فہرست
مضامین
- متنِ حدیث:
- صحابی کے تعین میں اختلاف:
- ترجیح اور تجزیہ
- نتیجہ:
- یحیی بن ابی کثیر کے سماع میں اختلاف:
- راجح موقف:
- ابو جعفر کون ہے؟
- ابو جعفر المؤذن اور محمد الباقر میں تفریق کے دلائل:
- پہلی دلیل: محمد الباقر مؤذن نہیں تھے:
- دوسری دلیل: ابو جعفر المؤذن انصاری تھے، جبکہ امام محمد الباقر قرشی ہاشمی:
- تیسری دلیل: ابو جعفر المؤذن کے شیوخ میں سیدنا ابو ہریرہ موجود ہیں جبکہ محمد الباقر کی ان سے روایت منقطع ہے:
- چوتھی دلیل: ابن حجر العسقلانی کی صریح تنبیہ:
- اس سند میں ابو جعفر سے مراد ابو جعفر المؤذن ہونے کے دلائل:
- پہلی دلیل: مہمل راوی کی تمییز کے اصول
- دوسری دلیل: امام دارمیؒ (م 255ھ) کی گواہی:
- تیسری دلیل: امام مسلم بن حجاجؒ (م 261 ھ) کی گواہی:
- چوتھی دلیل: امام ترمذیؒ (م 279 ھ) کی وضاحت:
- پانچویں دلیل: امام ابو بکر البزارؒ (م 292 ھ) کی گواہی:
- چھٹی دلیل: امام ابو احمد الحاکمؒ (م 378 ھ) کی گواہی:
- ساتویں دلیل: امام ابن عبد البرؒ (م 463 ھ) کی گواہی:
- آٹھویں دلیل: حافظ الاشبیلیؒ (م 581 ھ) کی گواہی:
- نویں دلیل: حافظ ابن القطان الفاسیؒ (م 628 ھ) کی گواہی:
- دسویں دلیل: امام منذری (م 656 ھ) کی گواہی:
- گیارہویں دلیل: امام شوکانیؒ (م 1250 ھ) کی گواہی:
- بارہویں دلیل: علامہ شمس الحق عظیم آبادیؒ (م 1329 ھ) کی گواہی:
- ابو جعفر المؤذن کا مجہول الحال ہونا محدثین کی نظر میں:
- 1- حافظ عبد الحق الاشبیلیؒ (م 581 ھ) کا قول:
- 2- حافظ ابن القطان الفاسی (م 628 ھ) کا قول:
- 3- امام منذری (م 656 ھ) کا قول:
- 4- امام شمس الدین ذہبیؒ (م 748 ھ) کا قول:
- 5- حافظ صدر الدین المناوی (م 803 ھ) کا قول:
- 6- حافظ ابن حجر العسقلانیؒ (م 852 ھ) کا قول:
- 7- علامہ بدر الدین العینی الحنفی (م 855 ھ) کا قول:
- 8- علامہ ابو محمد حسن بن علی بن سلیمان البدر القاھری (م 870 ھ) کا قول:
- 9- علامہ عبد الرؤوف المناویؒ (م 1031 ھ) کا قول:
- 10- امام شوکانیؒ (م 1250 ھ) کا قول:
- 11- علامہ الحسن بن احمد بن یوسف الرباعی الصنعانی (م 1276 ھ) کا قول:
- 12- علامہ نواب صدیق حسن خانؒ (م 1307 ھ) کا قول:
- 13- محدث العصر شیخ ناصر الدین البانیؒ (م 1420 ھ) کا قول:
- 14- فقیہ العصر، شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازؒ (م 1420 ھ) کا قول:
- 15- سعودی عرب کی فتوی کمیٹی، اللجنہ الدائمہ کا فیصلہ:
- 16- شیخ شعیب الارناؤطؒ (م 1438 ھ) کا قول:
- 17- محدثِ کبیر، شیخ ابو اسحاق الحوینیؒ (م 1446 ھ) کا قول:
- 18- محدثِ مدینہ شیخ عبد المحسن العباد کا قول:
- 19- محدثِ مصر، شیخ مصطفی العدوی کا قول:
- ابو جعفر المدنی کی توثیق سے متعلق پیش کردہ دلائل کا تجزیاتی جائزہ
- پہلا استدلال: کیا یحییٰ بن ابی کثیر صرف ثقہ راویوں سے روایت کرتے ہیں؟
- اس پر تبصرہ:
- امام یحیی بن ابی کثیر کے بعض مجہول مشائخ:
- امام ابو حاتم الرازی کی جانب سے یحییٰ کے بعض شیوخ کو مجہول کہنا:
- دوسرا استدلال: امام ترمذی کا ابو جعفر کی ایک روایت کو حسن کہنا
- "حسن" کا مفہوم امام ترمذی کے ہاں مختلف ہے:
- امام ترمذی کئی ایسی احادیث کو "حسن" کہتے ہیں جن میں وہ خود ضعف کی نشاندہی کرتے ہیں:
- محدثین کا امام ترمذی کو تحسین کے معاملے میں متساہل قرار دینا:
- تیسرا استدلال: امام ابن حبان کا ابو جعفر کی روایت کو اپنی صحیح میں ذکر کرنا
- پہلی بات: ابن حبان کا ابو جعفر کو محمد الباقر سمجھنا:
- دوسری بات: ابن حبان کا توثیق میں متساہل ہونا:
- چوتھا استدلال: امام نووی کا ابو جعفر کی روایت کو "صحیح علی شرط مسلم" کہنا:
- پانچواں استدلال: امام ذہبی کا اس روایت کو "اسنادہ صالح" کہنا
- "اسنادہ صالح" کا مفہوم امام ذہبی کے نزدیک:
- دوسرا جواب: امام ذہبیؒ کے نزدیک اس سند میں ابو جعفر کا تعین:
- خلاصہ ونتائجِ بحث:
- اس حدیث کا صحیح مفہوم:
- وعید کا تکبر کے ساتھ مشروط ہونا:
- سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول:
- امام نوویؒ کا قول:
- علامہ طیبیؒ (م 743 ھ)
- شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا قول:
- علامہ محمد بن علی ابن علان الشافعی (م 1057 ھ) کا قول:
- وضوء کا اعادہ بطورِ تنبیہ اور کفارہِ گناہ کے لیے ہونا:
- علامہ طیبیؒ (م 743 ھ) کا قول:
- امام ابن القیمؒ (م 751 ھ) کا قول:
- علامہ ابن علانؒ (م 1057 ھ) کا قول:
- عدمِ قبول" کا مطلب "عدمِ ثواب" ہونا، نہ کہ نماز کا باطل ہونا:
- علامہ طیبیؒ (م 743 ھ) کا قول
- علامہ حسن بن علی القاہری (م 870 ھ) کا قول
- علامہ عینی حنفیؒ (م 855 ھ) کا قول:
- علامہ ابن علان (م 1057 ھ) کا قول:
- علامہ ابن بازؒ (م 1420 ھ) کا قول:
- الشبکہ الاسلامیہ کا فتوی:
متنِ حدیث:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں:
حدثنا يونس بن محمد، قال: حدثنا
أبان، وعبد الصمد قال: حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي جعفر، عن عطاء بن يسار، عن بعض
أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: بينما رجل يصلي وهو مسبل إزاره إذ قال له
رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اذهب فتوضأ "، قال: فذهب فتوضأ، ثم
جاء، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اذهب فتوضأ "، قال: فذهب
فتوضأ، ثم جاء فقال: يا رسول الله؟ ما لك أمرته يتوضأ؟ ثم سكت قال: " إنه كان
يصلي وهو مسبل إزاره وإن الله عز وجل لا يقبل صلاة عبد مسبل إزاره "
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر
نماز پڑھ رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ جا کر دوبارہ وضو
کرو، دو مرتبہ یہ حکم دیا اور وہ ہر مرتبہ وضو کر کے آگیا، لوگوں نے پوچھا یا رسول
اللہ! کیا بات ہے کہ پہلے آپ نے اسے وضو کا حکم دیا پھر خاموش ہوگئے، نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا یہ تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ
تعالیٰ ایسے شخص کی نماز قبول نہیں فرماتا۔
(مسند احمد: 16628، 23217)
اس حدیث کی روایت میں راویوں نے صحابی کے ذکر میں اختلاف کیا ہے۔ بعض نے صحابی
کے نام کو مبہم رکھا ہے اور بعض نے یہاں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا
ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
صحابی کے تعین میں اختلاف:
امام احمد رحمہ
اللہ کی مذکورہ بالا روایت میں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ:
1- دو راویوں کی
روایت میں صحابی کا نام مبہم ہے:
- ابان بن یزید العطار (بطریق یونس بن
محمد المؤدب)
- ہشام الدستوائی
ان دونوں کی روایت
میں صحابی کا ذکر ان الفاظ سے کیا گیا ہے:
"عن
بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم"
2- ابان بن یزید
العطار کی ایک دوسری روایت میں صحابی کی تعیین ہے:
- ابان بن یزید کی، یحییٰ بن ابی کثیر
سے ایک دوسری سند میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی
گئی ہے۔
امام ابو داؤد
رحمہ اللہ نے اس کو یوں روایت کیا ہے:
حدثنا موسى بن
إسماعيل، حدثنا أبان، حدثنا يحيى، عن أبي جعفر، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة،
قال:
"بينما رجل يصلي
مسبلا إزاره إذ قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اذهب فتوضأ»... "
(سنن
ابی داؤد: 638، 4086)
اس روایت میں صحابی
کا نام واضح طور پر سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بتایا گیا ہے۔
3- ایک اور شاگرد حرب
بن شداد کی روایت:
یحییٰ بن ابی کثیر
کے ایک تیسرے شاگرد حرب بن شداد نے بھی یہی روایت بیان کی ہے، لیکن یہاں
بھی صحابی کا نام مبہم ہے:
"أن
رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم حدثه"
ترجیح اور
تجزیہ
مذکورہ تفصیل کی
روشنی میں ہم درج ذیل نکات اخذ کرتے ہیں:
- امام یحییٰ بن ابی کثیر سے یہ روایت تین
شاگردوں نے نقل کی:
1.
ابان بن یزید العطار
2.
ہشام الدستوائی
3.
حرب بن شداد
- ان تینوں کی مشترکہ روایت میں
صحابی کا نام نہیں ہے۔
- صرف ابان بن یزید العطار کی ایک مختلف سند میں
صحابی کا نام سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مذکور ہے۔
نتیجہ:
- جمہور (اکثریت) کی روایت میں صحابی
کا نام مبہم ہے، جبکہ صرف ایک روایت میں تعیّن (یعنی نام کی
وضاحت) موجود ہے۔
- اصولِ حدیث کے تحت، جمہور کی روایت کو ترجیح
حاصل ہوتی ہے، خاص طور پر جب وہ متعدد قابل اعتماد راویوں سے منقول ہو۔
- مزید یہ کہ ہشام الدستوائی، امام
یحییٰ بن ابی کثیر کے سب سے معتبر شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں، اس وجہ سے ان
کی روایت کو بھی ترجیح حاصل ہے۔
یحیی بن ابی کثیر کے سماع میں اختلاف:
اس روایت میں یحییٰ
بن ابی کثیر کی ابو جعفر سے سماع (براہِ راست سننے) کے بارے میں اختلاف
پایا جاتا ہے۔ مختلف رواۃ کی روایتوں میں اس حوالے سے درج ذیل تفصیلات سامنے آتی
ہیں:
1- ابان بن یزید
العطار کی روایت:
- سند: "يحيى
بن أبي كثير عن أبي جعفر عن عطاء بن يسار"
- اس روایت میں یحییٰ کا ابو جعفر سے
سماع صراحتاً مذکور نہیں۔
2- ہشام الدستوائی کی
روایت:
ہشام الدستوائی سے منقول روایتوں میں دو مختلف طرح
کی صورتیں پائی جاتی ہیں:
- بغیر تصریح سماع کے روایت:
- راوی: عبد الصمد بن عبد الوارث (ثقہ)
- راوی: خالد بن الحارث الہجیمی (ثقہ ثبت)
ان دونوں کی روایت میں یحییٰ بن ابی کثیر نے ابو جعفر سے سماع کی تصریح نہیں کی۔ - تصریحِ سماع کے ساتھ روایت:
- راوی: یزید بن ہارون (ثقہ متقن)
ان کی روایت میں یحییٰ نے سماع کی صراحت کی ہے:
"يحيى بن أبي كثير حدثني
أبو جعفر عن عطاء بن يسار"
(ماخذ: مسند
الحارث حدیث 138، تحفة الخيرة المهرة 4/514،
نقلاً عن مسند احمد بن منیع)
3- حرب بن شداد کی
روایت:
- سند: "يحيى
بن أبي كثير: حدثني إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، أن أبا جعفر المدني، حدثه
أن عطاء بن يسار" (ماخذ: السنن الکبری للبیہقی،
حدیث 3305)
اس روایت میں یحییٰ
اور ابو جعفر کے درمیان ایک اضافی واسطہ (اسحاق بن عبداللہ) موجود ہے، جس سے
یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے یحییٰ نے یہ روایت براہِ راست ابو جعفر سے نہ
سنی ہو، اور یزید بن ہارون کی ذکر شدہ تصریحِ سماع میں خطا ہو۔
راجح موقف:
میرے نزدیک راجح
اور درست بات یہ ہے کہ:
یحییٰ بن ابی کثیر
نے یہ روایت ابو جعفر سے بلا واسطہ اور سماع کی تصریح کے ساتھ روایت کی ہے۔
اس کی وجوہات درج
ذیل ہیں:
1. ابان العطار اور ہشام الدستوائی دونوں نے اپنی
روایت میں یحییٰ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا، جبکہ حرب بن شداد کی
روایت کے بعض راویوں (خصوصاً عبداللہ بن رجاء) پر
کچھ کلام (ضعف) موجود ہے۔
2. ہشام الدستوائی، یحییٰ بن ابی کثیر کے سب سے معتبر اور
مضبوط شاگردوں میں سے ہیں۔ اگر ابو جعفر اور یحییٰ کے درمیان کوئی واسطہ ہوتا
تو ہشام جیسا ثبت راوی اس سے غافل نہ رہتا۔
3. ہشام الدستوائی کی
بعض روایتوں میں یحییٰ نے صراحت کے ساتھ سماع کا ذکر بھی کیا ہے، جو اس بات
کو مزید تقویت دیتا ہے۔
4. تمام محدثین نے
یحییٰ بن ابی کثیر کو ابو جعفر کے شاگردوں میں شمار کیا ہے، جبکہ اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ
کے بارے میں ایسی کوئی بات موجود نہیں کہ وہ اس روایت میں واسطہ ہوں۔
اور اگر اس سند
میں اسحاق بن عبد اللہ کا واسطہ تسلیم بھی کر لیا جائے، تب بھی یہ یحییٰ بن ابی
کثیر کی روایت میں کوئی قدح پیدا نہیں کرتا، کیونکہ اسحاق بن عبد اللہ خود ایک ثقہ
راوی ہیں۔
البتہ اس سند کے
ضعف کی اصل وجہ اس کا راوی ابو جعفر ہے۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
ابو جعفر کون ہے؟
مسند احمد اور سنن ابی داود کی روایات میں اس کا نام ابو جعفر بلا کسی نسبت کے
مذکور ہے۔ لیکن مسند البزار کی روایت میں اس کی نسبت "المدنی" مذکور ہے۔
چنانچہ امام بزار نقل فرماتے ہیں:
" حدثنا إبراهيم، قال: حدثنا موسى بن
إسماعيل، قال: حدثنا أبان بن زيد، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي جعفر المدني، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة..."
(البحر الزخار: 8762)
اسی طرح حرب بن شداد کی روایت میں بھی اس کی نسبت "المدنی" مذکور
ہے:
" أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان، أنبأ أحمد
بن عبيد، ثنا هشام بن علي، ثنا ابن رجاء، ثنا حرب، عن يحيى قال: حدثني إسحاق بن
عبد الله بن أبي طلحة، أن أبا جعفر المدني،
حدثه أن عطاء بن يسار حدثه أن رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم حدثه"
(السنن الکبری للبیہقی: 3305)
اب سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ اس مقام پر ابو جعفر المدنی سے مراد کون شخصیت ہے؟
علماء کے درمیان اس بارے
میں اختلاف پایا جاتا ہے، اور دو ممکنہ شخصیات کی طرف نسبت کی گئی ہے:
1- محمد بن علی بن
الحسین بن علی بن ابی طالب،
المعروف ابو جعفر المدنی الباقر — جو
ایک ثقہ اور معروف امام ہیں،
2-
ایک اور شخصیت: ابو جعفر المدنی المؤذن الانصاری — جو
امام محمد الباقر سے مختلف اور مجہول الحال راوی ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ اس سند میں ان دونوں میں سے کون مراد ہے؟ ایک طرف ایک جلیل
القدر امام ہے، اور دوسری طرف ایک ایسا راوی جس کی حالت غیر واضح ہے۔
اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ امام ابن حبانؒ، امام ابو بکر الباغندیؒ، اور ابو
مسلم الکجیؒ جیسے بعض ائمہ نے ان دونوں راویوں میں فرق نہیں کیا، بلکہ انہیں ایک
ہی شخصیت سمجھا ہے — جس کی تفصیل آگے ان شاء اللہ ذکر کی جائے گی۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دو مختلف شخصیات ہیں۔
لہٰذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ واضح کیا جائے کہ یہ دونوں الگ الگ افراد
ہیں، اور اس کے بعد یہ طے کیا جائے کہ اس خاص سند میں ان دونوں میں سے کون مراد
ہے۔
ابو جعفر المؤذن اور محمد الباقر میں تفریق کے دلائل:
پہلی دلیل:
محمد الباقر مؤذن نہیں تھے:
اس بات پر سب سے
پہلی دلیل یہ ہے کہ جس ابو جعفر سے یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں، اس کی نسبت
امام ترمذی نے "المؤذن" بتائی ہے۔
چنانچہ سنن الترمذی
(حدیث: 1905) میں یہ صراحت موجود ہے کہ راوی کا نام ابو جعفر المؤذن ہے۔
اس کے برعکس بعض
علماء، جیسے امام ابن حبانؒ، نے اس سند میں موجود ابو جعفر کو محمد بن علی بن
الحسین الباقر قرار دیا ہے۔
مگر حافظ ابن
حجر عسقلانیؒ نے اس قول کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
"قلت وليس هذا بمستقيم
لأن محمد بن علي لم يكن مؤذنا"
(میں کہتا ہوں: یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ محمد بن علی (الباقر) مؤذن نہیں
تھے)
(تہذیب التہذیب: 12/55)
یہ صریح عبارت
واضح کرتی ہے کہ "ابو
جعفر المؤذن" کو
امام محمد الباقر قرار دینا غلط ہے، کیونکہ امام باقر مؤذن نہیں تھے۔
دوسری
دلیل: ابو جعفر المؤذن انصاری تھے، جبکہ امام محمد الباقر قرشی ہاشمی:
امام ابو محمد
الدارمیؒ نے یحییٰ بن ابی کثیر کے شیوخ میں شامل ابو جعفر کی نسبت "انصاری" بیان کی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
"أَبُو
جَعْفَرٍ: رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ"
(سنن
الدارمی: حدیث 2781)
اسی طرح ابن حجرؒ
سمیت دیگر محدثین و مترجمین نے بھی ابو جعفر المؤذن کو "الانصاری" کے
لقب سے یاد کیا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس
امام محمد الباقرؒ نہ صرف اپنے والد (امام زین العابدینؒ) بلکہ والدہ (فاطمہ بنت
حسنؓ) دونوں کی نسبت سے قرشی ہاشمی ہیں، اور ان کا انصار سے کوئی نسبی تعلق نہیں۔
لہٰذا اس صریح
نسبی فرق کی بنیاد پر بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ابو جعفر المؤذن الانصاری کو
محمد الباقر قرار دینا درست نہیں۔
تیسری
دلیل: ابو جعفر المؤذن کے شیوخ میں سیدنا ابو ہریرہ موجود ہیں جبکہ محمد الباقر کی
ان سے روایت منقطع ہے:
محمد الباقر کی
ابو ہریرہ سے روایت مرسل ہے کیونکہ انہوں نے ابو ہریرہ کو نہیں پایا۔ سیدنا ابو
ہریرہ کی وفات سن 57ھ میں ہوئی جبکہ امام باقر کی پیدائش ایک روایت کے مطابق اسی
سال (یعنی 57ھ) میں ہوئی اور دوسری روایت کے مطابق ان کی پیدائش 56ھ میں ہوئی۔
چنانچہ ان کا ابو ہریرہ سے سماع ممکن نہیں ہے۔
جبکہ ابو جعفر المؤذن نے ابو ہریرہ سے کئی
روایات میں سماع کی صراحت کی ہے، مثلا:
امام احمد روایت
کرتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ
عَمْرٍو، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صلي الله عليه وسلم: " ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ...."
(مسند احمد: 10771)
اور امام نسائی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں:
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ
مَسْعُودٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ،
عَنْ أَبِي
جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ،
يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم: " إِذَا بَقِيَ ثُلُثُ
اللَّيْلِ يَنْزِلُ اللَّهُ"
(سنن الکبری للنسائی: 10237)
چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
"ولأن أبا جعفر
هذا قد صرح بسماعه من أبي هريرة في عدة أحاديث وأما محمد بن علي بن الحسين فلم
يدرك أبا هريرة فتعين أنه غيره"
(اور اس لیے بھی کہ ابو
جعفر نے ابو ہریرہ سے اپنے سماع کی تصریح کئی احادیث میں کی ہے،
جبکہ محمد بن علی بن حسین (یعنی امام باقر) نے ابو ہریرہ کو نہیں پایا،
تو لازم ہوا کہ یہاں مراد ابو جعفر کوئی اور شخص ہے)
(تہذیب التہذیب: 12/55)
چوتھی
دلیل: ابن حجر العسقلانی کی صریح تنبیہ:
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
" أبو جعفر المؤذن الأنصاري
المدني مقبول من الثالثة ومن
زعم أنه محمد ابن علي ابن الحسين فقد وهم "
(ابو جعفر المؤذن الانصاری
المدنی، تیسرے طبقے کے راوی ہیں اور مقبول ہیں۔ اور
جس نے یہ گمان کیا کہ یہ محمد بن علی بن حسین (یعنی امام باقر) ہیں، تو وہ وہم
(غلطی) میں مبتلا ہوا ہے)
(تقریب التہذیب: 8017)
ایک روایت میں محمد
بن سلیمان الباغندی نے یحیی بن ابی کثیر کی ابو جعفر سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے
اسے محمد الباقر سمجھتے ہوئے اس کی کنیت کے آگے "محمد بن علی" بھی لکھ
دیا۔ (دیکھیں: شعب الایمان للبیہقی: 7462)
اس کی تصحیح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
"قُلْتُ: وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ
سُلَيْمَانَ الْبَاغَنْدِيُّ، عَنْ أَبِي عَاصِمٍ، فَجَمَعَ بَيْنَ الِاسْمِ
وَالْكُنْيَةِ، قَالَ: عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، وَالظَّاهِرُ
أَنَّهُ كَمَا قَالَ الدَّارِمِيُّ، وَمَنْ سَمَّاهُ ظَنَّ أَنَّ أَبَا جَعْفَرٍ
مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ"
(میں کہتا ہوں: محمد بن سلیمان الباغندی نے اسے ابو عاصم سے روایت کیا ہے،
اور اسم (نام) اور کنیت (ابو جعفر) دونوں کو جمع کر دیا۔ انہوں نے
کہا:
"عن أبي جعفر
محمد بن علي" یعنی ابو
جعفر محمد بن علی سے روایت ہے۔ اور ظاہر وہی ہے جوامام دارمی نے کہا (یعنی یہ محمد بن علی بن
حسین نہیں ہیں)، اور جس نے ان کا نام لے
کر (یعنی مکمل نام بیان کر کے) روایت کی، اس نے یہ گمان کیا کہ ابو جعفر
سے مراد محمد بن علی بن حسین بن علی ہیں (یعنی امام باقر))
(الاربعین من عوالی المجیزین لابن حجر: 1/101)
حالانکہ اسی روایت کے دوسرے طریق میں ابو جعفر نے ابو ہریرہ اپنے سماع کی
تصریح بھی کر رکھی ہے۔ لہٰذا یہاں ابو جعفر سے مراد محمد الباقر کا ہونا ممکن نہیں
ہے، چنانچہ الباغندی، اور اسی طرح ابو مسلم الکجی اور امام ابن حبان ان سب کا اسے
محمد الباقر قرار دینا بالکل درست نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بھی دیگر محدثین کی صراحتیں موجود ہیں جن کو ہم اپنے اگلے عنوان
کے تحت ذکر کریں گے۔فی الحال مذکورہ بالا
دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ امام محمد الباقر اور ابو جعفر المدنی دو الگ شخصیتیں
ہیں۔
اس سند میں ابو جعفر سے مراد ابو جعفر المؤذن ہونے کے دلائل:
ذیل میں ہم ان
دلائل کا جائزہ لیں گے جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہاں ابو جعفر سے مراد ابو
جعفر المؤذن الانصاری ہی ہیں، نہ کہ محمد الباقر۔
پہلی دلیل:
مہمل راوی کی تمییز کے اصول
علمِ حدیث میں جب
کسی راوی کو مبہم
(Unspecified) انداز میں ذکر کیا جائے (مثلاً صرف کنیت یا
نام کے ابتدائی حصے سے)، تو اس کی پہچان کا معیار یہ ہوتا ہے کہ:
- اس کے شیوخ (جن سے اس نے روایت
لی) اور
- اس کے تلامذہ (جنہوں نے اس سے
روایت کی)
کو دیکھا جائے۔ ان
کی مدد سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مبہم راوی سے مراد کون ہے۔
اس اصول کا اطلاق
اس سند پر:
·
امام یحییٰ بن ابی کثیر کے شیوخ میں "ابو جعفر
المدنی" کا ذکر آتا ہے، لیکن ان تمام مقامات پر وہ مبہم ہی ہیں— یعنی
صرف "ابو جعفر" لکھا گیا ہے۔ اس مبہم انداز کی وجہ سے بعض محدثین نے یہ
گمان کیا کہ یہ محمد الباقر ہیں، جبکہ دیگر نے کہا کہ یہ ابو جعفر
المؤذن الانصاری ہیں۔
·
تاہم، متأخرین کتبِ رجال میں بعض نے اس اختلاف
کی بنیاد پر دونوں کو یحییٰ بن ابی کثیر کے شیوخ میں ذکر کر دیا، جو کہ واضح
علمی غلطی ہے۔
حدیث کی کسی بھی سند میں یحییٰ
بن ابی کثیر کا محمد الباقر سے سماع ثابت نہیں۔ انہوں نے ہمیشہ "ابو
جعفر" کے طور پر ذکر کیا ہے، اور محض نام کے اشتراک کی بنیاد پر یہ کہنا کہ
وہ محمد الباقر ہیں، درست نہیں۔
·
اس کے برعکس کبار متقدمین محدثین نے یحیی بن ابی کثیر
کے شیوخ میں جس ابو جعفر المدنی کا ذکر کیا ہے، اس کی نسبت انہوں نے بالصراحت
المؤذن اور الانصاری بتائی ہے، جبکہ بعض نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ یحیی جس ابو
جعفر سے روایت کرتے ہیں اس کا نام معروف نہیں ہے، جیسا کہ آگے آئے گا۔
·
اسی طرح اگر ہم اس "ابو جعفر المدنی" کے شیوخ
کو دیکھیں تو ہمیں معلو ہوتا ہے کہ اس کے شیوخ میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
بھی موجود ہیں، اور وہ احادیث میں ابو ہریرہ سے اپنے سماع کی صراحت بھی کرتا ہے۔
یہ قرینہ واضح کرتا ہے کہ یحیی بن ابی کثیر نے جس "ابو جعفر" سے روایت
کی ہے وہ محمد الباقر نہیں ہو سکتے، کیونکہ ان کا سماع ابو ہریرہ سے
ممکن نہیں ہے۔
·
اگرچہ محمد الباقر کا نام انتہائی
مشہور ومعروف تھا، لیکن یحییٰ بن ابی
کثیر نے اپنی کسی روایت میں کبھی بھی ان کا پورا نام ذکر نہیں کیا۔ اگر وہ
واقعی محمد الباقر سے روایت کر رہے ہوتے تو اتنے مشہور شخصیت کا کم از
کم ایک موقع پر پورا نام یا کوئی نسبت ضرور ذکر کرتے، یوں ان کا نام مبہم
رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف، ابو جعفر المؤذن کا نام زیادہ
معروف نہیں تھا، اسی لیے انہیں ہمیشہ کنیت سے ذکر کرنا قابلِ فہم ہے۔
پس معلوم ہوا، یحییٰ بن ابی کثیر کے شیوخ میں جس
"ابو جعفر" المدنی کا ذکر ہے، اس سے مراد محمد الباقر نہیں بلکہ ابو
جعفر المؤذن الانصاری المدنی ہی ہیں۔ یہی بات علم رجال اور اصولِ روایت کی
روشنی میں زیادہ قرینِ صواب ہے، اور اس پر قرائن اور محدثین کی تصریحات متفق ہیں۔
دوسری
دلیل: امام دارمیؒ (م 255ھ) کی گواہی:
اپنی کتاب السنن میں امام یحیی بن
ابی کثیر کی ابو جعفر سے مروی ایک روایت کے تحت امام دارمیؒ فرماتے ہیں:
" أبو جعفر: رجل من الأنصار "
(یہ ابو جعفر انصار کا ایک شخص ہے)
(سنن الدارمی: 2781)
اس سے معلوم ہوا کہ امام دارمی کے
نزدیک یحیی بن ابی کثیر جس ابو جعفر سے روایت کرتے ہیں وہ انصار میں سے کوئی شخص
ہے۔ اگر اس سے مراد امام محمد الباقر ہوتے تو امام دارمی صاف ان کا نام لیتے
کیونکہ وہ مشہور امام ہیں، یوں رجل نہ کہتے، مزید یہ کہ ان کا اسے انصاری کہنا بھی
اس بات کی دلیل ہے کہ یہ محمد الباقر نہیں ہیں کیونکہ وہ انصاری نہیں تھے۔
تیسری
دلیل: امام مسلم بن حجاجؒ (م 261 ھ) کی گواہی:
امام مسلم بن الحجاج رحمہ اللہ نے محمد الباقر اور ابو جعفر دونوں کے الگ
تراجم ذکر کیے اور یحیی بن ابی کثیر کو صرف ابو جعفر کے اکلوتے تلمیذ کے طور پر
ذکر کیا ہے، اور فرمایا:
"أبو جعفر سمع أبا هريرة روى عنه يحيى بن
أبي كثير."
(الکنی والاسماء لمسلم: 547)
اس سے معلوم ہوا کہ امام مسلم کے نزدیک جس ابو جعفر سے امام یحیی بن ابی کثیر
روایت کرتے ہیں وہ محمد الباقر نہیں ہے، بلکہ وہ ایک دوسرا شخص ہے جس کا سماع ابو
ہریرہ سے ثابت ہے۔
چوتھی
دلیل: امام ترمذیؒ (م 279 ھ) کی وضاحت:
یحیی بن ابی کثیر عن ابی جعفر کی ایک حدیث کے تحت امام ترمذی فرماتے ہیں:
"وأبو جعفر، هذا الذي روى عنه يحيى بن أبي
كثير، يقال له: أبو جعفر المؤذن، وقد روى عنه يحيى بن أبي كثير غير حديث، ولا نعرف
اسمه"
(یہ ابو جعفر، جن
سے یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں، انہیں ابو جعفر المؤذن کہا
جاتا ہے۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے ان
سے متعدد احادیث روایت کی ہیں، لیکن
ہم ان کا (اصل) نام نہیں جانتے۔)
(سنن ترمذی: 5/502)
امام ترمذی کے اس قول سے واضح ہوا کہ یحیی بن ابی کثیر جس ابو جعفر سے روایت
کرتے ہیں وہ محمد الباقر نہیں بلکہ ابو جعفر المؤذن ہے جس کا اصل نام معلوم نہیں
ہے۔
پانچویں
دلیل: امام ابو بکر البزارؒ (م 292 ھ) کی گواہی:
اسبالِ ازار والی اسی زیرِ بحث حدیث کے تحت امام بزارؒ فرماتے ہیں:
"ولا نعلم روى أبو جعفر، عن عطاء بن يسار، عن أبي هريرة، إلا هذا الحديث، وإنما
يحدث أبو جعفر عن أبي هريرة"
(ہمیں یہ علم نہیں کہ ابو
جعفر نے عطاء بن یسار کے واسطے سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس ایک
حدیث کے علاوہ کوئی اور حدیث روایت کی ہو۔ بلکہ ابو جعفر براہِ راست ابو
ہریرہ سے حدیث روایت کرتے ہیں)
(مسند البزار – البحر الزخار: 8762)
اس قول سے واضح
ہوتا ہے کہ امام بزار کے نزدیک اس حدیث میں یحییٰ بن ابی کثیر جن ابو
جعفر سے روایت کرتے ہیں، وہ محمد الباقر ہرگز نہیں ہو سکتے، کیونکہ
امام بزار کے بقول یہ ابو جعفر عموماً براہِ راست ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت کرتے ہیں، جبکہ محمد الباقر کی ابو ہریرہ سے روایت منقطع ہے۔
چھٹی دلیل:
امام ابو احمد الحاکمؒ (م 378 ھ) کی گواہی:
امام ابو احمد
الحاکم نے اپنی کتاب الأسامي والكنى میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے جس کا
عنوان ہے:
"من أعرف منهم بكنيته ولا أقف على اسمه"
(وہ راوی جنہیں
میں ان کی کنیت سے پہچانتا ہوں، لیکن ان کا اصل نام مجھے معلوم نہیں ہو سکا)۔
اس باب کے تحت
انہوں نے سب سے پہلے جس راوی کا ذکر کیا وہ "ابو جعفر" ہیں، اور
ان کے متعلق فرمایا:
"أبو جَعفَر: رجل من أهل المَدِينَة.
سمع: أبا هُرَيرَة. روى عنه: يَحيَى بن أبي كَثِير"
(ابو جعفر: مدینہ
کا ایک شخص ہے، اس نے ابو ہریرہ سے سماع کیا ہے، اور اس سے یحییٰ بن ابی کثیر نے
روایت کی ہے)۔
(الاسامی
والکنی للحاکم: 1319)
اس سے معلوم ہوا
کہ امام ابو احمد الحاکم کے نزدیک بھی یحیی بن ابی کثیر جس ابو جعفر سے روایت کرتے
ہیں وہ محمد الباقر نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے فرمایا کہ اس ابو جعفر کا نام معلوم
نہیں ہے، اور یہ کہ اس کا سماع ابو ہریرہ سے ثابت ہے۔
ساتویں
دلیل: امام ابن عبد البرؒ (م 463 ھ) کی گواہی:
امام ابن عبد البر
رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب "الاستغناء
في معرفة المشهورين من حملة العلم بالكنى" میں ایک مستقل باب قائم کیا، جس کا عنوان ہے:
"في
من لم يوقف له على اسم ولا عرف بغير كنيته من التابعين ومن بعدهم من الخالفين"
(ان تابعین اور ان کے بعد
آنے والے اہل علم میں سے جن کا اصل نام معلوم نہیں ہو سکا اور صرف کنیت سے معروف
ہیں)
اس باب کے تحت
انہوں نے "ابو
جعفر" کا
ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
"أبو
جعفر رجل من أهل المدينة. سمع أبا هريرة. روى عنه يحيى بن أبي كثير"
(ابو جعفر، مدینہ کا ایک
شخص ہے، اس نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع کیا ہے، اور یحییٰ بن ابی کثیر نے
اس سے روایت کی ہے۔)
(الاستغناء:
رقم 1435)
اس تصریح سے واضح
ہوتا ہے کہ امام ابن عبد البر کے نزدیک بھی وہ ابو جعفر جن سے یحییٰ بن ابی کثیر
روایت کرتے ہیں، وہ محمد الباقر نہیں ہو سکتے، کیونکہ: ابن عبد البر نے ان کا نام ذکر نہیں کیا، بلکہ واضح
الفاظ میں کہا کہ صرف کنیت (ابو جعفر) ہی معروف ہے اور اصل نام معلوم نہیں، جبکہ محمد الباقر کا نام محدثین و فقہاء کے
ہاں بدرجۂ شہرت معروف ہے۔ اگر مراد محمد الباقر ہوتے تو ان کا نام ضرور ذکر کیا
جاتا۔
اسی طرح ابن عبد البر نے
ان کے بارے میں بیان کیا کہ انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع کیا، جبکہ محمد الباقر کی ابو ہریرہ سے روایت
منقطع ہے۔
اس کے علاوہ بھی
کئی محدثین کی تصریحات موجود ہیں، جن کا ذکر آگے آئے گا۔ ان اقوال کی اہمیت اس لیے
بھی بڑھ جاتی ہے کہ ان میں صرف ابو جعفر کی تفریق ہی نہیں کی گئی، بلکہ اس
کی تجہیل (نامعلوم ہونے) اور عدمِ معرفت پر بھی کلام کیا گیا ہے،
جو کہ اس روایت کے ضعیف
ہونے کی واضح دلیل ہے۔
اسی وجہ سے ہم ان اقوال
کو الگ عنوان کے تحت تفصیل سے ذکر کریں گے۔
آٹھویں
دلیل: حافظ الاشبیلیؒ (م 581 ھ) کی گواہی:
حافظ عبد الحق الاشبیلی رحمہ اللہ اسی اسبال والی حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
"أبو جعفر هذا غير معروف "
(الاحکام الوسطی: 1/317)
نویں دلیل:
حافظ ابن القطان الفاسیؒ (م 628 ھ) کی گواہی:
حافظ ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: "وأبو
جعفر هو المؤذن، يروي عنه يحيى بن أبي كثير، لا يعرف روى عنه غيره، ذكره بذلك مسلم
والترمذي، ولا تعرف له حال."
(بیان الوہم والایہام: 4/625)
دسویں دلیل:
امام منذری (م 656 ھ) کی گواہی:
امام منذری رحمہ اللہ اسی حدیث کے تحت فرماتے ہیں: "في
إسناده أبو جعفر وهو رجل من المدينة لا يُعرف اسمه"
(مختصر سنن ابی داود: 1/324)
اور دوسری جگہ فرمایا: "فَلَا
أعرفهُ "
(الترغیب والترہیب: 3/67)
گیارہویں
دلیل: امام شوکانیؒ (م 1250 ھ) کی گواہی:
امام شوکانی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
"فِي إسْنَادِهِ أَبُو جَعْفَرٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَا
يُعْرَفُ اسْمُهُ "
(نیل الاوطار: 2/134)
بارہویں
دلیل: علامہ شمس الحق عظیم آبادیؒ (م 1329 ھ) کی گواہی:
علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"والصحيح أن أبا جعفر هذا هو المؤذن " (درست
بات یہ ہے کہ یہ ابو جعفر، وہی مؤذن ہیں)
اور فرمایا:
"فأبو جعفر هذا هو رجل من أهل المدينة يروي عن أبي هريرة وعطاء بن
يسار وليس هو أبا جعفر الباقر محمد بن علي " (پس یہ ابو جعفر مدینہ کے
ایک شخص ہیں، جو ابو ہریرہ اور عطاء بن یسار سے روایت کرتے ہیں، اور یہ ابو
جعفر الباقر محمد بن علی نہیں ہیں)
(عون المعبود: 2/241)
اس تفصیل سے یہ
بات واضح ہو جاتی ہے کہ
محمد الباقر اور ابو جعفر المؤذن دو الگ الگ شخصیات ہیں،
اور زیرِ بحث سند میں "ابو جعفر" سے مراد ابو جعفر المؤذن ہی ہیں، نہ کہ محمد
الباقر۔
بدقسمتی سے بعض
محدثین کو یہاں اشتباہ لاحق ہوا، اور انہوں نے ان دونوں کو ایک ہی شخصیت
تصور کر لیا، جو کہ درست نہیں۔
یہ علمی تسامح بعد کے بعض
اقوال میں بھی منتقل ہوا ہے۔
اب ہم اس پہلو کا
جائزہ لیں گے کہ:
ابو جعفر المؤذن
کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ کیا
وہ ثقہ (قابل اعتماد) ہیں یا مجہول الحال (نامعلوم حیثیت والے)؟
ابو جعفر المؤذن کا مجہول الحال ہونا محدثین کی نظر میں:
ابو جعفر المؤذن کو کسی نے بھی ثقہ نہیں کہا ہے بلکہ سب نے اسے مجہول الحال کہا ہے، اس پر محدثین کے چند حوالے
درج ذیل ہیں:
1-
حافظ عبد الحق الاشبیلیؒ (م 581 ھ) کا قول:
حافظ عبد الحق الاشبیلی رحمہ اللہ اسی حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
"أبو جعفر هذا غير معروف " (یہ ابو جعفر غیر معروف ہے)۔
(الاحکام الوسطی: 1/317)
2-
حافظ ابن القطان الفاسی (م 628 ھ) کا قول:
حافظ ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
"وأبو جعفر هو المؤذن، يروي عنه يحيى بن
أبي كثير، لا يعرف روى عنه غيره، ذكره بذلك مسلم والترمذي، ولا تعرف له حال."
(ابو جعفر وہی مؤذن
ہیں، جن سے یحییٰ
بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں، اور
یہ معلوم نہیں کہ ان سے یحییٰ کے علاوہ کسی اور نے روایت کی ہو۔ امام مسلم اور امام ترمذی نے انہیں اسی طرح ذکر کیا ہے، اور ان کی حالت (ثقاہت یا ضعف) معلوم
نہیں)
(بیان الوہم والایہام: 4/625)
3-
امام منذری (م 656 ھ) کا قول:
امام منذری رحمہ اللہ اسی حدیث کے تحت فرماتے ہیں: "في
إسناده أبو جعفر وهو رجل من المدينة لا يُعرف اسمه"
(مختصر سنن ابی داود: 1/324)
اور دوسری جگہ فرمایا: "فَلَا
أعرفهُ "
(میں اسے نہیں جانتا)۔
(الترغیب والترہیب: 3/67)
4-
امام شمس الدین ذہبیؒ (م 748 ھ) کا قول:
امام ذہبی اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں:
" أبو جعفر [د، ت، ق]. عن أبي هريرة. أراه
الذي قبله. روى عنه يحيى بن أبي كثير وحده، فقيل الأنصاري المؤذن. له حديث النزول،
وحديث ثلاث دعوات"
(ابو جعفر [د، ت،
ق] انہوں نے ابو ہریرہ
سے روایت کی ہے، اور میرا گمان ہے کہ یہ وہی ابو جعفر ہیں جو اس سے پہلے
ذکر ہوئے ہیں۔ ان سے صرف یحییٰ بن
ابی کثیر نے روایت کی ہے، اور
کہا گیا ہے کہ یہ ابو جعفر الانصاری المؤذن ہیں۔ ان سے حدیثِ نزول (یعنی اللہ تعالیٰ کے رات کے وقت آسمانِ دنیا پر نزول کی
حدیث)اور تین دعاؤں والی حدیث مروی ہے)
(میزان الاعتدال: 4/511)
جبکہ اس سے قبل والے راوی کو امام ذہبیؒ نے صراحت کے ساتھ "مجہول"
کہا ہے۔ الغرض اگر وہ اس راوی کو اس سے قبل والا راوی گمان کرتے ہیں تو اس کا حکم بھی وہی ہے۔
تاہم اسکے بعد امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:
"ويقال مدني فلعله
محمد بن علي بن الحسين، وروايته عن أبي هريرة وعن أم سلمة فيها إرسال ولم يلحقهما
أصلا"
(اور کہا جاتا ہے کہ وہ
مدنی ہے، تو ممکن ہے کہ وہ محمد بن علی بن حسین (الباقر) ہوں۔ لیکن ان کی ابو
ہریرہ اور ام سلمہ سے روایت مرسل ہے، کیونکہ انہوں نے ان دونوں کو ہرگز نہیں پایا)
(میزان الاعتدال: 4/511)
اس سے معلوم ہوتا
ہے کہ امام ذہبی نے اس راوی کے بارے میں قطعیت اختیار نہیں کی، بلکہ دو احتمالات
ذکر کیے اور اگر ان کا راجح گمان درست مانا جائے (کہ یہ وہی ابو جعفر ہے جو پہلے
مذکور ہوا) اور جسے المؤذن الانصاری بھی کہا جاتا ہے، تو اس راوی کے مجہول ہونے کا
حکم واضح طور پر ان کے کلام سے ثابت ہے۔
چنانچہ عصرِ حاضر کے محدث، علامہ الضیاء الاعظمی اس حدیث کے تحت ابو جعفر کے
بارے میں فرماتے ہیں:
" وجهّله أيضًا
الذهبي وابن حجر " (اور اس کو ذہبی وابن حجر نے بھی مجہول کہا ہے)
(الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل: 12/37)
5-
حافظ صدر الدین المناوی (م 803 ھ) کا قول:
حافظ صدر الدین المناویؒ اس حدیث کی
علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"في إسناده أبو جعفر وهو رجل من المدينة لا يُعرف اسمه قاله المنذري. "
(اس سند میں ابو
جعفر موجود ہے، جو مدینہ کا ایک شخص ہے، اور اس کا نام معلوم نہیں۔ یہ بات امام منذری نے کہی ہے)
(كشف المناهج
والتناقيح في تخريج أحاديث المصابيح: 1/319)
6-
حافظ ابن حجر العسقلانیؒ (م 852 ھ) کا قول:
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں:
"أبو
جعفر المؤذن الأنصاري المدني مقبول من الثالثة"
(تقریب التہذیب: 8017)
اور مقبول راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر کا فیصلہ یہ ہے کہ:
" مَن ليس له من الحديث
إلا القليل ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الإشارة بلفظ: مقبول،
حيث يتابع، وإلا فلين الحديث"
(وہ راوی جس کی روایات بہت
کم ہوں، اور اس میں ایسا ضعف ثابت نہ ہو جس کی بنا پر اس کی حدیث کو ترک کیا جائے، تو ایسے راوی کی طرف اشارہ
"مقبول" کے لفظ سے کیا جاتا ہے — بشرطیکہ اس کی متابعت (تائید) موجود ہو، اور اگر متابعت نہ ہو، تو اس کی حدیث
"لین" (نرم یعنی ضعیف) شمار کی جاتی ہے)
(تقریب التہذیب: 1/24)
پس معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر کے
نزدیک "مقبول" راوی اصلاً ضعیف ہوتا ہے، لیکن اگر اس کی حدیث
کی تائید (متابعت) کسی اور راوی سے ہو جائے تو وہ قابل قبول شمار ہوتا
ہے۔ الغرض اس کی روایت کی مقبولیت اس کی متابعت کے ساتھ مشروط ہے۔
7-
علامہ بدر الدین العینی الحنفی (م 855 ھ) کا قول:
علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"والحديث
منسوخ وضعيف- أيضاً-، لأن فيه رجلاً مجهول الاسم، وهو أبو جعفر المذكور"
(یہ
حدیث منسوخ بھی ہے اور ضعیف بھی، کیونکہ اس میں
ایک ایسا شخص ہے جس کا نام معلوم نہیں، اور وہ ہے مذکورہ ابو جعفر۔)
(شرح ابی داؤد: 3/169)
8-
علامہ ابو محمد حسن بن علی بن سلیمان البدر القاھری (م 870 ھ) کا
قول:
علامہ القاھریؒ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
" وَأَبُو جَعْفَر
الْمدنِي... فَلَا أعرفهُ " (ابو جعفر
المدنی۔۔۔ اس کو میں نہیں جانتا)
(فتح القریب المجیب علی الترغیب والترہیب: 9/134)
9-
علامہ عبد الرؤوف المناویؒ (م 1031 ھ) کا قول:
علامہ عبد الرؤوف المناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"أعله المنذري فقال فيه
أبو جعفر رجل من المدينة لا يعرف"
(امام منذری نے اس
حدیث کو معلول (علت والی) قرار دیا
اور کہا:
"اس میں ابو جعفر
نامی ایک شخص ہے، جو مدینہ کا رہنے والا ہے اور غیر معروف (نامعلوم) ہے")۔
(فیض القدیر: 2/274)
10- امام شوکانیؒ (م 1250 ھ) کا
قول:
امام شوکانی رحمہ اللہ اس حدیث کی تعلیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"فِي إسْنَادِهِ أَبُو جَعْفَرٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَا
يُعْرَفُ اسْمُهُ "
(اس کی سند میں ابو
جعفر نامی ایک شخص موجود ہے جو مدینہ کا رہنے والا ہے، اس کا نام غیر معروف (نا
معلوم) ہے)
(نیل الاوطار: 2/134)
اور دوسری جگہ فرمایا:
"وفي إسناده مجهول"
(السیل الجرار: ص 63)
11- علامہ الحسن بن احمد بن یوسف
الرباعی الصنعانی (م 1276 ھ) کا قول:
علامہ الرباعی الصنعانی اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
" وفي إسناده مجهول
وهو أبو جعفر الراوي عن عطاء قاله المنذري"
(اس سند میں ایک
مجہول راوی ہے، اور وہ ہے ابو جعفر جو عطاء سے روایت کرتا ہے۔ یہ بات امام منذری نے کہی ہے)
(فتح الغفار الجامع لاحکام سنۃ نبینا المختار: 1/257)
12- علامہ نواب صدیق حسن خانؒ (م
1307 ھ) کا قول:
علامہ نواب صدیق حسن خانؒ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
"في إسناده راو
مجهول"
(فتاوی صدیق حسن خان: ص 372)
13- محدث العصر شیخ ناصر الدین
البانیؒ (م 1420 ھ) کا قول:
شیخ ناصر الدین البانیؒ اس حدیث کی تحقیق میں فرماتے ہیں:
" إسناده ضعيف؛ أبو
جعفر هذا لا يعرف"
(اس کی اسناد ضعیف ہے، یہ ابو جعفر غیر معروف ہے)۔
(ضعیف ابی داود – الام: 1/218)
14- فقیہ العصر، شیخ عبد العزیز
بن عبد اللہ بن بازؒ (م 1420 ھ) کا قول:
فقیہ العصر، شیخ ابن بازؒ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
"هو ضعيف... أنه من رواية أبي جعفر غير
منسوب وهو مجهول"
(یہ روایت ضعیف ہے۔۔۔ یہ روایت ایسے ابو جعفر کی ہے
جس کی نسبت (نسب) بیان نہیں کی گئی، اور وہ مجہول (نامعلوم) ہے)
(مجموع
فتاوی ابن باز: 26/235)
15- سعودی عرب کی فتوی کمیٹی،
اللجنہ الدائمہ کا فیصلہ:
سعودی عرب کے کبار علماء پر مشتمل فتوی کمیٹی: "اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء" کا فیصلہ ہے
کہ:
"هذا الحديث ليس بصحيح، وقد وهم النووي رحمه الله في تصحيحه، بل هو ضعيف؛ لأن
في إسناده مجهولا"
(یہ حدیث صحیح نہیں ہے،
اور امام نووی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دینے میں غلطی کی ہے، بلکہ یہ حدیث ضعیف
ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک مجہول (نامعلوم) راوی موجود ہے۔)
(فتاوی اللجنہ الدائمہ: 7/202)
16- شیخ شعیب الارناؤطؒ (م 1438
ھ) کا قول:
عصر حاضر کے محدث، شیخ شعیب الارناؤطؒ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
"إسناده ضعيف لجهالة أبي جعفر -وهو الأنصاري المدني"
(اس کی سند ضعیف ہے،
کیونکہ ابو جعفر مجہول ہے — اور وہ انصاری مدنی ہے)۔
(تحقیق سنن ابی داود: 1/476)
17- محدثِ کبیر، شیخ ابو اسحاق
الحوینیؒ (م 1446 ھ) کا قول:
عصرِ حاضر کے محدثِ کبیر، اور علل حدیث کے ماہر، شیخ ابو اسحاق الحوینیؒ اس
حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
" قلت: هذا حديث منكر... أبو جعفر هذا.... الصواب أنه ليس الباقر، بل هو
أبو جعفر المؤذن الأنصاري: مجهول. "
(میں کہتا ہوں: یہ حدیث منکر ہے۔۔۔ اور یہ ابو جعفر۔۔۔ درست یہی ہے کہ یہ محمد الباقر نہیں، بلکہ یہ ابو جعفر المؤذن الانصاری
ہیں، جو کہ مجہول (نامعلوم) ہیں)۔
(اسعاف اللبیث بفتاوی الحدیث: 2/36)
18- محدثِ مدینہ شیخ عبد المحسن
العباد کا قول:
محدثِ مدینہ، شیخ عبد المحسن العباد اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:
"الحديث
ضعيف؛ لأن في إسناده أبو جعفر المؤذن الأنصاري، وقد قيل: إنه مجهول، وقد قال عنه
الحافظ في التقريب: إنه مقبول، ولا يعتمد على من كان كذلك إلا إذا توبع، فالحديث
ضعيف"
(یہ حدیث ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں ابو جعفر المؤذن
الانصاری ہے، اور کہا گیا ہے کہ وہ مجہول
ہے۔ حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب التقریب میں اس
کے بارے میں کہا ہے کہ وہ "مقبول" ہے، اور ایسے راوی پر اعتماد نہیں کیا جاتا جب تک کہ اس
کی متابعت (تائید) نہ پائی جائے، لہٰذا
یہ حدیث ضعیف ہے)
(شرح سنن ابی داود للعباد: 85/17)
19- محدثِ مصر، شیخ مصطفی العدوی
کا قول:
شیخ مصطفی العدوی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
" مداره على أبي جعفر
المدني، وهو ضعيف"
(اس کا مدار ابو جعفر المدنی پر ہے اور وہ ضعیف ہے)
(سلسلۃ الفوائد الحدیثیہ والفقہیہ: 2/244)
ابو جعفر المدنی کی توثیق سے متعلق پیش کردہ دلائل کا تجزیاتی جائزہ
ابو جعفر المدنی
کو قابل اعتماد (ثقہ) قرار دینے کے لیے بعض لوگوں کی طرف سے درج ذیل دلائل پیش کیے
گئے ہیں،
جن کا ہم ذیل میں تنقیدی
اور تحقیقی انداز میں جائزہ لیں گے۔
پہلا
استدلال: کیا یحییٰ بن ابی کثیر صرف ثقہ راویوں سے روایت کرتے ہیں؟
اس استدلال کی
بنیاد امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کے درج ذیل قول پر ہے:
امام ابو حاتم الرازی
رحمہ الله (المتوفى277) فرماتے ہیں:
"يحيى بن ابى كثير امام لا
يحدث الا عن ثقة"
(الجرح
والتعديل لابن أبي حاتم: 9/ 142)
اس پر
تبصرہ:
یہ بات بطور
اصول (general rule) پیش
کی جاتی ہے، لیکن یہ کوئی حتمی اور قطعی قاعدہ نہیں ہے۔ اس کی چند وجوہات
ہیں:
1.
یہ قول خود یحییٰ بن ابی کثیر کی اپنی صراحت نہیں ہے، بلکہ امام ابو حاتم کی طرف سے ان
کے بارے میں رائے ہے۔
اس لیے یہ بات مطالعے
یا تجربے کی بنیاد پر اندازہ تو ہو سکتی ہے، لیکن قطعی حجت نہیں۔
2.
اگر یہ قاعدہ کسی پر مکمل طور پر لاگو ہو سکتا ہے تو وہ
صرف وہ راوی ہوں گے جو خود صراحت کے ساتھ یہ اعلان کریں کہ وہ صرف ثقہ سے
روایت کرتے ہیں، جیسے: شعبہ بن الحجاج یا یحییٰ بن سعید القطان وغیرہ۔
3.
اس کے باوجود، ایسے راویوں پر بھی یہ قاعدہ بطورِ
غلبہ (اکثر روایتوں میں) ہی لاگو ہوتا ہے، نہ کہ ہر روایت میں۔
4.
یحییٰ بن ابی کثیر کے بارے میں کسی بھی امام یا محدث نے
یہ اصولی قاعدہ ان کے تمام شیوخ پر لاگو نہیں کیا، بلکہ
ان کے بعض شیوخ کو صراحتاً مجہول قرار دیا گیا ہے۔ اس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔
امام یحیی
بن ابی کثیر کے بعض مجہول مشائخ:
1-
أبو إبراهيم الأشهلي
امام ذہبی ان کے متعلق فرماتے ہیں: "
مجهول "
(الکاشف، ومیزان)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: "مقبول" (تقريب)
2-
أبو إسحاق القرشي
امام ذہبی ان کے متعلق فرماتے ہیں: "مجهول" (ميزان
وديوان)
ابن حجر فرماتے ہیں: "مقبول" (تقریب)
3-
أبو حفصة مولي عائشة رضي الله عنها
امام دارقطنی ان کے معلق فرماتے ہیں: "
مجهول، لا أعلم حدث به عنه غير يحيى بن أبي كثير" (سؤالات البرقاني)
امام ذہبی فرماتے ہیں: "لا يعرف" (میزان)
امام ابن حجر فرماتے ہیں: "مقبول" (تقریب)
4-
أبو مزاحم، المَدَنِيّ
ابن حجر فرماتے ہیں: "مجهول" (تقریب)
امام دارقطنی فرماتے ہیں: "لا يعرف يترك" (سؤالات
البرقانی)
5-
أبو همام الشعباني
الحسینی فرماتے ہیں: "مجهول" (تعجیل
المنفعہ: 2/555)
الہیثمی کہتے ہیں: " لم أعرفه" (مجمع
الزوائد)
6-
الربيع بن محمد
ابن حجر فرماتے ہیں: " مجهول " (تقریب)
7-
ثمامة بن كلاب
امام بیہقی فرماتے ہیں: " مجهول " (سنن الکبری)
ابن حجر فرماتے ہیں: "مقبول" (تقریب)
8-
حمان الهنائي
امام ابن حزم فرماتے ہیں: "لا يعرف" (المحلی)
امام ذہبی فرماتے ہیں: "لا يدري من هو" (لسان)
ابن حجر فرماتے ہیں: "مستور" (تقریب)
مندرجہ بالا تفصیل
سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محدثین نے محض یہ بات کہ "یحییٰ بن ابی کثیر نے
کسی سے روایت کی ہے" کو اس راوی کی توثیق نہیں سمجھا۔
یہاں تک کہ امام
ابو حاتم الرازی جنہوں نے یہ مشہور قول فرمایا:
"یحییٰ بن ابی کثیر
صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں"
خود اسی قاعدے
کے مطابق عمل نہیں کرتے۔
امام ابو
حاتم الرازی کی جانب سے یحییٰ کے بعض شیوخ کو مجہول کہنا:
یہ بات اس وقت
مزید واضح ہو جاتی ہے جب ہم کتاب "الجرح والتعدیل" لابن ابی حاتم
سے وہ مثالیں دیکھتے ہیں جن میں امام ابو حاتم نے یحییٰ بن ابی کثیر کے بعض
شیوخ کو صراحتاً مجہول قرار دیا ہے۔
چند مثالیں درج
ذیل ہیں:
· 636 - عبد الله بن أبي الفضل المديني روى عن
أبي هريرة روى عنه يحيى بن أبي كثير سمعت أبي يقول ذلك وسمعته يقول: لم يرو عنه غير يحيى بن أبي كثير ولا نعرفه.
·
1026
- على بن سلمة القرشى مديني روى عن أبي هريرة روى عنه
يحيى بن أبي كثير سمعت أبي يقول ذلك ويقول هو
شيخ مجهول لا أعلم، روى عنه غير يحيى بن ابى كثير.
·
1108
- محمد بن ايوب يمامى روى عن ابى هريرة قال من بزق في المسجد، وروى عن سحيم مولى
ابى هريرة، وروى عن ابن حسن بن عبد الرحمن ابن عوف روى
عنه يحيى بن أبي كثير والاوزاعي وعكرمة بن عمار سمعت أبي يقول ذلك،
وكان البخاري جعله ثلاثة اسامى فسمعت ابى يقول هم واحد، نا عبد الرحمن قال سألت
أبي عنه فقال هو شيخ مجهول.
·
1120
- محمد بن ابان المزني يمامى روى عن عروة بن الزبير والقاسم ابن محمد روى عنه يحيى بن ابى كثير والاوزاعي، نا عبد الرحمن قال سمعت
أبي يقول ذلك وسألته عنه فقال هو شيخ من
اهل اليمامة لا أعلم أحدا روى عنه غير يحيى بن أبي كثير والاوزاعي.
·
1456
- أبو ابراهيم الاشهلى الأنصاري روى عن أبيه روى عنه
يحيى بن أبي كثير سمعت أبي يقول ذلك. نا عبد الرحمن قال سمعت أبي يقول:
أبو ابراهيم الانصاري الذي روى عنه يحيى بن ابى كثير لا
يدرى من هو ولا ابوه.
اس تفصیل سے یہ
بات واضح ہوتی ہے کہ امام ابو حاتم الرازی خود بھی محض یحییٰ بن ابی کثیر کے
کسی راوی سے روایت کرنے کو اس کی توثیق کی دلیل نہیں سمجھتے تھے۔
اس سے دو ہی
احتمالات نکل سکتے ہیں:
1.
امام ابو حاتم کا یہ قول کہ "یحییٰ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں" — منسوخ ہے۔
2.
یا پھر اس قول کا مفہوم کچھ اور ہے جسے وضاحت کی
ضرورت ہے۔
پہلا احتمال (یعنی
نسخ کا دعویٰ) بعید اور کمزور ہے، کیونکہ ایسی کوئی صریح دلیل یا اشاریہ
موجود نہیں جس سے ثابت ہو کہ امام ابو حاتم نے اپنے اس قول سے رجوع کیا ہو۔
زیادہ راجح اور
معقول توجیہ یہ ہے:
امام ابو حاتم کے
اس قول سے مراد یہ ہو سکتی ہے کہ:
"یحییٰ
بن ابی کثیر عمومی طور پر ان رواۃ سے روایت کرتے ہیں جو دیگر محدثین کے نزدیک
معروف اور ثقہ شمار ہوتے ہیں۔"
یعنی ان کے اساتذہ
میں اکثر و بیشتر رواۃ ثقہ ہوتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ ہمیشہ اور صرف
ثقہ ہی سے روایت کرتے ہیں، یا
کہ یہ ان کا کوئی اصولی التزام (مذہب) ہو۔
نکتۂ امتیاز:
- اکثر
شیوخ کا ثقہ ہونا
ایک الگ بات ہے،
- جبکہ
ہمیشہ صرف ثقہ سے روایت کا التزام کرنا ایک بالکل الگ دعویٰ ہے، جو زیادہ
سخت اور کلی نوعیت کا ہوتا ہے۔
لہٰذا، امام
ابو حاتم کے قول کی صحیح مراد دوسرا مفہوم ہے، اور اسی کو ان کے عملی طرزِ جرح
و تعدیل سے بھی تقویت ملتی ہے۔
دوسرا
استدلال: امام ترمذی کا ابو جعفر کی ایک روایت کو حسن کہنا
بعض لوگ اس بات کو
دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ابو جعفر کی
"ثلاث دعوات" والی ایک روایت کو "حدیث حسن" قرار دیا ہے، لہٰذا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو جعفر
ان کے نزدیک ثقہ یا حسن الحدیث ہیں۔
لیکن یہ استدلال
اصولِ فنِ حدیث کے لحاظ سے کمزور ہے، اس کی چند وجوہات درج ذیل ہیں:
"حسن" کا
مفہوم امام ترمذی کے ہاں مختلف ہے:
جیسا کہ امام ترمذی نے "العلل الصغیر" میں خود وضاحت کی ہے:
"ہر وہ حدیث جس کی سند میں کوئی متہم بالکذب راوی نہ ہو، شاذ
نہ ہو، اور اس کے معنی دیگر طرق سے بھی مروی ہوں — وہ ہمارے نزدیک حدیث حسن ہے۔"
(العلل الصغیر: ص 758)
یعنی امام ترمذی
کے نزدیک "حدیث حسن" کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہوں، بلکہ:
- اگر
حدیث میں کوئی جھوٹا راوی نہ ہو،
- شاذ
نہ ہو، اور
- معنوی
طور پر دیگر اسناد سے اس کی تائید بھی ہو جائے —
تو ایسی حدیث کو
وہ "حسن" کہتے ہیں، چاہے اس میں ایسا راوی بھی ہو جس کی حالت مجہول
یا ضعیف ہو۔
اس سے معلوم ہوتا
ہے کہ امام ترمذی کے نزدیک "حدیث حسن" کی تعریف میں قدرے توسع (وسعت)
پایا جاتا ہے، اور ان کے نزدیک کسی حدیث کا "حسن" ہونا، اس کے کسی پہلو
سے ضعیف ہونے کے منافی نہیں ۔
امام ترمذی
کئی ایسی احادیث کو "حسن" کہتے ہیں جن میں وہ خود ضعف کی نشاندہی کرتے
ہیں:
سنن ترمذی میں کئی
مقامات پر امام ترمذی نے ایسی احادیث کو "حسن" کہا ہے جن کے راویوں پر
خود انہوں نے ضعف، سوء حفظ، یا انقطاع کی نشان دہی کی ہے، مثلاً:
- هذا
حديث غريب حسن في هذا الباب، وعيسى بن ميمون الأنصاري يُضَعَّفُ في الحديث (ح 1089)
- هذا
حديث حسن وعلي بن
يَزيد يُضَعَّفُ في الحديث (ح 2347)
- حديث
سمرة حديث حسن غريب... وقد تكلم بعض الناس في إسماعيل بن مسلم من قِبَل حفظِه
(ح 233)
- هذا
حديث حسن قال محمد: "سليمان بن يسار لم يسمَع عندي من سلمة بن صخر" (ح 3299)
- هذا
حديث حسن... وعبدالله بن جعفر كان يَحيى بن معين يُضعِّفه (ح 799)
نیز اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی مثالیں ان کی سنن میں موجود ہیں جن میں انہوں
نے ایسے رواۃ کی احادیث کو حسن کہا ہے جو باتفاق محدثین ضعیف ہیں، یا جنہیں مجہول
کہا گیا ہے۔ لہٰذا، صرف ان کا
"حسن" کہنا کسی راوی کی صریح توثیق نہیں سمجھا جا سکتا۔
محدثین کا امام
ترمذی کو تحسین کے معاملے میں متساہل قرار دینا:
پچھلی وجوہات کی بناء پر محدثین نے امام ترمذی کی تحسین (حدیث کو حسن قرار
دینے) کو ضعیف یا مجہول راویوں کی توثیق کے طور پر قبول نہیں کیا۔ اس کی بنیادی
وجہ یہ ہے کہ امام ترمذی کی "حدیث حسن" کی تعریف دیگر متاخرین محدثین کی
اصطلاحی تعریف سے کہیں زیادہ وسیع اور عمومی ہے۔ اسی وسعت کے باعث امام ترمذی بعض
ایسی روایات کو بھی "حسن" کہہ دیتے تھے جن کے راوی ضعیف یا مجہول الحال
ہوتے تھے۔
اسی رویے کی بنا پر بعض محدثین نے امام ترمذی اور ان جیسے دیگر محدثین کو
تحسین میں متساہل (نرم رویہ اختیار کرنے والا) قرار دیا ہے۔
چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وقسم في مقابلة هؤلاء كأبي عيسى الترمذي وأبي عبد الله
الحاكم وأبي بكر البيهقي متساهلون"
(اور ان کے مقابلے میں ایک گروہ ایسا ہے، جیسے امام ترمذی، امام حاکم، اور
امام بیہقی — یہ حضرات (تحسین و تصحیح) میں متساہل شمار ہوتے ہیں)
(ذکر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل، ص: 172)
اس کی مثال:
امام ترمذی نے
عمارة بن حدید کی حدیث کو "حسن" قرار دیا،
لیکن محدثین نے ان کی
تحسین کو قبول نہیں کیا اور راوی کی توثیق سے اجتناب کیا۔
·
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں کہا:
"مجهول"
(تقریب
التهذيب)
·
امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی یہی کہا:
"مجهول"
(ميزان
الاعتدال)
اور دوسری جگہ
فرمایا:
"لا يدري من هو"
(نہیں معلوم یہ
کون ہے)
(الكاشف)
اس سے معلوم ہوتا
ہے کہ امام ترمذی کا کسی روایت کو "حسن" کہنا، ضعیف یا مجہول راوی کی
توثیق کے لیے کافی نہیں،
جب تک کہ دیگر محدثین کی
مستقل توثیق یا قرائنِ صحت موجود نہ ہوں۔
اس بنیاد پر امام
ترمذی کی "تحسین" کو احتیاط کے ساتھ سمجھنا ضروری ہے، خصوصاً جب وہ
کمزور یا مجہول راویوں سے متعلق ہو۔
تیسرا
استدلال: امام ابن حبان کا ابو جعفر کی روایت کو اپنی صحیح میں ذکر کرنا
بعض حضرات اس بات
کو دلیل بناتے ہیں کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ابو جعفر کی روایت کو اپنی
"صحیح" میں ذکر کیا ہے،
لہٰذا یہ اس بات کی دلیل
ہے کہ ابو جعفر ثقہ (قابل اعتماد) ہیں۔
لیکن یہ استدلال
متعدد وجوہات کی بنا پر قابل قبول نہیں۔
پہلی بات:
ابن حبان کا ابو جعفر کو محمد الباقر
سمجھنا:
ابن حبان نے جس
حدیث کو "صحیح" قرار دیا ہے،
اس میں "ابو
جعفر" کے بارے میں انہوں نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ وہ اسے محمد بن علی بن
حسین (محمد الباقر) سمجھتے ہیں۔ لہٰذا جس حدیث کو انہوں نے اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے اس میں انہوں
نے ابو جعفر کو محمد الباقر کہہ کر اس کی تصحیح کی ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
أخبرنا محمد بن سليمان بن فارس،
حدثنا الحسين بن عيسى البسطامي، قال: حدثنا عبد الصمد، قال: حدثنا هشام الدستوائي،
عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي جعفر، عن أبي
هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه قال: «ثلاث دعوات مستجابات لا شك فيهن: دعوة
المظلوم، ودعوة المسافر، ودعوة الوالد على ولده»
قال أبو حاتم رضي الله عنه: «اسم أبي جعفر محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب»
(صحیح ابن حبان: 6/416
ح 2699)
لہٰذا، ابن حبان
نے جس "ابو جعفر" کی حدیث کو "صحیح" قرار دیا ہے، وہ دراصل
"ابو جعفر المؤذن" نہیں بلکہ محمد الباقر ہیں — اور یہی ان کی غلطی ہے۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ
ابن حبان نے دونوں شخصیات کے درمیان فرق نہیں کیا،
جس کی وجہ سے انہوں نے
ابو جعفر المؤذن کی حدیث کو محمد الباقر کی طرف منسوب کر کے "صحیح" قرار
دیا۔
چنانچہ یہ تصحیح
اپنی بنیاد ہی میں محلِّ نظر ہے، اور
اسے ابو جعفر المؤذن کی
توثیق کے طور پر پیش کرنا علمی اعتبار سے درست نہیں۔
حیرت نہیں، افسوس
ہے ان لوگوں پر جو اس حدیث میں ابو جعفر کو المؤذن الانصاری مانتے ہیں،
پھر ڈھٹائی سے امام ابن
حبان کی تصحیح کو ان کی توثیق کے لیے پیش کرتے ہیں—
جبکہ اسی حدیث کے فوراً
بعد امام ابن حبان صاف لفظوں میں لکھتے ہیں کہ اس ابو جعفر سے ان کی مراد دراصل
محمد الباقر ہیں، تو پھر یہ تصحیح ابو جعفر المؤذن کے حق میں کیسے ہوئی؟
کیا ان لوگوں کی
بصیرت اتنی ماند پڑ چکی ہے کہ اسی حدیث کے فوراً بعد امام ابن حبان کا صریح قول
بھی ان کی نظر سے اوجھل رہا—
جس میں وہ واضح طور پر
ابو جعفر سے مراد محمد الباقر بتاتے ہیں؟
یا پھر یہ جان بوجھ کر
آنکھیں بند کر لینے کا رویہ ہے تاکہ روایت کو من پسند رخ دیا جا سکے؟
دوسری بات:
ابن حبان کا توثیق میں متساہل ہونا:
اگر بالفرض امام
ابن حبان کی اس تصحیح کو ابو جعفر المؤذن کے حق میں تسلیم بھی کر لیا جائے، تب بھی یہ بات علمائے جرح و تعدیل کے ہاں
مسلم اور معروف ہے کہ:
امام ابن حبان
توثیق کے معاملے میں متساہل (نرمی برتنے والے) شمار ہوتے ہیں۔
وہ بعض اوقات محض
کسی راوی پر جرح کے نہ ہونے (عدمِ جرح) کو کافی سمجھ کر اسے "ثقہ" قرار دے دیتے ہیں، حالانکہ اصولِ حدیث کی رو سے عدمِ جرح، ثبوتِ عدالت کے
لیے کافی نہیں ہوتا۔
اسی بنیاد پر
مجہول راویوں کے حق میں ابن حبان کی توثیق یا تصحیح علمائے محدثین کے نزدیک قابلِ قبول نہیں سمجھی جاتی، جب تک کہ دیگر معتبر ائمہ کی تائید و توثیق
موجود نہ ہو۔
چوتھا
استدلال: امام نووی کا ابو جعفر کی روایت کو "صحیح علی شرط مسلم" کہنا:
بعض حضرات اس بات
کو دلیل بناتے ہیں کہ امام نووی رحمہ اللہ نے ابو جعفر کی جس روایت کو ذکر کیا ہے،
اس کے بارے میں فرمایا:
"اسے ابو داود نے
صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے، اور یہ امام مسلم کی شرط پر ہے۔"
(المجموع
3/178، الریاض ص 330)
اس قول کو بطور
توثیق پیش کرنا کسی صورت درست نہیں۔ کیونکہ یہ امام نووی کی ایک واضح غلطی ہے۔ ابو جعفر المؤذن کی کوئی بھی روایت صحیح
مسلم میں موجود نہیں، لہٰذا یہ کہنا کہ یہ حدیث
"مسلم کی شرط پر صحیح ہے" قطعی
بے بنیاد ہے۔
بلکہ امام نووی کے
اس قول سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی ابن حبان کی طرح ابو جعفر المؤذن کو
کسی اور راوی—شاید محمد الباقر—سمجھ کر تصحیح کی ہے۔
اس لیے امام نووی کی اس
تصحیح کو ابو جعفر المؤذن، جو کہ مجہول راوی ہیں، کی توثیق کے لیے پیش کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔
مزید یہ کہ امام
نووی نے اس حدیث کو صرف "شرط مسلم" پر صحیح قرار دیا ہے، حالانکہ محمد الباقر بخاری اور مسلم دونوں
کے رجال میں شامل ہیں۔ پس
اگر ان کی مراد واقعی محمد الباقر ہوتے، تو وہ "شرط الشیخین" کہتے۔
یہ قرینہ اس بات کی طرف
اشارہ کرتا ہے کہ امام نووی کی نظر میں "ابو جعفر" کوئی تیسرا ہی راوی
تھا۔
اسی نکتے کی طرف شیخ
البانی رحمہ اللہ نے بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا:
"وأغرب النووي رحمه الله؛ حيث قال في " المجموع " (3/178) ، وفي
