سلسلہ قواعدِ فقہیہ (2): مفاسد کو رفع کرنا حصولِ منفعت سے اولیٰ ہے

 


تحریر: حافظ عبد الرحمن معلمی

فقہی قاعدہ:

إذا تعارضت المنفعة و المضرة في الشيئ فإن ترجح أحدهما كان الحكم له وإن استويا يرجح جانب المضرة دفعًا للمفسدة

جب کسی چیز میں منفعت و مضرت (نفع و نقصان)متعارض  ہو جائیں تو اگر ایک جانب راجح ہو جائے تو اس پر عمل ہو گا اگر دونوں جہات برابر ہوں تو نقصان سے بچنے کے لیے مفسدہ والی جہت کا اعتبار ہو گا ۔

(تساوی یعنی نفع ونقصان کی برابری کی صورت میں) فقیہ العصر شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ اس قاعدہ کو یوں بیان کرتے ہیں:

"ومع تساوي ضرر و منفعة يكون ممنوعا لدرء المفسدة"

"جب کسی چیز میں نفع اور نقصان دونوں برابر  ہوں تو حصولِ نفع بھی ممنوع ہو جاتا ہے، مفاسد کو ختم کرنے کی وجہ سے"

فقہاءِ اسلام اس قاعدہ کو ان الفاظ سے بیان کرتے ہیں:

"درء المفاسد أولى من جلب المصالح "

"(برابری کی صورت میں) مفاسد کو رفع کرنا حصولِ منفعت سے اولیٰ ہے"

اس قاعدے کے دلائل:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا.......

ترجمہ: (اے نبی ! لوگ) تم سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دو ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے ہیں اور ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے۔

(البقرة : 219)

شيخنا الكريم  لکھتے ہیں:

فاجتمعت المنفعة والمضرة فرجح الله جانب المضرة والمفسدة بقوله "وإثمهما أكبر من نفعهما"

شراب اور جوئے میں نفع و نقصان جمع تھے تو اللہ تعالی نے اپنے اس قول "اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے" سے نقصان والی جانب کو راجح قرار دیا ہے۔

(القواعد الفقهية ص 14)

اس قاعدے کی مثالیں:

شیخنا الاستاذ نے اس قاعدہ کی پانچ(5) امثلہ ذکر کی ہیں۔خوفِ طوالت کے پیشِ نظر صرف تین(3) امثلہ پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

1)         پہلی مثال:

صحیح البخاری میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے:

أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَالَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَامُوا إِلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تُزْرِمُوهُ ". ثُمَّ دَعَا بِدَلْوٍ مِنْ مَاءٍ، فَصُبَّ عَلَيْهِ.

ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کرنا شروع كر ديا تو صحابہ کرام اس کی طرف دوڑ پڑے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے پیشاب کو مت روکو۔“ اس کے بعد آپ نے پانی کا ڈول منگوایا اور پیشاب کی جگہ پر بہا دیا گیا۔  [1]

شیخنا الاستاذ  لکھتے ہیں:

اس واقعہ میں مفسدہ و مصلحت جمع ہو گئے تھے ۔مفسدۃ مسجد میں پیشاپ کرنا اور مصلحت پیشاپ کرنے والے دیہاتی شخص کے ساتھ نرمی کرنا اور اس کے دل کو مائل کرنا تھا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحت والی جانب کو راجح قرار دیا ۔ یہ جانب کئی اعتبار سے راجح ہے ۔

1-                     پیشاپ کرنا والا شخص لا علم تھا۔

2-                     اس کو نہ روکنے میں یہ مصلحت بھی تھی کہ مسجد کا زیادہ حصہ گندہ نہ ہو۔

3-                     آدمی کو پیشاپ روکنے کی وجہ سے تکلیف نہ ہو ۔

4-                     پیشاپ کے بعد مسجد کو صاف کرنا انتہائی آسان کام تھا۔

5-                     پیشاپ کرنے والے کی دلجوئی بھی مقصود تھی۔

اسی وجہ سے اس مسئلہ میں مصلحت و مفسدت متعارض آنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحت والی جانب کو ترجیح دی ۔

2)         دوسری مثال:

لوگوں کو دعوت دینے کی خاطر بعض مستحب امور کو ترک کرنا ۔

اس مسئلہ میں بھی مصلحت و مفسدت جمع ہیں ۔

اس میں مصلحت لوگوں کو دعوت دینا اور مفسدت مستحب امور کو ترک کرنا ہے ۔

جیسے بعض مواقع پر دعوت الی اللہ کی خاطر کچھ مدت اونچی آمین اور رفع الیدین و غیرھما کو ترک کرنا ہے۔

ان امثلہ میں مفسدہ و مصلحت جمع ہیں تو مصلحت والی جانب کو ہم نے راجح قرار دیا ۔

3)         تیسری مثال:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی منافق کو قتل کرنے سے یہ کہہ کر روکا کہ:

" لا يتحدث الناس أن محمدا يقتل أصحابه"

"لوگ یہ بات نہ کہیں کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں ۔" [2]

یہاں بھی مصلحت و مفسدہ جمع ہیں۔

مصلحت اس کو قتل کرنا تھا اور درء المفسدۃ اس کو قتل نہ کرنے میں تھا ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قتل نہ کرنے کو راجح قرار دیا اور اس فیصلہ کے ساتھ آپ نے مفسدۃ کو ختم کیا اور مصلحت کو ترک کیا ۔

پہلی دو امثلہ میں مصلحت والی جانب کو ترجیح دی گئی ہے اور تیسری مثال میں مفسدہ والی جانب کو راجح قرار دیا گیا ہے ۔فتدبروا

نوٹ ایڈمن:

اس کی کچھ مزید مثالیں اختصار کے ساتھ یہ بھی ہیں:

4)          جھوٹ بولنا شرعا حرام ہے، اگر اس میں کوئی عظیم مصلحت پوشیدہ ہو تو جواز کا درجہ حاصل کرے گا، چنانچہ لوگوں کے درمیان اصلاح کے لئے یا زوجہ کی اصلاح کے لئے جائز ہو گا۔ [3]

5)          حج وعمرہ میں رش کی وجہ سے حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی سنت کو  اس لئے ترک کرنا کہ لوگوں کو اذیت نہ ہو۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: " يا أبا حفص إنك رجل قوي فلا تزاحم على الركن فإنك تؤذي الضعيف ولكن إن وجدت خلوة فاستلم وإلا فكبر وامض " "اے ابو حفص (عمر)! یقینا تو طاقتور آدمی ہے (اس لئے) تو حجرِ اسود پر مزاحمت (دھکم پیل) نہ کر (کیونکہ اس طرح) توکمزور افراد کو اذیت پہنچائے گا۔ اگر تجھے خالی جگہ ملے تو حجرِ اسود کو بوسہ لے لے۔ اگر نہ ملے تو اس کی طرف رخ کر کے تہلیل وتکبیر کہہ دے۔" [4]

 



[1]  - (صحیح بخاری: 6025، وصحیح مسلم: 285)

[2]  - (صحیح بخاری: 4905، 4907، وصحیح مسلم: 2584)

[3]  - (دیکھیں: صحیح بخاری: 3611، وصحیح مسلم: 1066، 2605)

[4] - (مصنف عبد الرزاق: 8910، مصنف ابن ابی شیبہ: 13152، السنن المأثورۃ للشافعی: 510، اخبار مکہ للفاکہی: 70)


0/کمنٹس: