﷽
فہرست
ماہنامہ نور الحدیث کی نئی کوشش:
امام ابراہیم نخعی کی تدلیس کے دلائل کا جائزہ:
پہلی دلیل: ابراہیم نخعی کی عائشہ اور بعض صحابہ سے ملاقات:
اولا: تدلیس کی تعریف میں اختلاف اور مرسل کا اس میں شامل
ہونا:
ثانیا: حافظ ابن حجر کا اپنی تعریف سے رجوع:
ثالثا: حافظ سخاوی کا حافظ ابن حجر کے موقف کی وضاحت اور
تائید کرنا:
رابعا: امام ابن عبد البر کا قول:
خامسا: شیخ زبیر علی زئیؒ کا موقف:
1- صغار صحابہ کی نبی ﷺ سے مراسیل
2- سید التابعین امام سعید بن المسیب القرشی ابو محمد المدنی
(م بعد 90 هـ)
3- امام عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود الهذلي الكوفي (م 79
هـ)
4- امام رفيع بن مهران ، أبو العالية الرياحى البصرى (م 90 هـ)
5- امام عبد الرحمن بن الأسود بن يزيد بن قيس النخعي الكوفي (م
99 هـ)
6- امام عامر بن شراحیل الشعبی، أبو عمرو، الکوفی (م 104-106 هـ)
7- امام عطاء بن أبي رباح، أبو محمد، القرشي المكي (م 114 هـ)
8- امام أيوب بن أبى تميمة : كيسان السختيانى ، أبو بكر البصرى
(م 131 هـ)
9- امام عبد الله بن عون بن أرطبان، أبو عون البصري (م 150 هـ)
10- امام القاسم بن عبد الرحمن الهذلى المسعودى ، أبو عبد الرحمن
الكوفى (م 120 هـ)
11- امام عبد الرحمن بن عمرو الأوزاعي (م 157 هـ)
دوسری دلیل: ابراہیم نخعی کی تدلیس پر خلف بن سالم کی حکایت:
ضعیف ہونے کے اعتراف کے باوجود صاحبِ مضمون کا اسی حکایت
سے استدلال کرنا:
آپ
کے دل کا اطمینان، یا اصولِ فن کا انکار؟
راوی
کی تعیین: کیا واقعی مشکل تھی؟
1- دلیل نمبر 1: "حمویہ" صرف ایک ہی ہے!
2- دلیل نمبر 2: تصریحاتِ محدثین:
3- تیسری دلیل: جعفر الطیالسی سے روایت کرنے والے عبد اللہ
بن محمد کا ذکر:
اولا:
خلف بن سالم کے مشائخ کون ہیں؟
ثانیا:
کیا یہ حکایت اصطلاحی تدلیس پر صریح ہے؟
ابراہیم نخعی کی مثال کا جائزہ:
دیگر
اقوال کی روشنی میں اس حکایت کی درست توجیہ:
کیا
محض مدلس کہلانے سے راوی مردود العنعنہ ہو جاتا ہے؟
ثالثا:
شیخ زبیر علی زئی کے نزدیک غیر صریح اقوال کی بنیاد پر تدلیس ثابت نہیں ہوتی
تیسری دلیل: امام حاکم
نے ابراہیم نخعی کو مدلسین میں ذکر کیا ہے:
امام ابراہیم نخعی کی عدمِ تدلیس کے دلائل:
1- امام نخعی کی ثقاہت، تقدمِ زمانہ اور محدثین کا اجماعِ سکوتی
2- محدثین کی گہری تحقیق اور پھر بھی تدلیس کا عدم ذکر
3- کتبِ صحاح میں امام نخعی کی معنعن روایات کا اعتماد کے ساتھ ذکر
4- معاصرین کے اصول پر ایک چیلنج
5- امام نخعی کی ان روایات کا مقام جنہیں معاصرین نے ان کے عنعنہ کی وجہ سے
ضعیف قرار دیا
تمہید:
کیا امام ابراہیم نخعی مدلس تھے؟ اس سوال کا درست
جواب دو بنیادی امور پر منحصر ہے:
1.
تدلیس سے مراد کیا
ہے؟
2.
مدلس کی روایت کا
حکم کیا ہے؟
تدلیس کی تعریف:
اکثر
متقدمین محدثین اور متاخرین کے نزدیک تدلیس ایک وسیع اصطلاح ہے جس میں یہ تینوں
صورتیں شامل ہیں:
·
(1) راوی
کا اپنے ایسے شیخ سے روایت کرنا جس سے سماع ثابت ہو۔
·
(2) راوی
کا ایسے معاصر سے روایت کرنا جس سے ملاقات تو ہو، مگر سماع نہ ہو۔
·
(3) راوی
کا ایسے معاصر سے روایت کرنا جس سے نہ ملاقات ہو نہ سماع۔
(دیکھیں: ص 45)
اکثر
محدثین کے نزدیک ان تینوں اقسام کو تدلیس کہا جاتا ہے، کیونکہ اصل چیز "ایہام
اور تلبیس" کا وجود ہے۔
لہٰذا،
ان کے نزدیک تدلیس کا حکم ہر صورت میں یکساں نہیں:
اگر
تدلیس، ارسال کی قبیل سے ہو تو اس میں یہ اصول ہے کہ راوی کا اپنے شیخ سے ایک
مرتبہ بھی سماع ثابت ہو جائے تو اس کی تمام معنعن روایات مقبول سمجھی جاتی ہیں۔
اس
کے برعکس، بعض محدثین نے تدلیس کی تعریف میں مزید تنقیح و تفریق کرتے ہوئے تدلیس
کو اس کے حکم کے اعتبار سے تقسیم کیا، اور ارسال کی اقسام کو تدلیس سے خارج کر
دیا۔
یوں
تدلیس کو صرف پہلی قسم تک محدود کیا گیا، یعنی اس صورت تک جب راوی اپنے ایسے شیخ
سے روایت کرے جس سے اس کا سماع تو ثابت ہو، لیکن ہر حدیث کے بارے میں یہ اشتباہ
باقی رہے کہ آیا یہ حدیث راوی نے براہِ راست سنی بھی ہے یا نہیں۔
جبکہ
وہ روایات جہاں راوی کا اصل سماع ہی ثابت نہ ہو، وہاں یہ اشتباہ پیدا نہیں ہوتا کہ
فلاں حدیث اس نے سنی ہے یا نہیں، بلکہ وہاں صرف یہ تحقیق مطلوب ہوتی ہے کہ شیخ سے
اصل سماع موجود ہے یا نہیں۔
لہٰذا
تدلیس کی یہ پہلی قسم — جسے ہم عام طور پر "اصطلاحی تدلیس" کہتے ہیں —
وہی ہے جو راوی کی ہر معنعن روایت میں اشتباہ اور احتیاط کا سبب بنتی ہے، اور یہی
تدلیس کی قسم ہمارے اور شیخ زبیر علی زئیؒ کے درمیان اصل محلِ نزاع ہے۔
اصطلاحی تدلیس اور امام نخعی:
اگر
تدلیس کو اس خاص صورت تک محدود کریں جس میں راوی اپنے شیخ سے سماع کے باوجود کسی
خاص روایت میں عدمِ سماع کا شک پیدا کرے — جسے "اصطلاحی تدلیس" کہا جا
سکتا ہے — تو اس قسم کی تدلیس امام ابراہیم نخعیؒ سے ثابت نہیں ہے۔ چنانچہ اس
بنیاد پر ان کی تمام معنعن روایات کو ضعیف قرار دینا درست نہیں۔
معاصر ناقدین کا رویہ:
بعض
معاصر ناقدین کا یہ سخت رویہ ہے کہ اگر کسی راوی میں تدلیس کا معمولی سا احتمال
بھی ہو تو بلا تحقیق اس کی تمام معنعن روایات کو یکساں طور پر ضعیف قرار دے دیتے
ہیں۔ یہ طرزِ عمل علمِ حدیث کی گہرائی اور اصولوں سے ناواقفیت پر مبنی ہے، نہ کہ
علمی تحقیق پر۔
اسی
طرزِ فکر کا شکار ہمارے دور کے ایک محقق شیخ زبیر علی زئیؒ بھی ہوئے، جنہوں نے
امام ابراہیم نخعیؒ کو "طبقہ ثالثہ کے مدلسین" میں شمار کرتے ہوئے ان کی
معنعن روایات کو ناقابلِ اعتماد قرار دیا۔
بلکہ
برصغیر کے کئی اہلِ حدیث علماء نے بھی فقہی تعصب اور حنفی مخالفت کے ردِ عمل میں
امام نخعی پر ایسے اعتراضات کیے، جو محدثین کے مسلمہ منہج سے بہت دور ہیں۔
حالانکہ
چودہ صدیوں میں کسی ایک معتبر محدث، فقیہ یا ناقد نے محض عنعنہ کی بنیاد پر امام
نخعی کی روایات کو ضعیف قرار نہیں دیا۔ یہ خود ایک صریح دلیل ہے کہ معاصرین کا یہ
موقف اجماعی محدثین کے منہج کے خلاف ہے۔
شیخ زبیرؒ کی تحقیق کا جائزہ:
اگرچہ
شیخ زبیر علی زئیؒ نے "الفتح المبین" میں امام نخعی کو مدلس قرار دیا،
مگر انہوں نے نہ کوئی واضح مثال پیش کی، نہ تدلیس کی کوئی معتبر دلیل، بلکہ صرف
امام نخعی کے ارسال کے پہلو کو بیان کیا ہے۔
حیرت
انگیز طور پر، انہوں نے ابن طلعت کے موقف کو رد تو کیا، مگر علمی اصول کے مطابق اس
کا کوئی مدلل جواب نہیں دیا۔
ماہنامہ نور الحدیث کی نئی کوشش:
اسی
دعوے کے حق میں "نور الحدیث" کے ایک مضمون نگار نے امام نخعی کی تدلیس
پر دلائل فراہم کرنے کی کوشش کی ہے، جو دراصل میری امام نخعی کے عنعنہ کے دفاع میں
لکھی گئی مختصر پوسٹ کا جواب تھا۔
تاہم
ان کے پیش کردہ دلائل نہ صرف اصولِ تحقیق سے محروم ہیں، بلکہ بعض مقامات پر اپنے
من پسند ائمہ کے اصولوں کے بھی خلاف ہیں۔
آیئے
ہم ان کے دلائل کا تفصیل سے جائزہ لیں۔
امام ابراہیم نخعی کی
تدلیس کے دلائل کا جائزہ:
پہلی دلیل: ابراہیم نخعی کی
عائشہ اور بعض صحابہ سے ملاقات:
اپنی پہلی دلیل دیتے ہوئے مضمون نگار فرماتے ہیں:
"حافظ ابن حجر تدلیس الاسناد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے
ہیں:
" فالذي في
الاسناد أن يروي عن من لقيه شيئا لم يسمعه منه بصيغة محتملة ويلتحق به من رآه ولم
يجالسه"
"تدلیس الاسناد یہ ہے کہ راوی اس شخص سے جسے وہ ملا ہو
کوئی روایت حتمل صیغے سے روایت کرے جو اس نے اس سے نہ سنی ہو، اور اس میں وہ شخص
بھی داخل ہو جسے اس نے دیکھا ہو لیکن اس کے ساتھ نہ بیٹھا ہو"
(تعریف اہل التقدیس: ص 16)"
اور اس قول کی بنیاد پر صاحبِ مضمون نے یہ دلیل پکڑی کہ
چونکہ امام نخعی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا دیدار
کیا ہے اگرچہ انہوں نے ان سے کوئی سماع نہیں کیا، یہ ان کی تدلیس کی دلیل ہے!
جواب:
یہ
دلیل کئی وجوہ سے کمزور اور ناقابلِ قبول ہے۔
اولا: تدلیس کی تعریف میں اختلاف اور مرسل کا اس میں شامل
ہونا:
تدلیس
الاسناد کی تعریف میں محدثین کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثر محدثین نے تدلیس
الاسناد کی بنیاد ایہام و اشتباہ پر رکھی ہے، اور ہر اُس عمل کو تدلیس قرار دیا ہے
جس سے سند کے اتصال میں شبہ یا دھوکا پیدا ہو۔
اسی
بنا پر بعض علماء نے راوی کی اُن مرسل روایات کو بھی تدلیس میں شامل کر دیا ہے، جو
اس نے ایسے شخص سے روایت کی ہوں جس سے اس کی صرف ملاقات یا رؤیت ثابت ہو، مگر سماع
(سننا) نہ ہو۔
ابن
حجر نے بھی اپنی کتاب الطبقات میں اسی بنیاد پر امام مکحول، امام ابو قلابہ وغیرہ
جیسے متعدد ائمہ کو مدلسین میں شمار کیا ہے، حالانکہ خود صاحبِ مضمون بھی انہیں مدلس نہیں مانتے۔
اسی
طرح جمہور محدثین نے تدلیس کی تعریف میں ایسی مرسل روایات کو بھی شامل کیا ہے، جن
میں راوی نے ایسے شخص سے روایت کی ہو جو اس کا معاصر (ہم عصر) تو ہو، مگر اس سے ملاقات بھی ثابت نہ ہو — البتہ
اندازِ روایت ایسا ہو کہ ملاقات یا سماع کا گمان پیدا ہوتا ہو۔
لہٰذا
کسی راوی پر محض تدلیس کا الزام ہونا یہ لازم نہیں کرتا کہ اس کی ہر معنعن روایت کو
ضعیف قرار دیا جائے۔
کیونکہ
محدثین کے نزدیک تدلیس الاسناد کی تعریف اور اس کی اقسام میں تنوع پایا جاتا ہے،
اور بعض مراسیل بھی ان کے نزدیک تدلیس میں شامل سمجھی جاتی ہیں۔
جبکہ
مرسل روایت (یعنی ایسی روایت جس میں راوی نے کسی ایسے شخص سے روایت کی ہو جس سے اس
کی ملاقات اور سماع ثابت نہ ہو) کے بارے میں اصول یہ ہے کہ اس روایت کو قبول کرنے
کے لیے کم از کم ایک مرتبہ اس راوی کا اس سے سماع (سننا) ثابت ہونا ضروری ہوتا ہے،
اور اس کی دیگر روایات میں اس کا عنعنہ مقبول ہوتا ہے۔
ثانیا: حافظ ابن حجر کا اپنی تعریف سے رجوع:
خود
حافظ ابن حجر نے بعد میں اپنی اس ابتدائی تعریف سے
رجوع کرتے ہوئے تدلیس کی اصطلاحی تعریف کو صرف اس صورت سے خاص کر دیا ہے جس میں
راوی نے اپنے ایسے شیخ سے روایت کی ہو جس سے وہ کچھ سن چکا ہو۔ چنانچہ وہ اپنی
کتاب النکت علی ابن الصلاح میں فرماتے ہیں:
"وقوله: (عمن
عاصره) ليس من التدليس في شيء، وإنما هو المرسل الخفي. كما سيأتي تحقيقه عند
الكلام عليه."
"اور ابن الصلاح کا یہ قول کہ 'عمن عاصره'
(یعنی کسی ایسے شخص سے روایت کرنا جو اس کا معاصر ہو مگر ملاقات نہ ہوئی ہو) تدلیس
میں داخل ہے — یہ درست نہیں، بلکہ یہ 'مرسل خفی' کی قسم ہے، جیسا کہ آگے اس پر
گفتگو میں وضاحت آئے گی۔"
اس
کے بعد ابن حجر، ابن القطان کی کتاب البیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
" وقد ذكر ابن
القطان في أواخر البيان له تعريف التدليس بعبارة غير معترضة قال: "ونعني به
أن يروي المحدث عمن قد سمع منه ما لم يسمعه منه من غير أن يذكر أنه سمعه منه.
والفرق بينه وبين الإرسال هو: أن الإرسال روايته عمن لم يسمع منه، ولما كان في هذا
قد سمع منه جاءت روايته عنه بما لم يسمعه منه كأنها إيهام سماعه ذلك الشيء، فلذلك
سمي تدليسا" انتهى."
"ابن
القطان نے تدلیس کی جو تعریف بیان کی ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں۔ وہ کہتے ہیں:
'ہم تدلیس سے وہ صورت مراد لیتے ہیں کہ محدث اپنے ایسے شیخ سے کوئی بات روایت کرے
جس سے وہ کچھ (دیگر) روایات سن چکا ہو، لیکن یہ خاص روایت اس سے نہ سنی ہو — اور
یہ بھی نہ ذکر کرے کہ اس نے یہ بات اس سے سنی ہے۔
"تدلیس
اور ارسال میں فرق یہ ہے کہ ارسال اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص ایسے راوی سے روایت
کرے جس سے اس نے کچھ بھی نہ سنا ہو۔ اور جب کسی راوی نے کسی شیخ سے کچھ سنا ہو،
پھر اس سے وہ بات روایت کرے جو اس نے براہِ راست نہ سنی ہو، تو سننے والے کو یہ
گمان ہوتا ہے کہ یہ بات بھی اس نے اسی سے سنی ہے — اسی وہم کی وجہ سے اسے تدلیس
کہا جاتا ہے' (ابن القطان کا قول یہاں ختم ہوا)۔"
ابن
حجر فرماتے ہیں:
" وهو صريح في
التفرقة بين التدليس والإرسال. وأن التدليس مختص بالرواية عمن له عنه سماع، بخلاف
الإرسال - والله أعلم."
"یہ قول
تدلیس اور ارسال میں واضح فرق بیان کرتا ہے، اور یہ بھی واضح کرتا ہے کہ تدلیس صرف
اسی راوی سے متعلق ہو سکتی ہے جس کا اس سے سماع ثابت ہو، برخلاف مرسل کے —
واللہ اعلم۔"
ابن
حجر مزید لکھتے ہیں:
" وابن القطان
في ذلك متابع لأبي بكر البزار "
"ابن
القطان کا یہ موقف امام ابو بکر البزار کے قول کے موافق ہے۔"
پھر
فرماتے ہیں:
" وقد حكى شيخنا
كلامهما ثم قال: إن الذي ذكره المصنف في حد التدليس هو المشهور عن أهل الحديث،
وأنه إنما حكى كلام البزار وابن القطان لئلا يغتر به "
"ہمارے
شیخ (حافظ عراقی) نے دونوں اقوال نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ ابن الصلاح کی بیان
کردہ تعریف ہی اہلِ حدیث کے نزدیک زیادہ مشہور ہے، اور انہوں نے بزار اور ابن
القطان کا قول صرف اس لیے نقل کیا تاکہ لوگ اس سے مغالطہ نہ کھائیں۔"
ابن
حجر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" قلت: لا غرور
هنا، بل كلامهما هو الصواب على ما يظهر لي في التفرقة بين التدليس والمرسل الخفي،
وإن كانا مشتركين في الحكم. هذا ما يقتضيه النظر."
"لیکن
میں کہتا ہوں: یہاں کوئی مغالطہ یا دھوکہ نہیں، بلکہ جو بات ابن القطان اور بزار
نے کہی ہے وہی درست ہے، اور یہ تدلیس اور مرسل خفی کے درمیان فرق کے لحاظ سے زیادہ
قوی معلوم ہوتی ہے — اگرچہ دونوں کا حکم (یعنی انقطاع) کے لحاظ سے ایک ہی ہو۔ یہی
بات غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے۔"
(النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر: 2/614-615)
ثالثا: حافظ سخاوی کا حافظ ابن حجر کے موقف کی وضاحت اور
تائید کرنا:
حافظ
ابن حجر کے خاص شاگرد اور ان کی کتب واقوال کو سب سے زیادہ جاننے والے، حافظ سخاوی
نے بھی اپنے استاد کا یہی موقف بیان کیا ہے جو النکت میں بیان ہوا ہے۔ چنانچہ وہ
فرماتے ہیں:
" وكنى شيخنا باللقاء عن
السماع لتصريح غير واحد من الأئمة في تعريفه بالسماع"
"اور
ہمارے شیخ (حافظ ابن حجر) نے 'لقاء' (ملاقات) سے 'سماع' (سننا) کو مراد لیا ہے،
کیونکہ متعدد ائمہ نے لقاء کی تعریف کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ اسے سماع قرار دیا ہے"
(فتح المغیث: 1/222)
اور
خود حافظ سخاوی نے بھی تدلیس کی یہی تعریف بیان کی ہے، وہ فرماتے ہیں:
"(تدليس
الإسناد) وهو قسمان: أولهما أنواع (كمن يسقط من حدثه) من الثقات لصغره، أو الضعفاء
إما مطلقا، أو عند من عداه، أي: غيره. (ويرتقي) لشيخ شيخه فمن فوقه ممن عرف له منه
سماع"
"(تدلیس
الإسناد) اس کی دو قسمیں ہیں۔ اس کی پہلی قسم کی مثال یہ ہے کہ کوئی راوی اسے
حدیث بیان کرنے والے ثقہ راوی کو محض اس کی کم عمری کی وجہ سے یا کسی ضعیف راوی کو
(چاہے وہ مطلقاً ضعیف ہو یا صرف دوسروں کے نزدیک) سند سے گرا دے، اور اس کی سند
اپنے شیخ کے شیخ یا اس سے اوپر کسی ایسے راوی تک لے جائے جس سے اس (راوی) کا
سماع معروف ہو۔"
(فتح المغیث: 1/222)
رابعا: امام ابن عبد البر کا قول:
امام ابن عبد البر فرماتے ہیں:
"وأما
التدليس فهو أن يحدث الرجل عن الرجل قد لقيه وأدرك زمانه وأخذ عنه وسمع منه وحدث
عنه بما لم يسمعه منه وإنما سمعه من غيره عنه ممن ترضى حاله أو لا ترضى على أن
الأغلب في ذلك أن لو كانت حاله مرضية لذكره وقد يكون لأنه استصغره هذا هو التدليس
عند جماعتهم لا اختلاف بينهم في ذلك"
"رہی تدلیس، تو وہ یہ ہے کہ ایک شخص کسی
ایسے راوی سے روایت کرے جس سے وہ ملا ہو، اس کا زمانہ پایا ہو، اس سے علم حاصل
کیا ہو، اور اس سے سماع کیا ہو، لیکن وہ اس سے ایسی روایت کرے جو اس نے حقیقت
میں اس سے نہیں سنی بلکہ کسی اور سے سنی ہو، جو اُس (اصل راوی) سے روایت کرتا ہو —
چاہے وہ دوسرا راوی ثقہ ہو یا غیر ثقہ۔ اور اکثر اوقات یہ اسی صورت میں ہوتا ہے کہ
اگر وہ راوی قابلِ اعتماد ہوتا تو اسے ذکر کرتا۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ
اسے کم عمر یا کم مرتبہ سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے۔ یہی
تدلیس ہے، جیسا کہ محدثین کی ایک جماعت نے اسے بیان کیا ہے، اور اس میں ان کے
درمیان کوئی اختلاف نہیں۔"
(التمہید لابن عبد البر: 1/15)
خامسا: شیخ زبیر علی زئیؒ کا موقف:
صاحبِ مضمون نے جس شخص کے موقف کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے خود
انہی کے موقف کو پڑھنا گوارا نہیں سمجھا۔ چنانچہ شیخ زبیر علی زئیؒ کے نزدیک بھی تدلیس
الاسناد کی زیرِ بحث قسم راوی کے اپنے شیخ سے سماع کے ساتھ مختص ہے۔ شیخ زبیر علی
زئیؒ فرماتے ہیں:
"تدليس في الإسناد: کا مفہوم اہل حدیث کی اصطلاح میں درج ذیل
ہے:
اگر
راوی اپنے اس استاد سے (جس سے اس کا سماع ، ملاقات اور معاصرت ثابت ہے) وہ
روایت (عن، قال وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ) کرے جو اس نے کسی دوسرے شخص سے سنی ہے اور
سامعین کو یہ احتمال ہو کہ اس نے یہ حدیث اپنے استاد سے سنی ہو گی تو اسے تدلیس
کہا جاتا ہے۔"
(تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات: 1/252: التأسیس فی مسئلہ التدلیس)
اسی طرح شیخ زبیر علی زئیؒ نے الفتح المبین فی تحقیق طبقات
المدلسین میں ایک سے زائد جگہوں پر راویوں کو محض اس لیے تدلیس سے برئ قرار دیا ہے
کیونکہ ان کا مروی عنہ سے سماع ثابت نہیں، الغرض وہ اسے مرسل سمجھتے ہیں۔
مثلا:
1- انہوں نے ابو عبیدۃ بن عبد اللہ بن مسعود کو اس لیے تدلیس
سے برئ قرار دیا کیونکہ ان کا اپنے والد سے سماع ثابت نہیں، اگرچہ لقاء ثابت ہے۔ (ص
135)
2- اور مخرمہ بن بکیر کی اپنے والد سے روایت کو اس لیے مرسل
قرار دیا کیونکہ ان کا ان سے سماع ثابت نہیں، اگرچہ لقاء واخذِ کتب ثابت ہے۔ نیز
کہا: "وهذا
ليس بالتدليس، إنما هو إرسال فقط" (یہ تدلیس
نہیں ہے بلکہ یہ صرف ارسال ہے) (ص 43)۔
3- اسی طرح لاحق بن حمید کو اس لیے تدلیس سے برئ قرار دیا
کیونکہ ان کی تدلیس پر دلالت کرنے والے امام ابن معین کے قول میں ابن عباس اور
الحسن بن علی سے ارسال کا ذکر ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ اسے ارسال سے
تعبیر کیا گیا لیکن شیخ زبیر علی زئی کے منہج کے مطابق یہ تدلیس ہی کی قسم ہے
کیونکہ لاحق کا ابن عباس سے سماع وملاقات ثابت ہے۔ (ص 47)
سادسا: عقلی دلیل:
یہ
بات واضح ہے کہ تدلیس کی اصل بنیاد ایہام اور اشتباہ ہے۔
پس،
جس روایت میں اتصال (سند کے ملنے) کا وہم پیدا ہو، وہ تدلیس ہے، اور جس میں
ایسا کوئی وہم نہ ہو، وہ ارسال ہے۔
جیسا
کہ امام ابن القطان نے اوپر وضاحت کی، اور اسی مفہوم کو علامہ علائی نے بھی
یوں بیان کیا ہے:
"التدليس أصله التغطية
والتلبيس وإنما يجيء ذلك فيما أطلقه الراوي عن شيخه بلفظ موهم للاتصال وهو لم
يسمعه منه فأما إطلاقه الرواية عمن يعلم أنه لم يلقه أو لم يدركه أصلا فلا تدليس
في هذا يوهم الاتصال وذلك ظاهر"
"تدلیس کی اصل تغطیہ (چھپانا) اور
تلبیس (مبہم کرنا) ہے۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے جب راوی اپنے شیخ سے اس انداز میں
روایت کرے کہ وہم پیدا ہو کہ اس نے یہ بات براہِ راست سنی ہے، حالانکہ حقیقت میں
اس نے نہیں سنی۔ لیکن اگر وہ کسی ایسے شخص سے روایت کرے جس سے نہ ملاقات ہوئی ہو
اور نہ زمانہ پایا ہو، تو ایسی روایت تدلیس کہلانے کی مستحق نہیں — کیونکہ اس میں
اتصال کا کوئی اشتباہ ہی نہیں ہوتا، اور یہ بات واضح ہے۔"
(جامع التحصیل، ص 96)
لہٰذا
جب کسی راوی کے بارے میں یہ معلوم ہو جائے کہ اس نے فلاں شیخ سے کچھ نہیں سنا، تو
ایسی صورت میں اس کی ہر معنعن روایت کو مشتبہ قرار دینا درست نہیں، کیونکہ ایہام
کی بنیاد ہی موجود نہیں۔
برعکس
اُس راوی کے جس کا اپنے شیخ سے عمومی سماع ثابت ہو، اور وہ پھر بعض روایتوں
میں غیر صریح الفاظ سے روایت کرے، یا درمیانی راوی کو گرا دے — تو یہی وہ تدلیس ہے جس میں ہر روایت کے عنعنہ کی علیحدہ
تحقیق ضروری ہو جاتی ہے۔
کیونکہ
یہاں سماع کی اصل موجود ہے، لیکن شک یہ ہوتا ہے کہ یہ خاص روایت سنی ہے یا
نہیں؟
لہٰذا
تحقیق کی ضرورت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب اصل سماع ثابت ہو۔
جہاں
تک ابراہیم نخعی کے بارے میں تدلیس کا دعویٰ کیا گیا ہے، تو جو قول پیش کیا
گیا ہے وہ پہلی نوعیت کا ہے — یعنی ایسا ارسال جس میں کوئی اشتباہ نہیں،
لہٰذا نہ اس بنیاد پر تدلیس ثابت ہوتی ہے، اور نہ اس بنا پر ان کی ہر روایت میں
سماع کی صراحت تلاش کرنا لازم آتا ہے۔
بلکہ
یہ صریحاً ارسال کی ایک قسم ہے۔
پس
اگر اس کو تدلیس کہنا ہی ہو، تو پھر بہت سے تابعین کو بھی "مدلس"
ماننا پڑے گا، جن کی بعض صحابہ سے صرف رؤیت یا معاصرت ثابت ہے۔
درست
بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں ائمہ، راوی کے الفاظِ روایت کی بجائے صرف اس کے
مطلق سماع کو دیکھتے ہیں —
اگر
وہ کسی ایک روایت میں بھی اس سے سماع ثابت کر دے، تو اس کے تمام عنعنہ کو قبول
کرتے ہیں۔
لہٰذا
ابراہیم نخعی کو اس بنیاد پر مخصوص معنوں میں "مدلس" کہنا، اور ان کی ہر
معنعن روایت کو محض اس وجہ سے رد کرنا نہ صرف غلط ہے، بلکہ ائمہ و
محدثین کے اجماعی موقف کے خلاف ہے۔
سابعا: وہ تابعین جنہوں نے بعض صحابہ کو دیکھا لیکن ان سے
سماع نہیں کیا، پھر بھی انہیں مدلس نہیں کہا گیا:
اگر
ہم صاحبِ مضمون کے موقف کو درست مان بھی لیں کہ "تدلیس الاسناد"
کے مخصوص مفہوم میں محض ملاقات یا رؤیت (بغیر سماع) بھی تدلیس میں داخل ہے،
تو
یہ بات خود انہی پر الٹی پڑتی ہے۔
اس
موقف کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ انہیں بے شمار ائمہ و تابعین کو بھی مدلس
تسلیم کرنا پڑے گا،
جنہیں
نہ کسی امام نے مدلس کہا، نہ ہی خود صاحبِ مضمون انہیں مدلس مانتے ہیں۔
کیونکہ
امام ابراہیم نخعی کو جس بنیاد پر مدلس قرار دیا گیا ہے، بعینہٖ اسی
نوعیت کی یا اس سے بھی زیادہ مضبوط مثالیں دیگر تابعین و ائمہ کے بارے میں بھی
پائی جاتی ہیں۔
علامہ علائی اس پر اہل اندلس کے علماء کا ایک قول نقل کرتے
ہوئے فرماتے ہیں:
" ينبغي أن يكون مراد هؤلاء ثبوت اللقاء تحقق السماع
في الجملة لا مجرد اللقاء فقط فكم من تابعي لقي صحابيا ولم يسمع منه "
(لازم ہے کہ ان (محدثین) کی
مراد یہ ہو کہ "لقاء" (ملاقات) سے مراد "اجمالی طور پر سماع کا
تحقق" ہے، محض ملاقات کا واقع ہونا کافی نہیں۔ کیونکہ کتنے ہی تابعین ہیں
جنہوں نے کسی صحابی سے ملاقات تو کی، لیکن ان سے کچھ سنا نہیں)
(جامع التحصیل: ص )
لہٰذا:
· اگر
ابراہیم نخعی کو اس بنیاد پر مدلس تسلیم کیا جاتا ہے،
تو
دیگر ایسے تمام ائمہ و تابعین کو بھی مدلس کہنا لازم ہوگا۔
· اور
اگر ان دیگر تابعین کو مدلس تسلیم نہیں کیا جاتا،
تو
پھر ابراہیم نخعی کو بھی مدلس کہنا درست نہیں۔
یہ
ممکن نہیں
کہ ایک شخص پر ایک اصول لاگو کیا جائے اور دوسرے پر دوسرا۔
ایسا
طرزِ عمل دوہرا معیار کہلاتا ہے، جو محض دھوکہ دہی اور عوام کو
علمی مغالطے میں ڈالنے کی ایک صورت ہے۔
چنانچہ،
وہ تابعین و ائمہ جن کا معاملہ بالکل ابراہیم نخعی جیسا ہے —
یعنی
انہوں نے بعض صحابہ کو دیکھا، ان سے ملاقات کی، مگر سماع ثابت نہیں —
اس
کے باوجود:
· نہ
انہیں مدلس کہا گیا،
· نہ
ان کی ہر عنعنہ روایت کی چھان بین کی گئی،
کیونکہ
یہ روایات مرسل کے حکم میں سمجھی گئیں۔
ذیل
میں ان کی ایسی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
1-
صغار صحابہ کی نبی ﷺ سے مراسیل
جیسے: ثابت بن
الضحاك، دغفل بن حنظلہ، طارق بن شہاب، عامر بن واثلہ (ابو الطفيل)، عبد الله بن ثعلبہ،
یوسف بن عبد الله بن سلام وغیرہ — یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا لیکن ان
سے سماع نہیں کیا۔ ان کی نبی ﷺ سے روایات "مراسیل" کہلاتی ہیں،
لیکن کوئی انہیں مدلس نہیں کہتا۔
2-
سید التابعین امام سعید بن المسیب القرشی
ابو محمد المدنی (م بعد 90 هـ)
مشہور ہے کہ انہوں نے سیدنا عمر بن خطابؓ
کو دیکھا، لیکن ان سے سماع نہیں کیا۔
·
امام یحییٰ
بن معین سے منقول ہے کہ سعید بن المسیب نے عمرؓ کو بچپن میں دیکھا، اور ان کے سماع
کی نفی کی۔ (تاریخ ابن معین، روایۃ الدوری: 858، والمراسیل لابن ابی
حاتم: 249)
·
امام ابو حاتم بھی
فرماتے ہیں: "نہیں، صرف منبر پر انہیں دیکھا جب وہ نعمان بن مقرن کی شہادت کا
اعلان کر رہے تھے"۔ (المراسیل: 255)
مزید تفصیل کے لیے دیکھیں میرا مضمون:
"القول الصواب فی سماع ابن المسیب من عمر بن الخطاب"۔
3-
امام عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود
الهذلي الكوفي (م 79 هـ)
محدثین کے اتفاق سے یہ اپنے والد (عبد اللہ
بن مسعودؓ) سے سماع نہیں رکھتے۔
· امام حاکم فرماتے ہیں: "محدثین اس پر متفق
ہیں"۔ (سؤالات السجزی للحاکم: 215)
· امام
احمد کے مطابق: وفات کے وقت عبد الرحمن کی عمر صرف چھ سال تھی۔ (العلل لعبد اللہ:
12)
ان
کی روایات مرسل شمار ہوتی ہیں، اگر ملاقات کو تدلیس کی دلیل مانیں تو انہیں بھی
مدلس کہنا پڑے گا — جو کسی نے نہیں کہا۔
4-
امام رفيع بن مهران ، أبو العالية
الرياحى البصرى (م 90
هـ)
امام ابو العالیہ کبار تابعین میں سے ہیں،
انہوں نے نبی ﷺ کی وفات کے دو سال بعد اسلام قبول کیا، اور سیدنا عمر کے پیچھے
نماز پڑھی، اور دیگر بے شمار صحابہ کو دیکھا۔ نیز انہوں نے سیدنا علی بن ابی طالب
کو بھی پایا لیکن ان سے کچھ سماع نہیں کیا۔
·
امام قتادۃ بن
دعامہ فرماتے ہیں: "میں نے ابو العالیہ سے سماع کیا ہے اور انہوں نے علی رضی
اللہ عنہ کو پایا ہے" (التاریخ الکبیر: 1103)۔
·
اس قول کے تحت
امام شعبہ بن حجاج فرماتے ہیں: "رفیع یعنی ابو العالیہ نے علی رضی اللہ عنہ
کو پایا لیکن ان سے کچھ سماع نہیں کیا"۔ (العلل ومعرفۃ الرجال لعبد اللہ بن
احمد: 2454)
5-
امام عبد الرحمن بن الأسود بن يزيد بن
قيس النخعي الكوفي (م 99 هـ)
یہ امام ابراہیم نخعی کے ماموں الاسود بن
یزید کے بیٹے تھے، اور 3 طبقے کے تابعین میں سے تھے۔ ان کا معاملہ بھی بالکل امام
ابراہیم نخعی جیسا ہی ہے۔ انہوں نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بچپن میں
دیکھا لیکن ان سے حدیث کا سماع نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے تو نہ صرف عائشہ کو دیکھا
بلکہ ان سے کلام بھی کیا (دیکھیں: الطبقات الکبری: 6/289)۔ اس کے باوجود انہیں
مدلس نہیں کہا جاتا کیونکہ ان کی عائشہ سے روایات مرسل شمار ہوتی ہیں۔ چنانچہ امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں: "أدخل على عائشة
وهو صغير ولم يسمع منها" (وہ بچپن میں سیدہ عائشہ
کے پاس حاضر ہوئے لیکن ان سے (حدیث کا) سماع نہیں کیا) (المراسیل: 464)۔
6-
امام عامر بن شراحیل الشعبی، أبو عمرو، الکوفی
(م 104-106 هـ)
· امام شعبی کے بارے
میں امام حاکم نے فرمایا: " الشعبي لم يسمع من... علي إنما رآه رؤية" (شعبی نے علیؓ سے
کچھ نہیں سنا، بلکہ صرف ان کو دیکھا تھا) (معرفہ علوم
الحدیث؛ ص 111)۔
· اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے، اسماعیل بن ابی
خالد فرماتے ہیں امام شعبی نے فرمایا: " رأيت عليا رضي الله عنه
على المنبر أبيض اللحية قد ملأت ما بين منكبيه " (میں
نے علیؓ کو منبر پر دیکھا، ان کی داڑھی سفید تھی، اور وہ ان کے دونوں کندھوں کے
درمیان بھر چکی تھی) (المعجم الکبیر للطبرانی: 1/94
ح 157، واسنادہ صحیح)۔
اگر امام شعبی نے ان
کو اس موقع کے علاوہ دیکھا ہوتا یا مستقل ملاقات کی ہوتی تو محض منبر پر دیکھنے کا
ذکر نہ کرتے۔
· اسی طرح ایک دوسری روایت اس سے بھی زیادہ صریح ہے جس میں
امام اسماعیل بن ابی خالد نے فرمایا: "سمعت الشعبي وسئل: هل رأيت
أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه، قال: رأيته أبيض الرأس واللحية، قيل:
فهل تذكر عنه شيئا؟ قال: نعم أذكر أنه جلد شراحة يوم الخميس ورجمها يوم الجمعة،
فقال: «جلدتها بكتاب الله ورجمتها بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم»" (میں نے شعبی کو سنا، ان سے پوچھا گیا: کیا
آپ نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے؟ تو انہوں نے کہا:
میں نے انہیں دیکھا کہ ان کا سر اور داڑھی دونوں سفید تھے۔ پوچھا گیا: کیا آپ کو
ان سے کوئی بات یاد ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، مجھے یاد ہے کہ انہوں نے شُراحہ کو
جمعرات کے دن کوڑے مارے اور جمعہ کے دن رجم کیا، اور فرمایا: 'میں نے اسے اللہ کی
کتاب کے مطابق کوڑے مارے اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق سنگسار کیا) (المستدرک للحاکم: 8087، واسنادہ صحیح)۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر امام
شعبی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے باقاعدہ سماع کیا ہوتا، تو اسماعیل ان سے یہ
سوال نہ کرتے کہ "کیا آپ نے علی کو دیکھا ہے؟"۔ اور جب شعبی نے اس سوال
کے جواب میں صرف رؤیت (دیکھنے) کا ذکر کیا، تو یہ خود اس بات کی تائید ہے کہ ان کے
اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان سماع نہیں تھا۔ نیز
اگر امام شعبی نے سیدنا علی سے سماع کیا ہوتا، تو اسماعیل ان سے یہ نہ پوچھتے کہ
"کیا آپ کو ان کی کوئی بات یاد ہے؟"۔ حالانکہ شعبی تو علی رضی اللہ عنہ
سے بہت سی روایات بیان کرتے ہیں۔ پس اگر ان سے براہِ راست سنا ہوتا تو "کیا
کچھ یاد ہے؟" جیسا سوال بے معنی ہوتا۔ مزید
برآں، امام شعبی نے جواب میں صرف ایک واقعہ بیان کیا جو انہیں یاد تھا، اور سماع
کی صراحت نہیں کی۔ لہٰذا یہ سب دلائل
اس بات کو قطعی ثابت کرتے ہیں کہ امام شعبی نے سیدنا علی کو صرف دیکھا تھا، اور ان
سے ان کا سماع ثابت نہیں۔
الغرض اس اعتبار سے
امام شعبی امام نخعی سے بھی بڑے مدلس ٹھہریں گے کیونکہ نہ صرف انہوں نے علی رضی
اللہ عنہ کو دیکھا بلکہ ان کی ایک بات کو بھی یاد رکھا۔
7-
امام عطاء بن أبي رباح، أبو محمد، القرشي
المكي (م 114 هـ)
· امام عطاء کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا: "عطاء يعني ابن
أبي رباح قد رأى ابن عمر ولم يسمع منه" (عطاء بن ابی
رباح نے سیدنا ابن عمر کو دیکھا لیکن ان سے سماع نہیں کیا) (المراسیل: 565)۔
· اسی طرح امام علی بن المدینی فرماتے ہیں: " رأى أبا سعيد الخدري يطوف بالبيت ولم يسمع منه ورأى
عبد الله بن عمرو ولم يسمع منه" (انہوں
نے ابوسعید خدریؓ کو بیت اللہ کا طواف کرتے دیکھا، لیکن ان سے کچھ نہیں سنا۔ اسی طرح انہوں نے عبداللہ بن عمروؓ کو بھی
دیکھا، مگر ان سے بھی کچھ نہیں سنا۔) (المراسیل: 567)۔
8-
امام أيوب بن أبى تميمة : كيسان السختيانى
، أبو بكر البصرى (م 131 هـ)
امام ایوب سختیانی کے
بارے میں محدثین کا اتفاق ہے کہ انہوں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا
ہے، لیکن ان سے کچھ سماع نہیں کیا۔ اگرچہ امام ایوب نے سیدنا انس سے
کئی روایات نقل کی ہیں، پھر بھی محدثین نے نہ انہیں مدلس قرار دیا اور نہ ہی ان کی
روایات کو اس بنیاد پر مشکوک سمجھا۔۔
· امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: "أيوب قد رآه،
ولم يسمع" (ایوب نے سیدنا انس کو دیکھا مگر ان سے سماع نہیں
کیا) (سؤالات المروزی: 7)۔
· امام بخاریؒ نے فرمایا: " رأَى أَنسًا " (انہوں نے انس کو دیکھا) (التاریخ الکبیر: 1307)۔
· امام ابو حاتم الرازی نے فرمایا: " أيوب بن أبي
تميمة السختياني رأى أنس بن مالك ولم يسمع منه وهو مثل الأعمش " (ایوب سختیانی نے انس بن مالک کو دیکھا لیکن ان سے
کچھ سماع نہیں کیا، اور اس معاملے میں وہ اعمش جیسے تھے) (المراسیل لابن ابی حاتم:
39)۔
9-
امام عبد الله بن عون بن أرطبان، أبو عون
البصري (م 150 هـ)
امام عبد اللہ بن عون
نے سیدنا انس بن مالک کو دیکھا (شرح معانی الآثار: 6739) لیکن ان سے کچھ سماع نہیں
کیا۔
· چنانچہ امام احمد فرماتے ہیں: "قد رآه، وأما
سماع فلا أعلم" (انہوں نے انس کو دیکھا، جہاں تک بات ہے سماع کی تو
میں اسے نہیں جانتا) (سؤالات المروزی: 7)
· جبکہ امام ابو حاتم نے اس پر جزم کرتے ہوئے فرمایا: "جماعة بالبصرة
قد رأوا أنس بن مالك ولم يسمعوا منه منهم ابن عون" (بصرہ کی ایک جماعت نے انس بن مالک کو دیکھا لیکن ان سے سماع نہیں کیا،
ان میں ابن عون بھی شامل ہیں) (المراسیل: 412)۔
حالانکہ ان کی انس بن
مالک سے روایت منقول ہے۔
10- امام القاسم
بن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود الهذلى المسعودى ، أبو عبد الرحمن الكوفى (م
120 هـ)
ان کے بارے میں امام
علی بن المدینی سے پوچھا گیا: "قيل له فلقي ابن عمر قال كان يحدث عن ابن
عمر بحديثين ولم يسمع من ابن عمر شيئا " (ان سے کہا گیا: کیا انہوں نے ابن عمرؓ سے
ملاقات کی؟ انہوں نے کہا: "وہ ابن عمرؓ سے دو حدیثیں روایت کرتے ہیں، لیکن انہوں
نے ابن عمرؓ سے کچھ بھی نہیں سنا۔) (تاریخ دمشق لابن
عساکر: 49/94)
اس کےتحت امام عمرو
بن علی الفلاسؒ کا قول نقل کرتے ہوئے علامہ علائی فرماتے ہیں: " لا أشك إلا
أنه قد لقيه يعني بن عمر رضي الله عنهما " (مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے ابن
عمرؓ سے ملاقات کی ہے) (جامع التحصیل: 624)۔
11- امام عبد
الرحمن بن عمرو الأوزاعي (م 157 هـ)
امام اہل الشام، عبد
الرحمن الاوزاعی کے بارے میں منقول ہے کہ وہ یحیی بن ابی کثیر کے کہنے پر بصرہ کے
لیے روانہ ہوئے تا کہ امام الحسن البصری اور امام محمد بن سیرین سے علم اخذ کر
سکیں۔ لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو پایا کہ امام الحسن البصری چند ماہ پہلے ہی فوت ہو
چکے تھے، جبکہ امام محمد بن سیرین بستر پر مرضِ موت میں مبتلا تھے، چنانچہ وہ ان
کے پاس حاضر ہوئے لیکن کچھ کلام نہ کر سکے، اور اس کے کچھ دن بعد امام ابن سیرین
بھی فوت ہو گئے۔ اس کے برعکس امام اوزاعی نے امام ابن سیرین سے کئی روایات نقل کی ہیں،
اس معاصرت اور ملاقات کے سبب انہیں بھی مدلس قرار دینا چاہیے، اور ان کی ہر شیخ سے
معنعن روایت مردود ہونی چاہیے!
· چنانچہ امام دارقطنی فرماتے ہیں: "الأوزاعي دخل
على ابن سيرين في مرضه ولم يسمع منه" (اوزاعی
ابن سیرین کی بیماری کے وقت ان کے پاس (عیادت کے لیے) گئے، لیکن ان سے کچھ نہیں
سنا) (سنن دارقطنی: 185)۔
· اسی طرح امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: "وسمع من قتادة
بالبصرة، ودخل على ابن سيرين." (اوزاعی نے
قتادہ سے سماع کیا اور ابن سیرین کے پاس حاضر ہوئے (یعنی سماع نہیں کیا)) (العلل
لعبد اللہ: 516)۔
· امام ابو زرعہ الدمشقی اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام
اوزاعی نے فرمایا: " میں بصرہ حسن بصری
کی وفات کے تقریباً چالیس دن بعد پہنچا۔ اور میں محمد بن سیرین کے پاس ان کے مرض
کے دوران داخل ہوا، تو انہوں نے ہم سے شرط رکھی کہ ہم ان کے پاس نہ بیٹھیں، چنانچہ ہم نے ان پر کھڑے کھڑے سلام کیا۔ " (تاریخ ابی زرعہ: ص
263-264)۔
ان
تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ محض کسی تابعی کا کسی صحابی کو دیکھ لینا یا
ملاقات کرنا، جبکہ سماع نہ ہونا، اسے اصطلاحی "مدلس" کہنے کے لیے کافی
نہیں۔ اس نوعیت کی روایات کو محدثین نے "مرسل" کے حکم میں رکھا ہے، اور
ایسی روایات پر تدلیس کا حکم لاگو نہیں کیا۔
اگر
ہم ہر معاصر و ملاقات کرنے والے راوی کو مدلس ماننے لگیں، تو ہمیں کئی جلیل القدر
ائمہ کو بلا دلیل "مدلس" کہنا پڑے گا — جو کہ نہ صرف محدثین کے طرزِ عمل
کے خلاف ہے، بلکہ انصاف کے بھی منافی ہے۔
دوسری دلیل: ابراہیم نخعی کی تدلیس
پر خلف بن سالم کی حکایت:
امام ابراہیم نخعی کی تدلیس پر اپنی دوسری دلیل دیتے ہوئے
صاحبِ مضمون کہتے ہیں:
"خلف بن سالم (م 231 ھ) فرماتے ہیں:
"سمعت عدة من مشايخ أصحابنا، تذاكروا كثرة التدليس
والمدلسين، فأخذنا في تمييز أخبارهم، فاشتبه علينا تدليس الحسن بن أبي الحسن،
وإبراهيم بن يزيد النخعي؛ لأن الحسن كثيرا ما يدخل بينه وبين الصحابة، أقواما
مجهولين، وربما دلس عن مثل عتي بن ضمرة، وحنيف بن المنتجب، ودغفل بن حنظلة،
وأمثالهم، وإبراهيم أيضا يدخل بينه وبين أصحاب عبد الله مثل هني بن نويرة، وسهم بن
منجاب، وخزامة الطائي، وربما دلس عنهم"
(میں نے اپنے رفقاء کے چند مشائخ کو تدلیس کی کثرت اور
مدلسین پر مذاکرہ کرتے ہوئے سنا، (خلف بن سالم کہتے ہیں کہ) ہم مدلسین کی روایات
کی تمییز کرتے رہے تو حسن بن ابی الحسن (بصری) اور ابراہیم بن یزید نخعی کی تدلیس
پر ہمیں اشتباہ ہو گیا۔ کیونکہ حسن بصری بکثرت اپنے اور اصحاب () (صحابہ
) کے درمیان مجہول لوگوں کو داخل کر دیتے ہیں اور بسا اوقات عتی بن
ضمرہ جیسے سے اور حنیف بن المنتجب، دغفل بن حنظلہ اور ان جیسے لوگوں سے تدلیس کرتے
ہیں، اور ابراہیم نخعی بھی اپنے اور عبد اللہ بن مسعود کے اصحاب کے درمیان ھنی بن
نویرہ، سھم بن منجاب، اور حزامہ الطائی جیسے لوگوں کو داخل کر دیتے ہیں اور بسا
اوقات ان سے تدلیس کرتے ہیں۔"
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم: ص 365، 366)
نوٹ: یہاں صاحبِ مضمون نے
اصل متن سے انحراف کرتے ہوئے لفظ "الصحابة " کو "أصحابه" لکھ دیا ہے۔ امام حاکم کی کتاب معرفة علوم الحديث کے
ایک نہایت معتبر نسخے میں — جس میں امام ذہبی سمیت دیگر کبار ائمہ کے سماعات بھی
درج ہیں — واضح طور پر یہ لفظ "الصحابة" ہی ہے،
دیکھیے نیچے دی گئی تصویر:
اسی طرح ایک دوسرے نسخے میں بھی یہی لفظ موجود ہے، دیکھیں:
ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ بعض نسخوں میں "أصحابه" لکھا ہوا ہے، لیکن سیاق و سباق
سے جو بات راجح اور قرینِ قیاس ہے وہ یہی ہے کہ اصل لفظ "الصحابة" ہی
ہونا چاہیے۔
اس
کی دلیل یہ ہے کہ سیاق میں جن افراد کا ذکر کیا گیا ہے — جیسے عتی بن ضمرۃ، دغفل
بن حنظلہ، حنیف بن المنتجب وغیرہ — وہ سب صحابۂ کرام کے شاگرد ہیں، اور یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ حسن بصری رحمہ
اللہ ان کے واسطے کو گرا کر براہِ راست صحابہ سے روایت کرتے تھے۔ نیز ان کے واسطے
کو گرا کر حسن بصری جن صحابہ سے براہِ راست روایت کرتے تھے ان کو حسن بصری کے اصحاب
ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔
اس روایت کے متن پر بحث کرنے سے پہلے اس کی سند کا جائزہ لے
لیتے ہیں۔
اس حکایت کی اسنادی حیثیت:
اس حکایت کو امام حاکم نے درج ذیل سند کے ساتھ روایت کیا
ہے:
"أخبرني عبد الله بن محمد بن حمويه الدقيقي
قال: حدثنا جعفر بن أبي عثمان الطيالسي قال: حدثني خلف بن سالم قال: سمعت عدة من
مشايخ أصحابنا"
اس سند کا راوی "عبد الله بن محمد بن حمويه
الدقيقي" ضعیف اور متہم بالکذب راوی ہے۔ اس کا مکمل
نام ہے: "عبد الله بن محمد بن محمد بن
حمويه بن عباد،
أبو القاسم بن أبي بكر الطهماني"۔
· امام
ذہبی میزان الاعتدال (2/499) میں فرماتے ہیں:
" كتب عنه أبو عبد الله
الحاكم. متهم ليس بثقة"
"اس سے امام حاکم نے لکھا ہے، وہ متہم
(بالکذب) اور غیر ثقہ ہے"۔
· اور
خود امام حاکم نے بھی اسے غیر معتبر کہا ہے، چنانچہ امام ذہبی تاریخ الإسلام
(7/801) میں فرماتے ہیں:
" وَعَنْهُ: الحاكم، ووهاه"
"اس سے حاکم نے روایت کی، اور اسے کمزور کہا ہے"
· بلکہ امام حاکم کی تاریخ نیشاپور میں براہِ راست اس کا ترجمہ
موجود ہے، چنانچہ "تاريخ نيسابور «طبقة شيوخ الحاكم» - جمع البيروتي" میں امام حاکم کی تاریخ سے اس کا ترجمہ یوں منقول
ہے:
" عبد
الله بن محمد بن محمد بن حمويه بن عباد، أبو القاسم بن أبي بكر الطهماني. قال الحاكم: سمع إسماعيل بن قتيبة، والكجي، وطبقتهما. وهو
واهي الحديث. توفي سنة أربع وأربعين وثلاثمائة. [حدثنا عبد الله بن محمد بن
حَمُّوَيه بن عباد، حدثنا أبي، حدثنا أحمد بن حفص، حدثنا عمر بن سعيد بن وردان،
حدثنا نهشل بن سعيد، عن الضحَّاك، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه
وسلم: "الغُدُوُّ والرواح في تعلّم العلمِ أفضل عند الله من الجهاد في سبيل
الله عز وجل"]"
(ص 279-280)
نوٹ: امام ذہبیؒ نے اس
کی کنیت "ابو عباد" لکھی ہے جو کہ غلط ہے۔ تاریخ نیسابور میں "ابن
عباد" ہے جسے غلطی سے "ابو عباد" کر دیا گیا یعنی "عبد الله بن محمد بن محمد بن حمويه بن عباد "۔
· علامہ برہان الدین الحلبی (م 841 ھ) اس راوی پر امام ذہبی
کا کلام نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"متهم ليس بثقة
انتهى كلام الذهبي يحتمل أن يكون بالوضع ويحتمل بالكذب وللاحتمال ذكرته "
("متہم ہے، ثقہ نہیں ہے۔" یہاں امام ذہبی کا
قول ختم ہوا۔ ممکن ہے کہ وہ روایت گھڑنے (وضع) کا مرتکب ہو، اور ممکن ہے کہ جھوٹ
بولنے (کذب) کا۔ اور انہی احتمالات کی وجہ سے میں نے اس (راوی) کا ذکر کیا ہے۔)
(الكشف الحثيث
عمن رمي بوضع الحديث: ص 157)
· امام حاکم کے شیوخ کے بارے میں خاص جانکاری رکھنے والے شیخ أبو
الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري نے بھی اس راوی کے
بارے میں فرمایا: "قلت: ليس بثقة" (میں کہتا ہوں: وہ غیر ثقہ ہے)۔
(الروض الباسم
فی تراجم شیوخ الحاکم: 1/610)
پس معلوم ہوا کہ اس حکایت کی سند سخت ضعیف ہے، لہٰذا صاحبِ
مضمون کا
ایسی مردود روایت سے حجت پکڑنا بالکل بھی درست نہیں ہے۔ جن لوگوں کے نزدیک خود سند
کی اتنی اہمیت ہو کہ معمولی سے اقوال میں بھی سند کی غیر ضروری جانچ پڑتال کرتے
ہیں، وہی لوگ جب اپنے مطلب کی ضعیف اور مردود روایات سے بھی حجت پکڑنے لگیں تو اس
سے بڑی علمی بد دیانتی اور کیا ہو سکتی ہے؟
ضعیف ہونے کے اعتراف کے باوجود صاحبِ مضمون کا اسی حکایت سے
استدلال کرنا:
حیرت
کی بات تو یہ ہے کہ صاحبِ مضمون نے جس حکایت سے پورے مسئلے پر عمارت کھڑی کر دی،
اسی کے ضعیف ہونے کا اعتراف خود کر چکے ہیں! سبحان اللہ!
فرماتے ہیں:
"سند میں موجود راوی عبد اللہ بن محمد بن حمویہ
الدقیقی کی توثیق نہیں مل سکی۔ یہ راوی ابو القاسم عبد اللہ بن محمد بن احمد بن
حمویہ الطھمانی الدھقان ہے۔ اس موقف پر دل مطمئن نہیں ہے۔ واللہ اعلم"
(ص 47)
ارے
جناب! اگر آپ خود مان چکے ہیں کہ راوی مجہول ہے، تو پھر آپ اس سے استدلال کس اصول
کے تحت کر رہے ہیں؟
کیا
اصولِ حدیث میں یہ کوئی نئی اختراع ہے کہ مجہول راوی کی روایت سے "بغیر
اطمینان کے" دلیل پکڑ لی جائے؟
آپ کے دل کا
اطمینان، یا اصولِ فن کا انکار؟
رہی
بات آپ کے دل کے "عدم اطمینان" کی، تو عرض ہے کہ اگر تھوڑا سا تحقیقی
ذوق رکھتے، یا اہلِ فن سے رجوع کرتے تو آپ کا دل کیا، ذہن بھی مطمئن ہو جاتا۔ مگر
افسوس، آپ نے علم حاصل کرنے کی راہ نہیں اپنائی بلکہ بلا علم مسلسل دعوے اور قلم
زنی سے اصولوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔
راوی کی تعیین: کیا
واقعی مشکل تھی؟
ہماری
تحقیق کے مطابق:
عبد
اللہ بن محمد بن حمویہ الدقیقی سے مراد عبد اللہ بن محمد بن محمد بن حمویہ بن
عباد، الطھمانی ہی ہیں۔ اور یہ بات درج ذیل دلائل سے قطعی طور پر ثابت ہے:
1-
دلیل نمبر 1: "حمویہ" صرف ایک ہی ہے!
امام حاکم کے تمام شیوخ
میں صرف ایک ہی عبد اللہ بن محمد ایسا ہے جس کے ساتھ "حمویہ" کی نسبت موجود
ہے — اور وہ الطھمانی ہی ہیں۔
اگر آپ کو محض یہ شبہ
ہے کہ امام حاکم نے دادا کا نام حذف کر دیا تو جان لیجیے کہ یہ محدثین کا عام
اسلوب ہے۔
اسے اصولی اشکال
بنانا صرف تعصب یا علمِ رجال سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
2-
دلیل نمبر 2: تصریحاتِ محدثین:
· امام
ذہبی نے متعدد مقامات پر اور خود امام حاکم نے عبد اللہ بن محمد بن حمویہ الطھمانی
کو اپنا شیخ کہا ہے۔
· اور
اس نام سے ان کے کسی دوسرے شیخ کا نہ کوئی ثبوت ہے نہ امام
حاکم کے شیوخ میں اس کا کوئی ذکر۔
تو آپ بتائیں، امام حاکم کا شیخ وہ نہیں تو
پھر کون؟
کوئی
"ہوائی مخلوق" ہے جسے آپ لا کر اس جگہ بٹھانا چاہتے ہیں؟
3-
تیسری دلیل: جعفر الطیالسی سے روایت کرنے والے عبد اللہ بن
محمد کا ذکر:
اس سند میں
عبد اللہ بن محمد بن حمویہ کے استاد "جعفر بن محمد بن ابی عثمان الطیالسی"
ہیں۔ ایک دوسری جگہ پر امام حاکم نے اسی طریق سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں انہوں
نے جعفر الطیالسی سے روایت کرنے والے "عبد اللہ بن محمد" کا مزید تعین
کیا ہے، جس کے بعد کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
چنانچہ امام ابن
عساکر اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں:
"أخبرنا أبو سعد
إسماعيل بن أبي صالح أنا أبو بكر بن خلف أنا الحاكم أبو عبد الله نا عبد الله
بن محمد بن عباد نا جعفر بن محمد الطيالسي "
(تاریخ دمشق: 44/81،
واسنادہ صحیح الی الحاکم)
غور فرمائیں: اس سند سے
واضح ہوا کہ:
· عبد اللہ بن محمد جس سے امام حاکم نقل کرتے ہیں،
· اور جو جعفر بن محمد الطیالسی کے شاگردوں میں سے ہے،
· اس کا نام "عبد اللہ بن محمد بن عباد" ہے، یعنی
"عبد اللہ بن محمد بن محمد بن حمویہ بن عباد" جو کہ الطھمانی ہی ہے!
اب
اگر اس کے بعد بھی "دل مطمئن نہیں"، تو بھائی یہ عدمِ اطمینان نہیں،
بلکہ دل کا مرض ہے۔
اس حکایت کے متن کا جائزہ:
اس
روایت کے متن سے جس مخصوص معنی پر مبنی اصطلاحی تدلیس پر استدلال کیا جا رہا ہے اس
معنی پر یہ حکایت صریح نہیں ہے بلکہ اس میں کئی احتمالات موجود ہیں۔
اولا: خلف بن سالم
کے مشائخ کون ہیں؟
صاحبِ
مضمون کا یہ کہنا کہ:
"مدلسین
کی روایات کی تمییز اور جانچ پڑتال میں خلف بن سالم اپنے مشائخ کے ساتھ شریک تھے
اسی لیے انہوں نے جمع مذکر غائب کے بجائے جمع متکلم کا صیغہ فاخذنا استعمال کیا ہے"
–
یہ
بات اس اشکال کو دور نہیں کرتی کہ روایت میں مذکور "عدة من مشايخ
أصحابنا" کون تھے؟ ان کا کوئی نام، پہچان، ثقاہت، یا
علمی مقام ذکر نہیں کیا گیا۔
نیز
خلف بن سالم کا اس مجلس میں موجود ہونا اس بات کی نفی نہیں کرتا کہ انہوں نے یہ
بات انہی مشائخ سے اخذ کی ہے جیسا کہ روایت کے سیاق سے ظاہر ہے۔ اور صرف ان کے
ساتھ اتفاق کیا یا ان کے کلام کو نقل کیا۔
پھر
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ان مجہول افراد نے جس نتیجے پر بات کی، کیا وہ کسی
معروف اصول یا ائمۂ حدیث کی کسی معروف بات پر مبنی تھی؟ ہرگز نہیں، بلکہ یہ ایک شاذ
اور منکر کلام ہے، جو نہ کسی مستند کتاب میں معروف ہے اور نہ کسی بڑے امام سے
منقول۔ حالانکہ امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، علی بن مدینی، ابن سعد، ابو
زرعہ، ابو حاتم جیسے کبار محدثین اسی دور میں موجود تھے، اور ابراہیم نخعی پر مکمل
عبور رکھتے تھے۔
اگر
ابراہیم نخعی واقعی مدلس ہوتے، تو کیا یہ حقیقت صرف چند نامعلوم افراد پر آشکار
ہوتی؟ اور امت کے معتبر ناقدین اور محدثین اس سے غافل رہتے؟ جب امت کے کسی معروف
امام نے اس تدلیس کا ذکر نہ کیا ہو، اور صرف چند مجہول افراد کی مجلس میں کسی مبہم
گفتگو کی بنیاد پر ایک بڑے امام پر تدلیس کا حکم لگایا جائے —تو اسے علمی دیانت نہیں بلکہ انصاف
کا خون کہا جائے گا۔
لہٰذا
اس روایت کو پیش کر کے ابراہیم نخعی جیسے جلیل القدر امام کو مدلس قرار دینا نہ
صرف اصولِ حدیث کی خلاف ورزی ہے بلکہ ائمۂ حدیث کے اجماعی سکوت کے بھی خلاف ہے۔
ثانیا: کیا یہ حکایت
اصطلاحی تدلیس پر صریح ہے؟
اس
حکایت میں ایک اور اشکال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ اس میں متاخرین کے ہاں معروف وہ
اصطلاحی تدلیس مراد نہیں ہے جس میں راوی اپنے ایسے شیخ سے تدلیس کرتا ہے جس سے اس
کا سماع ثابت ہو، بلکہ یہاں تدلیس کا اطلاق ایسی روایت پر کیا گیا ہے جس میں "راوی
اپنے ایسے معاصر سے روایت کرے جس سے اس کا سماع اور ملاقات ثابت نہ ہو"، جسے
متاخرین کی اصطلاح میں مرسل خفی کہا جاتا ہے، جس میں محض راوی کے مروی عنہ سے ایک
بار سماع کی تصریح تلاش کی جاتی ہے، ہر روایت میں اس کا عنعنہ مردود نہیں ہوتا۔
حسن بصری کی مثال کا
جائزہ:
خلف
بن سالم کی تدلیس سے مراد ارسال ہے، اس بات پر جو چیز دلالت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ:
خلف
بن سالم نے امام حسن بصری کو مدلس قرار دیتے ہوئے کہا کہ: "وہ اپنے اور صحابہ
کے درمیان مجہول لوگوں کو داخل کرتے ہیں"
اور
اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
"وربما دلس عن
مثل عتي بن ضمرة، وحنيف بن المنتجب، ودغفل بن حنظلة، وأمثالهم"
(اور کبھی وہ عتی بن ضمرۃ، حنیف بن المنتجب، دغفل بن حنظلہ اور ان جیسے لوگوں سے
تدلیس کرتے ہیں (یعنی اپنے اور صحابہ کے درمیان ان کے واسطے کو گرا دیتے ہیں))۔
یہ
اس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہاں تدلیس سے خلف بن سالم کی مراد ایسی روایت ہے
"جو راوی اپنے ایسے معاصر سے بیان کرے جس سے اس کی ملاقات نہ ہو"۔
اس
کی وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ خلف بن سالم نے حسن بصری کو جن لوگوں کے نام حذف کرنے
کی تنقید کی ہے ان کے شیوخ میں ایسا کوئی نہیں جس سے حسن بصری کا سماع یا لقاء
ثابت ہو۔ چنانچہ:
· عتی بن ضمرۃ نے ائمہ کی تصریح کے مطابق صرف سیدنا ابی بن
کعب اور سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے روایت کی ہے۔ تو اگر کہا جائے کہ امام حسن
بصری نے عتی بن ضمرۃ کو گرا کر براہِ راست ابی بن کعب یا ابن مسعود سے روایت کی ہے
تو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ نہوں نے تدلیس
نہیں ارسال کیا ہے، کیونکہ حسن بصری کا ابی بن کعب اور ابن مسعود دونوں میں سے کسی
سے سماع ولقاء ثابت نہیں۔
· حنیف بن المنتجب جن کا درست نام "حنتف بن السجف"
ہے، ذخیرۂ حدیث میں ان کی صرف ایک ہی روایت ملتی ہے جو کہ سیدنا ابن عمر سے ہے جسے
انہوں نے ان سے مدینہ تشریف آوری پر سنا، جس کے کچھ دن بعد ہی وہ فوت ہو گئے جبکہ
وہ شام کی طرف روانہ تھے، چنانچہ ان کی واپسی کبھی بصرہ میں ہوئی ہی نہیں کہ حسن
بصری ان سے کچھ سماع کر سکتے۔ چنانچہ حسن بصری پر جن حنتف بن السجف کو گرانے کا
الزام ہے ان سے خود امام حسن بصری کا سماع ثابت نہیں ہے۔ البتہ حسن بصری نے حنتف
کی ابن عمر سے اس روایت کو نقل ضرور کیا ہے (دیکھیں: التاریخ الکبیر للبخاری: 446،
وتلخیص المشتبہ للخطیب: 1/501-502)، اور بعض اسانید میں انہوں نے حنتف کو سند سے
گرایا بھی ہے (دیکھیں: مسند احمد: 4637)، لیکن پھر بھی یہ ان کی تدلیس کی دلیل
نہیں کیونکہ "عن" کا صیغہ تو شیخ کے تلامذہ کی طرف سے سند کا اختصار
ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ روایت کرتے وقت حسن بصری نے خود بھی یہ صیغہ
استعمال کیا تھا جس میں اتصال کا احتمال ہوتاہے۔ بلکہ اس کے برعکس امام ابن خزیمہ
کی صحیح روایت میں آتا ہے کہ امام حسن بصری نے اس روایت میں "نُبِّئْتُ
أَنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ..." کے الفاظ
استعمال کیے ہیں (دیکھیں: اتحاف المہرۃ لابن حجر: 9411)۔ پس اگر راوی خود اپنی
روایت میں انقطاع کی نشاندہی کر دے اور اس میں اتصال کا ایہام نہ ہو تو اسے تدلیس
نہیں بلکہ ارسال کہتے ہیں۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ خلف بن سالم اور ان کے مشائخ نے
ارسال پر تدلیس کا اطلاق کیاہے۔
· دغفل بن حنظلہ کبار تابعین میں سے ہیں جب کہ بعض نے ان کی
صحبت پر اختلاف کیا ہے۔ بہرحال، دغفل بن حنظلہ کی ذخیرۂِ حدیث میں صرف دو روایتیں
موجود ہیں، اور خود امام احمد بن حنبل نے بھی اس بات کی صراحت کی ہے کہ: "لا أعلمه روي
عن دغفل غيرهما" (میں نہیں جانتا کہ دغفل سے ان دو روایتوں کے علاوہ
بھی کوئی روایت مروی ہے) (تاریخ دمشق: 17/288، واسنادہ حسن)۔ نیز دغفل کی دونوں
روایتیں نبی ﷺ سے براہِ راست مروی ہیں، ان کے علاوہ دغفل کی کسی صحابی سے کسی
روایت کا ذکر نہیں ملتا ہے، نہ ہی ایسے کسی صحابی سے جن سے حسن نے سماع کیا اور نہ
ان سے جن سے انہوں نے سماع نہیں کیا۔ الغرض امام حسن بصری کی دغفل سے تدلیس – یعنی
ان کا دغفل کو سند سے ساقط کرنا – اور براہِ راست نبی ﷺ سے بلا واسطہ روایت کرنا،
یہ تو ارسالِ ظاہر ہے خفی بھی نہیں، اور اس کو بالاتفاق کوئی بھی تدلیس نہیں کہتا۔
اس تفصیل سے صاف ظاہر ہوا کہ خلف بن سالم اور ان کے مشائخ
نے جس تدلیس کا ذکر اس سیاق میں کیا ہے وہ اصطلاحی تدلیس نہیں بلکہ ارسال ہے۔
ابراہیم نخعی کی مثال
کا جائزہ:
اسی طرح خلف بن سالم نے ابراہیم نخعی کی تدلیس کی مثال دیتے
ہوئے فرمایا:
"وإبراهيم
أيضا يدخل بينه وبين أصحاب عبد الله مثل هني بن نويرة، وسهم بن منجاب، وخزامة
الطائي، وربما دلس عنهم
اور ابراہیم نخعی بھی اپنے اور
عبد اللہ بن مسعود کے اصحاب کے درمیان ھنی بن نویرہ، سھم بن منجاب، اور خزامہ
الطائی جیسے لوگوں کو داخل کر دیتے ہیں اور بسا اوقات ان سے تدلیس کرتے ہیں"
خلف
بن سالم کے اس کلام میں، ابراہیم نخعی کی تدلیس کو حسن بصری کی مذکورہ تدلیس کے
ساتھ ایک ہی سیاق میں ذکر کیا گیا ہے۔ جبکہ گزشتہ وضاحت سے یہ بات یقینی طور پر
معلوم ہو چکی ہے کہ یہاں تدلیس سے مراد دراصل وہ روایت ہے جس میں راوی کسی ایسے
معاصر سے روایت کرے جس سے اس کی ملاقات ہی نہ ہوئی ہو — اور یہی "مرسل
خفی" کی صورت ہے۔ لہٰذا چونکہ ابراہیم کی تدلیس کو بھی اسی سیاق میں بیان کیا
گیا ہے، اس لیے یہ تدلیس درحقیقت "مرسل خفی" کی قسم میں داخل ہے، نہ کہ
وہ اصطلاحی تدلیس جس میں راوی ایسے شیخ سے روایت کرے جس سے اس نے کچھ سن رکھا ہو
مگر یہ خاص روایت نہ سنی ہو۔
چنانچہ
اگر ہم خلف بن سالم کے اس پورے کلام کو حسن بصری اور ابراہیم نخعی کی مراسیل (مرسل
روایات) کے بیان پر محمول کریں، تو یہ تاویل اس بات سے کہیں زیادہ قرینِ صواب ہو
گی کہ اسے ان کی اصطلاحی تدلیس کے ضعف پر محمول کیا جائے۔
کیا "اصحابِ عبد اللہ" کا تعین کیا
گیا ہے؟
اس
حکایت میں مزید اشکال اور احتمال اس بات سے بڑھ جاتا ہے کہ چونکہ
خلف بن سالم نے مرسل روایت پر بھی "تدلیس" کا اطلاق کیا ہے، اس لیے
ابراہیم نخعی کی "اصحابِ عبد اللہ" سے تدلیس کے ثبوت کے لیے یہ بات
لازمی ہے کہ ان "اصحابِ عبد اللہ" کا واضح تعین کیا جائے۔
اس
لیے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ کے اصحاب میں کئی ایسے افراد بھی شامل ہیں جن سے
ابراہیم نخعی کا نہ صرف سماع ثابت نہیں، بلکہ ملاقات بھی ثابت نہیں۔ پس اگر کوئی
اس روایت کو اصطلاحی تدلیس (یعنی سماع کے باوجود روایت نہ سننے والے تدلیس) کے
ثبوت کے طور پر پیش کرنا چاہے، تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ یہاں انہی
اصحابِ عبد اللہ کی بات ہو رہی ہے جن سے ابراہیم نخعی کا سماع ثابت ہے۔
ورنہ،
سیاق و سباق کے مطابق — جیسا کہ حسن بصری کی تدلیس کے ذکر میں ظاہر ہوا — یہ روایت
صرف ارسال خفی (مرسل روایت) پر محمول ہو گی، نہ کہ اصطلاحی تدلیس پر۔
اگر
ہم خلف بن سالم کے ذکر کردہ عملی شواہد کا جائزہ لیں، تو یہ بات مزید واضح ہو جاتی
ہے کہ یہاں اصطلاحی تدلیس کی کوئی واضح مثال پیش نہیں کی گئی۔ آئیے، اب ان مثالوں
کا تجزیہ کرتے ہیں:
خلف بن سالم کے مشائخ
نے ابراہیم اور اصحابِ عبد اللہ کے درمیان درج ذیل لوگوں کے موجود ہونے کا
دعوی کیا ہے:
· ھنی بن نویرۃ
· سھم بن المنجاب، اور
· خزامہ الطائی
هُنَيُّ بن نویرۃ کی اصحابِ عبد اللہ سے روایت:
ھنی بن نویرۃ (عابد) سے صرف ایک روایت مروی ہے جسے ابراہیم
نخعی نے ان سے نقل کیا ہے۔ اس روایت کو ھنی بن نویرۃ نے علقمہ بن قیس النخعی سے
روایت کیا ہے، جو کہ اصحابِ عبد اللہ میں سے ہیں اور امام نخعی کے بھی استاد ہیں۔
اس روایت میں بظاہر تدلیس کا شبہ ہوتا ہے کیونکہ بعض اسانید
میں ابراہیم نخعی نے اس روایت کو براہِ راست علقمہ سے نقل کیا ہے، لیکن یہ محض
رواۃ کا اختلاف اور اضطراب ہے، تدلیس نہیں۔ نیز کسی محدث یا امام نے اسے امام نخعی
کی تدلیس شمار نہیں کیا ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
اس
روایت کو امام نخعی سے درج ذیل لوگوں نے روایت کیا ہے:
1- مغیرہ
بن مقسم الضبی
2- امام
سلیمان بن مہران الاعمش
3- امام
منصور بن المعتمر، اور
4- امام
سلمہ بن کھیل
ان
میں سے صرف مغیرہ نے ہنی کا واسطہ ذکر کیا ہے، باقی سب نے روایت کو براہِ راست
علقمہ سے نقل کیا ہے۔ جبکہ مغیرہ کی ابراہیم سے روایات پر کلام بھی کیا گیا ہے۔
مزید
یہ کہ مغیرہ کی روایت میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔
· کبھی
وہ اسے شباک الضبی کے واسطے سے نقل کرتے ہیں (سنن ابی داود: 2666، وسنن ابن ماجہ:
2681) اور کبھی براہِ راست ابراہیم نخعی سے (مسند الطیالسی: 272)۔
· کبھی
وہ ابو معشر زیاد بن کلیب کے واسطے سے ابراہیم نخعی سے روایت کرتے ہیں (الثانی من
احادیث عبد اللہ بن مسعود لیحیی بن صاعد: 55)۔
· کبھی وہ ابراہیم اور علقمہ کے درمیان ھنی بن نویرۃ کا واسطہ
ذکر کرتے ہیں (مسند
الطیالسی: 272، ومصنف ابن ابی شیبہ: 29769) اور کبھی
نہیں کرتے (مسند احمد: 3729)۔
· اکثر روایات میں وہ اسے مرفوعا بیان کرتے اور کبھی وہ
"فیما احسب" کہہ کر اس کے رفع میں تردد کا شکار ہوتے ہیں (مسند ابی
یعلی: 5147)۔
اس کے برعکس امام نخعی کے دیگر کبار تلامذہ جیسے: امام اعمش
(مصنف عبد الرزاق: 19480، ومصنف ابن ابی شیبہ: 29770)، امام منصور (شرح مشکل
الآثار: 12/66، والجزء الثانی من احادیث عبد اللہ بن مسعود لیحیی بن صاعد: 50)،
اور امام سلمہ بن کہیل (مصنف ابن ابی شیبہ: 29774) نے بالاتفاق:
· اس روایت کو ابراہیم عن علقمہ کے طریق سے بلا واسطہ نقل کیا
ہے۔
· اور انہوں نے اسے ابن مسعود سے موقوفا روایت کیا ہے۔ مرفوعا
نہیں۔
· جبکہ امام منصور کی ایک روایت میں ابراہیم نخعی کی
علقمہ سے سماع کی تصریح بھی موجود ہے۔
چنانچہ امام طحاوی نقل
کرتے ہیں:
" فهدا
قد حدثنا قال: حدثنا علي بن معبد، حدثنا جرير بن عبد الحميد، عن منصور، عن إبراهيم
قال: كنا مع علقمة في المسجد، فرأى الناس يعدون نحو باب القصر، فقال: ما لهم؟
فقلت: أو قال إنسان: إن زيادا أو ابن زياد يمثل بابن المكعبر قال: " كان أحسن
الناس قتلة المسلم ""
منصور نے (ابراہیم
(نخعی) سے روایت کی، وہ کہتے ہیں: ہم
علقمہ کے ساتھ مسجد میں تھے، تو لوگوں نے قصر کے دروازے کی طرف دوڑنا
شروع کر دیا۔ علقمہ نے کہا: ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ میں نے، یا کسی اور نے
کہا: زیاد یا ابن زیاد ابن مکعبر کے ساتھ مثلہ (یعنی جسم کی بے حرمتی) کر رہا ہے۔ تو
علقمہ نے کہا: "قتل کے معاملے میں سب سے بہترین لوگ مسلمان
ہیں (یعنی وہ بے حرمتی نہیں کرتے بلکہ احسن طریقے سے قتل کرتے ہیں)"!
(شرح مشکل
الآثار: 12/66-67، واسنادہ صحیح، ورواہ ایضا یحیی بن صاعد فی الجزء الثانی من
احادیث عبد اللہ بن مسعود من طریق یوسف بن موسی القطان عن جریر: 49)
اس روایت
سے واضح ہوتا ہے کہ امام ابراہیم خود علقمہ کے ساتھ مسجد میں موجود تھے، اور انہوں
نے یہ واقعہ براہِ راست دیکھا اور سنا۔
تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ھنی بن نویرۃ اصلا اس روایت کے
راوی نہیں ہیں!؟ اس کا جواب ہے کہ ھنی بن نویرۃ نے بھی اس روایت کو علقمہ سے نقل
کیا ہے، لیکن انہوں نے جس سیاق میں اسے علقمہ سے نقل کیا ہے وہ ایک خاص سیاق ہے جس
میں وہ علقمہ سے اپنی پہلی ملاقات کے واقعہ کو بیان کر رہے ہیں۔ اور اسی سیاق کی
وجہ سے ابراہیم نخعی نے اسے ھنی بن نویرۃ سے نقل کیا ہے کیونکہ یہ سیاق ھنی بن
نویرۃ کے ساتھ ہی منسلک تھا کہ جس دن ان کی علقمہ سے پہلی ملاقات ہوئی
وہ یہی دن تھا۔ اسی لیے امام نخعی نے اس پس منظر کو ھنی سے روایت کیا، لیکن اصل
روایت براہِ راست علقمہ سے سن رکھی تھی۔
چنانچہ امام یحیی بن صاعد نقل کرتے ہیں:
"ثنا الْحَسَنُ بْنُ مُدْرَكٍ الطَّحَّانُ،
بِالْبَصْرَةِ، وَإِسْحَاقُ بْنُ سَيَّارٍ، بِنَصِيبِينَ، قَالا: ثنا يَحْيَى بْنُ
حَمَّادٍ، ثنا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ زِيَادِ
بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هُنَيِّ بْنِ نُوَيْرَةَ، قَالَ: إِنَّ
أَوَّلَ يَوْمٍ عَرَفْتُ فِيهِ عَلْقَمَةَ، أَنِّي وَتَمِيمُ بْنُ حَذْلَمٍ
ذَاهِبَيْنِ وَقَدْ صَلَبَ زِيَادٌ، أَوِ ابْنُ زِيَادٍ جوان بوذان بْنَ معكبرٍ
وَمَثَّلَ بِهِ، فَقُلْتُ لِصَاحِبِي: هَلْ لَكَ إِلَى جَلِيسٍ صَالِحٍ؟ فَقَالَ:
نَعَمْ، فَمِلْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا عَلْقَمَةُ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ
هَؤُلاءِ وَرَاءَكُمْ؟، فَأَخْبَرْنَاهُ بِالَّذِي كَانَ مِنْ زِيَادٍ، فَقَالَ
عَلْقَمَةُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ
اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: "أَعَفُّ
النَّاسِ قِتْلَةً أَهْلُ الإِيمَانِ""
(ابراہیم نخعی بیان کرتے ہیں کہ ھنی بن نویرۃ نے کہا: جس دن
میں نے علقمہ کو پہلی بار جانا، وہ یہ دن تھا کہ میں اور تمیم بن حذلم جا رہے تھے،
اور زیاد یا ابن زیاد نے جوان بوذان بن معکبر کو سولی دی ہوئی تھی اور اس کی لاش
کی بے حرمتی کی ہوئی تھی۔ تو میں
نے اپنے ساتھی سے پوچھا: کیا تم کسی نیک مجلس تک چلو گے؟ اس
نے کہا: ہاں۔ تو ہم مسجد کی طرف مڑ گئے، تو وہاں علقمہ موجود تھے۔ انہوں نے کہا:
تمہارے پیچھے ان لوگوں نے کیا کیا؟ تو ہم
نے انہیں بتایا کہ زیاد نے کیا کیا۔ تو علقمہ نے کہا: میں نے عبد اللہ بن مسعود سے سنا، وہ کہتے تھے: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: "قتل کے معاملے میں اہل ایمان تمام لوگوں سے زیادہ عفیف
اور عمدہ طریقہ رکھتے ہیں")
(الجزء الثانی من
احادیث عبد اللہ بن مسعود: 56، واسنادہ حسن)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام نخعی کی ھنی بن نویرۃ سے
روایت اس خاص سیاق سے منسلک تھی، جسے مغیرہ بن مقسم سے روایت کرنے والوں نے اختصار
کے ساتھ نقل کرتے ہوئے اس سیاق کو بھی حذف کر دیا، جس سے یہ تاثر ظاہر ہوتا ہے کہ
شاید ابراہیم نخعی نے یہ روایت علقمہ سے نہیں سنی۔ چونکہ دوسری روایت میں ابراہیم
نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ علقمہ کے ساتھ مسجد میں ہی موجود تھے، تو ان دونوں
روایتوں میں تطبیق ہو جاتی ہے کہ جب ھنی بن نویرۃ نے علقمہ سے مسجد میں ملاقات کی
تو اس وقت دیگر لوگوں میں امام نخعی بھی وہاں موجود تھے۔
چنانچہ معلوم ہوا کہ ھنی بن نویرۃ کی پورے ذخیرۂِ حدیث میں صرف یہی ایک روایت پائی
جاتی ہے اور اس میں بھی ابراہیم نخعی نے تدلیس نہیں کی بلکہ علقمہ سے اپنی روایت
کے پسِ منظر کو انہوں نے ھنی بن نویرۃ سے اخذ کیا جبکہ وہ روایت خود انہوں نے
علقمہ سے سنی تھی۔
نتیجہ:
امام
ابراہیم نخعی کی یہ واحد روایت جس میں بظاہر ہنی بن نویرۃ کا واسطہ آتا ہے،
درحقیقت تدلیس پر دلالت نہیں کرتی، کیونکہ:
· روایت
کا اضطراب اس کی ضعف کی علامت ہے، نہ کہ تدلیس۔
· امام
نخعی نے اس روایت کو علقمہ سے سماع کے ساتھ بیان کیا۔
· ہنی
کا ذکر صرف واقعے کے سیاق کے لیے ہے، نہ کہ اصل سماع کے لیے۔
سھم بن المنجاب کی اصحابِ عبد اللہ سے روایت؟
خلف
بن سالم کی حکایت میں سہم بن منجاب کو اُن افراد میں شمار کیا گیا ہے جو اصحابِ
عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں۔ لیکن یہ نسبت درست نہیں، اور یہی اس حکایت کے ضعف و
نکارت پر دلالت کرتی ہے۔ جس سہم بن منجاب کی کوئی معروف یا ثابت شدہ روایت اصحابِ
عبد اللہ میں سے کسی سے موجود ہی نہیں، اسے ان کا راوی قرار دینا صریح غلطی ہے۔
یہ
اس بات کا ثبوت ہے کہ خلف بن سالم کے وہ مجہول مشائخ جنہوں نے یہ گفتگو کی، انہیں
رجال اور طبقاتِ رواۃ کا ادنیٰ درک بھی نہیں تھا۔ جب ان کی علمی سطح یہ ہے، تو ان
کے اقوال کو بنیاد بنا کر امام ابراہیم نخعی جیسے جلیل القدر تابعی پر تدلیس کا
الزام کیسے درست ہو سکتا ہے؟ البتہ ہم اس نکارت کو اس کی سند کے ضعف کے کھاتے میں
ڈالنا بہتر سمجھتے ہیں، نہ کہ کسی عالم پر الزامی کلام کریں، اگرچہ اس کا نام مبہم ہی رکھا گیا ہو۔
سہم
بن منجاب (صدوق، حسن الحدیث) کی روایات کے تتبع اور کتبِ رجال میں محدثین کی
تصریحات سے درج ذیل بات سامنے آتی ہے کہ ان کے شیوخ میں یہ افراد شامل ہیں:
1.
قرثع الضبی – جو سیدنا ابو ایوب انصاریؓ اور سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ
سے روایت کرتے ہیں۔
2.
قزعہ بن یحییٰ
البصری
– جو قرثع الضبی اور
سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت کرتے ہیں۔
3.
العلاء بن الحضرمی – جو صحابی ہیں۔
4.
المنجاب بن راشد – سہم کے والد، جو خود بھی صحابی ہیں۔
جیسا
کہ واضح ہے، سہم بن منجاب کا کسی بھی زاویے سے اصحابِ عبد اللہ سے کوئی ثابت یا
معروف تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا ابراہیم نخعی اور اصحابِ عبد اللہ کے درمیان سہم کا
واسطہ ہونا ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔
خزامہ الطائی کی اصحابِ عبد اللہ سے روایت؟
خُزامہ
الطائی کا اصحابِ عبد اللہ سے روایت کرنا تو درکنار، مسئلہ یہ ہے کہ
"خُزامہ" نامی کسی راوی کا وجود ہی محلِّ نظر ہے۔ اس نام سے پورے ذخیرۂ
حدیث میں کوئی راوی سرے سے پایا ہی نہیں جاتا۔ حتیٰ کہ اس سے ملتے جلتے کسی نام کا
بھی کوئی راوی — تمام تلاش و تتبع کے باوجود — نہ کسی کتبِ حدیث، نہ کتبِ رجال، نہ
کتبِ تاریخ، نہ کتبِ انساب، اور نہ ہی کسی اور ماخذ میں ملتا ہے۔
یہ
امر بعید از عقل ہے کہ تابعین کے دور کا کوئی راوی پوری صدیوں تک نہ کسی محدث کے
علم میں آئے، نہ کسی رجال کی کتاب میں اس کا ذکر ہو، اور نہ ہی کسی سند میں اس کا
نام محفوظ ہو — خصوصاً جب امام بخاری نے اپنی التاریخ الکبیر میں اپنے زمانے تک کے
تقریباً تمام رواۃ کو درج کر دیا ہے، اور پھر امام ابن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل
میں اس کام کو مزید وسعت دی، امام ابن حبان نے بھی اپنے موسوعاتی طرز پر تمام رجال
کو احاطہ میں لیا — لیکن ان سب میں "خزامہ" نام کا کوئی راوی موجود نہیں!
لہٰذا،
جب یہ نام نہ معروف ہے، نہ کسی معتبر ماخذ میں ملتا ہے، اور نہ ہی کسی محدث نے اس
کا ذکر کیا ہے — تو صاف ظاہر ہے کہ خلف بن سالم کی اس حکایت میں اس نام کا ذکر کسی
وہم یا تحریری غلطی کا نتیجہ ہے۔
اب
جب اس نام کے کسی راوی کا وجود ہی ثابت نہیں تو یہ کہنا بالکل بے بنیاد ہو گا کہ:
· وہ
اصحابِ عبد اللہ سے روایت کرتا تھا، یا
· امام
ابراہیم نخعی نے اصحابِ عبد اللہ سے روایت کرتے وقت اس راوی کو درمیان میں داخل
کیا، یا
· انہوں
نے اس سے تدلیس کی۔
یہ
تمام قیاسات ایک ایسے فرضی وجود پر مبنی ہیں جس کا سرے سے کوئی ثبوت ہی نہیں۔
دیگر اقوال کی
روشنی میں اس حکایت کی درست توجیہ:
جیسے
کہ ہم نے اس حکایت کی وضاحت میں دیکھا، خلف بن سالم کے مشائخ نے حسن بصری اور
ابراہیم نخعی کی تدلیس کا ذکر کرتے ہوئے جن راویوں کی مثالیں دی ہیں — جنہیں وہ
"مجہول" قرار دے رہے ہیں — ان میں سے کسی ایک میں بھی اصطلاحی تدلیس
ثابت نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض مثالیں تو ایسی ہیں جن کا ذکر کسی بھی صاحبِ علم و بصیرت
محدث کے شایانِ شان نہیں، جیسا کہ سہم بن منجاب، دغفل، اور عتی کی مثالوں سے واضح
ہوتا ہے۔
تاہم
اس طرز کے کلام کی نظیر ہمیں دیگر ائمہ کے اقوال میں بھی ملتی ہے۔ اگر ہم اس حکایت
کو انہی اقوال کی روشنی میں دیکھیں، تو یہ کہنا زیادہ قرینِ صواب ہوگا کہ یہاں خلف
بن سالم اور ان کے مشائخ کی مراد یہ نہیں کہ حسن بصری اور ابراہیم نخعی نے واقعتاً
ان راویوں سے "تدلیس" کی ہے جن کا ذکر انہوں نے کیا — جیسے عتی، حنتف،
دغفل، سہم، خزامہ، ہنی — یعنی یہ کہنا مقصود نہیں کہ انہوں نے واقعتاً کسی سند میں ان راویوں کا نام گرا کر اُن لوگوں سے براہِ
راست روایت کی ہے جن سے اِنہوں نے روایت کی ہے ۔
بلکہ
خلف بن سالم کے کلام کی درست توجیہ یہ ہو گی کہ وہ حسن بصری اور ابراہیم نخعی کی
مرسل روایات کی تضعیف بیان کر رہے تھے، اس بنیاد پر کہ ان کی روایات میں وہ بعض
ایسے مجہول راویوں کے واسطے سے بھی روایت کرتے ہیں۔ چنانچہ جب تک ان کی مرسل روایت
کا واسطہ معروف اور ثقہ نہ ہو، اس مرسل کو حجت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
خلاصہ
یہ کہ ان مشائخ کے ذکر کا مقصد کسی واقع شدہ تدلیس یا ارسال کی نشاندہی کرنا نہیں،
بلکہ صرف اس امکان کی طرف اشارہ ہے کہ چونکہ ان کے شیوخ میں مجہول راوی بھی پائے
جاتے ہیں، اس لیے یہ اندیشہ رہتا ہے کہ مرسل روایت کا ساقط شدہ واسطہ بھی انہی
مجہولین میں سے کوئی ہو سکتا ہے۔ البتہ اس حکایت کی سند میں ضعف کی وجہ سے خلف بن
سالم کا یہ کلام بعد میں غلط رخ اختیار کر گیا۔
چنانچہ
جب دیگر ائمہ نے حسن بصری اور ابراہیم نخعی کے مجہول شیوخ کا ذکر کیا ہے، تو وہ
بھی ان کی مراسیل کی کمزوری کے باب میں ہے، نہ کہ اصطلاحی تدلیس کے اثبات کے لیے۔
اس
سلسلے میں ائمہ کے بعض اقوال درج ذیل ہیں:
امام شافعی کا قول:
امام
شافعیؒ نے ایک جگہ ابراہیم نخعی کی علی بن ابی طالب
اور عبد اللہ بن مسعود سے مرسل روایت پر کلام کرتے ہوئے فرمایا:
" وأصل قولنا: إن
إبراهيم لو روى عن علي وعبد الله لم يقبل منه لأنه لم يلق واحداً منهما إلا أن
يسمي بينه وبينهما ويكون ثقة لِلُقِيِّهِما.... أفرأيت قَرْثَع الضبي وقزعة وسهم
بن منجاب حين روى إبراهيم عنهم، وروى عن عبيد بن نَضْلة أهم أولى أن يروى عنهم أو
وائل بن حجر وهو معروف عندكم بالصحابة وليس واحد من هؤلاء فيما زعمت معروفا عندكم
بحديث ولا شيء؟ "
(اور
ہمارے قول کی اصل یہ ہے کہ: اگر ابراہیم (نخعی) علی اور عبداللہ (ابن مسعود) سے
روایت کریں، تو ان کی روایت قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ انہوں نے ان دونوں میں سے
کسی ایک سے بھی ملاقات نہیں کی — الّا یہ کہ وہ ان
دونوں کے درمیان واسطہ کا نام لیں، اور وہ واسطہ ان دونوں سے ملاقات کرنے والا ثقہ
ہو۔۔۔۔ تو کیا تم نے قرثع الضبی، قُزَعَہ، اور سَہْم بن منجاب کو نہیں
دیکھا جن سے ابراہیم نے روایت کی، اور عبید بن نضلہ سے بھی روایت کی
—
تو
کیا تمہارے خیال میں یہ لوگ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ان سے روایت کی جائے یا
وائل بن حجر ؟ جبکہ وائل تمہارے نزدیک صحابہ میں معروف ہیں، جبکہ ان لوگوں
میں سے کوئی ایک بھی تمہارے بقول حدیث کے حوالے سے معروف نہیں؟)
(مناقب الشافعی للبیہقی: 2/20-22)
جیسا
کہ اس قول سے واضح ہوتا ہے، امام شافعی نے ابراہیم نخعی کے مجہول شیوخ کا ذکر
"تدلیس کے الزام" کے طور پر نہیں بلکہ ان کی مراسیل کے ضعف کو واضح کرنے
کے لیے کیا ہے۔ انہوں نے نہ یہ کہا کہ ابراہیم نخعی نے سہم بن منجاب، قرثع، یا
قزعہ سے تدلیس کی ہے، اور نہ یہ دعویٰ کیا کہ وہ ان افراد کو کسی حدیثی سند میں
گرا کر روایت کرتے تھے۔
بلکہ
امام شافعی کی بات کا لب لباب یہ ہے کہ: چونکہ ابراہیم نخعی نے بعض ایسے راویوں سے
بھی روایت کی ہے جو ثقہ اور معروف نہیں ہیں، تو ان کی ہر مرسل روایت کو قبول نہیں
کیا جا سکتا، جب تک کہ وہ اپنے اور صحابی کے درمیان ایک معروف اور ثقہ واسطہ کا
ذکر نہ کر دیں۔
امام طبری کا قول:
امام
طبری نے بھی امام حسن بصری کے مجہول مشائخ کا ذکر ان کی مراسیل کے زمرے میں کیا
ہے، وہ فرماتے ہیں:
"مراسيل الحسن أكثرها صحف
غير سماع، وأنه إذا وصلت الأخبار فأكثر روايته عن مجاهيل لا يعرفون. ومن كان كذلك فيما
يروي من الأخبار، فإن الواجب عندنا أن نتثبت في مراسيله"
(حسن
بصری کی مرسل روایات میں سے اکثر صحیفوں (تحریری مجموعوں) سے لی گئی ہوتی ہیں، نہ
کہ سماع پر مبنی، اور جب ان کی روایات کی مکمل سند معلوم کی جاتی ہے تو پتہ چلتا
ہے کہ اکثر وہ مجہول (نامعلوم) راویوں سے روایت کرتے ہیں جنہیں پہچانا نہیں جاتا۔ اور
جو شخص اس طرح مجہولین سے روایت کرتا ہو، تو ہمارے نزدیک اس کی مرسل روایات میں
احتیاط اور تحقیق کرنا واجب ہوتا ہے۔)
(تہذیب الآثار، مسند علی: 184)
نیز
دیکھیں: تاریخ طبری (11/637)۔
اس قول میں بھی امام طبری نے امام حسن بصری کے
مجہول مشائخ کا ذکر ان کی مراسیل کے ضعف کے تناظر میں کیا ہے، نہ کہ تدلیس کے سیاق
میں۔
امام بیہقی کا قول:
امام
بیہقی نے بھی خلف بن سالم کے قول سے ملتا جلتا کلام کیا ہے، لیکن انہوں نے اس بات
کو ابراہیم نخعی کی مراسیل کے سیاق میں بیان کیا ہے، نہ کہ تدلیس کے باب
میں۔ وہ فرماتے ہیں:
" منِ احتج بمراسيل إبراهيم النخعي... فإنا نجده يروي عن أكابر أصحاب عبد الله بن مسعود، ثم نجده
يروي عن قوم مجهولين، لا يروي عنهم غيره، مثل هُنَيّ بن نُويرة، وخزامةَ الطائي،
وقَرْثعٍ الضبي، ويزيد بن أوس، وغيرهم"
(جو
شخص ابراہیم نخعی کی مراسیل سے استدلال کرتا ہے... تو ہم دیکھتے ہیں
کہ وہ عبد اللہ بن مسعودؓ کے بڑے بڑے شاگردوں سے روایت کرتے ہیں، پھر ہم یہ بھی
پاتے ہیں کہ وہ ایسے مجہول (نامعلوم) افراد سے بھی روایت کرتے ہیں جن سے ان کے سوا
کوئی اور روایت نہیں کرتا، جیسے: ہُنَیّ بن نُویرة، خُزامہ الطائی،
قَرثَع الضبی، یزید بن أوس اور دیگر لوگ)
(المدخل الی السنن الکبری للبیہقی: 1/402)
اور
ایک دوسری جگہ فرمایا:
"وكذلك إبراهيم
النخعي وإن كان ثقة فإنا نجده يروي عن قوم مجهولين لا يروي عنهم غيره مثل هني بن
نويرة وحزافة الطائي وقرثع الضبي ويزيد بن أويس وغيرهم , والحكايات في عوار
المراسيل كثيرة"
(اسی
طرح ابراہیم نخعی، اگرچہ وہ ثقہ ہیں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایسے مجہول
(نامعلوم) لوگوں سے روایت کرتے ہیں جن سے ان کے علاوہ کوئی اور روایت نہیں کرتا، جیسے:
ہُنَی
بن نُویرة، حُزَافَہ الطائی، قَرثَع الضبی، یزید بن أُوَیس اور دیگر۔ اور مراسیل
کی کمزوریوں (عیوب) سے متعلق حکایات (مثالیں) بہت زیادہ ہیں)
(القراءۃ خلف الامام للبیہقی: ص 206)
امام
بیہقی کا یہ قول خلف بن سالم کے کلام کے سب سے زیادہ قریب ہے یا یوں سمجھ
لیں کہ خلف بن سالم کی حکایت اسی قول کی بگڑی ہوئی شکل ہے، اور اس سے یہ اندازہ
ہوتا ہے کہ خلف بن سالم کی مراد کیا تھی جو روایت کے ضعف کے سبب کیا سے کیا بن
گئی۔ امام بیہقی نے یہ بات ابراہیم نخعی کی مراسیل کے رد میں کہی ہے کہ: اگرچہ
وہ عبد اللہ بن مسعود کے کبار اصحاب سے روایت کرتے ہیں، لیکن ان کی ہر مرسل
روایت میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا واسطہ لازماً ثقہ ہو گا، کیونکہ وہ
دیگر مواقع پر مجہول راویوں سے بھی روایت کرتے ہیں۔ غور فرمائیں کہ اصحابِ
عبد اللہ کا ذکر یہاں بھی کیا گیا ہے لیکن خلف بن سالم کی حکایت میں اس کی کچھ اور
شکل پیش کی گئی ہے۔
چنانچہ
امام بیہقی کی رائے یہ ہے کہ ابراہیم نخعی کی مراسیل کو بالاطلاق (عمومی طور
پر) قبول نہیں کیا جا سکتا — خاص طور پر جب اس میں واسطہ نامعلوم ہو، کیونکہ
ممکن ہے وہ واسطہ بھی انہی مجہول راویوں میں سے ہو۔
مزید
یہ کہ اس پورے قول میں نہ تو اصطلاحی تدلیس کا ذکر ہے، اور نہ یہ کہا گیا
ہے کہ ابراہیم نخعی نے ان مجاہیل سے تدلیس کی ہے، نہ یہ بیان ہوا کہ وہ اصحابِ
عبد اللہ سے ان مجہول واسطوں کے ذریعے تدلیس کرتے تھے۔
بلکہ
امام بیہقی کی بات صرف اتنی ہے کہ چونکہ ابراہیم کے شیوخ میں ایسے غیر معروف افراد
بھی پائے جاتے ہیں، اس لیے ان کی ایسی مرسل روایات قابلِ احتیاط ہیں جن میں
واسطہ نامعلوم ہو۔
لہٰذا
اس سے واضح ہوتا ہے کہ خلف بن سالم کا اصل مقصد بھی شاید یہی تھا — یعنی ابراہیم
نخعی کی مراسیل پر عدم اعتماد کی بنیاد ان کے بعض شیوخ کے مجہول ہونے پر ہے،
نہ کہ اس بنیاد پر کہ انہوں نے کسی سند میں تدلیس کی ہے۔
ممکن
ہے کہ سند میں موجود بعض رواۃ کے ضعف نے اس حکایت کا مفہوم بگاڑ کر تدلیس
کی طرف موڑ دیا ہو، جبکہ اصل میں وہ بات ارسال و روایت کی احتیاط کے تناظر
میں کی گئی ہو۔
کیا محض مدلس کہلانے سے
راوی مردود العنعنہ ہو جاتا ہے؟
تدلیس کے معاملے میں شدت اختیار کرنے والے بعض معاصرین ہر
