اس مضمون کی پی ڈی ایف حاصل کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
ابراہیم نخعی کا مختصر
تعارف:
نام
ونسبت: إبراهيم بن يزيد بن قيس بن الأسود بن عمرو بن ربيعة بن ذهل بن سعد
بن مالك بن النخع النخعي، اليماني، ثم الكوفي ۔
کنیت: أبو عمران۔
پیدائش: 46 ھ
تقریبا
طبقہ: 5 یعنی صغار تابعین میں
سے ہیں
وفات: 96 ھ
عمر
50: تقریبا
امام ابراہیم نخعی کی ثقاہت
وعلمی مقام:
آپ امام حافظ اور اپنے
زمانے میں کوفہ کے سب سے بڑے فقیہ تھے۔ اس وجہ سے انہیں فقيه العراق کا لقب دیا گیا
ہے۔ آپ کی روایات صحاح ستہ اور باقی تمام بنیادی حدیث کی کتب میں موجود ہیں۔ آپ کی
والدہ کا نام مليكة بنت يزيد تھا جو کہ امام اسود بن یزید اور عبد الرحمن
بن یزید کی بہن تھیں جو عبد اللہ بن مسعود کے کبار اصحاب میں شامل ہیں۔
· امام ابو الحسن عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "لم يحدث عن أحد من
أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم و قد أدرك منهم جماعة ، و رأى عائشة رؤيا ، و كان
مفتى أهل الكوفة هو و الشعبى فى زمانهما ، و كان رجلا صالحا فقيها متوقيا قليل
التكلف" ترجمہ: ابراہیم نے کسی صحابی
رسول ﷺ سے روایت نہیں لی ہے لیکن ان کی ایک جماعت کا زمانہ پایا ہے، اور عائشہ رضی
اللہ عنہا کو بھی دیکھا ہے۔ وہ اور امام شعبی اپنے زمانے میں اہل کوفہ کے مفتی
تھے۔ وہ صالح فقیہ، محتاط اور قلیل التکلف شخص تھے (کتاب الثقات:
3)۔
· امام اعمشؒ فرماتے ہیں: " وكان إبراهيم صيرفي
الحديث فكنت إذا سمعت الحديث من بعض أصحابنا عرضته عليه "
ترجمہ: )ابراہیم حدیث کے صراف تھے،
جب بھی میں اپنے کچھ ساتھیوں سے کوئی حدیث سنتا، تو میں ان کے پاس جاتا اور ان پر
پیش کرتا) (حلیۃ الاولیاء:
4/219)۔
اس
میں امام ابراہیم نخعی کی علم علل میں مہارت کی دلالت ہے، کیونکہ وہ علل کو ایسے
جانتے ہیں جیسے صراف جعلی سکے کو اصل سکے سے پہچانتا ہے، اور اسی وجہ سے انہیں
صراف حدیث کا لقب دیا گیا، اس اشارے کے ساتھ کہ وہ صحیح اور ضعیف حدیث میں تمیز کر
سکتے تھے اور علم علل میں ان کی عظمت تھی۔ اسی لیے ہر بار جب اعمش کوئی حدیث سنتے
تو ان سے پوچھتے۔
· امام اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں: " كان الشعبي وإبراهيم
وأبو الضحى يجتمعون في المسجد يتذاكرون الحديث، فإذا جاءهم شيء ليس عندهم فيه
رواية رموا إِبْرَاهِيم بأبصارهم " شعبی، ابراہیم اور ابو
ضحی مسجد میں جمع ہو کر حدیث پر تذکرہ کیا کرتے تھے، اور جب ان کے پاس کوئی ایسا
مسئلہ پیش آتا جس میں ان کے پاس کوئی روایت نہ ہوتی تو وہ ابراہیم کی طرف اپنی
نظریں جماتے تھے (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 1/1/144، وتاریخ یحیی روایۃ
عباس: 2/17)۔
· من افضل التابعین، امام سعید بن جبیرؒ فرماتے
ہیں: "أتستفتوني وفيكم إبراهيم" (کیا تم مجھ سے
فتوی طلب کرتے ہو جبکہ ابراہیم تمہارے درمیان موجود ہیں؟) (طبقات ابن سعد: 6/270)۔
· جب امام ابراہیمؒ فوت ہوئے تو امام شعبیؒ نے فرمایا:
" ما ترك بعده خلف " انہوں نے اپنے بعد کوئی
ان جیسا نہیں چھوڑا (سیر اعلام النبلاء: 4/526)۔
· نیز امام یحیی بن معین، ابو زرعہ، نسائی، ابن سعد، ابن حبان وغیرہ
نے انہیں ثقہ کہا ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن مسعود
رضی اللہ عنہ کی روایات واقوال میں امام نخعیؒ کی مہارت:
امام ابراہیم نخعیؒ نے
اہل کوفہ کی طرح عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے طریقے کو لازم پکڑا اور ان کی
روایات، فقہ اور قراءت میں مہارت حاصل کی یہاں تک کہ
· امام علی بن المدینیؒ نے فرمایا:
" وكان إبراهيم عندي من أعلم الناس بأصحاب عبد الله وأبطنهم به "
ترجمہ:
"میرے نزدیک ابراہیم اصحاب عبد اللہ کے بارے میں تمام لوگوں میں سب
سے زیادہ جاننے والے اور دقیق العلم تھے" (العلل
لابن المدینی: ص 43)۔
عبد اللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ کے اصحاب گنوانے کے بعد، امام علی بن المدینی فرماتے ہیں:
" وأصحاب هؤلاء الستة من أصحاب عبد الله ممن يقول بقولهم ويفتي
بفتواهم إبراهيم النخعي " ترجمہ: اور عبد اللہ بن مسعود
کے ان چھ (کبار) اصحاب کے وہ اصحاب جو ان کے قول کی پیروی کرتے، اور ان کے فتوی کے
مطابق فتوی دیتے، ان میں ابراہیم نخعی شامل ہیں (العلل: ص 43)۔
· نیز قرآن کی قراءت بھی
ابراہیم نے عبد اللہ بن مسعود کے طریقے پر لی ہے، چنانچہ ابو عمرو الدانی فرماتے
ہیں: " أخذ إبراهيم القراءة عرضا عن: علقمة، والأسود. " ابراہیم نے قراءت قرآن
علمقہ اور اسود سے لی ہے (سیر اعلام النبلاء: 4/529) ۔
الغرض
ابراہیم نخعی کی تمام فقہ، قراءت، اور مذہب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے
کبار اصحاب کے مطابق تھی، اور انہوں نے اس کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے
لیا تھا۔
اور
ان سے پھر اس طریقے کو اعمش، سفیان، اور وکیع وغیرہ نے اس طریقے کو اپنایا اور اسی
طریقے کو فقہ اہل کوفہ یا فقہ عبد اللہ بن مسعود کا نام دیا گیا۔
· چنانچہ امام علی بن المدینیؒ مزید فرماتے ہیں:
وكان
أعلم الناس بهؤلاء من أهل الكوفة ممن يفتي بفتواهم ويذهب مذهبهم الأعمش وأبو إسحاق
والأعمش أعلم الناس ممن مضى من هؤلاء غير رجل ولم يلق الأعمش من هؤلاء أحدا لقي
أبو إسحاق منهم الأسود بن يزيد ومسروقا وعبيدة السلماني وعمرو بن شرحبيل ولم يلق
علقمة ولا الحارث بن قيس
ومن
بعد هؤلاء سفيان الثوري كان يذهب مذهبهم ويفتي بفتواهم
ومن
بعد سفيان يحيى بن سعيد القطان كان يذهب مذهب سفيان الثوري وأصحاب عبد الله
ترجمہ:
"اور اہل کوفہ میں ان لوگوں کے علم کو سب سے زیادہ جاننے والے،
جنہوں نےان کے فتاوی کے مطابق فتوی دیا، اور ان کے مذہب کی پیروی کی، ان میں اعمش
اور ابو اسحاق شامل ہیں۔۔۔۔۔
اور
ان کے بعد سفیان الثوری بھی ان کے مذہب پر چلے اور ان کے قول کے مطابق فتوے دیے۔
اور
سفیان کے بعد، یحیی بن سعید القطان سفیان الثوری اور اصحاب عبد اللہ کے مذہب پر
چلے۔" (العلل: ص 44)
گویا
اہل کوفہ کی مجموعی فقہ کی سند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب کی
طرف لوٹتی ہے۔ اور اسی کو فقہ اہل کوفہ کہا جاتا ہے۔
انقطاع کے باوجود روایت کے
صحیح ہونے کی مثالیں محدثین کے اقوال کی روشنی میں:
کسی محدث یا امام کا کسی خاص صحابی یا شیخ کے
طریقے، اقوال اور روایات میں خاص مہارت کے ہونے کی وجہ سے اس کی روایت کو انقطاع
کے باوجود صحیح قرار دینا کوئی نیا اصول نہیں ہے بلکہ محدثین کے ہاں اس کی کئی
مثالیں پائی جاتی ہیں، مثلا:
1-
سعید بن المسیب کی
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت منقطع شمار کی جاتی ہے لیکن چونکہ امام
سعید بن المسیب کو عمر رضی اللہ عنہ کے اقوال وافعال اور روایات کی خاص پرکھ اور
جانکاری تھی تو اس وجہ سے محدثین نے اجماعی طور پر ان کی عمر سے روایت کو صحیح
قرار دیا ہے۔ اس پر مزید تفصیل کے لیے دیکھیں میرا مضمون: " امام سعید بن مسیب کا
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع "
2-
اسی طرح ابو عبیدۃ بن
عبد اللہ بن مسعود کی اپنے والد سے روایت منقطع ہے لیکن محدثین نے انہیں قبول کیا
ہے کیونکہ وہ اپنے والد کے گھر والوں سے روایت کرتے تھے، اس پرمحدثین کے چند اقوال
درج ذیل ہیں:
o حافظ ابن رجبؒ فرماتے ہیں:
"أبو
عبيدة لم يسمع من أبيه ، لكن رواياته عنه أخذها عن أهل أبيه ، فهي صحيحة عندهم" (ابو
عبیدہ نے اپنے والد سے نہیں سنا، لیکن انہوں نے ابن مسعود کی روایات کو اپنے والد
کے گھر والوں سے اخذ کیا ہے، پس وہ ان کے نزدیک صحیح ہیں)
(فتح
الباری: 614)
اسی
طرح ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:
"وأبو عبيدة، وإن لم
يسمع من أبيه، إلا أن أحاديثه عنه صحيحة، تلقاها عن أهل بيته الثقات العارفين
بحديث أبيه -: قاله ابن المدني وغيره" (اور
ابو عبیدہ، اگرچہ انہوں نے اپنے والد سے نہیں سنا، لیکن ان کی اپنے والد سے مروی
احادیث صحیح ہیں، کیونکہ انہوں نے انہیں اپنے گھر کے ثقہ افراد سے حاصل کیا جو ان
کے والد کی احادیث سے واقف تھے - یہ بات ابن المدنی اور دیگر نے کہی۔)
(فتح
الباری: 7/342)
o نیز امام علی بن
المدینی کا ایک قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " قال ابن المديني في
حديث يرويه أبو عبيدة بن عبد الله بن مسعود عن أبيه هو منقطع، وهو حديث ثبت "
(ابن المدینی نے ابو عبیدہ بن
عبداللہ بن مسعود کی اپنے والد سے مروی ایک روایت کے بارے میں فرمایا: یہ منقطع ہے، اور یہ
حدیث ثابت ہے۔)
(شرح علل الترمذی:
1/544)
o
امام
یعقوب بن شیبہؒ نے فرمایا:
"إنما استجاز أصحابنا أن يدخلوا حديث أبي عبيدة عن أبيه في المسند،
يعني في الحديث المتصل، لمعرفة أبي عبيدة بحديث أبيه وصحتها، وأنه لم يأت فيها
بحديث منكر." (ہمارے
اصحاب نے یہ اجازت دی کہ ابو عبیدہ کی اپنے والد سے روایت کردہ حدیث کو مسند، یعنی
متصل حدیث میں شامل کریں، کیونکہ ابو عبیدہ اپنے والد کی حدیثوں کو جانتے تھے اور
ان کی صحت سے واقف تھے، اور انہوں نے ان میں کوئی منکر حدیث بیان نہیں کی ہے)۔
(شرح
علل الترمذی: 1/544)
o
امام
طحاویؒ نے ابو عبیدہ کی اپنے والد سے منقطع روایت کو دیگر متصل روایات پر ترجیح
دیتے ہوئے فرمایا:
"فإن قال قائل: الآثار الأول أولى من هذا لأنها متصلة , وهذا منقطع
لأن أبا عبيدة , لم يسمع من أبيه شيئا. قيل له: ليس من هذه الجهة احتججنا بكلام
أبي عبيدة , إنما احتججنا به لأن مثله , على تقدمه في العلم , وموضعه من عبد الله
, وخلطته لخاصته من بعده لا يخفى عليه مثل هذا من أموره. فجعلنا قوله ذلك حجة فيما
ذكرناه , لا من الطريق الذي وضعت"
(اگر
کوئی کہے: پہلی روایتیں اس سے بہتر ہیں کیونکہ وہ متصل ہیں، اور یہ منقطع ہے
کیونکہ ابو عبیدہ نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا۔ تو اس سے کہا جائے گا: ہم نے ابو
عبیدہ کے کلام سے اس پہلو سے دلیل نہیں لی، بلکہ اس لیے دلیل لی ہے کیونکہ ان جیسے
شخص – جو علم میں پیش پیش تھے، عبداللہ کے قریب تھے، اور ان کے خاص لوگوں کے ساتھ
رہے تھے – ان پر ان کے معاملات میں ایسی باتیں مخفی نہیں رہ سکتی تھیں۔ لہذا ہم نے
ان کا یہ قول اس بات میں دلیل کے طور پر لیا ہے جو ہم نے ذکر کیا، نہ کہ اس طریقے
سے جو آپ نے بیان کیا)۔
(شرح
معانی الآثار: 609)
o
امام
العلل، علی بن عمر الدارقطنیؒ ابو عبیدہ کی اپنے والد سے منقطع حدیث کو ترجیح دیتے
ہوئے فرماتے ہیں:
"هذا حديث ضعيف غير ثابت عند أهل المعرفة بالحديث , من وجوه عدة
أحدها أنه مخالف لما رواه أبو عبيدة بن عبد الله بن مسعود , عن أبيه , بالسند
الصحيح عنه الذي لا مطعن فيه , ولا تأويل عليه , وأبو عبيدة أعلم بحديث أبيه
وبمذهبه وفتياه من خشف بن مالك ونظرائه"
(یہ
حدیث ضعیف ہے اور اہلِ علمِ حدیث کے نزدیک ثابت نہیں ہے، کئی وجوہات کی بنا پر۔ ان
میں سے ایک یہ ہے کہ یہ حدیث ابو عبیدہ بن عبداللہ بن مسعود کی اپنے والد سے صحیح
سند کے ساتھ روایت کردہ حدیث کے مخالف ہے، جس میں کوئی طعن نہیں ہے اور نہ ہی کوئی
تأویل۔ اور ابو عبیدہ اپنے والد کی حدیث، ان کے مذہب اور فتاویٰ کو خشّف بن مالک
اور ان کے جیسے لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں۔)
(سنن
الدارقطنی: 3364)
o
یہاں
تک امام ابن عبد البرؒ نے ابو عبیدہ کی اپنے والد سے روایت کی صحت پر اجماع نقل
کیا ہے، وہ فرماتے ہیں:
"روى عن أبيه وقد اختلف في سماعه منه وأجمعوا على أنه ثقة في كل ما
رواه " (انہوں نے اپنے والد سے
روایت کی ہے اور ان کے والد سے ان کے سماع (سننے) میں اختلاف ہے، اور اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ وہ جو بھی روایت
کرتے ہیں، اس میں ثقہ ہیں)۔
(الاستغناء:
945)
3-
اسی
طرح ایک مثال المغیرہ بن مقسم الضبیؒ کی ابراہیم نخعی سے روایت کی ہے، ان کے بارے
میں مشہور ہے کہ انہوں نے ابراہیم نخعی سے بعض چیزوں کا سماع نہیں کیا ہے لیکن اس
کے باوجود چونکہ وہ ابراہیم کی روایات کے بہت بڑے عالم تھے، کبار ائمہ میں سے بعض
نے ان کی ابراہیم سے تمام روایات کو قبول کیا ہے۔
چنانچہ
امام علی بن المدینیؒ فرماتے ہیں:
"لا أعلم أحدا يروي في
المسند عن إبراهيم ما روى الأعمش، ومغيرة كان أعلم الناس بإبراهيم ما سمع منه وما
لم يسمع، لم يكن أحد أعلم به منه حمل عنه وعن أصحابه"
(میں
کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو مسند میں ابراہیم سے وہ روایت کرتا ہو جو اعمش نے
کی ہے، اور مغیرہ ابراہیم کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے جو انہوں نے
ابراہیم سے کیا سنا اور جو نہیں سنا۔ کوئی بھی ان سے زیادہ ابراہیم کے بارے میں
نہیں جانتا تھا، انہوں نے ابراہیم اور ان کے شاگردوں سے علم حاصل کیا)
(المعرفہ
والتاریخ: 3/14)
ابراہیم نخعیؒ کی سیدنا
عبد
اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت:
ابراہیم
نخعی کی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرسل روایات، جو ابن مسعود رضی اللہ
عنہ کی فقہ، اقوال، قراءت، اور روایات پر مشتمل ہیں، کو بالاولیٰ صحیح شمار کیا
جاتا ہے کیونکہ ابراہیم عبد اللہ کے اقوال اور علم سے سب سے زیادہ واقف تھے جیسا
کہ اوپر وضاحت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس پر درج ذیل روایت بھی دلالت کرتی ہے:
امام
ترمذی روایت کرتے ہیں:
"حَدثنَا أَبُو
عُبَيْدَة بن أبي السّفر الْكُوفِي حَدثنَا سعيد بن عَامر عَن شُعْبَة عَن
سُلَيْمَان الْأَعْمَش قَالَ قلت لإبراهم النَّخعِيّ أسْند لي عَن عبد الله بن
مَسْعُود فَقَالَ إِبْرَاهِيم إِذا حدثتك عَن رجل عَن عبد الله فَهُوَ الَّذِي
سميت وَإِذا قلت قَالَ عبد الله فَهُوَ عَن غير وَاحِد عَن عبد الله "
ترجمہ:
"سلیمان الاعمش فرماتے ہیں میں ابراہم نخعی نے کہا کہ عبد اللہ بن
مسعود کی روایت کی سند بیان کریں، تو ابراہیم نے کہا:جب میں تمہیں عن رجل عن عبد
اللہ کہہ کر روایت کروں تو وہ روایت میں نے صرف اسی سے سنی ہے، اور جب میں کہوں کہ
عبد اللہ نے کہا، تو وہ روایت ایک سے زائد اشخاص نے مجھے عبد اللہ سے سنائی ہے۔"
( العلل الصغیر للترمذی:
ص 754، وشرح معانی الآثار: 1/226)
تبصرہ:
اس
روایت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہیم جب عبد اللہ سے مرسلا روایت کریں تو وہ
روایت رواۃ کی ایک جماعت نے عبد اللہ سے بیان کی ہوتی ہے۔
اس
پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے جیسا کہ علامہ معلمی نے فرمایا: " ما روي عنه أنه قال :
إذا قلت : قال عبد الله ، فهو عن غير واحد عن عبد الله . لا يدفع الانقطاع لاحتمال
أن يسمع إبراهيم عن غير واحد ممن لم يلق عبد الله، أو ممن لقيه و ليس بثقة "
ترجمہ: یہ جو ابراہیم سے مروی
ہے کہ انہوں نے فرمایا: جب میں کہوں کہ عبد اللہ نے کہا ہے تو وہ غیر واحد نے عبد
اللہ سے نقل کیا ہے، اس سے انقطاع رفع نہیں ہوتا کیونکہ احتمال ہے کہ ابراہیم نے
اسے ایسے غیر واحد لوگوں سے سنا ہو جنہوں نے عبد اللہ کو نہیں پایا یا جنہوں نے
انہیں پایا ہو لیکن ثقہ نہ ہوں۔
تو
اس کا جواب یہ ہے کہ اسی روایت کو امام ابن سعد نے اس سے افضل سند سے روایت کیا
ہے، چنانچہ امام ابن سعد فرماتے ہیں:
أخبرنا
عمروا بن الهيثم أبوقطن قال: حدثنا شعبة عن الأعمش قال: قلت: لإبراهيم: إذا حدثتني
عن عبد الله فأسند، قال: إذا قلت: قال عبد الله، فقد سمعته من غير واحد من أصحابه، وإذا قلت: حدثني
فلان، فحدثني فلان» ترجمہ: عمرو بن ہیثم شعبہ سے
روایت کرتے ہیں کہ اعمش نے کہا میں نے ابراہیم سے کہا: جب آپ عبد اللہ سے روایت
بیان کریں تو اس کی سند ذکر کر دیا کریں، تو ابراہیم نے کہا: جب میں کہوں کہ عبد
اللہ نے کہا ہے تو اسے میں عبد اللہ کے ایک سے زائد اصحاب سے سنا ہے، اور جب میں
کہوں کہ فلان نے مجھے بتایا ہے تو اس فلان نے ہی مجھے بتایا ہے۔
(طبقات الکبری لابن
سعد: 6/190)
اسی روایت کو امام ابو
زرعہ الدمشقی نے بھی اپنی تاریخ (2/131) میں احمد بن سیبویہ کے طریق سے عمرو بن
الہیثم سے نقل کیا ہے۔
عمرو
بن ہیثم ثقہ ثبت ہیں اور شعبہ کے خاص تلامذہ میں سے ہیں۔
اس
روایت میں ابراہیم نے صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ وہ جب عبد اللہ سے مرسلا روایت
کریں تو وہ روایت عبد اللہ کے غیر واحد اصحاب سے مروی ہو گی، لہٰذا اس میں علامہ
معلمی کے اعتراض کا جواب موجود ہے کہ ابراہیم نے ایسے لوگوں سے روایت لی ہو جنہوں
نے عبد اللہ کو نہیں پایا، کیونکہ ابراہیم نے صراحتا کہا ہے کہ روایت عبد اللہ کے
اصحاب سے ہے۔
اور
ابراہیم نخعی کے شیوخ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے جتنے بھی اصحاب شامل
ہیں وہ سب ثقہ کبار تابعین میں شمار ہوتے ہیں اور ان میں ایک بھی شخص ضعیف یا
مجہول نہیں ہے۔ لہٰذا علامہ معلمی کے دوسرے اعتراض کا بھی جواب اسی میں موجود ہے۔
ابراہیم کے شیوخ جو عبد
اللہ کے اصحاب ہیں یا ان سے روایت کرتے ہیں:
امام
ابراہیم نخعی کے وہ شیوخ جو عبد اللہ بن مسعود کے اصحاب ہیں یا ان سے روایت کرتے
ہیں درج ذیل ہیں:
1. الأسود بن يزيد النخعي (ثقة مخضرم)
2. الحارث بن سويد التيمي (ثقه ثبت)
3. الربيع بن خثيم الثوري (ثقة عابد مخضرم)
4. سالم بن أبي الجعد الأشجعي (ثقة)
5. شريح بن الحارث (ثقة)
6. شقيق بن سلمة الأسدي (ثقة مخضرم)
7. عبد الرحمن بن يزيد النخعي (ثقة)
8. عبد الله بن سخيرة الأزدي (ثقة)
9. عبيدة بن عمرو السلماني الكوفي (ثقة)
10.
علقمة بن قيس النخعي
(ثقة ثبت)
11.
مسروق بن الأجدع
الهمداني (ثقة)
12.
همام بن الحارث النخعي
(ثقة عابد)
جیسا کہ دیکھا جا سکتا
ہے کہ سب کے سب ثقہ تابعین ہیں اور ایک بھی ضعیف یا مجہول نہیں۔ لہٰذا یہاں
احتمالات کی زیادہ گنجائش نہیں رہتی۔
اس
قول کی تائید کرتے ہوئے شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ علامہ معلمی کے
قول کے تحت فرماتے ہیں:
" وإذا تأمل الباحث في قول إبراهيم «من غير واحد من الصحابة» يتبين
له ضعف بعض الإحتمالات التي أوردها المصنف على ثبوت رواية إبراهيم إذا قال: قال
ابن مسعود، فأن قوله: «من أصحابه» يبطل قول المصنف «أن يسمع إبراهيم من غير واحد
ممن لم يلق عبد الله» ، كما هو ظاهر"
ترجمہ:
"جب کوئی باحث ابراہیم کے قول (من غیر واحد من اصحابہ) پر غور کرے
گا تو اس پر ان بعض احتمالات کا ضعف واضح ہو جائے گا جو مصنف نے ابراہیم کی روایت
میں کیے ہیں جب وہ قال ابن مسعود کہیں۔ کیونکہ ان کا قول (من اصحابہ) مصنف کے اس
قول کو باطل کر دیتا ہے جس میں انہوں نے کہا (ہو سکتا ہے ابراہیم نے ایسے غیر واحد
سے سنا ہو جنہوں نے عبد اللہ کو نہیں پایا)، جیسا کہ ظاہر ہے۔"
علامہ
معلمی کے دوسرے اعتراض: کہ ہو سکتا ہے وہ غیر واحد اشخاص غیر ثقہ ہوں، کا جواب دیتے ہوئے
علامہ البانی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
"هذا فيه بعد. فأننا لا نعلم في أصحاب ابن مسعود المعروفين من ليس
بثقة، ثم أن عبارته المتقدمة منا آنفاً صريحة في أنه لا يسقط الواسطة بينه وبين
ابن مسعود إلا الذي كان حدثه عنه أكثر من واحد من أصحابه. فكون الأكثر منهم - لا
الواحد - غير ثقة بعيد جداً. لا سيما وإبراهيم إنما يروي كذلك مشيراً إلى صحة
الرواية عن ابن مسعود. والله أعلم."
ترجمہ:
"یہ قول بعید ہے کیونکہ ہم ابن مسعود کے معروف اصحاب میں سے کسی بھی
ایسے شخص کو نہیں جانتے جو ثقہ نہ ہو۔ مزید یہ کہ براہیم کی مذکورہ بالا عبارت اس
بات پر بالکل واضح اور صریح ہے کہ وہ اپنے اور ابن مسعود کے درمیان واسطے کو صرف
تب گراتے ہیں جب اس روایت کو ابن مسعود کے ایک سے زیادہ اصحاب نے انہیں بیان کیا
ہو۔ لہٰذا ان میں سے اکثر – نہ کہ صرف ایک شخص – کا غیر ثقہ ہونا بہت ہی بعید بات
ہے۔ خاص کر جب ابراہیم صحت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے (یعنی بالجزم) ابن مسعود سے
روایت کرتے ہیں، واللہ اعلم۔" (حاشیہ
التنکیل للالبانی: 2/898)
شیخ
البانی کا یہ کلام اوپر بیان کی گئی باتوں کی عین تائید کرتا ہے۔ مزید یہ کہ
ابراہیم کی عبد اللہ سے مراسیل پر بڑے ائمہ ومحدثین نے بھی صحت کا حکم لگایا ہے۔
محدثین کے نزدیک ابراہیمؒ
کی سیدنا عبد اللہ سے روایت کا حکم:
ابراہیم
کی عبد اللہ بن مسعود سے مرسل روایات کے بارے میں بعض محدثین کیا کہتے ہیں وہ بھی
دیکھ لیتے ہیں:
1-
حافظ علائی فرماتے ہیں:
"جماعة من الأئمة صححوا مراسيله كما تقدم وخص البيهقيي ذلك بما
أرسله عن بن مسعود" ائمہ کی ایک جماعت نے ابراہیم کی مراسیل کو صحیح
قرار دیا ہے جیسا کہ پیچھے گزرا، جبکہ بیہقی نے اسے ان کی ابن مسعود سے مرسل روایت
پر خاص کیا ہے۔
(جامع التحصیل: ص 141)
2-
امام
ابو بکر البیہقیؒ نے ایک جگہ ابراہیم اور شعبی کی ابن مسعود سے منقطع روایت کو ایک
متصل روایت پر ترجیح دیتے ہوئے فرمایا:
"والشعبي وإبراهيم
النخعي أعلم بمذهب عبد الله بن مسعود، وإن لم يرياه، من رواية أبي قيس الأودي وإن
كانت موصولة، إلا أن لرواية أبي قيس شاهدا؛ فيحتمل أنه كان يقول ذلك ثم رجع عنه
إلى ما تقرر عند الشعبي والنخعي من مذهبه والله أعلم "
(شعبی
اور ابراہیم النخعی عبداللہ بن مسعود کے مذہب کو بہتر جانتے ہیں، اگرچہ انہوں نے
انہیں نہیں دیکھا، بنسبت ابو قیس الاودی کی روایت کے، اگرچہ وہ متصل ہے۔ تاہم، ابو
قیس کی روایت کا ایک شاہد موجود ہے؛ اس لیے ممکن ہے کہ ابن مسعود پہلے یہ کہتے ہوں
اور پھر اس سے رجوع کر کے شعبی اور نخعی کے نزدیک ابن مسعود کا جو مذہب مقرر ہے اس
کو اختیار کر لیا ہو۔ واللہ اعلم۔)
(السنن
الکبری للبیہقی: 12481)
3-
امام ابو جعفر الطحاویؒ
فرماتے ہیں: "كان إبراهيم , إذا أرسل عن عبد الله , لم يرسله إلا بعد صحته عنده
, وتواتر الرواية عن عبد الله.... فكذلك هذا الذي أرسله عن عبد الله لم يرسله إلا
ومخرجه عنده أصح من مخرج ما يرويه عن رجل بعينه عن عبد الله" ترجمہ: ابراہیم عبد اللہ بن
مسعود سے تب ہی ارسال کرتے تھے جب اس کی صحت ان کے نزدیک ثابت ہو جاتی، اور عبد
اللہ سے اس کی روایت متواتر ہوتی۔۔۔۔ پس اسی طرح یہ روایت جو انہوں نے عبد اللہ سے
مرسلا بیان کی ہے اس کا مخرج ان کے نزدیک ایک آدمی کا واسطہ ذکر کر دینے سے زیادہ
صحیح ہے۔
(شرح معانی الآثار:
1/226)
4-
امام العلل، علی بن عمر
الدارقطنیؒ ابراہیم کی ابن مسعود سے منقطع روایت کو متصل روایت پر ترجیح دیتے ہوئے
فرماتے ہیں:
" فهذه الرواية وإن كان فيها إرسال فإبراهيم النخعي هو أعلم الناس
بعبد الله وبرأيه وبفتياه قد أخذ ذلك عن أخواله علقمة والأسود وعبد الرحمن ابني
يزيد وغيرهم من كبراء أصحاب عبد الله وهو القائل إذا قلت لكم قال عبد الله بن
مسعود فهو عن جماعة من أصحابه عنه وإذا سمعته من رجل واحد سميته لكم"
(یہ روایت اگرچہ مرسل ہے، لیکن ابراہیم نخعی، عبداللہ بن مسعودکی آراء
اور ان کے فتاویٰ کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ انہوں نے یہ علم اپنے ماموں
علقمہ، اسود، عبدالرحمن بن یزید اور دیگر بڑے بڑے عبداللہ بن مسعود کے شاگردوں سے
حاصل کیا ہے۔ اور وہ خود اس بات کا قائل ہیں کہ جب میں آپ سے کہوں کہ عبداللہ بن
مسعود نے کہا، تو یہ ان کے کئی شاگردوں سے ہے، اور اگر میں نے اسے کسی ایک شخص سے
سنا ہو تو اس کا نام آپ کو بتاؤں گا۔)
(سنن الدارقطنی: 266)
5-
امام ابن عبد البرؒ ابراہیم نخعی کا مذکورہ بالا قول نقل کرنے کے
بعد فرماتے ہیں: "إلى هذا نزع من أصحابنا من زعم أن مرسل الإمام أولى من مسنده لأن
في هذا الخبر ما يدل على أن مراسيل إبراهيم النخعي أقوى من مسانيده وهو لعمري كذلك
إلا أن إبراهيم ليس بعيار على غيره " (ہمارے اصحاب میں سے جنہوں نے یہ دعویٰ
کیا ہے کہ (ہمارے) امام کی مرسل روایت اس کی مسند روایت سے بہتر ہے، اسی جانب مائل
تھے کیونکہ اس خبر میں یہ اشارہ ہے کہ ابراہیم نخعی کی مرسل روایات ان کی مسند
روایات سے زیادہ مضبوط ہیں۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے، مگر ابراہیم دوسرے لوگوں کے
لیے معیار نہیں ہیں)۔
(التمہید: 1/38)
6-
حافظ ابن رجب الحنبلی
رحمہ اللہ ابراہیم کے قول کی شرح میں فرماتے ہیں: "هذا يقتضي ترجيح المرسل
على المسند، لكن عن النخعي خاصة، فيما أرسله عن ابن مسعود خاصة. وقد قال أحمد في
مراسيل النخعي، لا بأس بها. " ترجمہ: یہ قول اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مرسل کو مسند پر ترجیح دی
جائے، لیکن صرف ابراہیم نخعی کی روایت میں ہی، جس میں انہوں نے خاص ابن مسعود سے
ارسال کیا ہو۔ جبکہ امام احمد ابراہیم نخعی کی مراسیل کے متعلق فرماتے ہیں کہ ان
میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(شرح علل الترمذی:
1/542)
7-
حافظ
ابن حجر العسقلانیؒ فرماتے ہیں:
"إبراهيم النخعي لم يلق ابن مسعود، وانما أخذ عن كبار أصحابه"
(ابراہیم
نخعی نے ابن مسعود سے ملاقات نہیں کی، بلکہ ان کے کبار اصحاب سے (ابن مسعود کا
علم) اخذ کیا ہے)
(فتح
الباری: 4/175)
8-
امام
الجرح والتعدیل یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مرسلات إِبراهيم صحيحة، إِلا حديث تاجر البحرين، وحديث الضحك في
الصَّلاة
ترجمہ:
"ابراہیم
کی تمام مرسل روایتیں صحیح ہوتی ہیں سوائے حدیث تاجر البحرین اور ضحک فی الصلاۃ
کے"
(تاریخ
ابن معین روایۃ الدوری: 959)
اور ایک دوسری جگہ پر فرمایا:
" مرسلات إِبراهيم أصح من مرسلات سَعيد بن المُسَيَّب، والحَسَن"
ترجمہ: "ابراہیم کی مرسل
روایتیں سعید بن المسیب اور حسن بصری کی مرسل روایتوں سے بھی زیادہ صحیح ہیں"
(دیکھیں: تاریخ ابن
معین روایۃ الدوری: 960، وروایۃ ابن محرز: 1/588)
اور سبھی جانتے ہیں کہ
سعید بن مسیب کی مرسل روایات سب سے زیادہ صحیح مانی جاتی ہیں یہاں تک کہ امام
شافعی نے بھی مرسلات کے متعلق اپنے سخت اصول کے باوجود ان کی مرسل کو صحیح کہا ہے۔
اور
امام یحیی کا پہلا قول ان کا ابراہیم کی مرسلات کا تتبع اور قریبی معائنہ وعلم کی
طرف صاف اشارہ کرتا ہے
9-
امام
احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " ومرسلات إبراهيم
النخعي لا بأس بها" ابراہیم
کی مرسلات میں کوئی حرج نہیں
(المعرفۃ
والتاریخ: 3/239)
10-
امام
ابن القیم الجوزیہؒ نے بہترین خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"وَإِبْرَاهِيمُ لَمْ
يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللّهِ وَلَكِنّ الْوَاسِطَةَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ أَصْحَابُ
عَبْدِ اللّهِ كَعَلْقَمَةَ وَنَحْوِهِ . وَقَدْ قَالَ إبْرَاهِيمُ إذَا قُلْتُ
قَالَ عَبْدُ اللّهِ فَقَدْ حَدّثَنِي بِهِ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْهُ وَإِذَا قُلْت :
قَالَ فُلَانٌ عَنْهُ فَهُوَ عَمّنْ سَمّيْت أَوْ كَمَا قَالَ . وَمِنْ
الْمَعْلُومِ أَنّ بَيْنَ إبْرَاهِيمَ وَعَبْدِ اللّهِ أَئِمّةً ثِقَاتٍ لَمْ
يُسَمّ قَطّ مُتّهَمًا وَلَا مَجْرُوحًا وَلَا مَجْهُولًا فَشُيُوخُهُ الّذِينَ
أَخَذَ عَنْهُمْ عَنْ عَبْدِ اللّهِ أَئِمّةٌ أَجِلّاءٌ نُبَلَاءُ وَكَانُوا كَمَا
قِيلَ سُرُجُ الْكُوفَةِ وَكُلّ مَنْ لَهُ ذَوْقٌ فِي الْحَدِيثِ إذَا قَالَ
إبْرَاهِيمُ قَالَ عَبْدُ اللّهِ لَمْ يَتَوَقّفْ فِي ثُبُوتِهِ عَنْهُ وَإِنْ
كَانَ غَيْرُهُ مِمّنْ فِي طَبَقَتِهِ لَوْ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللّهِ لَا
يَحْصُلُ لَنَا الثّبْتُ بِقَوْلِهِ فَإِبْرَاهِيمُ عَنْ عَبْدِ اللّهِ نَظِيرُ
ابْنِ الْمُسَيّبِ عَنْ عُمَرَ وَنَظِيرُ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ فَإِنّ
الْوَسَائِطَ بَيْنَ هَؤُلَاءِ وَبَيْنَ الصّحَابَةِ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ إذَا
سَمّوْهُمْ وُجِدُوا مِنْ أَجَلّ النّاسِ وَأَوْثَقِهِمْ وَأَصْدَقِهِمْ وَلَا
يُسَمّونَ سِوَاهُمْ الْبَتّةَ"
(ابراہیم
نے عبداللہ (ابن مسعود) سے نہیں سنا، لیکن ان کے اور عبداللہ کے درمیان واسطہ
عبداللہ کے شاگرد جیسے علقمہ اور ان جیسے دیگر افراد تھے۔ اور ابراہیم نے کہا ہے:
جب میں کہوں کہ عبداللہ نے کہا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اس کے بارے میں ایک
سے زیادہ لوگوں نے بتایا ہے، اور جب میں کہوں کہ فلاں نے کہا، تو یہ اس شخص سے ہے
جس کا میں نے نام لیا ہے یا جیسا کہ انہوں نے کہا۔ اور یہ بات معلوم شدہ ہے کہ
ابراہیم اور عبداللہ کے درمیان لوگ جن کا نام نہیں لیا گیا ائمہ ثقات ہیں جن پر
کبھی بھی کوئی الزام یا جرح نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہ مجہول ہیں۔ ابراہیم کے
اساتذہ، جن سے انہوں نے عبداللہ کے بارے میں علم حاصل کیا، جلیل القدر، نیک اور
معزز ائمہ تھے اور انہیں کوفہ کے چراغ کہا جاتا تھا۔ اور ہر وہ شخص جو حدیث کا ذوق
رکھتا ہے، اگر ابراہیم یہ کہیں کہ عبداللہ نے کہا، تو اس کے ان سے ثابت ہونے پر
کوئی شک نہیں کرتا ہے۔ لیکن اگر کوئی اور شخص جو ان کے طبقہ میں ہو، یہ کہے کہ
عبداللہ نے کہا، تو ہمیں اس کی بات سے کوئی یقین نہیں ہوتا۔ لہٰذا، ابراہیم کا
عبداللہ سے روایت کرنا ابن مسیب کا عمر سے اور مالک کا ابن عمر سے روایت کرنے کے
مترادف ہے۔ کیونکہ ان کے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان واسطے ، جب ان کا نام
لیا جائے تو وہ جلیل القدر، معتبر اور سچے لوگوں میں سے ہوتے ہیں اور کبھی بھی ان
کے سوا کسی کا نام نہیں لیتے۔)
(زاد
المعاد: 5/577)
چند
اشکالات کا جائزہ:
مرسل
روایت کے بارے میں عام اصول یہ ہے کہ وہ منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہوتی ہے، اور
یہاں بھی ظاہر انقطاع ہی ہے، لیکن ان کبار ائمہ کا ابراہیم کی روایات کو اس عام
اصول سے مستثنی کرنا ان کے علم اور استقراء کا ثبوت ہے۔ اور یہ اصول معلوم شدہ ہے
کہ جب کوئی چیز کسی عام حکم سے خاص کی جائے تو وہ علم کی بنیاد پر مقدم ہوتی
ہے۔اور اس کو رد کرنے کے لئے عام اصول کا سہارا نہیں لیا جا سکتا بلکہ اس کے لئے
خاص جرح یا قول کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس
کے باوجود بعض لوگ اس کے رد میں چند عام اقوال سے استدلال لیتے ہیں، مثلا:
1-
امام
شافعی کا قول: "وأصل قولنا أن إبراهيم لو روي عن علي وعبد الله لم يقبل منه لأنه
لم يلق واحدا منهما"
ترجمہ:
"ہمارے قول کی اصل یہ ہے کہ ابراہیم اگر سیدنا علی اور سیدنا
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے روایت کریں تو قبول نہیں کیوں کہ ابراہیم کی
ان دونوں میں سے کسی سے ملاقات نہیں ہے۔"
(کتاب
الام: 1/105)
عرض ہے کہ:
· امام شافعی یہاں خود اپنے اس قول کی دلیل کے طور پر ابراہیم
کا ان دونوں اصحاب سے عدم لقاء کو پیش کر رہے ہیں، الغرض ان کا یہ رد کرنا ایک عام
اصول کے تحت ہے جو کسی خاص علم کو مستلزم نہیں۔
· امام احمد، اور ابن معین وغیرہ بھی اچھی طرح جانتے اور مانتے ہیں
کہ ان کے درمیان انقطاع ہے، لیکن انہوں نے اس کے باوجود ایک خاص اور اضافی قول کے
طور پر کہا ہے کہ ان کی یہ مرسلات صحیح ہیں۔
· یہ قاعدہ عام ہے کہ جاننے والا نا جاننے والے
پر حجت ہوتا ہے۔ چنانچہ جس نے اپنے علم کی بنیاد پر اضافی بات کی وہ اس پر مقدم ہے
جس نے عموم اور ظاہری حالت کے پیش نظر فیصلہ کیا۔
· امام شافعی اگرچہ فقہ میں مقدم تھے، لیکن
حدیث، ورجال وعلل واسانید وغیرہ میں وہ امام احمد، اور امام یحیی بن معین وغیرہ
جیسے نہیں تھے، لہذا اس فن میں ان دونوں کبار کی باتوں کو زیادہ وزن حاصل ہے۔
· اس بات کا بھی کوئی اتہ پتہ نہیں کہ امام
شافعی کو ابراہیم کے اس قول کا بھی علم تھا یہ نہیں جس میں انہوں نے ابراہیم سے
اپنی مرسل کی وضاحت کی ہے۔
2-
امام
ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " استقر الأمر على أن إبراهيم حجة، وأنه إذا أرسل عن ابن مسعود
وغيره فليس ذلك بحجة "
ترجمہ:
"ابراہیم نخعی کے حجت ہونے پر اتفاق ہے لیکن جب عبد اللہ بن
مسعود وغیرہ سے روایت کریں تو حجت نہیں"
(میزان
الاعتدال: 1/75)
اس میں بھی وہی
جوابات کار فرما ہیں جو اوپر امام شافعی کے قول میں پیش کئے گئے ہیں۔
اس
میں ایک اور بات کا اشکال ہے کہ امام ذہبی نے یہ فیصلہ میزان الاعتدال میں ذکر کیا
ہے لیکن اس میں ابراہیم کے وضاحتی کے قول کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔
جبکہ
سیر اعلام النبلاء میں انہوں نے نہ صرف اس قول کو ذکر کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ
امام یحیی بن معین کا وہ قول بھی نقل کیا ہے جس میں انہوں نے ابراہیم کی مراسیل کو
صحیح کہا ہے اور اس پر انہوں نے کوئی وضاحتی نوٹ نہیں لگایا۔
اس
سے اس بات کا قوی امکان معلوم ہوتا ہے کہ امام ذہبی کا یہ قول منسوخ ہو۔ اور یہ
امام ذہبی سے بعید نہیں ہے کیونکہ میزان الاعتدال میں بے شمار مثالیں موجود ہیں جن
کو امام ذہبی نے بعد میں سیر میں تبدیل کیا ہے۔ اور ان دونوں کتابوں کی تاریخ
کتابت میں دس سے بھی زیادہ سال کا فرق ہے۔
بہرحال
کبار ائمہ نقاد کا قول ان کے قول پر مقدم
ہے۔
اس
کے علاوہ جو چند اقوال پیش کئے جاتے ہیں وہ سبھی عمومی اصول پر مبنی اقوال ہیں جن
کا جواب دے دیا گیا ہے۔
لہٰذا
ابراہیم کی عبد اللہ سے مرسل روایت جس میں نکارت نہ ہو، یا کم از کم عبد اللہ بن
مسعود کے اپنے اقوال، فقہ، اور افعال پر مشتمل روایات جن میں اتنی سختی نہیں برتی
جاتی، صحیح ہوں گی، ان شاء اللہ۔ اور اگر
کہا جائے کہ ابراہیم کے شیوخ مجاہیل ہو سکتے ہیں تو یہ بعید ہے کیونکہ ابراہیم کے
تمام شیوخ جو ابن مسعود کے اصحاب شمار ہوتے ہیں وہ ثقہ ہیں۔ اور اگر کوئی ضعیف یا
مجہول ہو بھی تو وہ ایک دوسرے کو مل کر تقویت دے دیتے ہیں کیونکہ ابراہیم نے خود
وضاحت کی ہے کہ وہ ایک سے زائد اصحاب کے زریعے ایسی روایات نقل کرتے ہیں۔ واللہ
الحمد
واللہ
اعلم۔
Post a Comment