" الرياض " (ص 330) : " رواه أبو داود بإسناد صحيح على شرط مسلم
"! ولا أدري من هو أبو جعفر هذا عند النووي؟! فإنه إن كان الباقر، فقوله:
" على شمرط مسلم "! وحده قصور؛ فإنه من رجال الشيخين، وكذا سائر رجال
الإسناد، كما تقدم. وإن كان غيره؛ فمن هو؟"
(امام نووی رحمہ اللہ سے
اس مقام پر ایک عجیب کام ہوا، جنہوں
نے اپنی کتاب "المجموع"
(جلد 3، صفحہ 178) اور "الریاض"
(صفحہ 330) میں کہا: "اسے
ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے، جو امام مسلم کی شرط پر ہے!" لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا کہ امام نووی کے نزدیک یہ
"ابو جعفر" کون ہیں؟! اگر ان کی مراد
محمد الباقر ہیں، تو یہ کہنا کہ "امام
مسلم کی شرط پر ہے" ناکافی
ہے، کیونکہ یہ راوی تو بخاری و مسلم دونوں کے
رجال میں سے ہیں، اور سند کے باقی تمام
راوی بھی، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور
اگر ان کی مراد کوئی اور ابو جعفر ہیں، تو
سوال یہ ہے کہ وہ کون ہیں؟)
(ضعیف ابی داود – الام: 1/220)
اسی طرح فقیہ
العصر شیخ ابن بازؒ نے بھی امام نووی کی اس تصحیح کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:
"قلت: هذا وهم من النووي رحمه الله فليس
إسناده على شرط مسلم، بل هو ضعيف لعلتين: إحداهما: أنه من رواية أبي جعفر غير
منسوب وهو مجهول"
(میں کہتا ہوں: یہ
امام نووی رحمہ اللہ کی ایک غلطی ہے، کیونکہ اس کی سند امام مسلم کی شرط پر نہیں
ہے، بلکہ یہ دو علتوں (کمزوریوں) کی وجہ سے ضعیف ہے: ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ
روایت ایسے ابو جعفر کی ہے جس کی نسبت (نسب) بیان نہیں کی گئی، اور وہ مجہول
(نامعلوم) ہے)
(مجموع
فتاوی ابن باز: 26/235)
لہٰذا امام نووی
کے اس قول سے ابو جعفر المؤذن کی توثیق پر استدلال کرنا نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ علمی معیار کے خلاف بھی۔
پانچواں
استدلال: امام ذہبی کا اس روایت کو "اسنادہ
صالح" کہنا
اس استدلال کا
صحیح فہم حاصل کرنے کے لیے پہلے امام ذہبی کی عبارت کا سیاق سمجھنا ضروری ہے، جو المهذب
في اختصار السنن الكبير میں موجود ہے (تصویر ملاحظہ کریں)۔
(المهذب في اختصار السنن الكبير: ص 680)
اس مقام پر امام
بیہقی اس حدیث کے مختلف طرق بیان کر رہے ہیں۔ ان طرق میں "حرب بن شداد" والا
واحد طریق ہے جس میں یحییٰ بن ابی کثیر اور ابو جعفر کے درمیان ایک اضافی واسطہ
ذکر ہوا ہے، جبکہ باقی رواۃ نے یہی حدیث بغیر واسطہ نقل کی ہے۔ بیہقی اسی اختلاف
السند کو اجاگر کر رہے ہیں۔
اسی مقام پر امام
ذہبی نے بھی ہشام کی یحییٰ عن أبي جعفر والی روایت کے ایک طریق کو ذکر کرتے ہوئے
فرمایا:
"وإسناده صالح"
یہاں "إسناده
صالح" کہنے کا مقصد روایت کے بلا واسطہ طریق کو محفوظ قرار دینا ہے، نہ کہ
اسناد کی توثیق مطلق یا تصحیح۔
"اسنادہ
صالح" کا مفہوم امام ذہبی کے نزدیک:
یہ بات متعدد
مقامات سے معلوم ہوتی ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ جب کسی روایت کے بارے میں "إسناده صالح" کہتے ہیں تو ان کی مراد عمومی طور پر درج ذیل ہوتی ہے:
1.
سند میں شذوذ یا مخالفت نہیں ہے یا وہ سند محفوظ ہے۔
2.
روایت استشہاد یا متابعت کے قابل ہے۔
3.
سند حسن یا صحیح کے درجہ پر نہیں، مگر بہت زیادہ ضعیف
بھی نہیں۔
4.
راوی ضعیف ہے، مگر ترک کے درجے کا نہیں۔
چند مثالیں:
·
تاریخ الاسلام (9/467) میں امام ذہبی نے ایک روایت کو اس کے مخالف طریق والی
روایت کے مقابلے میں محفوظ اور راجح قرار دینے کے لیے اس کی اسناد کو "اسناہ د
صالح" کہا، وہ فرماتے ہیں:
"وروى يحيى بن غيلان- ثقة- نا أبو عوانة عن الأعمش عن الضحاك عن ابن
عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (منا السفاح ومنا المنصور) .
وقال علي بن الجعد وأبو النضر: نا زهير بن معاوية، نا ميسرة بن حبيب
عن المنهال بن عمرو عن سعيد بن جبير سمع ابن عباس يقول: (منا السفاح ومنا المنصور
ومنا المهدي)
فهذا إسناده صالح والذي قبله منكر وهو منقطع."
(تاریخ الاسلام: 9/467)
·
امام ذہبی ایک جگہ فرماتے ہیں:
"ثم يليه ما كان إسناده صالحا، وقبله
العلماء لمجيئه من وجهين لينين فصاعدا"
(پھر اس کے بعد وہ روایت
آتی ہے جس کی سند صالح ہو، اور
علماء نے اس (روایت) کو اس لیے قبول کیا ہے کہ وہ دو یا دو سے زیادہ
"لین" (نرم/کمزور) طریقوں سے مروی ہے)
(سیر اعلام النبلاء: 13/214)
اس قول سے یہ بات
بخوبی واضح ہوتی ہے کہ امام ذہبی کے نزدیک ایک اسناد صالح ہونے کے باوجود بھی لین
ہو سکتی ہے۔ اور اگر ایسی دو یا زیادہ
"لین" اسانید موجود ہوں، تو
وہ باہم ایک دوسرے کو تقویت دے کر روایت کو قابل قبول بنا سکتی ہیں۔
الغرض امام ذہبی کے نزدیک "اسنادہ صالح" کا مرتبہ وہی ہے جو ابن حجر
کے نزدیک "مقبول" کا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر کئی مقامات پر آپ نے اسنادہ صالح کہہ کر دوسری جگہ اس کے
راویوں پر کلام کیا ہے۔
·
ایک جگہ پر امام ذہبی نے راوی کو
مجہول کہنے کے بعد بھی اسی اسناد کو صالح کہا ، فرماتے ہیں:
"مداره على
الحارث بن عمرو، وفيه جهالة، عن رجال من أهل حمص، عن معاذ. فإسناده صالح"
(سیر اعلام النبلاء: 18/472)
·
اسی طرح ایک دوسری جگہ اپنی سند
سے روایت کرتے ہوئے فرمایا:
"أبو هلال،
عن حنظلة، عن أنس: إنهم قالوا: يا رسول الله، أينحني بعضنا لبعض إذا التقينا؟
قال: «لا» ، قالوا: فيسجد بعضنا لبعض؟ قال: «لا، ولكن تصافحوا» .
تابعه جرير بن حازم،
وابن المبارك، عن حنظلة، أخرجه الترمذي، والقزويني، وإسناده صالح،
فقد قال أبو حاتم وغيره: إن
حنظلة ليس بالقوي"
(معجم الشیوخ الکبیر للذہبی: 2/176)
یہاں امام ذہبی نے حنظلہ کو "لیس بالقوی" قرار دینے کے بوجود اس کی
اس سند کو صالح کہا۔ نیز دیگر مقامات پر بھی امام ذہبی نے حنظلہ کو صراحتا ضعیف
کہا ہے، اور یہاں بھی اسناد کو صالح کہہ کر حنظلہ کے ضعف کو دلیل بنا یا ہے۔
ان تمام دلائل سے
یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ امام ذہبی کا اس مقام پر "إسنادہ صالح"
کہنا راوی کی توثیق کے لیے نہیں، بلکہ درحقیقت سند میں موجود ضعف کی طرف اشارہ ہے۔
امام ذہبی نہ تو اس روایت
کو "صحیح" قرار دیتے ہیں اور نہ ہی "حسن"؛ بلکہ ان کے نزدیک
اس میں ضعف موجود ہے—اور وہ ضعف ابو
جعفر المؤذن ہی ہے۔
چنانچہ امام ذہبی کا یہ
تبصرہ اس سند کے ضعف کی تصدیق کرتا ہے، نہ کہ اس کی تقویت کو۔
مزید برآں، یہ بات میزان
الاعتدال میں امام ذہبی کی جانب سے ابو جعفر کے ترجمے میں کیے گئے کلام سے بھی
مکمل طور پر مؤید ہوتی ہے۔
آخر میں یہ بات
قابلِ توجہ ہے کہ امام ذہبی کے "إسنادہ صالح" جیسے تبصروں کی حقیقت کو
شیخ عبداللہ السعد نے بھی واضح کیا ہے۔
انہوں نے شرح
الموقظہ للذہبی میں لکھا ہے:
"فنجد في كلامه ألفاظ (صحيح)
، (إسناده صحيح) ، (إسناده جيد) ، ويقول في الإسناد الذي فيه أمثال ابن لهيعة (ممن
يكتب حديثهم) ، (اسناده صالح) أي فيه ضعف "
(ہم امام ذہبی کے کلام میں
یہ الفاظ پاتے ہیں: (صحیح)، (اس کی سند صحیح ہے)، (اس کی سند اچھی ہے)، اور وہ ان
اسانید کے بارے میں جن میں ابن لہیعہ جیسے راوی ہوں — جن کی حدیث صرف لکھنے کے
قابل ہوتی ہے — کہتے ہیں: (اسناده صالح)، یعنی اس میں ضعف (کمزوری) موجود ہے)۔
(شرح الموقظہ للذہبی: ص 181)
لہٰذا ابو جعفر
المؤذن کا مجہول ہونا نہ صرف حافظ ابن حجر، بلکہ دیگر کئی محدثین کے اقوال سے ثابت
ہے، بلکہ امام ذہبی بھی اپنی اصطلاحی تصریحات کے مطابق اسی موقف میں شامل ہو جاتے
ہیں۔
دوسرا
جواب: امام ذہبیؒ کے نزدیک اس سند میں ابو جعفر کا تعین:
اگر بالفرض امام ذہبیؒ کے اس کلام کو
سند کی صحت پر محمول کر بھی لیا جائے، تب بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس
سند میں "ابو جعفر" سے مراد کون سی شخصیت لی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ
ایک اور مقام پر، یعنی الکبائر (تحقیق: الشیخ مشہور، ص 392) میں امام ذہبیؒ نے اسی
سند کو امام نوویؒ کی طرح "علی
شرط مسلم" قرار
دیا ہے۔
یہ ظاہر کرتا ہے کہ امام ذہبیؒ یہاں
کسی دوسرے ابو جعفر کو مراد لے رہے ہیں، اور یہ توثیق اُس ابو جعفر المؤذن کے حق
میں تسلیم نہیں کی جا سکتی جو اس روایت کا اصل راوی ہے۔ اس کے برخلاف، ابو جعفر
المؤذن کو مجہول قرار دینا امام ذہبیؒ نے میزان الاعتدال
میں واضح طور پر بیان کیا ہے، جیسا کہ اس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ امام ذہبیؒ کے یہ
دو مختلف احکام—یعنی ایک مقام پر
تصحیح اور دوسرے مقام پر "اسنادہ صالح"—درحقیقت وقت کے ساتھ ان کے مؤقف
میں تبدیلی کی عکاسی کرتے ہوں۔ چنانچہ ایک موقع پر انہوں نے اس روایت کو صحیح اس
لیے قرار دیا ہو کہ انہوں نے "ابو جعفر" کو کوئی ثقہ راوی سمجھا، جبکہ
دوسرے مقام پر "اسنادہ صالح" کہہ کر یہ ظاہر کیا ہو کہ وہ اب اس راوی کو
کوئی اور (غیر معروف یا کمزور) سمجھتے ہیں۔
لیکن بہرصورت، امام ذہبیؒ کے ان اقوال
سے ابو جعفر المؤذن کی توثیق کا استدلال کرنا محلِ نظر ہے۔
لہٰذا، اس تفصیل کی روشنی میں امام
ذہبیؒ کو ابو جعفر المؤذن کے موثقین میں شمار کرنا درست نہیں۔
خلاصہ ونتائجِ بحث:
اس تحقیق سے معلوم
ہوا کہ :
·
زیرِ بحث حدیث ضعیف ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ
اس کا راوی ابو جعفر المدنی المؤذن الانصاری مجہول الحال ہے۔
·
سند میں صحابی کی تعیین کے بارے میں راجح بات یہ
ہے کہ اس میں ابہام پایا جاتا ہے، اور زیادہ درست الفاظ "عن رجل من اصحاب النبی ﷺ" ہیں۔
·
یحییٰ بن ابی کثیر اگرچہ مدلس ہیں، لیکن اس روایت میں انہوں نے سماع
کی تصریح کر دی ہے، لہٰذا وہ روایت جس میں ان کے اور ابو جعفر کے درمیان واسطہ
ذکر ہوا ہے، مرجوح ہے۔
·
سند میں ابو جعفر المدنی کی تعیین میں اختلاف
پایا گیا ہے کہ آیا یہ امام محمد الباقر ہیں یا کوئی اور، جسے المؤذن
الانصاری کہا جاتا ہے۔ جمہور متقدمین محدثین اور یحییٰ بن ابی کثیر کے
شیوخ کی دیگر اسانید کی روشنی میں راجح یہی ہے کہ یہاں مراد المؤذن الانصاری
ہیں، نہ کہ محمد الباقر۔
·
ابو جعفر المدنی المؤذن کو جمہور محدثین نے مجہول قرار دیا ہے، اور یہ
فیصلہ محض لاعلمی کی بنیاد پر نہیں، بلکہ علم و درایت کے ساتھ کیا گیا ہے،
کیونکہ اس راوی کی توثیق کا کوئی معتبر قرینہ موجود نہیں۔ بعض حضرات جو
مبہم اقوال سے اس کی توثیق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان اقوال سے وہ ائمۂ
جرح و تعدیل بھی بخوبی واقف تھے، جنہوں نے باوجود اس علم کے، اسے مجہول ہی
قرار دیا۔ مزید برآں، ان اقوال کی حقیقت بھی تفصیل سے واضح کر دی گئی ہے۔
اس حدیث کا صحیح مفہوم:
بعض
لوگ اس حدیث کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ٹخنوں سے نیچے ازار لٹکانے سے وضو
ٹوٹ جاتا ہے۔
یہ
رائے نہ صرف سطحی فہم کی غماز ہے بلکہ شریعت اور سلف صالحین کے فہم کے بھی خلاف
ہے۔
نہ
صحابہ کرامؓ، نہ تابعین اور نہ ہی ائمۂ حدیث میں سے کسی نے بھی اس عمل کو نواقضِ
وضو (وضو توڑنے والی چیزوں) میں شمار کیا ہے۔ بلکہ اس روایت کو محض اخلاقی تربیت،
تادیب اور سخت تنبیہ کے سیاق میں لیا گیا ہے، نہ کہ فقہی حکم کے طور پر۔
ایسی
روایت جو سنداً ضعیف، مختلف فیہ اور غریب ہو، اس پر ایک ایسا مسئلہ قائم کرنا جسے
امت کے کسی بھی معتبر عالم یا فقیہ نے اختیار نہ کیا ہو، ایک شدید علمی خطا ہے۔
مزید
یہ کہ خود وہ علماء جو اس حدیث کو "حسن" یا "صحیح" مانتے ہیں،
وہ بھی اس سے وضو ٹوٹنے کا حکم نہیں لیتے۔
اگر
اس حدیث کو واقعی ناقضِ وضو کے مفہوم پر محمول کیا جائے، تو یہ بات شریعت کے معروف
اصولوں سے متصادم ہو گی، اور اس صورت میں یہ روایت مفہوماً منکر اور مردود شمار ہو
گی۔
چنانچہ
امام شوکانیؒ فرماتے ہیں:
"فلا
تقوم به حجة ولا يصح الاستدلال به على نقض وضوء المسبل إزاره، فكيف يستدل به على
هذه القضية الكلية التي تعم بها البلوى؟! فيا الله العجب من التسرع إلى إثبات
أحكام الله سبحانه بمجرد الخيالات المختلة والشبه المعتلة!"
(پس
اس سے (یعنی اس حدیث سے) نہ کوئی حجت قائم ہوتی ہے، اور نہ ہی ازار لٹکانے والے کے
وضو کے ٹوٹنے پر اس سے استدلال کرنا صحیح ہے۔ تو بھلا کیسے اس سے ایک ایسے کلی
مسئلے پر استدلال کیا جا سکتا ہے جو عام ابتلاء کا معاملہ ہو؟! اللہ کی پناہ! کیسا
تعجب ہے ان لوگوں پر جو محض فاسد خیالات اور کمزور شبہات کی بنیاد پر اللہ سبحانہ
وتعالى کے احکام کو ثابت کرنے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں!)
(السیل
الجرار: ص 63-64)
لہٰذا
اس حدیث کا درست مفہوم ایک اخلاقی وعید اور تکبر کے خلاف تنبیہ ہے، نہ کہ کوئی
مستقل فقہی قاعدہ۔
ذیل
میں اکابر علماء کی توضیحات کی روشنی میں اس حدیث کے مفہوم کو تین پہلوؤں سے بہتر
طور پر سمجھا جا سکتا ہے:
·
وعید
کا "تکبر" کے ساتھ مشروط ہونا
·
وضو
کا اعادہ بطورِ تنبیہ اور کفارۂِ گناہ کے لیے ہونا
· "عدمِ قبول" کا مطلب "عدمِ
ثواب" ہونا، نہ کہ نماز کا باطل ہونا
وعید کا
تکبر کے ساتھ مشروط ہونا:
سیدنا عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول:
اس حدیث میں جو نماز
کے تعلق سے وعید وارد ہوئی ہے، اس سے ملتا جلتا قول سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، اور اس میں انہوں نے اسے تکبر کے ساتھ مقید کیا ہے۔
چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
"«من أسبل إزاره في صلاته خيلاء فليس من
الله في حل ولا حرام»"
(جس نے اپنی چادر
(یا ازار) نماز میں تکبر کے ساتھ لٹکائی، تو وہ اللہ کے نزدیک نہ حلال میں ہے نہ
حرام میں)
(سنن
ابی داود: 637، ورجالہ ثقات)
اسے مرفوعا روایت
کیا گیا ہے لیکن محدثین نے اس کا موقوف ہونا ہی راجح قرار دیا ہے۔
اس حدیث کے مفہوم
کو بیان کرتے ہوئے علامہ عینی حنفی فرماتے ہیں:
"والمعنى: فليْس عند
الله في شيء، وقد شاع بَيْنَ العَرب ضربُ المثل بقولهم: فلان لا ينفع للحلال ولا
للحرام، ويُريدون به أنه سَاقط من الأعْين، لا يُلْتفتُ إليه، ولا يُعبا به
وبأفْعاله، وكذلك معنى الحدَيث: من أسْبل إزاره في صلاته خُيلاء فليْس هو عند الله
في شيء، ولا يَعْبا الله به ولا بصلاته"
(اس حدیث کا مطلب
یہ ہے کہ: جو شخص نماز میں تکبر کرتے ہوئے اپنی چادر یا
ازار لٹکائے، وہ اللہ کے نزدیک کسی حیثیت میں نہیں ہے، یعنی اللہ کے ہاں اس کی
کوئی وقعت نہیں۔ یہ عربوں کے ہاں ایک معروف محاورہ ہے، وہ کہا کرتے ہیں:
"فلاں شخص نہ حلال کے قابل ہے نہ حرام کے"، یعنی وہ ایسا بے وقعت انسان
ہے کہ اس کی کسی بات یا عمل کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔
اسی طرح اس حدیث
کا مطلب بھی یہی ہے کہ جو شخص نماز میں ازار کو تکبر سے نیچے لٹکائے، وہ اللہ کے
ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اللہ تعالیٰ اس کی ذات یا اس کی نماز کو کوئی اہمیت
نہیں دیتا)
(شرح
سنن ابی داود للعینی: 3/170)
امام نوویؒ
کا قول:
امام نووی فرماتے
ہیں:
"يحرم إطالة الثوب والإزار والسراويل على
الكعبين للخيلاء ويكره لغير الخيلاء نص عليه الشافعي في البويطي وصرح به الأصحاب
وقد بيناه في باب ستر العورة ويستدل له بالأحاديث الصحيحة المشهورة"
(تکبر کے طور پر
کپڑے، ازار اور پاجامے کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا حرام ہے، اور اگر تکبر
کے بغیر ہو تو مکروہ ہے۔ اس پر امام شافعیؒ نے "البویطی" میں
صراحت کی ہے، اور اصحاب (شافعی فقہاء) نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ ہم نے اس مسئلے
کو باب سترِ عورت میں بیان کیا ہے، اور اس پر مشہور صحیح احادیث سے
استدلال کیا جاتا ہے)
(المجموع
شرح المہذب: 4/457)
اور پھر اس کے بعد
امام نووی نے اپنے اس استدلال پر ان صحیح احادیث کا ذکر کیا ہے اور انہی میں سیدنا
ابو ہریرہ کی زیرِ بحث حدیث بھی شامل ہے۔
علامہ
طیبیؒ (م 743 ھ)
علامہ طیبیؒ
فرماتے ہیں:
"فعلي هذا ينبغي أن يعبر كلام رسول الله
صلى الله عليه وسلم عن أن الله لا يقبل صلاة المتكبر المختال، فتأمل في طريق هذا
التشبيه، ولطف هذا الإرشاد.
ومنها ما روي عن
عطية قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ((إن الغضب خلق من الشيطان وإن الشيطان
خلق من النار، وإنما تطفأ النار بالماء، فإذا غضب أحدكم فليتوضأ)) أخرجه أبو داود.
ولعل الرجل كان بليغاً متنبهاً للرمزة فطهر ظاهره وباطنه، وإلا فلم يكن يقرره علي
ما كان عليه."
(تو اس بنیاد پر
رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو یوں تعبیر کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ متکبر اور خود
پسند انسان کی نماز کو قبول نہیں فرماتا۔ پس اس تشبیہہ کے انداز اور اس لطیف
رہنمائی پر غور کرو۔
اسی باب میں وہ
روایت بھی ہے جو عطیہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "بے شک غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، اور شیطان آگ سے
پیدا کیا گیا ہے، اور آگ کو صرف پانی سے بجھایا جاتا ہے، تو جب تم میں سے کوئی غصہ
میں ہو جائے تو وضو کر لے" — اس حدیث کو ابو داود نے روایت کیا ہے۔
اور ممکن ہے کہ وہ
شخص (جسے وضو کا حکم دیا گیا) باشعور اور اشارے کو سمجھنے والا ہو، پس اس نے اپنے
ظاہر کو بھی پاک کیا اور باطن کو بھی، ورنہ اگر وہ اس حالت پر باقی رہتا تو نبی ﷺ
اسے یونہی نہ چھوڑتے)۔
(شرح
المشکاۃ للطیبی: 3/965-966)
شیخ
الاسلام ابن تیمیہ کا قول:
شیخ الاسلام امام
ابن تیمیہؒ نے زیرِ بحث حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا:
"وهذه نصوص صريحة في تحريم الإسبال على
وجه المَخِيلة، والمطلقُ منها محمول على المقيَّد. وإنما أطلق ذلك لأنَّ الغالب
أنَّ ذلك إنما يكون مخيلة"
(یہ تمام نصوص
واضح طور پر تکبر کے طور پر ازار لٹکانے (اسبال) کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں، اور
جو احادیث اسبال کو مطلقاً منع کرتی ہیں، وہ درحقیقت ان ہی مقید احادیث (یعنی جن
میں تکبر کی قید ہے) پر محمول ہیں۔ اور اسبال کو مطلق طور پر ذکر کرنے کی وجہ یہ
ہے کہ عموماً ایسا تکبر ہی کی وجہ سے کیا جاتا ہے)
(شرح
عمدۃ الفقہ: 2/369)
علامہ محمد
بن علی ابن علان الشافعی (م 1057 ھ) کا قول:
علامہ محمد بن علی
بن محمد بن علان الشافعی اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"(قال: إنه كان يصلي وهو مسبل إزاره) أي
بطول ثوبه وإرساله إذا مشى حتى يصل إلى الأرض وفعله ذلك كان تكبرا واختيالاً "
((فرمایا: وہ نماز
پڑھ رہا تھا جبکہ اس کا ازار لٹکا ہوا تھا) یعنی وہ اپنے کپڑے کو اتنا لمبا اور
چھوڑ کر چل رہا تھا کہ وہ زمین تک پہنچتا، اور اس کا یہ عمل تکبر اور گھمنڈ
کی وجہ سے تھا)۔
(دلیل
الفالحین لطرق ریاض الصالحین: 5/275)
وضوء کا
اعادہ بطورِ تنبیہ اور کفارہِ گناہ کے لیے ہونا:
علامہ
طیبیؒ (م 743 ھ) کا قول:
علامہ طیبی (م 743
ھ) فرماتے ہیں:
" أقول: لعل السر في أمره بالتوضؤ- وهو
طاهر- أن يتفكر الرجل في سبب ذلك الأمر، فيقف علي ما ارتكبه من شنعاء، وأن الله
تعالي ببركة أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بطهارة الظاهر يطهر باطنه من التكبر
والخيلاء؛ لأن طهارة الظاهر مؤثرة في طهارة الباطن"
(میں کہتا ہوں:
شاید نبی کریم ﷺ کے اس طاہر (پاک) شخص کو دوبارہ وضو کا حکم دینے کی حکمت یہ ہو کہ
وہ شخص اس حکم کی وجہ پر غور کرے، تاکہ وہ اپنی کی گئی برائی کو پہچان لے۔ اور یہ
کہ اللہ تعالیٰ، رسول اللہ ﷺ کے حکم کی برکت سے، اس کے ظاہر کو پاک کرنے کے ذریعے
اس کے باطن (دل) کو بھی تکبر اور گھمنڈ سے پاک کر دے؛ کیونکہ ظاہر کی طہارت، باطن
کی طہارت پر اثر انداز ہوتی ہے)
(شرح
المشکاۃ للطیبی: 3/965)
امام ابن
القیمؒ (م 751 ھ) کا قول:
امام ابن القیمؒ
فرماتے ہیں:
" ووجه هذا الحديث ــ والله أعلم ــ أن إسبال الإزار
معصية، وكل مَن واقع معصيةً فإنه يؤمر بالوضوء والصلاة، فإن الوضوء يطفئ حريق
المعصية. "
(اس حدیث کی حکمت ــ والله أعلم ــ یہ ہو سکتی ہے کہ ازار کو ٹخنوں سے نیچے
لٹکانا ایک معصیت (گناہ) ہے، اور جو شخص بھی کسی معصیت کا ارتکاب کرے، اسے وضو اور
نماز کا حکم دیا جاتا ہے، کیونکہ وضو گناہ کے شعلے کو بجھاتا ہے)
(تہذیب
سنن ابی داود: 3/65)
علامہ ابن
علانؒ (م 1057 ھ) کا قول:
علامہ محمد بن علی
بن محمد بن علان الشافعی (م 1057 ھ) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"فيحتمل والله أعلم أن يكون أمره بإعادة
الوضوء ليكون مكفراً لذنبه، فقد جاء أن الطهور مكفر للذنوب، فمن ذلك حديث البراء
بإسناد حسن عن عثمان مرفوعاً «لا يسبغ عبد الوضوء إلا غفر له ما تقدم من ذنبه وما
تأخر» فلما كان في إسبال الإزار من الإثم ما فيه أمره بالوضوء ثانياً ليكون
تكفيراً لذنب الإسبال ولم يأمره بإعادة الصلاة لأنها «صحيحه» وإن لم تقبل كما قال
(إن الله لا يقبل صلاة رجل مسبل)
"
(احتمال ہے — اور
اللہ ہی بہتر جانتا ہے — کہ نبی ﷺ نے اسے دوبارہ وضو کرنے کا حکم اس لیے دیا ہو
تاکہ وہ اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے، کیونکہ یہ بات آئی ہے کہ طہارت (وضو) گناہوں
کا کفارہ ہوتی ہے۔ چنانچہ براء بن عازب کی حدیث میں حسن سند کے ساتھ عثمان رضی
اللہ عنہ سے مرفوعاً منقول ہے کہ: "کوئی بندہ وضو کو مکمل طور پر نہیں کرتا
مگر اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔" پس جب ازار لٹکانے میں اتنا گناہ ہے، تو نبی ﷺ نے دوبارہ وضو کا حکم
دیا تاکہ یہ وضو ازار لٹکانے کے گناہ کا کفارہ بن جائے۔ اور آپ نے اسے نماز دوبارہ
پڑھنے کا حکم نہیں دیا، کیونکہ نماز شرعاً "صحیح" ہے، اگرچہ
"قبول" نہ کی گئی ہو، جیسا کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: "اللہ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جو ازار لٹکائے ہو۔")۔
(دلیل
الفالحین لطرق ریاض الصالحین: 5/275)
عدمِ
قبول" کا مطلب "عدمِ ثواب" ہونا، نہ کہ نماز کا باطل ہونا:
علامہ
طیبیؒ (م 743 ھ) کا قول
علامہ طیبیؒ (م 743
ھ) فرماتے ہیں:
"يعني أن الله تعالي لا يقبل كمال صلاة
رجل يطول ذيله. وإطالة الذيل عند الشافعي مكروهة، سواء كانت في الصلاة أو غيرها،
ومالك يجوزها في الصلاة، ولا يجوزها في المشي؛ لظهور الخيلاء فيه، وليس كذلك في
الصلاة"
(یعنی اللہ تعالیٰ
ایسے شخص کی نماز کا کمال (یعنی کامل درجہ یا اجر) قبول نہیں کرتا جو اپنا کپڑا
(یعنی ازار) نیچے لٹکاتا ہے۔ اور امام شافعیؒ کے نزدیک ازار لٹکانا مکروہ ہے، چاہے
نماز میں ہو یا نماز کے علاوہ۔ جبکہ امام مالکؒ کے نزدیک نماز میں ازار لٹکانا
جائز ہے، لیکن چلنے کے دوران جائز نہیں، کیونکہ اس میں تکبر نمایاں ہوتا ہے، جبکہ
نماز میں ایسا نہیں ہوتا)۔
(شرح
المشکاۃ للطیبی: 3/965)
علامہ حسن
بن علی القاہری (م 870 ھ) کا قول
علامہ حسن بن علی
القاہری (م 870 ھ) فرماتے ہیں:
"هذا الحديث لا يحمل على ظاهره في أمره
عليه السلام بإعادة الوضوء وأنه لا يلزم من عدم قبول الصلاة عدم الصحة كما في صلاة
الآبق وشارب الخمر وإتيان الكهان ومن صلى في أرض مغصوبة وغير ذلك لأنه أخص، وحينئذ
فالمنفي الثواب للدليل على الصحة واستكمال الشروط، وقد يتلازمان لهذا الحديث وهو
الغالب قاله في شرح مشارق الأنوار"
(اس حدیث کو اس کے
ظاہری مفہوم پر نہیں لیا جائے گا، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو دوبارہ کرنے
کا حکم دینا ظاہری وجوب پر محمول نہیں، اور نہ ہی یہ لازم آتا ہے کہ نماز
کا عدم قبول ہونا اس کے باطل (فاسد) ہونے کو بھی لازم کرے — جیسا کہ
بھاگے ہوئے غلام، شراب پینے والے، کاہنوں کے پاس جانے والے، یا غصب کی ہوئی زمین
میں نماز پڑھنے والے کی نماز کے بارے میں کہا گیا ہے۔ کیونکہ یہ (حدیث) ان تمام
صورتوں سے زیادہ خاص ہے۔ لہٰذا اس حدیث میں نماز کی عدم مقبولیت سے مراد
ثواب کا انکار ہے، نہ کہ صحت کا۔ کیونکہ صحت اور ثواب بعض اوقات جمع ہوتے ہیں،
جیسے کہ اس حدیث سے ظاہر ہے، اور اکثر یہی صورت ہوتی ہے۔ماخوذ از: شرح مشارق
الأنوار)
(فتح
القریب المجیب علی الترغیب والترہیب: 9/134)
علامہ عینی
حنفیؒ (م 855 ھ) کا قول:
علامہ عینی حنفی
فرماتے ہیں:
" وإنما أمرَه- عليه السلام بالوضوء مرتين زجرا علي لما
فعل من إسبال إزاره، فكأنه- عليه السلام رأى وضوءه وهو في هذه الحالة كَلا وضوء،
والصلاة لا تجوز إلا بوضوء. والحديث منسوخ وضعيف- أيضاً "
(نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس شخص کو دو بار وضو کا حکم محض اس کی ازار لٹکانے پر تنبیہ
کے طور پر دیا، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اس حالت میں کیے گئے وضو کو ناقص
سمجھا، جیسے کہ کوئی وضو ہی نہ ہو، حالانکہ نماز تو صرف صحیح وضو سے
جائز ہوتی ہے۔ اور یہ حدیث منسوخ ہے اور ضعیف بھی)
(شرح
سنن ابی داود للعینی: 3/169)
علامہ ابن
علان (م 1057 ھ) کا قول:
علامہ محمد بن علی
بن محمد بن علان الشافعی (م 1057 ھ) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"والمراد من قوله لا يقبل: لا يكفر ذنوبه
ولا يطهر قلبه من الآثام وإن أسقطت عنه الطلب"
(اور ان کے قول
"اللہ قبول نہیں کرتا" سے مراد یہ ہے کہ اللہ اس کے گناہوں کا کفارہ
نہیں بناتا اور نہ ہی اس کے دل کو گناہوں سے پاک کرتا ہے، اگرچہ (نماز) اس سے
ظاہری ذمہ داری کو ساقط کر دیتی ہے)۔
(دلیل
الفالحین لطرق ریاض الصالحین: 5/275)
علامہ ابن
بازؒ (م 1420 ھ) کا قول:
علامہ عبد العزیز
بن عبد اللہ بن باز فرماتے ہیں:
"ولو صح فمعناه التغليظ والتشديد، ليحذر
العود إلى الإسبال. أما صلاته فصحيحة؛ لأن الرسول صلى الله عليه وسلم لم يأمره
بإعادتها، وإنما أمره بإعادة الوضوء، ونفي القبول في الصلاة لا يلزم منه بطلان الصلاة
في جميع موارده؛ لأنه صلى الله عليه وسلم قال: «من أتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل
له صلاة أربعين ليلة» رواه مسلم في صحيحه.
وقد حكى النووي
الإجماع أنه لا يؤمر بالإعادة، وإنما فاته الثواب للزجر والتحذير. وله نظائر في
أحاديث أخرى. ويدل على أن نفي القبول في حديث المسبل، لا يلزم منه بطلان الصلاة؛
لأن الرسول صلى الله عليه سلم لم يأمره بالإعادة. وهكذا في حديث ابن مسعود لم
يأمره بالإعادة.
فدل ذلك على أن
مراده صلى الله عليه وسلم بأمره بإعادة الوضوء هو الزجر والتحذير.. ولعل وضوءه
يخفف عنه الإثم. وهذا كله على تقدير صحة الحديث المذكور."
(اگر یہ حدیث صحیح
بھی ہو، تو اس کا مطلب تنبیہ اور سختی کے طور پر لیا جائے گا تاکہ وہ دوبارہ ازار
لٹکانے کی طرف نہ لوٹے۔ رہی بات اُس کی نماز کی، تو وہ درست ہے، کیونکہ رسول اللہ
ﷺ نے اُسے نماز کے اعادے کا حکم نہیں دیا، بلکہ صرف وضو دوبارہ کرنے کا فرمایا۔
نماز کے قبول نہ
ہونے کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ نماز باطل ہو گئی۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جس
میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جو شخص کسی کاہن کے پاس جائے اور
اُس سے کچھ پوچھے، اُس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوتی" (صحیح مسلم)
امام نووی نے اس
پر اجماع نقل کیا ہے کہ ایسے شخص پر نماز کا اعادہ واجب نہیں، بلکہ صرف اس کے ثواب
سے محرومی ہوتی ہے تاکہ اس فعل سے روکا جا سکے، اور اس مفہوم کی اور بھی کئی
احادیث میں نظیریں ملتی ہیں۔
اسی طرح یہ بھی
دلیل ہے کہ مسبل (ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والے) کی نماز کے قبول نہ ہونے کا
مطلب یہ نہیں کہ نماز باطل ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اُس شخص کو نماز دوبارہ
پڑھنے کا نہیں کہا۔ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی نبی ﷺ نے نماز کے
اعادے کا حکم نہیں دیا۔
یہ سب اس بات کی
طرف اشارہ کرتا ہے کہ نبی ﷺ نے وضو کے اعادے کا جو حکم دیا، وہ زجر و تنبیہ کے لیے
تھا… اور شاید وضو دوبارہ کرنا اس کے گناہ کے کفارے کا سبب بن جائے۔ اور یہ پوری
وضاحت اس صورت میں ہے جب یہ حدیث صحیح مانی جائے)۔
(مجموع
الفتاوی: 26/236-237)
الشبکہ
الاسلامیہ کا فتوی:
فتاوي الشبكة
الإسلامية
میں ہے:
" على افتراض صحته
فإن عدم القبول لا يعني -بالضرورة- عدم الإجزاء، فقد ثبت أن من أتى عرافاً لم تقبل
له صلاة أربعين ليلة، ومن شرب الخمر لم تقبل له صلاة أربعين ليلة، ومع ذلك لم يؤمر
أحد منهما بالإعادة، مما يدل على أن الصلاة مجزئة، وإنما المنفي حصول الثواب والقبول
الذين يحصلان للمتقين المطيعين. قال تعالى (إنما يتقبل الله من المتقين)
[المائدة:27] وبناء على ما تقدم فإن الراجح -إن شاء الله تعالى- هو ما عليه
الجمهور من صحة صلاة المسبل. ويبنى على ذلك صحة الصلاة خلفه، وإن كان الأولى أن
يصلي المسلم خلف الأتقى والأورع، ولكن إن صلى خلف مرتكب المعصية، والمتصف بالبدعة
غير المكفرة فالصلاة صحيحة، وقد صلى جماعة من الصحابة خلف الحجاج وغيره"
(اگر اس حدیث کو صحیح بھی
مان لیا جائے، تو نماز کے قبول نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ نماز ادا ہی
نہیں ہوئی یا اس کا اجر بالکل ختم ہو گیا ہو۔ اس کی مثالیں موجود ہیں:
- جس
شخص نے کسی کاہن (عامل) سے کچھ پوچھا، اس کی چالیس راتوں تک نماز قبول نہیں
ہوتی؛
- جس
نے شراب پی، اس کی چالیس راتوں تک نماز قبول نہیں ہوتی؛
لیکن ان میں سے کسی
کو بھی نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی
نماز ادا ہو جاتی ہے (یعنی فرض ادا ہو جاتا ہے)، البتہ اس کا ثواب اور
وہ روحانی قبولیت حاصل نہیں ہوتی جو متقین اور اطاعت گزاروں کو نصیب ہوتی ہے،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:"اللہ
تو صرف پرہیزگاروں کی عبادت کو قبول کرتا ہے" (المائدة: 27)
ان دلائل کی روشنی
میں راجح قول (ان شاء اللہ) وہی ہے جو جمہور اہل علم کا ہے، یعنی: مسبل (ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے والے) کی نماز صحیح ہے۔ اسی بنیاد پر اگر ایسے شخص کے پیچھے
نماز پڑھی جائے تو وہ بھی درست ہوگی، اگرچہ بہتر یہی ہے کہ مسلمان کسی زیادہ
پرہیزگار اور متقی امام کے پیچھے نماز پڑھے۔ لیکن اگر کوئی شخص گناہگار ہو
یا ایسی بدعت پر ہو جو کفر تک نہیں پہنچتی، تو اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی —
چنانچہ صحابۂ کرام نے بھی حجاج بن یوسف جیسے افراد کے پیچھے نماز پڑھی ہے)۔
(فتاوي
الشبكة الإسلامية: 11/7045)
اس تفصیلی تحقیق
سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ "اسبالِ ازار" پر وارد
یہ حدیث — خواہ سنداً حسن یا صحیح ہو — نہ تو ناقضِ وضو
ہے اور نہ ہی مبطلِ نماز۔
اس میں نہ کوئی فقہی
قاعدہ بیان کیا گیا ہے، اور نہ ہی نماز یا وضو کی شرطوں میں کوئی نیا اصول متعین
کیا گیا ہے۔
بلکہ یہ حدیث صرف
تکبر کے ساتھ ازار لٹکانے پر ایک شدید اخلاقی وعید اور روحانی تنبیہ پر مشتمل ہے،
تاکہ انسان ظاہری وضع قطع میں بھی عاجزی اور تواضع اختیار کرے۔
یہی فہم صحابۂ
کرامؓ، تابعینؒ، محدثین اور ائمۂ فقہ کا تھا، اور یہی فہم ہمیں اپنانا چاہیے۔
امت کو ان ضعیف
فہمیوں، بے بنیاد تشددات، اور فقہ سے بے تعلق قیاسات سے بچانا، علمی امانت اور
دینی دیانت کا تقاضا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں
شریعت کے دلائل کو ان کے مقام اور سیاق کے مطابق سمجھنے، عمل کرنے، اور دوسروں تک
پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔
وما علینا إلا
البلاغ المبين۔
Post a Comment