مصاحفِ عثمانی کی تدوین - اشکالات کا حل

 

مصاحفِ عثمانی کی تدوین - اشکالات کا حل

تحریر: وقار اکبر چیمہ

سہہ ماہی "تحقیقات اسلامی" علی گڑھ کے اکتوبر –دسمبر ٢٠١٥ء کے شمارے میں "مصاحفِ عثمانی کی تدوین – چند تحقیق طلب سوالات"کے عنوان سے عمار خان ناصر صاحب ، حالیہ مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ، کا ایک مقالہ شائع ہوا جس میں انھوں نے مصاحفِ عثمانی کی تدوین کے سلسلہ میں اہل علم کے ہاں مقبول عام آراء کے حوالے سے کچھ سوال اٹھائےاور اپنی تحقیق و فکر کی روشنی میں ان کے ممکنہ جوابات کی طرف اشارہ کئے بغیر بات ختم کر دی تھی۔ مدیر مجلہ تحقیقات اسلامی نے معاملے کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی صاحب سے اس کا جواب لکھوا کر اسی اشاعت میں شامل کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اصولی اور عمومی طور پر تو موضوع کا احاطہ کیا لیکن غالباً قلتِ فرصت کی بنا پر انہوں نے اٹھائےگئے سوالات سے تعرض نہیں کیا جس سے معاملہ کچھ تشنہ سا  رہ گیا۔ زیر نظر تحریر میں انہی سوالات سے تعرض کرتے ہوئےپیدا کئے گئے اشکالات کا حل پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ راقم اپنی علمی بے حیثیتی کے با وصف اس نازک موضوع پر قلم اٹھا تے ہوئے اہل علم سے اصلاح اور رہنمائی کا طلب گار ہے۔

فاضل مقالہ نگار نے جمع و مصاحفِ عثمانی سے متعلق متعدد سوالات اٹھائے ہیں ؛

(1)     سیدنا عثمان کے دور میں جمع و تدین کا کام از سر نو کیا گیا تھا یا محض جمعِ صدیقی کی نقول تیار کر کے مختلف شہروں میں بھیجی تھیں؟ اگر جمع و تدین کا کام از سر نو کیا گیا تھا تو کیا اس سے جمعِ صدیقی پر صحابہ کےعدم اطمینان کا تاثر نہیں ملتا؟

(2)     قراءتوں سے متعلق جس اختلاف کا سد باب مقصود تھا اس کی نوعیت کیاتھی اور تدوین و نشرِ مصاحف سے اس مقصد کا حصول کیونکر ممکن ہوا؟

(3)     کتاب المصاحف وغیرہ میں منقول ابن مسعود ؓ سے منسوب روایات کی روشنی میں قراءتوں کی اختلاف کی اصل نوعیت کیا تھی؟

(4)      مصاحفِ عثمانی میں ضبط کیےگئے متن کا عرضۂِ اخیرہ سے کیا تعلق تھا؟

آئندہ سطور میں ہم ان سوالات کے جوابات اور ان کے اٹھانے میں کارفرما فاضل مقالہ نگار کی تحقیقات کا جائزہ پیش کریں گے۔

جمع ِصدیقی اور جمع ِعثمانی کا فرق

1)         الف: محرکات کا فرق

ہمارے نزدیک ان سوالات کے جواب تلاش کرنے سے پہلے جمعِ صدیقی اور جمعِ عثمانی کےمحرکات  اور ان کے باہمی فرق کو بخوبی سمجھنا ضروری ہے۔

1.1.          جمعِ صدیقی کا محرّک- بڑی تعداد میں قُرَّأء کی شہادت

صحیح بخاری میں روایت ہے:

أن زيد بن ثابت رضي الله عنه، قال: «أرسل إلي أبو بكر مقتل أهل اليمامة، فإذا عمر بن الخطاب عنده»، قال أبو بكر رضي الله عنه: إن عمر أتاني فقال: إن القتل قد استحر يوم اليمامة بقراء القرآن، وإني أخشى أن يستحر القتل بالقراء بالمواطن، فيذهب كثير من القرآن، وإني أرى أن تأمر بجمع القرآن۔۔۔

زید بن ثابؓت بیان کرتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں ( صحابہ کی بہت بڑی تعداد کے ) شہید ہو جانے کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے مجھے بلا بھیجا ۔ تب حضرت عمرؓ بھی حضرت ابوبکرؓ کے پاس تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ عمرؓمیرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ یمامہ کی جنگ میں بہت بڑی تعداد میں قرآن کے قاریوں کی شہادت ہو گئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ اسی طرح کفار کے ساتھ دوسری جنگوں میں بھی قرأءِ قرآن بڑی تعداد میں قتل ہو جائیں گے اور یوں قرآن کے جاننے والوں کی بہت بڑی تعداد ختم ہو جائے گی ۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ آپ قرآن مجید کو جمع کرنے کا حکم دے دیں ۔۔۔[1]

اس روایت سے واضح ہو رہا ہے کہ عہد صدیقی میں اصل اندیشہ حفاظ و قرأء کی شہادتوں کے نتیجہ میں خود متنِ قرآنی کے کھو جانے کا تھا۔ چنانچہ ایک مصحف تیار کیا گیا ۔ درج بالا روایت کے آخر میں ہی ذکر ہے کہ:

فكانت الصحف عند أبي بكر حتى توفاه الله، ثم عند عمر حياته، ثم عند حفصة بنت عمر رضي الله عنه

جمع کے بعد قرآن مجید کے یہ صحیفے حضرت ابوبکرؓ کے پاس محفوظ تھے ۔ پھر ان کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے جب تک وہ زندہ رہے اپنے ساتھ رکھا پھر وہ ام المؤمنین حفصہ بنت عمرؓ کے پاس محفوظ رہے ۔[2]

1.2.           جمعِ عثمانی کا محرک - قراءتوں سے متعلق اختلافات

سیدنا ابو بکرؓ کے دور کے برخلاف سیدنا عثمانؓ کے دور میں قرآن کے متن کے کھو جانے کا خوف نہیں تھا بلکہ قراءتوں کے اختلافات کے حد سے بڑھ جانے کے اندیشے پر اقدام کی ضرورت محسوس کی گئی۔ انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں:

أن حذيفة بن اليمان، قدم على عثمان وكان يغازي أهل الشأم في فتح أرمينية، وأذربيجان مع أهل العراق، فأفزع حذيفة اختلافهم في القراءة فقال حذيفة لعثمان: يا أمير المؤمنين، أدرك هذه الأمة، قبل أن يختلفوا في الكتاب اختلاف اليهود والنصارى۔۔۔

حذیفہ بن یمان حضرت عثمانؓ کے پاس آئے جب کہ اہل ِشام اہلِ عراق کے ساتھ مل کر ارمینیہ اور آذربیجان کی فتح کے سلسلے میں جہاد میں مصروف تھے ۔ حضرت حذیفہؓ کو قرآن کی قراءت میں ان کے باہمی اختلاف نے پریشان کر رکھا تھا ۔ چنانچہ آپ نے سیدنا عثمان سے کہا، "اے امیر المومنین! اس امت کی خبر لیجیے قبل اس کے کہ یہ بھی یہود و نصاریٰ کی طرح الله کی کتاب میں اختلاف کرنے لگے ۔ ۔ ۔[3]

ایسے ہی اختلافات کا ظہور مدینہ میں بھی ہونے لگا تھا جیسا کہ حضرت عثمان ؓکے اس قول سے متبارد ہے؛

أنتم عندي تختلفون فيه فتلحنون، فمن نأى عني من الأمصار أشد فيه اختلافا، وأشد لحنا، اجتمعوا يا أصحاب محمد واكتبوا للناس إماما

تم لوگ میرے سامنے ہی قرآن میں اختلاف اور غلطیاں کرنے لگے ہو ، تو جو لوگ دور دراز علاقوں میں ہیں ان کے ہاں اختلاف اور اغلاط کی کیا کیفیت ہو گی؟ اے اصحاب محمد اکھٹے ہو جاؤ اور لوگوں کے لیے ایک رہنما مصحف لکھ دو۔ [4]

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ہر دو جمع کے بنیادی محرکات مختلف تھے۔ محرکات کے اختلاف کا دیگر تفصیلات پر اثر انداز ہونا بدیہی ہے۔

2)         ب: ملاحظات کا فرق

2.1.           جمعِ صدیقی کے ملاحظات

چونکہ جمع ِصدیقی کا محرک قُرَّأء کی شہادتیں اور متنِ قرآنی کے کھو جانے کا خوف تھا اس لیے اس موقع پر توجہ صرف متن کی تحریری جمع پر دی گئی لیکن تحریر و تدوین کی بعض تفصیلات یعنی سورتوں کی ترتیب، اور خاص املا ءغیرہ کا اہتمام پیش نظر نہیں رہا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے سیدنا ابو بکرؓ نے سیدنا عمرؓ اور زید بن ثابتؓ کو صرف یہ ہدایت دی کہ:

اقعدوا على باب المسجد فمن جاءكما بشاهدين على شيء من كتاب الله فاكتباه

دونوں مسجد کے دروازے پر بیٹھ جاؤ، اورجوکوئی تمھارے پاس کتاب الله میں سے کچھ دو شہادتوں کے ساتھ لائے اسے لکھ لو۔ [5]

2.2.           جمع ِعثمانی کے ملاحظات

اس کے بر عکس جمعِ عثمانی میں ترتیب و املا کا خاص اہتمام بھی تھا۔ چونکہ اس عمل کا مقصد قرأءتوں کے اختلاف کا سد باب تھا اس لیے از سر نو تحریری اور زبانی شہادتوں کو لیا گیا جس میں شہادت پیش کرنے والے سے قسم لی گئی کہ انہوں نے متعلقہ آیات رسول الله ﷺ سے سنیں اور ان کے سامنے ہی تحریر کیں۔ اور ساتھ ہی املاء کرانے اور کرنے والوں کا انتخاب بھی اہتمام سے افراد کی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔

عن مصعب بن سعد قال: قام عثمان فخطب الناس فقال: أيها الناس عهدكم بنبيكم منذ ثلاث عشرة وأنتم تمترون في القرآن، وتقولون قراءة أبي وقراءة عبد الله يقول الرجل: والله ما تقيم قراءتك فأعزم على كل رجل منكم ما كان معه من كتاب الله شيء لما جاء به، وكان الرجل يجيء بالورقة والأديم فيه القرآن، حتى جمع من ذلك كثرة، ثم دخل عثمان فدعاهم رجلا رجلا فناشدهم لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو أملاه عليك؟ فيقول: نعم، فلما فرغ من ذلك عثمان قال: من أكتب الناس؟ قالوا: كاتب رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن ثابت قال: فأي الناس أعرب؟ قالوا: سعيد بن العاص قال عثمان: فليمل سعيد وليكتب زيد، فكتب زيد، وكتب مصاحف ففرقها في الناس، فسمعت بعض أصحاب محمد يقول: قد أحسن

مصعب بن سعد بیان کرتے ہیں: سیدنا عثمان لوگوں کو خطاب کرنے کے لیے کھڑےہوئے اور فرمایا ، "اے لوگو! نبی ﷺ کا زمانہ گزرے تیرہ برس ہی گزرے ہیں اور تم قرآن میں اختلاف بھی کرنے لگے ہو اور کہتے ہو کہ یہ ابی کی قراءت ہے اور یہ عبداللہ کی ، اور کوئی الله کی قسم اٹھا کر دوسرے کو کہتا ہے کہ تمھاری قراءت درست نہیں ۔ پس میں تمھیں ہدایت کرتا ہوں کہ جس کے پاس قرآن میں سے کچھ بھی ہو وہ لے کر آئے۔" تو کوئی شخص ورق لے کر آیا اور کوئی چمڑے کا ٹکڑا جس پر قرآن لکھا ہوا تھا یہاں تک کہ بہت سے اوراق اور چمڑے کے ٹکڑے جمع ہو گئے۔ پھر عثمان آئے اور آپ ہر ایک شخص سے فرداً فردا ًقسم دے کر پوچھتے کہ اس نے قرآن کا وہ حصہ خود رسول الله ﷺ سے سنا تھا اور آپ ﷺ نے ہی اسے املا کرایا تھا اور وہ کہتا "ہاں"۔ اس مرحلے سے فارغ ہونے کے بعد عثمان ؓ نے پوچھا: لوگوں میں سب سے بہترین کاتب کون ہے؟ بتایا گیا، "رسول الله ﷺ کے کاتب زید بن ثابت۔" پھر پوچھا، "لوگوں میں فصاحت میں سب سے بڑھ کر کون ہے؟" بتایا گیا، سعید بن العاص ۔ چنانچہ عثمان ؓ نے فرمایا، "سعید املا کروائیں اور زید لکھتے جائیں۔" چنانچہ زید نے لکھا اور متعدد مصاحف تیار کئے پھر عثمان نے ان مصاحف کو لوگوں میں پھیلا دیا۔ (مصعب مزید کہتے ہیں کہ) صحابہ کرام میں بعض کو یہ کہتے ہوئے میں نے خود سنا کہ عثمان نے بہت اچھا کام کیا۔ [6]

رسول الله ﷺ سے براہ راست سماعت کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ ہی سے املا کیے جانے کی شرط کو اتنی اہمیت دی گئی کہ اگر کسی آیت کے حوالے سے ایسی تحریری شہادت سر دست دستیاب نہ ہو سکی تو اس آیت کی املا موقوف کرتے ہوئے اس کی جگہ چھوڑ کر طے شدہ شرط کے مطابق تحریری شہادت کے حصول کا انتظار کیا گیا۔

قال أبو قلابة: فحدثني مالك بن أبي عامر [قال أبو بكر: هذا مالك بن أبي عامر جد مالك بن أنس] قال: كنت فيمن أملي عليهم فربما اختلفوا في الآية فيذكرون الرجل قد تلقاها من رسول الله صلى الله عليه وسلم ولعله أن يكون غائبا، أو في بعض البوادي، فيكتبون ما قبلها وما بعدها، ويدعون موضعها حتى يجيء أو يرسل إليه، فلما فرغ من المصحف كتب إلى أهل الأمصار: أني قد صنعت كذا محوت ما عندي فامحوا ما عندكم

"ابو قلابہ کہتے ہیں کہ مجھ سے مالک بن ابی عامر – ابن ابی داود کہتے ہیں کہ یہ امام مالک بن انس کے دادا تھے –نے بیان کیا : میں ان لوگوں میں تھا جنھیں قرآ ن املاء کروایا جاتا تھا۔ جب کبھی کسی آیت کے متعلق اختلاف ہوتا تو ایسے شخص کو یاد کیا جاتا جس نے اسے رسول الله ﷺ سے لیا ہو۔ جب وہ مدینہ سے غائب یا کسی دیہات میں ہوتا تو کاتبین اس آیت سے پہلے اور بعد کی آیات لکھ لیتے اور اس کی جگہ چھوڑ دیتے یہاں تک وہ صحابی خود آ جاتا یا اسے پیغام دے کر بلا لیا جاتا۔ پس جب مصاحف کی کتابت سے فراغت ہوئی تو عثمان نے تمام شہروں کے لوگوں کو لکھ بھیجا، "میں نے یہ کام کیا ہے اور (اس کے علاوہ) جو میرے پاس لکھا تھا اسے مٹا دیا ہے پس (اس کے علاوہ) جو تمھارے پاس لکھا ہے تم بھی اسے مٹا دو۔"[7]

املا کے حوالے سے یہ بھی طے پایا کہ اس کی بنیاد لغتِ قریش ہو گی۔

فأمر عثمان، زيد بن ثابت، وسعيد بن العاص، وعبد الله بن الزبير، وعبد الرحمن بن الحارث بن هشام، أن ينسخوها في المصاحف»، وقال لهم: «إذا اختلفتم أنتم وزيد بن ثابت في عربية من عربية القرآن فاكتبوها بلسان قريش، فإن القرآن أنزل بلسانهم ففعلوا»

حضرت عثمان ؓ نے زید بن ثابت ؓ، سعید بن عاصؓ ، عبداللہ بن زبیرؓ ، عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام ؓ کو حکم دیا کہ قرآن مجید کو مصاحف میں لکھیں، اور (تینوں قریشیوں کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ اگر قرآن کے کسی محاور ے میں تمھارا حضرت زید بن ثابت ؓ سے اختلاف ہو تو اس لفظ کو قریش کے محاورہ کے مطابق لکھو ، کیونکہ قرآن ان ہی کے محاورے پر نازل ہوا ہے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔[8]

3)         صحفِ صدیقی اور مصاحفِ عثمانی کا باہم تعلق و تقابل

خاص صحفِ صدیقی اور مصاحفِ عثمانی کے تقابل کے حوالے سے مضمون نگار کے اٹھائے گئے سوالات کی روشنی میں ہمارے سامنے تین حل طلب امور سامنے آتے ہیں :

 (الف)        کتاب المصاحف وغیرہ میں مذکور از سر نو تدوین و جمع سے متعلق روایات اور صحیح بخاری وغیرہ میں مذکور روایت جس سے محض صحفِ صدیقی کی نقول کی تیاری کا تاثر ملتا ہے ان میں تطبیق کی کیا صورت ہے؟

 (ب)  کیا عثمان ؓ کو جمع و صحفِ صدیقی پر کامل اعتبار و اطمینان نہیں تھا؟

(ج)  صحفِ صدیقی کی موجودگی میں عثمان ؓنے از سر نو تدوین و جمع کی ضرورت کیوں محسوس کی؟

ہر دو جمع کے محرکات اور ملاحظات کو پیش نظر رکھتے ہوئے درج ذیل روایات صحفِ صدیقی اور مصاحفِ عثمانی کے باہم تعلق و تقابل کے حوالے سے ان تمام سوالات کا جواب فراہم کرتی ہیں۔

امام طحاویؒ خارجہ بن زید بن ثابتؒ سے روایت کرتے ہیں:

قال زيد: " فأمرني عثمان أن أكتب له مصحفا، وقال: " إني جاعل معك رجلا لبيبا فصيحا، فما اجتمعتما فيه فاكتباه , وما اختلفتما فيه فارفعاه إلي "، فجعل معه أبان بن سعيد بن العاص فلما بلغ: {إن آية ملكه أن يأتيكم التابوت} [البقرة: 248] قال زيد: " فقلت أنا التابوه وقال أبان: {التابوت} [البقرة: 248] ، فرفعنا ذلك إلى عثمان فكتب: التابوت، ثم عرضته، يعني المصحف، عرضة أخرى فلم أجد فيه شيئا، وأرسل عثمان إلى حفصة أن تعطيه الصحيفة وحلف لها ليردنها إليها، فأعطته، فعرضت المصحف عليها فلم يختلفا في شيء، فردها عليها وطابت نفسه، وأمر الناس أن يكتبوا المصاحف

زید کہتے ہیں : عثمان نے مجھے مصحف لکھنے کا حکم دیا اور کہا ، "میں تمھارے ساتھ ایک فصیح شخص کو نامزد کر رہا ہوں، پس جس پر تم دونوں متفق ہو جاؤ اسے لکھ لو اور جہاں اختلاف ہو جائے تو وہ معاملہ میرے پاس لے آنا۔" عثمان نے ابان بن سعید بن العاص کو ساتھ کر دیا ۔ زید خود بیان کرتے ہیں جب ہم آیت " إن آية ملكه أن يأتيكم التابوت" (البقرہ - ٢٤٨) پر پہنچے تو میں نے کہا اسے " التابوة" لکھنا چاہیے اور ابان نے کہا اسے "التابوت" لکھنا چاہیے۔ چنانچہ ہم معاملہ عثمان کے پاس لے گئے اور (ان کے کہنے پر) ہم نے اسے "التابوت " لکھا۔ اس کے بعد ہم نے مصحف پر نظر ثانی کی اور اس میں کوئی چیز لائقِ ترمیم نہ پائی۔ عثمان نے عہد صدیقی میں لکھے گئے صحیفہ کے حصول کے لیے حفصہ کو پیغام بھیجا اور حلف دیا کہ صحیفہ ان کو لوٹا دیں گے تو حفصہ نے صحفِ صدیقی ان کو دے دیے۔ میں نے (عثمان کے حکم سے لکھے گئے ) مصحف کا موازنہ ان صحف کے ساتھ کیا تو ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں پایا۔ پھر عثمان نے وہ صحف حفصہ کو لوٹا دیے اور ان کو (اس کام کے اس انداز سے تکمیل کی) بہت خوشی تھی ۔ چنانچہ انہوں نے لوگوں کو (اسی مصحف کے مطابق) مصاحف لکھنے کا حکم دیا۔[9]

ابو عمرو الدانی کی روایت میں اختلاف والے معاملے پر ایک اہم اضافہ ہے کہ زید نے کہا:

فجعلنا نختلف في الشيء ثم نجمع امرنا على رأي واحد فاختلفوا في "التابوت" فقال زيد " التابوه " وقال النفر القرشيون "التابوت" قال فأبيت إن ارجع إليهم وأبو إن يرجعوا اليَّ حتى رفعنا ذلك إلى عثمان فقال عثمان اكتبوه "التابوت" فأنما انزل القرآن على لسان قريش

ہم میں اختلاف بھی ہوتا رہا اور پھر ہم ایک بات پرمتفق بھی ہو جاتے تھے۔ چنانچہ لفظ " التابوت " کی کتابت میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ زید کہتے ہیں میں نے کہا "التابوة " لکھنا چاہیے اور قریش کے لوگوں نے کہا " التابوت " لکھنا چاہیے۔ میں نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور انہوں نے میری بات کو ماننے سے یہاں تک کہ ہم معاملہ عثمان ؓ کے پاس لے گئے ۔ عثمان نے کہا اسے "التابوت " لکھو کہ قرآن قریش کی لغت پر نازل ہوا ہے۔[10]

اول یہ کہ از سر نو تدوین کے بعد جب مصحفِ عثمانی کا تقابل صحفِ صدیقی سے کیا گیا تو ان میں باہم فرق نہیں پایا گیا اور اس امر کی شہادت خود زید بن ثابت نے دی جنھوں نے ہر دو جمع میں کتابت کے فرائض سر انجام دیے تھے ۔ اور اسی تقابل کے بعد مصحفِ عثمانی کی نقول تیار کی گئیں جیسا کہ امام طحاوی کی نقل کردہ روایت میں ہے۔ اس کی روشنی میں از سر نو تدوین اور محض صحفِ صدیقی کی نقول کی تیاری کے ذکر والی روایات میں تطبیق سامنے آ جاتی ہے کہ اصل میں مصحف کی جمع و تدوین کا عمل عثمان ؓ کے عہد میں از سر نو ہی سر انجام دیا گیا لیکن چونکہ اس کی نقول کی تیا ری صحفِ صدیقی کے ساتھ موازنے اور ان دونوں میں کسی اختلاف نہ ہونے کے یقین حاصل ہو جانے کے بعد کی گئی اس لیے بعض روایات میں اختصار و اجمال کے ساتھ اس کو ایسے بیان کر دیا گیا کہ گویا محض صحفِ صدیقی کی نقول ہی تیار کی گئیں۔

اسی سے جمع و تدوین صدیقی پر عثمان ؓ اور دیگر صحابہ کے اعتبار و اطمینان کے معاملے پر بھی روشنی ڈلتی ہے۔ اپنی کاوش کے نشر سے پہلے حلف لے کر سیدہ حفصہؓ سے صحفِ صدیقی کا حاصل کرنا، اپنے مصحف کا اس کے ساتھ موازنہ کرنا اور دونوں میں باہم اختلاف کے نہ ہونے کا یقین کرنے کی سعی کرنا ان کے ہاں جمع و تدوین صدیقی پر اعتبار و اطمینان سے بڑھ کر ان کی نظر میں اس کی اہمیت اور قدر و منزلت کو واضح کرتا ہے۔

ذرا تامل کریں تو یہی روایات جمعِ عثمانی کی ضرورت اور جمعِ صدیقی سے اس کا فرق کا پتہ بھی دیتی ہیں۔ جمعِ صدیقی کے موقعہ پر کتابت کی ذمہ داری زید بن ثابت کی تھی اور جمعِ عثمانی میں بھی انہوں نے ہی یہ فرض سر انجام دیا۔ خود ان کے اپنے بیان کے مطابق جمعِ عثمانی کے دوران ان کے اور ان کے ساتھی ذمہ داران قریشیوں کے مابین کتابت پر اختلاف و اتفاق کا معاملہ چلتا رہا ۔ لفظ "التابوت" پر اختلاف کی مثال سے بھی ہمیں معلوم ہوا کہ ہمیشہ زید کی بات نہیں مانی گئی۔ پھر جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ صحفِ صدیقی کی کتابت کے وقت نہ تو ایسے معاملات زیر ملاحظہ تھے اور نہ ہی تب زید بن ثابت کو اس حوالے سے کوئی ٹوکنے والا تھا۔ اس لیے کم از کم مذکورہ ایک لفظ کی حد تک تو ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کی کتابت میں صحفِ صدیقی اور مصحفِ عثمانی میں فرق تھا ۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ایسا ہی معاملہ قرآن کے بعض دیگر مقامات کے حوالے سے پیش آیا ہو گا جیسا کہ خود زید بن ثابتؓ کی اس شہادت سے متبارد ہے کہ ان کے اور املا ء کتابت کے حوالے سے مامور دیگر حضرات میں اختلاف ہوتا رہا اور کبھی وہ ان کے قول سے اتفاق کر لیتے اور کبھی ان کے موقف پر اتفاق ہو جاتا۔

قراءت کے اختلافات کو مصحف کے ذریعہ ختم کرنے کے مقصود کو سامنے رکھتے ہوئے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کتابت کے طریق سے مختلف قراءآت کو متن میں سمونے کی سعی کی گئی تھی اور اپنے اس محرک اور متعلقہ ملاحظات کی وجہ سے مصاحفِ عثمانی مجموعی طور پر صحفِ صدیقی سے مطابقت کے با وجود کتابت و املاء جیسی جزئیات میں ان سے مختلف تھے۔ اور یہی نا گزیر فرق اس کی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔ اس توجیہ کی تائید مروان بن الحکم کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جو اس نے سیدہ حفصہ کی وفات کے فورا بعد حضرت عبدالله بن عمر ؓ سے صحفِ صدیقی حاصل کر کے ان کو جلانے کے بعد کہا۔ سالم بن عبدالله نے روایت کی ہے:

فقال مروان: «إنما فعلت هذا لأن ما فيها قد كتب وحفظ بالمصحف، فخشيت إن طال بالناس زمان أن يرتاب في شأن هذه الصحف مرتاب، أو يقول إنه قد كان شيء منها لم يكتب»

مروان نے کہا: میں نے ان صحف کو اس لیے ضائع کر دیا ہے کہ جو ان میں ہے وہ تو مصحفِ عثمانی میں لکھا اور محفوظ ہو چکا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ایک مدت گزرنے کے بعد لوگ ان صحف کے بارے میں شک میں مبتلا نہ ہو جائیں یا کہیں کہ ان میں ایسا بھی کچھ ہے جو مصحف میں نہیں لکھا گیا۔[11]

یہاں صحفِ صدیقی کے مندرجات کے مصاحفِ عثمانی میں منضبط ہو جانے اور نہ ہونے سے متعلق امکان شبہہ کا ایک ساتھ بیان بھی املاء ہی کے فرق کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس نوعیت کے فرق کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے کے لیے قراءت کے فرق اور ان کے حل کے طریق کو سمجھنا ضروری ہے۔

قراءتوں کے اختلاف کی اصل نوعیت اور مصاحف کے ذریعہ اس کا تدارک

جمعِ عثمانی کے محرک قراءتوں کے اختلاف سے متعلق روایات معاملے کی تنقیح کے لیے نا گزیر ہیں۔

سوید بن غفلہ کی روایت میں علی بن ابی طالب ؓ نے مصاحف کے حوالے سے عثمان ؓ کے کارنامے کا جو ذکر کیا ہے اس میں اختلاف کی نوعیت خود عثمان ؓ کے الفاظ میں یوں نقل ہوئی ہے؛

ما تقولون في هذه القراءة؟ فقد بلغني أن بعضهم يقول: إن قراءتي خير من قراءتك، وهذا يكاد أن يكون كفرا

لوگ قراءت کے بارے میں کیا باتیں کر رہے ہیں؟ مجھے معلوم ہوا کہ لوگ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ "میری قراءت تمھاری قراءت سے بہتر ہے۔" ایسی بات تو گویا کفر ہے۔[12]

مصعب بن سعد کی روایت میں ہے کہ عثمان ؓ نے اس بارے میں لوگوں کے اختلاف کو یوں بیان کیا:

يقول الرجل: والله ما تقيم قراءتك

کوئی الله کی قسم اٹھا کر دوسرے کو کہتا ہے کہ تمھاری قراءت درست نہیں۔[13]

ابن سیرینؒ کی روایت میں ہے کہ:

كان الرجل يقرأ حتى يقول الرجل لصاحبه: كفرت بما تقول

(بات یہاں تک پہنچ گئی کہ) ایک شخص قراءت کرتا تو اس کے ساتھ والا ہی اسے کہتا، "میں تمھاری قراءت کو نہیں مانتا"[14]

یہی بات جمعِ عثمانی کے سیاق کے حوالے سے زید بن ثابت ؓ کی روایت میں آئی ہے جس سے اس اختلاف کی وجہ پر بھی روشنی ڈلتی ہے ۔ عثمان ؓ کے پوچھنے پر حذیفہؓ نے کہا:

غزوت أرمينية فحضرها أهل العراق وأهل الشام وإذا أهل الشام يقرءون بقراءة أبي، فيأتون بما لم يسمع أهل العراق، فيكفرهم أهل العراق , وإذا أهل العراق يقرءون بقراءة عبد الله بن مسعود فيأتون بما لم يسمع أهل الشام فيكفرهم أهل الشام

میں آرمینیہ کے جہاد میں شریک تھا جہاں میں نے اہلِ عراق اور اہلِ شام دونوں کو پایا۔ اہلِ شام ابی بن کعب ؓ کی قراءت کے مطابق تلاوت کرتے تھے جسے اہلِ عراق نے نہیں سنا تھا۔ چنانچہ اہلِ عراق ان کی قراءت کا انکار کرتے تھے۔ جبکہ اہلِ عراق عبدالله بن مسعود کی قراءت کے مطابق تلاوت کرتے تھے جسے اہلِ شام نے نہیں سنا تھا پس اہلِ شام ان کی قراءت کا انکار کرتے تھے۔[15]

اسی طرح ابو قلابہ کی روایت میں ہے:

لما كان في خلافة عثمان جعل المعلم يعلم قراءة الرجل، والمعلم يعلم قراءة الرجل، فجعل الغلمان يلتقون فيختلفون حتى ارتفع ذلك إلى المعلمين قال أيوب: لا أعلمه إلا قال: حتى كفر بعضهم بقراءة بعض

عثمان ؓ کی خلافت (کے ابتدائی دور)میں ایک معلم ایک قراءت کے مطابق تعلیم دیتا اور دوسرا اور ایک اور قراءت کے مطابق ۔ چنانچہ جب طلبہ باہم ملتے تو جھگڑنے لگتے بلکہ بات خود معلمین کے اختلاف تک جا پہنچی یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کی قراءت کا انکار کرنے لگے۔[16]

ان روایات کا حاصل یہ ہے کہ اصل تشویشناک امر قراءت کے اختلافات کا باہم تکفیر کی حد تک بڑھ جانا تھا نہ کہ مطلقا قراءت کا اختلاف کہ ان کا ظہور تو خود رسول الله ﷺ کے عہد میں بھی ہونے لگا تھا جیسے کہ سورہ فرقان کی تلاوت میں حضرت عمر ؓ اور ہشام بن حکیم بن حزامؓ کے مابین ہوا تھا۔[17] اور جس طرح رسول الله ﷺ نے دونوں کی قراءت کی توثیق کی تھی حضرت عثمان ؓ بھی ثابت قراءت کی توثیق کا ایک نظام دینا چاہتے تھے جس کا ایک بنیادی جز مربوط اور منشور مصاحف کی صورت میں ظاہر ہوا۔

مصاحفِ عثمانی اور اختلاف قراءت کا مقصود حل

مصاحف کے ذریعہ عثمان ؓ قراءتوں کے اختلاف کو کیسے حل کرنا چاہتے تھے اس کے بارے میں کوئی صریح اور مستقل روایت تو راقم کے علم میں نہیں البتہ جب روایات سے ثابت ہے کہ بنیادی مسئلہ ایک دوسرے کی قراءت کا انکار اور ایک قراءت کو دوسری قراءت پر فضیلت دینا تھا جو کہ گویا کفر تک پہنچانے والی بات تھی۔ جب حل طلب مسئلہ ہی یہ تھا تو ان میں سے کسی ایک قراءت پر سب کو متفق کرنا نہ تو اس کا معقول حل تھا اور نہ ہی اس سے مسئلے کے حل ہونے کی امید کی جا سکتی تھی۔ عثمان ؓ اور دیگر صحابہ کیونکر لوگوں کو کسی ثابت وجہِ قراءت سے منع کرتے خصوصا جب ہم دیکھ چکے کہ جمع کرتے ہوئے رسول الله ﷺ سے براہ راست اخذ کی شرط بھی رکھی گئی تھی؟ چنانچہ تدوین و نشر ِمصاحف سے مقصود یہی ہو سکتا تھا کہ با سند تحفیظ کے ساتھ ساتھ استناد قراءت کے نظام کی ایک تحریری بنیاد ہو جس کی بدولت تفسیری اقوال کے متنِ قرآنی سے خلط اور منسوخ اور غیر مستند قراءتوں کے شیو ع کو بھی روکا جا سکے۔ اس لیے سورہ فاتحہ آیت  ٣  میں جہاں مَالِك اور مَلِكْ دونوں قراءتیں منقول تھیں اس کو ملک لکھا گیا کہ یہ ہر دو قراءت کو متضمن ہے (اس کو مٰلِک بھی پڑھا جا سکتا ہے) ۔ فاضل مقالہ نگار کا یہ سوال کہ بعض مصاحف میں الف کے ساتھ مالک کیوں نہیں لکھا گیا ان کے عربی خط کے اس دور کے اسلوب سے ناواقفیت کی بنا پر ہے چنانچہ معلوم ہے کہ حضرت معاویہؓ کے عہد کی ایک تعمیر پر آپ کا نام الف کے حذف کے ساتھ معٰوية لکھا گیا۔[18] البتہ بعض مقامات پر "و" اور الف کے حذف جیسے فرق بھی مصاحفِ عثمانی کے مابین ہیں۔[19] اگر محض "ایک عملی" صورت کا اختیار کرنے کا ہی معاملہ ہوتا تو ایسے فرق رکھنا بھی کیونکر ضروری سمجھا جاتا؟ جن لوگوں نے عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کیا ان کے اعتراضات سے متعلق جس روایت میں عثمانؓ کا یہ جواب منقول ہے کہ "جس طریقے پر  چاہو پڑھ  لو "  اس کو سمجھنے میں بھی  فاضل مقالہ نگار کو وہم ہوا ہے۔  اس اعتراض کے جواب میں کہ انہوں نے کتاب الله کے کچھ حروف کو مٹا دیا عثمان ؓنے فرمایا تھا :

أما القرآن فمن عند الله، إنما نهيتكم لأني خفت عليكم الاختلاف، فاقرءوا على أي حرف شئتم

قران تو الله کی طرف سے ہے۔ میں نے تمہیں   جس کام سے روکا ہے اس کی وجہ تمہارے    (قران کے بارے میں) اختلاف میں پڑ  جانے  کا خوف تھا۔   تاہم   قراءت جس کے مطابق بھی     چاہے پڑھ لو (کہ میرا کیا گیا انتظام  ان سب کو شامل  ہے)۔ [20]

یہاں روایت کا ترجمہ بشمول  بین القوسین توجیہ  سیاق و سباق  سے مؤید ہونے کے علاوہ اایک معاصر  محقق سے بھی منقول ہے۔[21]

تفسیری اقوال کے متن قرآنی سے التباس کا تدارک

اس انتظام کے ذریعہ غیر مستند قراءت کا سد باب بھی ممکن ہوا ۔ غیر مستند قراءت کی ایک وجہ تفسیری اقوال یا منسوخ قراءت کا بطور قراءت شیو ع تھا۔ تفسیری اقوال کو بہت سے حضرات اپنے ذاتی مصاحف میں درج کر لیتے تھے جس سے اندیشہ تھا کہ بعد کے لوگ ان کو متنِ قرآنی شمار کرنے لگیں گے۔ یہی اندیشہ منسوخ قراءت کے حوالے سے بھی تھا۔ چنانچہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ نے خود مصاحف کے نشر کے ساتھ جو ہدایات دیں ان میں یہ بھی تھا :

أني قد صنعت كذا محوت ما عندي فامحوا ما عندكم

میں نے یہ کام کیا ہے اور (اس کے علاوہ) جو میرے پاس لکھا تھا اسے مٹا دیا ہے پس (اس کے علاوہ) جو تمھارے پاس لکھا ہے تم بھی اسے مٹا دو۔[22]

اس کی مثال سورۃکھف کی آیت ٧٩ " وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا " ہے جس کے حوالے سے ابو الظاہریہ (حدیر بن کریب) سے روایت ہے کہ:

كتب عثمان: (وكان وراءهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا)

عثمان ؓ نے اس آیت کو " وكان وراءهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا" (ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی چھین لیا کرتا تھا) لکھا تھا۔[23]

ظاہر ہے یہ ایک تفسیری اضافہ ہی تھا جس کو عثمانؓ نے دوسروں سے یہی مطالبہ کرنے سے پہلے مٹا دیا تھا۔چنانچہ جب حضرت ابو موسی ٰ اشعریؓ نے کہا کہ ان کے مصحف میں جو کمی ہے اس کا اضافہ کر دیا جائے لیکن جو زیادہ ہے اسے مٹایا نہ جائے تو وہ اپنے تفسیری اقوال (یا نوٹس) ہی کی حفاظت کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت حذیفہ نے اس کا جواب دیا کہ اس صورت میں تمام تر اہتمام کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ [24]

صحابہ سے منسوب مصاحف کے عنوانات کے تحت جو 'قراءتیں' نقل ہوئی ہیں وہ در اصل ایسے ہی تفسیری اقوال کی روایات ہیں جو ان کے شاگردوں نے نقل کی ہیں۔ مثلا ابی بن کعبؓ ؓکے مصحف کے بارے میں صحیح سند سے روایت ہے کہ:

عن محمد بن أبي أن ناسا من أهل العراق قدموا إليه فقالوا: إنما تحملنا إليك من العراق، فأخرج لنا مصحف أبي قال محمد: " قد قبضه عثمان قالوا: سبحان الله أخرجه لنا قال: قد قبضه عثمان "

محمد بن ابی بن کعب ؓ کہتے ہیں عراق سے کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: ہم عراق سے آپ کے پاس آئے ہیں، ہمیں( اپنے والد) ابی بن کعب ؓ کا مصحف دکھا دیجئے۔ محمد بن ابی بن کعب ؓ نے کہا: "وہ تو عثمان ؓ نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔" وہ پھر بولے، " سبحان الله! آپ ہمیں دکھائیے تو سہی۔" محمد بن ابی نے پھر وہی جواب دیا: "(واقعی) وہ عثمان ؓ نے ضبط کر لیا تھا۔"[25]

یقینا ان کا مصحف بھی دیگر صحابہ کے ذاتی صحف کے ساتھ تلف کر دیا گیا ہو گا لیکن پھر بھی ہم ان سے منسوب مصحف کا ذکر ایسے راویوں سے پاتے ہیں جن کی پیدائش ہی بہت بعد کی ہے۔ ابن ابی داود کی کتاب المصاحف میں حماد بن سلمہ جو اتباع التابعین میں سے ہیں ان کی دو روایات صحیح سند سے مروی ہیں جس میں وہ " ابی بن کعب ؓ کے مصحف" کو دیکھ کر اس سے روایت کرتے ہیں۔ [26] اوپر مذکور تفصیل کو نظر میں رکھتے ہوئے غور کریں تو ظاہر یہی ہے کہ کچھ عرصہ بعد ان سے منسوب تفسیری اقوال کو کسی نے ذاتی مصحف میں لکھ کر محفوظ کیا ہو گا اور وہ پھر اس مصحف ہی کی نسبت جناب ابی بن کعب ؓ سے ہو گئی ہو گی۔ ابن ندیم نے فضل بن شاذان کی روایت نقل کی ہے جس میں بصرہ کے قریب "انصار" نامی ایک بستی میں بھی محمد بن عبد الملک نامی ایک صاحب کے پاس حضرت ابی بن کعب ؓ سے منسوب مصحف کی موجودگی کا ذکر ہے۔[27]یوں بھی حضرت ابی بن کعب ؓ تو خود عاملین جمع و تدوین مصاحفِ عثمانی میں شامل تھے۔

عن محمد بن سيرين، عن كثير بن أفلح قال: " لما أراد عثمان أن يكتب المصاحف، جمع له اثني عشر رجلا من قريش والأنصار، فيهم أبي بن كعب، وزيد بن ثابت 

محمد بن سیرینؒ کثیر بن افلح سے روایت کرتے ہیں کہ جب عثمان ؓ نے مصاحف کی کتابت کا ارادہ کیا تو قریش اور انصار سے بارہ آدمیوں کو جمع کیا جن میں ابی بن کعب ؓ اور زید بن ثابت شامل تھے۔ [28]

اس لیے ان کے ذاتی مصحف میں اگر کچھ مختلف تھا بھی تو وہ اس کی قرآنیت کے قائل نہیں ہوں گے اور اگر تھے بھی تو جمع کے موقع پر اس کے حوالے سے شرح صدر بھی ہو گیا ہو گا ۔

حضرت عبدالله بن مسعود ؓ سے منسوب جو قراءتیں مضمون نگار نے نقل کی ہیں ان کی حقیقت بھی کچھ مختلف نہیں۔ ابن ابی داود نے ان کو "مصحف عبد الله بن مسعود رضي الله عنه" کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے جبکہ روایات سے ثابت ہے کہ ابتدا میں اختلاف کے بعد حضرت عبدالله بن مسعود ؓ نے مصاحف کے حوالے سے دیگر صحابہ کی طرح عثمان ؓ کے موقف کو تسلیم کر لیا تھا اور اپنا مصحف بھی حضرت عثمان ؓ کے نمایندے کے سامنے پیش کر دیا تھا جس کی تفصیل بعد میں آتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو قراءت کے عنوان سے ابن مسعود ؓ سے منسوب ان اقوال کا تفسیری روایات ہونا ہی معلوم ہوتا ہے۔ ابن مسعود ؓسے منسوب ایسے متعدد مصاحف کا ذکر ملتا ہے۔ محمد بن اسحاق ابن ندیم (متوفی ٤٣٨ ھ) لکھتے ہیں:

رأيت عدة مصاحف ذكر نساخها أنها مصحف بن مسعود ليس فيها مصحفين متفقين وأكثرها في رق كثير النسخ وقد رأيت مصحفا قد كتب منذ مائتي سنة فيه فاتحة الكتاب

ایسے متعدد مصاحف میری نظر سے گزرے ہیں جن کو ناسخین نے مصحف عبدالله بن مسعود بتایا ہے حالانکہ ان میں سے دو نسخوں میں بھی توافق نہیں پایا گیا۔ ان میں بیشتر ایسے اوراق پر مرقوم تھے جن کا اکثر حصّہ مٹا ہوا تھا ۔ ایک مصحف ہم نے ایسا بھی دیکھا ہے جو دو سو برس قبل لکھا گیا تھا اور اس میں سورہ فاتحہ بھی تھی۔[29]

ابن ندیم کے قول کا آخری حصّہ اہم ہے کیونکہ ابن مسعود ؓ کا اپنے ذاتی مصحف میں سورہ فاتحہ درج نہ کرنا معلوم و معروف ہے۔ ابن الانباری کی روایت قرطبی نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں بمع سند محفوظ کر دی ہے جس کے مطابق :

قيل لعبد الله بن مسعود: لم لم تكتب فاتحة الكتاب في مصحفك؟ قال: لو كتبتها لكتبتها مع كل سورة

عبدالله بن مسعود سے پوچھا گیا: آپ سورہ فاتحہ کو اپنے مصحف میں کیوں نہیں لکھتے؟ ابن مسعود ؓ نے جواب دیا: اگر میں اسے لکھتا تو ہر سورت کے ساتھ لکھتا۔[30]

چنانچہ ابن مسعود ؓ سے منسوب جو روایات قراءت کے عنوان سے ذکر کی گئی ہیں ان پر غور کرنے سے ان کا تفسیری اقوال سے ہونا ظاہر ہو جاتا ہے ۔ اس کو ہم فاضل مقالہ نگار کی ذکر کردہ ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔ سورہ بقرہ آیت ١٩٦ جو مصحف میں "وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ" درج ہے اس کے حوالے سے ابن مسعود ؓ سے ایک روایت "وأقيموا الحج والعمرة للبيت"[31] ہے اور ایک روایت "وأتموا الحج والعمرة إلى البيت"[32] ہے۔ اور دونوں کو قراءت عبد الله کہا گیا ہے۔ ان دونوں کی روایات کی اسنادی حیثیت سے قطع نظر یہ لفظی اختلاف ہی ان کے تفسیری اقوال ہونے کی دلیل ہے۔ دوسری روایات اس حقیقت کو مزید واضح کرتی ہیں ۔ مثلا ایک روایت میں ہے:

عن علقمة وإبراهيم قالا: في قراءة ابن مسعود {وأقيموا الحج والعمرة إلى البيت} لا يجاوز بالعمرة البيت الحج المناسك والعمرة البيت والصفا والمروة

علقمہ اور ابراہیم سے روایت ہے کہ عبدالله بن مسعود کی قراءت میں یہ آیت یوں تھی "وأقيموا الحج والعمرة إلى البيت" یعنی حج کرنے والا بیت الله کی زیارت اور مناسک حج سے تجاوز نہ کرے اور عمرہ کرنے والا بیت الله کی زیارت اور صفا و مروہ کی سعی سے تجاوز نہ کرے[33]

یہاں بھی اس کو قراءت کہہ کر ہی نقل کیا گیا ہے لیکن یہ ایک تفسیری روایت ہے جس میں ایک فقہی نکتہ بیان ہوا ہے۔ ابن ندیم کی شہادت کہ انہوں نے ابن مسعود ؓ سے منسوب مصاحف میں باہم اختلاف دیکھا کو مذکورہ بالا مثال کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو ہماری اس توجیہ کا مزید ثبوت مل جاتا ہے کہ قراءت کے نام سے صحابہ و تابعین سے جو روایات منقول ہیں وہ در حقیقت ان کے تفسیری اقوال ہیں۔ اور جب یہی اقوال تحریری صورت میں صحیفوں کی صورت میں نقل ہوئے تو یہ ان کی نسبت سے مصاحف کہلائے۔ مقالہ نگار نے ابن مسعود ؓ کی جن دیگر' قراءتوں' کا ذکر کیا ہے ان کی حقیقت بھی یہی ہے۔ البتہ ایک روایت کا جائزہ لینا ضروری ہے جس میں ذکر ہے کہ حذیفہؓ نے سورت بقرہ کی اسی آیت نمبر ١٩٦ کے حوالے سے کوفہ کی مسجد میں ابو موسی ؓ اور ابن مسعود ؓ کی قراءتوں کے مطابق پڑھنے والوں کے مابین اختلاف دیکھا ۔

عن يزيد بن معاوية قال: إني لفي المسجد زمن الوليد بن عقبة في حلقة فيها حذيفة قال: وليس إذ ذاك حجزة ولا جلاوزة إذ هتف هاتف من كان يقرأ على قراءة أبي موسى فليأت الزاوية التي عند أبواب كندة، ومن كان يقرأ على قراءة عبد الله بن مسعود فليأت هذه الزاوية التي عند دار عبد الله، واختلفا في آية من سورة البقرة قرأ هذا (وأتموا الحج والعمرة للبيت) وقرأ هذا: {وأتموا الحج والعمرة لله} [البقرة: 196] فغضب حذيفة واحمرت عيناه...

روایت ہے کہ یزیدبن معاویہ (العامری ) نے فرمایا: میں ولید بن عقبہ کے زمانہ میں ایک حلقے میں بیٹھا تھا جس میں حذیفہؓ بھی تھے۔ وہاں کوئی رکاوٹ تھی نہ کوئی نگران۔ اچانک ایک آواز آئی کہ جو ابو موسی ؓ کی قراءت سے پڑھتا ہے وہ کندہ کے دروازوں کی طرف آ جائے اور جو عبدالله بن مسعود کی قراءت سے پڑھتا ہے وہ ابن مسعود ؓ کے گھر کی طرف آ جائے ۔ سورت بقرہ کی تلاوت میں ان کے درمیان اختلاف ہو گیا ۔ ایک نے اسے "وأتموا الحج والعمرة للبيت" پڑھا اور دوسرے نے "وأتموا الحج والعمرة لله" پس حذیفہ غصّے میں آ گئے اور ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں ۔۔۔[34]

فاضل مقالہ نگار کے نزدیک اس مثال سے قراءتوں کے اختلاف کی نوعیت واضح ہوتی ہے کہ معاملہ الفاظ کی کمی بیشی کا تھا۔ اول تو کہ سند کے اعتبار سے ہی یہ روایت ثابت نہیں۔ اس کی سند میں شامل راوی عبد الله بن عبد الملك ابجر کے متعلق کتب رجال خاموش ہیں لہذا وہ مجہول ہے اور نتیجتا روایت کی سند ضعیف شمار ہو گی۔ دوسری بات یہ کہ روایت میں واضح نہیں کہ کس نے کس طرح پڑھا۔ وأتموا الحج والعمرة للبيت کی روایت کو ابن مسعود ؓ کی قراءت سے نسبت کرنے والے کی تلاوت سمجھا جائے تو اس سیاق میں بھی یہ امکان بعید از قیاس نہیں کہ کسی نے تفسیری توجیہ کو قراءت سے خلط کر دیا ہو۔ اگر ایسا ابو موسی ؓ سے نسبت قراءت کرنے والے نے پڑھا تو بھی یہ احتمال رہتا ہے۔ البتہ اگر وأتموا الحج والعمرة لله کو ابن مسعود ؓ سے منسوب سمجھا جائے اور ترتیب کلام کا مقتضی یہی ہے تو قبل ازیں مذکور تجزیہ کو مزید تقویت ملتی ہے کہ اصل قراءت تو ابن مسعود ؓ کے نزدیک یہی تھی باقی اقوال ان کی اختیار شدہ تفسیر کے تھے جن کو قراءت کے عنوان سے نقل کر دیا گیا ۔ اس روایت سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ سورت فاتحہ اور سورت بقرہ کی ابتدائی ١٩٥ آیات میں ابن مسعود ؓ اور ابو موسی ؓ کی نسبت سے قراءت کرنے والوں کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہوا جس سے کتاب المصاحف ہی میں مذکور ابن مسعود ؓ سے منسوب سورت بقرہ کی ابتدائی ١٩٥ آیات(بشمول آیت ٨٥ اور ١٤٨ جن کا فاضل مقالہ نگار نے خاص ذکر کیا ہے) کی ان قراءتوں کی حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے جن کے بارے میں ہم کہہ چکے ہیں کہ وہ تفسیری اقوال سے زیادہ کچھ نہیں تھے۔ اگر ان کی حقیقت کچھ بڑھ کر ہوتی تو کہیں نہ کہیں ان کی نسبت ابو موسی اشعریؓ سے بھی ہوتی۔ پھر بقیہ قرآ ن کے حوالے سے مروی 'قراءتوں' کی روایات کو بھی اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔

قراءت و مصاحف کے حوالے سے ابن مسعود ؓ کے موقف کی اہمیت اور اس بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کے تدارک کیلئے ہم ان کے بارے میں روایات سے قدرے تفصیلی تعرض کرتے ہیں۔

مصاحفِ عثمانی سے متعلق ابن مسعود ؓ کا موقف

ابتدا میں ابن مسعود ؓ نے اس مسئلہ میں شدید اختلاف کیا اور اپنے غم و غصہ کا بھرپور اظہار بھی کیا۔ ساتھ ہی عراق و کوفہ والوں کو مصاحف حضرت عثمان ؓ کے نمائندوں کے حوالے کرنے سے بھی منع کر دیا۔ زہریؒ عبید الله بن عبدالله بن عتبؒہ سے روایت کرتے ہیں کہ:

أن عبد الله بن مسعود كره لزيد بن ثابت نسخ المصاحف فقال: " يا معشر المسلمين، أعزل عن نسخ [كتاب] المصاحف وتولاها رجل، والله لقد أسلمت وإنه لفي صلب أبيه كافرا [يريد زيد بن ثابت] ۔ وكذلك قال عبد الله: يا أهل الكوفة أو يا أهل العراق اكتموا المصاحف التي عندكم، وغلوها فإن الله يقول: {ومن يغلل} [سورة: آل عمران، آية رقم: ١٦١] يأت بما غل يوم القيامة فالقوا الله بالمصاحف

عبدالله بن مسعود کو زید کا مصاحف لکھنا ناگوار گزرا اور انہوں نے کہا: "اے مسلمانو! مجھے مصحف کی کتابت سے دور رکھا جا رہا ہے اور یہ کام ایک اور شخص کو سونپا جا رہا ہے ۔ الله کی قسم میں مسلمان ہو چکا تھا اور وہ اپنے کافر باپ کی پیٹھ میں تھا "– ان کا اشارہ زید بن ثابت کی طرف تھا -- چنانچہ ابن مسعود ؓ نے کہا: "اے اہل کوفہ یا (کہا) اے اہل عراق! تم اپنے مصاحف چھپا لو کیونکہ الله تعالی کا ارشاد ہے "جو شخص کوئی چیز چھپائے گا وہ قیامت کے دن اسے لے کر الله کے سامنے حاضر ہو گا۔" پس تم اپنے اپنے مصاحف لے کر الله سے ملنا۔"[35]

روایات سے واضح ہے کہ ابن مسعود ؓ کو اصل اختلاف اس عظیم کار خیر سے الگ رکھے جانے پر تھا جس کی اتباع کا مطالبہ سب سے کیا جا رہا تھا۔ یوں اپنے سے عمر میں بہت چھوٹے زید بن ثابت پر انہوں نے غصہ اتارا ورنہ ابو بکر ؓ کے دور میں جب زید بن ثابت نے عمر ؓ کے زیر سایہ کتابت کی خدمت سر انجام دی تھی تو اس موقع پر ابن مسعود ؓ کے کسی احتجاج اور غم و غصہ کا اشارہ تک روایات میں نہیں ملتا۔   یہ ایک سہل توجیہ ہی نہیں  بلکہ   خود عثمانؓ   سے یہ بات صریح الفاظ میں نقل ہوئی  ہے ۔ 

امام ذہبی نقل کرتے ہیں کہ ابن سعد نے واقدی کے طریق سے امام زہری سے روایت  کیا ہے   :

قال ثعلبة بن أبي مالك: سمعت عثمان يقول: من يعذرني من ابن مسعود غضب إذ لم أوله نسخ القرآن، فهلا غضب على أبي بكر وعمر وهما عزلاه عن ذلك، ووليا زيدا، فاتبعت أمرهما

ثعلبہ  بن ابی  مالك کہتے ہیں: میں نے عثمان کو یہ کہتے سنا،" ابن مسعود کے حوالے سے میری عذر  خواہی کون  کرے  گا ، وہ اس بات پر برانگیختہ ہیں کہ میں نے  کتابت قران کا کام  ان کو نہیں سونپا۔   (اگر وہ  اس میں حق بجانب ہیں تو)  انہوں نے اسی بات پر ابو بکر اور عمر سے شکوہ کیوں نہیں کیا جبکہ انہوں نے بھی  ان  کو اس کام سے الگ رکھا اور یہ ذمہ داری زید (بن ثابت) کو سونپی۔   میں نے تو ان دونوں کی اتباع  ہی کی ہے۔   "[36]

یوں بھی  حضرت عثمان ؓ کے لیے ابن مسعود ؓ کو خاص طور پر کوفہ سے بلا کر اس کام میں شامل کرنا کسی بھی اعتبار سے نا گزیر نہ تھا۔ ابن مسعود ؓ کو اپنے تمام تر علم و فضیلت کے باوجود کتابت کے حوالے سے کوئی خاص مقام حاصل نہیں تھا۔ شیخ مصطفیٰ اعظمی مرحوم نے اپنی تصنیف "کُتّاب النبی ﷺ " میں مختلف مصادر سے ڈونڈھ ڈونڈھ کر رسول الله ﷺ کے پینسٹھ (٦٥) کاتبین کی فہرست تیار کی ہے لیکن ان کو ابن مسعود ؓ کے حوالے سے ایسی کوئی شہادت نہیں ملی۔ کتابت آپ کا میدان ہوتا تو رسول الله ﷺ سے اپنی قربت کی بدولت ضرور کاتبین وحی میں شمار ہوتے۔ پھر آپ تھے بھی ہذیل سے نہ کہ قریش سے ۔ یوں املا و کتابت ہر دو اعتبار سے آپ کی اس کام میں شرکت ناگزیر نہ تھی۔

تاہم بعد ازاں ابن مسعود ؓ کا مصحف حوالے کرنے کا ذکر بھی روایت ہوا ہے۔ تاریخ دمشق میں جمعِ عثمانی کے متعلق ایک طویل روایت میں منقول ہے کہ:

فكل الناس عرف فضل ذلك، أجمعوا عليه وتركوا ما سواه إلا ما كان من أهل الكوفة، فإن قراء قراءة عبد الله نزوا في ذلك حتى كادوا يتفضلون على أصحاب النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وعابوا الناس، فقام فيهم ابن مسعود فقال: ولا كل هذا، إنكم قد سبقتم سبقاً بيناً، فاربعوا على ظلعكم ولما قدم المصحف الذي بعثه عثمان على سعيد واجتمع عليه الناس وفرح به أصحاب النبي (صلى الله عليه وسلم) بعث سعيد إلى ابن مسعود يأمره أن يدفع إليه مصحفه، فقال: هذا مصحفي، تستطيع أن تأخذ ما في قلبي؟ فقال له سعيد: يا عبد الله، ما أنا عليك بمسيطر، إن شئت تابعت أهل دار الهجرة وجماعة المسلمين، وإن شئت فارقتهم، وأنت أعلم.

تمام لوگوں نے عثمان ؓ کی کاوش کی اہمیت کو جانا اور اہل کوفہ کے علاوہ سب اسی پر جمع ہو گئے اور انہوں نے اس کے علاوہ تمام مصاحف کو ترک کر دیا ۔ عبدالله بن مسعود کے شاگردوں نے اس معاملے کو بہت بڑھا دیا یہاں تک کہ وہ خود کو رسول الله ﷺ کے اصحاب سے بھی بڑھانے لگے اور لوگوں پر طعن کرنے لگے ۔ تب ابن مسعود ؓ ان کو خطاب کرنے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: اس ہنگامے کی ضرورت نہیں۔ واقعی تم لوگ زیادہ ہی آگے نکل گئے ہو۔ پس اپنی حد میں رہو۔ جب عثمان ؓ کا سعید (بن العاص) کے ہاتھ بھیجا گیا مصحف جس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہو گیا تھا اور جس پر صحابہ نے خوشی کا اظہار کیا تھا آ پہنچا تو سعید حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس گئے کہ وہ اپنا مصحف ان کے حوالے کر دیں۔ ابن مسعود ؓ نے کہا: یہ رہا میرا مصحف۔ اگر ہو سکے تو جو میرے سینے میں ہے وہ بھی لے لو؟سعید نے کہا: اے عبدالله! میں آپ پر نگہبان نہیں بنایا گیا۔ اگر آپ چاہیں تو اہل مدینہ اور دیگر اہل اسلام کی اتباع کریں اور چاہیں تو ان سے الگ رہیں۔ (باقی) آپ بہتر سمجھتے ہیں۔ [37]

چنانچہ ہمیں عراق میں مصاحف کے جلائےجانے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ابن ابی داود کی ایک روایت کے آخر میں ذکر ہے:

وأرسل إلى كل جند من أجناد المسلمين بمصحف وأمرهم أن يحرقوا كل مصحف يخالف المصحف الذي أرسل به، فذاك زمان حرقت المصاحف بالعراق بالنار

تمام مسلمان لشکروں کو مصحف ارسال کیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ اس سے مختلف ہر مصحف کو جلا دیں۔ اسی عرصے میں عراق میں (بھی) مصاحف کو جلایا گیا۔[38]

اسی طرح ابن مسعود ؓ کے حوالے سے تاریخ دمشق میں ہی مزید روایت ہے:

وبلغ عثمان شدة ذلك على عبد الله فكتب إليه إن الذي أتاك من قبلي ليس برأي ابتدعته ولا [حدث أ]حدثته ولكن هذا القرآن واحد جاء من عند واحد وهؤلاء قراء القرآن عن النبي (صلى الله عليه وسلم) أهل دار الهجرة والمهاجرون والأنصار وصالحو الأمصار قد نهضوا فيه وقاموا به في كل أفق وخافوا أن يلبس من بعدهم وأن يجعله الناس عضين وليس بهم أنت ولا أمثالك فقام ابن مسعود يوم خطبته فخطب وعذر المسلمين وقال إن الله لا ينزع العلم انتزاعا ولكن ينزعه بذهاب العلماء وإن الله لا يجمع أمة محمد (صلى الله عليه وسلم) على ضلالة فجامعوهم على ما اجتمعوا عليه وكان الحق فيما اجتمعوا عليه

عثمان ؓ نے اس حوالے سے عبدالله بن مسعود کو سرزنش کا ایک خط لکھا کہ میرے جس اقدام کی خبر تم تک پہنچی ہے وہ محض میری ذاتی رائے نہیں اور نہ ہی میری اختراع ہے ، بات یہ ہے کہ قرآن ایک ہی ہے جو الله کی طرف سے نازل ہوا ہے اور یہ اقدام نبی ﷺ سے قرآن سیکھنے والے اہل مدینہ، مہاجرین و انصار، اور دوسرے شہروں کے صالحین کا متفقہ ہے جس پر ہر جگہ عمل ہوا ہے کیونکہ انہیں خوف ہوا کہ بعد میں آنے والے لوگوں کو شیطان قرآن کے حوالے سے افتراق میں نہ ڈال دے ۔ ان کو یہ خطرہ تمھارے یا تمھارے جیسوں کے بارے میں نہیں تھا۔ چنانچہ ابن مسعود ؓ نے لوگوں سے خطاب کیا اور مسلمانوں سے معذرت کی۔ اور کہا، "بے شک الله علم کو ایک دم نہیں اٹھا لیتا بلکہ اہل علم کے چلے جانے سے علم اٹھایا جاتا ہے۔ یقینا الله امت محمد ؓ کو گمراہی پر متحد نہیں کرتا پس الله ہی انہیں اس بات پر جمع کر دیا ہے اور جس بات پر ان کا اتفاق ہوا ہے وہی حق ہے۔"[39]

اسی وجہ سے متعدد اہل علم نے ابن مسعود ؓ کا ابتدائی اختلاف کے بعد عثمان ؓ کے اقدام کی حکمت کو سمجھتے ہوئے اپنے قول سے رجوح کرنا نقل کیا ہے۔ ان حضرات میں ابن الانباری ، [40]ابن ابی داود،[41] قاضی ابن العربی،[42] ابن عساکر،[43]ذہبی،[44] اور ابن کثیر [45]شامل ہیں۔

مصاحف کے ساتھ قراء کی روانگی

صرف مصاحف کے ذریعہ اختلافات کا خاتمہ ممکن نہ ہونا ایک بدیہی امر تھا اور جمع و کتابت کے مرکزی کردار زید بن ثابت بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے چنانچہ روایت ہے کہ :

عن خارجة بن زيد بن ثابت عن أبيه قال القراءة سنة

خارجہ بن زید (بن ثابت) اپنے والد کا قول نقل کرتے ہیں کہ: قراءت ایک سنت ہے۔ [46]

امام سیوطی نے ابن الانباری کے حوالے سے یہی روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے:

القراءة سنة من السنن فاقرؤوا القرآن كما اقرئتموه

قراءت سنن میں سے ایک سنت ہے پس تم قرآن اس طرح پڑھو جس طرح تمھیں پڑھایا گیا ہے۔[47]

اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بہت مستعبد معلوم ہوتا ہے قراءت کے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے صرف مصاحف کے نشر پر اکتفا کیا جاتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں اس جمع و تدوین کے بعد نشر مصاحف کے ساتھ ساتھ تعلیم قراءت کے اہتمام کا بھی کیا گیا۔

گو اولین مصادر میں مصاحف کے ساتھ قراء کی روانگی کے حوالے سے کوئی مستقل روایت تو راقم کی نظر سے نہیں گزری لیکن متاخرین کے ہاں بالجزم منقول اس قول کی بنیاد سرسری تحقیق میں ہی سامنے آ جاتی ہے۔ کوفہ اور شام میں عثمان ؓ کے شاگرد قراء کا پہنچنا تاریخی مصادر سے ثابت ہے جس سے مصاحف کے ساتھ قراء کی روانگی کا قول ثابت ہوتا ہے۔

ابو عبد الرحمن السلمیؒ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے قرآن کی تعلیم عثمان ؓ سے حاصل کی۔[48] ایک روایت میں ہے کہ آپ نے زید بن ثابت ؓ کے سامنے تیرہ (١٣) مرتبہ قرآن کریم کی تلاوت کی۔[49] ابن مجاہد نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ:

أول من أقرأ بالكوفة القراءة التي جمع عثمان رضي الله تعالى عنه الناس عليها أبو عبد الرحمن السلمي واسمه عبد الله بن حبيب فجلس في المسجد الأعظم ونصب نفسه لتعليم الناس القرآن

کوفہ میں سب سے پہلے ابو عبدالرحمن السلمی ؒنے ہی اس قراءت سے پڑھا جس پر عثمان ؓ نے لوگوں کو جمع کیا تھا ۔ ان کا نام عبدالله بن حبیب تھا۔ آپ کی کوفہ کی جامع مسجد میں لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے کیلئے بیٹھتے تھے۔ [50]

اور چونکہ ابو عبدالرحمن السلمیؒ قراءت میں ابن مسعودؓکے شاگرد بھی ہیں [51] لہذا ان کا ابن مسعود ؓ کی زندگی میں ہی کوفہ جانا ثابت ہے۔ خود ابن مسعود ؓ کی ایک روایت سے بھی کوفہ میں عثمان ؓ کے بھیجے ہوئے قاریوں کی آمد کا اشارہ ملتا ہے ۔

قال عبد الله : إني قد تسمعت إلي القرأة فوجدتهم متقاربين فاقرؤوه كما علمتم ، وإياكم والتنطع والاختلاف

عبدالله بن مسعود نے فرمایا: میں نے قاریوں کو سنا تو ان کی قراءتوں کو ملتا جلتا پایا۔ پس جیسے تمھیں سکھایا گیا ہے ویسے ہی پڑھو اور تکلف و اختلاف سے بچو۔ [52]

اس تناظر میں مدینہ سے کوفہ جانے والے عبیدہ السلمانیؒ  کا تذکرہ بھی اہم ہے جن کے بارے میں تفصیل اگلی بحث میں پیش کی جائے گی ۔

اسی طرح مغیرہ بن ابی شہاب المخزومیؒ ہیں جن کی نسبت شام کی طرف بھی کی گئی ہے۔ ان کے بارے میں صرف اتنا معلوم ہے کہ انہوں نے براہ راست عثمان ؓ سے قراءت سیکھی اور اہل شام نے ان سے۔ جامع دمشق کے امام اور معروف قاری يحيى بن الحارث الذماريؒ (المتوفی ١٤٥ ہجری ) سے روایت ہے:

كنت ختمت القرآن على عبد الله بن عامر اليحصبي، وقرأه عبد الله بن عامر على المغيرة بن أبي شهاب المخزومي، وقرأه المغيرة على عثمان بن عفان ليس بينه وبينه أحد

میں نے مکمل قرآن عبدالله بن عامر یحصبی سے پڑھا، اور عبدالله بن عامر نے مغیرہ بن ابی شہاب المخزومی سے، اور خود مغیرہ نے براہ راست عثمان ؓ سے۔[53]

اسی طرح ابن عساکر لکھتے ہیں:

أهل الشام فيسندون قراءتهم إلى عبد الله بن عامر اليحصبي وكان عبد الله أخذ القراءة عن المغيرة بن أبي شهاب المخزومي وأخذها المغيرة عن عثمان بن عفان

اہل شام اپنی قراءت کی سند عبدالله بن عامر یحصبیؒ سے لیتے ہیں ۔ عبداللهؒ نے قراءت مغیرہ بن ابی شہاب مخزومیؒ سے سیکھی اور مغیرہؒ نے عثمان ؓ بن عفان سے۔[54]

اسی طرح صحابی رسول عبدالله بن سائب ؓ ہیں جن کو "مقرئ مكَّة" کہا گیا ہے اور جن کے بارے میں مکہ مکرمہ کے عظیم مفسر تابعی مجاہد بن جبرؒ کا قول ہے کہ، "ہم (دیگر امصار کے ) لوگوں پر چار افراد کی وجہ سے فخر کرتے تھے: ایک فقیہ، ایک قصہ گو، ایک موذن اور ایک قاری کی وجہ سے ۔۔۔ ہمارے قاری عبدالله بن سائب تھے۔" [55] ان ہی کے بارے میں امام شافعی کی روایت ہے کہ:

عن ابن كثير أنه قرأ على عبد الله بن السائب بن أبي السائب صاحب رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وقارئ أهل مكة، وقرأ عبد الله بن السائب على أبي بن كعب نفسه، وقرأ على النبي -صلى الله عليه وسلم۔

ابن کثیر نے قرآن حکیم عبدالله بن السائب بن ابی السائب سے پڑھا اور وہ اہل مکہ کے قاری تھے، اور عبدالله بن ابی السائبؓ نے خود ابی بن کعب ؓ سے اور ابی ؓنے نبی سے۔[56]

اور یہ معلوم ہے کہ ابی بن کعب ؓ جمعِ عثمانی پر مامور حضرات میں سے تھے۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو ابی شامہؒ (المتوفی ٦٦٥ ھ) کا یہ فرمانا محض مفروضہ معلوم نہیں ہوتا کہ:

عبد الله بن السائب المخزومي وهو الذي بعث عثمان -رضي الله عنه- معه بمصحف إلى أهل مكة لما كتب المصاحف وسيرها إلى الأمصار، وأمره أن يقرئ الناس بمصحفه

عبدالله بن سائب المخزومی ؓوہ ہیں کہ جب عثمان رضی الله عنہ نے مصاحف لکھوا لیے اور ان کے مختلف شہروں کی طرف ارسال کیا تو ان کو مکہ میں مصحف کے ساتھ مامور کیا اور حکم دیا کہ قرآن کو لوگوں پر مصحف کے مطابق پڑھیں۔[57]

اسی نہج پر دیگر شہروں کے قراء کے حالات پر نظر کی جائے تو مصاحف کے ساتھ قراء  کی روانگی کو محض مفروضہ قرار دینے کے قول کا بوده پن مزید ظاہر ہو جائے۔

 مصاحفِ عثمانی اور عرضۂِ اخیرہ :

معروف ہے کہ مصاحفِ عثمانی میں منضبط متن کی بنیاد عرضۂِ اخیرہ سے ثابت وجوہ قراءت ہیں۔ فاضل مقالہ نگار کے نزدیک اس موضوع سے متعلق روایات متعارض ہیں۔ جہاں انہوں نے مصاحفِ عثمانی کی عرضۂِ اخیرہ سے مطابقت کی روایات کو نا قابل استدلال یا غیر مؤثر بتایا ہے وہیں انہوں نے سیدنا ابن مسعود ؓ کے عرضۂِ اخیرہ کے شاہد ہونے کی روایات سے عام متداول قراءت کی عرضۂِ اخیرہ سے عدم مطابقت کا نتیجہ بھی اخذ کر لیا ہے۔

مصاحفِ عثمانی اور قراءت عامہ کی عرضۂِ اخیرہ سے مطابقت کے دلائل میں سے سیدنا سمرہ بن جندبؓ کی روایت سے متعلق مقالہ نگار کی تحقیق سے ہمیں اتفاق ہے کہ اس کا بحث سے متعلق حصہ سیدنا سمرہؓ کا نہیں بلکہ روایت کے ایک ذیلی راوی حماد بن سلمہؒ کا قول ہے ۔ اسی طرح ابو عبدالرحمن السلمیؒ کے قول کے بلا سند ہونے کی نشاندہی بھی انہوں نے درست کی ہے۔ تاہم ابن سیرینؒ اور ابوعبیدہ السلمانیؒ کی شہادتوں سے متعلق ان کی تحقیق پر ہمیں شدید تحفظات ہیں۔

ابن سیرینؒ کی روایت:

یہ کہ ابن سیرینؒ نے قراءت عامہ کہ جو مصاحفِ عثمانی پر مبنی تھی کو عرضۂِ اخیرہ سے متعلق محض اپنے قیاس سے ایک مفروضے کے طور پر کہا تھا درست نہیں ۔ مقالہ نگار نے جس روایت سے یہ اخذ کیا ہے اس میں ان کا ظن اور تخمینہ مطلق قراءت عامہ اور عرضۂِ اخیرہ کے تعلق پر نہیں بلکہ جمعِ عثمانی کے دوران اختلاف کی صورت میں بعض آیات کی کتابت کو مؤخر کرنے کی وجہ کو عرضۂِ اخیرہ کی تلاش سے جوڑنے سے ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ اس معاملے میں امام ابن سیرینؒ سے روایت دو طرح سے ہے۔

الف:        عبدالله بن وھب نے "جرير بن حازم عن أيوب عن ابن سيرين" کی سند سے یہ روایت کرنے کے بعد کہ جبریل ہر سال رمضان میں نبی ﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کیا کرتے تھے اور جب آپ کے وصال کا سال آیا تو دو مرتبہ دور ہوا، یہ الفاظ نقل کیے ہیں:

قال ابن سيرين: فكانوا يرون أن قراءتنا هذه من العرضة الآخرة

ابن سیرینؒ کہتے ہیں: صحابہ و تابعین کہاکرتے تھے کہ ہماری یہ قراءت عرضۂِ اخیرہ کے مطابق ہے۔[58]

حافظ سیوطی نے تفسیر در المنثور اور الاتقان میں ابن الانباری اور ابن اشتہ کے حوالے سےبھی ابن سیرینؒ کا قول انہی الفاظ میں نقل کیا ہے۔[59]

ب:  ھشام ابن حسان کی سند سے ابن سیرین سے روایت ہے:

حدثني كثير بن أفلح، أنه كان يكتب لهم فربما اختلفوا في الشيء فأخروه، فسألت: لم تؤخرونه؟ قال: لا أدري قال محمد فظننت فيه ظنا، فلا تجعلوه أنتم يقينا، ظننت أنهم كانوا إذا اختلفوا في الشيء أخروه حتى ينظروا آخرهم عهدا بالعرضة الآخرة فيكتبوه على قوله"

کثیر بن افلح نے مجھ سے سے بیان کیا کہ وہ صحابہ کے لیے مصحف کی کتابت کرتے تھے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ ان حضرات کا کسی آیت کے متعلق اختلاف ہو جاتا ۔ ایسے میں وہ اس آیت کی کتابت مؤخر کر دیتے۔ میں نے سوال کیا: وہ کتابت کیوں مؤخر کرتے تھے؟ کثیر بن افلح نے جواب دیا: مجھے اس کا علم نہیں ۔ محمد (بن سیرین) نے کہا: میرا  اس بارے میں ایک گمان ہے ، پس تم اسے یقینی بات مت سمجھ لینا۔ میرا خیال ہے کہ صحابہ کا جب کسی بارے میں اختلاف ہوتا تو وہ اس کی کتابت مؤخر کر دیتے کہ جان لیں کہ کون ( اس آیت کی )عرضہ اخیرہ سے قریب تر وجہ کو جانتا ہے، تو وہ اس کے قول کے مطابق اس آیت کو لکھ لیں۔ [60]

ظاہر ہے ان دونوں روایات کو خلط نہیں کیا جا سکتا۔ ایک میں متعدد صحابہ کو پانے والے جلیل القدر تابعی عمومی طور پر ان کا موقف بیان کر رہے ہیں اور دوسری میں وہی محتاط اور منصف مزاج عالم ایک خاص سیاق میں اپنے استاد کی لا علمی کو بیان کرنے کے بعد اسی خاص مسئلہ پر اپنی را ئے ظاہر کر رہے ہیں۔ ذرا تامل کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ سے جو بات انھیں عمومی طور پر معلوم تھی انہوں نے اپنے اندازے سے اس کا اطلاق خاص جمعِ عثمانی کے ایک جزء پربھی کر دیا ۔ دوسری صورت سے متعلق ان کے قیاس آرائی کرنے کے اعتراف کو ان کی صحابہ و کبار تابعین کی را ئے سے متعلق روایت پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو سراسر تحکم و نا انصافی ہے کہ ایک خاص انطباق جس عمومی علم کا مظہر ہے محض اس انطباق کے ظنی و غیر یقینی ہونے کے اعتراف کو عمومی علم ہی کو مشکوک بنانے کے لئے استعمال کیا جائے؟ یا للعجب!

حقیقت یہی ہے کہ امام ابن سیرینؒ کی یہ روایت قراءت عامہ کی عرضۂِ اخیرہ سے مطابقت کی صریح دلیل ہے۔

عبیدہ السلمانیؒ کی شہادت:

اس سے بھی بڑا ظلم مقالہ نگار نے عبیدہ سلمانی کے ساتھ کیا ہے کہ ان کا قول یہ کہہ کر نظر انداز کر گئے کہ :

"اس کے بعد صرف عبیدہ سلمانی کا قول بچتا ہے ، جسے صاحب کنز العمال نے نقل کیا ہے۔ اس کی اسنادی حیثیت سے قطع نظر، یہ بھی حتمی طور سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ یہ بات کسی روایت کی روشنی میں کہہ رہے ہیں یا ابن سیرینؒ کی طرح محض اپنے ذاتی قیاس کی بنیاد پر۔ "

کوئی وجہ نہیں کہ عبیدہ سلمانی کے قول کو محض قیاس یا مفروضہ تصور کر لیا جائے۔ بلکہ ان کے علمی مقام کو جان لینے سے ان کی یہ شہادت مزید اہم ہو جاتی ہے۔ امام ابو بکر بیہقی دلائل النبوه میں " أخبرناه محمد بن موسى بن الفضل قال: حدثنا أبو العباس الأصم قال: حدثنا أحمد بن عبد الحميد قال: حدثنا حسين الجعفي، عن سفيان بن عيينة، عن ابن جدعان، عن ابن سيرين" کی سند سے عبيدة السلمانیؒ کا یہ قول نقل کرتے ہیں؛

القراءة التي عرضت على رسول الله صلى الله عليه وسلم في العام الذي قبض فيه، هذه القراءة التي يقرأها الناس

وہ قراءت جو رسول اللہ ﷺ کے وفات کے سال میں ان پر پیش کی گئی یہی قراءت ہے جس کو آج سب لوگ پڑھتے ہیں۔[61]

اس سند کے سب راوی ثقہ ہیں اور اس میں انقطاع بھی نہیں۔ ہمیں تسلیم ہے کہ (علی بن زید ) ابن جدعان پرکئی اہل علم نے کلام کیا ہے لیکن ہمارے نزدیک اس باب میں قول فیصل جرح و تعدیل کے اقوال اور متعلقہ اصطلاحات کے تفصیلی جائزہ کے بعد شیخ حاتم بن شریف عونی کا یہ نتیجہ ہے کہ اپنے سے قوی راوی کی مخالفت نہ کریں تو علی بن زید بن جدعان "حسن الحدیث" ہیں۔ اس تحقیق میں شیخ عونی منفرد نہیں ۔امام ترمذی نے انہیں "صدوق" کہا ہے اور ان کی متعدد روایات کی تحسین کی ہے۔ ابن جدعان کے شہر بصرہ ہی کے نقاد حافظ بزار نے بھی انھیں "حسن الحدیث" قرار دیا ہے۔ اسی طرح امام ذہبیؓ نے بھی اپنی متاخر تالیفات میں ان کی تعدیل کی ہے۔[62] حافظ ہیثمیؓ نے بھی مجمع الزوائد میں متعدد مقامات پر ابن جدعان کی احادیث کی تحسین کی ہے۔[63] اسی طرح صاحب کنز العمال نے ان کی روایت کو حسن کہا ہے۔[64] شیخ احمد شاکرؓ بھی ابن جدعان کی توثیق کو راجح قرار دیتے تھے۔[65] شیخ حبیب الرحمن اعظمی[66] او ر شیخ محمد عوامہ کا بھی یہی موقف ہے۔[67]

ابن ابی شیبہ نے مصنَّف میں یہی روایت "حدثنا حسين بن علي ، عن ابن عيينة ، عن ابن جريج ، وعن ابن سيرين، عن عبيدة" کی سند سے بھی نقل کی ہے۔[68] ارسال و انقطاع کے با وجود یہ اسناد (ابن عيينة عن ابن جریج عن عبیدة، اور ابن عيينة عن ابن سیرین عن عبیدة) بیہقی کی سند کی متابعت کا فائدہ بہرحال دیتی ہیں۔

یہاں عبیدہ بن عمرو السلمانیؒ کا مختصر ذکر ضروری ہے۔ عبیدہ السلمانیؒ کا تعلق قبیلہ مراد سے تھا اور آپ یمن کے رہنے والے تھے۔ رسول الله ﷺ کی وفات سے دو برس قبل آپ نے اسلام قبول کیا لیکن بارگاہ نبوت میں حاضری کا موقع نہ مل سکا۔[69] سیدنا عمرؓ کے دور میں آپ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے۔[70] اور بعد ازاں کوفہ میں سکونت اختیار کی۔[71] ان کا شمار عبدالله بن مسعودؓ کے قراء اصحاب میں ہوتا ہے۔[72] ابن ابی داود کی روایت کے مطابق حمزہ الزیات نے قبیلہ مراد کے جن صاحب کے پاس کوفہ کےمصحفِ عثمانی کے رکھے جانے کا ذکر کیا ہے غالبا ان سے مراد عبیدہ السلمانیؒ ہی ہیں۔[73]

اس تناظر میں عبیدہ السلمانیؒ کے قول کی اہمیت محتاج بیان نہیں کہ آپ نا صرف عبدالله بن مسعود کے اجل اصحاب میں سے تھے بلکہ قراءت آپ کا خاص میدان بھی تھا۔ چنانچہ ان کی گواہی اپنے طور پر ہی گویا قول فیصل کا درجہ رکھتی ہے۔ اس قول کو ان کا ذاتی قیاس کہنے کی کوئی گنجائش نہیں کہ اول تو روایت میں اس طرف کوئی اشارہ تک نہیں اور ان کو سیدنا ابن مسعود ؓ کے ساتھ ساتھ عثمان ؓ بن عفان، اور علی بن ابی طالب سمیت جمعِ عثمانی کے شاہد کئی اصحاب کی معاصرت کا شرف بھی حاصل ہے- جناب عبیدہ جمعِ عثمانی کے وقت یا تو مدینہ میں تھے یا کوفہ میں۔ ہر دو صورت میں ان کا معاملہ کی اصل سے واقف ہونا ظاہر ہے۔ مقالہ نگار نے اس روایت کے ذاتی قیاس ہونےکے امکان کا تاثر ابن سیرینؒ کے قول کی جس توجیہ کے ذریعہ پیدا کیا ہے اس کی حقیقت ہم اوپر دیکھ چکے ہیں۔

ابن عباس ؓ کی روایت اور اس کا حاصل:

فاضل مقالہ نگار مزید فرماتے ہیں؛

" مذکورہ تمام اقوال کے بر عکس عبد الله بن عباس سے صحیح سند سے منقول ہے کہ عرضۂِ اخیرہ کی قراءت وہ نہیں جس کے مطابق عموما لوگ قراءت کرتے ہیں بلکہ وہ تھی جو عبد الله بن مسعود لوگوں کو سکھاتے تھے اور انہی کی قراءت در حقیقت عرضۂِ اخیرہ کی قراءت تھی ۔ "

یہ قول بھی قطعی طور پر غلط ہے۔ ابن عباسؓ سے منقول روایات کا مقارنہ و محاکمہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ابن مسعود ؓ کی قراءت کا عرضۂِ اخیرہ سے ہونا تو بیان کیا ہے یہ نہیں کہا کہ قراءت عامہ عرضۂِ اخیرہ سے متعلق نہیں۔ تفصیل اس اجمال کی ذیل میں پیش کی جاتی ہے؛

ابن عباس ؓ سے ابی ظبیان کی روایت:

ابن عباس ؓسے اس موضوع کی روایات ان کے تین شاگردوں ، ابی ظبیان ، مجاہد ، اور زر بن حبیش نے کی ہیں جن کا ذکر فاضل مقالہ نگار نے کیا ہے ۔ ابی ظبیان کی روایت اعمش کے طریق سے ان کے تین شاگرد ابو معاویہ الضریر، شریک بن عبدالله، اور وکیع بن جراح یوں بیان کرتے ہیں؛

قال: قال لي ابن عباس: " على أي القراءتين تقرأ؟ "، قلت: على القراءة الأولى، قراءة ابن مسعود، قال: "بل قراءة ابن مسعود هي الآخرة، إن جبريل صلى الله عليه وسلم كان يعرض على نبي الله صلى الله عليه وسلم القرآن في كل رمضان، فلما كان العام الذي مات فيه عرضه مرتين، فشهد عبد الله ما نسخ منه وما بدل

ابن ظبیان کہتے ہیں: ابن عباس ؓ نے مجھ سے کہا تم نے کون سی قراءت سے پڑھا ؟ میں نے کہا، اوّل دور کی قراءت یعنی ابن مسعود ؓ کی قراءت سے۔ (اس پر) ابن عباس نے کہا:(نہیں)بلکہ ابن مسعود ؓ کی قراءت تو آخری دور کی قراءت ہے۔ جبریل ہر سال رمضان میں رسول الله ﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے تھے۔ جب آپ کی وفات کا سال آیا تو دو بار دور ہوا۔ عبدالله اس موقع پر موجود تھے، اور یوں وہ قرآن سے ہونے والے نسخ اور تبدیلی سے واقف تھے۔[74]

 یہاں صرف ابن مسعود ؓ کی قراءت کی عرضۂِ اخیرہ سے نسبت کا اثبات ہے۔ نفی کسی چیز کی نہیں۔ اعمش ہی کے طریق سے أبو المعتمر سليمان بن طرخان روایت کریں تو بھی بعينہ یہی صورت سامنے آتی ہے ۔[75] اعمش ہی کی سند سے عبيد بن أبى اميہ ایادى کے دو ببیٹوں يعلى اور محمد کی مسند احمد میں نقل شدہ مشترکہ روایت میں ابن عباسؓ کا سوال قدرے مختلف الفاظ میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب سے پوچھا:

أي القراءتين تعدون أول؟ قالوا: قراءة عبد الله، قال: لا، بل هي الآخرة، "...

تم لوگ کس قراءت کو اول دور کی قراءت گردانتے ہو؟ انہوں نے کہا: عبدالله بن مسعود کی قراءت کو۔ اس پر ابن عباس ؓ نے فرمایا: نہیں، بلکہ ان کی قراءت تو آخری دور کی قراءت ہے ۔۔۔[76]

ابی ظبیان کی روایت کے ذکر میں عمار صاحب نے عربی الفاظ تو مسند احمد کی درج بالا روایت کے لکھے ہیں لیکن ترجمہ مسند ابو یعلی کی روایت کا کر دیا ہے جس میں ابن عباس سے منسوب ایک جملے "قراءتنا القراءة الأولى" (ہماری قراءت پہلے دور کی قراءت ہے) کا اضافہ ہے۔[77]

اہم بات یہ ہے مسند ابو یعلی کی روایت مختلف سند سے ہے جس میں زهير بن حرب، جرير بن عبد الحميد کے واسطے سے اعمش سے روایت کرتے ہیں۔ اس جملے کا شذو ذ واضح ہے۔ متن کے حساب سے غور کریں تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ ابن عباسؓ نسخ و تبدل کے علم کے حوالے سے عرضۂِ اخیرہ کی اہمیت کا ادراک بھی رکھتے ہوں اور پھر خود پہلے دور کی قراءت پر قانع ہو کہ اعلان کریں کہ "ہاں ہماری قراءت اوّل دور کی قراءت ہے۔" سند کے اعتبار سے بھی شذو ذ ظاہر ہے کہ اعمش سے روایت کرنے والے چھ (٦) حضرات، ابو معاویہ الضریر، شریک بن عبدالله، اور وکیع بن جراح، أبو المعتمر سليمان بن طرخان، يعلى بن عبيد اور محمد بن عبيد کے بر خلاف صرف جرير بن عبد الحميد نے یہ جملہ روایت کیا ہے۔ یوں وہ اعمش سے روایت میں ابو معاویہ کی بھی مخالفت کررہے ہیں۔ اور یہ معلوم ہے کہ اعمش کی روایات میں ابو معاویہ کو جرير سے اصح مانا گیا ہے۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں، "أبو معاوية أثبت من جرير فى الأعمش" (اعمش کی روایات میں ابو معاویہ، جرير سے ثبت میں بڑھ کر ہیں) اسی طرح یحییٰ بن معین اور امام احمد سے اعمش کی روایات کے حوالے سے ابو معاویہ اور جرير کے بارے میں پوچھا گیا تو دونوں نے کہا: " أبو معاوية أحب إلينا" (ہمارے نزدیک ابو معاویہ بہتر ہیں)۔ بلکہ الوكيعى نے تو ابو معاویہ کو اعمش کی روایت میں سب پر فوقیت دی ہے۔[78] چنانچہ جب جرير بن عبد الحميد اعمش سے روایت میں تفرد اور ابو معاویہ سمیت چھ (٦) ثقات کی مخالفت کرتے ہوئے مضمون کے اعتبار سے ایک مستعبد جملہ نقل کریں تو اسے قبول کرنا ممکن نہیں۔

علامہ سیوطی نے تفسیر در منثور میں ابن الانباری کے حوالے سے اس روایت کے جو الفاظ نقل کیے ہیں وہ ہمارے مذکورہ بالا قول کی تصدیق کرتے ہیں؛

وأخرج ابن الأنباري عن أبي ظبيان قال : قال لنا ابن عباس : أي القراءتين تعدون أول قلنا : قراءة عبد الله وقراءتنا هي الأخيرة ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعرض عليه جبريل القرآن كل سنة مرة في شهر رمضان وأنه عرضه عليه في آخر سنة مرتين فشهد منه عبد الله ما نسخ وما بدل۔

ابن الانباری نے (المصاحف) میں ابی ظبیان سے روایت کیا ہے کہ انہوں نےکہا: ابن عباس ؓ نے ہم سے پوچھا؟ تم لوگ کون سی قراءت کو پہلے دور کی قراءت سمجھتے ہو؟ ہم نے کہا: عبدالله (بن مسعود) کی قراءت کو، اور ہماری قراءت تو آخری دور کی قراءت ہے۔ ابن عباس ؓ نے کہا: جبریل ہر سال رمضان میں رسول الله ﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے تھے اور آپ کی زندگی کے آخری سال دو مرتبہ دور ہوا۔ عبدالله اس موقع پر ہونے والے نسخ اور تبدیلی سے واقف تھے۔[79]

خلاصہ یہ کہ ابی ظبیان کے طریق سے ابن عباسؓ کی روایت مجموعی طور پر صحیح ہے اور اس میں ابن عباسؓ کا اپنے اصحاب کی ابن مسعودؓ کی قراءت کے حوالے سے غلط فہمی کو دور کرنے کا بیان ہے۔ تاہم اس میں زید بن ثابت کی قراءت (یعنی قراءت عامہ) کے عرضۂِ اخیرہ سے ہونے کا انکار ہر گز نہیں ہے۔

ابن عباس ؓ سے مجاہد کی روایت:

امام احمد "حدثنا محمد بن سابق، حدثنا إسرائيل، عن إبراهيم بن مهاجر، عن مجاهد" کی سند سے روایت کرتے ہیں کہ:

عن ابن عباس، قال: قال: "أي القراءتين كانت أخيرا: قراءة عبد الله، أو قراءة زيد؟ " قال: قلنا: قراءة زيد، قال: «لا إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان يعرض القرآن على جبريل كل عام مرة، فلما كان في العام الذي قبض فيه عرضه عليه مرتين، وكانت آخر القراءة قراءة عبد الله»

ابن عباس ؓ نے پوچھا: تم لوگ کس قراءت کو آخری قراءت سمجھتے ہو؟ عبد الله بن مسعود کی قراءت کو یا زید بن ثابت کی قراءت کو؟ ہم نے کہا: زید کی قراءت کو۔ (اس پر) ابن عباس ؓ نے کہا : نہیں رسول الله ﷺ ہر سال جبریل کے ساتھ قرآن کا ایک دورہ کیا کرتے تھے ، جب آپ کی وفات کا سال آیا تو آپ نے قرآن دو مرتبہ جبریل کو سنایا۔ (ابن مسعود تب حاضر تھے) اور ان کی قراءت ہی آخری قراءت ہے۔[80]

مسند احمد کے محقق شیخ شعيب الأرنؤوط نے اس کی سند کو ابراہیم بن مہاجر کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ ابراہیم بن مہاجر کی روایات کو عمومی طور پر لائق تحسین گردان لیں تو بھی یہاں اسرائیل بن یونس سے ان کی روایت کی نکارت تضعیف کو لازم کرتی ہےخصوصا جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسرائیل بن یونس کی ابراہیم بن مہاجر سے روایت شدہ تین سو روایات کو مناکیر میں شمار کیا گیا ہے اور ان کی ذمہ داری ابراہیم بن مہاجر پر ڈالی گئی ہے۔[81] مزید یہ کہ اس روایت کا ابی ظبیان کی روایت سے تقابل کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں سوال اور اسی کی مناسبت سے جواب کا الٹ پھیر ہوا ہے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے مجاہد سے روایت کرنے والے واحد راوی ابراہیم بن مہاجر سے متعلق امام ابن حبان کا یہ قول لائق توجہ ہے:

إبراهيم بن مهاجر بن جابر البجلي... كثير الخطأ تستحب مجانبة ما انفرد من الروايات ولا يعجبني الاحتجاج بما وافق الأثبات لكثرة ما يأتي من المقلوبات

ابراہیم بن مہاجر بن جابر بجلی ۔۔۔ کثیر الخطاء ہے۔ اس کی منفرد روایات سے دور ہی رہنا بہتر ہے۔ بلکہ کثرت مقلوبات کی وجہ سے میں اس کی ثابت راویوں کے موافق روایات سے استدلال کو بھی پسند نہیں کرتا۔[82]

مزید یہ کہ علامہ سیوطی نے تفسیر در منثور میں ابن الانباری کے حوالے سے اس طریق سے ابن عباس ؓ کی روایت کے جو الفاظ نقل کیے ہیں وہ ابی ظبیان کی روایت سے موافق ہیں؛

وأخرج ابن الأنباري عن مجاهد قال : قال لنا ابن عباس : أي القراءتين تعدون أول قلنا : قراءة عبد الله وقراءتنا هي الأخيرة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعرض عليه جبريل القرآن كل سنة مرة في شهر رمضان وأنه عرضه عليه في آخر سنة مرتين فقراءة عبد الله آخرهن۔

ابن الانباری نے (المصاحف) میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ انہوں نےکہا: ابن عباس ؓ نے ہم سے پوچھا؟ تم لوگ کس قراءت کو پہلے دور کی قراءت کو سمجھتے ہو؟ ہم نے کہا: عبدالله (بن مسعود) کی قراءت کو، اور ہماری قراءت آخری دور کی قراءت ہے۔ ابن عباس ؓ نے کہا: جبریل ہر سال رمضان میں رسول الله ﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے تھے۔ اور آپ کی زندگی کے آخری سال دو مرتبہ دور ہوا (جس میں عبدالله حاضر تھے)۔ پس عبدالله کی قراءت آخری قراءت ہے۔[83]

اس تفصیل کی روشنی میں مجاہد کے طریق سے یہ روایت سند کے ضعف و نکارت اور متن میں غرابت، اضطراب، اور شبہ تقلیب کے باعث نا قابل التفات ہے۔

ابن عباس ؓ سے زر بن حبیش کی روایت:

امام طبرانی معجم الکبیر میں "حدثنا أبو الزنباع روح بن الفرج، ثنا سفيان بن بشر، ثنا شريك، عن عاصم، عن زر" کی سند سے روایت کرتے ہیں کہ زر بن حبیش کہتے ہیں:

قال لي ابن عباس: أي القراءتين تقرأ؟ قلت: الآخرة قال: " فإن جبريل عليه السلام، كان يعرض القرآن على النبي صلى الله عليه وسلم كل عام في رمضان۔ قال: فعرض عليه القرآن في العام الذي قبض فيه النبي صلى الله عليه وسلم مرتين "، فشهد عبد الله ما نسخ منه، وما بدل، فقراءة عبد الله الآخرة

ابن عباس ؓ نے مجھ سے پوچھا: تم کون سی قراءت کرتے ہو؟ میں نے کہا: آخری قراءت۔(اس پر) ابن عباس ؓ نے کہا : جبریل ہر سال رمضان میں رسول الله ﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ پس جب آپ کی وفات کا سال آیا تو انہوں نے دو مرتبہ قرآن کا دور کیا۔ عبدالله بن مسعود اس موقع پر موجود تھے، اور یوں وہ قرآن میں ہونے والے نسخ اور تبدیلی سے واقف تھے۔ چنانچہ عبدالله بن مسعود کی قراءت (بھی) آخری قراءت ہے۔ [84]

اول تو یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے کہ اس میں شامل راوی سفیان بن بشر مجہول ہے۔[85] اور پھر یہ کہ اگرچہ روایت کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ پوری بات نقل نہیں ہوئی لیکن بہرحال اس میں بھی قراءت عامہ کو عرضۂِ اخیرہ سے غیر متعلق نہیں کہا گیا۔ چنانچہ یہ تاثر دینے کے لیے عمار صاحب کو آخری جملے کے ترجمہ میں کچھ الفاظ کا بین القوسین اضافہ کرنا پڑھا۔

مقبول عام تصور سے قطع نظر ابن عباسؓ کی روایت کے داخلی ربط اور عدم تعارض کا تقاضا ہے کہ دقت نظری سے اس پر غور کیا جائے اور بے جوڑ الفاظ اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے تاثرات کو اس سے دور کر دیا جائے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابن عباسؓ کی روایت میں عرضۂِ اخیرہ کی نسخ کے حوالے سے اہمیت کا ذکر خود ابن عباسؓ کے الفاظ میں ہے۔ اب غور کیجیے، کیا یہ ممکن ہے کہ ابن عباس ؓ جیسا تفسیر اور فقہ کے میدانوں کا شہسوار ان علوم میں نسخ اور قراءت کی تبدیلیوں اور خود نسخ اور قراءت کے حوالے سے عرضۂِ اخیرہ کی اہمیت کو جانتے ہوئے عرضۂِ اخیرہ کے علاوہ کسی اور قراءت کو لائق التفات بھی جانےچہ جائیکہ وہ خود اس کو اختیار کرے؟ اور اگر اس کے اپنے شاگرد ایسی کسی قراءت کو اختیار کیے ہوئے ہوں تو وہ ان پر زجر نہ کرے؟ اگر ایسا ممکن نہیں اور یقینا ممکن نہیں تو ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ روایت کے کچھ طرق میں خلط معنی اور غیر محفوظ اضافہ ہوا ہے۔ اور ہم دیکھ چکے ہیں کہ روایات کی اسناد میں بھی ایسے علل موجود ہیں جو ان امور کی نشاندہی کرتے ہیں۔

 چنانچہ ابن عباس ؓ کی روایت کے معنی صرف وہی ہیں جوابی ظبیان کے طریق میں اعمش سے چھ (٦) ثقات کی روایات میں وارد ہوئے ہیں۔یہ ہم معنی روایات داخلی طور پر مربوط، اندرونی تعارض سے پاک اور سند کے اعتبار سے صحیح تر ہیں ۔ اور اس میں ابن عباس ؓ نے قراءت عامہ کا ذکر کیے بغیر ابن مسعود ؓ کی قراءت کے حوالے سے اپنے اصحاب کی غلط فہمی کو دور کیا ہے ۔

اس کے بر خلاف مجاہد کے طریق سے روایت سند اور متن ہر دو لحاظ سے ناقابل احتجاج ہے۔ رہ گئی زر بن حبیش کی روایت تو سند کے واضح ضعف کے علاوہ اس کا مضمون بھی قراءت عامہ سے تعرض نہیں کرتا۔

ابن عباس ؓ سے ابراہیم نخعیؒ کی روایت

عرضۂِ اخیرہ سے متعلق ابن عباس ؓ سے ایک اور روایت ہے جو مسدد نے اپنی مسند میں "ثنا أبو عوانة، عن المغيرة، عن إبراهيم" کی سند سے روایت کی ہے۔

أن ابن عباس سمع رجلا يقول: الحرف الأول۔ فقال ابن عباس: ما الحرف الأول؟! فقال له الرجل: يا ابن عباس، إن عمر بعث ابن مسعود معلما إلى أهل الكوفة، فحفظوا من قراءته فغير عثمان القراءة فهم يدعونه: الحرف الأول۔ فقال ابن عباس: إن جبريل كان يعارض رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عند كل رمضان مرة، وإنه عارضه في السنة التي قبض فيها مرتين، وإنه لآخر حرف عرض به النبي - صلى الله عليه وسلم – جبريل

ابن عباس ؓ نے ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا، "پہلا حرف۔" ابن عباس ؓ نے اس سے پوچھا، "پہلا حرف کیا ہے؟" اس شخص نے جواب دیا، "اے ابن عباسؓ، عمر ؓنے ابن مسعود ؓ کو معلم بنا کر اہل کوفہ کی طرف بھیجا چنانچہ انہوں نے ابن مسعود کی قراءت کو حفظ کر لیا، پھر عثمان ؓ نے قراءت کو بدل دیا تو انہوں نے ابن مسعود کی قراءت کو پہلے حرف کا نام دیا۔ ابن عباسؓ نے کہا:جبریل ہر رمضان رسول الله ﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے تھے، جس سال نبی ﷺ کی وفات ہوئی اس سال جبریل نے دو مرتبہ دور کیا اور وہی آخری حرف تھا جو جبریل نے نبی ﷺ پر پیش کیا۔ [86]

اس روایت میں ابن عباسؓ کی آخری توضیح کے مصاحف میں عثمان ؓ کی درج کی گئی قراءت اور قراءت ابن مسعودؓ دونوں سے متعلق ہونے کا احتمال ہے۔ اگر توضیح مذکور کو قراءت کے بدلنے والی بات کا جواب سمجھا جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ عثمانؓ نے کوئی تبدیلی نہیں کی بلکہ عرضۂِ اخیرہ کی قراءت کی ہی ترویج کا اہتمام کیا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری اور مطالب العالیہ میں بظاہر اس کے یہی معنی لیے ہیں۔[87] اسی طرح محمد بن عبدالرحمن الطاسان نے اپنی کتاب "المصاحف المنسوبة للصحابة والرد على شبهات المثارة حولها" میں متعدد وجوہ سے اس روایت کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔[88] ابن حجر کی کتاب "المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية" کے محققین نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔[89] ان علماء کی تصریحات کے بر خلاف اگر اس روایت کی آخری توضیح کو قراءت ابن مسعودؓ سے متعلق سمجھ لیا جائے تو بھی اس سے قراءت عامہ کے عرضۂِ اخیرہ سے تعلق کی نفی بہرحال نہیں ہوتی بلکہ اس صورت میں یہ روایت ابن عباس ؓ کے دیگر شاگردوں کی روایات کے اوپر بیان کیے گئے معنی کو ثابت کرتی ہے۔

سند کے اعتبار سے اس روایت پر دو اعتبار سے کلام کا امکان ہے ، یعنی ابراہیم نخعیؒ سے روایت میں مغیرہ پر تدلیس کا الزام اور ابراہیم نخعیؒ کی مراسیل کی حجیت۔ مغیرہ کی تدلیس اور ابراہیم نخعیؒ کی مراسیل کی حجیت پر مختلف آرا کا موازنہ کر کے شیخ محمد بن عبدالرحمن الطاسان نے اس روایت کی تصحیح کی ہے۔ [90]

خلاصہ اس بحث کا یہ ہے کہ قراءت عامہ کا عرضۂِ اخیرہ سے ہونا ابراہیم نخعیؒ کی سند سے ابن عباس ؓکے فرمان ، صحابہ و کبار تابعین کی رائے کے حوالے سے ابن سیرینؒ کی شہادت، جمعِ عثمانی کے شاہد اور ابن مسعودؓ کے شاگرد عبیدہ سلمانی کے قول، اور ابن مسعود ؓ کی قراءت کے حوالے سے غلط فہمی کو دور کرتی ابی ظبیان کے طریق سے ابن عباس کی روایت، اور ان سب دلائل کی روشنی میں فن قراءت کے ائمہ کی تصریحات سے ثابت ہے۔ جبکہ ایک بھی صحیح غیر معلول روایت ایسی نہیں جو قراءت عامہ اور عرضۂِ اخیرہ کے تعلق کی نفی کرتی ہو اور نہ ہی اہل علم نے یہ را ئے بیان کی ہے۔

حاصل بحث:

ان صفحات میں جمعِ صدیقی کے بعد جمعِ عثمانی کی ضرورت ، دونوں کے باہمی تعلق اور عرضۂِ اخیرہ اور مصاحف کے مطابق قراءت کے تعلق پر جو بحث کی گئی ہے اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ ہماری علمی روایت میں جو چیزیں صدیوں کی تحقیق و تنقیح کے بعد اپنی بنیادی اہمیت کے ساتھ ساتھ اپنے وضوح اور غیر مختلف فیہ ہونے کی وجہ سے تفصیلی حوالہ جات کے بغیر بیان کر دی جاتی ہیں ان کی اصل تمام تر تفصیلات کے ساتھ ہمارے بنیادی مصادر میں موجود ہے۔ ان کو سرسری اور سطحی نظر سے دیکھ کر تشکیک کے بیج بو دینا نہ تو کسی طور بھی دین کی خدمت تصور ہو سکتا ہے اور نہ ہی ایسے اشکالات اس روایت میں رخنہ ڈالنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ بنیادی مصادر کی آج تک موجودگی اگر ایک طرف امت کے علمی حلقوں کے اس تیقن کی غماز ہے کہ ان میں ایسا کچھ نہیں جو ہماری معروف اصل کو خطرے میں ڈال سکے وہیں اس میں وہ سب سامان بھی ہے جس سے ایسی ہر کوشش کا شافی رد ممکن ہے۔



[1] البخاری ، محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح،كتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، (ریاض: دار السلام، ١٤١٧ ھ) حدیث : ٤٩٨٦

[2] حوالہ بالا

[3] البخاری، الجامع الصحیح، كتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، حدیث: ٤٩٨٧

[4] ابن ابی داود، المصاحف، تحقيق سليم بن عيد الهلالي (كويت: مؤسسة غراس، ٢٠٠٦ء) حدیث: ٧٣ / تحقيق الدكتور محب الدين عبد السبحان الواعظ (بيروت: دار البشائر الإسلامية، ٢٠٠٦ء(حدیث: ٧٤ ۔ اس کی سند کے تمام رجال ثقہ ہیں لیکن ابو قلابہ اور عثمانؓ کے مابین انقطاع ہے۔

[5] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع دار البشائر ( حدیث: ٢٣ / (طبع غراس) حدیث: ٢٣۔ حافظ ابن کثیر نے اس کی سند کو "منقطع حسن" قرار دیا ہے۔ دیگر روایات بھی اس کی مؤید ہیں

[6] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع دار البشائر ( حدیث: ٨٢/ (طبع غراس) حدیث: ٨٠ ۔ امام ابن کثیر نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔

[7] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) ، حدیث: ٧٤ / (طبع دار البشائر ( حدیث: ٧٥۔ محقق الھلالی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے

[8] البخاری، الصحیح، كتاب فضائل القرآن، باب نزل القرآن بلسان قريش والعرب، حدیث : ٤٩٨٤

[9] الطحاوي، ابو جعفر، شرح مشكل الآثار، تحقیق شعيب الأرنؤوط (بیروت: مؤسسة الرسالة، ١٤١٥ ھ) ١٣٠:٨ - کتاب کے محقق نے اس روایت کو صحيح قرار دیا ہے۔

[10] الدانی، ابو عمرو، المقنع في معرفة مرسوم مصاحف أهل الأمصار، تحقيق نورة بنت حسن (ریاض: دار التدمرية، ٢٠١٠ ء) ١٤٣-١٤٤

[11] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) حدیث: ٨٣ / (طبع دار البشائر ( حدیث: ٨٥ ۔ حافظ ابن کثیر نے اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے۔ محقق الھلالی اور ڈاکٹر واعظ نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے

[12] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع دار البشائر (حدیث: ٧٧ / (طبع غراس) حدیث: ٧٦ ۔ ابن حجر، قسطلانی، اور سیوطی نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔

[13] ابن ابی داود، المصاحف، ) طبع دار البشائر)، حدیث: ٨٢/ (طبع غراس)، حدیث: ٨٠ ۔ امام ابن کثیر نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔

[14] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع دار البشائر ( حدیث: ٨٧ / (طبع غراس) حدیث: ٨٥ ۔ اس روایت کی سند کے تمام روی ثقہ ہیں لیکن ابن سیرینؒ نے جمع عثمانی کا دور نہیں پایا لہذا اس میں انقطاع ہے۔ البتہ مستغفری کی فضائل القرآن میں مختلف سند سے یہی الفاظ ابن سیرینؒ نے کثیر بن افلح سے روایت کیے ہیں۔ دیکھیے ، المستغفری ، ابو العباس ، فضائل القرآن، تحقيق أحمد بن فارس السلوم (بیروت: دار ابن حزم، ٢٠٠٨ء) حدیث : ٤٢٠ ۔ مزید دیکھیے حوالہ نمبر ٥٩

[15] الطحاوی ، شرح مشكل الآثار، ١٣٠:٨ ؛ کتاب کے محقق شیخ شعيب الأرنؤوط نے اس حدیث کو صحيح قرار دیا ہے۔

[16] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع دار البشائر ( حدیث: ٧٤ / (طبع غراس) حدیث: ٧٣ ۔ اس کی سند کے تمام رجال ثقہ ہیں لیکن ابو قلابہ اور عثمانؓ کے مابین انقطاع ہے۔

[17] البخاری، الجامع الصحیح، كتاب الخصومات، باب كلام الخصوم بعضهم في بعض، حدیث: ٢٤١٩

[18] الحمیری، بشیر بن حسن، معجم الرسم العثمانی، (ریاض: مرکز تفسیر للدراسات القرآنية، ٢٠١٥ء) ٢٠:١

[19] شیخ مصطفیٰ اعظمی نے فضائل القرآن، کتاب المصاحف، اور المقنع وغیرہ کی روایات کی روشنی میں مصاحفِ عثمانی کے باہمی اختلاف کے مقامات کو جدول کی صورت میں مرتب کیا ہے، دیکھیے؛

Al-A’zami, Muhammad Mustafa, History of the Qur’anic Text from Revelation to Compilation, (Lahore: Suhail Academy, 2005) 97-102

[20] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع دار البشائر ( حدیث: ١٢١ / (طبع غراس) حدیث: ١١٨۔ عثمانؓ کا قول نقل کرنے والے اسماعیل بن ابی خالد نے عثمانؓ کو نہیں پایا۔ اور عثمان بن هشام بن دلھم کی تعدیل یا تضعیف منقول نہیں۔ حافظ ہیثمی نے بھی یہی کہا ہے، دیکھیے الھیثمی، نور الدین، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، (القاهرة: مكتبة القدسي، ١٩٩٤ء ) حدیث :١٤٧٦١

[21]  عبد الحق عبد الدايم سيف القاضی  (محقق)،   جمال القراء وكمال الإقراء، (بيروت: مؤسسة الكتب الثقافية، ١٩٩٩ء) ٢: ٥٧١

[22] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) حدیث: ٧٤ / (طبع دار البشائر ( حدیث: ٧٥۔ محقق الھلالی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے

[23] ابو عبید، قاسم بن سلام، فضائل القرآن ، (بیروت: دار ابن کثیر ، ١٩٩٥ ء) ٣٠٣

[24] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) حدیث: ١١٤ / (طبع دار البشائر (حدیث: ١١٧ ۔ محقق الھلالی نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے کہ اس میں ایک راوی مجہول ہے۔

[25] ابو عبید، فضائل القرآن ، ٢٨٥؛ ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) حدیث: ٨٤ / (طبع دار البشائر ( حدیث: ٨٦ ۔ محقق الھلالی اور ڈاکٹر واعظ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔

[26] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) حدیث: ١٥٦-١٥٧ / (طبع دار البشائر (حدیث: ١٦١-١٦٢

[27] ابن الندیم ، محمد بن اسحاق، کتاب الفهرست، (لندن: طبع مؤسسة الفرقان، ٢٠٠٩ء ) ٦٧:١

[28] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) حدیث: ٨٧ / (طبع دار البشائر(حدیث: ٨٩ ۔ امام ابن کثیر نے روایت کو صحیح کہا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر واعظ نے اس کی سند کو صحیح، جبکہ محقق الھلالی نے حسن کہا ہے۔

[29] ابن الندیم ، الفهرست، ٦٦:١

[30] ا القرطبي ،ابو عبدالله، الجامع لأحكام القرآن ، تحقيق عبد الله بن عبد المحسن التركي (بیروت: مؤسسة الرسالة، ٢٠٠٦ء) ١٧٧:١ ؛ سیوطی نے اسی معنی کی ایک روایت عبد بن حمید کے حوالے سے نقل کی ہے۔ دیکھیے ؛ السیوطی، جلال الدین، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، تحقيق التركي (القاهرة: مرکز هجر للبحوث ، ٢٠٠٣ء ) ١٥:١

[31] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) حدیث: ١٧١

[32] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) حدیث: ١٧٢

[33] ا لسیوطی، الدر المنثور، ٣٢٨:٢

[34] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) حدیث: ٣٨ / (طبع دار البشائر (حدیث: ٣٨

[35] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) حدیث: ٦٣ / (طبع دار البشائر ( حدیث: ٦٣ ۔ الترمذی، ابو عیسی ، الجامع الكبير سنن الترمذي، تحقيق شعيب الأرنؤوط (بیروت: مؤسسة الرسالة، ٢٠٠٩ء) حدیث: ٣٣٦١

[36]  الذھبی، شمس الدین، معرفة القراء الكبار على الطبقات والأعصار ، (بیروت: دار الكتب العلمية، ١٩٩٧ء) ١٨

[37] ابن عساکر، ابو القاسم، تاريخ دمشق ، (بیروت: دار الفکر، ١٩٩٥ ء) ٣٩ : ٢٤٢-٢٤٣

[38] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) حدیث: ٦٩ / (طبع دار البشائر ( ، حدیث: ٧٠ ۔ محقق الھلالی اور ڈاکٹر واعظ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔

 اس روایت میں عراق سے اگر صرف کوفہ مراد نہیں تو کوفہ اس سے میں شامل لازما ہے۔ اس سے پہلے مذکور ابن مسعود ؓ کے خطاب والی روایت میں "يا أهل الكوفة أو يا أهل العراق" گو کسی ذیلی راوی کا ہی شک ہو تو بھی ان معنی کا فائدہ دیتا ہے۔ اسی طرح مصاحف کی بیع کے حوالے ایک روایت میں امام مکحول کا قول نقل ہوا کہ آپ نے پوچھا، "حسن أهل العراق أو حسن أهل البصرة؟" ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) حدیث: ٥٨٥ / (طبع دار البشائر (،حدیث: ٦٠٧

[39] ابن عساکر، تاريخ دمشق ، ٣٩: ٢٤٦

[40] القرطبي ، الجامع لأحكام القرآن ، ٨٨:١

[41] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع غراس) ١٨٩:١ / (طبع دار البشائر ( ، ٩٣:١

[42]  ابن العربی، أحكام القرآن، (بیروت: دار الكتب العلمية، ٢٠٠٣ ء)  ٢: ٦١٢

[43] ابن عساکر، تاريخ دمشق ، ٣٣: ١٤٠

[44] الذھبی، شمس الدین، سير أعلام النبلاء، (بیروت: مؤسسة الرسالة، ١٩٨٥ء) ٤٨٨:١

[45] الدمشقى، ابن کثیر، البداية والنهاية، تحقيق: عبد الله بن عبد المحسن التركي (القاهرة: دار هجر للطباعة والنشر، ١٩٩٧ء )١٠ : ٣٩٦-٣٩٧ ، ١٢: ٥٣٤ ؛ الدمشقى، ابن کثیر، فضائل القرآن، (القاهرة: مكتبة ابن تيمية، ٤١٦ ١ھ ) ٦٨

[46] ابو عبید، فضائل القرآن ، ٣٦١؛ ابن مجاہد، ابو بکر، كتاب السبعة في القراءات، (مصر: دار المعارف، ١٤٠٠ ھ ) ٤٩ ؛ سعد بن عبد الله بن عبد العزيز آل حميد (محقق)، التفسير من سنن سعيد بن منصور، (ریاض: دار الصميعي، ١٩٩٧ء) ٢: ٢٦٠-٢٦٢ حدیث: ٦٧؛ محقق سعد بن عبدالله نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔

[47] ا لسیوطی، الدر المنثور، ٥١٠:١٤

[48] ابن مجاہد ، السبعة في القراءات، ٦٨ – ٦٩

[49] الذھبی، سير أعلام النبلاء، ٤: ٢٧٠-٢٧١۔ اس روایت کی سند کو حفص بن سلیمان کی وجہ سے کمزور کہا گیا ہے۔

[50] ابن مجاہد ، السبعة في القراءات، ٦٧

[51] ابن مجاہد ، السبعة في القراءات، ٦٩

[52] ابن ابی شيبہ، ابو بکر، المصنف، تحقیق محمد عوامة (جدہ: دار القبلة، ٢٠٠٦ء) ١٥ : ٤٦٨ ، حدیث : ٣٠٦٥١؛ الطبراني، ابو القاسم، المعجم الكبير، (القاهرة: مكتبة ابن تيمية، ١٩٩٤ء ) ٩ : ١٣٨ ، حدیث : ٨٦٨٠ ؛ مسند احمد کی ایک حدیث کی تحقیق کی ضمن میں شیخ شعيب الأرنؤوط نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے، دیکھیے؛ احمد بن حنبل، المسند، تحقیق شعيب الأرنؤوط (بیروت: مؤسسة الرسالة، ١٤١٥ ھ) ٣٤: ١٤٧، حدیث : ٢٠٥١٤

[53] ابو عبید، فضائل القرآن ، ٣٥٩ ؛ مزید دیکھیے: ابن الجزری، شمس الدین، غاية النهاية في طبقات القراء، (القاهرة: مكتبة ابن تيمية، ١٣٥١ھ ) ٢: ٣٠٥-٣٠٦

[54] ابن عساکر، تاريخ دمشق ، ٢٩: ٢٨٠

[55] ابن سعد، محمد البغدادی ، الطبقات الكبرى، (بیروت: دار الكتب العلمية، ١٩٩٠ء ) ٦: ٤

[56] ابنالبا ذش، ابو جعفر، الا قناع في القراءات السبع ، (دمشق : دارالفکر، ١٤٠٣ھ) ١ : ٩١

[57] ابى شامہ، شهاب الدین ، ابراز المعاني من حرز الأماني ، (بیروت: دار الكتب العلمية) ٢٧

[58] ابن وھب، تفسير القرآن من الجامع، تحقیق ميكلوش موراني، (بیروت:دار الغرب الإسلامی، ٢٠٠٣ء ) ٢: ٤٢

[59] السیوطی، الدر المنثور، ٥٥١:١ ؛ السیوطی، جلال الدین، الإتقان في علوم القرآن، (بیروت: مؤسسة الرسالة، ٢٠٠٨ ء ) ١١٣

[60] ابن ابی داود، المصاحف، (طبع دار البشائر) حدیث: ٨٨-٨٩ / (طبع غراس) حدیث: ٨٦-٨٧ ؛ حافظ ابن کثیر نے اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے۔ محقق الھلالی اور ڈاکٹر واعظ نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے ؛ دلچسب امر یہ ہے کہ مستغفری نے یہی روایت مختلف سند سے بیان کی ہے جس میں کثیر بن افلح لا علمی کا اظہار کرنے کی بجائے با لجزم وہی جواب دیتے ہیں جو اس روایت کے مطابق ابن سیرین نے اپنے گمان سے دیا ہے۔ دیکھیے؛ المستغفری ، فضائل القرآن، حدیث : ٤٢٠؛ البتہ اس روایت کی سند میں ضعف ہے اور بظاہر دونوں میں تطبیق کی کوئی صورت نہیں۔

[61] البیہقی، ابو بکر، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، تحقیق عبد المعطي قلعجي، (بیروت: دار الكتب العلمية، ١٤٠٨ ھ) ٧ : ١٥٥-١٥٦

[62] ان تمام حوالہ جات کے لیے دیکھیے ؛عونی ، حاتم بن شریف، ا لمرسل الخفي وعلاقته بالتدليس، (ریاض: دار الهجرة، ١٩٩٧ء) ٣٠٦-٣٢٢؛ اہم اضافوں کے ساتھ اسی تحقیق کا خلاصہ شیخ نے ایک اور مقام پر بھی ذکر کیا ہے؛ عونی (محقق)، أحاديث الشيوخ الثقات مشيخة قاضی مارستان، (مكة المكرمة: دار عالم الفوائد، ١٤٢٢ھ ) ٢: ٤٦٩

[63] الھیثمی، نور الدین، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث : ٧٢٥٥، ٧٢٥٦، ٩٩٢٩، ١٢٣٣٤، ١٢٤٠٢، ١٢٤٢٠، ١٢٤٢٩، ١٢٥٦٣، ١٢٨٦٦، ١٣٥١٥، ١٥٧١٧ ، ١٥٨٠٤، ١٦١٩١، ١٨٥٥٨

[64] الہندی، علی المتقی، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال (بیروت: مؤسسة الرسالة، ١٩٨١ ء ) حدیث: ٢٦٠٥٢ ، ساتھ دیکھیے ابن ابی شيبہ، المصنف، حدیث: ٥٢

[65] احمد بن حنبل، المسند، تحقیق احمد شاکر، (القاهرة: دار الحدیث، ١٩٩٥ء) ١ :٥٠٤-٥٠٥، حدیث: ٧٨٣

[66] محمد عوامہ (محقق) ، مسند عمر بن عبد العزیزللباغندي، (دمشق: دار ابن کثیر، ١٩٨٧ء) ، ٢٨٦ (استدراک)

[67] ابن ابی شيبہ ، المصنف، ١:٢٥١، حدیث: ٥٢

[68] ابن ابی شيبہ، ا لمصنف، حدیث : ٣٠٩٢٢

[69] الذھبی، سير أعلام النبلاء، ٤: ٤٠

[70] ابن سعد، محمد البغدادی ، الطبقات الكبرى، ١٥٢:٦

[71] البغدادی، ابو بکر الخطیب، تاريخ بغداد، تحقیق بشار عواد معروف (بيروت: دار الغرب الإسلامي، ٢٠٠٢ء) ٤٢٢:١٢

[72] ابو عبید، فضائل القرآن ، ٣٧٤

[73] ابن ابی داود، المصاحف، ((طبع دار البشائر) حدیث: ١١٥ / (طبع غراس) حدیث: ١١٢

[74] الطحاوی ، شرح مشكل الآثار، حدیث : ٣١٢٠ ، کتاب کے محقق شیخ شعيب الأرنؤوط نے اس سند کی کو صحيح قرار دیا ہے۔

[75] النسائی، محمد بن شعیب، السنن الكبرى، (بیروت: مؤسسة الرسالة، ٢٠٠١ء ) حدیث: ٧٩٤٠

[76] احمد بن حنبل، المسند، (طبع الرسالة) حدیث : ٣٤٢٢: کتاب کے محقق شیخ شعيب الأرنؤوط نے اس سند کو "صحيح على شرط الشيخين" قرار دیا ہے

[77] ابو یعلی الموصلی، المسند، تحقیق حسين سليم أسد (دمشق: دار المأمون، ١٩٩٠ء ) حدیث : ٢٥٦٢

[78] المزی، يوسف بن عبد الرحمن، تهذيب الكمال في أسماء الرجال، (بیروت: مؤسسة الرسالة، ١٩٨٠ ء ) ٢٥: ١٢٨-١٣١

[79] السیوطی، الدر المنثور، ٥٥٢:١

[80] احمد بن حنبل، المسند، (طبع الرسالة) حدیث : ٢٤٩٤ – کتاب کے محقق شیخ شعيب الأرنؤوط نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔

[81] العسقلانی، ابن حجر، تهذيب التهذيب، (بیروت: مؤسسة الرسالة) ٤: ٦٠٨؛ العسقلانی، ابن حجر، هدي الساري مقدمة فتح الباري، (بیروت: مؤسسة الرسالة، ٢٠١٣ء) ٢: ٣٥٥

[82] البستی، ابن حبان، المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين، (حلب: دار الوعي، ١٣٩٦ھ ) ١٠٢:١

[83] السیوطی، الدر المنثور،١: ٥٥٢-٥٥٣

[84] الطبراني، ابو القاسم، المعجم الكبير، ١٢: ١٠٣، حدیث : ١٢٦٠٢

[85] الفاسي ، ابن القطان، بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام، (الرياض: دار طيبة، ١٩٩٧ء) ٣: ٢٠٤؛ ھیثمی، نور الدین، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث: ١٤٧٤٣ ؛ الالبانی ، ناصر الدین، سلسلة الأحاديث الضعيفة ،(الرياض: دار المعارف، ١٩٩٢ء) ١٣٧:٢

[86] البوصیری، ابو العباس، إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة ، (الرياض: دار الوطن، ١٩٩٩ء) ٣٤٨:٦ ،حدیث: ٥٩٩٨

[87] العسقلانی، ابن حجر، فتح الباري بشرح صحيح البخاري، (بیروت: مؤسسة الرسالة،٢٠١٣ ء ) ١٥ : ٩١ ؛ العسقلانی، ابن حجر، المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية، تحقیق احمد بن محمد بن عبدالله بن حمید (الرياض: دار العاصمة، ٢٠٠٠ء ) ١٤: ٣٥٦، حدیث: ٣٤٨٤

[88] الطاسان ، محمد بن عبدالرحمن، المصاحف المنسوبة للصحابة والرد على شبهات المثارة حولها، (الرياض: دار الوطن، ٢٠١٢ء) ٣٦٥-٣٦٦

[89] ابن حجر، المطالب العالية ، ١٤: ٣٥٦، حدیث : ٣٤٨٤ – حاشیہ : ٤

[90] الطاسان ، محمد بن عبدالرحمن، المصاحف المنسوبة للصحابة، ٣٦٥ ؛ عام موقف یہی ہے کہ ابراہیم نخعیؒ کی ابن عباسؓ سے روایت کو ارسال پر محمول کیا جائے گا لیکن مسند احمد کی ایک حدیث کے آخر میں عبدالله بن احمد کا قول نقل ہوا ہے: "وكان في كتاب أبي: (عن إبراهيم قال: سمعت ابن عباس)، فضرب عليه أبي (كذا قال أسباط)۔"اسی کی روشنی میں شیخ احمد شاکر نے ابراہیم نخعیؒ کی ابن عباس سے روایات کو متصل تسلیم کیا ہے۔ دیکھیے احمد بن حنبل، المسند، (طبع دار الحدیث) ٢: ٥٠١ ، حدیث: ٢٠٤٩


1/کمنٹس:

Post a Comment