ثقہ راوی کا تفرد قبولیت اور رد کے درمیان

 

🌟 ثقہ راوی کا تفرد قبولیت اور رد کے درمیان 🌟

شیخ متعب بن خلف السلمی نامی محقق نے تقریباً 1000 صفحات پر مشتمل دکتوراہ کا ایک تحقیقی مقالہ لکھا ہے جس کا عنوان ہے:

" أفراد الثقات بين القبول والرد "

یہ مقالہ تفردِ ثقہ کے موضوع پر ایک شاندار علمی کاوش ہے۔

اس تحقیق میں محقق نے ثقہ کے تفرد پر ائمہ محدثین کے اقوال اور تعاملات کی روشنی میں تفصیل سے بحث کی ہے۔

کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

·      پہلا حصہ نظری مباحث پر مبنی ہے،

·       دوسرا حصہ تطبیقی بحث پر، جس میں 100 ایسی احادیث کا مطالعہ کیا گیا جن میں ثقہ راوی کا تفرد پایا جاتا ہے۔

اس تحقیق کا مقصد یہ ہے کہ محدثین کا (ثقہ افراد کی منفرد احادیث) کے حوالے سے قبول یا رد کا مؤقف بیان کیا جائے۔

اس تحقیق کا خلاصہ اور اہم نتائج کو درج ذیل نکات میں پیش کیا جاتا ہے:

 

🔶 تحقیق کے نتائج 

1-   ثقہ راویوں کے تفرد پر مشتمل احادیث کا غالب حصہ معلول پایا جاتا ہے۔

2-    ثقہ کے تفرد میں دو بنیادی باتوں کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے:

▪️ پہلی: راوی کی ثقاہت ، یا اس کا عمومی طور پر قابلِ قبول ہونا، کیونکہ یہ اس کے بارے میں حسنِ ظن پیدا کرنے کا سبب ہے اور یہ اصل اس کی حدیث کو قبولیت کی طرف مائل کرتی ہے۔

▪️دوسری: تفرد ، کیونکہ یہ وہم اور غلطی کا امکان رکھتا ہے، جو متفرد کی حدیث کو رد کی طرف مائل کرتا ہے۔

 

🔷 قبول ورد کے قرائن:

3-   ثقہ راوی کی منفرد احادیث کا حکم صرف انہی دو بنیادوں پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ دیگر قرائن بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

🔺 تفرد کی قبولیت کےقرائن:

راوی کی ثقاہت کے ساتھ ساتھ دیگر قرائن جو اس کی منفرد حدیث کے قبول ہونے میں مددگار ہوتے ہیں، وہ یہ ہیں:

▪️متفرد راوی کا متقن ہونا اور اس کا حافظہ مضبوط ہونا۔

▪️یا اپنے شیخ کے ساتھ اس متفرد راوی کا قریبی تعلق ہونا، جیسے قرابت یا طویل ملازمت۔

▪️یا یہ کہ اس طریق کے علاوہ منسوب الیہ صحابی یا نبی ﷺ سے کوئی اور طریق ایسا ملے جو اس کی صحت کی گواہی دے۔

▪️یا اس منفرد حدیث پر اہل علم کا عمل ہو۔

▪️یا اس حدیث کا فضائل اعمال وغیرہ سے تعلق ہو۔ اور اسی طرح دیگر قرائن۔

 

🔺 اور تفرد کے رد کے قرائن میں شامل ہیں:

▪️متفرد راوی کا اس باب کی دیگر صحیح اور ثابت شدہ احادیث سے مخالفت کرنا۔

▪️یا یہ کہ وہ متفرد حدیث اس چیز کے خلاف ہو جو اس منسوب الیہ صحابی سے معروف ہے، جیسے کہ وہ صحابی اس کے خلاف فتویٰ دیتے ہوں یا اس حدیث کا انکار کرتے ہوں۔

▪️یا متفرد راوی کا اپنے شیخ کی محفوظ شدہ روایت سے مخالفت کرنا۔

▪️یا راوی کی مخالفت ایسے افراد کریں جو اس سے زیادہ ثقہ ہوں یا تعداد میں زیادہ ہوں، پس وہ اس حدیث کو (متفرد راوی کی مخالفت میں) موقوفا یا مرسلا بیان کرتے ہوں۔

▪️یا یہ کہ وہ حدیث اس جاری عمل کے خلاف ہو جس پر مسلسل عمل ہوتا آ رہا ہو۔

▪️یا یہ کہ اس حدیث کا تعلق ان معاملات میں سے ہو جس کی ضرورت بہت زیادہ پڑتی ہو۔

▪️یا یہ کہ متفرد راوی کا شیخ ایسا ہو جس کی احادیث کو جمع کیا جاتا ہو اور اس کی روایات کا خاص خیال رکھا جاتا ہو، جبکہ وہ راوی جس سے اس نے تفرد کیا ہو، زیادہ قوی نہ ہو۔

▪️یا یہ کہ تفرد نچلے طبقات تک بھی جاری رہے۔

▪️یا یہ کہ جس طریق سے روایت کی گئی ہے، وہ ایسا ہو جسے زبانیں جلدی بیان کرتی ہوں (یعنی ان میں سبقت لسانی کی وجہ سے غلطی کا امکان ہو) ۔

▪️یا یہ کہ بڑے ائمہ مسلسل اس کا رد اور اس میں علت بیان کرتے ہوں۔

 

🔷 ناقد کی نظر اور مزاج کا اثر قبول وردِ حدیث پر ہونا:

4-    ثقہ متفرد کی حدیث کو جب ان سب عوامل کے تحت نقد کے ترازو میں رکھا جاتا ہے، تو اس ترازو پر (ناقد کی نظر) بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔ پس ناقدین کے علم کی وسعت اور احادیث کے مختلف طرق پر ان کے علم کی گہرائی، نیز شدت، اعتدال، اور تساہل کے اعتبار سے ان کے تنقیدی مزاج کا فرق بھی حدیث کے قبول یا رد پر اثر انداز ہوتا ہے۔

 

5-   قبول اور رد کے ان عوامل کے درمیان تقابل سے، اور اس کے ساتھ (ناقد کی نظر) کے اثر کو شامل کرتے ہوئے، حدیثِ فرد کے قبول یا رد کا حکم اخذ کیا جاتا ہے۔ اور یہ (حکم) مختلف عوامل کی کثرت کی وجہ سے ناقدین کے اختلاف اور فرق کا سبب بنتا ہے، جو کہ اس فیصلے کو ان لوگوں کے لیے مشکل بنا دیتا ہے جو اس فن کے امام نہیں ہیں۔

 

🔷 متقدمین کا منہج:

6-   اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ متقدمین ائمہ، جنہوں نے تدوین کا زمانہ پایا، وہ (ثقہ راوی کے تفرد) کی تحقیق میں قرائن پر قبول یا رد کے اعتبار سے فیصلہ کرتے تھے۔ ان کا اس بارے میں کوئی مستقل اور یکساں منہج نہیں تھا، نیز قبول و رد کے قرائن بھی محدود نہیں تھے۔

 

7-   اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ متقدمین ائمہ کے ہاں تفرد کو محض وصف کے طور پر نہیں بلکہ علت کی نشاندہی کے لیے ذکر کیا جاتا ہے، اور اکثر اس کے ساتھ دیگر قرائن بھی ہوتے ہیں جو اس متفرد حدیث میں علت کی موجودگی کو واضح کرتے ہیں، جیسے مخالفت ، متفرد راوی کی حالت ، اور حدیث کا متن وغیرہ۔ محقق کہتے ہیں کہ میں نے کوئی ایسی حدیث نہیں پائی جو محض تفرد کی وجہ سے رد کی گئی ہو۔

 

🔷 متاخرین کے منہج میں تغیر:

8-   اس تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ متاخرین میں سے بعض محدثین کے ہاں یہ دقیق نقدی منہج اتنا مضبوط نہیں رہا جتنا متقدمین کے ہاں تھا۔ بعد کے محدثین میں تفرد کو زیادہ تر ایک وصف کے طور پر لیا جانے لگا جو علت پر دلالت نہیں کرتا، جبکہ مخالفت کی دلالت کو بھی اکثر حدیثوں میں تطبیق کی کوشش کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔

حالانکہ متقدمین ائمہ کے نزدیک تفرد اور مخالفت علت کی واضح نشانیوں میں شامل تھے۔ بعد کے دور میں زیادہ زور راوی کی حالت اور اس کی ثقاہت پر دیا جانے لگا، اور ایسے اقوال سامنے آئے جیسے: " ثقہ کا تفرد مقبول ہے " اور " تفرد کوئی ایسی علت نہیں ہے جس کی وجہ سے حدیث رد کی جائے "۔ نتیجتاً علت پر توجہ کم ہو گئی، اور متقدمین ائمہ کے اقوال کو کم اہمیت دی گئی یا بعض اوقات ان کی مخالفت بھی کی گئی۔ اور تصحیح میں سند کے ظاہر پر زیادہ زور دیا گیا، جو کہ اوائل متقدمین ائمہ کا منہج نہیں ہے، جیسا کہ ابن دقيق العيد نے کہا ہے:

(إن لكل من أئمة الفقه والحديث طريقًا غير طريق الآخر . فإن الَّذي تقتضيه قواعد الأصول والفقه أن العمدة في تصحيح الحديث عدالة الراوي وجزمه بالرواية ، ونظرهم يميل إلى اعتبار التجويز الَّذي يمكن معه صدق الراوي ، وعدم غلطه ، فمتى حصل ذلك ، وجاز أن لا يكون غلطًا ، وأمكن الجمع بين روايته ورواية من خالفه بوجه من الوجوه الجائزة لم يترك حديثه ... أما أهل الحديث فإنهم قد يروون الحديث من رواية الثِّقات العدول ، ّ ثم تقوم لهم علل تمنعهم من الحكم بصحته)

(ائمہ فقہ اور حدیث میں سے ہر ایک کا اپنا الگ الگ طریقہ ہے۔ فقہ اور اصول کے قواعد کے مطابق، حدیث کی تصحیح میں اصل بنیاد راوی کی عدالت اور اس کا روایت میں جزم کرنا ہوتا ہے۔ فقہاء کا رجحان اس بات کی طرف ہوتا ہے کہ اگر یہ امکان موجود ہو کہ راوی سچ بول رہا ہے اور اس سے غلطی نہیں ہوئی تو وہ روایت کو قبول کرتے ہیں۔ جب ایسا ممکن ہو اور یہ بھی ممکن ہو کہ اس کی روایت اور مخالفت کرنے والے کی روایت کے درمیان کسی جائز طریقے سے تطبیق دی جا سکے، تو وہ حدیث کو ترک نہیں کرتے۔۔۔ جبکہ اہل حدیث، بھلے ہی ثقہ اور عادل راویوں سے روایت کرتے ہوں، لیکن پھر ان کے سامنے بعض علل (کمزوریاں) آ جائیں تو وہ انہیں حدیث کی تصحیح سے روک دیتی ہیں)۔

(توضیح الافکار: 1/17)

نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سی ایسی احادیث جو متقدمین ائمہ کے نزدیک معلول تھیں، بعد کے ان لوگوں کے نزدیک صحیح اور مقبول ہو گئیں جو اس منہج پر چلے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نقد کے اس پیمانے میں تبدیلی واقع ہو گئی جو قرائن کی تحکیم پر قائم تھا، اور سند کے ظاہر پر تصحیح کے منہج کو زیادہ اہمیت دی گئی۔

 

9-   اگرچہ متقدمین ائمہ کا رجحان زیادہ تر ثقہ افراد کی منفرد احادیث کو رد کرنے کا تھا، لیکن امام ابن خزیمہ کے دور میں یہ معاملہ تبدیل ہو گیا۔ انہوں نے (اس دراسہ میں شامل) ۹۴ فیصد ایسی احادیث کو قبول کیا، اور ان کے شاگرد ابن حبان نے ۹۷ فیصد، جبکہ حاکم نے ۹۳ فیصد کو قبول کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ائمہ کا رجحان ان احادیث کو قبول کرنے کی طرف زیادہ تھا۔ یہ رجحان اس وجہ سے تھا کہ تصحیح کا معیار سند کے ظاہر پر زیادہ زور دینے لگا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نقدی منہج میں تبدیلی کا آغاز ان ائمہ سے ہوا، اور غالباً ان کا اثر ان کے بعد آنے والوں پر بھی پڑا۔

 

10-             ابن خزیمہ اور ان کے بعد آنے والے ائمہ کا (ثقہ افراد کی منفرد احادیث) کے حوالے سے موقف میں اختلاف تھا۔

ان میں سے بعض کا رجحان ان احادیث کو رد کرنے کا تھا، جیسا کہ متقدمین ائمہ نے کیا تھا۔ مثلاً دارقطنی نے صرف ۱۰ فیصد قبول کیں، بیہقی نے ۱۲ فیصد، ابن عبد البر نے ۲۹ فیصد، ذہبی نے ۱۸ فیصد، اور ابن قیم نے ۳۷ فیصد قبول کیں۔

جبکہ دوسری طرف، کچھ ائمہ کا رجحان ان احادیث کو زیادہ قبول کرنے کا تھا۔ مثلاً ابن حزم نے ۶۰ فیصد قبول کیں، ابن القطان الفاسی نے ۸۳ فیصد، نووی نے ۶۷ فیصد، ابن تیمیہ نے ۶۰ فیصد، ابن حجر نے ۷۸ فیصد، احمد شاكر نے ۱۰۰ فیصد، اور البانی نے ۹۴ فیصد قبول کیں۔

 

🔷 خاتمہ:

آخر میں محقق نے یہ نصیحت کی ہے کہ اصحابِ فضیلت اساتذہ اور مشائخ کو چاہیے کہ وہ متقدمین ائمہ کے منہج کو نمایاں کریں، اس منہج کو تحقیقات سے مربوط کریں، اور اسے وہ بنیاد بنائیں جس پر حدیثی علوم کی تحقیقات قائم ہوں۔ کیونکہ یہ ایک اصل اور دقیق منہج ہے، اور اس سے امت کے سلف اور خلف کے درمیان ربط پیدا ہوتا ہے، اور اس کے ذریعے متقدمین ائمہ کی قدر و منزلت کا علم ہوتا ہے، اور ان کے احکام لوگوں کے دلوں میں عظمت پیدا کرتے ہیں، کیونکہ وہ اس فن کے امام ہیں اور اس کے اہل ہیں۔

0/کمنٹس: