اس بات پر تمام کبار
فقہاء اسلام کا اتفاق ہے کہ بلی کی خرید وفروخت جائز ہے۔ اس قول کو اختیار کرنے
والوں میں: امام ابو حنیفہ، امام سفیان ثوری، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن
حنبل، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابن سیرین، امام الحکم بن عتیبہ، امام حماد بن
ابی سلیمان، امام الحسن البصری، امام عطاء بن ابی رباح اور دیگر کئی علماء وفقہاء
شامل ہیں۔ یہاں تک کہ اس پر بعض علماء نے اپنے اپنے دور کا اجماع اور عدمِ اختلاف
بھی نقل کیا ہے، چنانچہ:
· امام طحاویؒ (م 321
ھ) فرماتے ہیں:
" وَلَمْ نَعْلَمِ اخْتِلَافًا بَيْنَ أَهْلِ
الْعِلْمِ فِي ثَمَنِ السِّنَّوْرِ أَنَّهُ لَيْسَ بِحَرَامٍ
"
(اور ہم اہل علم کے
درمیان بلی کی قیمت کے بارے میں کسی اختلاف کو نہیں جانتے، کہ یہ حرام نہیں ہے)
(شرح
مشکل الآثار: 4663)
· امام ابن عبد البرؒ
(م 463 ھ) فرماتے ہیں:
(بدَليلِ إجماعِهم على بَيْعِ الهِرِّ، والسِّباعِ،
والفُهودِ المتَّخَذةِ للصُّيدِ، والحُمرِ الأهليَّةِ)
"علماء کا اجماع کی دلیل کے ساتھ
کہ انہوں نے بلی، درندوں، شکار کے لیے پالے گئے چیتوں، اور گھریلو گدھوں کی خرید و
فروخت کو جائز قرار دیا ہے۔"
(التمهيد 9/46)
·
اور
علامہ ابو بکر الحدادی الحنفی (م 800 ھ) فرماتے ہیں:
(يَجوزُ بَيْعُ الهِرَّةِ بالإجماعِ)
"بلی کی خرید و فروخت اجماعاً جائز ہے"
(الجوہرۃ النیرۃ: 1/220)
یہاں تک کہ ایک جلیل القدر فقیہ صحابی
رسول: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اس کا جواز ثابت ہے،
چنانچہ امام ابن المنذر نقل کرتے ہیں:
" حدثنا الربيع بن سليمان، قال: حدثنا حجاج
الأزرق، قال: حدثنا عبيد الله، عن عبد الكريم، عن قيس بن حبتر، عن ابن عباس، أنه
لم يكن يرى بثمن السنور بأسا "
(قیس بن حبتر سیدنا ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ وہ بلی کی
قیمت (یعنی خرید وفروخت) میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔)
(الاوسط لابن المنذر:
6602، واسنادہ صحیح)
اس کے برعکس بلی کی خرید وفروخت کو حرام کہنے والوں میں بعض اہل ظاہر اور کچھ معاصر اہل حدیث شامل ہیں۔
جبکہ اس موقف پر ان کے
پاس ایک ہی دلیل ہے، جو کہ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث ہے۔ اس
حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بطور متابعت ذکر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
" حدثني
سلمة بن شبيب، حدثنا الحسن بن أعين، حدثنا معقل، عن أبي الزبير، قال: سألت جابرا،
عن ثمن الكلب والسنور؟ قال: «زجر النبي صلى الله عليه وسلم عن ذلك» "
(معقل نے ابو الزبیر سے حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت
جابر رضی اللہ عنہ سے کتے اور بلی کی قیمت کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے کہا:
"نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے۔")
(صحیح مسلم:
1569)
تنبیہ: بعض لوگوں کا اس حدیث کو بلا تحقیق یہ کہہ کر قبول کرنا کہ
اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے محلِ نظر ہے کیونکہ امام مسلم نے اس
حدیث کو بطور احتجاج نہیں بلکہ بطور استشہاد ذکر کیا ہے، اور اسے انہوں نے
"تحریم ثمن الکلب" کے اصل مسئلے کے تحت دیگر دلائل کے ساتھ آخر میں ذکر
کیا ہے۔
اس حدیث کے راوی معقل
بن عبید
اللہ بعض جرح کے ساتھ صدوق راوی ہیں لیکن اتنے زیادہ قوی نہیں ہیں۔ جبکہ ان کی ابو
الزبیر سے روایت پر خاص جرح کی گئی ہے۔
چنانچہ حافظ ابن رجب
الحنبلیؒ نے معقل کی اس حدیث کے بارے میں فرمایا:
"وهذا إنّما يُعرف عن ابن لهيعة عن أبي الزبير.
وقد استنكر الإمامُ أحمد رواياتِ مَعْقِلٍ عن أبي الزبير، وقال: هي تشبه أحاديثَ
ابنِ لهيعة، وقد تُتُبِّعِ ذلك، فوُجِدَ كما قاله أحمد رحمه الله."
(یہ حدیث ابن لہیعہ عن ابی الزبیر سے
ہی معروف ہے۔ امام احمد نے معقل کی ابو الزبیر سے روایات کو منکر کہا اور فرمایا
کہ یہ ابن لہیعہ کی احادیث کی مشابہ ہیں۔ جب اس بات کا تتبع کیا گیا تو یہ ویسا ہی
پایا گیا جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا۔)
(جامع
العلوم والحکم: ص 877 ت الفحل)
اور دوسری جگہ
فرمایا:
"معقل بن عبيد الله الجزري، ثقة، كان أحمد يضعف
حديثه عن أبي الزبير خاصة ويقول: يشبه حديثه حديث ابن لهيعة۔
ومن أراد حقيقة الوقوف على ذلك فلينظر إلى أحاديثه عن أبي الزبير، فإنه يجدها عند
ابن لهيعة يرويها عن أبي الزبير كما يرويها معقل سواء.» ومما أنكر على (معقل) بهذا
الإسناد حديث.... وحديث "النهي عن ثمن السنور"
(معقل بن عبید اللہ
الجزری ثقہ راوی تھے، لیکن امام احمد خاص طور پر ان کی ابو الزبیر سے روایت کردہ
احادیث کو ضعیف قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کی حدیث ابن لہیعہ کی حدیث کی مشابہ
ہے۔ جو شخص اس حقیقت کو جاننا چاہے، وہ معقل کی ابو
الزبیر سے روایت کردہ احادیث کا جائزہ لے تو پائے گا کہ ابن لہیعہ بھی انہیں ابو
الزبیر سے اسی طرح روایت کرتے ہیں جس طرح معقل روایت کرتے ہیں۔ اور اس سند کے ساتھ
معقل کی جن احادیث کو منکر کہا گیا، ان میں حدیث۔۔۔ اور حدیث "بلی کی قیمت سے منع
کرنے والی حدیث" شامل ہیں)
(شرح علل الترمذی لابن
رجب: 2/793)
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ
امام احمد بن حنبل نے اپنے ایک دوسرے قول
میں یہ بھی فرمایا ہے کہ:
"«ما أعلم فيه شيئاً يثبت أو يصحُّ، وقال أيضاً:
الأحاديث فيه مضطربةٌ.»"
(جامع العلوم والحکم: ص
878)
نیز اس حدیث کو ابن لہیعہ نے بھی
بعینہ اسی طرح اور انہی الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے، جس سے امام احمد کے قول کو مزید
تقویت حاصل ہوتی ہے، چنانچہ امام احمد نقل کرتے ہیں:
حدثنا حسن،
حدثنا ابن لهيعة، حدثنا أبو الزبير، قال: سألت جابرا عن ثمن الكلب، والسنور، فقال:
«سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم زجر عن ذلك»
(مسند احمد: 15148)
غور کریں کہ روایت کے الفاظ کے ساتھ
ساتھ معقل نے ابن لہیعہ کی بیان کردہ ابو الزبیر کی جابر سے تصریح سماع کو بھی
بعینہ ایک الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ابو الزبیر سے روایت کرنے
والے کسی دوسرے راوی نے ابو الزبیر کے سماع کی تصریح ذکر نہیں کی ہے۔
الغرض اس حدیث کو ابو الزبیر سے درج
ذیل لوگوں نے بھی روایت کیا ہے:
1- عمر بن زید الصنعانی (مسند احمد: 14166،
سنن ترمذی: 1280، مستدک الحاکم: 2246، والتاریخ الکبیر للبخاری: 2013)
2- الحسن بن ابی جعفر الجفری (مسند احمد: 14411، وسنن
الدارقطنی: 3065)
3- حماد بن سلمہ (اس پر تبصرہ بعد میں)
4- الجراح بن المنہال (جزء بکر بن بکار: 2) – یہ روایت صرف
"ثمن الکلب" کے ساتھ ہے اس میں بلی کا اضافہ نہیں ہے۔
5- خیر بن نعیم الحضرمی
(المعجم الاوسط للطبرانی: 1237 وسنن دارقطنی: 3063)
ان پانچوں طرق کی حقیقت بھی دیکھ لیں:
1- عمر بن زید الصنعانی کی
حدیث پر امام بخاری نے کہا: "فیہ نظر"۔ امام ابو نعیم نے فرمایا: "روى
عن محارب و أبى الزبير المناكير لا شىء" (اس نے محارب اور ابو الزبیر سے منکر روایتیں بیان کیں ہیں اور وہ کچھ
شئے نہیں ہے) (الضعفاء لابی نعیم: 148)۔ امام حاکم نے فرمایا: " روى عن محارب بْن
دثار وأبي الزبير أحاديث موضوعة
" (اس نے محارب بن دثار اور ابو الزبیر سے من گھڑت روایتیں بیان کی ہیں)
(المدخل الی الصحیح: 110)۔ امام ذہبی نے اس کی اس حدیث کے تحت فرمایا: "عمر
بن زيد واه" (عمر بن زید
شدید ضعیف ہے) (تلخیص المستدرک: 2246)۔
2- الحسن بن ابی جعفر
راوی بھی منکر الحدیث اور متروک الحدیث ہے۔ اس کو امام بخاری، امام فلاس اور امام
ساجی نے "منکر الحدیث"، امام نسائی نے ضعیف اور متروک الحدیث، امام ابن
المدینی، امام عجلی اور امام دارقطنی نے ضعیف الحدیث، اور امام احمد وابن معین نے
لیس بشئ کہا ہے۔
3- الجراح بن المنہال
بھی سخت ضعیف راوی ہے۔ اسے یحیی بن معین نے لیس حدیثہ بشئ، اور ضعیف، امام علی بن
المدینی نے "ضعیف لا یکتب حدیثہ"، امام بخاری نے "منکر
الحدیث"، امام نسائی اور امام دارقطنی نے "متروک الحدیث" کہا ہے،
جبکہ امام ابن حبان نے کہا ہے کہ وہ حدیث میں جھوٹ بولنے والا اور شرابی شخص تھا۔
4- خیر بن نعیم
صدوق راوی ہیں لیکن یہ طریق ان تک
ثابت ہی نہیں کیونکہ اس میں وھب اللہ بن راشد ابو زرعہ راوی ضعیف ہے۔
5- جہاں تک بات ہے حماد بن سلمہ کی تو
وہ حسن الحدیث ہیں لیکن ان کی روایت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان سے اس روایت کو:
·
الحجاج بن محمد (سنن نسائی: 4295)
·
الہیثم
بن جمیل (سنن دارقطنی: 3068) اور
·
مسلم
بن ابراہیم الفراہیدی (الاوسط لابن المنذر: 6601)
نے مرفوعا بیان کیا ہے۔ جبکہ:
·
عبید
اللہ بن موسی (سنن دارقطنی: 3067) اور
·
عبد
الاعلی بن حماد (ابن ابی عاصم بحوالہ تنقیح التحقیق لابن عبد الہادی: 2422)
نے نبی ﷺ کے ذکر میں شک کے ساتھ بیان
کیا ہے، یعنی راوی نے اس نہی کو نبی ﷺ کی طرف سے تصور کرتے ہوئے کہا ہے: "
نهى- أراه النبيُّ-صلى الله عليه وسلم عن ثمن الكلب،
إلا كلب صيدٍ "
اور اسی طرح:
·
امام ابو نعیم (شرح معانی الآثار: 5728، والاوسط لابن
المنذر: 6598)
·
عبد
الواحد بن غیاث (سنن الکبری للبیہقی: 11012)
·
امام
وکیع بن جراح (مصنف ابن ابی شیبہ: 20910) اور
·
امام
عبد اللہ بن المبارک (المحلی: 7/498)
·
سوید
بن عمرو (سنن دارقطنی: 3069)
نے اسے حماد بن سلمہ سے موقوفا یعنی
جابر بن عبد اللہ کے قول کے طور پر روایت کیا ہے۔ اور اسی کو ائمہ نے راجح قرار
دیا ہے۔
چنانچہ امام دارقطنی فرماتے ہیں:
" ولم يذكر حماد عن النبي صلى الله عليه وسلم. هذا
أصح من الذي قبله "
(حماد نے اس میں نبی ﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے اور یہی اصح ہے
پچھلی روایت کی نسبت)
(سنن دارقطنی: 3069)
حافظ ابن الرفعہ (م
710 ھ) فرماتے ہیں:
" الحديث موقوف على جابر على الصحيح –
كما قاله الدارقطني "
(یہ حدیث صحیح رائے کے مطابق جابر پر
موقوف ہے، جیسا کہ دارقطنی نے فرمایا ہے)
(کفایۃ
النبیہ فی شرح التنبیہ: 5/9)
حافظ ابن عبد الہادی
(م 744 ھ) فرماتے ہیں:
" أنَّه ليس في هذه الأحاديث ما
يصحُّ:»............ وأمَّا حديث جابرٍ: فقال الدَّارَقُطْنِيُّ في الطريق
الأوَّل: رواه سُويد بن عمرو عن حمَّاد بن سلمة موقوفًا على جابرٍ، ولم يذكر
النبيَّ صلى الله عليه وسلم وهو أصحُّ "
((بلی کی قیمت کی ممانعت پر) ان میں سے
کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے۔۔۔ جہاں تک بات ہے جابر کی حدیث کی تو دارقطنی نے
فرمایا ہے کہ اسے سوید بن عمرو نے حماد بن سلمہ سے جابر کی موقوف کے طور پر بیان
کیا ہے، اور نبی ﷺ کا ذکر نہیں کیا ہے، اور یہی اصح ہے)
(تنقیح
التحقیق لابن عبد الہادی: 4/93)
اور امام ذہبیؒ (م
748 ھ) فرماتے ہیں:
" رَوَاهُ سُوَيْد بن عَمْرو، عَن حَمَّاد،
فَوَقفهُ، وَهُوَ أصح "
(اسے سوید بن عمرو نے حماد سے موقوفا
بیان کیا ہے اور وہی اصح ہے)
(تنقیح
التحقیق للذہبی: 2/98)
جبکہ اس کے برعکس امام نسائی نے اس
روایت کو ہی "منکر" اور "غیر صحیح" کہا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ وہ
الحجاج بن محمد کی روایت کے تحت فرماتے ہیں:
" هذا الحديث منكر "
(سنن النسائی: 6219)
اور دوسری جگہ پر فرماتے ہیں:
" وحديث حجاج عن حماد بن سلمة ليس هو بصحيح "
(حجاج کی حماد بن سلمہ سے یہ حدیث صحیح نہیں ہے)
(سنن نسائی: 4295)
پس معلوم ہوا کہ ابو الزبیر عن جابر
کی سند سے اس روایت کا کوئی بھی طریق علت سے پاک نہیں ہے۔
ابو الزبیر کی اس
روایت میں دو متابعات پیش کی جاتی ہیں:
1- شرحبیل بن سعد
2- ابو سفیان
شرحبیل کی روایت صرف مسند
احمد میں مروی ہے لیکن اس میں بلی کا ذکر ہی نہیں۔ امام احمد فرماتے ہیں:
" حدثنا
حسين بن محمد، حدثنا أبو أويس، حدثنا شرحبيل، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه
وسلم: أنه نهى عن ثمن الكلب، وقال: «طعمة جاهلية»"
(مسند
احمد: 14802)
نیز اس کی سند میں
ابو اویس ضعیف ہیں۔
جبکہ ابو سفیان کی روایت کو ان سے
اعمش نے روایت کیا ہے، لیکن ان کی روایت میں بھی اختلاف اور اضطراب پایا جاتا ہے۔
اسے اعمش سے درج ذیل لوگوں نے روایت کیا ہے:
· عیسی بن یونس (سنن ابو داود: 3479، وسنن ترمذی: 1279) – انہوں نے اسے
اعمش عن ابی سفیان عن جابر کے طریق سے اسے روایت کیا ہے۔
· حفص بن غیاث (شرح مشکل الآثار: 4651) – انہوں نے ابو سفیان کے ذکر میں
شک کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: "
أَثْبَتَهُ مَرَّةً، وَمَرَّةً شَكَّ فِي
أَبِي سُفْيَانَ " (اعمش کبھی
ابو سفیان کا اثبات کرتے اور کبھی ان کے ذکر میں شک کرتے)۔
· وکیع بن جراح (مسند
ابو یعلی: 2275، ومصنف ابن ابی شیبہ: 36232) – انہوں نے بھی اعمش کی روایت میں
تردد کو ذکر کیا ہے، پس ایک دفعہ بیان کیا "
عن الأعمش قال: قال جابر " یعنی ابو سفیان کے ذکر کے بغیر، اور دوسری دفعہ
فرمایا: " عن الأعمش، قال: أرى أبا سفيان، ذكره عن جابر "
· امام ترمذی اس روایت
کا ایک طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "
وقد روي هذا الحديث، عن الأعمش، عن بعض
أصحابه، عن جابر " (یعنی بعض
اصحاب کے لفظ کے ساتھ بیان کیا) (سنن ترمذی: 1279)۔
· جبکہ ابن فضیل نے اسے
اعمش سے عن ابی حازم عن ابی ہریرۃ کے طریق سے اسے ابو ہریرۃ کی مسند کے طور پر نقل
کیا ہے۔ (سنن نسائی: 4675)۔
الغرض اعمش کو اپنی
اس روایت میں شدید تردد اور اضطراب تھا۔ اسی وجہ سے امام ترمذی اس روایت کے بارے
میں فرماتے ہیں:
"هذا حديث في إسناده اضطراب ولا يصح في ثمن السنور
وقد روي هذا الحديث، عن الأعمش، عن بعض أصحابه، عن جابر، واضطربوا على الأعمش في
رواية هذا الحديث وقد كره قوم من أهل العلم ثمن الهر، ورخص فيه بعضهم، وهو قول
أحمد، وإسحاق وروى ابن فضيل، عن الأعمش، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، عن النبي صلى
الله عليه وسلم من غير هذا الوجه"
(اس حدیث کی اسناد میں اضطراب ہے، اور
یہ بلی کی خرید وفروخت میں صحیح نہیں ہے۔۔۔۔)
(سنن
ترمذی: 1279)
اسی طرح امام یحیی بن
معین نے بھی اس تردد کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
" قال وكيع أحسب فيه أبا سفيان "
(وکیع نے کہا میرا گمان ہے کہ اس میں
ابو سفیان ہے)
(تاریخ
ابن معین روایۃ الدوری: 2646)
امام بغویؒ نے اس
روایت کے بارے میں فرمایا:
" وَهَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ
"
(اس حدیث کی اسناد میں اضطراب ہے)
(شرح
السنہ: 8/24)
اور اسی طرح حافظ ابن
حجر العسقلانی، امام ابن وضاح سے اس روایت کے بارے میں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
" وقال ابن وضاح في طريق الأعمش عن أبي سفيان عن
جابر: الأعمش يغلط فيه، والصواب موقوف."
(ابن وضاح نے اعمش عن ابی سفیان عن جابر
کے طریق کے بارے میں فرمایا کہ اس میں اعمش نے غلطی کی ہے، اصل میں یہ موقوف ہے)
(تلخیص
الحبیر: 4/1771)
الغرض اس روایت کا کوئی طریق صحیح
نہیں ہے۔
اس حدیث کو ضعیف ومعلول کہنے یا اس کے وقف کو ترجیح دینے والوں میں درج ذیل ائمہ شامل ہیں:
1- امام احمد بن حنبل
(ان کے اقوال اوپر گزر چکے)
2- امام ابن المنذر
نے اس کی صحت پر شک کرتے ہوئے فرمایا: "
فإن
يثبت عن النبي- صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن بيعه، فبيعه لا يجوز، وإن لم يثبت
ذلك، فبيعه كبيع الخمر، والبغال، وسائر ما ينتفع به، ولا يجوز أكله " (الاشراف لابن المنذر)۔
3- امام ترمذی
(ان کا قول اوپر گزر چکا)۔
4- امام ابن عبد
البرؒ نے فرمایا: " ورواية
الأعمش في ذلك عندهم ضعيفة كلما أبيح اتخاذه والانتفاع به وفيه منفعة فثمنه جائز
في النظر إلا أن يمنع من ذلك ما يجب التسليم له مما لا معارض (له) فيه وليس في
السنور شيء صحيح وهو على أصل الإباحة وبالله التوفيق
" (التمہید: 8/403)
5- ابن وضاح (ان کا قول گزر چکا)
6- امام دارقطنی
(انہوں نے اس کے طرق پر جرح کی اور اس کے وقف کو ترجیح دی)۔
7- امام بغوی
(گزر چکا)
8- علامہ ابن الرفعۃ
(اوپر گزر چکا)
9- حافظ ابن عبد
الہادی (اوپر گزر چکا)
10- حافظ ذہبی
(انہوں نے اس کے وقف کو ترجیح دی)
11- حافظ ابن رجب
الحنبلی (ان کا قول گزر چکا)
نیز اس روایت کی نکارت پر درج ذیل
قرائن بھی دلالت کرتے ہیں:
1- بلی کی خرید و فروخت کا مسئلہ ایسا ہے جس
کے بارے میں شریعت میں کہیں بھی حرمت کی واضح دلیل نہیں ملتی، سوائے اس مشتبہ اور
مشکوک روایت کے۔ اگر واقعی اس معاملے میں کوئی شرعی حکم ہوتا تو اس کی کوئی اصل
سنت نبویہ میں ضرور ہوتی۔ اصولی مسائل کو ایسی کمزور اور مشکوک روایات پر مبنی
نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر جب حکم "حرام" جیسا سخت ہو، جس کے لیے
واضح اور معتبر نص کی ضرورت ہوتی ہے۔
2- صحیح اور معروف سنت میں "کتے کی خرید
و فروخت کی حرمت" پر بہت سی روایات موجود ہیں، مگر ان میں کہیں بھی بلی کی
حرمت کا ذکر نہیں ہے۔ حالانکہ ان روایات میں بلی کی صراحت کا موقع موجود تھا۔
3- سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کثیر
التلامذہ اور کثیر الروایت راوی ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے اہم اور
بنیادی مسئلے کو صرف ان کے ایک مختلف
فیہ شاگرد نے ہی کیوں بیان کیا، جب کہ ان کے دیگر ثقہ
شاگرد اس روایت سے ناواقف رہے؟
4- اس مسئلے پر تقریبا تمام کبار فقہاء امت کا
اتفاق ہے کہ بلی کی خرید وفروخت جائز ہے، تو کیا وہ سب بھی اس روایت سے اوجھل رہے؟
حالانکہ ان میں سے ایک سے زائد جابر بن عبد اللہ کے براہ
راست شاگرد تھے مثلا: امام عطاء بن ابی رباح، اور امام الحسن البصری۔
بہرحال، اگر اس روایت کو صحیح تسلیم
بھی کر لیا جائے تو اس کے فقہاء نے کئی جواب دیے ہیں جن کو کتبِ فقہ میں دیکھا جا
سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔
Post a Comment