سلسلہ قواعدِ فقہیہ (1): ہر مشروع چیز نفع مند ہے، اور ہر حرام چیز نقصان دہ ہے

 


تحریر: حافظ عبد الرحمن المعلمی

فقہی قاعدہ:

كل ما فيه نفع للعباد فقد شرعه الله و كل ما فيه ضرر للعباد فقد منعه الله و نهى عنه

ترجمہ: ہر وہ چیز جس میں انسانوں کے لیے نفع ہے اللہ تعالیٰ نے اسے مشروع اور جائز قرار دیا ہے ۔

اور ہر وہ چیز جس میں بندوں کے لیے نقصان ہے اللہ تعالی نے اس چیز سے منع کیا اور اسے ناجائز قرار دیا ہے ۔

شیخنا الاستاذ  نے اسے  امام قرطبی و ابن القیم رحمھما اللہ سے نقل کیا ہے ۔

سلف میں سے بعض سے منقول ہے کہ وہ فرماتے ہیں:

كل ما نهى عنه الشريعة إما لضرره أو لخبثه أو لتضمنه ظلما و أكلا لحق الغير

یعنی ہر وہ چیز جسے شریعت نے ناجائز قرار دیا اسکے اسباب مندرجہ ذیل ہیں ۔

1)           وہ کام نقصان کا سبب ہو گا ۔

2)           وہ کام خبیث پلید ہو گا ۔

3)           وہ کام ظلم کو متضمن ہو گا۔ 

4)           وہ کام کسی کا حق کھانے کا سبب ہو گا۔

(القواعد الفقهية ص 112)

اس قاعدے کے دلائل:

1)          اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ .......

وہ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں، جو امی نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انھیں نیکی کا حکم دیتا اور انھیں برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے.........          

(  الأعراف : 157)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

وَقَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ: كُلُّ مَا أَحَلَّ اللَّهُ تَعَالَى، فَهُوَ طَيِّبٌ نَافِعٌ فِي الْبَدَنِ وَالدِّينِ، وَكُلُّ مَا حَرَّمَهُ، فَهُوَ خَبِيثٌ ضَارٌّ فِي الْبَدَنِ وَالدِّينِ.

بعض اہل علم فرماتے ہیں:ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے وہ طیب اور بدن و دین دونوں کے لیے نفع مند ہے اور ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کہا ہے وہ خبیث اور بدن و دین دونوں کے لیے نقصان دینے والی ہے ۔

2)          اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ......

تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہہ دو کہ  تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں ...........     

(       المائدة : 4)

آیت میں مذکور "طیبات" کا معنی بیان کرتے ہوئے امام زجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

كُلُّ شَيْءٍ لَمْ يَأْتِ تَحْرِيمُهُ في كِتابٍ ولا سُنَّةٍ

"طیبات"سے مراد ہر وہ چیز جس کی کتاب و سنت میں تحریم وارد نہ ہو ۔

(معاني القرآن وإعرابه للزجاج: 2/149 )

شیخنا الاستاذ  لکھتے ہیں:

 و زاد البعض قيد "أو قياس مجتهد"

بعض اہل علم نے مزید اس قید کا اضافہ کیا ہے: کہ ہر وہ چیز "طیبات" میں سے ہے جس کی تحریم کتاب و سنت اور کسی مجتہد کے قیاس میں وارد نہ ہو۔

(القواعد الفقهية ص 13)

شیخنا الاستاذ نے اس قاعدہ پر مزید دلائل بھی ذکر کیے ہیں۔

اس قاعدے کی مثالیں:

1)           تمام عبادات، کھانے پینے والی چیزیں، لباس، نکاح، اور دیگر جتنے معاملات دینِ اسلام میں مشروع ہیں وہ تمام کے تمام انسانوں کے لیے دنیا و آخرت میں نفع مند ہیں ۔

2)           دینِ اسلام میں جتنے معاملات سے منع کیا گیا ہے جیسے چوری کرنا، کسی کا ناحق مال غصب کرنا، لوٹ مار کرنا، لوگوں کا مال ناحق کھانا، اسی طرح مردار اور خون، خنزیر کا گوشت کھانا، غیر اللہ کے نام پر مذبوحہ چیزیں کھانا و غیرہم ان تمام معاملات سے اسی لیے منع کیا گیا ہے کہ یہ تمام امور انسانوں کے لیے دنیا و آخرت میں نقصان اور دوسروں پر ظلم کا سبب بننے والے ہیں۔


0/کمنٹس: