارشاد للخلیلی: 2/650)

·      امام ابو یعلی الخلیلیؒ (م 446 ھ) فرماتے ہیں:

"فضائله أكثر من أن تعد، وفي تصانيفه لايوازيه أحد"

(ان کی فضیلتیں شمار سے باہر ہیں، اور ان کی تصنیفات میں ان کا کوئی ہم پلہ نہیں

اور فرمایا:

"الإمام المتفق عليه بلا مدافعة بالحجاز والعراق والشام ومصر والجبل وخراسان لا يختلف فيه أحد "

(ابو زرعہ امام ہیں جن کی امامت پر حجاز، عراق، شام، مصر، جبل اور خراسان کے تمام علماء بلا اختلاف متفق ہیں، اور اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں)

(الارشاد للخلیلی: 2/678، 679)

·      امام ابن عبد البرؒ (م 463 ھ) فرماتے ہیں:

" كان أحد الأئمة في علم الحديث، وأعلم الناس بحديث مالك وأحفظهم له، وكان أحمد بن حنبل وابن راهويه وهو تلميذ لهما يعظمانه ويثنيان عليه بالحفظ والفضل والقيام بالسنة "

(وہ حدیث کے علم میں ائمہ میں سے ایک تھے، اور امام مالک کی حدیث کے سب سے بڑے جاننے والے اور سب سے زیادہ حافظ تھے۔ امام احمد بن حنبل اور ابنِ راهویہ (جو ان دونوں کے شاگرد تھے) ان کی بہت تعظیم کرتے، ان کے حفظ، فضیلت اور سنت پر عمل کی بہت تعریف کرتے تھے)

(الاستغناء لابن عبد البر: 726)

·      امام خطیب بغدادیؒ (م 463 ھ) فرماتے ہیں:

" كان إماما ربانيا متقنا حافظا، مكثرا صادقا"

(وہ ایک ربانی امام تھے، ماہر، حافظِ حدیث، کثرت سے روایت کرنے والے اور سچے)

(تاریخ بغداد: 10/325)

·      امام اسماعیل بن محمد الاصبھانیؒ (م 535 ھ) فرماتے ہیں:

" كان أحد أئمة الدنيا في الحديث مع الدين والورع وترك الدنيا وما بها"

(وہ دین، تقویٰ، اور دنیا سے بےرغبتی کے ساتھ حدیث کے علم میں دنیا کے ایک بڑے اماموں میں سے تھے)

(سیر السلف الصالحین: ص 1147)

·      امام شمس الدین الذہبی (م 748 ھ) نے مختلف مقامات پر انہیں کئی عظیم القابات سے یاد کیا ہے مثلا:

" أبو زرعة الإمام حافظ العصر" (تذکرۃ الحفاظ: 579)

" الحافظ أحد الاعلام... مناقبه تطول" (الکاشف: 3568)

" محدث العصر" (المقتنی فی سرد الکنی: 2311)

" هو الإمام حافظ العصر" (العلو: 224)

" الإمام، سيد الحفاظ" (سیر اعلام النبلاء: 13/65)

·      حافظ ابن حجر العسقلانی(م 852 ھ) نے امام ابو زرعہ کے بارے میں فرمایا:

" إمام حافظ ثقة مشهور"

(وہ مشہور ثقہ حافظ تھے)

 (تقریب: 4316)

اورایک جگہ علم العلل پر بحث کرتے ہوئے فرمایا:

"وهو من أغمض أنواع علوم الحديث وأدقها، ولا يقوم به إلا من رزقه الله تعالى فهما ثاقبا وحفظا واسعا ومعرفة تامة بمراتب الرواة، وملكة قوية بالأسانيد والمتون، ولهذا لم يتكلم فيه إلا القليل ‌من ‌أهل ‌هذا ‌الشأن: كعلي بن المديني، وأحمد بن حنبل، والبخاري، ويعقوب بن شيبة، وأبي حاتم، وأبي زرعة، والدارقطني، وقد تقصر عبارة المعلل عن إقامة الحجة على دعواه كالصيرفي في نقد الدينار والدرهم"

(اور یہ (علل الحدیث کا علم) علمِ حدیث کی پیچیدہ ترین اور باریک ترین اقسام میں سے ہے، جسے وہی شخص انجام دے سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے گہری سمجھ، وسیع حفظ، رواة کے درجات کا مکمل علم، اور اسناد و متون پر مضبوط مہارت عطا کی ہو۔ اسی لیے اس بارے میں صرف بہت تھوڑے اہلِ فن نے کلام کیا ہے، جیسے: علی بن المدینی، احمد بن حنبل، بخاری، یعقوب بن شیبہ، ابو حاتم، ابو زرعہ، دارقطنی۔ اور بسا اوقات معلل (علت نکالنے والا) اپنی بات پر دلیل قائم کرنے میں الفاظ کے لحاظ سے قاصر رہتا ہے — جیسے کہ صراف (ماہِر صراف) دینار و درہم کی پرکھ میں

(نزھۃ النظر: ص 92)

اور ایک جگہ انہیں دیگر ائمہ فن کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے انہیں:

" أئمة الحديث المتقدمين" (متقدمین ائمہِ حدیث) میں شمار کیا

(ایضا: ص 126)

ائمہ محدثین کی طرف سے امام ابو زرعہ کی خدماتِ سنت پر تحسین آمیز خطوط:

بعض محدثین نے امام ابو زرعہ کے ساتھ محبت اور قدر دانی کے اظہار کے ایک انداز کو اختیار کرتے ہوئے انہیں خطوط لکھے، جن میں ان کے سلف صالحین کے طریقے پر کاربند رہنے، لوگوں کو سنتِ نبویہ پر عمل کی دعوت دینے، سنت سے محبت دلانے اور رسول اللہ ﷺ کی مخالفت سے ڈرانے جیسے اوصاف کو سراہا گیا۔ نیز مخالفین کے رد میں ان کی کاوشوں کی تحسین کی گئی۔
ذیل میں ایسے بعض ائمہ کی طرف سے لکھی گئی چند تحریریں ذکر کی گئی ہیں۔

·      امام اسحاق بن راہویہ (م 238 ھ) اپنے خط میں امام ابو زرعہ کے لیے لکھتے ہیں:

"إني أزداد بك كل يوم سرورا فالحمد لله الذي جعلك ممن يحفظ سنته وهذا من أعظم ما يحتاج إليه اليوم طالب العلم، وأحمد بن إبراهيم لا يزال في ذكرك الجميل حتى يكاد يفرط، وإن لم يكن فيك بحمد الله إفراط، وأقرأني كتابك إليه بنحو ما أوصيتك من إظهار السنة، وترك المداهنة فجزاك الله خيرا أقدم على ما أوصيتك فإن للباطل جولة ثم يضمحل، وإنك ممن أحب صلاحه وزينه، وإني أسمع من إخواننا القادمين ما أنت عليه من العلم والحفظ فأسر بذلك"

(میں تم سے ہر دن خوشی میں اضافہ پاتا ہوں، پس اللہ کا شکر ہے جس نے تمہیں ان لوگوں میں سے بنایا جو اس کی سنت کو محفوظ رکھتے ہیں، اور یہ آج کے طالب علم کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اور احمد بن ابراہیم (بن خالد الموصلی) تمہارے حسین تذکرے میں مسلسل رہتا ہے، یہاں تک کہ قریب ہے کہ حد سے بڑھ جائے، حالانکہ تم میں بحمد اللہ کوئی افراط نہیں۔ تمہارا وہ خط جو تم نے اس کی طرف بھیجا، میں نے پڑھا، جس میں تم نے اسی بات کی وصیت کی تھی کہ سنت کو ظاہر کیا جائے اور مداہنت (چاپلوسی و نرمی) کو چھوڑا جائے، اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔ تم اس وصیت پر عمل پیرا رہو، کیونکہ باطل کو اگرچہ وقتی طاقت حاصل ہو جائے، بالآخر وہ مٹ جاتا ہے۔ اور تم ان لوگوں میں سے ہو جن کی اصلاح اور خوبصورتی مجھے محبوب ہے، اور میں اپنے آنے والے بھائیوں سے سنتا ہوں کہ تم علم و حفظ کے کس بلند مقام پر ہو، تو میں اس پر خوش ہوتا ہوں)۔

(الجرح والتعدیل: 1/329، 344، 5/325،  وتاریخ دمشق لابن عساکر: 38/29)

·      امام عبد الرحمٰن بن عمر الاصبہانی المعروف برستہ (م 250 ھ) نے اصبہان سے امام ابو زرعہ کو خط میں لکھا:

"اعلم رحمك الله أني ما أكاد أنساك في الدعاء لك ليلي ونهاري أن يمتع المسلمون بطول بقائك فإنه لايزال الناس بخير مابقي من يعرف العلم وحقه من باطله، ولولا ذلك لذهب العلم وصار الناس إلى الجهل، وقد جاء عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين، وقد جعلك الله فيهم فأحمد الله على ذلك فقد وجب لله عز وجل الشكر في ذلك "

(جان لیجیے، اللہ آپ پر رحم فرمائے، کہ میں دن رات آپ کو دعا میں یاد رکھتا ہوں اور بھولتا نہیں، کہ اللہ مسلمانوں کو آپ کی طویل زندگی سے فائدہ دے۔ کیونکہ جب تک ایسے لوگ باقی ہیں جو علم کو اور اس کے حق کو باطل سے پہچانتے ہیں، لوگ بھلائی میں رہیں گے، اگر یہ نہ ہوتے تو علم جاتا رہتا اور لوگ جہالت میں پڑ جاتے۔ اور نبی ﷺ سے یہ بات آئی ہے کہ آپ نے فرمایا:
'
اس علم کو ہر پیچھے آنے والی نسل کے عادل لوگ اٹھائیں گے، وہ اس میں سے غلو کرنے والوں کی تحریف، باطل پرستوں کی جھوٹی نسبتیں، اور جاہلوں کی غلط تاویلات کو دور کریں گے۔' اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان ہی لوگوں میں سے بنایا ہے، پس اللہ کا شکر ادا کریں، کیونکہ اس پر اللہ کا شکر واجب ہے

(الجرح والتعدیل: 1/341)

ائمہ کی ابو زرعہ الرازی کے لیے دعائیں اور محبت کا اظہار:

کبھی کبھار محبت اور قدر دانی کا اظہار دعا کے ذریعے بھی کیا جاتا تھا۔

·      ابن ابی حاتم نے حسن بن احمد بن لیث سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

"میں نے امام احمد بن حنبل کو سنا۔ ایک شخص نے ان سے سوال کیا: ری (الری شہر) میں ایک لڑکا ہے جسے ابو زرعہ کہا جاتا ہے۔ امام احمد اس پر ناراض ہوئے اور کہا: "تم اسے لڑکا کہتے ہو؟" — گویا اس پر نکیر کرتے ہوئے۔ پھر انہوں نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور ابو زرعہ کے لیے دعا کرنے لگے:

" اللهم انصره على من  يغي عليه، اللهم عافه، اللهم ادفع عنه البلاء، اللهم، اللهم، في دعاء كثير"

(اے اللہ! اس پر ظلم کرنے والوں کے خلاف اس کی مدد فرما۔ اے اللہ! اسے عافیت عطا فرما۔ اے اللہ! اس سے بلائیں دور فرما۔ اے اللہ! اے اللہ!' اور بہت سی دعائیں کیں)

حسن کہتے ہیں:

"جب میں (بعد میں) ابو زرعہ کے پاس پہنچا تو میں نے ان سے امام احمد بن حنبل کی یہ دعا ذکر کی، جو میں نے لکھی ہوئی تھی۔ ابو زرعہ نے اسے نقل کر لیا۔ اور مجھ سے کہا: 'جب بھی میں کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا اور امام احمد کی یہ دعا یاد کرتا تو مجھے گمان ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا سے میری مشکل ضرور دور کرے گا۔'"

(الجرح والتعدیل: 1/341)

·      امام محمد بن مسلم الرازی المعروف بابن وارۃ (م 270 ھ) نے ابو زرعہ کی وفات کے تقریبا دو ماہ فرمایا:

"ما قاتني الدعاء لابي زرعة في شئ من صلوات  الفرائض منذ مات أبو زرعة الا امس فابي كنت في التشهد فدخل على بعض الناص فاشتغل به قلبي فنسيت الدعاء ثم دعوت له بعد ما صليت. قيل له ويجوز الدعاء في الفرائض؟ قال: نعم أنا  أدعو لأبي زرعة واسميه في صلواتي"

(ابو زرعہ کی وفات کے بعد فرض نمازوں میں ان کے لیے دعا کرنے سے میں کبھی بھی غافل نہیں ہوا، سوائے کل کے، کہ میں تشہد میں تھا تو کچھ لوگ میرے پاس آ گئے، میرا دل ان کی طرف مشغول ہو گیا اور میں دعا کرنا بھول گیا، پھر نماز کے بعد ان کے لیے دعا کی۔" ان سے پوچھا گیا: "کیا فرض نمازوں میں دعا جائز ہے؟" انہوں نے جواب دیا: "ہاں، میں ابو زرعہ کے لیے دعا کرتا ہوں اور ان کا نام لے کر اپنی نمازوں میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں

(الجرح والتعدیل: 1/342)

امام ابو زرعہ کا فقہی مذہب:

ری (الری) نے بھی، دیگر خراسانی شہروں کی طرح، اسلامی فکری رجحانات کی پیدائش اور اہلِ رائے و اہلِ حدیث سمیت مختلف فقہی مکاتبِ فکر کے اصول و مناہج کی تکمیل کا مشاہدہ کیا۔

ری کے اکثر لوگ امام ابو حنیفہ کے فقہی مکتبِ فکر سے وابستہ تھے، اور امام ابو زرعہ اپنی جوانی کے دور میں انہی کے پیروکاروں میں شامل تھے۔

امام ابو حنیفہ کی پیروی کا دور:

 ابو زرعہ خود کہتے ہیں:

" كان أهل الريّ قد افتتنوا بأبي حنيفة، وكنّا أحداثا نجري معهم، ولقد سألت أبا نعيم، عن هذا، وأنا أرى أني في عمل، ولقد كان الحميدي يقرأ كتاب الرد، ويذكر أبا حنيفة، وأنا أهم بالوثوب عليه، حتى من الله علينا، وعرفنا ضلالة القوم"

(ری کے لوگ امام ابو حنیفہ کے فتنے میں مبتلا ہو چکے تھے، اور ہم (اس وقت) نو عمر تھے، ان کے ساتھ ہی چلتے پھرتے تھے۔
میں نے اس بارے میں ابو نعیم سے سوال کیا، اور (اس وقت) میں سمجھتا تھا کہ میں کسی نیک عمل میں ہوں۔ حمیدی اپنی کتاب ’الرد‘ پڑھا کرتے اور اس میں ابو حنیفہ کا ذکر کرتے، تو میں ان پر جھپٹ پڑنے کا ارادہ کر لیتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان فرمایا اور ہمیں اس قوم کی گمراہی سے آگاہ کر دیا)

(سؤالات البرذعی لابی زرعہ: 2/755)

اس دور میں وہ امام ابو حنیفہ کی فقہ میں بہت دلچسپی رکھتے تھے، یہاں تک کہ انہوں نے امام صاحب کی تصنیف کردہ کتابیں بھی یاد کر لی تھیں۔ ابو بکر محمد بن عمر الرازی الحافظ کہتے ہیں:

"وحفظ ‌كتب ‌أبي ‌حنيفة ‌في ‌أربعين ‌يومًا، فكان يسردها مثل الماء"

(انہوں نے امام ابو حنیفہ کی کتابیں چالیس دن میں حفظ کر لیں، اور انہیں اس روانی سے سناتے تھے جیسے پانی بہہ رہا ہو)۔

(الکمال فی اسماء الرجال للمقدسی: 7/195)

تاہم یہ نہیں معلوم کہ وہ کتنے عرصے تک امام ابو حنیفہ کے مکتب سے وابستہ رہے۔ لگتا ہے کہ یہ عرصہ مختصر ہی تھا، کیونکہ جب ان کا رابطہ اہلِ حدیث سے ہوا تو وہ اہل الرأی سے دور ہوتے گئے، اور انہوں نے احادیثِ نبویہ حفظ کرنے میں خود کو مشغول کر لیا۔

حفظِ حدیث کا دور:

وہ خود بیان کرتے ہیں:

"أول شيء أخذت نفسي بحفظه من الحديث حديث مالك ‌فلما ‌حفظته ‌ووعيته طلبت حديث الثوري وشعبة وغيرهما"

(سب سے پہلے جس چیز کو میں نے حفظ کرنا شروع کیا، وہ امام مالک کی حدیث تھی۔ جب میں نے اسے حفظ کر لیا اور اچھی طرح سمجھ لیا تو پھر میں نے امام سفیان ثوری، شعبہ اور دیگر محدثین کی احادیث کی طرف رجوع کیا)۔

(الانتقاء لابن عبد البر: ص 32)

اس وقت ان کی دلچسپی فقہاء کے اقوال یا مناظروں میں نہ تھی، بلکہ صرف حدیث کی تحصیل میں تھی۔
اپنے بارے میں وہ اس وقت کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جب ان کی ملاقات امام اسماعیل بن یحییٰ المزنی سے ہوئی:

" ما ‌أعلم ‌أني ‌أتيت ‌المزني ‌إلا ‌مرة ‌واحدة مررت به وهو قاعد فسلم على فاستحييت منه فجلست إليه ساعة. فقلت له: سألته عن شئ أو جرى بينك وبينه شئ؟ قال لا لم يكن لي نهمة في الكلام والمناظرة في تلك الأيام وإنما كان نهمتي في كتابة الحديث. "

(مجھے یاد نہیں کہ میں المزنی کے پاس ایک بار سے زیادہ گیا ہوں۔ میں ان کے پاس سے گزرا، وہ بیٹھے تھے، انہوں نے مجھے سلام کیا، میں شرمندہ سا ہوا، بیٹھ گیا۔ کچھ دیر ان کے ساتھ رہا۔ ابنِ ابی حاتم پوچھتے ہیں: کیا آپ نے ان سے کوئی سوال کیا یا کوئی علمی گفتگو ہوئی؟ تو ابو زرعہ نے جواب دیا: نہیں، ان دنوں میری کوئی دلچسپی مناظرہ یا علمی بحث میں نہیں تھی، میری ساری توجہ صرف حدیث لکھنے پر تھی)۔

(الجرح والتعدیل: 2/204)

البتہ اس کے بعد کے عرصے میں، جب انہوں نے حدیث کے تمام طرق و روایات کا وسیع ذخیرہ حفظ کر لیا تو انہوں نے صحابہ، تابعین، اور پھر فقہاء تابعین کی آراء و مسائل جمع کرنا شروع کیے۔

فقہاءِ امصار کے فقہی مسائل  کے جمع ومطالعے کا دور:

ان سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:

"فلما تناهيت في حفظ الحديث نظرت في رأي مالك والثوري، والأوزاعي وكتبت كتب الشافعي"

(جب میں حدیث میں مہارت کو پہنچ گیا تو میں نے امام مالک، سفیان ثوری اور امام اوزاعی کی آراء کا مطالعہ کیا، اور امام شافعی کی کتابیں لکھیں)۔

(الانتقاء لابن عبد البر: ص 32)

ان سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے کہا:

"رأيت فيما يرى النائم كأني في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم، وكأني أمسح يدي على منبر النبي صلى الله عليه وسلم موضع المقعد والذي يليه والذي يليه ثم أمسكته، فقصصته على رجل من أهل سجستان كان معنا بحران. فقال: هذا أنت تعنى بحديث النيي صلى الله عليه وسلم، والصحابة والتابعين وكنت إذ ذاك لا أحفظ كثير شيء من مسائل الأوزاعي ومالك والثوري وغيرهم، ثم عنيت به بعد"

(میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مسجدِ نبوی میں ہوں، اور میں نبی ﷺ کے منبر پر اپنا ہاتھ پھیر رہا ہوں—اس جگہ پر جہاں آپ ﷺ بیٹھا کرتے تھے، پھر اس کے دوسرے اور تیسرے درجے پر، اور میں نے منبر کو تھام لیا۔ میں نے یہ خواب بحرین میں ہمارے ساتھ موجود سیستان کے ایک شخص کو سنایا، تو اس نے تعبیر کی: 'یہ اس بات کی علامت ہے کہ تم نبی ﷺ کی احادیث اور صحابہ و تابعین کی روایات میں مشغول رہو گے'۔ اس وقت تک میں اوزاعی، مالک، ثوری وغیرہ کے مسائل سے زیادہ واقف نہیں تھا، لیکن اس کے بعد میں نے ان پر محنت شروع کر دی)۔

(الجرح والتعدیل: 1/331)

شافعی فقہ کے اعتناء کا دور:

پھر آپ نے امام شافعیؒ کی فقہ پر توجہ دی اور مصر میں  قیام کے دوران 228ھ سے 229ھ تک جو کہ ان کا دوسرا علمی سفر تھا اس میں انہوں نے امام شافعی کی تمام کتابیں جمع کیں، اور آپ نے یہ سب کتابیں امام البویطی کی وفات سے چار سال پہلے، امام ربیع بن سلیمان الجیزی سے سنیں۔
امام ابو زرعہ کہتے ہیں:

"وكنت عزمت في بدو قدومي مصر أني أقل المقام بها فلما رأيت كثرة العلم بها، وكثرة الاستفادة، عزمت على المقام ولم أكن عزمت على سماع كتب الشافعي فلما عزمت على المقام وجهت إلى أعرف رجل بمصر بكتب الشافعي فقبلتها منه بثمانين درهما أن يكتبها كلها وأعطيته الكاغد، وكنت حملت معي ثوبين ديبقيين لأقطعهما لنفسي فلما عزمت على كتابتها أمرت ببيعهما، فبيعا بستين درهما، واشتريت مائة ورقة كاغد بعشرة دراهم كتبت فيها كتب الشافعي"

(میں نے جب مصر آنے کا ارادہ کیا تو ابتدا میں میرا ارادہ تھا کہ وہاں زیادہ دیر قیام نہ کروں، لیکن جب میں نے وہاں علم کی کثرت اور علم حاصل کرنے کے بے شمار مواقع دیکھے تو میں نے قیام کا فیصلہ کر لیا۔ اور میرا ابتدا میں یہ ارادہ نہیں تھا کہ امام شافعیؒ کی کتابیں سنوں، لیکن جب قیام کا ارادہ پختہ کیا تو میں نے مصر میں اس شخص کو تلاش کیا جو امام شافعیؒ کی کتابوں کا سب سے زیادہ جاننے والا تھا۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ تمام کتابیں میرے لیے نقل کر دے۔ میں نے اسے اسی (80) درہم دیے اور کاغذ بھی مہیا کیا۔ میں اپنے ساتھ دو دبق (اعلیٰ کپڑے) لایا تھا کہ اپنے لیے لباس تیار کرواؤں گا، لیکن جب کتابت کا ارادہ کیا تو میں نے حکم دیا کہ وہ دونوں کپڑے فروخت کر دیے جائیں، اور وہ ساٹھ درہم میں بیچے گئے۔ ان میں سے دس درہم سے میں نے سو (100) کاغذ خریدے جن میں امام شافعیؒ کی کتابیں لکھوائیں)۔

(الجرح والتعدیل: 1/340)

یہاں تک کہ آپ مکتبہ شافعیہ کے فروع و اصول دونوں میں ماہر ہو گئے، اور آپ امام شافعیؒ کے بعض شاگردوں کی اجتہادی آراء، ان کی تفریعات اور خود امام کے منہج سے ان کے اختلاف کو پہچاننے لگے۔
خلیلی نے اپنی سند سے ابو عثمان سعید بن عمرو البرذعی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

"لما رجعت إلى مصر وأردت الخروج إلى خراسان أقمت ثانيا عند أبي زرعة الحافظ فعرضت عليه كتاب المزني، فكلما قرأت عليه مما خالف الشافعي جعل أبو زرعة يبتسم ويقول: لم يعمل صاحبك شيئا في اختياره لنفسه لا يمكنه الانفصال فيما ادعى. قلت: هل سمعت منه شيئا؟ قال: لا، وما جالسته إلا يومين"

(جب میں مصر سے واپس آیا اور خراسان جانے کا ارادہ کیا تو میں دوبارہ امام ابو زرعہ حافظؒ کے پاس ٹھہرا، اور ان کے سامنے امام المزنی کی کتاب پیش کی۔ جب بھی میں اُن کے سامنے کوئی ایسی بات پڑھتا جو امام شافعیؒ سے مختلف ہوتی تو ابو زرعہ مسکراتے اور فرماتے: تمہارے صاحب (مزنی) نے اپنے لیے جو رائے اختیار کی، اس میں کچھ بھی قابلِ اعتبار کام نہیں کیا، کیونکہ وہ جو دعویٰ کر رہے ہیں اس سے خود کو الگ نہیں کر سکتے (یعنی وہ دعویٰ مضبوط نہیں کہ اس پر قائم رہ سکیں)۔ میں نے پوچھا: کیا آپ نے مزنی سے کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، میں نے ان کے ساتھ صرف دو دن مجلس کی ہے)۔

(الارشاد للخلیلی: 1/431)

امام احمد بن حنبل کے فقہی مذہب کی ترجیح کا دور:

اس علمی سرمائے کی تحصیل کے علاوہ، امام ابو زرعہ نے اپنے عظیم شیخ امام احمد بن حنبل کے فقہی مذہب کا بھی مطالعہ کیا۔

چنانچہ قاضی ابو الحسین محمد بن ابی یعلی الفراء نے انہیں ان لوگوں میں شمار کیا ہے جنہوں نے امام احمد سے فقہ روایت کی۔ (طبقات الحنابلہ: 1/7)۔

اور امام ابو بکر خلال نے ذکر کیا ہے کہ:

"أَبُو زرعة وأبو حاتم خال أبي زرعة إمامان فِي الحديث رويا عَنْ أبي عبد اللَّه مسائل كثيرة وقعت إلينا متفرقة كلها غرائب وكانا عالمين بأحمد بن حنبل يحفظان حديثه كله"

(ابو زرعہ اور ابو حاتم — جو کہ ابو زرعہ کے خالہ زاد بھائی ہیں — حدیث کے دو بڑے امام تھے۔ انہوں نے امام ابو عبد اللہ (یعنی امام احمد بن حنبل) سے بہت سے مسائل روایت کیے جو ہم تک مختلف انداز سے پہنچے، اور یہ تمام مسائل نادر و غریب (یعنی غیر معروف یا منفرد) تھے۔ یہ دونوں امام احمد بن حنبل کے بارے میں خوب جاننے والے تھے، اور ان کی تمام احادیث کو یاد رکھتے تھے)

(طبقات الحنابلہ: 1/199)

اسی طرح امام ذہبی اپنی سند سے امام ابن ابی حاتم سے روایت کرتے ہیں کہ:

"حدثنا أبو زرعة، وقيل له: ‌اختيار ‌أحمد ‌وإسحاق أحب إليك، أم قول الشافعي؟ قال: بل اختيار أحمد فإسحاق، ما أعلم في أصحابنا أسود الرأس أفقه من أحمد بن حنبل، وما رأيت أحدا أجمع منه"

(ہمیں ابو زرعہ نے بتایا، جب ان سے پوچھا گیا: "آپ کو امام احمد اور امام اسحاق کا اختیار (رائے) زیادہ محبوب ہے یا امام شافعی کا قول؟" تو انہوں نے جواب دیا: "بلکہ مجھے امام احمد اور پھر امام اسحاق کا اختیار زیادہ محبوب ہے۔ میں اپنے اصحاب میں (یعنی ہم عصر علماء میں) کسی کالی داڑھی والے کو امام احمد بن حنبل سے زیادہ فقیہ (ماہرِ فقہ) نہیں جانتا، اور میں نے ان سے زیادہ جامع (علم و عمل میں کامل) کسی کو نہیں دیکھا۔")

(سیر اعلام النبلاء: 11/205، وشرح علل الترمذی: 1/482)

امام ابو زرعہ کا درجہِ اجتہاد پر فائز ہونا:

اس تفصیلی جائزے کے بعد، جس میں امام ابو زرعہ رحمہ اللہ کی ائمہ اربعہ و دیگر فقہائے تابعین کے فقہی مذاہب پر وسیع گرفت، اور ساتھ ہی ان کی نبی کریم ﷺ کی سنت سے براہِ راست اخذ کردہ فہم، اور صحابہ کرامؓ کے آثار پر گہری بصیرت کا ذکر ہوا، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ:

کیا ابو زرعہ کسی ایک مخصوص فقہی مکتب پر جمے رہے؟

یا انہوں نے کوئی مستقل طریقہ، مخصوص منہج، یا مشہور فقہی مسلک اختیار کیا؟
یا وہ صرف ان حفاظِ حدیث میں شامل رہے جو احادیث، آثار، اور فقہاء کے اقوال کو محفوظ رکھتے ہیں، لیکن ان سے احکام اخذ کرنے (اجتہاد) کی قدرت نہیں رکھتے — جیسا کہ امام ابن القیم کا نقطہ نظر ہے، جنہوں نے علماء کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:

"قسم حفاظ معتنون بالضبط، والحفظ، والآداء كما سمعوا ولا يستنبطون ولا يستخرجون كنوز ما حفظوه، وقسم معتنون بالاستنباط، واستخراج الأحكام من النصوص والتفقه فيها. فالأول كأبي زرعة وأبي حاتم وابن وارة، وقبلهم كبندار محمد بن بشار، وعمرو الناقد، وعبد الرزاق، وقبلهم كمحمد بن جعفر وسعيد بن أبي عروبة، وغيرهم من أهل الحفظ والإتقان والضبط لما سمعوه من غير استنباط وتصرف، واستخراج الأحكام من ألفاظ النصوص"

(ایک گروہ وہ ہے جو حفاظ ہیں، ان کا سارا زور روایت کو محفوظ رکھنے، اس کے الفاظ کی درستگی، اور جیسا سنا ویسا ہی آگے پہنچانے پر ہوتا ہے، مگر وہ استنباط اور احکام کے استخراج کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
دوسرے وہ ہیں جو نصوص سے احکام نکالنے، گہرائی سے سمجھنے، اور فقیہانہ بصیرت سے کام لینے میں مہارت رکھتے ہیں۔
پہلے گروہ میں ابو زرعہ، ابو حاتم، ابن وارہ، اور ان سے پہلے بندار، عمرو الناقد، عبدالرزاق، محمد بن جعفر، سعید بن ابی عروبة، اور ان جیسے دیگر حفاظ شامل ہیں۔ یہ سب اپنی سنی ہوئی روایات کو ضبط اور اتقان کے ساتھ نقل کرتے تھے، لیکن ان سے فقہی احکام اخذ نہیں کرتے تھے)۔

(الوابل الصیب لابن القیم: ص 59)

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے " أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية" کے مصنف کہتے ہیں:

اس میں کوئی شک نہیں کہ ابو زرعہ ان حفاظِ حدیث میں سے ہیں جنہیں ضبط، اتقان، اور حفظِ حدیث میں اعلیٰ مقام حاصل ہے، اور جن کی مہارت پر محدثین نے گواہی دی ہے۔
لیکن وہ صرف حافظ نہیں، بلکہ وہ حدیث کے فقیہ بھی تھے۔ امام حاکم نے انہیں "فقہاءِ محدثین" میں شمار کیا ہے، اور انہیں بھی امام زہری، امام اوزاعی، امام ابن عیینہ، امام ابن المبارک، امام یحییٰ القطان، امام ابن مہدی، امام احمد بن حنبل، امام علی بن المدینی وغیرہ جیسے ائمہ کی فہرست میں ذکر کیا ہے۔

اور امام حاکم نے ان فقہاءِ محدثین کے تراجم سے پہلے "فقہ الحدیث" کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے لکھا:

"النوع العشرون من هذا العلم بعد معرفة ما قدمنا ذكره من صحة الحديث إتقانا ومعرفة لا تقليدا وظنا معرفة فقه الحديث إذ هو ‌ثمرة ‌هذه ‌العلوم، وبه قوام الشريعة، فأما فقهاء الإسلام أصحاب القياس والرأي والاستنباط والجدل والنظر فمعروفون في كل عصر وأهل كل بلد، ونحن ذاكرون بمشيئة الله في هذا الموضع فقه الحديث، عن أهله ليستدل بذلك على أن أهل هذه الصنعة من تبحر فيها لا يجهل فقه الحديث إذ هو نوع من أنواع هذا العلم فممن أشرنا إليه من أهل الحديث محمد بن مسلم الزهري"

(ان تمام اقسام کے بعد جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا، یعنی حدیث کی صحت کو محض تقلید یا گمان سے نہیں بلکہ تحقیق، مہارت، اور یقین کے ساتھ جانچنے کے بعد— فقہ الحدیث کو جاننا اس علم کی ایک بیسوی اہم شاخ ہے؛ کیونکہ فقہ الحدیث ان علوم کا ثمرہ (نتیجہ) ہے، اور اسی سے شریعت کا نظام قائم رہتا ہے۔ جہاں تک فقہاءِ اسلام کا تعلق ہے، یعنی وہ لوگ جو قیاس، رائے، استنباط، مناظرہ اور تحقیق کے اہل ہوتے ہیں، تو وہ ہر زمانے اور ہر علاقے میں معروف ہیں۔ اور ہم یہاں ان شاء اللہ اس مقام پر ان محدثین کا ذکر کریں گے جو فقہ الحدیث کے ماہر تھے، تاکہ یہ بات واضح ہو کہ اس فن (حدیث) کے جو لوگ گہرے ماہر تھے، وہ فقہ الحدیث سے بے بہرہ نہیں ہوتے، بلکہ فقہ الحدیث، علم حدیث کی ہی ایک قسم ہے)۔

(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم: ص 63)

امام حاکم کا یہ قول امام ابن القیم کے اس مخصوص موقف کی تردید کرتا ہے۔

حاکم کے اس قول کی بنیاد پر، ہمارا رجحان اس طرف ہے کہ امام ابو زرعہ نے فقہ میں امام احمد بن حنبل کی طریقت اختیار کی اور وہ ان کے پیروکاروں میں شامل ہو گئے۔ ممکن ہے کہ ان کا مقام ان مجتہدین جیسا ہو جو کسی امام کے مذہب کے اندر رہ کر اجتہاد کرتے ہیں، یعنی وہ ان ائمہ کے قواعد و اصول سے باہر نہیں نکلتے بلکہ ان پر بنیاد رکھتے ہوئے تفریع (نئے مسائل کا استخراج) کرتے ہیں۔

ہم آگے امام احمد بن حنبل کے استنباطِ احکام (شریعت کے احکام نکالنے کے طریقے) کی تفصیل اور ابو زرعہ کی ان کی پیروی کے بعض شواہد پیش کریں گے۔

حافظ ابن رجب بیان کرتے ہیں کہ جب فرضی مسائل کا سامنا ہوتا ہے تو علماء تین اقسام میں تقسیم ہو جاتے ہیں، پھر وہ کہتے ہیں کہ ان میں سب سے بہتر طریقت امام احمد بن حنبل کی ہے۔ وہ علماء کی تقسیم یوں بیان کرتے ہیں:

"...وأما فقهاء أهل الحديث العاملون به، فإن معظم همهم البحث عن معاني كتاب الله عز وجل، وما يفسره من السنن الصحيحة، وكلام الصحابة والتابعين بإحسان، وعن سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وصحيحها وسقيمها، ثم الفقه فيها وتفهيمها والوقوف على معانيها، ثم معرفة كلام الصحابة والتابعين لهم بإحسان في أنواع العلوم من التفسير والحديث، ومسائل الحلال والحرام، وأصول السنة، والزهد والرقائق، وغير ذلك. وهذه هي طريقة الإمام أحمد ومن وافقه من أهل الحديث الربانيين"

(۔۔۔رہی بات اہل حدیث فقہاء کی جو عمل بھی کرتے ہیں، تو ان کی زیادہ تر توجہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے معانی کی تلاش، اس کی تفسیر کرنے والی صحیح احادیث، صحابہ اور تابعین کے اقوال پر ہوتی ہے۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کو جانچتے ہیں، صحیح و ضعیف میں فرق کرتے ہیں، اس میں غور کرتے ہیں، اس کی تفہیم حاصل کرتے ہیں، اس کے معانی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح وہ صحابہ و تابعین کے اقوال کو بھی تلاش کرتے ہیں — تفسیر، حدیث، حلال و حرام کے مسائل، اصولِ سنّت، زہد و رقائق اور دیگر علوم میں۔ یہی امام احمد بن حنبل اور ان کے موافق اہلِ حدیث ربانیین کا طریقہ ہے)۔

ابن رجب آگے لکھتے ہیں:

" وفي معرفة هذا شغل شاغل عن التشاغل بما أحدث من الرأي مما لا ينتفع به ولا يقع، وإنما يورث التجادل فيه الخصومات والجدال وكثرة القيل والقال "

(ایسے علم میں مشغول ہونا انسان کو ان نئے پیدا کردہ آراء اور قیاسات سے بے نیاز کر دیتا ہے جن کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا کوئی حقیقی وقوع ہوتا ہے، بلکہ ان میں بحث صرف جھگڑوں، مناظروں، اور فضول باتوں کو جنم دیتی ہے)۔

(المدخل الی مذہب الامام احمد: ص 44-45)

یہی طریقہ تھا امام احمد بن حنبل اور ان کے پیروکار محدثین کا۔ ان کے اجتہاد اور فتویٰ کا اصل سرمایہ کتاب اللہ عزوجل کے بعد رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد درجہ میں صحابہ کرام کے اقوال اور فتاویٰ اور پھر تابعین کی آراء کو رکھتے تھے۔

ابو زرعہ بھی اسی طریقے پر کاربند تھے، چنانچہ ان کا قول ہے:

"عجبت ممن يفتي في مسائل الطلاق يحفظ أقل من مائة ألف حديث"

(مجھے تعجب ہوتا ہے اس شخص پر جو طلاق کے مسائل میں فتویٰ دیتا ہے، حالانکہ وہ ایک لاکھ احادیث سے بھی کم یاد رکھتا ہے۔"

(الارشاد للخلیلی: 6/681، وسیر اعلام النبلاء: 13/69)

یہ قول اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ فتویٰ دینے کے لیے حدیث کا وسیع ذخیرہ لازم سمجھتے تھے، بالکل امام احمد کے منہج پر۔

اسی اثر کا ایک اور اظہار ابو زرعہ کا یہ قول ہے:

"اختيار أحمد وإسحاق أحب إليّ من قول الشافعي، وما أعرف في أصحابنا أسود الرأس أفقه من أحمد"

"احمد اور اسحاق کا انتخاب مجھے شافعی کے قول سے زیادہ محبوب ہے، اور میں اپنے ہم عصروں میں کسی کالی داڑھی والے کو احمد بن حنبل سے زیادہ فقیہ نہیں جانتا۔"

(سیر اعلام النبلاء: 11/205، وشرح علل الترمذی: 1/482)

ابن عبد البر نے بھی نقل کیا ہے کہ ابو زرعہ نے کہا:

"جس نے میراث کی تقسیم سے پہلے اسلام قبول کر لیا، تو وہ میراث کا حق دار ہے۔"

(التمہید: 2/59)

یہ مسئلہ انہوں نے اپنے امام احمد کے قول کے مطابق بیان کیا۔

ابو زرعہ کی فقہی اور دینی خوبیوں کی تعریف ان کے ایک ساتھی نے ایک خوبصورت شعری انداز میں یوں کی:

فتى حنبلي الرأي لا يتبع الهوى
ولكنه من خشية الله يحذر
"
وہ ایک نوجوان ہے، جس کی رائے حنبلی منہج پر ہے، وہ خواہشِ نفس کی پیروی نہیں کرتا بلکہ اللہ کے خوف سے بچتا ہے۔"

يؤدي عن الآثار لا الرأي همه
وعن سلف الأخيار ما سئل يخبر
"
اس کا شوق احادیث (آثار) کو بیان کرنا ہے نہ کہ اپنی رائے دینا۔ جب سلف صالحین کے اقوال پوچھے جائیں تو وہ خوب بتاتا ہے۔"

فتى صيغ من فقه بل الفقه صوغه
مثال عبيد الله ما فيه يشكر
"
وہ ایک ایسا نوجوان ہے جو گویا فقہ سے ڈھالا گیا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ فقہ خود اس سے ڈھلی ہے۔ عبید اللہ کی مثال ایسی ہے، جس میں ہر پہلو قابلِ تحسین ہے ۔"

تمنى رجال أن يكونوا كمثله
وقد شيبتهم في الرياسة أعصر
"
بڑے بڑے لوگ آرزو کرتے ہیں کہ کاش وہ اس جیسے ہوتے — حالانکہ امارت و سرداری میں ان کے سر کے بال سفید ہو چکے ہیں۔"

(الجرح والتعدیل: 1/373)

عقیدہ اور عقیدے کے بارے میں ان کے اقوال

بہت سے سلفِ صالحین کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے عقیدے کو اپنی تصنیفات و مؤلفات میں قلم بند کرتے، یا اپنے شاگردوں کے سامنے بیان کرتے۔ امام ابو زرعہ کا طریقہ بھی اہلِ حدیث کے دیگر ائمہ جیسا ہی تھا۔ تاہم، ہمارے علم میں ایسی کوئی مستقل تصنیف نہیں آئی جو انہوں نے خود عقیدے کے موضوع پر لکھی ہو۔ البتہ ان کے قریبی شاگرد، ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب (أصل السنة واعتقاد الدين) میں اپنے والد (ابو حاتم) اور ابو زرعہ دونوں کا عقیدہ بیان کیا ہے، اور اسی سے بعد کے علماء نے ان کا عقیدہ اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔

ان میں سے:

·        جلیل القدر امام، ابو القاسم ہبۃ اللہ بن حسین بن منصور الطبری اللالکائی نے اپنی مشہور کتاب (شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة من الكتاب والسنة وإجماع الصحابة والتابعين ومن بعدهم) میں اس عقیدہ کو اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ان کی سند اس طرح ہے: محمد بن المظفر المقرئ ß حسین بن محمد بن حبش المقرئ ß ابو محمد عبد الرحمن بن ابی حاتم۔

·       اسی طرح حافظ ذہبی نے اپنی کتاب (العلو للعلي الغفار) میں ان کا کچھ عقیدہ اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے، جو یوں ہے: احمد بن ابی الخیر  ß یحییٰ بن یونس  ß ابو طالب الیوسفی  ß ابو اسحاق البرمکی  ß علی بن عبد العزیز  ß عبد الرحمن بن ابی حاتم۔

·       امام ابن قیم الجوزیہ نے بھی اپنی کتاب (اجتماع الجيوش الإسلامية على غزو المعطلة والجهمية) میں اس عقیدہ کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

اب ہم ان کا مکمل بیان کردہ عقیدہ نقل کریں گے، اور اس کے بعد عقیدے کے متعلق ان کے کچھ منتشر اقوال بھی پیش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے توفیق کا طالب ہوں۔

ابن ابی حاتم اور ابو القاسم لالکائی کی کتابوں سے عقیدے کا اصل متن:

امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں:

"سألت أبي وأبا زرعة رضي الله عنهما عن مذاهب (أهل السنة) في أصول الدين وما أدركا عليه العلماء في جميع الأمصار وما يعتقدان من ذلك؟ فقالا:

أدركنا العلما (ء) في جميع الأمصار حجازا وعراقاً ومصراً وشاما ويمناً فكان من مذهبهم إن:

(میں نے اپنے والد (ابو حاتم) اور ابو زرعہ رضی اللہ عنہما سے اہلِ سنت کے اصولِ دین میں عقیدے کے بارے میں پوچھا، اور یہ بھی دریافت کیا کہ انہوں نے مختلف علاقوں کے علماء کو کس عقیدے پر پایا، اور خود ان دونوں کا کیا عقیدہ ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا:

ہم نے تمام علاقوں — حجاز، عراق، مصر، شام اور یمن — کے علماء کو اس عقیدے پر پایا کہ:

١- الإيمان قول وعمل يزيد وينقص

ایمان: قول و عمل کا نام ہے، جو بڑھتا اور گھٹتا ہے

٢- والقرآن كلام الله غير مخلوق بجميع جهاته،

قرآن: اللہ کا کلام ہے، تمام پہلوؤں سے غیر مخلوق ہے

٣- والقدر خيره وشره من الله

اچھی اور بُری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے

٤- وخير هذه الأمة بعد نبيها عليه السلام أبو بكر الصديق ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ثم علي بن أبي طالب رضي الله عنهم وهم الخلفاء الراشدون المهديون

اس امت میں نبی ﷺ کے بعد سب سے افضل ابو بکر صدیق، پھر عمر بن خطاب، پھر عثمان بن عفان، پھر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم ہیں، یہ سب خلفائے راشدین مہدیین ہیں

٥- وإن العشرة الذين سماهم رسول الله صلى الله عليه وسلم وشهد لهم بالجنة على ماشهد به رسول (الله صلى الله عليه وسلم وقوله الحق،

وہ دس صحابہ (عشرہ مبشرہ) جن کے نام رسول اللہ ﷺ نے لیے اور جن کے بارے میں جنت کی گواہی دی، ہم ان کے بارے میں وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اور آپ کا فرمان حق ہے۔

٦- والترحم على جميع أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، والكف عما شجر بينهم

تمام اصحابِ محمد ﷺ پر رحمت بھیجی جائے، اور جو ان کے درمیان اختلافات پیش آئے ان میں پڑنے سے اجتناب کیا جائے

٧- وإن الله عز وجل على عرشه بائن من خلقه كما وصف نفسه في كتابه وعلى لسان رسوله صلى الله عليه وسلم بلا كيف، أحاط بكل شيء علما ليس كمثله شيء وهو السميع البصير،

اور بے شک اللہ عزوجل اپنے عرش پر ہے، اپنی مخلوق سے جدا ہے، جیسا کہ اس نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول ﷺ کی زبان پر اپنا وصف بیان کیا ہے، بغیر کسی کیفیت کے (یعنی ہم اس کی کیفیت بیان نہیں کرتے)، اس کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، اس جیسا کوئی نہیں، اور وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے

٨- والله تبارك وتعالى يُرى في الآخرة، يراه أهل الجنة بأبصارهم ويسمعون كلامه كيف شاء وكما شاء

اللہ تبارک و تعالیٰ کو آخرت میں دیکھا جائے گا، جنت والے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، اور اس کا کلام سنیں گے جیسے وہ چاہے اور جس طرح وہ چاہے

٩- والجنة والنار حق وهما مخلوقتان لايفنيان أبدا والجنة ثواب لأوليائه والنار عقاب لأهل معصيته إلا من رحم،

جنت اور دوزخ حق ہیں، اور یہ دونوں مخلوق ہیں، کبھی فناء نہیں ہوں گی۔ جنت اُس کے اولیاء کے لیے بدلہ ہے، اور دوزخ اُس کے نافرمانوں کے لیے سزا ہے، سوائے ان کے جن پر وہ رحم فرمائے

١٠- والصراط حق

(پلِ) صراط حق ہے

١١- والميزان له كفتان توزن فيه أعمال العباد حسنها وسيئتها حق

میزان (ترازو) کے دو پلڑے ہیں، جن میں بندوں کے اعمال—اچھے اور برے—تولے جائیں گے، اور یہ (عقیدہ) حق ہے

١٢- والحوض المكرم به نبينا صلى الله عليه وسلم حق

اور وہ حوض (آب کوثر) جس سے ہمارے نبی ﷺ کو سرفراز کیا گیا، حق ہے

١٣- والشفاعة حق

شفاعت حق ہے

١٤- وإن ناسا من أهل التوحيد يخرجون من النار بالشفاعة حق

اور بے شک اہل توحید میں سے کچھ لوگ شفاعت کے ذریعے جہنم سے نکالے جائیں گے، یہ بات حق ہے

١٥- وعذاب القبر حق

قبر کا عذاب حق ہے

١٦- ومنكر ونكير والكرام الكاتبين حق

منکر ونکیر (قبر میں سوال وجواب والے فرشتے)، اور کراماً کاتبین (اعمال لکھنے والے فرشتے) حق ہیں

١٧- والبعث من بعد الموت حق

موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا  حق ہے

١٨- وأهل الكبائر في مشيئة الله عز وجل

کبیرہ گناہوں والے اللہ عز وجل کی مشیّت (مرضی) پر موقوف ہیں

١٩- لا نكفر أهل القبلة بذنوبهم ونكل سرائرهم إلى الله عز وجل

ہم اہلِ قبلہ کو ان کے گناہوں کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیتے، اور ان کے باطنی معاملات کو اللہ عزوجل کے سپرد کرتے ہیں

٢٠- ونقيم فرض الجهاد والحج مع أئمة المسلمين في كل دهر وزمان

ہم ہر دور اور زمانے میں مسلمانوں کے حکمرانوں کے ساتھ جہاد اور حج کے فرض کو قائم رکھتے ہیں

٢١- ولا نرى الخروج على الأئمة ولا القتال في الفتنة ونسمع ونطيع لمن ولاه الله عز وجل أمرنا

ہم ائمہ (حکمرانوں) کے خلاف خروج (بغاوت) کو درست نہیں سمجھتے، نہ ہی فتنہ کے وقت قتال کو جائز مانتے ہیں، اور ہم اُس شخص کی بات سنتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں جسے اللہ عزوجل نے ہمارے امور کا والی (حاکم) بنایا ہو

٢٢- ولا ننزع يداً من طاعة

اور ہم (والیِ امر کی) اطاعت سے ہاتھ نہیں کھینچتے

٢٣- ونتبع السنة والجماعة ونجتنب الشذوذ والخلاف والفرقة

ہم سنت اور جماعت کی پیروی کرتے ہیں، اور شذوذ، اختلاف اور تفرقہ سے بچتے ہیں

٢٤- وإن الجهاد ماض مذ بعث الله نبيه صلى الله عليه وسلم إلى قيام الساعة مع أولي الأمر من أئمة المسلمين لا يبطله شيء

بے شک جہاد جاری ہے جب سے اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو مبعوث فرمایا ہے، قیامت کے دن تک، مسلمانوں کے ائمہ و حکمرانوں کے ساتھ، اور کوئی چیز اسے باطل نہیں کر سکتی

٢٥- والحج كذلك.

اور حج (کا) بھی (یہی معاملہ ہے)

٢٦- ودفع الصدقات من السوائم إلى أولي الأمر من أئمة المسلمين.

اور چرنے والے جانوروں (زکوٰۃ کے مال) کی صدقات، مسلمانوں کے ائمہ (حاکموں) کو ادا کی جائیں

٢٧- والناس مؤمنون في أحكامهم ومواريثهم ولا ندري ما هم عند الله

فمن قال (إنه مؤمن حقا) فهو مبتدع ومن قال (إنه مؤمن عند الله) فهو من الكاذبين، ومن قال (إني مؤمن بالله) فهو مصيب،

لوگ (دنیاوی) احکام اور وراثت کے معاملات میں مؤمن (سمجھے) جاتے ہیں، لیکن ہم نہیں جانتے کہ وہ اللہ کے نزدیک کیا ہیں۔
چنانچہ:جس نے کہا: "میں یقیناً مؤمن ہوں" تو وہ بدعتی ہے۔ اور جس نے کہا: "میں اللہ کے نزدیک مؤمن ہوں" تو وہ جھوٹوں میں سے ہے۔ اور جس نے کہا: "میں اللہ پر ایمان رکھتا ہوں" تو وہ درست ہے۔

 

٢٨- والمرجئة مبتدعة ضلال

مرجئہ گمراہ بدعتی ہیں

٢٩- والقدرية مبتدعة ضلال ومن أنكر منهم أن الله يعلم ما يكون قبل أن يكون فهو كافر

قدریہ گمراہ بدعتی ہیں، اور ان میں سے جو یہ دعوی کرے کہ اللہ کو وہ سب کچھ معلوم نہیں ہے جو ہونے والا ہے، وہ کافر ہے

٣٠- وإن الجهمية كفار،

جہمیہ کفار ہیں

٣١- والرافضة رفضوا الاسلام

رافضیوں نے اسلام کو ترک کر دیا ہے

٣٢- والخوارج مرّاق

اور خوارج دین سے نکل جانے والے ہیں

٣٣- ومن زعم أن القرآن مخلوق فهو كافر كفراً ينقل عن الملة، ومن شك في كفره ممن يفهم فهو كافر

اور جس نے یہ گمان کیا کہ قرآن مخلوق ہے تو وہ کافر ہے، ایسا کفر جو اسے ملتِ اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے، اور جو شخص عقل و فہم رکھنے کے باوجود اس کے کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔

٣٤- ومن شك في كلام الله فوقف فيه شاكا يقول لا أدري مخلوق أم غير مخلوق فهو جهمي،

اور جو اللہ کے کلام کے بارے میں شک میں پڑ جائے اور کہے: "میں نہیں جانتا کہ یہ مخلوق ہے یا غیر مخلوق" تو وہ "جہمی" (یعنی جہمیہ فرقے کا) ہے۔

٣٥- ومن وقف في القرآن جاهلا علم وبدّع ولم يكفر.

اور جو قرآن کے بارے میں محض جہالت کے سبب توقف کرے ، اسے علم دیا جائے گا، بدعتی قرار دیا جائے گا مگر کافر نہیں کہا جائے گا۔

٣٦- ومن قال: (لفظي بالقرآن مخلوق أو القرآن بلفظي مخلوق فهو جهمي).

اور جس نے کہا: "میرا قرآن کا تلفظ مخلوق ہے" یا "قرآن میرے تلفظ سے مخلوق ہے" تو وہ بھی جہمی ہے

 

قال أبو محمد: سمعت أبي وأبا زرعة:

١- يأمران بهجران أهل الزيغ والبدع ويغلظان بذلك أشد التغليظ

امام ابو محمد (ابن ابی حاتم) فرماتے ہیں: میں نے اپنے والد اور ابو زرعہ کو سنا:

وہ اہلِ زیغ و بدعت کے ساتھ تعلق ختم کرنے کا حکم دیتے تھے، اور اس معاملے میں سخت ترین انداز اختیار کرتے تھے،

٢- وينكران وضع الكتب بالرأي غير آثار

اور وہ آثار (احادیث و آثارِ سلف) کے علاوہ رائے (یعنی محض عقل و قیاس) پر مبنی کتابیں لکھنے کو ناپسند کرتے اور اس کی تردید کرتے تھے،

٣- وينهيان عن مجالسة أهل الكلام وعن النظر في كتب المتكلمين

اور وہ اہلِ کلام کی مجلسوں میں بیٹھنے سے منع کرتے تھے اور متکلمین  کی کتابوں کے مطالعے سے بھی روکتے تھے،

٤- ويقولان: "لا يفلح صاحب كلام أبداً".

اور وہ دونوں (ابو زرعہ اور ابو حاتم) کہا کرتے تھے: "کلام (علمِ کلام) کا حامل کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔"

 

ثم قال أبو محمد: "وبه أقول أنا".

پھر ابو محمد نے کہا: "اور میں بھی اسی عقیدے پر ہوں۔"

 

امام ابو زرعہ کا صحابہ کرام پر طعن کرنے والوں کے بارے میں موقف:

خطيب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو زرعہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

"إذا رأيت الرجل ينتقص أحداً من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعلم أنه زنديق وذلك أن الرسول صلى الله عليه وسلم عندنا حق والقرآن حق، وإنما أدى إلينا هذا القرآن والسنن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وإنما يريدون أن يجرحوا شهودنا ليبطلوا الكتاب والسنة والجرح بهم أولى وهم زنادقة"

(جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے کسی صحابی کو برا کہہ رہا ہے، تو جان لو کہ وہ زندیق (منافق اور دین کا دشمن) ہے۔ اس لیے کہ ہمارے نزدیک رسول اللہ ﷺ حق ہیں، اور قرآن حق ہے، اور ہمارے پاس یہ قرآن اور سنت رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ہی کے ذریعے پہنچے ہیں۔ تو یہ لوگ دراصل ہمارے گواہوں (یعنی صحابہ) کو مجروح کرنا چاہتے ہیں تاکہ کتاب (قرآن) اور سنت کو باطل ٹھہرائیں۔ پس خود ان (طعن کرنے والوں) پر طعن زیادہ مناسب ہے، اور بے شک وہ زندیق ہیں۔"

(الکفایہ فی علم الروایہ: ص 49)

امام ابو زرعہ کا صفاتِ الٰہی سے متعلق احادیث کے بارے میں موقف:

ابو زرعہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

"الأخبار التي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الرؤية وخلق آدم على صورته والأحاديث التي في النزول ونحو هذه الأخبار: المعتقد من هذه الأخبار: مراد النبي صلى الله عليه وسلم والتسليم بها حدثني أبو موسى الأنصاري قال: قال سفيان بن عيينة ماوصف الله تبارك وتعالى به نفسه في كتابه: فقراءته تفسيره ليس لأحد أن يفسره إلا الله"

(وہ روایات جو رسول اللہ ﷺ سے روایت ہوئی ہیں، جیسے رؤیت (یعنی آخرت میں اللہ کو دیکھنے) کی حدیث، اور 'اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا'، اور نزول (اللہ تعالیٰ کے آسمانِ دنیا پر نزول) سے متعلق احادیث، اور اسی طرح کی دیگر احادیث — ان کے بارے میں عقیدہ یہی ہے کہ ان میں رسول اللہ ﷺ کی مراد کو تسلیم کیا جائے اور ان پر ایمان لایا جائے۔ ابو موسیٰ انصاری نے مجھے بیان کیا، کہا: سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا: "جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنی صفت کے بارے میں بیان فرمایا ہے، تو اس کی تلاوت ہی اس کی تفسیر ہے، اس کی اللہ کے سوا کوئی اور تفسیر نہیں کر سکتا۔")

(طبقات الحنابلہ لابن ابی یعلی: 1/201)

صحابہ کرامؓ میں تفصیل کے بارے میں امام ابو زرعہؒ کا عقیدہ:

·       امام ابو زرعہؒ سے پوچھا گیا:

"من الذي شهد على علي بن أبي طالب بتفضيل أبي بكر وعمر رضي الله عنهما؟ "

(علی بن ابی طالبؓ پر ابو بکرؓ اور عمرؓ کی فضیلت کی گواہی کس نے دی؟)

تو ابو زرعہؒ نے فرمایا:

"روى ذلك من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أبو موسى وأبو هريرة، وعمرو بن حريث، وأبو جحيفة، ومن التابعين محمد بن الحنفية، وعبد خير، وعلقمة، وأبو هلال العلي "

(یہ بات رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے ان حضرات نے روایت کی ہے: ابو موسیٰ، ابو ہریرہ، عمرو بن حریث، ابو جحیفہ؛ اور تابعین میں سے: محمد بن الحنفیہ، عبد خیر، علقمہ، اور ابو ہلال العَلی)۔

(طبقات الحنابلہ: 1/202)

·       امام ابن عبد البر نے اپنی سند سے ابوعلی حسن بن احمد بن لیث الرازی سے روایت کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:

"سألت أحمد بن حنبل فقلت يا أبا عبد الله من تفضل؟ قال أبو بكر وعمر وعثمان وعلي وهم الخلفاء. فقال يا أبا عبد الله إنما أسألك عن التفضيل من تفضل؟ قال أبو بكر وعمر وعثمان وعلي، وهم الخلفاء المهديون الراشدون، ورد الباب في وجهي"

(میں نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا: اے ابا عبداللہ! آپ کس کو افضل مانتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: ابوبکر، عمر، عثمان اور علی؛ اور یہی خلفاء ہیں۔ میں نے پھر کہا: اے ابا عبداللہ! میں آپ سے صرف تفضیل کے بارے میں پوچھ رہا ہوں، آپ کس کو افضل مانتے ہیں؟ تو امام احمدؒ نے دوبارہ وہی فرمایا: ابوبکر، عمر، عثمان اور علی، یہی خلفاء مہدیون راشدون ہیں، اور انہوں نے دروازہ میرے منہ پر بند کر دیا)۔

ابو علی کہتے ہیں: پھر میں ری (شہر) آیا اور ابو زرعہ سے اس واقعے کا ذکر کیا۔ ابو زرعہ نے فرمایا:

"لا نبالي من خالفنا نقول أبو بكر وعمر وعثمان وعلي في الخلافة والتفضيل جميعا هذا ديني أدين الله به، وأرجو أن يقبضني الله عليه"

(ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ کون ہم سے اختلاف کرتا ہے۔ ہم یہی کہتے ہیں کہ خلافت اور تفضیل دونوں میں ابوبکر، عمر، عثمان، اور علیؓ کی ترتیب یہی ہے۔ یہی میرا دین ہے، میں اسی دین پر اللہ کی بندگی کرتا ہوں ، اور امید ہے کہ اللہ اسی پر مجھے وفات دے)۔

(جامع بیان العلم لابن عبد البر: 2315)

·       اور حافظ ابن عساکر نے اپنی سند سے روایت کیا ہے کہ ابو زرعہ رازی کے بھتیجے ابو القاسم نے کہا:

"جاء رجل إلى عمي أبي زرعة فقال له يا أبا زرعة أنا ‌أبغض ‌معاوية قال لم قال لأنه قاتل علي بن أبي طالب قال فقال له عمي إن رب معاوية رب رحيم وخصم معاوية خصم كريم فأيش دخولك أنت بينهما رضي الله عن هم أجمعين"

(ایک شخص میرے چچا ابو زرعہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: "اے ابو زرعہ! میں معاویہ سے بغض رکھتا ہوں۔" انہوں نے پوچھا: "کیوں؟" اس نے کہا: "اس لیے کہ وہ علی بن ابی طالب سے لڑے تھے۔" تو میرے چچا نے اس سے فرمایا: "معاویہ کا رب بہت رحم کرنے والا ہے، اور معاویہ کا خصم (مد مقابل) نہایت کریم (باعزت) ہے، تو تمہارا ان دونوں کے معاملے میں کیا دخل؟ اللہ ان سب سے راضی ہو۔)

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 59/141 ، واسنادہ حسن)

بعض فرقوں کے بارے میں ان کا قول:

قاضی ابو الحسین ابن ابی یعلى نے اپنی سند کے ساتھ احمد بن صالح سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں: میں نے ابو زرعہ رازی کو یہ کہتے سنا:

"إذا رأيت الكوفي يطعن على سفيان الثوري وزائدة فلا تشك أنه رافضي.

وإذا رأيت الشامي يطعن على مكحول والأوزاعي فلا تشك أنه ناصبي.

وإذا رأيت الخراساني يطعن على عبد الله بن المبارك: فلا تشك أنه مرجئ،

واعلم أن هذه الطوائف كلها مجمعة على بغض أحمد بن حنبل لأن ما منهم أحد إلا وفي قلبه منه سهم لابرء له"

(جب تم کسی کوفی کو سفیان ثوری اور زائدہ پر طعن کرتے دیکھو تو شک نہ کرو کہ وہ رافضی ہے۔
اور جب کسی شامی کو مکحول اور اوزاعی پر طعن کرتے دیکھو تو شک نہ کرو کہ وہ ناصبی ہے۔
اور جب کسی خراسانی کو عبداللہ بن مبارک پر طعن کرتے دیکھو تو شک نہ کرو کہ وہ مرجئہ ہے۔
اور جان لو کہ یہ تمام فرقے امام احمد بن حنبل سے بغض رکھنے پر متفق ہیں، کیونکہ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے دل میں ان (امام احمد) کے خلاف ایک ایسا تیر نہ ہو جس کا زخم بھرنے والا نہ ہو

(طبقات الحنابلہ: 1/200)

امام ابو زرعہ کا زہد اور تقوی:

علم کا اصل مقصد اللہ کی رضا، اس کا خوف، اور اس کی طرف رجوع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "اللہ سے اس کے بندوں میں صرف علما ہی ڈرتے ہیں۔" (سورۃ فاطر: 28) بہترین علم وہ ہے جو آخرت کا راستہ دکھائے، اور یہ صرف قرآن و سنت کی پیروی سے حاصل ہوتا ہے۔ امام جنید بغدادی فرماتے ہیں: "الطرق كلها مسدودة على الخلق إلا على من اقتفى آثار الرسول صلى الله عليه وسلم" (تمام راستے مخلوق پر بند ہیں، سوائے اس کے جو رسول اللہ ﷺ کے نقشِ قدم پر چلے (مدارک السالکین: 2/464)

اسی لیے محدثین و علما دنیا سے زہد اختیار کرتے تھے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے دنیا کو ٹھکرا دیا حالانکہ وہ چاہتے تو ساری دولت حاصل کر سکتے تھے۔ امام ابو زرعہ رازی بھی انہی زاہد علما میں سے تھے۔

·       حافظ ابن کثیر ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

"كان فقيهاً، ورعاً، زاهداً، عابدا متواضعا خاشعا أثنى عليه أهل زمانه بالحفظ، والديانة، وشهدوا له بالتقدم على أقرانه"

(وہ فقیہ، پرہیزگار، زاہد، عبادت گزار، متواضع اور خشوع رکھنے والے تھے۔ ان کے زمانے کے لوگوں نے ان کے حفظ اور دیانت کی تعریف کی، اور ان کے ہم عصر علما پر ان کی برتری کی گواہی دی)

(البدایہ والنہایہ: 11/44)

·       امام ابو حاتم الرازی نے انہیں ان چار زاہدوں میں شمار کیا جن سے تعجب کیا جاتا۔ وہ کہتے ہیں:

"أزهد من رأيت أربعة: آدم بن أبي إياس، وثابت بن محمد الزاهد، وأبو زرعة، وَذكر آخر"

(جن لوگوں کو میں نے سب سے زیادہ زہد والا پایا وہ چار تھے: آدم بن ابی ایاس، ثابت بن محمد الزاہد، ابو زرعہ، اور آپ نے ایک اور شخص کا ذکر کیا)

(من روی عنھم البخاری فی الصحیح لابن عدی: ص 109)

·       امام محمد بن اسحاق الصاغانی (م 270 ھ) سے ان کے بارے میں پوچھا گیا جبکہ ان کے سامنے حفاظ کی ایک جماعت کا ذکر کیا گیا، تو انہوں نے فرمایا:

"أبو زرعة أعلاهم، لأنه جمع الحفظ مع التقوى والورع، وهو ‌يشبه ‌بأبي ‌عبد ‌الله ‌أحمد ‌بن ‌حنبل"

(ابو زرعہ ان سب سے اعلیٰ ہیں، کیونکہ انہوں نے حفظ کو تقویٰ اور ورع کے ساتھ جمع کیا، اور وہ امام احمد بن حنبل سے مشابہت رکھتے ہیں)۔

(تاریخ بغداد: 10/331)

·       امام  ابو زرعہ نے زہد کے موضوع پر ایک کتاب تصنیف کی۔ بعض زہد پر لکھنے والے مصنفین نے اس کا ذکر کیا ہے۔

·       نیز ابن الجوزی نے اپنی کتاب "صفۃ الصفوۃ" جو صالحین اور اخیار کے ذکر کے ساتھ مختص ہے، میں ان کے لیے الگ سے ایک ترجمہ درج کیا ہے۔ (2/290 ت 673)۔

ابو زرعہ کے زہد میں امتیاز کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے دور کے بڑے زاہدوں جیسے بشر حافی، احمد بن حنبل، اور دیگر عباد و زہاد کی صحبت اختیار کی، ان سے روایت کی اور ان کے اقوال و احوال کو محفوظ رکھا۔ ان کا زہد اعتدال پسند اور سنت پر مبنی تھا، نہ کہ غلو آمیز، جیسا کہ ابن ابی حاتم کا ان سے سنا ہوا ایک قول ظاہر کرتا ہے۔

·       ابو زرعہ کہتے ہیں:

"لو كان لي صحة بدن على ما أريد كنت أتصدق بمالي كله، وأخرج إلى طرسوس أو إلى ثغر من الثغور، وآكل من المباحات وألزمها"، ثم قال: "إني لألبس الثياب لكي إذا نظر إلي الناس لا يقولون قد ترك أبو زرعة الدنيا، ولبس الثياب الدون، وإني لآكل ما يقدم إليّ من الطيبات، والحلواء لكي لا يقول الناس إن أبا زرعة لا يأكل الطيبات لزهده، وإني لآكل الشيء الطيب، وما مجراه عندي، ومجرى غيره من الأدم إلا واحد، وألبس الثياب الجياد، ودونه من الثياب عندي واحد، لأن جميعاً يعملان عملاً واحداً، ومن أحب أن يسلم من لبسه الثياب يلبسه لستر عورته فإنه إذا نوى هذا، ولم ينو غيره سلم"

(اگر میرے جسم میں اتنی صحت ہوتی جیسا کہ میں چاہتا ہوں، تو میں اپنا سارا مال صدقہ کر دیتا، اور طرسوس یا کسی سرحدی محاذ کی طرف نکل جاتا، اور صرف مباح چیزوں سے گزارا کرتا اور وہیں ڈٹا رہتا۔" پھر فرمایا: "میں اچھے کپڑے اس لیے پہنتا ہوں تاکہ لوگ مجھے دیکھ کر یہ نہ کہیں کہ ابو زرعہ نے دنیا چھوڑ دی ہے اور معمولی کپڑے پہن لیے ہیں۔ میں عمدہ کھانے اور میٹھے بھی اس لیے کھا لیتا ہوں تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ ابو زرعہ زہد کی وجہ سے اچھی چیزیں نہیں کھاتے۔ میں لذیذ کھانے کو بھی کھاتا ہوں، حالانکہ میرے نزدیک اس کی حیثیت بھی عام سالن جیسی ہی ہے۔ اسی طرح میں اچھے کپڑے بھی پہنتا ہوں، حالانکہ میرے نزدیک ان کی وقعت کم درجے کے کپڑوں جیسی ہی ہے، کیونکہ دونوں کام ایک جیسے ہی انجام دیتے ہیں۔ اور جو شخص چاہے کہ وہ لباس پہننے میں سلامتی پائے، تو اسے چاہیے کہ وہ اسے صرف ستر چھپانے کی نیت سے پہنے۔ جب وہ صرف یہی نیت کرے اور کچھ اور ارادہ نہ کرے، تو وہ (ریا وغیرہ سے) محفوظ رہے گا)

(الجرح والتعدیل: 1/348)

·       اور انہوں نے امام ابو زرعہ کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا:

"كنت فيما مضى وأنا صحيح، وربما أخذتني الحمى فأضعف، وأجد لذلك ألماً، وأنا اليوم ربما حممت، وربما لم أحم فلا أجد لشيء مما أنا فيه ألماً أظن في نفسي أنه كذا ينبغي أن يكون"

(پہلے جب میں تندرست ہوتا تھا، اور کبھی مجھے بخار آ جاتا تو میں کمزور پڑ جاتا، اور اس کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتا۔ لیکن آج، کبھی بخار آتا ہے، اور کبھی نہیں بھی آتا، مگر میں اپنی حالت میں کسی چیز کی کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتا۔ مجھے اپنے بارے میں گمان ہوتا ہے کہ شاید ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔)

(الجرح والتعدیل: 1/348)

ان کا یہ طرزِ عمل سفیان ثوری اور احمد بن حنبل سے تأثر کی نشاندہی کرتا ہے۔
امام سفیان ثوری نے کہا:

"الزهد في الدنيا قصر الأمل، ليس بأكل الغليظ، ولا لبس العباء"

(دنیا سے زہد کا مطلب (صرف) موٹا کھانا کھانا یا کھردری چادر پہننا نہیں، بلکہ زہد دنیا میں امید کو مختصر رکھنا ہے)۔

(الجرح والتعدیل: 1/101)

اور احمد بن حنبل سے پوچھا گیا:

"وسئل أحمد بن حنبل عن الرجل يكون معه ألف دينار، هل يكون زاهداً؟ فقال: نعم، على شريطة أن لا يفرح إذا زادت، ولا يحزن إذا نقصت"

(اگر کسی شخص کے پاس ایک ہزار دینار ہوں، تو کیا وہ زاہد ہو سکتا ہے؟" تو انہوں نے فرمایا: "ہاں، بشرطیکہ وہ اس وقت خوش نہ ہو جب مال بڑھ جائے، اور غمگین نہ ہو جب مال کم ہو جائے۔")

(مدارج السالکین: 2/11)

رسول اللہ ﷺ کے طرزِ عمل اور سنت کے سب سے زیادہ مشابہ:

امام ابو زرعہ الرازیؒ کو رسول اللہ ﷺ کے طریقۂ زندگی (سمت) اور سنت (ہدایت) کی گہری معرفت حاصل تھی، اور وہ ان کی خوب حفاظت کرتے تھے — حتیٰ کہ جو بھی انہیں دیکھتا، اسے یوں محسوس ہوتا کہ یہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کوئی شخصیت ہے۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنتوں پر، کھانے پینے، لباس اور دیگر معاملات میں انتہائی حرص سے عمل کرتے تھے، گویا وہ خود حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔

امام ابن ابی حاتم کے شاگرد، قاضی حافظ ابو الحسن علی بن حسین الدرستینی نے فرمایا:

" كان يقال عبد الله بن مسعود يشبه بالنبي صلى الله عليه وسلم ‌سمتا ‌وهديا وقال عبد الله: من أراد أن ينظر إلى سمتي وهديي فلينظر إلى علقمة وقال علقمة مثل ذلك في إبراهيم النخعي وقال إبراهيم مثل ذلك في منصور بن المعتمر وقال منصور مثل ذلك في سفيان الثوري وقال سفيان مثل ذلك في وكيع بن الجراح وقال وكيع مثل ذلك في أحمد بن حنبل وقال أحمد مثل ذلك في أبي زرعة الرازي وقال أبو زرعة مثل ذلك في عبد الرحمن بن أبي حاتم"

(کہا جاتا تھا کہ عبد اللہ بن مسعود نبی ﷺ کے طرز اور سنت میں سب سے زیادہ مشابہ تھے۔ اور عبد اللہ (بن مسعود) نے فرمایا:

"جو شخص میرے طرزِ عمل اور طریقہ کو دیکھنا چاہے، وہ علقمہ کو دیکھ لے۔"

علقمہ نے یہی بات ابراہیم نخعی کے بارے میں کہی۔
ابراہیم نے یہی بات منصور بن معتمر کے بارے میں کہی۔
منصور نے یہی بات سفیان ثوری کے بارے میں کہی۔
سفیان نے یہی بات وکیع بن الجراح کے بارے میں کہی۔
وکیع نے یہی بات امام احمد بن حنبل کے بارے میں کہی۔
امام احمد نے یہی بات ابو زرعہ الرازی کے بارے میں کہی۔
اور ابو زرعہ نے یہی بات عبد الرحمن بن ابی حاتم کے بارے میں کہی

(الارشاد للخلیلی: 2/567)

وفات:

 اس زندگی کے بعد، جو سفروں، حدیث کی طلب، اس کی اشاعت و روایت، اور طلبۂ علم کو رسولِ کریم ﷺ کی سنت پر عمل کی ترغیب دینے سے بھرپور تھی — اُنہیں ایک بیماری نے آ لیا، جو کچھ مدت تک جاری رہی، اور اسی بیماری کے سبب اُن کا وقتِ وفات آ پہنچا۔

امام ابو حاتم نے ان کے آخری وقت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا:

" مَاتَ أَبُو زُرْعَةَ مَطْعُونًا مَبْطُونًا يَعْرَقُ جَبِينُهُ فِي النَّزْعِ فَقُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ: مَا تَحْفَظُ فِي تَلْقِينِ الْمَوْتَى لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ؟ فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ: يُرْوَى عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ - فَمَنْ قَبِلَ أَنْ يَسْتَتِمَّ رَفَعَ أَبُو زُرْعَةَ رَأْسَهُ وَهُوَ فِي النَّزْعِ فَقَالَ: رَوَى عبد الحميد ابن جَعْفَرٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي عَرِيبٍ عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مُعَاذٍ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم: مَنْ كَانَ آخِرُ كَلامِهِ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ. فَصَارَ الْبَيْتُ ضَجَّةً بِبُكَاءِ مَنْ حَضَرَ""

(ابو زرعہ کی وفات طاعون اور پیٹ کی بیماری میں ہوئی، اور نزع کے عالم میں ان کا ماتھا پسینے سے تر تھا۔ میں (ابو حاتم) نے محمد بن مسلم (ابن وارۃ) سے پوچھا: "آپ موت کے وقت لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنے کے بارے میں کیا روایت جانتے ہیں؟" تو محمد بن مسلم نے کہا: "یہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کیا جاتا ہے۔" اتنے میں ابو زرعہ نے، جو نزع کے عالم میں تھے، اپنا سر اٹھایا اور خود حدیث کی سند بیان کرتے ہوئے فرمایا: "عبدالحمید بن جعفر نے، صالح بن ابی عریب سے، انہوں نے کثیر بن مرہ سے، انہوں نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے، اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی: 'جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔' یہ سن کر گھر میں موجود تمام لوگ زاروقطار رونے لگے

اور ان کے بھتیجے نے فرمایا:

"سمعت أبا زرعة يقول في مرضه الذي مات فيه: اللهم إني أشتاق إلى رؤيتك، فإن قال لي بأي عمل اشتقت إلي؟ قلت: برحمتك يا رب"

میں نے ابو زرعہ کو اپنے مرضِ موت میں یہ کہتے سنا: "اے اللہ! میں تیری زیارت کا مشتاق ہوں، اور اگر تو مجھ سے پوچھے: کس عمل کی بنیاد پر تُو مجھ سے ملنے کا مشتاق ہے؟ تو میں عرض کروں: اے میرے رب! تیری رحمت کی وجہ سے۔"

(الجرح والتعدیل: 1/345-346)

آپ نے شہرِ  ری میں پیر کے دن وفات پائی اور منگل کے دن دفن کیے گئے، یہ ذوالحجہ کا آخری دن تھا، اور سن 264 ہجری تھا۔ پس وہ 64 برس کی عمر میں فوت ہوئے۔

(دیکھیں: تاریخ بغداد: 10/335)

امام محمد بن مسلم بن وارہ کہتے ہیں:

" رأيت أبا زرعة فِي المنام، فَقُلْتُ لَهُ: ما فعل بك ربك؟ قال: أحمد اللَّه عَلَى الأحوال كلها، إني حضرت فوقفت بَيْنَ يدي اللَّه تَعَالَى، فَقَالَ لي: يا عُبَيد اللَّه لَمْ تذرعت القول فِي عبادي؟ قُلْت: يا رب إنهم حاربوا دينك. فَقَالَ: صدقت، ثُمَّ أتى بطاهر الخلقاني فاستعديت عَلَيْهِ إِلَى ربي تَعَالَى فضرب الحد مئة ثُمَّ أمر بِهِ إِلَى الحبس، ثم قال: ألحفوا عُبَيد اللَّه بأَصْحَابه بأبي عَبد اللَّهِ وأبي عَبد اللَّهِ: سُفْيَان الثَّوْرِي، ومَالِك بْن أَنَس، وأَحْمَد بْن حنبل."

(میں نے ابو زرعہ کو خواب میں دیکھا، تو میں نے ان سے پوچھا: آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا گیا؟ انہوں نے کہا: میں ہر حال پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ میں (مرنے کے بعد) حاضر ہوا تو اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا: اے عبیداللہ! تو نے میرے بندوں کے بارے میں فتویٰ دینے میں اتنی جرأت کیوں کی؟ میں نے عرض کیا: اے رب! انہوں نے تیرے دین سے جنگ کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو نے سچ کہا۔ پھر طاہر الخلقانی کو لایا گیا، تو میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے خلاف شکایت کی، تو اسے سو کوڑوں کی سزا دی گئی، پھر اسے قید میں ڈالنے کا حکم دیا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عبیداللہ کو اس کے ساتھیوں کے ساتھ ملا دو: ابو عبداللہ، ابو عبداللہ، ابو عبداللہ: یعنی سفیان ثوری، مالک بن انس، اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ)

(الجرح والتعدیل: 1/346، تاریخ بغداد: 10/334-335، الارشاد للخلیلی: 1/284)

 

 

0/کمنٹس: