عن يحيى بن سعيد الأنصاري، أخبرني محمد بن إبراهيم التيمي، أنه سمع علقمة بن وقاص الليثي، يقول سمعت عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه قال: سمعت رسول
الله صلى الله تعالى عليه وعلى آله وسلم يقول: "إنما
الأعمال بالنيات، وإنما لكل امرئ ما نوى، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله فهجرته
إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها أو امرأة ينكحها فهجرته إلى ما
هاجر إليه". رواه إماما
المحدثين: أبو عبد الله محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة بن بردزبه
البخاري وأبو الحسين مسلم بن الحجاج بن مسلم القشيري النيسابوري في صحيحيهما
اللذين هما أصح الكتب المصنفة. |
|
یحیی بن سعید الانصاری روایت کرتے ہیں کہ مجھے محمد
بن ابراہیم التیمی نے بتایا، انہوں نے علقمہ
بن وقاص اللیثی سے سنا، انہوں نے امیر المؤمنین
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا،
انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: "اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے- ہر شخص کے لیے وہی کچھ
ہے جس کی اس نے نیت کی' چنانچہ جس شخص کی ہجرت (بہ اعتبارِ نیت) اللہ اور اس کے
رسول کی طرف ہے تو اس کی ہجرت (بہ اعتبارِ انجام بھی) اللہ اور اس کے رسول ہی کی
طرف ہے' اور جس کی ہجرت (بہ اعتبارِ نیت) دنیا کی طرف ہےکہ وہ اسے حاصل کر لے یا
کسی عورت کی طرف ہے کہ وہ اس سے شادی کر لے تو اس کی ہجرت (بہ اعتبارِ انجام) اسی
چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے" (اس حدیث کی تخریج امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی اپنی
صحیح کتابوں میں کی ہے، واضح رہے کہ یہ دونوں کتابیں تصنیف کردہ کتابوں میں سب
سے زیادہ صحیح ہیں) |
تحقیق
وتخریج: (متفق
عليه) امام یحیی بن سعید الانصاری
رحمہ اللہ سے اس سند کے ساتھ یہ روایت کرنے میں بے شمار ائمہ ومحدثین
مشترک ہیں، جن میں سے بعض
درج ذیل ہیں: · مالك بن أنس o
محمد بن الحسن
الشيباني [الموطأ برواية الشيباني (٩٨٣)] o
عبد الله بن
مسلمة القعنبي §
البخاري [الصحيح
(٥٤)] §
مسلم [الصحيح
(١٩٠٧)] §
عمرو بن منصور
النسائي ·
النسائي [السنن
(٣٤٣٧)] §
يزيد بن سنان ·
الطحاوي [شرح
مشكل الآثار (٥١٠٨)] o
يحيي بن قزعة §
البخاري [الصحيح
(٥٠٧٠)] o
عبد الرحمن بن
القاسم §
الحارث بن
مسكين ·
النسائي [السنن
(٧٥، ٣٤٣٧)] o
عبد الله بن
وهب المصري §
الربيع بن
سليمان المرادي ·
أبو عوانة [المستخرج
(٧٤٣٩)] §
عيسي بن أحمد
العسقلاني ·
أبو عوانة [المستخرج
(٧٤٣٩)] §
يونس بن عبد
الأعلي ·
أبو عوانة [المستخرج
(٧٤٣٩)] ·
الطحاوي [شرح
مشكل الآثار (٥١٠٧)] ·
محمد بن
الربيع بن سليمان الجيزي o
ابن الأعرابي [المعجم
(٦٥٢)] o
أشهب بن عبد
العزيز §
محمد بن عبد
الله بن عبد الحكم ·
الطحاوي [شرح
مشكل الآثار (٥١٠٩)] · سفيان بن عيينة o
الحميدي [مسند
حميدي (٢٨)] §
البخاري [صحيح
البخاري (٢٥٢٩)] §
بشر بن موسي ·
أبو عوانة [المستخرج
(٧٤٣٩)] o
أحمد بن حنبل [مسند
أحمد (١٦٨)] o
محمد بن يحيي
بن أبي عمر العدني §
مسلم [الصحيح
(١٩٠٧)] o
محمد بن عبد
الله بن يزيد المقرئ §
ابن الجارود [المنتقي
من السنن المسندة (٦٤)] §
الطوسي [المستخرج
علي الترمذي (١٢٧٠)] o
عبد الله بن
محمد الزهري §
الطوسي [المستخرج
علي الترمذي (١٢٧٠)] ·
عبد
الله بن المبارك [الزهد لابن المبارك (١/٦٢)] o
محمد بن
العلاء الهمداني §
مسلم [الصحيح
(١٩٠٧)] o
سليمان بن
منصور البلخي §
النسائي [السنن
(٧٥)] o
سويد بن نصر §
النسائي [السنن
الكبري (١١٨٠٤)] o
أسد بن موسي §
الربيع بن
سليمان المرادي ·
الطحاوي [شرح
مشكل الآثار (٥١١٤)] o
حبان بن موسي §
الحسن بن
سفيان النسوي [الأربعون للنسوي (١٢)] o
عبد الله بن
محمد بن أسماء §
الحسن بن
سفيان النسوي [الأربعون للنسوي (١٢)] o
نعيم بن حماد §
أبو علي حمزة
بن محمد الكاتب ·
أبو العباس
أحمد بن إبراهيم بن علي الكندي o
ابن بشران [الأمالي (٨٣٣)] ·
حماد
بن زيد o
أبو داود الطيالسي o
مسدد بن مسرهد §
البخاري [الصحيح
(٣٨٩٨)] o
أبو النعمان
محمد بن الفضل: عارم §
البخاري [الصحيح
(٦٩٥٣)] o
أبو الربيع
العتكي الزهراني §
مسلم [الصحيح
(١٩٠٧)] §
ابن أبي عاصم [الزهد
لابن أبي عاصم (٢٠٦)] o
يحيي بن حبيب
بن عربي الحارثي §
النسائي [السنن
(٧٥)] §
ابن خزيمة [الصحيح
(١٤٢، ٤٥٥)] o
أحمد بن عبدة
الضبي §
ابن خزيمة [الصحيح
(١٤٢، ٤٥٥)] o
سليمان بن حرب §
إبراهيم بن
مرزوق ·
الطحاوي [شرح
مشكل الآثار (٥١١١)] o
محمد بن عبد
الملك بن أبي الشوارب §
البزار [المسند
(٢٥٧)] ·
سفيان
الثوري o
محمد بن كثير
العبدي §
البخاري [الصحيح
(٢٥٢٩)] §
أبو داود
السجستاني [السنن (٢٢٠١)] §
يزيد بن سنان ·
الطحاوي [شرح
مشكل الآثار (٥١١٠)] §
أحمد بن محمد
بن عيسى البرتي ·
أحمد بن محمد
بن إبراهيم: ابن ممك الأصبهاني o
ابن مندة [الإيمان (١٧)] §
أحمد بن داود
بن موسى المكي ·
أحمد بن الحسن
بن عتبة الرازي o
ابن مندة [الإيمان (١٧)] o
وكيع بن الجراح
[الزهد
لوكيع (٣٥١)] §
هناد بن السري
[الزهد
لهناد بن السري (٢/٤٤٠)] §
سفيان بن وكيع ·
الطبري [تهذيب
الآثار مسند عمر (٢/٧٨٤)] ·
عبد
الوهاب بن عبد المجيد الثقفي o
قتيبة بن سعيد §
البخاري [الصحيح
(٦٦٨٩)] o
محمد بن
المثني §
مسلم [الصحيح
(١٩٠٧)] §
الترمذي [السنن
(١٦٤٧)] o
محمد بن
الوليد القرشي يلقب حمدان §
ابن خزيمة [الصحيح
(١٤٣)] o
عمر بن شبة
النميري §
أبو عوانة [المستخرج
(٧٤٣٨)] o
عبيد الله بن
محمد بن حفص القرشي: المعروف بابن عائشة §
أبو رفاعة عبد
الله بن محمد العدوي ·
ابن الأعرابي [المعجم
(١٩٨٥)] o
عبد الجبار بن
العلاء §
أبو عروبة
الحسين بن أبي معشر السلمي ·
أبو أحمد الحاكم
[شعار
أصحاب الحديث (٢٠)] ·
الليث
بن سعد o
محمد بن رمح بن
المهاجر §
مسلم [الصحيح
(١٩٠٧)] §
ابن ماجة [السنن
(٤٢٢٧)] o
عبد الله بن
صالح كاتب الليث §
المطلب بن
شعيب ·
الطحاوي [شرح
مشكل الآثار (٥١١٢)] ·
أبو
خالد الأحمر سليمان بن حيان o
إسحاق بن
راهويه §
مسلم [الصحيح
(١٩٠٧)] §
النسائي [السنن
(٣٧٩٤)] ·
يزيد
بن هارون o
أحمد بن حنبل [المسند
(٣٠٠)] o
محمد بن عبد
الله بن نمير §
مسلم [الصحيح
(١٩٠٧)] o
أبو بكر بن
أبي شيبة §
ابن ماجة [السنن
(٤٢٢٧)] o
محمد بن إسحاق
الصاغاني §
أبو عوانة [المستخرج
(٧٤٣٨)] o
يوسف بن موسى
الرازي §
الحسين بن
إسماعيل المحاملي القاضي ·
الدارقطني [السنن
(١٣١)] o
إبراهيم بن
عبد الله السعدي §
ابن المنذر [الأوسط
(٣٤٦)] o
الحارث بن أبي
أسامة §
أبو بكر بن
خلاد ·
أبو نعيم
الأصبهاني [معرفة الصحابة (٢١٢)] o
محمد بن رمح
السمك البزاز §
أبو بكر
الشافعي
[الغيلانيات (٣٣٦)] o
عبد الله بن
روح المدائني §
أبو بكر
الشافعي [الغيلانيات
(٣٣٦)] ·
حفص
بن غياث o
محمد بن عبد
الله بن نمير §
مسلم [الصحيح
(١٩٠٧)] ·
يحيى
بن سعيد القطان o
عبد الله بن
هاشم الطوسي §
علي بن محمد
القباني ·
ابن حبان [الصحيح
(٣٨٨)] ·
زهير
بن محمد التميمي o
أبو داود
الطيالسي [المسند (٣٧)] ·
جعفر
بن عون o
محمد بن إسحاق
الصاغاني §
أبو عوانة [المستخرج
(٧٤٣٨)] o
يوسف بن موسى
الرازي §
الحسين بن
إسماعيل المحاملي القاضي ·
الدارقطني [السنن
(١٣١)] o
عبد الأعلي بن
واصل الأسدي §
محمد بن جرير
الطبري [تهذيب
الآثار مسند عمر (٢/٧٨٦)] o
محمد بن عبد
الوهاب العبدي §
ابن المنذر [الأوسط
(١٢٥٢)] ·
عبد
الرحمن بن عمرو الأوزاعي o
مروان بن محمد
الطاطري §
أحمد بن أبي
الحواري ·
أبو حاتم
الرازي o
ابن أبي حاتم [الجرح والتعديل (١/٢١٣)] o
أبو خليد عتبة
بن حماد §
سليمان بن عبد
الرحمن التميمي ·
أبو هبيرة
محمد بن الوليد الدمشقي o
أبو علي الحسن بن حبيب §
تمام الرازي [فوائد
تمام (٤٨٦)] ·
زهير
بن معاوية o
المعافي بن
سليمان §
محمد بن أحمد
بن البراء ·
أبو القاسم
عبد الرحمن بن العباس الوراق o
أبو نعيم الأصبهاني [أخبار أصبهان (٢/٢٧٦)] o
أحمد بن عبد
الله بن يونس اليربوعي §
إبراهيم بن
شريك الأسدي ·
أحمد بن جعفر
القطيعي o
الحسن بن محمد الخلال [المجالس العشرة للخلال
(١٣)] ·
يحيى
بن أيوب الغافقي o
إسحاق بن
الفرات §
محمد بن عبد
الله بن عبد الحكم ·
محمد بن الربيع
بن سليمان الجيزي o
ابن الأعرابي [معجم ابن الأعرابي
(٦٥١)] o
ابن المقرئ [معجم ابن المقرئ (١)] ·
عمرو
بن الحارث المصري o
عبد الله بن
وهب المصري §
حرملة بن يحيى
المصري ·
أبو القاسم
علي بن الحسن بن خلف المصري o [معجم ابن المقرئ (١١٣٩)] |
||
شرح
وفوائد:
صحت حدیث/ اسنادی بحث: ·
امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ (م 702 ھ) فرماتے ہیں: "یہ حدیث صحیح ہے
اور اس کی صحت وعظیم مکان، وجلالت، اور کثرتِ فوائد پر سب کا اتفاق ہے۔۔۔ اور یہ
ان احادیث میں سے ہے جن پر اسلام کا دار ومدار (یعنی بنیاد) قائم ہے"۔
(شرح
الأربعين لابن دقيق العيد: ص 24) · امام ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ (م 795 ھ) فرماتے ہیں: "اس حدیث کی روایت
میں یحیی بن سعید الانصاری منفرد ہیں اسے محمد بن ابراہیم التیمی عن علقمہ بن وقاص اللیثی عن عمر بن الخطاب رضی
اللہ عنہ سے روایت کرنے میں۔ نیز اس طریق کے علاوہ اس حدیث کا دوسرا کوئی صحیح
طریق موجود نہیں ہے، جیسا کہ امام علی بن المدینی وغیرہ نے فرمایا ہے۔ جبکہ امام
خطابی فرماتے ہیں کہ اس بات پر اہل حدیث کے کسی اختلاف کو میں نہیں جانتا۔ اگرچہ یہ روایت حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کے طریق سے بھی مروی ہے،
اور کہا جاتا ہے کہ اس کے دیگر کئی طرق ہیں لیکن ماہر حفاظ کے نزدیک ان میں سے
کوئی طریق درجہِ صحت کو نہیں پہنچتا ہے۔ مزید یہ کہ امام یحیی الانصاری سے اسے روایت کرنے والوں میں ایک خلقِ کثیر
اور جمِ غفیر شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان سے اسے روایت کرنے والے راویوں کی
تعداد سو (100) سے زیادہ ہے۔ ان میں سب سے نمایاں ترین نام: امام مالک، امام
سفیان ثوری، امام اوزاعی، امام ابن المبارک، امام لیث بن سعد، امام حماد بن زید،
امام شعبہ، امام سفیان بن عیینہ، (امام یحیی القطان، اور امام ابو خیثمہ زہیر بن
معاویہ) وغیرہم کے ہیں۔ نیز تمام علماء کا اس کی صحت اور اس کے تلقی بالقبول ہونے پر اتفاق ہے " (جامع العلوم والحكم لابن رجب: ص 59-61)۔ ·
نوٹ: اس
حدیث کی اسناد نقل ہونے کے اعتبار سے دو انتہاؤں پر ہے۔ امام یحیی بن سعید
الانصاری سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تک یہ اسناد غریب ہے۔ جبکہ امام یحیی
الانصاری سے یہ روایت متواتر کے درجے تک پہنچتی ہے۔ اس حدیث کی اہمیت اور مکان ومرتبہ: · اس
حدیث کی اہمیت اس بات سے واضح ہوتی ہے کہ امام بخاری (م 256 ھ) نے اپنی صحیح کی ابتداء اس حدیث سے کی،
اور اسے کتاب کے خطبہ کے قائم مقام رکھا، اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ کوئی بھی
عمل جو اللہ کے لیے نہ ہووہ باطل ہے اور اس کا کوئی ثمرہ نہیں، نہ دنیا میں اور
نہ آخرت میں۔ · اسی
لیے امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ (م 198 ھ) نے فرمایا: "اگر میں ابواب (کی
ترتیب) پر کوئی کتاب لکھتا تو حضرت عمر بن خطاب کی الاعمال بالنیات والی حدیث کو
ہر باب میں رکھتا۔" اور ایک دوسرے قول میں آپ نے فرمایا: "جو شخص کتاب کی
تصنیف کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہیے کہ الاعمال بالنیات والی حدیث سے ابتداء کرے۔"
(جامع
العلوم والحكم: ص 61)۔ · یہ
حدیث ان احادیث میں سے ہے جس پر دین کا دار ومدار ہے، چنانچہ امام شافعی رحمہ
اللہ (م 204 ھ) فرماتے ہیں: "یہ حدیث علم کا تہائی حصہ ہے، اور فقہ کے ستر ابواب
میں داخل ہوتی ہے" (جامع العلوم والحكم: ص 61)۔ · امام
احمد بن حنبل رحمہ اللہ (م 241 ھ) نے فرمایا: "اسلام کے بنیادی
اصول تین احادیث پر مشتمل ہیں: (1) حضرت عمر کی حدیث: "اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے"، (2) سیدہ عائشہ
کی حدیث: "جس نے ہمارے اس امر میں کوئی
چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے"، (3) اور النعمان بن
بشیر کی حدیث:" حلال واضح ہے اور حرام
واضح ہے۔۔۔" (جامع العلوم والحكم: ص 61)۔ · امام
اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (م 238 ھ) نے فرمایا: "چار حدیثیں دین کے
بنیادی اصولوں میں سے ہیں: (1) حضرت عمر کی حدیث: "اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے"، (2) حدیث: "حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے"، (3) حدیث: "تم میں سے ہر ایک کا مادہِ تخلیق اپنی ماں کے پیٹ
میں (چالیس راتوں میں) جمع رہتا ہے۔۔۔"، اور (4)
حدیث: "جو شخص ہمارے اس امر میں کوئی
چیز ایجاد کرے جو اس میں سے نہیں تو وہ رَدہے" (جامع
العلوم والحكم: ص 62)۔ · امام
ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ (م 224 ھ) نے فرمایا: "نبی اکرم ﷺ نے آخرت
کا سارا معاملہ ایک جملے میں جمع کر دیا: (جس
نے ہمارے اس امر میں کوئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ رد ہے)، اور آپ ﷺ نے اس
دنیا کا سارا معاملہ ایک جملے میں جمع کر دیا: (اعمال
کا دار ومدار تو نیتوں پر ہے)" (ذم الكلام وأهله للهروي: ص 26، وجامع العلوم والحكم: ص 62)۔ · امام
ابو داود صاحب السنن رحمہ اللہ (م 275 ھ) فرماتے ہیں: "میں نے مسند حدیث
کی طرف غور کیا تو پایا کہ وہ چار ہزار حدیثیں ہیں، پھر میں نے غور کیا تو پایا
کہ ان چار ہزار حدیثوں کا مدار صرف چار حدیثوں پر ہے: (1) حضرت نعمان بن بشیر کی
حدیث: حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے، (2) حضرت عمر کی
حدیث: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، (3) حضرت ابو
ہریرہ کی حدیث: یقینا اللہ پاک ہے اور صرف
پاک چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے، اور یقینا اللہ نے مؤمنوں کو اسی چیز کا حکم دیا
ہے جس کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا، اور (4) حدیث: انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو چھوڑ دے جن
کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔ پس ان میں سے ہر ایک حدیث علم کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔" نوٹ: امام ابو داود سے مختلف روایات
میں ان چار احادیث کے تعین میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ حدیث کی تشریح: حدیث کا شانِ ورود:
اس حدیث کے شانِ ورود کے طور پر ایک قصہ مشہور ہے کہ
ایک شخص مدینہ کی ایک عورت سے نکاح کرنا چاہتا تھا، لیکن اس عورت نے ہجرت کے
بغیر شادی کرنے سے انکار کر دیا، چنانچہ اس شخص نے اس عورت سے نکاح کی خاطر ہجرت
کی، اسی بنا پر وہ مہاجر ام قیس کے لقب سے مشہور ہو گیا۔ مہاجر ام قیس کے قصے کو
سعید بن منصور نے ابو
معاویہ عن اعمش عن شقیق عن عبد اللہ بن
مسعود کی سند سے روایت کیا ہے، ابن مسعود
نے فرمایا: "«من هاجر يبتغي شيئا فهو
له» ، قال: " هاجر رجل ليتزوج امرأة يقال لها: أم قيس، وكان يسمى مهاجر أم
قيس" (جس شخص نے کسی چیز کی خواہش میں ہجرت کی تو اس کے لیے
وہی ہے جو اس نے چاہا، اور ابن مسعود نے فرمایا: ایک شخص نے کسی عورت سے شادی
کرنے کے لیے ہجرت کی جس کا نام ام قیس تھا، تو اس شخص کو (اس عورت کی نسبت سے)
مہاجر ام قیس کا نام دیا گیا) (المعجم الکبیر للطبرانی: 9/103
ح 8540)۔ اور امام ابو نعیم امام
سفیان ثوری کی سند سے روایت کرتے ہیں کہ:
"عن
الأعمش، عن أبي
وائل، عن ابن مسعود، قال: " كان فينا رجل خطب امرأة يقال لها: أم قيس، فأبت أن
تزوجه حتى يهاجر، فهاجر فتزوجها، فكنا نسميه مهاجر أم قيس. وقال ابن مسعود: «من
هاجر لشيء فهو له» " (ابن مسعود رضی
اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارے درمیان ایک آدمی تھا جس نے ام قیس نامی ایک عورت سے
منگنی کی، لیکن اس عورت نے اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا جب تک وہ ہجرت نہ کر
لے، تو اس آدمی نے ہجرت کی اور اس سے شادی کر لی، تو ہم اس کو مہاجر ام قیس کہا
کرتے تھے۔ اور ابن مسعود نے فرمایا: جس نے کسی چیز کے لیے ہجرت کی تو اس کے لیے
وہی ہے (جس کی طرف اس نے ہجرت کی)) (معرفۃ الصحابہ لابی نعیم
الاصبہانی: 8014)۔ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (م 852 ھ)
فرماتے ہیں: "ابن مسعود کے قول کی سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے، لیکن اس میں کہیں
اس بات کا ذکر نہیں کہ حدیث الاعمال کو کہنے کے پیچھے یہ قصہ وجہ بنا تھا، اور
نہ ہی کہیں کسی طریق میں اس بات کی تصریح مجھے مل پائی ہے" (فتح
الباری: 1/10)۔ اسی طرح حافظ ابن رجب
الحنبلی رحمہ اللہ (م 795 ھ) فرماتے ہیں: "یہ بات مشہور ہو
گئی ہے کہ نبی ﷺ کے فرمان: (جس شخص کی ہجرت دنیا کی طرف ہو کے اسے حاصل کر لے یا
کسی عورت سے نکاح کر لے۔۔۔) کے پیچھے کا سبب مہاجر ام قیس کا قصہ ہے، اور اس بات
کو متاخرین نے کثرت کے ساتھ اپنی کتب میں ذکر کیا ہے، لیکن ہمیں اس بات کی کوئی
صحیح سند کے ساتھ نہیں ملی ہے، واللہ اعلم" (جامع العلوم والحکم: ص
74-75)۔ حدیث کے الفاظ کی
بلاغت وفصاحت: · آپ ﷺ کے فرمان: (إِنَّمَا
الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ) (لفظی ترجمہ: اعمال تو
ہیں ہی نیتوں سے، یا: نہیں ہیں اعمال
سوائے نیتوں سے) میں بلاغت کے پہلو موجود ہیں۔ یعنی آپ ﷺ کو اللہ
تعالیٰ نے جوامع الکلم سے نوازا ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ مختصر اور جامع الفاظ
کے ذریعے وسیع المعنی بات کر لیتے ہیں جس میں علم کا سمندر سمو سکتا ہے۔ آپ ﷺ کا
یہ جملہ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ اس جملے میں حصر کا مفہوم پایا جاتا ہے یعنی اس
میں ایک چیز کے حکم کا اثبات ہونے کے ساتھ ساتھ باقی چیزوں کی نفی بھی کر دی گئی
ہے۔ عربی کا لفظ "انما" حصر کا فائدہ دیتا ہے۔ اگر آپ کہیں: "زيد قائم" زید کھڑا ہے
تو اس میں حصر موجود نہیں، لیکن اگر آپ کہیں: "إنما
زيد قائم" کہ زید تو کھڑا ہی ہے، تو اس میں حصر پایا جاتا ہے
اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ زیداور کچھ نہیں ہے سوائے کھڑا ہونے کے۔ اور اسی طرح
نبی ﷺ کا دوسرا جملہ بھی اسی طرح ہے: (وَإِنَّمَا
لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى) (اور ہر شخص کے لیے نہیں ہے کچھ سوائے وہ جس کی اس نے نیت
کی)۔ · اور آپ ﷺ کے فرمان: (مَنْ
كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُوْلِهِ) (جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی
طرف ہے) کے جواب میں ان کا یہ فرمانا: (فَهِجْرَتُهُ
إلَى اللهِ وَرَسُولِهِ) (تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہے)اس
میں آپ ﷺ نے اللہ اور رسول کے ذکر کا اعادہ کیا ہے جبکہ دنیا وعورت کو انہوں نے جوابی
جملے میں دوبارہ ذکر نہیں کیا، جس میں دنیا وعورت کے مقابلے میں اللہ اور رسول
کی عظمت وفضیلت کی طرف اشارہ ہے۔ · اسی طرح آپ ﷺ کے قول: (وَمَنْ
كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيْبُهَا أو امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا
فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيهِ) (اور جس شخص کی ہجرت دنیا کے لیے ہو کہ وہ
اسے حاصل کر لے یا کسی عورت کے لیے ہو کہ وہ اس سے نکاح کر لے تو اس کی ہجرت اسی
کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی) میں آپ ﷺ نے دنیا اور عورت کی
طرف ہجرت کرنے والے کی نیت میں اخفاء کرتے ہوئے اسے صرف ایک ہی بار ذکر کیا اور
اس کے جواب میں فرمایا: "تو اس کی ہجرت اسی
کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی"، یہاں آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا
کہ "اس کی ہجرت دنیا اور عورت ہی کی طرف ہے"۔ اس میں جس چیز کی طرف
ہجرت کی گئی اس کی تحقیر کی طرف اشارہ ہے کہ یہ چیزیں اس اہل نہیں کہ ان کا ذکر
کیا جائے بلکہ ان کی طرف صرف اشارہ کر دیا کہ، "جس کی طرف اس نے ہجرت کی" (شرح الاربعین لابن
العثیمین: ص 6)۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ممکن ہے کہ "ہجرت الی اللہ
والرسول" کا مقصود رضاءِ خداوندی ہے اور یہ ایک ہی ہے، برخلاف ہجرت الی
الدنیا کے، کہ اس کے بہت سے مقاصد ہو سکتے ہیں، چنانچہ دنیا کی طرف ہجرت سے مقصد
کبھی مال ومتاع کا حصول ہوتا ہے، اور کبھی منصب اور عہدہ کی خواہش وطلب، اور
کبھی اس سے اسبابِ عیش ونشاط اور سامانِ راحت کی فراہمی مقصود ہوتی ہے تو چونکہ
اللہ ورسول کی طرف ہجرت کا ایک ہی مقصد ہے اس میں تعدد نہیں، اس لیے وہاں اللہ
اور رسول کا بعینہ اعادہ کر دیا گیا۔ اور دنیا کی طرف ہجرت میں چونکہ مختلف مقاصد
شامل ہوتے ہیں اس لیے وہاں "ما هاجر إليه" کے اجمال وابہام کو اختیار کیا گیا (کشف الباری 1/322-323) الفاظ کے معانی: · الأعمال - یہ عمل کی جمع ہے۔اعمال کی اقسام میں دل کے
اعمال، زبان کے اعمال، اور اعضاء کے اعمال سب شامل ہوتے ہیں۔ اور اس جملے میں
بھی اعمال سے اس کی ساری اقسام مراد ہیں۔ دل کے اعمال وہ ہیں جو انسان اپنے دل میں کرتا ہے جیسے:
اللہ پر توکل کرنا، اس کی طرف رجوع وتوبہ کرنا، اس کی خشیت رکھنا وغیرہ۔ زبان کے اعمال وہ
ہیں جو انسان اپنی زبان سے بولتا ہے، بلکہ باقی اعضاء کی نسبت زبان کے اعمال ہی شاید
سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔ اور اعضاء کے اعمال وہ ہیں جو انسان اپنے ہاتھوں اور
پیروں اور دیگر اعضاء سے کرتا ہے۔ · النيات: نیات نیت کی جمع
ہے، اور اس کے معنی قصد اور ارادے کے ہیں۔ شرعی اعتبار سے نیت کہتے ہیں اللہ کے
تقرب کے واسطے کسی عبادت کے فعل کا عزم کرنا۔ نیت کا محل دل ہے، یعنی یہ دل کا
عمل ہے، اور اس کا دیگر اعضاء سے کوئی تعلق نہیں ہے، لہذا اس کو دل ہی میں کرنا
چاہیے۔ · هجرة: ہجرت کا لفظ "ہجر"
سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ترک کرنا یا چھوڑنا۔ شرعی اعتبار سے ہجرت کا مطلب ہے:
محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے دار الکفر کے اپنے وطن کو ترک
کر کے دار الاسلام کو اپنا وطن بنا لینا اور وہاں جا کر بسنا، جیسے فتح مکہ سے پہلے
مہاجرین صحابہ مکہ سے نکل کر مدینہ میں ہجرت کرتے تھے، اور اس سے پہلے ان میں سے
کچھ لوگوں نے مکہ سے نجاشی کے حبشہ میں ہجرت کی۔ تشریح: "اعمال
کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی": · حدیث کے پہلے جملے: (اعمال
کا دار ومدار نیتوں پر ہے) سے مراد یہ ہے کہ عمل کے صحیح، غلط، اچھے،
بُرے یا مباح ہونے میں اعتبار صرف انہی اعمال کا ہو گا جن میں نیت شامل ہو۔ کسی
کام میں نیت شامل نہ ہو تو اس کام کا
کوئی اعتبار وشمار نہیں کیا جائے گا، گویا اس کا کوئی وجودہی نہیں۔ جبکہ حدیث کے
دوسرے جملے (ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس
نے نیت کی) میں جس عمل کی نیت کی گئی اس کے نتیجے یا حکم کی طرف
اشارہ ہے۔ ·
یہ دوسرا جملہ پچھلے جملے کی تکرار نہیں ہے
بلکہ پہلے جملے میں بتایا گیا ہے کہ کن اعمال کا اعتبار اور شمار کیا جاتا ہے۔
اگر کوئی پوچھے کہ وہ اعمال کون سے ہیں جن کا اعتبار وشمار کیا جاتا ہے؟ تو کہا
جائے گا جن اعمال کے پیچھے نیت شامل ہو ان کا اعتبار کیا جائے گا، اور جن اعمال
کے پیچھے کوئی نیت نہ ہو ان کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ دوسرے جملے میں اس
بات کی وضاحت ہے کہ جن اعمال کی بنیاد نیت پر ہو ان کا کیا ثمرہ نکلتا ہے۔ نیت
کے حساب سے اس عمل پرثواب یا عذاب دیا جائے گا۔ جس عمل کی نیت نیک ہو تو اس کے
کرنے والے کو ثواب بھی اس کی نیت کے مطابق ملے گا، اور جس کی نیت بُری ہو تو اس
کی سزا بھی اس کو اس کی نیت کے مطابق ملے گی، اور نیت مباح بھی ہو سکتی ہے تو وہ
عمل بھی مباح ہو گا جس پر نہ ثواب ملے گا اور نہ سزا۔ چنانچہ جو شخص کوئی عمل
کرتا ہے تو اسے اس پر وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ · الغرض حدیث کا پہلا جملہ (اعمال
کا دار ومدار نیتوں پر ہے) جس چیز کی نیت کی گئی اس کے اعتبار
سے ہے، یعنی عمل۔ اور حدیث کا دوسرا جملہ (ہر
شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی) جس چیز کے لیے نیت
کی گئی اس کے اعتبار سے ہے، یعنی اس عمل کا نتیجہ و مقصد کیا ہے، کیا وہ عمل
اللہ کے لیے کیا گیا یا دنیا کے لیے؟ اگر اللہ کے لیے کیا گیا تو باعثِ ثواب ہے،
اور اگر غیر اللہ کے لیے کیا گیا تو باعثِ عذاب ہے، اور اگر صرف دنیاوی حاجت یا
مقصد کے لیے کوئی جائز عمل کیا گیا تو اس پر کوئی ثواب اور عذاب نہیں۔ · اس نیت کا مقصود یہ ہے کہ عادات کو عبادات سے الگ کیا جا
سکے، اور عبادات کو بعض دوسری عبادات سے الگ کیا جا سکے۔ · عادات اور عبادات میں تمیز کرنے کی ایک مثال یہ ہے کہ: ایک شخص محض شہوت اور حاجت پوری کرنے کے لیے کھانا کھاتا
ہے، اور دوسرا شخص اللہ عز وجل کے حکم "وكلوا
واشربوا" (اور کھاؤ اور پیو)
(سورت الاعراف: 31) کی تعمیل کی نیت سے کھانا کھاتا ہے تو ان میں دوسرا کھانا
عبادت ہے اور پہلا کھانا عادت ہے۔ اسی طرح ایک شخص گرمی دور کرنے کے لیے پانی سے غسل کرتا
ہے اور دوسرا شخص جنابت دور کرنے کے لیے غسل کرتا ہے، تو پہلا غسل عادت ہے اور
دوسرا عبادت۔ اسی لیے کوئی شخص جنبی ہو جائے اور وہ ٹھنڈک کے لیے دریا میں نہاتا
ہے اور پھر نماز پڑھ لیتا ہے تو یہ اس کے لیے کافی نہیں ہے کیونکہ رفع جنابت کی
نیت ہونا لازم ہے اور اس شخص نے عبادت کی نیت نہیں کی بلکہ ٹھنڈک کی نیت کی ہے۔ اسی لیے بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اہلِ غفلت کی عبادات
بھی عادات ہوتی ہیں، اور متقی وپرہیزگار لوگوں کی عادات بھی عبادات ہوتی ہیں۔ اہل غفلت کی عبادات کا عادت ہونے کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص
عادتا وضوء کرے اور نماز پڑھے لیکن اس کا دھیان ان میں نہ ہو، تو یہ عادت بن
جاتی ہے، عبادت نہیں رہتی۔ اسی لیے ہمیں چاہیے کہ دنیا کے عام کاموں میں بھی ہم اللہ
کو یاد رکھیں اور ان میں اپنی نیت نیک رکھیں تو ہمارے عام کام بھی عبادت بن
جائیں گے اور ان پر ہمیں ثواب ملے گا۔ · عبادات کی بعض دوسری عبادات سے تمیز کرنے کی مثال یہ ہے
کہ: ایک شخص دو رکعت نماز نفل کی نیت سے پڑھتا ہے، اور دوسرا
شخص دو رکعت نماز فرض کی نیت سے پڑھتا ہے، تو ان دونوں کاموں میں نیت کی وجہ سے فرق
آ گیا۔ پہلا عمل نفل کہلایا اور دوسرا عمل واجب۔ اسی پر باقی اعمال بھی قیاس کر
لیں۔ · ایک اہم بات جو معلوم ہونی چاہیے وہ یہ کہ نیت کا محل یا
جگہ دل ہے اور یہ دل کا عمل ہے، لہذا اسے زبان سے نہیں کہا جاتا ، کیونکہ آپ
ایسے رب کی عبادت کرتے ہیں جو آنکھوں کی خیانت اور دل کی چھپی باتوں کو بھی
جانتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے دل کی باتوں سے خوب واقف ہے۔ آپ کسی
ایسی ہستی کے سامنے نہیں کھڑے ہوئے کہ جو آپ کی نیت کو نہیں جان سکتا جب تک آپ
اسے بول کر نہ بتائیں۔ لہذا جو عمل دل کا ہے اسے دل میں ہی کرنا چاہیے اور اسی
لیے رسول اللہ ﷺ سے ایسی کوئی روایت نہیں ملتی، نہ ان کے صحابہ سے کوئی ایسی بات
منقول ملتی ہے کہ وہ نیت کو زبان سے ادا کرتے تھے۔ اگر نیت کو زبان سے ادا کرنا
شریعت کا حصہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ ضرور اس کو خود کر کے دکھاتے اور لوگوں کے لیے
اسے واضح کر دیتے۔ اگر کوئی کہے کہ احرام باندھتے وقت جب کہا جاتا ہے:
"لبيك
اللهم عمرة" یا " لبيك
اللهم حجا" تو کیا یہ زبان سے نیت کا ادا کرنا نہیں ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک ذکر ہے جو حج وعمرہ کے
مناسک کا حصہ ہے۔ حج وعمرہ کے مناسک میں اس تلبینہ کا مقام وہی ہ جو نماز میں
تکبیرۃ الاحرام کا مقام ہے۔ اگر یہ ذکر نہ کہا جائے تو عمرہ منعقد نہیں ہوتا جس
طرح اگر تکبیرۃ الاحرام نہ کہی جائے تو نماز نہیں ہوتی۔ لہٰذا سنت نبی ﷺ سے ثابت
ایک خاص عمل کے خاص ذکر کو نیت کہہ کر دیگر عبادات پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ · آپ ﷺ کے فرمان: (اور ہر
شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی) اس میں معمول لہ (یعنی جس
چیز کے لیے عمل کیا جائے) اس کی نیت کی طرف اشارہ ہے۔ اور اس معاملے میں ہر شخص
کا ایک دوسرے کی نسبت سے بہت بڑا فرق ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر دو شخص ایک ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں اور ان
دونوں کے درمیان ثواب کے اعتبار سے زمین آسمان اور مشرق ومغرب کا فرق ہوسکتا ہے،
کیونکہ ان میں سے ایک پُر اخلاص ہے اور دوسرا غیر مخلص۔ اسی طرح دو لوگ توحید، فقہ، تفسیر، یا حدیث کا علم حاصل
کرتے ہیں، ان میں سے ایک جنت کے قریب ہے جبکہ دوسرا دور ہے، حالانکہ دونوں ایک
ہی کتاب پڑھتے ہیں اور ایک ہی استاد سے پڑھتے ہیں۔ کیونکہ ان میں سے ایک اس لیے
فقہ سیکھتا ہے کہ وہ قاضی بن جائے اور لوگوں میں اس کا مقام اونچا ہو اور لوگ اس
کی تعریف کریں، جبکہ دوسرا اس لیے فقہ سیکھتا ہے کہ وہ اس امت محمدیہ ﷺ کا ایک
عالم ومعلم بنے اور اللہ کے لیے اپنا علم لوگوں تک پہنچائے، تا کہ وہ س کے لیے
صدقہ جاریہ بنے۔ ان دونوں میں بہت بڑا فرق موجود ہے۔ اسی لیے اپنے ہر عمل میں نیک نیت رکھنی چاہیے، اور اپنے
نفس کو مسلسل نیت کی مشق کروانی چاہیے تا کہ وہ قابو میں رہے، کیونکہ اپنی نیت
کو قابو میں کرنا عمل کرنے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ · "ہر شخص کے لیے وہی
کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی" میں وہ اعمال تو شامل ہیں ہی جو
اللہ کی خاطر انجام دیے گئے، لیکن اس میں وہ اعمال بھی شامل ہیں جو اللہ کی خاطر
ترک کیے گئے، کیونکہ شعوری طور پر صرف
اللہ کی خاطر کسی کام کو چھوڑنا بھی ایک عمل ہے، اور اس نیت سے اس کام کو چھوڑنے
پر بھی ثواب ملے گا۔ تشریح: "چنانچہ
جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے
رسول ہی کی طرف ہے۔۔۔": · حدیث کے پہلے حصے میں نبی اکرم ﷺ نے ایک قاعدہ بیان کر
دیا جو اپنے آپ میں واضح اور جامع ترین تھا، لیکن پھر اس قاعدے کو مزید واضح
کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ نے عملی زندگی سے اس کی ایک مثال بھی پیش کر دی، جو
صورتا تو ایک ہی ہے لیکن اسے کرنے والے کی نیت کے حساب سے وہ اچھا اور بُرا
دونوں ہو سکتا ہے۔ گویا ان کی مراد یہ ہے کہ باقی سارے اعمال پر بھی اس مثال کی
طرح یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ · نبی اکرم ﷺ نے بتایا کہ ہجرت کے اس عمل کارتبہ ومقام اس
کے پیچھے کی نیتوں اور مقاصد کے حساب سے مختلف ہوتا ہے۔ لہذا جس نے دار الاسلام میں اللہ اور اس کے
رسول کی محبت، دین اسلام کو سیکھنے سکھانے، اور اپنے دین کا اظہار کرنے کی خاطر
ہجرت کی تو یہی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سچی ہجرت کرنے والا ہے، اور جو اس نے
نیت اس نے وہی پایا۔ اور جس نے دار الکفر سے دار الاسلام میں ہجرت کسی دنیاوی
مقصد کے لیے کی یا دار الاسلام میں رہنے والی کسی عورت سے نکاح کرنے کی خاطر
ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی (جامع العلوم
والحکم)۔ · یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی موت کے بعد
بھی کیا ہمارا ان کی طرف ہجرت کرنا ممکن ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک سوال ہے ان کی شخصیت کی
طرف ہجرت کرنا تو یہ ممکن نہیں ہے اور اسی لیے ہم مدینہ کی طرف نبی ﷺ کی شخصیت
کی خاطر ہجرت نہیں کر سکتے کیونکہ وہ مٹی کے نیچے ہیں۔ ہاں البتہ ان کی وفات کے
بعد ان کی طرف ہجرت سے مراد یہ ہے کہ ان کی سنت اور شریعت کی طرف ہجرت کی جائے،
مثلا: کسی ملک سے دوسرے ملک اس لیے ہجرت کی جائے تا کہ نبی ﷺ کی شریعت کی نصرت اور
اس کا دفاع کیا جا سکے، یا گناہوں کو
ترک کر کے ان کے احکام وسنت کو اپنایا جائے تو یہ رسول ﷺ کی طرف ہجرت ہو گی۔
جبکہ رسول اللہ کی شخصیت اور شریعت کی طرف ہجرت ان کی حیات میں ہی ممکن تھی، اور
ان کی وفات کے بعد یہ ہجرت فقط ان کی شریعت کی طرف کی جائے گی۔ اور اللہ کی طرف
ہجرت تو ہر وقت کے لیے ہے۔ چنانچہ جو شخص کسی ملک سے دوسرے ملک حدیث کی تعلیم کے لیے
جاتا ہے تو یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف اس کی ہجرت ہو گی، اور جو شخص ایک ملک
سے دوسرے ملک کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے جاتا ہے تو اس کی یہ ہجرت اسی کی طرف
ہو گی جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔ فوائدِ حدیث: · یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جس پر اسلام کا مدار ہے، اور
اسی لیے علماء نے فرمایا ہے کہ اسلام کا مدار دو حدیثوں پر ہے: ایک حدیث یہ ہے،
اور دوسری حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ: " مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ
فَهُوَ رَدٌّ" (جس
نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسی نئی بات شروع کی جو اس میں نہیں تو وہ
مردود ہے) (متفق علیہ)۔ چنانچہ حضرت عمر کی یہ والی حدیث دل کے تمام اعمال کے
لیے ایک قاعدے اور میزان کی حیثیت رکھتی ہے، جبکہ سیدہ عائشہ کی حدیث اعضاء کے
تمام اعمال کے لیے ایک قاعدے اور میزان کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ: ایک آدمی نیت کے اعتبار سے نہایت
مخلص ہے اور اللہ کے اجر وثواب کی امید رکھتا ہے، لیکن وہ کافی بدعت کے کام کرتا
ہے یا دین میں اپنی طرف سے کوئی اضافہ کرتا ہے یا عبادات میں سے کسی عمل کو سنت
کا خیال کیے بغیر اپنے طریقے سے انجام دیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس کی نیت تو
اچھی ہے لیکن اس کے عمل کو دیکھا جائے تو وہ بُرا اور مردود عمل ہے کیونکہ وہ
شریعت کے موافق نہیں۔ لہٰذا کسی بھی شرعی عمل کی اللہ کے نزدیک مقبولیت کے لیے
دو شرطیں ہیں جو ان دو حدیثوں میں بیان کی گئی ہیں: 1- ایک
یہ کہ عمل کے پیچھے کی نیت درست ہو۔ 2- دوسری
یہ کہ وہ عمل شریعت اور سنت کے موافق ہو۔ · اس حدیث کے فوائد میں یہ بھی شامل ہے کہ عبادات کو بعض
دیگر عبادات سے واضح اور الگ کرنا اور عبادات کو عادات سے الگ کرنا واجب ہے
کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔مثال کے طور پر:
ایک شخص ظہر کی نماز پڑھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ظہر کی نماز کی
ہی نیت کرے تا کہ اس کو دوسری کسی نماز سے الگ کیا جا سکے۔ اسی طرح اگر اس شخص
پر دو ظہر کی نمازیں رہتی ہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں ظہروں میں سے کل
اور آج کی ظہر کے درمیان فرق کرے، کیونکہ ہر نماز کی اپنی الگ نیت ہوتی ہے۔ · اس حدیث کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شرعی اعمال میں
اللہ کے لیے اخلاص ہونا واجب ہے کیونکہ یہی وہ اولین اور اہم ترین بنیاد ہے جس
کی وجہ سے انسان کی تخلیق کی گئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْأِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ) (ترجمہ: اور میں نے جنوں
اور انسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں)
(سورت الذاریات: 56)۔ · اس حدیث کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے ہمیں نبی
ﷺ کے تعلیم دینے کے حُسن انداز کا پتہ چلتا ہے۔ نبی ﷺ اپنے کلام میں تنویع اور
تقسیم کے ذریعے بات کو سمجھاتے تھے، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا: "اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے" تو یہ عمل کے
لیے ہوا، اور فرمایا: "ہر شخص کے لیے وہی کچھ
ہے جس کی اس نے نیت کی" تو یہ معمول لہ یعنی جس کے لیے عمل کیا گیا
اس کے لیے ہو گیا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے ہجرت کی بھی دو قسمیں کیں: ایک شرعی اور
دوسری غیر شرعی، اور یہ ان کی حُسن تعلیم میں سے ہے۔ اسی لیے استاد کو چاہیے کہ
جب وہ کوئی بات سمجھائے تو طالب علم پر صرف فرعی مسائل کا انبار نہ لگائے کیونکہ
اس طرح باتیں بھول جاتی ہیں، بلکہ اسے چاہیے کہ مسائل کے اصول وقواعد بنا کر
سمجھائے کیونکہ یہ علم کو دل میں اچھی طرح ثبت کرنے کے لیے زیادہ کار آمد ہے۔ · اس حدیث کے فوائد
میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں رسول ﷺ کے ذکر کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ "واو"
سے ملا کر کیا گیا ہے، یعنی فرمایا: "إلى
الله ورسوله" (اللہ اور اس کے رسول
کی طرف)، انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ: "اللہ پھر اس کے بعد رسول کی
طرف"، جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول ﷺ سے فرمایا: "مَا
شَاءَ اللهُ وَشِئْتَ" (جو اللہ
چاہے اور جو آپ چاہیں) تو اس شخص کو آپ ﷺ نے فرمایا: "بَلْ مَاشَاءَ اللهُ وَحْدَه" (بلکہ کہو کہ جو اللہ اکیلے نے چاہا)
(مسند احمد: 1964)، تو ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ: جہاں تک شریعت کے معاملات کا تعلق ہے
تو ان کو "واو" سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ نبی ﷺ سے شریعت میں جو
کچھ صادر ہوا ہے وہ اسی طرح ہے گویا وہ اللہ کی طرف سے صادر ہوا، جیسے اللہ
تعالیٰ نے فرمایا: (مَنْ يُطِعِ الرسول صلى
الله عليه وسلم فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ) (ترجمہ: جو شخص رسول کی اطاعت کرے گا تو بے
شک اس نے اللہ کی اطاعت کی) (سورت النساء: 80)۔ جبکہ امورِ کونیہ (یعنی کائناتی یا قدرتی امور) میں اللہ
کے ساتھ کسی کو بھی واو سے جوڑنا جائز نہیں ہے کیونکہ ہر چیز اللہ اکیلے کے ارادے
اور مشیئت کے تحت ہے۔ لہٰذا اگر پوچھا جائے کہ کل بارش ہو گی؟ تو اس کے جواب میں
یہ کہنا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، بالکل غلط اور نا جائز ہے،
کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس کا علم نہیں۔ لیکن اگر پوچھا جائے کہ فلاں چیز
حلال ہے یا حرام؟ تو اس کے جواب میں یہ کہنا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے
ہیں جائز ہے کیونکہ شریعت کے امور میں رسول ﷺ کا حکم بھی اللہ ہی کا حکم ہے۔ · اس حدیث کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: ہجرت کرنا نیک
اعمال میں سے ایک ہے کیونکہ اس کا مقصود اللہ اور اس کے رسول ہیں، اور اسی طرح
ہر وہ عمل جس کا مقصود اللہ اور اس کے رسول ہوں تو وہ اعمالِ صالحہ یعنی نیک
اعمال میں سے ہے کیونکہ ان کا مقصد اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا ہے اور اللہ
کا تقرب حاصل کرنا ہی عبادت ہے۔ (شرح الأربعين النووية لابن العثيمين: ص
٥-١٨، وجامع العلوم والحكم لابن رجب: ٥٨-٩٢) |
Post a Comment