سلسلہ قواعدِ فقہیہ (3): دنیاوی احکام کا مدار ظاہری احوال پر ہے

 

تحریر: حافظ عبد الرحمن معلمی

فقہی قاعدہ  (3)

أحكام الدنيا تجري على الظاهر والسرائر تبع له

دنیا میں کسی بھی انسان پر کوئی حکم اس کے ظاہری اعمال کے مطابق لگایا جائے گا اور اس کی پوشیدہ نیت و ارادہ ظاہری اعمال کے تابع ہوں گے۔

 

امام طحاوی فرماتے ہیں:

"ولا نشهد عليهم بكفر ولاشرك ولا نفاق مالم يظهر منهم شيء و نذر سرائرهم الى الله "

ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو بھی اس وقت تک کافر و مشرک اور منافق نہیں کہتے جب تک ان سے اس متعلق کوئی چیز ظاہر نہیں ہو جاتی اور ہم ان کے پوشیدہ نیت و ارادہ کو اللہ کی سپرد کرتے ہیں ۔

اس کی شرح میں امام ابن ابی العز لکھتے ہیں:

" لأننا قد أُمرنا بالحكم بالظاهر و نهينا عن الظن و اتباع ماليس لنا به علم "

"امام طحاوی نے یہ بات اس لیے کہی کہ ہمیں ظاہری اعمال کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور گمان اور بلا دلیل باتوں کی اتباع سے منع کیا گیا ہے ۔"

(شرح العقيدة الطحاوية371/1)

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"وكلهم أجمعوا على ان احكام الدنيا تجري على الظاهر و الله يتولى السرائر "

"تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ دنیا میں حکم ظاہری اعمال کے مطابق ہو گا اور انسان کی پوشیدہ نیت و ارادہ اللہ کے سپرد ہو گا ۔"

( فتح الباري :12 / 273)

حافظ صاحب ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:

"ان امور الناس محمولة على الظاهر فمن أظهر شعائر الدين أُجريت عليه أحكام أهله مالم يظهر منه خلاف ذلك"

"ان لوگوں کے معاملات جو دینی شعائر اپناتے ہیں اس وقت تک ظاہر پر محمول ہیں جب اس کے خلاف کوئی عمل ظاہر نہ ہو  "

(فتح البارى : 1/ 497)

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث (أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا........) کی شرح میں فرماتے ہیں:

"معناها اني أُمرت ان أقبل منهم ظاهر الاسلام و أكلُ بواطنهم الى الله"

"اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے ان کا بظاہر اسلام قبول کر لوں اور ان کا باطن (نیت و ارادہ)اللہ کی سپرد کر دوں ۔"

(الصارم المسلول 357/1 )

اسی کتاب میں ایک دوسرے مقام پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"ولا خلاف بين المسلمين ان الحربي اذا أسلم عند رؤية السيف و هو مطلق او مقيد يصح اسلامه و تقبل توبته من الكفر و ان كانت دلالة الحال تقتضي ان باطنه خلاف ظاهره "

"مسلمانوں کا اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ حربی کافر جب تلوار کو دیکھ کر اسلام قبول کر لے تو اس کا اسلام صحیح ہے اور کفر سے اس کی توبہ مقبول ہو گی اگرچہ اس کا عمل یہ بتا رہا ہے کہ اس کا باطن ظاہر کے مطابق نہیں ہے ۔"

( الصارم المسلول : 329)

اس قاعدے کے دلائل:

1)          ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ....."

" اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو....."

(التوبة : 5)

اللہ تعالی نے حکم دیا کہ جب یہ لوگ اپنا اسلام ظاہر کر دیں تو تم ان کا راستہ چھوڑ دو۔

2)          سیدنا عمر بن الخطاب فرماتے ہیں:

"إِنَّ أُنَاسًا كَانُوا يُؤْخَذُونَ بِالْوَحْيِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَإِنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ ، وَإِنَّمَا نَأْخُذُكُمُ الْآنَ بِمَا ظَهَرَ لَنَا مِنْ أَعْمَالِكُمْ ، فَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا خَيْرًا أَمِنَّاهُ وَقَرَّبْنَاهُ وَلَيْسَ إِلَيْنَا مِنْ سَرِيرَتِهِ شَيْءٌ اللَّهُ يُحَاسِبُهُ فِي سَرِيرَتِهِ ، وَمَنْ أَظْهَرَ لَنَا سُوءًا لَمْ نَأْمَنْهُ وَلَمْ نُصَدِّقْهُ ، وَإِنْ قَالَ إِنَّ سَرِيرَتَهُ حَسَنَةٌ  "

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کا وحی کے ذریعہ مواخذہ ہو جاتا تھا۔ لیکن اب وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا اور ہم صرف انہیں امور میں مواخذہ کریں گے جو تمہارے عمل سے ہمارے سامنے ظاہر ہوں گے۔ اس لیے جو کوئی ظاہر میں ہمارے سامنے خیر کرے گا، ہم اسے امن دیں گے اور اپنے قریب رکھیں گے۔ اس کے باطن سے ہمیں کوئی سروکار نہ ہو گا۔ اس کا حساب تو اللہ تعالیٰ کرے گا اور جو کوئی ہمارے سامنے ظاہر میں برائی کرے گا تو ہم بھی اسے امن نہیں دیں گے اور نہ ہم اس کی تصدیق کریں گے خواہ وہ یہی کہتا رہے کہ اس کا باطن اچھا ہے۔

(صحیح البخاری: 2641)

اہل علم نے کتاب و سنت سے اس قاعدہ پر مزید کئی دلائل ذکر کیے ہیں۔

اس قاعدے کی مثالیں:

1)          وہ شخص جس کا ظاہر اس کے مسلمان ہونے پر دلالت کرتا ہے اس کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز ہے۔

ایسی صورت میں اس تحقیق میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اس شخص کا باطن کیسا ہے اس کے نظریات کیا ہیں......الخ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے اس متعلق سوال ہوا تو وہ فرماتے ہیں:

"و تجوز صلاة خلف كل مستور حال بإتفاق الأئمة الاربعة و سائر أئمة المسلمين فمن قال لاأصلي جمعة و لاجماعة الا خلف من اعرف عقيدته في الباطن فهذا مبتدع مخالف للصحابة و التابعين لهم باحسان و أئمة المسلمين الاربعة و غيرهم "

"آئمہ اربعہ اور تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے حس کی حالت(عقیدہ) ہمیں معلوم نہ ہو۔

جو شخص یہ بات کہے کہ میں نماز جمعہ یا نماز صرف اسی امام کے پیچھے پڑھوں گا حس کا عقیدہ مجھے معلوم ہو گا تو ایسا شخص بدعتی ہے اور صحابہ و تابعین اور آئمہ اربعہ کے راستے کو چھوڑنے والا ہے۔"

(مجموعه الفتاوي : 542/4)

2)          اسی طرح قاضی کا فیصلہ گواہی دینے والوں کی ظاہری عدالت و سچائی پر مبنی ہو گا اگرچہ فی الحقیقت وہ گواہیاں جھوٹی ہی ہوں ۔

اس قاعدہ کی سینکڑوں عام مشھور امثلہ ہیں جو غور و تدبر سے سمجھی جا سکتی ہیں ۔

اس قاعدے کی استثنائی حالتیں:

جب کسی دلیل کے ساتھ کسی شخص کی نیت و ارادہ معلوم ہو جائے تو اس وقت ظاہر معتبر نہیں ہو گا ۔

مثلا: کوئی شخص ایسی بات کرے جس کا کذب ظاہر ہو جیسے کوئی آدمی اپنے سے بڑے کو کہے: یہ میرا بیٹا ہے ۔۔۔۔۔

1/کمنٹس:

  1. Rather than counting on live operators to control the manufacturing capabilities, CNC machining features pre-programmed software and consoles that oversee the movement of the factory tools at play. The process could be deployed to observe a broad vary of machinery—including but not restricted to grinders, mills, and routers—through a particular set of prompts. CNC machining is a subtractive machining process that makes use of computer systems to control the high precision machining movement of the software getting used. Computers set parameters such as software travel velocity, software revolutions per minute, working velocity, and place, in addition to many other variables that can be be} adjusted. CNC milling machines vary of their ability to work on complex designs—CNC axis machining performs a key half within the process.

    ReplyDelete

Post a Comment