قسم کی تدلیس کے حکم کو عنعنہ کے رد کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"مدلس
کے عنعنہ کو رد کرنے پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اسے مطلق طور پر مدلس کہا گیا ہے،
اور صرف یہی بات اس کے عنعنہ کو رد کرنے کے لیے کافی ہے! کیونکہ متقدمین ناقدین مدلسین کے لیے ایسے مختلف مراتب نہیں رکھتے تھے
جیسے مراتب حافظ ابن حجر نے بعد میں بیان کیے، اور نہ ہی کسی قدیم ناقد نے مدلسین کے
ایسے مراتب کے ساتھ کوئی کتاب تصنیف کی تھی۔"
تو
اس کا جواب یہ ہے کہ:
کسی
راوی کو محض "مدلس" کہہ دینا، اس کے عنعنہ کو رد کرنے کے لیے کافی دلیل
نہیں ہے، اور اس کے کئی اسباب ہیں:
اوّل: محدثینِ متقدمین
اور جمہور متاخرین کا اس پر اتفاق ہے کہ "تدلیس" کی تعریف یہ ہے:
"راوی کا ایسے شیخ سے کسی چیز کی روایت کرنا جس سے اس نے سماع
تو کیا ہو لیکن وہ مخصوص حدیث نہ سنی ہو، یا
راوی کا کسی ایسے معاصر (ہم عصر) سے
روایت کرنا جس سے اس کی ملاقات (لقاء) نہ ہوئی ہو اور نہ ہی اس سے کچھ سنا ہو۔"
تدلیس
کی اسی تعریف پر متقدمین محدثین کے اکثر اقوال دلالت کرتے ہیں۔ اس پر کبار محدثین کے چند اقوال درج ذیل ہیں:
1- امام احمد بن حنبل کا
قول:
امام احمد فرماتے ہیں: " وعبد المجيد
لم يسمع من عبيد اللَّه شيئًا فينبغي أن يكون عبد المجيد دلسه "
(عبد المجید نے عبید اللہ سے کچھ بھی نہیں سنا، لہٰذا لازم ہے کہ عبد المجید نے اس
(روایت) میں تدلیس کی ہے) (المنتخب من العلل للخلال: 135)۔
اس قول میں امام احمد نے عدمِ سماع کے
باوجود راوی پر تدلیس کا اطلاق کیا۔ اسی طرح ایک دوسری جگہ امام احمد فرماتے ہیں:
"كان يدلس... وروى عن
الزهري، ولم يره " (وہ تدلیس کرتا تھا،
اور اس نے زہری سے روایت کی جبکہ اس نے انہیں نہیں دیکھا) (الکامل لابن عدی: 2/521)۔
اور یہاں امام احمد نے عدم لقاء وعدمِ رؤیت
پر بھی تدلیس کا اطلاق کیا۔
2- امام یحیی بن معین کا
قول:
امام ابن معین فرماتے ہیں: " لم يلق يحيى بن أبي كثير زيد بن سَلام
وَقدم مُعَاوِيَة بن سَلام عَلَيْهِم فَلم يسمع يحيى بن أبي كثير أَخذ كِتَابه
عَن أَخِيه وَلم يسمعهُ فدلسه عَنهُ "
(یحییٰ بن ابی کثیر کی زید بن سلام سے
ملاقات نہیں ہوئی، جبکہ معاویہ بن سلام ان کے پاس آئے، تو یحییٰ بن ابی کثیر نے
زید بن سلام کی کتاب ان کے بھائی سے لے کر حاصل کی، لیکن ان سے (براہِ راست) سماع
نہیں کیا، پس یحییٰ نے (زید بن سلام سے روایت میں) تدلیس کی) (تاریخ ابن معین
روایۃ الدوری: 3983)۔
الغرض امام ابن معین نے عدمِ لقاء پر بھی
تدلیس کا اطلاق کیا۔
3- امام بخاریؒ کا قول:
امام بخاری فرماتے
ہیں: "لا
أعرف لسعيد بن أبي عروبة سماعا من الأعمش وهو يدلس ويروي عنه" (میں
سعید بن ابی عروبہ کا امام اعمش سے سماع نہیں جانتا، اور
وہ تدلیس کرتے ہوئے اعمش سے روایت بیان کرتے ہیں) (العلل الکبیر للترمذی: 646)۔
پس جب سعید بن ابی عروبہ نے اعمش سے سماع
نہیں کیا، تو کیا امام بخاریؒ کا اسے تدلیس کہہ کر ضبط کرنا — متاخرین کی تدلیس
اور ارسالِ خفی کے درمیان تفریق کی بنیاد پر — درست ہو گا؟!
نیز اس طرح کے اقوال، امام ابن المبارک، امام ابو زرعہ،
امام ابو حاتم، امام عجلی،امام فسوی، امام ابو داود، امام عباس العنبری، امام ابو
جعفر النحاس، امام ابن حبان، امام ابن عدی، امام خلیلی، امام حاکم، اور دیگر کئی
ائمہ سے منقول ہیں۔ اسی طرح متاخرین کی اصولِ حدیث پر کتب میں بھی تدلیس کی یہی
تعریف درج ہے، دیکھیں: الکفایہ للخطیب (ص 22)، مقدمہ ابن الصلاح (ص 73)، اور
اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (ص 53) وغیرہ۔
اور یہ بات سب کے ہاں مسلم ہے کہ:
جو
راوی معاصر سے روایت کرتا ہو لیکن ملاقات نہ ہوئی ہو، اس کے عنعنہ کو مطلقاً رد
نہیں کیا جاتا، بلکہ صرف ایک بار ملاقات (لقاء) ثابت ہو جائے تو اس کی تمام معنعن
روایات کو قبول کر لیا جاتا ہے۔
اس
پر وہی شخص اعتراض کرے گا جو بلا علم بات کرے گا — اور جب
اسے دلائل کے ساتھ گھیر لیا جائے گا تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ وہ نادانی کی بات
کر رہا تھا۔
کیونکہ
ایسے راویوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو اپنے ہم عصر سے ملاقات کے بغیر روایت کرتے
ہیں، اور اگر ان سب کے عنعنہ کو رد کر دیا جائے تو بڑے وسیع نتائج نکلیں گے۔
پس
خلاصہ یہ ہے کہ:
معاصر
کا ایسے شخص سے روایت کرنا جس سے اس کی ملاقات نہ ہو، تدلیس کہلاتی ہے۔ پس۔۔۔ اگر کوئی راوی اسی طرح کی تدلیس کرتا ہو
(یعنی معاصر سے ملاقات کے بغیر روایت کرے)، تو اس کی ہر معنعن روایت کو مطلقاً رد
نہیں کیا جاتا۔
لہٰذا:
کسی
راوی کو صرف "مدلس" کہہ دینے سے اس کی ہر معنعن روایت مردود نہیں ہو
جاتی،
کیونکہ
یہ احتمال باقی رہتا ہے کہ
شاید
اسے "مدلس" اس لیے کہا گیا ہو کہ وہ ان لوگوں سے روایت کرتا تھا جن کا
وہ معاصر تھا مگر ملا نہیں تھا، نہ کہ اس لیے کہ وہ اپنے شیخ سے وہ حدیث بیان کرتا
جسے اس نے خود نہیں سنا۔ جبکہ ابراہیم نخعی کی تدلیس پر مروی خلف بن سالم کی اس
حکایت میں بالقطع ہم اس بات کو جان چکے ہیں کہ انہوں نے ارسال پر بھی تدلیس کا
اطلاق کیا ہے۔
اس
لیے لازم ہے کہ
ہر
طالب علم راوی کی تدلیس کی نوع کو دیکھے:
کہ
وہ کس قسم کی تدلیس کرتا ہے — تاکہ عنعنہ کے قبول یا رد کے بارے میں درست فیصلہ کر
سکے۔
اور
یہ نوعیت کئی طریقوں سے معلوم کی جا سکتی ہے:
· محدثین
کے عملی نمونوں سے کہ وہ اس راوی کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں،
· یا
کتبِ علل میں اس راوی کی احادیث پر کیے گئے نقد سے،
· یا
خود اس راوی کے ترجمے اور اس کی تدلیس پر ائمہ کے صراحتی اقوال سے۔
کیونکہ
کبھی ائمہ تدلیس کی وضاحت میں کوئی ایسی مثال بھی ذکر کر دیتے ہیں جس سے تدلیس کی
نوعیت صاف ظاہر ہو جاتی ہے۔
اسی
لیے درست یہ ہے کہ ابراہیم نخعی کو محض "مدلس" کہنے کی بنیاد پر یہ
دعویٰ کرنا کہ ان کا ہر عنعنہ مردود ہے — صحیح نہیں۔
کیونکہ
یہ احتمال موجود ہے کہ جن لوگوں نے انہیں "مدلس" کہا، ان کی مراد یہ تھی
کہ وہ بہت سے ایسے لوگوں سے روایت کرتے تھے جن کے وہ معاصر تھے مگر ملاقات نہیں
ہوئی تھی،
نہ
یہ کہ وہ اپنے سننے والے شیوخ سے وہ روایات بیان کرتے تھے جنہیں انہوں نے خود نہ
سنا ہو۔
ثالثا: شیخ زبیر
علی زئی کے نزدیک غیر صریح اقوال کی بنیاد پر تدلیس ثابت نہیں ہوتی
شیخ
زبیر علی زئیؒ نے الفتح المبین میں عمرو بن دینار کی تدلیس پر حاشیہ لگاتے ہوئے
فرمایا:
"فهو برئ من
التدليس... ورواية أبي داود الطيالسي (١٦٩٧) تشير إلي تدليسه ولكنها غير صريحا،
والله أعلم."
(وہ
تدلیس سے بری ہیں۔۔۔ ابو داود طیالسی کی روایت میں ان کی تدلیس کی طرف اشارہ تو
ملتا ہے، لیکن وہ صریح نہیں ہے، واللہ اعلم۔)
(الفتح المبین: ص 36)
حالانکہ
ابو داود طیالسی کی جس روایت کا حوالہ دیا گیا ہے، وہ عمرو بن دینار کی تدلیس پر اس
سے زیادہ صریح شہادت پیش نہیں کر سکتی تھی۔ امام ابو داود طیالسی فرماتے ہیں:
"حدثنا أبو داود
قال: حدثنا شعبة، عن عمرو، عن جابر، قال: «كنا نعزل على عهد رسول الله صلى الله
عليه وسلم والقرآن ينزل عليه» فقلت: أنت سمعته من جابر؟ قال: لا."
(شعبہ
نے ہمیں حدیث بیان کی عمر بن دینار سے انہوں نے جابر سے۔۔۔۔ شعبہ کہتے ہیں میں نے
کہا: کیا آپ نے یہ روایت جابر سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں)
(مسند أبو داود الطيالسي: 1803)
اس
روایت میں شعبہ نے عمرو بن دینار سے حدیث روایت کی، اور عمرو نے عن کے صیغے سے
جابر بن عبد اللہ سے روایت بیان کی۔
چنانچہ
امام شعبہ نے جب تحقیق کے لیے ان سے پوچھا: "کیا آپ نے یہ روایت براہ راست
جابر سے سنی ہے؟" تو عمرو نے صاف انکار کر دیا۔
یعنی:
· عن
کا صیغہ استعمال ہوا،
· معاصرت
اور ملاقات ثابت ہے،
· اور
سماع کی نفی کی گئی ہے۔
تدلیس
کی تمام بنیادی علامات اس واقعے میں واضح موجود ہیں۔
پھر
بھی اگر اس موقع پر تدلیس کا اطلاق نہ کیا جائے تو پھر تدلیس کی کوئی بنیاد باقی
نہیں رہتی۔
اندازہ
لگائیں!
جب
کسی شخصیت کو تدلیس سے برئ ثابت کرنا مقصود ہو تو ایسے واضح اور صریح ثبوت کو بھی "غیر
صریح" کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے،
اور
دوسری طرف جب کسی اور پر الزام لگانا ہو — جیسے امام ابراہیم نخعیؒ — تو ضعیف، غیر
صریح اور محتمل اقوال کو بھی خوب زور وشور سے پیش کر دیا جاتا ہے!
بہرحال،
خود
شیخ زبیر علی زئیؒ کے اپنے اصول کے مطابق امام ابراہیم نخعیؒ کی تدلیس بھی ثابت
نہیں ہو سکتی، کیونکہ:
1.
ان کی تدلیس پر
دلالت کرنے والا خلف بن سالم کا قول ہی ضعیف ہے۔
2.
اس میں بھی اوپر
ذکر کردہ احتمالات اور تعلیقات موجود ہیں۔
3.
مزید یہ کہ ائمہ
محدثین میں سے کسی نے بھی امام ابراہیم نخعی کو مدلس قرار نہیں دیا، اور نہ ہی
ان کے عنعنہ کو مشکوک سمجھا۔
یہ
تمام باتیں اس الزام کو مزید کمزور اور ناقابلِ احتجاج بناتی ہیں۔
لہٰذا
شیخ زبیر علی زئیؒ کے اصول کے مطابق بھی امام ابراہیم نخعیؒ پر تدلیس کا
حکم درست نہیں ہے۔
تیسری دلیل: امام حاکم نے
ابراہیم نخعی کو مدلسین میں ذکر کیا ہے:
امام ابراہیم نخعی کی تدلیس پر اپنی تیسری دلیل دیتے ہوئے
صاحبِ مضمون کہتے ہیں:
"امام ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم
النیسابوریؒ (م 405 ھ) نے ابراہیم نخعیؒ کو مدلسین میں ذکر کیا ہے۔ (دیکھیں: معرفہ
علوم الحدیث: ص 365)"
حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں: "ذكر الحاكم أنه
كا يدلس" (امام حاکمؒ نے ذکر کیا ہے کہ ابراہیم نخعی تدلیس
کرتے تھے)۔ (تعریف اہل التقدیس: ص 28)۔۔۔۔۔ حافظ صلاح الدین العلائی (جامع
التحصیل: ص 104)، برھان الدین الحلبی (التبیین لاسماء المدلسین: ص 13)، ابو زرعہ
العراقی (کتاب المدلسین: ص 35)، اور جلال الدین سیوطی وغیرہ (اسماء المدلسین: ص 27)
نے امام حاکم کے حوالہ سے یہی بات لکھی ہے۔
(نور الحدیث: شمارہ 40: ص 48)
جواب:
امام
حاکم کے قول پر ہم نے اوپر تفصیلی تجزیہ پیش کر دیا ہے، جس سے یہ نکات واضح ہوتے
ہیں:
1.
اولاً:
یہ
قول بذاتِ خود غیر ثابت ہے کیونکہ امام حاکم نے یہ بات اپنی طرف سے نہیں
کہی، بلکہ خلف بن سالم سے ایک حکایت روایت کی ہے۔
2.
ثانياً:
یہ
حکایت سنداً بھی ضعیف ہے اور متناً بھی محتمل و مضطرب ہے، جیسا کہ
ہم نے اس کے اندر موجود احتمالات اور اشکالات کی وضاحت کر دی ہے۔
لہٰذا
ایک غیر ثابت اور مشتبہ حکایت کو بنیاد بنا کر امام نخعی پر اصطلاحی تدلیس کا حکم
لگانا درست نہیں۔
3.
ثالثاً:
خود
امام حاکم کے اصولات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ارسال خفی (یعنی بغیر ملاقات کے
معاصر سے روایت) کو بھی "تدلیس" کے زمرے میں شمار کرتے تھے۔
چنانچہ
وہ معرفۃ علوم الحدیث میں فرماتے ہیں:
" والجنس
السادس من التدليس قوم رووا، عن شيوخ لم يروهم قط، ولم يسمعوا منهم، إنما قالوا:
قال فلان: فحمل ذلك عنهم على السماع، وليس عندهم عنهم سماع عال، ولا نازل"
(چھٹی
قسم تدلیس کی یہ ہے کہ بعض لوگ ایسے شیوخ سے روایت کریں جن سے انہوں نے کبھی روایت
نہیں لی، نہ ان سے کچھ سنا، محض یہ کہہ دیا: "فلاں نے کہا"، تو ان کی
روایت کو سماع پر محمول کر لیا گیا، حالانکہ حقیقت میں ان کے پاس ان (شیوخ) سے نہ
کوئی اعلیٰ سند ہے اور نہ ادنیٰ)
(معرفہ علوم الحدیث:
ص 109)
اس سے ظاہر ہوا کہ امام حاکم معاصر سے بغیر
سماع روایت کرنے کو بھی تدلیس کہتے ہیں۔ جبکہ اصطلاحی تدلیس (تدلیس الاسناد) صرف
اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے جب راوی نے واقعی اپنے شیخ سے سنا ہو اور پھر سماع کا
اظہار کیے بغیر روایت کرے۔ لہٰذا امام حاکم کے یہاں تدلیس کا مفہوم زیادہ وسیع اور
غیر اصطلاحی ہے۔
4.
رابعاً:
امام حاکم نے جس باب میں خلف بن سالم کی
حکایت ذکر کی ہے، وہ الجنس الرابع ہے — جو کہ تدلیس الشیوخ (شیخ کے
نام یا نسب میں ابہام پیدا کرنا) کے تحت ہے۔
جبکہ ابراہیم نخعی کے بارے میں جو کلام ہے
اس کا تعلق تدلیس الشیوخ سے نہیں، بلکہ مراسیل یا ارسال خفی سے ہو سکتا ہے۔
یعنی امام حاکم نے اپنی کتاب میں اس حکایت
کو بھی صحیح جنس میں مرتب نہیں کیا۔ پس جب معلوم ہوا
کہ امام حاکم ارسال کو بھی تدلیس سے تعبیر کرتے ہیں، اور اس قول میں ارسال کی دلالت
موجود ہے، نیز اس قول کا درست جنس میں ذکر نہ ہونے سے یہ بات بھی واضح نہیں ہوتی
کہ امام حاکم نے اس قول سے کس جنس پر دلالت کی ہے، تو امام حاکم کے
اس قول کو بنیاد بنا کر صاحبِ مضمون کی اپنی بیان کردہ تدلیس الاسناد پر کیسے حجت
قائم کی جا سکتی ہے؟
اسی بات کو جب ہم نے اپنے اصل مضمون میں
بیان کیا، تو صاحبِ مضمون نے اس نکتے کو سمجھے بغیر خود انجانے میں ہمارے موقف کے
حق میں دلیل پیش کر دی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
"امام
حاکم نے خلف بن سالم سے تدلیس الاسناد کے بارے میں مروی اس روایت کو چوتھی قسم کے
مدلسین کے تحت ذکر کیا ہے، جو ان مدلسین پر مشتمل ہے جو اپنے شیوخ کے ناموں یا
کنیتوں میں تبدیلی کر کے روایت کرتے ہیں، اور اس قسم کو تدلیس الشیوخ کہا جاتا ہے۔
اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب:
امام حاکمؒ کی کتاب مہذب اور مرتب نہیں ہے۔ حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں: 'لكنه لم يهذب
ولم يرتب' (یعنی امام حاکم نے اپنی کتاب کو مہذب اور مرتب نہیں
کیا۔)۔۔۔"
(ص 47)
ہم صاحبِ مضمون کو اپنے ہی خلاف دلیل
پیش کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
جب
آپ خود یہ مان چکے کہ امام حاکم نے اپنی کتاب کو مرتب اور منقح نہیں کیا تھا، تو
صاف ظاہر ہے کہ خلف بن سالم کا یہ قول بھی اپنی صحیح جگہ پر ذکر نہیں ہوا۔
اور
ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ امام حاکم ارسال کو بھی تدلیس کی ایک قسم شمار کرتے
ہیں۔
لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے:
جب
آپ کی اپنی دی گئی دلیل کے مطابق امام حاکم نے اپنی کتاب میں ترتیب و تہذیب کا
اہتمام نہیں کیا، تو پھر آپ کے پاس کیا مضبوط دلیل ہے کہ امام حاکم نے اس حکایت
سے اصطلاحی تدلیس الاسناد ہی مراد لی ہے؟
تدلیس کے دلائل کا
خلاصہ:
بہرحال،
امام نخعی پر تدلیس کے دعوے کی ساری بنیاد چند انتہائی کمزور نکات پر کھڑی ہے، جس
کا خلاصہ یہ ہے:
1.
ایسے اقوال کو
تدلیس کے ثبوت میں پیش کرنا جو درحقیقت ارسال پر دلالت کرتے ہیں، نہ کہ تدلیس
الاسناد پر؛
2.
ایک نہایت ضعیف،
محتمل اور مشتبہ حکایت، جو الٹا خود انہی کے موقف کے خلاف دلالت رکھتی ہے؛
3.
اور امام حاکم کی
محض ایک غیر مرتب و غیر مہذب نقل، جو نہ ان کا اپنا فیصلہ ہے اور نہ اس میں تدلیس
الاسناد پر کوئی واضح تصریح موجود ہے۔
اس
کے علاوہ صاحبِ مضمون کے پاس امام نخعی کی اصطلاحی تدلیس کے ثبوت میں نہ کوئی قدیم
امام کا قول ہے، نہ کوئی صریح دلیل — محض متأخرین یا معاصرین کی بعض آراء کا
سہارا، جو اصولِ محدثین کی نظر میں کوئی معتبر حیثیت نہیں رکھتیں۔
اب
اس کے برعکس ہم ان قوی اور واضح دلائل کو قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں جو امام
ابراہیم نخعی کی عدمِ تدلیس پر دلالت کرتے ہیں۔
امام ابراہیم نخعی کی
عدمِ تدلیس کے دلائل:
اب
تک کی تحقیق سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ امام ابراہیم نخعیؒ پر تدلیس کا الزام
کمزور اور غیر معتبر بنیادوں پر کھڑا ہے۔ اب ہم ان دلائل کو پیش کریں گے جو ان کی
عدمِ تدلیس پر براہِ راست دلالت کرتے ہیں۔ یہ دلائل نہ صرف اصولِ حدیث کی روشنی
میں مضبوط ہیں بلکہ ائمہ محدثین کی گواہیوں سے بھی مؤید ہیں۔ ان شواہد کی روشنی
میں ثابت ہوتا ہے کہ امام نخعی کی احادیث کو تدلیس کے شک کے بغیر قبول کیا جانا
چاہیے، اور ان کے عنعنہ پر کسی اضافی تحقیق یا سماع کی تصریح تلاش کرنے کی ضرورت
نہیں۔
1- امام نخعی کی ثقاہت، تقدمِ زمانہ اور محدثین کا اجماعِ سکوتی
امام
ابراہیم نخعی تابعین میں مشہور ومعروف اور ثقہ مکثرین میں سے ہیں۔ یہاں تک کہ امام
علی بن مدینی نے انہیں اہل کوفہ کی فقہ کو
سب سے زیادہ جاننے والے اصحابِ عبد اللہ کے سب سے بڑا ماہر اور عالم قرار دیا ہے (العلل
لابن المدینی: ص 43)۔
تقدمِ
زمانہ، ثقاہت، امامتِ حدیث، اور بکثرت روایت کی وجہ سے امام نخعی کی روایات اور ان
کی علل ہر زمانے میں محدثین کے لیے خاص توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ لیکن اتنی صدیوں میں
کسی بھی معتبر محدث نے انہیں مدلس قرار نہیں دیا۔
لہٰذا
ان کی عدمِ تدلیس پر محدثین کا اجماعِ سکوتی قائم ہے۔
2- محدثین کی گہری تحقیق اور پھر بھی تدلیس کا عدم ذکر
محدثین
امام نخعی کی روایات سے غافل نہیں تھے۔ انہوں نے ان کی روایات میں موجود انقطاع
اور عدم سماع کے مقامات پر تفصیل سے کلام کیا۔
مگر
اس تمام تحقیق کے باوجود انہوں نے کبھی امام نخعی پر تدلیس کا الزام نہیں لگایا،
بلکہ بات صرف ارسال یا مراسیل تک محدود رکھی۔ مثلاً:
· امام
ابن المدینیؒ نے فرمایا:
o
"إبراهيم لقي من
هؤلاء الأسود وعلقمة ومسروقا وعبيدة، ولم يسمع من الحارث بن قيس ولا عمرو بن
شرحبيل..."
(العلل: 43-44)
o
"لم يلق أحدا من
أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم..." (المراسیل: 19)
· امام
شعبہؒ نے فرمایا:
o
"إن إبراهيم لم
يسمع من أبي عبد الله الجدلي" (المراسیل لابن ابی حاتم: ص 8)
· امام
ابو حاتم رازی نے فرمایا:
o
"لم يلق إبراهيم
النخعي أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إلا عائشة ولم يسمع منها..."
(المراسیل: 21)
· امام
ابو زرعہ رازی نے فرمایا:
o
"إبراهيم دخل
على عائشة وهو صغير ولم يسمع منها شيئاً" (المراسیل: 22)
· حتی
کہ امام عبد الرحمن بن مہدی نے ابراہیم نخعی کا علقمہ سے سماع نہ ہونے کا شبہ بھی
ظاہر کیا تھا —
حالانکہ
علقمہ سے ان کا سماع معروف ہے۔ (المراسیل: 18)
· اسی طرح حافظ ابن حجر نے بھی جب انہیں تقریب میں ذکر کیا تو
ان کی تدلیس کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا بلکہ ان کی مراسیل کا ہی ذکر کرتے ہوئے
فرمایا: "
الفقيه
ثقة إلا أنه يرسل كثيرا" (تقریب: 270)۔
نتیجہ:
جہاں
بھی امام نخعی کے سماع یا عدم سماع پر کلام ہوا ہے وہ محض ارسال کے ضمن میں ہے،
تدلیس کا کہیں ذکر نہیں۔
تو
کیا چوتھی صدی ہجری میں ایک ضعیف روایت میں ان کی تدلیس کا انکشاف ہوا اور ساری
امت اس سے غافل رہی؟؟
3- کتبِ صحاح میں امام نخعی کی معنعن روایات کا اعتماد کے ساتھ ذکر
صحیح
بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، المنتقی لابن الجارود، مستدرک
حاکم اور مستخرجات میں امام نخعی کی بے شمار معنعن روایات موجود ہیں۔
لیکن:
·
آج تک کسی محدث نے
ان کی معنعن روایت کو تدلیس کی بنیاد پر رد نہیں کیا۔
·
کسی امام نے ان کی
روایت کو "عن" کی بنیاد پر غیر معتبر قرار نہیں دیا۔
کیا
یہ گمان کیا جائے کہ اتنی صدیوں تک جلیل القدر محدثین کی بصیرت سے یہ نکتہ پوشیدہ
رہا، اور آج چند معاصر محققین اس تک پہنچے ہیں؟
4- معاصرین کے اصول پر ایک
چیلنج
جو
لوگ امام نخعی کی معنعن روایات کو محض "عن" کی بنیاد پر ضعیف کہتے ہیں،
ان
سے ہمارا کھلا چیلنج ہے:
فقہاء،
محدثین، یا ائمہ حدیث میں سے کسی ایک معتبر امام کا قول لا کر دکھا دیں کہ انہوں
نے ابراہیم نخعی کے عنعنہ کو ضعف کا سبب قرار دیا ہو۔
اگر
ایسا کوئی قول پیش نہیں کیا جا سکتا (اور حقیقت میں نہیں کیا جا سکتا)، تو یہ ثابت
ہو جائے گا کہ
معاصر
ناقدین محدثین کے طریقے کے خلاف اور اپنے من گھڑت اصول پر چل رہے
ہیں۔
5- امام نخعی کی ان روایات کا مقام جنہیں معاصرین نے ان کے عنعنہ
کی وجہ سے ضعیف قرار دیا
اس
کے برعکس، جن روایات کو معاصر ناقدین نے محض امام ابراہیم نخعیؒ کے عنعنہ کی بنیاد
پر ضعیف قرار دیا ہے، محدثین کرام نے انہیں بالکل ضعیف نہیں سمجھا بلکہ ان کی صحت
یا حسن پر گواہی دی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام نخعیؒ کی معنعن روایات پر
محدثین کا اعتماد ہمیشہ باقی رہا ہے، اور انہیں عنعنہ کی بنیاد پر رد نہیں کیا
گیا۔ ذیل میں چند نمایاں مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
·
سنن ابی داود (2235) میں
امام نخعی کی اسود بن یزید سے ایک معنعن روایت کو شیخ زبیر علی زئیؒ نے غیر ثابت
اور ضعیف قرار دیا۔ حالانکہ محدثین نے اس روایت کو ضعیف نہیں کہا بلکہ اسے اسود سے
ثابت مانتے ہوئے اس میں محض بعض الفاظ کو اسود کا ادراج قرار دیا ہے۔ اسی لیے امام
بخاریؒ نے اس روایت کو امام اسود کے قول کے طور پر قطعی انداز میں نقل کرتے ہوئے
فرمایا:
"قَالَ
الْأَسْوَدُ: وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا"
(صحیح
البخاری: 6373)
·
سنن ابی داود (2764) میں
امام نخعی کی ایک اور روایت کو محض عنعنہ کی بنیاد پر شیخ زبیر علی زئیؒ نے ضعیف
قرار دیا، حالانکہ اس حدیث کی صحت پر کسی نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا اور اس سے
استدلال کرنے پر محدثین وفقہاء کا اجماع ہے۔ چنانچہ امام ابن المنذرؒ فرماتے ہیں:
"ذكر ما حفظناه عن أهل العلم في هذا الباب أجمع عامة من تحفظ
عنه من أهل العلم على أن أمان المرأة الحرة جائز. وقالت عائشة: إن كانت المرأة لتجير على المسلمين فيجوز"
اور اس حدیث کے ظاہر
کی مخالفت کو غیر جائز قرار دیتے ہوئے امام ابن المنذر فرماتے ہیں:
"وترك ظاهر الأخبار غير جائز للعلل"
(الأوسط
لابن المنذر: 11/261-262)
نیز امام ابن دقیق العیدؒ نے بھی اس حدیث
کو صحیح احادیث میں شمار کیا ہے (الاقتراح: 93)۔
· امام
نخعی کی اسود عن عائشہ کے طریق سے مروی وہ مشہور حدیث جس میں رسول اللہ ﷺ
نے فرمایا:
"رفع القلم عن ثلاث: عن النائم حتى يستيقظ، وعن الصغير حتى
يكبر، وعن المجنون حتى يعقل أو يفيق" (سنن النسائی: 3432)
اس حدیث کو بھی شیخ زبیر علی زئیؒ نے امام
نخعی کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا۔ جبکہ امام ابن رجبؒ اس حدیث کے تحت امام
نسائیؒ اور امام ابن المنذر کا قول نقل کرتے ہیں:
"وقال النسائي: ليس في هذا الباب صحيحٌ إلا
حديث عائشة؛ فإنه حسن... وقال ابن المنذر: هو ثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم
"
(فتح
الباری لابن رجب: 8/23)
اسی حدیث کو امام ابن الجارودؒ (المنتقی:
148، 808)، امام ابن حبانؒ (صحیح: 142)، اور امام حاکمؒ (مستدرک: 2350) نے صحیح
قرار دیا ہے۔ یہاں تک کہ امام بخاریؒ نے بھی فرمایا:
"أرجو أن يكون محفوظا"
(العلل
الکبیر للترمذی: 404)
· سنن
النسائی (3522) میں
امام نخعی کی علقمہ عن ابن مسعودؓ کی ایک روایت کو بھی محض عنعنہ کی وجہ سے شیخ
زبیر علی زئیؒ نے ضعیف قرار دیا۔ جبکہ امام احمد بن حنبلؒ نے بالجزم اسے ابن مسعود کی طرف منسوب کیا (زاد المعاد: 5/596)۔ اور حافظ ابن
حجر نے اس روایت کو "
وقد ثبت عن ابن مسعود " کے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا (فتح الباری: 9/474)۔
· غلام
مصطفیٰ ظہیر امن پوری صاحب نے بھی امام نخعی کی علقمہ سے مروی ایک
حدیث کو ان کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا (فتاویٰ امن پوری، قسط 37، صفحہ 2)،
جبکہ امام ابن عبد البرؒ نے فرمایا: "فهو صحيح"
(التمہید:
7/190)
· اسی
طرح امن پوری صاحب نے ایک اور روایت کو امام نخعی کے عنعنہ کی بنیاد پر ضعیف قرار
دیا (فتاویٰ امن پوری، قسط 220، صفحہ 6)، جبکہ امام عبد الحق الاشبیلیؒ نے اس حدیث
کے بارے میں فرمایا:
"رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ بِإِسْنَادٍ جيد"
(خلاصۃ
الأحکام: 2/982)
اور امام نوویؒ نے بھی فرمایا:
"إسناده جيد"
(المجموع:
5/239)
خلاصہ:
ان
تمام شواہد سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ امام ابراہیم نخعیؒ کی معنعن روایات کو محض
عنعنہ کی بنا پر ضعیف قرار دینا محدثین کے مسلمہ منہج کے بالکل خلاف ہے۔ صدیوں کے
ائمہ حدیث نے ان کی روایات کو قبول کیا، ان پر اعتماد کیا، اور کبھی محض عنعنہ کو
وجہِ ضعف نہیں بنایا۔ اس کے مقابلے میں چند معاصر ناقدین کا رویہ نہایت کمزور اور
اصولِ محدثین سے یکسر ہٹا ہوا ہے۔
Post a Comment