اس بات مین کوئی شک
نہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض لوگوں پر فوقیت دیتا ہے اور انہیں وہ مقام
عطاء کرتا ہے جو دوسروں کو حاصل نہیں ہوتا۔ شیخ ناصر الدین البانی (1914 – 1999 ٫)
اس صدی کی ان نامور شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اپنی دینی اور خاص طور پر حدیثی
خدمات سے پوری دنیا میں ایک مقام قائم کیا یہاں تک کہ انہیں بالاتفاق "محدث
العصر" کا لقب دیا جاتا ہے، وہ الگ بات ہے کہ ان کے بعد اس لقب کو بہت روندا
گیا ہے لیکن اس کے اولین حقیقی حقدار شیخ البانیؒ تھے۔ شیخ البانی نے نہ صرف حدیث
کی خدمت کی بلکہ اسے اور اس کے علوم کو لوگوں میں بھی عام کیا۔ انہی کی بدولت حدیث
کی تحقیق کی معرفت عام عوام میں پیدا ہوئی، نیز شیخ البانی نے اس معاملے میں جو
تجدیدی کام کیا اور اس کی بدولت جو مقام انہیں حاصل ہوا وہ واقعی نبی اکرم ﷺ کی اس
حدیث کا مصداق ہے:
" إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ
كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا "
(بیشک اللہ ذوالجلال ہر
سو سال کے شروع میں یا آخر میں اس امت کے اندر ایک آدمی پیدا کرتا رہے گا جو اس کے
دین کو ازسر نو قائم اور مضبوط کرتا رہے گا)
(سنن
ابی داود: 4291، وصححہ الالبانی)
شیخ البانی کا یہ
مقام ہے کہ پوری دنیا میں ان کی تحقیقاتِ حدیث پر عوام وخواص میں اعتماد کیا جاتا
ہے، بلکہ بعض دیوبندی اور حنفی تحقیقات بھی شیخ البانی کے ذکر سے خالی نہیں ہوتیں،
یہاں تک کہ مسجدِ حرام میں بھی "قال رسول اللہ وصححہ الالبانی" کی
آوازیں گونج رہی ہوتی ہیں۔ یہ اعزاز دنیا میں اور کسی محدث ومحقق کو حاصل نہیں ہوا
ہے۔ الغرض وہ اس معاملے میں حقیقی معنوں میں امامت کے درجے پر فائز ہیں۔ اور جس
شخص کا اتنا عظیم مقام ہو، اس کی عدالت اور شخصیت پر کم از کم کوئی اعتراض نہیں
کیا جا سکتا۔ اور اس اصول کو تو حنفی حضرات بھی مانتے ہیں جب امام ابو حنیفہ پر
جرح کی بات آتی ہے۔
جہاں تک علمی اختلاف
کی بات ہے تو اس پر کسی کا کوئی اعتراض نہیں ہے کہ شیخ البانی کی بعض علمی غلطیوں
کا رد کیا جا سکتا ہے اور کسی انسان پر یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ کسی کی تحقیق کو
حرفِ آخر سمجھے، لیکن جس سے اختلاف ہوا ہے اس کی اصلاح کی بجائے اس کی شخصیت اور
علمی مقام کا ہی انکار کر دینا اور اس پر سب وشتم شروع کر دینا اور معاشرے میں اس
کی بدنامی کی کوشش کرنا یہ اسلامی اخلاقیات کے یکسر منافی ہے، خاص طور سے جب سامنے
ایک ایسا شخص ہو جس کی امامت اس معاملے میں مسلّم ہے۔ اس صورت میں یہ تنقید اس شخص
پر ہی لوٹ آئے گی اور گویا یہ سورج پر تھوکنے کے مترادف ہے۔ نیز ایسی تنقید عموما
تعصب اور مذہبی منافرت کی بنا پر ہی کی جاتی ہے جس کے پیچھے کوئی علمی دلیل نہیں
ہوتی۔
چنانچہ شیخ البانی پر
بعض لوگوں نے جو اعتراض کیے ہیں ان میں ایک خاص پیٹرن نظر آتا ہے:
1- ان پر اعتراض کرنے
والے ایک مخصوص فکر اور مذہب کے حامل ہیں، جس کی وہ تقلید کے قائل ہیں، گویا وہ
خود اپنے متعصب اور جانبدار ہونے کے دعویدار ہیں۔
2- ان پر اعتراض کرنے
والے خود حدیث اور علوم الحدیث کے معاملے میں بالکل یتیم ہیں۔ ظاہرہے جس کی ساری
توانائی یہ ثابت کرنے میں لگے گی کہ کیسے اور کیوں اس کا امام درست ہے اور باقی
ساری دنیا غلط ہے، وہ غیر جانبداری کے ساتھ کسی بھی علم میں کیوں کر ماہر ہو سکتا
ہے!
چنانچہ ان لوگوں کی
طرف سے شیخ البانی کی شخصیت پر جو بھی اعتراضات کیے گئے ہیں وہ تعصب اور مذہبی
منافرت پر مبنی ہیں اور ان میں علمی اعتراض بہت کم ہی پائے جاتے ہیں۔ نیز چونکہ
انہیں خود حدیث اور اس کے علوم میں مہارت نہیں ہوتی اس لیے شیخ البانی جیسے ماہر
محقق پر بھی ان کے اعتراضات نہایت سطحی اور غلط ہوتے ہیں، بلکہ بعض اعتراضات تو
ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں مذہبی تعصب صاف نظر آتا ہے کیونکہ جس چیز پر یہ شیخ
البانی پر اعتراض کرتے ہیں وہی چیز انہی کے علماء میں زور وشور سے پائی جاتی ہے!
چنانچہ اس مضمون میں
ہم شیخ البانی پر کیے گئے پانچ مشہور اعتراضات اور ان کے مختصر جوابات کو ذکر کریں
گے۔
اعتراض نمبر 1:
شیخ البانی کا کوئی شیخ نہیں تھا؟
شیخ البانی سے بغض
رکھنے والوں میں سے بعض نے یہ دعوی کیا ہے کہ ان کا کوئی استاد نہیں تھا، اور کہتے
ہیں کہ جس کا کوئی استاد نہیں ہوتا اس کا شیطان استاد ہوتا ہے!
اور وہ یہ بھی دعوی
کرتے ہیں کہ شیخ البانی صحفی (کتابی) تھے، انہوں نے کتب وصحائف سے علم حاصل کیا
ہے، اور وہ کہتے ہیں: جس شخص کا شیخ کتاب ہو، تو اس کی غلطیاں اس کے صواب سے زیادہ
ہوتی ہیں۔
جواب:
اولا:
یہ ایک بے بنیاد
بات ہے، کیونکہ شیخ البانی - رحمہ اللہ – نے ایک جماعت سے فقہ، حدیث اور لغت کو
اخذ کیا ہے، جن کا ذکر درج ذیل ہے:
1- اپنے والد سے انہوں نے بعض علوم مثلاً علم الصرف
کی تعلیم حاصل کی، اور ان سے فقہ حنفی کی کتاب "مختصر القدوری" پڑھی۔ انہوں
نے اپنے والد سے قرآن مجید کی تعلیم بھی حاصل کی اور حفص کی روایت میں تجوید کے ساتھ
اس کو مکمل کیا۔
2- انہوں نے شیخ سعید البرہانی
سے فقہ حنفی کی کتاب "مراقي الفلاح"، نحو کی کتاب "شذور الذهب"،
اور کچھ بلاغت کی کتابیں بھی پڑھی تھیں۔
3- شیخ البانی، محمد بہجت
العطار - رحمہ اللہ - کے ساتھ کچھ علمی نشستوں میں شرکت کرتے تھے، جن میں دمشق کے علمی
مجمع کے بعض اساتذہ بھی شامل ہوتے تھے، جیسے کہ عز الدین التنوخی - رحمہ اللہ ، اور
یہ حضرات ابو تمام کی "الحماسة" کا مطالعہ کرتے تھے۔
4- شیخ البانی - رحمہ اللہ
- کی ملاقات ابتدائی عمر میں شیخ محمد راغب الطباخ - رحمہ اللہ - سے ہوئی، اور شیخ
الطباخ نے شیخ البانی کی تعریف کی اور اپنی کتاب "الأنوار الجلية في مختصر الأثبات
الحنبلية" انہیں پیش کی۔
5- انہوں نے شیخ علی
الطنطاویؒ سے اصول الفقہ کا درس لیا۔
یہ جاننے کے بعد یہ بات
واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے "کوئی استاد نہ ہونے" کا قول حقیقت کے خلاف ہے۔
نیز دیکھیں: "حياة الألباني وآثاره
وثناء العلماء عليه "، لمحمد إبراهيم الشيباني، ص45 "
ثانیا:
کوئی عالم کتابوں کا مطالعہ
کرنے اور ان سے استفادہ کرنے سے کبھی مستغنی نہیں ہوتا، البتہ طلبِ علم کی ابتدا میں
اسے علم کے حصول کے لیے درست ضبط اور بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے، پھر اس کے بعد وہ آگے
بڑھتا ہے۔ یہ بات شیخ البانی رحمہ اللہ اور بہت سے اہل علم میں موجود تھی۔
یہ مقولہ: "جس کا
استاد اس کی کتاب ہو، اس کی غلطیاں اس کی صحیح باتوں سے زیادہ ہوتی ہیں" صحیح
ہے اگر اس سے مراد یہ لیا جائے کہ کسی نے علم کے مبادی کو ابتدا میں اہل علم سے نہ
سیکھا ہو، یا غیر معتبر کتابوں پر انحصار کیا ہو، تو اس کی غلطیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
چنانچہ شیخ ابن عثیمین
رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: "کیا صرف کتابوں سے بغیر علماء کے علم حاصل کرنا جائز
ہے، خاص طور پر جب علماء سے علم حاصل کرنا مشکل ہو ان کی کمیابی کی وجہ سے؟ اور اس
قول کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے: 'جس کا استاد اس کی کتاب ہو، اس کی غلطیاں اس کی
صحیح باتوں سے زیادہ ہوں گی'؟
انہوں نے جواب دیا: "اس
میں کوئی شک نہیں کہ علم حاصل کرنا علماء سے طلب کرنے پر بھی ممکن ہے اور کتابوں سے
بھی؛ کیونکہ عالم کی کتاب خود عالم ہی ہوتا ہے، وہ اپنی کتاب کے ذریعے آپ سے بات کرتا
ہے، لہذا جب علماء سے علم حاصل کرنا مشکل ہو، تو کتابوں سے علم طلب کیا جا سکتا ہے۔
لیکن علماء کے ذریعے
علم حاصل کرنا کتابوں کے ذریعے علم حاصل کرنے سے زیادہ قریب ہوتا ہے؛ کیونکہ جو کتابوں
کے ذریعے علم حاصل کرتا ہے وہ زیادہ محنت کرتا ہے اور بہت زیادہ کوشش کی ضرورت ہوتی
ہے، اس کے باوجود کچھ امور اس پر پوشیدہ رہ سکتے ہیں جیسے شرعی قواعد اور ضوابط جو
اہل علم نے مرتب کیے ہیں، لہذا اسے جتنا ممکن ہو اہل علم کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوتا
ہے۔
اور یہ قول: 'جس
کا استاد اس کی کتاب ہو، اس کی غلطیاں اس کی صحیح باتوں سے زیادہ ہوں گی'، یہ نہ بالکل
صحیح ہے نہ بالکل غلط: جو شخص ہر اس کتاب سے علم حاصل کرتا ہے جس پر اس کی نظر
پڑتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت زیادہ غلطیاں کرے گا۔ لیکن جو شخص معروف، معتبر
اور امانت دار علماء کی کتابوں پر انحصار کرتا ہے، اس کی غلطیاں زیادہ نہیں ہوں گی،
بلکہ وہ اکثر اوقات صحیح ہوگا۔"
(کتاب العلم، صفحہ 110)
شیخ البانی رحمہ اللہ
نے اپنے مشایخ سے علم کے مبادی کو سیکھا جیسا کہ پہلے ذکر ہوا، اور ان کی نظر بہت پختہ
اور فہم بہت تیز تھا، ان پر عبارات مشتبہ نہیں ہوتیں، اور ان کا انحصار معتبر اہل علم
کی کتابوں پر ہوتا تھا۔
پھر انہوں نے بہت سے اہل
علم سے ملاقاتیں بھی کیں، ان سے بحث و مباحثہ کیا، جیسے شیخ محمد الأمین الشنقیطی،
شیخ ابن باز رحمہما اللہ، اور دیگر اہل علم، لہذا ان جیسے اہل علم اور فضل والے پر
یہ مقولہ لاگو نہیں ہوتا۔
ثالثا:
کسی شخص کے شیوخ کون ہیں یہ تب پوچھا
جاتا ہے جب اس کے علم کی شہادت دینے والا کوئی معتبر عالم نہ ہو۔ شیخ البانی کے
علم کی شہادت کے لیے کافی ہے کہ ان کے علم کو کبار علماء اہل السنہ والجماعت پر
پیش کیا گیا اور انہوں نے ان کی تصدیق کی، ان کی تعریف کی، ان کے علم وفضل کی
شہادت دی، اور امت کو ان سے علم حاصل کرنے کی نصیحت کی۔ اور شیخ البانی کا معاملہ
تو یہ ہے کہ دنیا کے کبار ترین علماء وفقہاء نے ان کی تعریف کی ہے۔ ان کی تعریف
میں علماء کے کلام کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو جائے۔ فی الحال یہاں
دو حوالے اختصار کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں:
شیخ العلامہ الفقیہ، اور سعودی عرب کے
مفتیِ اعظم، امام ابن بازؒ فرماتے ہیں:
" ما رأيت
تحت أديم السماء عالماً بالحديث في العصر الحديث مثل العلامة محمد ناصر الدين
الألباني، وسئل سماحته عن حديث رسول الله - صلى الله عليه و سلم-: "ان الله
يبعث لهذه الأمه على رأس كل مائة سنة من يجدد لها دينها" فسئل من مجدد هذا
القرن، فقال -رحمه الله-: الشيخ محمد ناصر الدين الألباني هو مجدد هذا العصر في
ظني والله أعلم. "
(میں نے آسمان
کے نیچے عصرِ حاضر میں علامہ محمد ناصر الدین البانی جیسا حدیث کا عالم نہیں دیکھا،
اور ان سے (یعنی شیخ ابن باز سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث: "بے شک
اللہ اس امت کے لیے ہر سو سال کے سرے پر کسی کو بھیجتا ہے جو اس کے دین کی تجدید کرتا
ہے" کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس صدی کے مجدد کون ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا:
"میرے خیال میں اس دور کے مجدد شیخ محمد ناصر الدین البانی ہیں، اور اللہ بہتر
جانتا ہے۔) ([1])۔
اور دورِ حاضر میں
حدیث کے ایک بہت بڑے عالم جن کا حنفیوں کے نزدیک بھی بہت اونچا مقام ہے کیونکہ وہ
خود بھی حنفی تھے، شیخ شعیب الارناؤطؒ، اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں:
"هؤلاء الثلاثة قد أحاطوا بحديث الرسول احاطة تامة ووصلوا
إلي درجة الإجتهاد في هذا العلم، الأول من البانيا: الشيخ ناصر الدين الألباني
رحمه الله...."
(البانیا سے تعلق
رکھنے والے ان تین لوگوں نے حدیثِ رسول کا مکمل احاطہ کیا ہے، اور اس علم میں وہ
اجتہاد کے درجے تک پہنچے ہوئے ہیں، ان میں سے اول البانیا سے: شیخ ناصر الدین
الالبانی رحمہ اللہ ہیں۔۔۔) ([2])۔
اگرچہ شیخ شعیب
الارناؤط نے شیخ البانی پر بعض تنقید بھی کی ہے لیکن انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا
ہے کہ شیخ البانی اس فن کی نہ صرف اہلیت رکھتے تھے بلکہ اس میں مجتہد کے درجے پر
فائز تھے۔
اسی طرح شیخ البانی
کے علم کی شہادت پر یہ بات بھی قبلِ غور ہے کہ حدیث وعلوم حدیث کے بڑے بڑے اساطین
اور ائمہ اپنے آپ کو ان کا تلمیذ اور شاگرد کہلوانے کو شرف سمجھتے ہیں، جن میں
مدینہ کے محدث کبیر شیخ عبد المحسن العباد، مصر کے محدث کبیر شیخ ابو اسحاق
الحوینی، اور اردن کے محدث کبیر شیخ علی حسن الحلبی وغیرہ شامل ہیں۔
نیز شیخ البانی کے
علمی مقام کی اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی کہ جس نے خود کسی یونیورسٹی سے سند
حاصل نہیں کی اسی پر دنیا بھر کی اسلامی یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی اور ایم فل
وغیرہ کے رسالے لکھے جاتے ہیں اور ان کی کتب پر ریسرچ کی جاتی ہے۔ لہٰذا ایسے شخص
کے بارے میں بلا کسی دلیل محض بغض نکالنے کے لیے اس بات سے اعتراض کرنا کہ اس کا
کوئی شیخ نہیں تھا، کتنی سطحی بات لگتی ہے!
اعتراض نمبر 2:
شیخ البانی نے کتبِ حدیث کو صحیح وضعیف میں تقسیم کر کے ان کے اصل ہدف سے ہٹا دیا
ہے:
شیخ البانی پر ایک
اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے کتبِ سنت کو صحیح وضعیف میں تقسیم کر دیا، جس
میں سے صرف صحیح کو انہوں نے اپنے نزدیک معمول بہ جانا، اور ضعیف کو غیر معمول بہ۔
نیز اس عمل سے ان مؤلفین کا ہدف ضائع ہو گیا جنہوں نے یہ کتب جمع کیں۔
جواب:
اولا:
اس بات میں کوئی شک
نہیں کہ علماء حدیث اور ائمہ وجہابذہ فن نے جب حدیث کی دو قسمیں صحیح وضعیف بیان
کیں تو انہوں نے ایسا اس لیے کیا تا کہ صحیح حدیث سے حجت لی جائے اور ضعیف سے
اجتناب کیا جائے۔ اس پر کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ضعیف حدیث مردود حدیث کی
قسم ہے۔ چنانچہ امام مسلم اپنی صحیح کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:
"فلولا الذي راينا من سوء صنيع كثير ممن نصب نفسه محدثا فيما
يلزمهم من طرح الاحاديث الضعيفة والروايات المنكرة وتركهم الاقتصار على الاحاديث
الصحيحة المشهورة مما نقله الثقات المعروفون بالصدق والامانة بعد معرفتهم وإقرارهم
بالسنتهم ان كثيرا مما يقذفون به إلى الاغبياء من الناس هو مستنكر ومنقول عن قوم
غير مرضيين ممن ذم الرواية عنهم ائمة اهل الحديث مثل مالك بن انس وشعبة بن الحجاج
وسفيان بن عيينة ويحيى بن سعيد القطان وعبد الرحمن بن مهدي وغيرهم من الائمة- لما
سهل علينا الانتصاب لما سالت من التمييز والتحصيل. ولكن من اجل ما اعلمناك من نشر
القوم الاخبار المنكرة بالاسانيد الضعاف المجهولة وقذفهم بها إلى العوام الذين لا
يعرفون عيوبها خف على قلوبنا إجابتك إلى ما سالت...
واعلم- وفقك الله تعالى- ان الواجب على كل احد عرف التمييز بين صحيح الروايات وسقيمها
وثقات الناقلين لها من المتهمين ان لا يروي منها إلا ما عرف صحة مخارجه"
(اگر ہم نے اپنے
آپ کو محدث کے منصب پر فائز کرنے والے بہت سے لوگوں کو ضعیف احادیث اور منکر روایات
کے بیان کو ترک کرنے میں، جن کا التزام ان کے لیے لازم تھا، غلط کارروائیاں کرتے نہ
دیکھا ہوتا، اور اگر انہوں نے صحیح روایات کے بیان پر اکتفا کو ترک نہ کیا ہوتا، جنہیں
ان ثقہ راویوں نے بیان کیا جو صدق وامانت میں معروف ہیں، اور وہ بھی ان کے اس اعتراف
کے بعد کہ جو کچھ وہ (سیدھے سادھے) کم عقل لوگوں کے سامنے بے پروائی سے بیان کیے جا
رہے ہیں، اس کا اکثر حصہ غیر مقبول ہے، اور وہ ان لوگوں سے نقل کیا گیا ہے جن سے لینے
پر اہل علم راضی نہیں اور جن سے روایت کرنے کو (بڑے بڑے) ائمہ حدیث، مثلاًً مالک بن
انس، شعبہ بن حجاج، سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید قطان، عبد الرحمن بن مہدی وغیرہ
م قابل مذمت سمجھتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ سب نہ دیکھا ہوتا تو آپ نے (صحیح وضعیف میں)
امتیاز اور (صرف صحیح کے) حصول کے حوالے سے جو مطالبہ کیا ہے اسے قبول کرنا آسان نہ
ہوتا۔
لیکن جس طرح ہم نے
آپ کو قوم کی طرف سے کمزور اور مجہول سندوں سے (بیان کی گئی) منکر حدیثوں کو بیان کرنے
اور انہیں ایسے عوام میں، جو ان (احادیث) کے عیو ب سے ناواقف ہیں، پھیلانے کے بارے
میں بتایا تو (صرف) اسی بنا پر ہمارے دل کے لیے آپ کے مطالبے کو تسلیم کرنا آسان ہوا۔۔۔
جان لو! اللہ تجھ کو توفیق دے جو شخص صحیح
اور ضعیف حدیث میں تمیز کرنے کی قدرت رکھتا ہو اور ثقہ (معتبر) اور متہم (جن
پر تہمت لگی ہو کذب وغیرہ کی) راویوں کو پہچانتا ہو اس پر واجب ہے کہ صرف اسی حدیث
کو روایت کرے جس کی صحت کو وہ جانتا ہو۔)
(مقدمہ
صحیح مسلم: 1/7-8)
امام مسلم کے اس قول
سے ظاہر ہوا کہ:
1- ضعیف اور منکر روایات
کو ترک کیا جاتا ہے اور صرف صحیح روایات پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
2- عوام الناس جو صحیح
وضعیف کے فرق کو سمجھ نہیں سکتے ان کی آسانی کے لیے انہیں اس فرق کے ساتھ بیان
کرنا، ایک مفید کام ہے۔
چنانچہ شیخ البانی نے
بھی بعینہ اسی منہج کے پیشِ نظر احادیث کی کتب کی تحقیق کی ہے، اور اس سے ان کا
مقصد بھی یہی تھا کہ عوام الناس کے لیے سنتِ رسول تک رسائی کو آسان بنایا جائے۔ اور
اسی لیے انہوں نے اپنے اس پراجیکٹ کا نام رکھا: "تقريب
السنة بين يدي الأمة" اس کا مقصد امت کے افراد کے لیے مشہور حدیث کی کتابوں سے فائدہ
اٹھانا آسان بنانا ہے۔
ثانیا:
شیخ البانی سے خود جب اس اعتراض کو
ذکر کیا گیا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
"یہ اعتراض اس صورت میں درست ہوتا
اگر اصولوں کو ختم کر دیا جاتا، لیکن جب اصول محفوظ ہیں والحمد للہ، پھر اختصار عام
لوگوں کے لیے دور کی چیزوں کو قریب کر دیتا ہے، تو یہ حقیقت میں دو فائدے پہنچاتا ہے،
ایک فائدہ عام لوگوں کے لیے ہے جو اختصار ہے، اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کتبِ سنہ اپنی
اصل حالت میں محفوظ رہیں تاکہ علماء اور طلبہ علم ان کا مطالعہ کریں اور اسناد پر تحقیق
کریں۔ لیکن وہ لوگ جو کتبِ ستہ کی اسناد سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان کی مسلمانوں کی مجموعی
تعداد کے مقابلے میں کتنی نسبت ہے؟ بہت کم، یعنی ایک یا دو لاکھ میں۔ تو کیا یہ ہمیں
شرعاً یہ اجازت دیتا ہے کہ ہم عام مسلمانوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
صحیح سنت کو جاننے کا راستہ آسان نہ کریں؟ نہیں۔ لہذا جب میں نے تقریباً چالیس سال
پہلے اس منصوبے کا آغاز کیا جسے میں نے 'تقریب السنہ بین یدی الامہ' کا نام دیا، اور
میں نے 'سنن ابو داود' سے شروع کیا، تو میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ کیا میں سنن کی
تحقیق کروں اور صحیح اور ضعیف کی وضاحت کرتے ہوئے شائع کروں؟ یا صحیح کو ضعیف سے الگ
کروں؟ تو دوسرے خیال کو میں نے ترجیح دی کیونکہ یہ عام مسلمانوں کے لیے زیادہ فائدہ
مند ہے۔ پھر بھی میں نے اس منصوبے میں پہلی صورت کو مدنظر رکھا، میں نے حدیث کا متن
اوپر رکھا، اور نیچے اس کی سند کو بیان کیا، اس کے راویوں پر تبصرہ کیا، اور یہ واضح
کیا کہ کیا صحیح ہے اور کیا ضعیف ہے۔ تو جب میں نے کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا
'صحیح ابو داود' جس میں اسناد اور متون ہیں، اور 'ضعیف ابو داود' جس میں اسناد اور
متون ہیں، تو اس میں کیا نقصان ہے؟ " ([3])۔
ثالثا:
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب کوئی
عالم کسی دوسری کتاب پر اپنی تعلیقات، تشریح، اختصار، زیادات، یا تحقیق وغیرہ کے
ذریعے اپنی خدمات پیش کرتا ہے تو یہ کتاب اس محقق عالم کی کتاب کہلاتی ہے، کوئی یہ
نہیں کہتا کہ اصل کتاب میں تحریف یا تبدیلی ہو گئی۔ چنانچہ ہر محقق اور عالم کو یہ
حق حاصل ہے کہ وہ اپنی کتب وتحقیق کو جیسے مرضی ترتیب دے۔ اس پر یہ اعتراض بنتا ہی
نہیں کہ اس نے اصل کتاب کو بدل دیا! یہ اعتراض تب درست ہوتا اگر شیخ البانی سننِ
اربعہ کو ان کے نام کے ساتھ شائع کرتے اور پھر ان میں سے احادیث کو حذف کر دیتے،
جیسا کہ بعض حنفیوں نے مشہور کتب میں تحریف کر کے کیا ہے، مثلا: بعض احناف نے جب
امام ابن حبان کی کتاب المجروحین کو شائع کیا تو اس میں سے امام ابو حنیفہ پر جرح
والا پورا باب ہی حذف کر دیا۔
چنانچہ ایک محدث ومحقق کا کسی کتاب پر
اپنی خدمات پیش کرنے سے اصل کتاب پر کوئی ہدف نہیں آتا بلکہ اسے ایک مستقل کتاب کا
رتبہ مل جاتا ہے۔ محدثین سے اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں مثلا:
·
امام
منذری نے الترغیب والترہیب کتاب لکھی، اس پر حافظ ابن حجر نے اپنی خدمت پیش کرتے ہوئے اس کا اختصار کیا اور اس میں
سے کئی ضعیف احادیث کو حذف کر دیا۔ تو کیا شیخ البانی پر اعتراض کرنے والے حافظ
ابن حجر پر بھی یہ الزام لگائیں گے کہ انہوں نے امام منذری کی کتاب کو بدل دیا اس
میں تحریف کر دی؟
·
خود
امام منذری کو دیکھیں تو انہوں نے بھی صحیح مسلم کا اختصار لکھا ہے جس میں انہوں نے تمام مکرر احادیث
کو حذف کر دیا ہے، تو کیا امام منذری پر یہ اعتراض کیا جائے گا کہ انہوں نے صحیح
مسلم کی آدھی سے زیادہ احادیث کو حذف کر کے اصل کتاب کو بدل دیا!؟
حقیقت یہ کہ ابن حجر کا اختصار ابن
حجر کی ہی کتاب ہے امام منذری کی نہیں، اور امام منذری کا اختصار بھی انہی کی کتاب
ہے، یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ امام مسلم کی کتاب ہے جس میں تحریف ہوئی۔ ان مؤلفین
نے جس طرح اپنے اختصار کو اصل مؤلف کی طرف منسوب نہیں کیا ہے اسی طرح شیخ البانی
نے بھی سنن اربعہ پر اپنی تحقیق اور احادیث پر اپنی تحکیم کو اصل مؤلفین کی طرف
منسوب نہیں کیا ہے، لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ شیخ البانی نے کتبِ سنت میں
تحریف کی ہے یا ان کے ہدف کو بدل دیا ہے! یہ کتب اپنی اصل حالت میں موجود ہیں جو
چاہے دیکھ سکتا ہے اور ان سے استفادہ حاصل کر سکتا ہے کسی شخص کا ان کی تحقیق کرنے
سے ان میں تحریف نہیں ہونے والی!
اعتراض نمبر 3:شیخ
کے نقدِ حدیث میں تناقضات:
شیخ البانی پر ایک
اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ شیخؒ کی تحقیق میں بہت زیادہ تناقضات ہیں، یعنی ایک
روایت کو ایک جگہ صحیح جبکہ اسی کو دوسری جگہ ضعیف کہہ دیتے ہیں، اسی طرح ایک
روایت کو ایک جگہ ضعیف اور دوسری جگہ اسی کو صحیح کہہ دیتے ہیں۔ اس حوالے سے حسن
بن علی السقاف نے شیخ البانی کے تناقضات پر "تناقضات
الألباني الواضحات فيما وقع له في تصحيح الأحاديث وتضعيفها من أخطاء وغلطات" کے عنوان سے کتاب تحریر کی ہے جس میں اس نے شیخ
البانی پر مختلف پہلوؤں سے نقد کرتے ہوئے شیخ کی مختلف کتب سے ایسی احایث جمع کی
ہیں جن پر شیخ نے مختلف مقامات پر مختلف حکم لگائے ہیں۔
جواب:
ان کا قول کہ شیخ
البانی کے حدیث پر احکام میں تضاد پایا جاتا ہے، تو یہ حقیقت کی عدم واقفیت یا جان
بوجھ کر انجان بننا ہے، جان لیں کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ ایک بنیادی اصول ہے
کہ اس امت میں نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کے لیے عصمت ثابت نہیں ہوتی،
اور ہم – وللہ الحمد - اس اصول پر قائم ہیں، پس ہم شیخ البانی رحمہ اللہ کے لیے عصمت
ثابت نہیں کرتے جیسے کہ ہم کسی اور اہل علم کے لیے بھی نہیں کرتے۔
لیکن کیا محض خطا اور
تضاد کا حصول عالم کے لیے نقصان دہ ہے؟ اور کیا اس سے اس کا وصف علم چھین لیا جاتا
ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی منصف انسان، چاہے عالم ہو یا نہیں، ایسا کہے گا!
ہاں، جس کی غلطیاں زیادہ
ہوں اور اس کی صحیح باتوں پر خطا غالب ہو، اس سے احتجاج کا مقام ساقط جاتا ہے، اور
اس سے ضبط کا وصف چھن جاتا ہے۔
جب یہ واضح ہو گیا تو
جان لیں کہ تمام وہ احادیث جن میں شیخ البانی رحمہ اللہ پر ان کے احکام میں تضاد کا
الزام ہے، بحمد اللہ، وہ ان کی علمی حیثیت اور ان کی ثقاہت پر اثر انداز نہیں ہوتیں،
منصف انسان کے نزدیک، بلکہ عالم کے نزدیک بھی، کیونکہ جن احادیث میں شیخ البانی پر
تضاد کا الزام ہے، ان کی نسبت وہ احادیث جنہیں شیخ نے تخریج کیا اور ان میں تضاد کا
الزام نہیں ہے، بہت کم ہیں، جو کہ ان کے علم کے سمندر کو مکدر نہیں کرتیں۔ اور تضاد
کا الزام حاسد کی کوشش اور اکثر حالات میں خبیث تدلیس ہے، اور تحقیق کے بعد بہت کم
ہی صحیح ثابت ہوتا ہے۔ شیخ پر تناقضات کے جو الزام لگے ہیں وہ مندرجہ ذیل حالات سے
باہر نہیں ہوتے:
1- وہ احادیث جن پر شیخ کا
حکم بعد میں ظاہر ہونے والے نئے حقائق کی وجہ سے تبدیل ہوا۔
2- وہ احادیث جن پر شیخ نے
ایک طریق کو دیکھتے ہوئے حکم لگایا، پھر دوسری طریق پر واقف ہوئے۔
3- وہ احادیث جن پر شیخ نے
راوی کے حال کے اعتبار سے حکم دیا، پھر راوی کے حال میں اجتہاد نیا ہوا، تو حکم بدل
گیا۔
4- وہ احادیث جن میں کوئی
علت واضح نہ ہوئی، پھر بعد میں ظاہر ہوئی۔
5- وہ احادیث جن میں کوئی
متابع یا شاہد موجود نہ تھا، پھر بعد میں علم ہوا۔
جہاں تک بات ہے حسن
بن علی السقاف کی کتاب کی تو وہ تدلیس وتکذیب کا مجموعہ ہے۔ اور یہ حسن السقاف خود
ایک مجروح اور رافضی شخص ہے جس نے ائمہ وصحابہ پر شدید بد زبانی کی ہے۔ اس نے
سیدنا معاویہ کو قاتل اور متہم بالکذب قرار دیا ہے۔ نیز اس نے ایک جگہ شیخ البانی
پر صرف اس لیے تنقید کی کیونکہ انہوں نے سیدنا معاویہ کی فضیلت پر ایک حدیث کی
تصحیح کی اور سیدنا علی کی فضیلت پر مروی ایک روایت کی اصولِ حدیث کی روشنی میں
تضعیف کی! حسن سقاف نے کبار علماء کرام جیسے امام ابن تیمیہ کی تکفیر تک کی ہے۔
بلکہ خود سقاف نے بھی صحیحین کی روایات پر اپنا ہاتھ صاف کیا ہے۔ نیز شیخ البانی
کے تناقضات پر اس کی مذکورہ بالا کتاب کا بھی شیخ علی بن حسن الحلبیؒ نے جواب لکھ
دیا ہے، دیکھیں ان کی کتاب:
" الأنوار الكاشفة لتناقضات الخساف الزائفة، وكشف ما فيها من
الزيغ والتحريف والمجازفة"
نیز ان میں سے اکثر جنہیں سقاف نے شیخ البانی کے
تناقضات کے طور پر پیش کیا ہے وہ دراصل خود سقاف کے ہی تناقضات، کم علمی، اوہام
اور کذبات پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
صفحہ (46-47) پر حسن
سقاف کہتا ہے:
"حديث:
التائب من الذنب كمن لا ذنب له (جس نے گناہ سے توبہ کی وہ ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ
نہیں کیا) اس حدیث کو البانی نے الضعیفہ (615، 616) میں ضعیف قرار دیا ہے لیکن پھر
اسے صحیح ابن ماجہ (3427) میں ذکر کر کے اس کی تصحیح کر دی"
حالانکہ سلسلہ
الضعیفہ میں شیخ البانی نے جس حدیث کی تضعیف کی ہے وہ یہ ہے:
"التائب من الذنب كمن لا ذنب له، وإذا أحب الله
عبدا لم يضره ذنب" (جس نے
گناہ سے توبہ کی وہ ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا، اور جب اللہ کسی بندے
کو پسند کرتا ہے تو اسے گناہ کوئی نقصان نہیں دیتا)
(سلسلہ
الضعیفہ: 615)
اور اسی کے تحت شیخ
البانی نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ اس حدیث کا پہلا حصہ صحیح ہے کیونکہ اس کے شواہد
موجود ہیں! سبحان اللہ۔ یہ ہے کہ ان کے تناقضات کی حقیقت!
اعتراض نمبر
4:شیخ نے صحیحین کی روایات پر تنقید کی ہے؟
شیخ البانی پر ایک
اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ انہوں نے صحیحین کی بعض احادیث کو ضعیف کہہ دیا ہے
جبکہ جمہور محدثین کے نزدیک احادیثِ صحیحین کی صحت پر اتفاق ہے۔ چنانچہ اس حوالے
سے محمود سعید ممدوح کی ایک کتاب مکتبہ علمیہ لاہور نے شائع کی ہے جس کا نام ہے
"تنبيه المسلم تعدي الألباني علي صحيح مسلم" اس میں انہوں نے صحیحین کا دفاع اور شیخ البانی پر
تقد کرتے ہوئے صحیح مسلم کی ان روایات کا ذکر کیا ہے جنہیں شیخ نے ضعیف کہا ہے۔
جواب:
اولا:
صحیحین (صحیح بخاری اور
صحیح مسلم) پر کیے گئے تنقیدات کے بارے میں انصاف پسند محقق کو دو طرح کی تنقیدات کے
درمیان فرق کرنا ضروری ہے:
پہلی قسم:
وہ تنقیدات جو علمی منہج
کی بنیاد پر نہیں ہیں، اور جو محدثین کے یہاں مقبول علمی طریقے کے مطابق نہیں ہیں،
بلکہ بغیر کسی درست طریقے کے کی جاتی ہیں، اور نفس پرستی میں ڈوبی ہوتی ہیں۔ ایسی تنقیدات
جو محض اپنی عقل و رائے کی مخالفت کی بنا پر احادیث کو رد کر دیتی ہیں اور ان اصولوں
کی حرمت کا لحاظ نہیں رکھتی جن پر بخاری اور مسلم نے اپنی کتابیں بنائیں، ایسی تنقیدات
کو رد کیا جاتا ہے اور یہ قابل قبول نہیں ہیں۔ ان کا مقابلہ علمی تحقیق اور مضبوط دلائل
سے کیا جاتا ہے، جو ناقد کو اس کی درستگی کی طرف لے آتی ہیں اور اس کے طریقوں کے بطلان
کو واضح کرتی ہیں۔ یہاں مسئلہ بخاری اور مسلم کے لیے عصمت کا دعویٰ نہیں ہے، کیونکہ
اہل سنت غیر انبیاء کے لیے عصمت کا اعتقاد نہیں رکھتے، بلکہ مسئلہ تحقیقی مناہج کی
خرابی اور تنقید کی عقلیت میں اضطراب کا ہے۔ جیسے کہ وہ لوگ جو ہر اس حدیث کو رد کر
دیتے ہیں جسے عملی تجربہ ثابت نہ کرے، یا ہر اس حدیث کو رد کرتے ہیں جو غیبی امور سے
متعلق ہو، یا اپنے مشاہدات سے مختلف ہو، یا ہر اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں جسے ابو
ہریرہ اور عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں، اور اسی طرح کے
دیگر فاسد طریقے۔
تنقید کی یہ قسم ہمیشہ
صحیحین کی قدر کو کم کرنے، ان پر تشنیع کرنے اور انہیں امت کے مقبول ورثے سے خارج کرنے
کی کوشش کرتی ہے، بلکہ انہیں اسلامی تاریخ پر "جرم" قرار دیتی ہے، اور ان
پر تعدی اور فساد کا الزام لگاتی ہے۔ یہ تمام اوصاف معاصر کتب میں بھری پڑی ہیں جو
کہ بعض رافضی گروہوں اور ان کے پیروکاروں اور بہت سے جدیدیت پسند اور عقلیت پسند متعالمین
کی ہیں۔
اسلام کے اولین اور بعد
کے علماء، محدثین، اصولیین، فقہاء اور مفسرین، سب ان طریقوں سے برئ ہیں، ان سے دور
ہیں، اور جو ان کے پرچم اٹھاتے ہیں اور اس کے بڑے بننے کی کوشش کرتے ہیں ان کے مخالف
ہیں۔
دوسری قسم:
وہ منہجی تنقید جو علماءِ
اسلام کے نزدیک معتبر دلائل اور براہین پر مبنی ہو، اور سنت نبویہ کے مطالعے کو تاریخ
کے علم کی ایک شاخ کی طرح دیکھتے ہوئے، اسنادی اور متنی دونوں پہلوؤں کو یکجا کرتی
ہو۔ ایسی تنقید محدثین کے اصولوں کو نفسانی خواہشات کی خاطر قربان نہیں کرتی، نہ ہی
صحیحین کی قدر و منزلت کو مشکوک بناتی ہے، بلکہ ان کی قدر و قیمت کو تسلیم کرتی ہے،
ان کے ذکر کو محفوظ رکھتی ہے، اور ان پر کی جانے والی محنت کا اعتراف اور احترام
کرتی ہے ۔
یہ طریقہ کار بہت سے متقدمین
اور متاخرین علماء نے اختیار کیا ہے، جیسے کہ ابو زرعہ (ت264ھ)، ابو داود (ت275ھ)،
ابو حاتم (ت277ھ)، ترمذی (ت279ھ)، نسائی (ت303ھ)، دارقطنی (ت385ھ)، بیہقی (ت458ھ)،
ابن تیمیہ (ت728ھ)، اور ابن حجر (ت852ھ) وغیرہ۔ ان سب کی تنقیدات میں صحیحین کی بعض
احادیث پر نظرثانی ملتی ہے، چاہے وہ احادیث صحیحین میں شامل ہونے سے پہلے ہوں یا بعد
میں، اور یہ تنقیدات علمی اور منصفانہ بحث و مباحثہ پر مبنی ہوتی ہیں۔ بلکہ بعض
"صحیح مسلم" کی احادیث کو بخاری خود قبول نہیں کرتے، اور بعض "صحیح
بخاری" کی احادیث کو امام مسلم خود تسلیم نہیں کرتے۔
ہم یہاں بخاری اور مسلم
کے درمیان یا ان کے ناقدین کے درمیان فیصلہ کرنے کی بات نہیں کر رہے ہیں، کیونکہ یہ
ایک وسیع میدان ہے جس میں بہت سے علماء نے بحث کی ہے اور بڑے بڑے مؤلفات تصنیف کیے
ہیں، جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی "ہدی الساری"۔ بلکہ یہاں مقصد ان
کے منہج کے درمیان فرق کرنا ہے جن کی تنقید کو نہ انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ
دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ صحیحین کی ہر حدیث پر اجماع ہے، اور ان کے منہج کے درمیان
جو صحیحین کی قدر و منزلت کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مقام کو کم کرنے کی
کوشش کرتے ہیں۔
محدثین کے منضبط منہج
کی درج ذیل خصوصیات ہیں:
1- ناقد کی سلامتی اور عدم
جانبداری: یعنی تنقید کا دافع شک و شبہ سے پاک ہو۔
2- حدیثی قواعد کی پیروی:
یعنی تنقید حدیثی اصولوں کے مطابق ہو۔
3- دیگر اعتبارات کی بنا
پر نص کے مضمون کی حفاظت: اس لیے کہ اکثر تنقید اصل میں محض بعض اسانید پر ہوتی ہے
نہ کہ متون پر، یا اس لیے کہ حدیث کے مضمون پر عمل ہوتا ہے، جیسے کہ: مرسل کی قبولیت،
موقوف کو رفع کا حکم دینا، یا حدیثِ مجہول الحال کی قبولیت وغیرہ۔ جبکہ آپ دیکھتے ہیں
کہ صحیحین کی احادیث پر معاصر تنقید کی نمایاں خصوصیات میں حدیث کے متن کو مسترد کرنا،
اس کے مضمون کا مذاق اڑانا، اس پر ایمان رکھنے والے ہر شخص پر حملہ کرنا، اور اسے خرافات
کی فہرست میں شامل کرنا شامل ہے جس سے دین کو پاک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
4- اختلاف کی تقدیر اور امکان
کی قبولیت: یعنی نرم الفاظ کا استعمال، جیسے "یہ زیادہ درست ہے"۔
5- قلتِ تنقید، کیونکہ منضبط
تنقیدی عمل ناقد کے لیے دروازہ تنگ کر دیتا ہے، تو وہ صرف انہی احادیث پر تنقید کرنے
کی جرات کرتا ہے جن پر دلیل واضح ہو اور ثابت ہو۔ اسی لیے صحیحین کی منتقدہ احادیث
- جو تحقیق کے آغاز میں مذکور اقسام کو مسترد کرنے کے بعد صاف ہو جاتی ہیں - بہت کم
ہیں، اور حافظ ابن الصلاح نے انہیں "چند حروف" قرار دیا ہے، جبکہ معاصر مضطرب
منہج میں یہ سینکڑوں میں ہیں، یہاں تک کہ بعض لوگوں کو انہیں "ضعیف صحیح البخاری"
کے عنوان سے ایک خاص کتاب میں جمع کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
دیکھیں: "المنهجية المنضبطة لدى النقاد المتقدمين في تعليل بعض
أحاديث الصحيحين" (ص 17-20)۔
پس جو کوئی ان پانچ خصوصیات
پر غور کرے، اور دونوں مکتبہ فکر کے درمیان فرق کو سمجھے، پھر انصاف کے ساتھ شیخ البانی
رحمہ اللہ کی صحیحین کی بعض احادیث پر تنقید کا مطالعہ کرے، تو وہ سمجھ جائے گا کہ
شیخ رحمہ اللہ نے منضبط منہج کے مطابق کام کیا ہے، اور محدثین کی پیروی کی ہے جو صحیحین
کی بعض روایات پر تنقید کرتے آئے ہیں، اور اس قسم کی تنقید سنت پر طعن نہیں ہے، اور
نہ ہی علماء کے اجماع کے خلاف ہے، بلکہ یہ صحیحین پر معروف سابقہ کوششوں کا تسلسل ہے،
لیکن مکالمہ اور تنقید کے اصولوں کے مطابق، اور مذکورہ تمام خصوصیات کی پابندی کرتے
ہوئے، جن میں سب سے اہم حدیثی قواعد کی پیروی اور صحیحین کی لوگوں کے دلوں میں ہیبت
کو برقرار رکھنا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ شیخ رحمہ اللہ کی صحیحین کی احادیث پر کچھ
احکام میں غلطی نہیں ہوئی، بلکہ یہ غلطی جزوی ہے نہ کہ کلی، تو ایسی غلطی نظر
انداز کیا جاتا ہے جیسا کہ بہت سے ناقدین اور محدثین کے لیے کیا گیا ہے۔
یہاں ہم شیخ رحمہ اللہ
کے کلام سے کچھ نقل کرتے ہیں جو ان کے منضبط منہج کی پابندی کی دلیل ہے، وہ فرماتے
ہیں:
"مجھے ایک حق بات کہنی ہے جسے علمی امانت اور ذمہ داری کے تحت
بیان کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایک فقیہ محقق کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک علمی
حقیقت کو تسلیم کرے، جسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے اس قول میں بیان کیا ہے:
"أبى الله أن يتم إلا كتابه" (اللہ
نے اپنی کتاب کے سوا کسی کو مکمل ہونے نہیں دیا) ، اسی لیے علماء نے بعض کلمات کو رد
کیا ہے جو بعض صحیح احادیث کے راویوں سے خطاً واقع ہوئے، پس کچھ مثالوں کے طور پر ان
کا ذکر کرنا کوئی حرج نہیں:
(مثال اول) حدیث
میں جو (بدا لله) آیا ہے ([4])
وہ صحیح روایت (أراد الله) کی جگہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف بداء کی نسبت جائز
نہیں، جو کہ یہودیوں کے عقائد میں سے ہے۔
(مثال ثانی) حدیثِ طاعون ([5])
میں جو آیا ہے (فلا تخرجوا إلا فرارا منه)
اس میں راوی کا قول "إلا"
اس کی واضح غلطی ہے۔
(اس طرح کی بعض مزید مثالیں ذکر کرنے کے بعد شیخ البانی فرماتے ہیں)
میں نے ان مثالوں کا ذکر اس لیے کیا ہے
تاکہ قارئین اپنے دین کے بارے میں بصیرت حاصل کریں، اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی احادیث کے بارے میں واضح معلومات رکھیں، اور اس اثر "أبى
الله أن يتم إلا كتابه" کی صحت پر یقین رکھیں،
اور تاکہ وہ ان بعض مشاغبین کی باتوں سے بھی دھوکا نہ کھائیں جو ہمارے بارے میں جہالت
پر مبنی تقلید اور تعصب پر مبنی نظریات لکھتے ہیں، جو ایسی باتیں کرتے ہیں جن کا انہیں
علم نہیں ہوتا، اور وہ ان حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں جو وہ جانتے ہیں۔
ان لوگوں کے مقابلے میں کچھ ایسے لوگ بھی
ہیں جو کچھ علوم یا اسلامی دعوت میں کسی حد تک شریک ہیں – اگرچہ اپنے مخصوص فہم کے
ساتھ – وہ صحیح احادیث کو رد کرنے اور ان کو ضعیف قرار دینے کی جرات کرتے ہیں، چاہے
وہ احادیث ایسی ہوں جنہیں امت نے قبول کیا ہو۔ یہ لوگ اس علم شریف کے اصولوں اور محدثین
کے معروف قواعد کی بنیاد پر نہیں چلتے، یا انہیں بعض روایات میں کسی شبہے کی وجہ سے
اعتراض ہوتا ہے، کیونکہ انہیں ان باتوں کا علم نہیں ہوتا، اور وہ ان کے ماہرین اور
اہل علم کو کوئی وزن نہیں دیتے، بلکہ وہ اپنی خواہشات یا ان ثقافتوں کی بنیاد پر چلتے
ہیں جو صحیح ایمان سے دور ہیں، جو کہ کتاب اور صحیح سنت پر قائم ہے۔ وہ مستشرقین، جو
دین کے دشمن ہیں، اور ان جیسے لوگوں کی تقلید کرتے ہیں جو جدیدیت پسند ہیں، جیسے ابو
ریہ مصری، عز الدین بلیق لبنانی، اور دیگر لوگ جن سے امت کو اس دور میں صحیح احادیث
کے انکار اور شبہات کے ذریعے الجھانے کی آزمائش ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہی مددگار ہے اور اس سے دعا
ہے کہ وہ سنت کو جاہلوں اور ان سے کھیلنے والوں، اور خواہشات کے پیچھے چلنے والوں سے
محفوظ رکھے، اور ہمیں ہمارے سلف صالحین کی ان خدمات کی قدر سے آگاہ کرے، جنہوں نے ہمارے
لیے صحیح اور ضعیف حدیث کو جانچنے کے اصول و قواعد وضع کیے۔ جو ان اصولوں کی پیروی
کرتا ہے وہ روشنی پر ہے، اور جو ان سے ہٹ جاتا ہے، وہ سخت گمراہی میں جا پڑتا ہے۔"
(اختصار کے ساتھ "مختصر
صحیح بخاری" کے مقدمہ، ص 2/5-9 سے نقل کیا گیا)
حاصل یہ ہے کہ شیخ البانی
رحمہ اللہ نے صحیحین میں موجود بعض ثابت شدہ احادیث کو ضعیف قرار دیا، اور ہم ان کے
بعض احکام سے متفق نہیں ہیں، لیکن ان کا عمومی نقدی منہج محدثین سابقین کے مناہج کے
مطابق تھا جنہوں نے صحیحین کی بعض احادیث پر کچھ ملاحظات درج کیے تھے۔ شیخ کبھی بھی
صحیحین کی عظمت کو لوگوں کے دلوں سے نکالنے کی کوشش میں نہیں تھے، اور نہ ہی رد و تضعیف
کے دعووں میں مبالغہ کرتے تھے۔ ([6])۔
ثانیا:
اس کے برعکس جو لوگ
شیخ البانی پر اس اعتراض کو پیش کرتے ہیں جیسے محمود سعید ممدوح وغیرہ وہ خود اس
میں منافقت کا شکار ہیں کیونکہ انہی کے اپنے شیوخ نے اپنے اپنے مذہب کی تائید اور
نفسانی خواہشات کی خاطر صحیحین کی روایات پر تنقیدیں کی ہیں جن میں زاہد الکوثری،
الغماری، اور حسن السقاف وغیرہ شامل ہیں۔ حالانکہ شیخ البانی کی تنقید – جیسا کہ
ہم نے واضح کیا – محدثین کے منہج اور اصولوں کے مطابق تھی، جبکہ ان لوگوں کی
تنقیدیں اوپر ذکر کردہ اقسام تنقید میں سے پہلی قسم کی تنقیدیں ہیں! لیکن اس کے
باوجود یہ لوگ شیخ البانی پر ہی تنقید کرتے ہیں اور اس سے ان کا تعصب اور مذہبی
منافرت صاف نظر آتا ہے۔
ثالثا:
جہاں تک بات ہے نیم
رافضی محمود سعید ممدوح کی کتاب "تنبيه المسلم تعدي
الألباني علي صحيح مسلم " کی، تو
یہ بھی تلبیسات کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں مذکور اکثر اعتراضات کا جواب خود شیخ
البانی نے آداب الزفاف فی السنہ المطھرہ میں دے دیا ہے، جبکہ شیخ طارق عوض اللہ نے
اس کے رد میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے "ردع الجاني المتعدي علي الألباني"۔ اس کتاب میں شیخ طارق نے محمود سعید ممدوح کی تلبیسات
کا جواب دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ممدوح کی ذکر کردہ اکثر مثالیں ایسی ہیں جن
میں شیخ البانی نے محض اسناد کو ضعیف قرار دیا ہے جبکہ حدیث کو وہ بھی صحیح مانتے
ہیں، بلکہ اس بات کو متعدد مقامات پر شیخ البانی نے خود بھی اسی جگہ واضح کیا جہاں
انہوں نے سند پر تنقید کی ہے، لیکن ممدوح نے اس کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف انہی
چیزوں کو نقل کیا ہے جو اس کی تلبیس کے موافق ہے۔ ممدوح کی ذکر کردہ پچاس مثالوں
میں سے بمشکل دس ایسی مثالیں ہیں جنہیں شیخ البانی نے واقعی ضعیف کہا ہے، اور ان
دس مثالوں کے متعلق بھی شیخ طارق نے واضح کیا ہے کہ ان میں شیخ نے عین محدثین کے
منہج اور اصولوں کے مطابق اجتہادا تنقید کی ہے!
اعتراض نمبر
5:شیخ البانی علماء کا احترام نہیں کرتے تھے؟
اس اعتراض کو ذکر
کرنے والا حسن السقاف ہے جس نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی بعنوان: "قاموس
شتائم الألباني"، اور اسی کی
پیروی میں پاکستان کے بعض دیوبندی حضرات نے بھی اپنا تعصب نکالنے کے لیے اسی الزام
کو بنا کسی دلیل کے دہرا دیا۔
جواب:
یہ دعوی بالکل بلا
دلیل ہے بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جن لوگوں کے بارے میں سقاف نے یہ دعوی کیا ہے
کہ شیخ البانی نے ان پر طعن وتشنیع کی ہے وہ اس دور میں اہل بدعت کے ائمہ میں سے
ہیں جیسے: زاہد الکوثری، الغماری، ابو غدۃ، الاعظمی، محمد عوامۃ، اور محمود سعید
ممدوح وغیرہ۔
اور ہم یہ بات پورے
حق کے ساتھ کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی ان لوگوں کی حقیقت کو جانتا ہے تو وہ یہی کہے
گا کہ یہ لوگ اس سے کہیں زیادہ کے مستحق ہیں جو شیخ البانی نے ان کے بارے میں کہا
ہے جبکہ شیخ البانی نے ان کے بارے میں کوئی سب وشتم نہیں کیا ہے بلکہ صرف ان کے
وہی اوصاف ذکر کیے ہیں جو ان کے تعصب اور فرقہ پرستی کے لائق ہیں۔
چنانچہ شیخ کی طرف سے
کچھ علمی الفاظ کو پکڑنا جبکہ وہ بعض اہل بدعت کی تخریج، تحقیق اور توثیق میں کی گئی
غلطیوں کا جواب دے رہے ہوں، اور اسے علماء پر طعن کرنے اور معزز مشایخ کو تنقید کا
نشانہ بنانے کے زمرے میں ڈالنا غلط ہے۔
نیز دو باتوں کو سمجھنا
ضروری ہے:
پہلی:
جس پر جھوٹ اور دھوکہ
دہی کا الزام ثابت ہو جائے اور نصیحت کے باوجود وہ باز نہ آئے، اس کی اصلاح سخت باتوں
اور شدید تنقید کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ ایک ربانی طریقہ ہے جو منحرفین کی مختلف اقسام
اور مخالفین کی مختلف صورتوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ
کہا کرتے تھے: "من سألني مستفيدا حققت
له، ومن سألني متعنتا ناقضته، فلا يلبث أن ينقطع فأكفي مؤنته" (جو مجھ سے استفادہ کی نیت سے سوال کرتا ہے، میں اس
کی مراد پوری کرتا ہوں، اور جو مجھ سے تعنت (ضد) کی نیت سے سوال کرتا ہے، میں اس کی
مخالفت کرتا ہوں، یہاں تک کہ وہ خاموش ہو جاتا ہے اور میں اس کی مشقت سے بچ جاتا
ہوں)۔ ([7])
انہوں نے ان لوگوں کو
بھی جواب دیا جو اہلِ بدعت اور منحرفین کے ساتھ نرم گفتگو کا مطالبہ کرتے تھے:
"ما ذكرتم من لين الكلام
والمخاطبة بالتي هي أحسن: فأنتم تعلمون أني من أكثر الناس استعمالا لهذا، لكن كل
شيء في موضعه حسن، وحيث أمر الله ورسوله بالإغلاظ على المتكلم لبغيه وعدوانه على
الكتاب والسنة: فنحن مأمورون بمقابلته، لم نكن مأمورين أن نخاطبه بالتي هي أحسن."
(جو کچھ آپ نے نرم
گفتگو اور بہترین انداز میں مخاطب کرنے کے بارے میں ذکر کیا ہے: تو آپ جانتے ہیں کہ
میں اس کو سب سے زیادہ استعمال کرنے والوں میں سے ہوں، لیکن ہر چیز اپنی جگہ پر ہی
اچھی لگتی ہے۔ جہاں اللہ اور اس کے رسول نے بات کرنے میں سختی کرنے کا حکم دیا ہے،
کیونکہ وہ شخص کتاب و سنت پر ظلم اور تعدی کر رہا ہو: تو ہمیں اس کے مقابلے میں سختی
کرنے کا حکم دیا گیا ہے، نہ کہ اسے بہترین انداز میں مخاطب کرنے کا) ([8])۔
دوسری:
ائمہِ اسلام میں سے علماءِ
جرح وتعدیل نے بعض سخت مجروح راویوں پر شدید کلام کیا ہے۔ اس کے باوجود اہل سنت
میں سے کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ علماء طعن وبد زبانی کرنے والے ہیں جو علماء
کی قدر نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض ناقدین کی طرف سے رواۃ کی ایک جماعت کی
تجریح میں ان کے شدتِ ضعف یا جھوٹ کو ظاہر کرنے کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال کرنا
دین کے بارے میں ان کی غیرت کے سبب ہے، اور اس لیے کہ جھوٹ سے لوگوں کو خبردار
کریں اور جھوٹ بولنے والوں سے لوگوں کو دور رکھیں۔
چنانچہ خود شیخ
البانی نے اس اعتراض کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے فرمایا:
"اکثر اوقات کچھ
لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میری بعض تحریروں میں بعض کاتبین کے خلاف ظاہر ہونے والی
شدت کا سبب کیا ہے؟ اور اس کے جواب میں میں کہتا ہوں:
یہ قارئین جان لیں
کہ الحمد للہ میں کسی پر بھی ایسے رد کی ابتداء نہیں کرتا جس میں کوئی تجاوز یا حملہ
نہ ہو، بلکہ میں اس کا شکر گزار ہوتا ہوں۔ اور اگر میری کسی کتاب میں کسی جگہ پر شدت
پائی جاتی ہے، تو یہ دو حالتوں کی وجہ سے ہوتی ہے:
1- پہلی: یہ رد ان لوگوں
کے لیے ہوتا ہے جنہوں نے ابتدائی طور پر مجھ پر رد کیا اور اس میں مبالغہ کیا اور مجھ
پر جھوٹ اور بہتان تراشی کی، جیسے کہ ابو غدہ، الاعظمی جو ارشد السلفی کے نام سے پردہ
کیے ہوئے ہے، الغماری، البوطي، اور دیگر؛ جیسے شیخ اسماعیل الأنصاري جنہوں نے کئی مرتبہ
مجھ پر حملہ کیا۔ اور ایسے ظالم لوگوں کے لیے میرے اعتقاد کے مطابق نرمی اور درگزر
فائدہ مند نہیں ہے، بلکہ یہ انہیں ان کے ظلم اور تجاوز میں مزید جاری رکھنے کی ترغیب
دے سکتا ہے۔ بلکہ ایسے لوگوں کے ظلم کو برداشت کرنا جو لوگوں کی رہنمائی اور تعلیم
کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں، کبھی کبھی انسانی طاقت سے باہر ہوتا ہے، اور اسی لیے اسلامی
شریعت نے اس طاقت کا لحاظ رکھا ہے، اور الحمد للہ انجیل کی موجودہ تعلیمات کی طرح نہیں
کہا: "جو تمہارے دائیں گال پر طمانچہ مارے، اسے بایاں گال پیش کر دو، اور جو تم
سے تمہارا لباس مانگے، اسے چادر بھی دے دو!" بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"پس جو تم پر زیادتی کرے، تم بھی اس پر اسی طرح زیادتی کرو جس طرح اس نے تم پر
کی" (البقرۃ: 194) اور فرمایا: "اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے"
(الشوری: 40)۔۔۔۔۔
2- دوسری حالت یہ ہے کہ کسی
حدیث میں فاحش غلطی ہو، جو کسی ایسے شخص سے صادر ہوئی ہو جو تحقیق میں کمیاب ہو، تو
میں اس پر کلام میں سختی کرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی غیرت کے
سبب، جیسا کہ میں نے حدیث (142) کے تحت کہا: "سیوطی - اللہ ہم سب کو معاف کرے
- اس باطل سند سے استدلال کرنے سے نہیں شرمائے۔ کیونکہ یہ (ابو دنیا) جھوٹا اور کذاب
ہے، اور سیوطی پر اس کا حال مخفی نہیں۔" اس شدت کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی حدیث کی غیرت ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہ بات منسوب نہ کی جائے
جو آپ نے نہیں کہی۔ اور اس معاملے میں ہمارے سلف کے طور پر بعض حفاظ موجود ہیں جو
دین اور تقویٰ میں معروف تھے، مثلاً امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول حاکم کے بارے میں دیکھیں،
جب حاکم نے ایک حدیث کو صحیح قرار دیا جو علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں تھی کہ:
"قلت: بل والله موضوع، وأحمد
الحراني كذاب، فما أجهلك على سعة معرفتك؟" (میں کہتا ہوں: بلکہ اللہ کی قسم، یہ موضوع ہے، اور احمد
الحرانی کذاب ہے، تو تمہاری وسیع معرفت کے باوجود تمہیں کس قدر جہالت ہے؟) قارئین کو
چاہیے کہ حاکم اور سیوطی کے درمیان فرق کو دیکھیں، اور امام ذہبی کا حاکم کے بارے میں
قول اور میرا سیوطی کے بارے میں قول کے درمیان موازنہ کریں۔۔۔۔" ([9])۔
نیز جن اہل بدعت کے
رد میں شیخ البانی نے کلام کیا ہے وہ خود علماء کے بارے میں اتنے زبان دراز ہیں کہ
کوئی عالم مشکل ہی ان کی زبان سے محفوظ رہ پایا ہے، لیکن منافقت کی انتہاء دیکھیں
کہ حسن السقاف جیسے لوگ اپنے ان بزرگوں کی زبان درازیوں پر کلام کرنے کی بجائے شیخ
البانی پر علماء کا احترام نہ کرنے کا الزام لگاتے ہیں کیونکہ انہوں نےان کے بد
زبان شیوخ کا علمی رد کیا!؟ مثلا ان اہل بدعت کے سب سے بڑے امام زاہد الکوثری نے
خود بے شمار علماء اہل سنت کے بارے میں طعن وتشنیع، وتفسیق اور نہایت قبیح اوصاف
استعمال کیے ہیں۔ بعض علماء اہل سنت کے بارے میں ان کی بعض باتیں بطورِ مثال درج
ذیل ہیں:
1- امام ابن القیم کے
بارے میں ایک جگہ کہا: "الظالم المخيم"، ایک جگہ ان پر کفر کا انتساب کیا، ایک جگہ انہیں
زندیق کہا، ایک جگہ انہیں گدھا کہا، ایک جگہ انہیں یہود ونصاریٰ کا بھائی کہا، ایک
جگہ انہیں بے وقوف کہا، اور اس طرح کی اور بھی مثالیں ہیں!
2- امام شوکانی صاحب نیل
الاوطار کو اپنے مقالات (ص 418) میں یہودیت کی طرف منسوب کیا۔
3- امام الائمہ ابن
خزیمہ کی کتاب التوحید کو کتاب الشرک کہا (مقالات: ص 409)۔
4- سقاف کے استاد عبد
اللہ الغماری نے بدع التفاسیر (ص 139) میں نقل کیا ہے کہ الکوثری نے حافظ ابن حجر پر
تہمت لگاتے ہوئے کہا کہ وہ عورتوں کا پیچھا کیا کرتے تھے!
اور اس طرح کی بہت سی
مثالیں کوثری سے پائی جاتی ہیں، چنانچہ سقاف کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنے شیوخ کے
شتائم کی قاموس کو جمع کرے۔ بلکہ خود سقاف نے بھی اپنی کتب کو علماء اہل سنت
والجماعت کی تکفیر، طعن اور استہزاء سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل
ہیں:
1- امام عبد اللہ بن
مبارک کو ائمہ اہل حدیث کی ایک جماعت سمیت بنی امیہ کے لیے نفاق اور ان کے مجسمہ
اور مشبہہ ہونے کا الزام لگایا۔
2- امام ابن شہاب الزہری
پر خبث اور کذب کا الزام لگایا۔
3- امام اسحاق بن
راہویہ، امام دارقطنی، امام ابن معین اور دیگر ائمہ پر بے عقل ہونے کا الزام لگایا
اور کہا کہ یہ لوگ اہل بیت سے بغض رکھنے والے اور ان کے دشمنوں سے محبت کرنے والے
تھے۔
4- امام بخاری پر الزام
لگایا کہ ان کی عقل بے کار ہو چکی تھی اور ان کی صحیح میں خرافات بھری پڑی ہیں۔
5- مؤرخ اسلام امام ذہبی
پر ناصبیت اور تدلیس کا الزام لگایا، اور انہیں کفر کے قریب قرار دیا۔
6- امام ابو الحسن الاشعری
کے بارے میں کہا وہ مشبہ اور مجسم تھے، اور انہیں منافق اور جاہل کہا۔
7- امام اہل سنت احمد بن
حنبل کو مشبہ اور مجسم کہا۔
8- امام ابو یعلی الفراء
پر کفر کا فتوی لگایا۔
9- شیخ الاسلام ابن
تیمیہ پر کفر کا فتوی لگایا اور ان پر لعنت اور استہزاء بھی کیا۔
10-
امام بیہقی پر بدترین تقلید اور تجسیم کا الزام لگایا۔
یہ اسلامی تاریخ کے
مشہور اور ثقہ ائمہ دین ہیں اور سقاف نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، نیز ایسے شخص
سے یہ رویہ عجیب بھی نہیں کیونکہ اس کے شر سے تو اصحابِ رسول ﷺ بھی محفوظ نہیں ہیں
تو علماء اسلام تو دور کی بات ہے، چنانچہ اس رافضی خبیث نے سیدنا عبد اللہ بن
سلام، سیدنا معاویہ، سیدنا ابو ہریرہ، سیدنا ابو سعید الخدری، سیدنا ابن عمر، اور
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہم پر بھی طعن وتشنیع کی ہے۔
مزید تفصیل اور حوالوں کے لیے دیکھیں: تبيين كذب المفتري الجاني علي الإمام الألباني للشيخ سليم الهلالي (ص ٢٩٣-٣٠٤)
[1] - تزكيات كبار العلماء
للألباني - موقع أرشيف الشيخ الألباني، تراث الألباني في مكان واحد
(alalbani.info)
[2] -
دیکھیں
شیخ شعیب الارناؤط کا ویڈیو انٹرویو: "
https://www.youtube.com/watch?v=59tI8yhDeyw " – ٹائم سٹیمپ: 11:00 منٹ سے۔
[4] -
صحیح
البخاری (3464)
[5] -
صحیح
البخاری (3473)
[7] -
الدرر الکامنہ (1/179)
[8] -
مجموع
الفتاوی (3/232)
[9] -
دیکھیں:
سلسلہ الاحادیث الضعیفہ للالبانی (1/27)
Post a Comment