نماز میں رفع یدین: خیر القرون کے 150 ائمہ کا متفقہ عمل

 

تمہید

نماز دینِ اسلام کا عظیم ترین رکن اور عبادات کا ستون ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں اس کی ادائیگی کا طریقہ بذریعہ قول، فعل اور تقریر پوری وضاحت کے ساتھ امت کو سکھایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ سنت والجماعت ہمیشہ سے اس بات پر متفق رہے ہیں کہ نماز کی ادائیگی میں رسول اللہ ﷺ کی سنت کو اختیار کرنا واجب القبول ہے، خواہ وہ سنت فعلی ہو یا قولی۔

انہی سنتوں میں سے ایک نمایاں سنت رفع یدین (نماز میں مختلف مواقع پر ہاتھ اٹھانا) بھی ہے، جس پر نہ صرف نبی کریم ﷺ کا عمل متواتر ہے، بلکہ صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور ان کے براہِ راست شاگرد — یعنی خیر القرون کے اکثر و بیشتر ائمہ کا بھی اس پر عمل رہا ہے۔

اس مقالے میں ہم نے خیر القرون کے 150 جلیل القدر ائمہ کرام کے اقوال و افعال سے اس سنت پر عمل کو ثابت کیا ہے — کیونکہ یہی وہ مبارک زمانہ ہے جس کی فضیلت خود رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی:

"خَيْرُكُمْ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ"

(تم میں سے سب سے بہتر لوگ میرے زمانے کے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے)
(حیح بخاری: 2651)

صحابیِ رسول اور اس روایت کے راوی سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "مجھے معلوم نہیں کہ نبی ﷺ نے اپنے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین زمانوں کا"

جبکہ بعض دیگر روایتوں میں صراحتا نبی ﷺ کے زمانے کے بعد تین زمانوں کا ذکر ملتا ہے – یعنی صحابہ، تابعین، تبع تابعین، اور ان کے براہ راست تلامذہ۔

پس اس سے تبع تابعین کے براہ راست تلامذہ بھی اس فضیلت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اور اگر ان کو یہ فضیلت نہ بھی حاصل ہوتی تو بھی ان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ خیر القرون (صحابہ، تابعین، اور تبع تابعین) کے زمانے کے سب سے قریب تر اور ان سے براہ راست منسلک ہیں، چنانچہ انہوں نے دین کی تعلیم وتفہیم انہی سے حاصل کی۔ لہٰذا ان کے اقوال کو بھی اہمیت حاصل ہے۔

یہ ائمہ نہ صرف علم، عمل اور تقویٰ میں بے مثال تھے، بلکہ دین کی گہری بصیرت رکھنے والے بھی تھے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے فقہی مذاہب کی بنیادیں اٹھیں، جیسے: امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام ابو ثور، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہم۔ بعض وہ ہیں جنہوں نے کتبِ حدیث کی تدوین کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا، جیسے: امام بخاری، صحاحِ ستہ کے دیگر مصنفین، امام حمیدی، امام عبدالرزاق، امام ابن خزیمہ، وغیرہ۔ اور بعض وہ ائمہ جنہوں نے اصولِ جرح و تعدیل کو مدون کیا، اور احادیث کو صحت و ضعف کے لحاظ سے پرکھنے کا منہج متعین کیا، جیسے: امام علی بن المدینی، امام یحییٰ بن معین، امام ذہلی، امام ابو زرعہ، امام عجلی، امام احمد بن صالح المصری، وغیرہم۔

ان تمام ائمہ کرام کا نماز میں رفع یدین پر اجماعِ عملی، اس سنتِ نبوی کی حقانیت پر سب سے روشن اور مضبوط دلیل ہے۔ یہاں تک کہ بعض ائمہ نے اس عمل پر ایسے عمومی اقوال بھی کہے ہیں جن میں پورے پورے شہر، اور لوگوں کی بڑی جماعتوں کا اس پر عمل کا ذکر ملتا ہے مثلا:

1-  امام الحسن البصری، اور امام حمید بن ھلال نے اسے بلا کسی استثناء کے تمام صحابہ کا عمل قرار دیا۔

2-  صحابیِ رسول ﷺ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس عمل کی روایت میں فرمایا کہ ان کے پیچھے نماز پڑھنے والے تمام صحابہ بھی رفع یدین کرتے تھے۔

3-  خلیفہ راشد امام عمر بن عبد العزیز نے اس عمل کو اہل مدینۃ کی ایک جماعت کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا: "بچپن میں ہمیں اس عمل کی تربیت دی جاتی تھی۔" الغرض اس میں جمع کے صیغے سے معلوم ہوا کہ یہ عمل مدینۃ میں رائج ومعمول بہا تھا اور اس کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔

4-  امام اوزاعی نے اس عمل پر اہل حجاز، اہلِ بصرہ، اور اہل شام کا اجماع نقل کیا ہے۔

5-  امام علی بن المدینی نے اس عمل کو اپنے تمام مشائخ کی طرف منسوب کیا ہے۔

6-  امام عبد الرزاق نے اسے تمام اہلِ مکۃ کی طرف منسوب کیا ہے۔

7-  امام بخاری نے اپنے زمانے کے ان تمام اہلِ نظر کا اس قول پر اتفاق نقل کیا ہے جن سے انہوں نے ملاقات کی ہے۔

8-  امام بخاری نے امام عبد اللہ بن المبارک کے اصحاب کا بھی اس پر اتفاق نقل کیا ہے۔

9-  ایک جگہ امام بخاری نے اس قول کو تمام صحابہ، اور سلف کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا: "جو یہ گمان کرے کہ نماز میں رفع الیدین بدعت ہے، تو اس نے نبی ﷺ کے صحابہ، سلفِ صالحین، ان کے بعد آنے والوں، اہلِ حجاز، اہلِ مدینہ، اہلِ مکہ، اہلِ عراق کے ایک بڑے گروہ، اہلِ شام، اہلِ یمن اور خراسان کے علماء – جن میں امام ابن المبارک بھی شامل ہیں – حتیٰ کہ ہمارے شیوخ جیسے عیسیٰ بن موسیٰ ابو احمد، کعب بن سعید، حسن بن جعفر، اور محمد بن سلام وغیرہ بجز اہلِ رائے کے چند افراد کے، اور اسی طرح علی بن حسن، عبداللہ بن عثمان، یحییٰ بن یحییٰ، صدقہ، اسحاق، اور ابن المبارک کے عام شاگردوں پر طعن کیا ہے۔" (جزء رفع الیدین: ص 54)۔

10-       نیز امام بخاری نے اپنے خود کے شہر یعنی اہلِ بخاریٰ کے محدثین کا بھی اس پر عمومی اتفاق نقل کیا ہے۔ (ص 7)۔

11-       اسی طرح امام محمد بن نصر المروزی نے اہلِ کوفہ کے علاوہ باقی تمام علم سے منسلک شہروں کا اتفاق نقل کیا ہے۔

ان تمام اقوال و آثار سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ نماز میں رفع یدین کا عمل نہ صرف نبی کریم ﷺ کی سنت ہے، بلکہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، اور ائمہ حدیث و فقہ کی ایک بہت بڑی اکثریت کا متفقہ و معمول بہا عمل بھی رہا ہے۔

رفع یدین کرنے والے ائمہ دین

صحابہ کرام میں سے

1-      سیدنا امیر المؤمنین ابو بکر الصدیق (م 13 ھ) رضی اللہ عنہ

ابو النعمان محمد بن الفضل نے بیان کیا: "میں نے حماد بن زید کے پیچھے نماز پڑھی، تو انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ اٹھائے۔ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: میں نے ایوب سختیانی کے پیچھے نماز پڑھی، تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔

انہوں نے کہا: میں نے ایوب سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: "میں نے عطا بن ابی رباح کو دیکھا کہ وہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔" میں نے عطا سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: "میں نے عبد اللہ بن زبیر کے پیچھے نماز پڑھی، تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔

میں نے عبد اللہ بن زبیر سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: "میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، تو آپ ﷺ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(السنن الکبری للبیہقی: 2519، واسنادہ صحیح)

2-      سیدنا امیر المؤمنین عمر بن الخطاب (م 23 ھ) رضی اللہ عنہ

" عبد اللہ بن القاسم سے روایت ہے: جب لوگ مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے، تو اچانک عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کے سامنے آئے اور فرمایا: "اپنے چہروں کو میری طرف متوجہ کرو، میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی وہی نماز پڑھاؤں گا جو وہ خود پڑھتے اور اس کا حکم دیتے تھے۔" پھر انہوں نے قبلہ رخ ہو کر قیام کیا، اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھائے اور تکبیر کہی، پھر اپنی نگاہ نیچی کر لی۔ پھر دوبارہ اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھائے اور تکبیر کہی، پھر رکوع کیا، اور اسی طرح جب رکوع سے سر اٹھایا۔ پھر لوگوں سے فرمایا: "اسی طرح رسول اللہ ﷺ ہمیں نماز پڑھایا کرتے تھے۔""

(الخلافیات للبیہقی: 1668، نیز دیکھیں: مسند الفاروق لابن کثیر: 1/207 ح 94، نیز احکام الکبری: ص 322 میں ابن کثیر نے اس روایت کو ابن وہب کی موطا سے براہ راست نقل کیا ہے، وصححہ ابن خزیمہ)

نوٹ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے جو عدم رفع یدین پر ایک روایت پائی جاتی ہے اس کو محدثین نے ضعیف ومنکر اور غیر ثابت قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں یہ مضمون: لنک۔

3-      سیدنا وائل بن حجر (م 41-50 ھ) رضی اللہ عنہ

علقمہ بن وائل اپنے والد (وائل بن حجر) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: "میں نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ ﷺ نے جب نماز کا آغاز کیا تو تکبیر کہی اور اپنے ہاتھ اٹھائے، پھر جب رکوع کا ارادہ کیا تو دوبارہ اپنے ہاتھ اٹھائے، اور رکوع کے بعد بھی اپنے ہاتھ اٹھائے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 10، وانظر صحیح مسلم: 401)

4-      سیدنا ابو ھریرہ (م 57 ھ) رضی اللہ عنہ

عطاء سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: "میں نے ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی، تو وہ جب تکبیر کہتے تو ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع میں جاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 21، واسنادہ صحیح)

5-      سیدنا ابو حمید الساعدی (م 60 ھ) رضی اللہ عنہ

6-      سیدنا ابو قتادہ الانصاری (م 54 ھ) رضی اللہ عنہ

محمد بن عمرو بیان کرتے ہیں: میں نے ابو حمید (الساعدی) کو نبی کریم ﷺ کے دس صحابہ کی مجلس میں دیکھا، جن میں سے ایک ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ابو حمید کہہ رہے تھے: "میں تم سب میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔"
صحابہ نے کہا: "کیسے؟ اللہ کی قسم! تم نہ تو ہم سے پہلے ان کے صحابی بنے اور نہ ہی تم ان کے زیادہ پیروکار رہے۔"
ابو حمید نے کہا: "لیکن میں نے ان کی نماز کا بغور مشاہدہ کیا ہے۔"
صحابہ نے کہا: "تو بیان کرو۔"
انہوں نے کہا: "جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع میں جاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب دو رکعت کے بعد کھڑے ہوتے تو بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 3 واسنادہ حسن)

نوٹ: ان دس صحابہ میں سیدنا ابو اسید، سیدنا سہل بن سعد، اور سیدنا محمد بن مسلمۃ الانصاری بھی شامل تھے جیسا کہ اگلی روایت میں آئے گا۔

7-      سیدنا مالک بن ربیعۃ ابو أسید الساعدی (م 40 ھ) رضی اللہ عنہ

8-      سیدنا سھل بن سعد الساعدی (م 88 ھ) رضی اللہ عنہ

9-      سیدنا محمد بن مسلمة الانصاری (م 41-50 ھ) رضی اللہ عنہ

عباس بن سہل بیان کرتے ہیں: "ابو حمید، ابو اسید، سہل بن سعد اور محمد بن مسلمہ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی نماز کا ذکر کیا۔ تو ابو حمید نے کہا: "میں تم سب میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔"
پھر انہوں نے بیان کیا: "آپ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے، تکبیر کہی اور اپنے ہاتھ اٹھائے، پھر جب رکوع کے لیے تکبیر کہی تو دوبارہ اپنے ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع میں گئے اور اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھ دیے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 5، واسنادہ حسن)

10- سیدنا ابو موسی الاشعری (م 50 ھ) رضی اللہ عنہ

حطان بن عبد اللہ، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: "کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز نہ دکھاؤں؟"
پھر انہوں نے تکبیر کہی اور اپنے ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کے لیے تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر کہا: "سمع اللہ لمن حمدہ" اور دوبارہ ہاتھ اٹھائے، پھر فرمایا: "اسی طرح کیا کرو، لیکن سجدوں کے درمیان ہاتھ نہ اٹھایا کرو۔"

(سنن الدارقطنی: 1124، والاوسط لابن المنذر: 1387، واسنادہ حسن)

11- سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص (م 63-68 ھ) رضی اللہ عنہ

ان کی روایت ہمیں کہیں نہیں ملی لیکن اس طرف اشارہ ضرور ملتا ہے، چنانچہ امام بخاری وامام بیہقی دونوں فرماتے ہیں کہ ان سے رفع الیدین کے اثبات پر روایت مروی ہے۔

(دیکھیں: جزء رفع الیدین للبخاری: ص 8، ومعرفۃ السنن للبیہقی: 3257)

12- سیدنا عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب (م 68 ھ) رضی اللہ عنہ

·     ابو حمزہ (عمران بن ابی عطاء الاسدی) کہتے ہیں: "میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ جب نماز شروع کرتے، رکوع میں جاتے، اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 20، ومصنف ابن ابی شیبہ: 2431، ومصنف عبد الرزاق: 2523، واسنادہ صحیح)

·     طاووس سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے ہاتھوں کو اس طرح اٹھاتے کہ وہ ان کے کانوں کے برابر ہو جاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے اور سیدھے کھڑے ہو جاتے، تو بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے۔

(جزء رفع الیدین للبخاری: 55، واسنادہ صحیح)

13- سیدنا ابو سعید الخدری (م 64-74 ھ) رضی اللہ عنہ

شریک نے لیث کے واسطے سے عطاء سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا: "میں نے جابر بن عبد اللہ، ابو سعید خدری، ابن عباس اور ابن زبیر کو دیکھا کہ وہ جب نماز شروع کرتے، رکوع میں جاتے، اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 17، 60، واسنادہ صالح للاستشہاد)

14- سیدنا امیر المؤمنین عبد اللہ بن الزبیر بن العوام (م 73 ھ) رضی اللہ عنہ

·     عطاء سے روایت ہے کہ میں نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، تو وہ جب نماز شروع کرتے، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔

(السنن الکبری للبیہقی: 2519، واسنادہ صحیح)

·     ابن جریج بیان کرتے ہیں کہ حسن بن مسلم نے مجھے بتایا، وہ کہتے ہیں: میں نے طاووس کو نماز میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں پوچھتے سنا، تو انہوں نے کہا: "میں نے عبد اللہ، عبد اللہ، اور عبد اللہ کو نماز میں اپنے ہاتھ اٹھاتے دیکھا۔" راوی کہتے ہیں عبد اللہ سے مراد عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن عباس، اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم ہیں۔

(مصنف عبد الرزاق: 2525، وجزء رفع الیدین للبخاری: 27، واسنادہ صحیح)

15- سیدنا عبد اللہ بن عمر بن الخطاب (م 74 ھ) رضی اللہ عنہ

·     نافع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب نماز میں داخل ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع میں جاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب کہتے "سمع اللہ لمن حمدہ" تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب دو رکعت کے بعد کھڑے ہوتے تو بھی اپنے ہاتھ اٹھاتے۔

(صحیح البخاری: 739)

·     نیز زید بن واقد، نافع سے روایت کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب کسی شخص کو دیکھتے کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ نہیں اٹھاتا، تو اس پر (بغرضِ اصلاح) کنکریاں پھینکتے۔

(جزء رفع الیدین للبخاری: 14، واسنادہ حسن)

16- سیدنا مالک بن الحویرث (م 74 ھ) رضی اللہ عنہ

" ابو قلابہ سے روایت ہے کہ انہوں نے مالک بن حویرث کو دیکھا کہ جب وہ نماز پڑھتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اپنے ہاتھ اٹھاتے۔ اور انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔"

(صحیح البخاری: 737، وصحیح مسلم: 391)

17- سیدنا جابر بن عبد اللہ (م 78 ھ) رضی اللہ عنہ

·     ابراھیم بن طہمان ابو الزبیر سے روایت کرتے ہیں کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے، اور فرماتے: "میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔" اور ابراہیم بن طہمان نے اپنے ہاتھوں کو اپنے کانوں تک اٹھایا۔

(سنن ابن ماجہ: 868، واسنادہ حسن)

·     احمد بن منیع نے کہا: میں نے سلمة بن صالح کو ابن المنکدر کے واسطے سے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے سنا کہ انہوں نے فرمایا: "میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے، رکوع میں جاتے، اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(المطالب العالیۃ لابن حجر: 459، واسنادہ صالح للاستشہاد)

·     شریک نے لیث کے واسطے سے عطاء سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا: "میں نے جابر بن عبد اللہ، ابو سعید خدری، ابن عباس اور ابن زبیر کو دیکھا کہ وہ جب نماز شروع کرتے، رکوع میں جاتے، اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 17، 60، واسنادہ صالح للاستشہاد)

18- سیدنا انس بن مالک (م 92 ھ) رضی اللہ عنہ

عاصم الاحول بیان کرتے ہیں: "میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھ اٹھاتے، اور جب بھی رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 19، 64، واسنادہ صحیح)

19- سیدنا عمرو بن سلمۃ ابو زید الجرمی البصری (م 85 ھ) رضی اللہ عنہ

ابو قلابة سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:

"مالک بن حویرث ہمارے پاس آئے اور ہماری اس مسجد میں نماز پڑھائی۔ پھر انہوں نے فرمایا: میں تمہیں نماز پڑھا رہا ہوں، لیکن میرا اصل مقصد نماز پڑھنا نہیں، بلکہ تمہیں دکھانا ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کیسے نماز پڑھتے دیکھا۔"

ایوب کہتے ہیں کہ میں نے ابو قلابة سے پوچھا: "ان کی نماز کیسی تھی؟"

تو انہوں نے فرمایا: "یہ ہمارے شیخ – یعنی عمرو بن سلمۃ – کی نماز کی طرح تھی۔"

(صحیح البخاری: 824)

یہاں رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے لیکن دیگر روایات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مالک بن حویرث نے اس نماز میں رفع الیدین بھی کیا تھا، چنانچہ ابو قلابہ ہی کی روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ مالک بن حویرث جب نماز پڑھتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع کا ارادہ کرتے تو ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے۔ اور انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

(صحیح البخاری: 737)

پس معلوم ہوا کہ عمرو بن سلمۃ الجرمی جن کی نماز ابو قلابۃ کے مطابق مالک بن الحویرث کی نماز جیسی ہی تھی، وہ بھی نماز میں رفع الیدین کیا کرتے تھے۔

20- حضرت عقبۃ بن عامر الجھنی المصری (م 58 ھ) رضی اللہ عنہ

ابو عبد الرحمن المقرئ، ابن لہیعہ کے واسطے سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے ابن ہبیرہ سے بیان کیا کہ ابو المصعب مشرح بن ہاعان المعافری نے ان سے حدیث بیان کی، کہ انہوں نے عقبہ بن عامر جہنی کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

" نماز میں آدمی اپنے ہاتھ سے جب بھی اشارہ کرتا ہے، اس کی ہر انگلی کے بدلے ایک نیکی یا ایک درجہ لکھا جاتا ہے۔"

(المعجم الکبیر للطبرانی: 17/297 ح 819، ومسائل حرب الکرمانی: 30، واسنادہ حسن)

نوٹ: اس روایت میں درج ذیل چیزیں نوٹ فرمائیں:

1-  نماز میں اشارہ ہاتھ سے کرنے کا ذکر ہے، یعنی صرف ایک انگلی کا ذکر نہیں جیسا کہ بعض لوگوں نے اسے تشہد کے اشارے پر لاگو کرنے کی کوشش کی ہے۔

2-  اس اشارے کو نماز میں ایک سے زائد بار کرنے کا ذکر ہے (في كل إشارة

3-  یہ اشارہ جو ایک سے زائد بار ہاتھ سے کیا جاتا ہے اس میں پانچوں انگلیاں استعمال ہوتی ہیں، صرف ایک نہیں، جیسا کہ فرمایا (ہر انگلی کے بدلے میں ایک نیکی

ان سب باتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں رفع الیدین ہی کا ذکر ہے۔ اور ائمہ دین نے بھی اس روایت کو اسی طرح سمجھا ہے۔ چنانچہ:

امام ابن مبارک نے فرمایا: میں نے ابن لہیعۃ سے پوچھا:

"اس قول (کہ ہر اشارے پر نیکی لکھی جاتی ہے) کا کیا مطلب ہے؟"

تو انہوں نے فرمایا:

"جب نمازی نماز شروع کرتا ہے تو اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے، جب رکوع میں جاتا ہے تو ہاتھ اٹھاتا ہے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتا ہے تو بھی ہاتھ اٹھاتا ہے۔"

احمد بن نصر (راوی) کہتے ہیں:

"میں نے اس کا حساب لگایا، تو پایا کہ پانچوں نمازوں میں اسے چار ہزار نیکیاں ملتی ہیں، سو نیکیوں کے علاوہ۔"

(مسائل حرب الکرمانی: 31، واسنادہ صحیح)

امام اسحاق بن راہویہؒ نے اسے یوں بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: " عقبۃ بن عامر جہنی، جو رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں، نے فرمایا:

"جب کوئی رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے، تو ہر اشارے کے بدلے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں۔""

(معرفۃ السنن للبیہقی: 3362)

امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:

"عقبہ بن عامر سے روایت کیا جاتا ہے کہ انہوں نے نماز میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں فرمایا: "ہر اشارے کے بدلے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں۔"

(مسائل الامام احمد روایۃ ابنہ عبد اللہ: 253)

21- تمام صحابہ کرام سے بالعموم رفع یدین کا ثبوت

·     مشہور تابعی امام حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: "نبی کریم ﷺ کے صحابہ ایسے تھے کہ ان کے ہاتھ پنکھوں کی مانند نظر آتے تھے، جب وہ رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 28، ومصنف ابن ابی شیبہ: 2432، واسنادہ صحیح)

·     ثقہ تابعی امام حمید بن ہلالؒ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: "نبی کریم ﷺ کے صحابہ جب نماز پڑھتے تو ان کے ہاتھ ان کے کانوں کے برابر پنکھوں کی مانند حرکت کرتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 29، واسنادہ حسن)

امام بخاری اس روایت کے تحت فرماتے ہیں: "پس حسن اور حمید بن ہلال نے نبی کریم ﷺ کے کسی بھی صحابی کو دوسرے سے مستثنیٰ نہیں کیا (بلکہ تمام صحابہ کے بارے میں عمومی طور پر بیان کیا)"

·     صحابی رسول ﷺ سیدنا وائل بن حجر نے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: "میں نے کہا کہ میں ضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ ﷺ کیسے نماز پڑھتے ہیں۔"

چنانچہ میں نے آپ ﷺ کو دیکھا کہ "آپ کھڑے ہوئے، تکبیر کہی اور اپنے ہاتھ اٹھائے، پھر جب رکوع کا ارادہ کیا تو اسی طرح ہاتھ اٹھائے، پھر جب رکوع سے سر اٹھایا تو پھر ویسے ہی ہاتھ اٹھائے۔"

پھر میں کچھ عرصے بعد آیا، اس وقت موسم سرد تھا، اور لوگوں (یعنی صحابہ کرام) نے موٹے کپڑے پہن رکھے تھے، میں نے دیکھا کہ وہ (یعنی صحابہ) اپنے کپڑوں کے نیچے سے اپنے ہاتھ حرکت دے رہے تھے۔

امام بخاری نے کہا: "وائل نے نبی کریم ﷺ کے کسی بھی صحابی کو مستثنیٰ نہیں کیا، بلکہ عمومی طور پر ذکر کیا کہ جب وہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو سبھی اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 30)

ابن خزیمہ کی روایت میں سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں: " میں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھی، تو میں نے انہیں دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ اپنی چادروں (برانس) کے اندر سے اٹھاتے تھے۔"

(صحیح ابن خزیمہ: 457)

تابعین میں سے

تابعین اہلِ مدینہ:

22- امام القاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق المدنی (م 106 ھ) رحمہ اللہ

·     عکرمہ بن عمار کہتے ہیں: "میں نے سالم بن عبد اللہ، قاسم بن محمد، عطاء اور مکحول کو دیکھا کہ وہ نماز میں رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 61، واسنادہ صحیح)

·     عبد الرحمن بن مہدی نے ربیع بن صبیح کے واسطے سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: "میں نے محمد، حسن، ابو نضرہ، قاسم بن محمد، عطاء، طاووس، مجاہد، حسن بن مسلم، نافع اور ابن ابی نجیح کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع میں جاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 66، 67، وانظر التمہید لابن عبد البر: 9/218، ومسائل حرب الکرمانی: 745)

23- امام سالم بن عبد اللہ بن عمر بن الخطاب (م 106 ھ) رحمہ اللہ

·     عکرمہ بن عمار کہتے ہیں: "میں نے سالم بن عبد اللہ، قاسم بن محمد، عطاء اور مکحول کو دیکھا کہ وہ نماز میں رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 61، واسنادہ صحیح)

·     سلیمان (بن فیروز) الشیبانی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:

"میں نے سالم بن عبد اللہ کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع میں جاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے۔

پس میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: "میں نے اپنے والد (عبد اللہ بن عمر) کو ایسا کرتے دیکھا۔"

اور انہوں نے فرمایا: "میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا۔""

(حدیث السراج: 115، ومعجم اسامی شیوخ ابی بکر الاسماعیلی: 340، والخلافیات للبیہقی: 1641، واسنادہ صحیح، نیز دیکھیں: شرح معانی الآثار: 1162)

·     اسحاق بن راشد امام زھریؒ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

"میں نے سالم بن عبد اللہ کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھا کر سجدے کے لیے جاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے۔"

پس میں نے سالم سے اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: "میں نے عبد اللہ بن عمر کو ایسا کرتے دیکھا۔"

اور انہوں نے کہا: "میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھا۔"

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 8/209، اسنادہ حسن)

24- امام نافع مولی ابن عمر ابو عبد اللہ المدنی (م 117 ھ) رحمہ اللہ

·     جریر نے لیث کے واسطے سے روایت کیا کہ عطاء اور مجاہد نماز میں اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے، اور نافع اور طاووس بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

(جزء رفع الیدین للبخاری: 62)

·     عبد الرحمن بن مہدی نے ربیع بن صبیح کے واسطے سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: "میں نے محمد، حسن، ابو نضرہ، قاسم بن محمد، عطاء، طاووس، مجاہد، حسن بن مسلم، نافع اور ابن ابی نجیح کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع میں جاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 66، 67، وانظر التمہید لابن عبد البر: 9/218، ومسائل حرب الکرمانی: 745)

25- امیر المؤمنین امام عمر بن عبد العزیز بن مروان القرشی المدنی (م 101 ھ) رحمہ اللہ

·     عمرو بن المہاجر بیان کرتے ہیں:

"عبد اللہ بن عامر مجھ سے درخواست کرتے تھے کہ میں ان کے لیے عمر بن عبد العزیز سے اجازت طلب کروں۔ چنانچہ میں نے ان کے لیے اجازت طلب کی۔ تو عمر بن عبد العزیز نے فرمایا: "کیا یہ وہی شخص ہے جس نے اپنے بھائی کو رفع الیدین کرنے پر مارا تھا؟ ہمیں تو مدینہ میں بچپن میں ہی اس عمل (رفع یدین) کی تربیت دی جاتی تھی۔"

پس انہوں نے (عبد اللہ بن عامر) کو اجازت نہ دی۔

(جزء رفع الیدین للبخاری: 16، واسنادہ صحیح)

·     تمام بن نجیح بیان کرتے ہیں:

"عمر بن عبد العزیز حلب کے دروازے پر اترے، تو لوگوں نے کہا: چلو! ہم امیر المؤمنین کے ساتھ نماز میں شریک ہوتے ہیں۔

پس انہوں نے ہمیں ظہر اور عصر کی نماز پڑھائی، اور میں نے انہیں دیکھا کہ جب وہ رکوع میں جاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 99، واسنادہ صالح للإستشهاد)

·     عتبہ بن ابی حکیم کہتے ہیں:

"کسی نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے کہا: "یہ لوگ ہمیں ہاتھ اٹھانے (رفع یدین) سے روکتے ہیں۔"

تو عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا:

"اگر میرا ہاتھ کاٹ دیا جائے، تو میں اپنی کہنی اٹھاؤں گا، اور اگر میری کہنی بھی کاٹ دی جائے، تو میں اپنی بغل اٹھاؤں گا!"

(الخلافیات للبیہقی: 2/355، واسنادہ حسن)

·     صحابیِ رسول سیدنا انس بن مالک (رضی للہ عنہ) ان کی نماز کے بارے میں فرماتے ہیں: " میں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی امام کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ مشابہ ہو، سوائے تمہارے اس امام کے — یعنی: عمر بن عبدالعزیز۔"

(سنن النسائی: 981، حسن)

سیدنا ابو ھریرۃ نے بھی ان کے بارے میں یہ گواہی دی ہے۔ دیکھیں: مسند احمد (8366)، صحیح ابن حبان (1837)۔

26- امام النعمان بن ابی عیاش الانصاری المدنی رحمہ اللہ

·     ابن عجلان بیان کرتے ہیں: میں نے نعمان بن ابی عیاش کو فرماتے سنا:

"ہر چیز کی ایک زینت (خوبصورتی) ہوتی ہے، اور نماز کی زینت یہ ہے کہ جب تم تکبیر کہو، رکوع میں جاؤ، اور رکوع سے سر اٹھاؤ تو اپنے ہاتھ اٹھاؤ۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 58، واسنادہ حسن)

27- امام عبد اللہ بن دینار القرشی المدنی (م 127 ھ) رحمہ اللہ

·     عمر بن یونس بیان کرتے ہیں، ہمیں عکرمہ بن عمار نے حدیث بیان کی:

"میں نے قاسم، طاووس، مکحول، عبد اللہ بن دینار اور سالم کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے، رکوع میں جاتے اور سجدے میں جاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 68)

تابعین اہلِ مکہ:

28- امام مجاہد بن جبر المکی القرشی (م 101-104 ھ) رحمہ اللہ

·     امام عبد الرحمن بن مہدی نے ربیع کے واسطے سے بیان کیا: "میں نے مجاہد کو دیکھا کہ وہ جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: ص 71)

·     جریر نے لیث کے واسطے سے روایت کیا کہ عطاء اور مجاہد نماز میں اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے، اور نافع اور طاووس بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

(جزء رفع الیدین للبخاری: 62)

·     امام ابو بکر الاثرم کہتے ہیں: "میں نے ابو عبد اللہ احمد بن حنبل کو فرماتے سنا کہ ہمیں ابو الن نے ربیع بن صبیح کے واسطے سے حدیث بیان کی۔

ربیع بن صبیح کہتے ہیں: "میں نے عطاء، طاووس، مجاہد، حسن، ابن سیرین، نافع، ابن ابی نجیح، حسن بن مسلم اور قتادہ کو دیکھا کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(التمہید لابن عبد البر: 9/218، نیز دیکھیں جزء رفع الیدین للبخاری: 66)

29- امام عطاء بن ابی رباح المکی القرشی (م 114 ھ) رحمہ اللہ

·     ابو النعمان محمد بن الفضل نے بیان کیا: "میں نے حماد بن زید کے پیچھے نماز پڑھی، تو انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ اٹھائے۔ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: میں نے ایوب سختیانی کے پیچھے نماز پڑھی، تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔

انہوں نے کہا: میں نے ایوب سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: "میں نے عطا بن ابی رباح کو دیکھا کہ وہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔" میں نے عطا سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: "میں نے عبد اللہ بن زبیر کے پیچھے نماز پڑھی، تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

میں نے عبد اللہ بن زبیر سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: "میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، تو آپ ﷺ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(السنن الکبری للبیہقی: 2519، واسنادہ صحیح)

·     جریر نے لیث کے واسطے سے روایت کیا کہ عطاء اور مجاہد نماز میں اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے، اور نافع اور طاووس بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

(جزء رفع الیدین للبخاری: 62)

·     عبد الرزاق کہتے ہیں: "اہل مکہ نے نماز میں رفع یدین (ہاتھ اٹھانے) کا طریقہ، یعنی نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت، ابن جریج سے لیا، اور ابن جریج نے اسے عطاء سے لیا، اور عطاء نے ابن زبیر سے، اور ابن زبیر نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے، اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سیکھا۔"

(الاوسط لابن المنذر: 1388، واسنادہ صحیح)

30- امام الحسن بن مسلم بن یناق المکی (م 101-105 ھ) رحمہ اللہ

·     وکیع نے ربیع بن صبیح کے واسطے سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: "میں نے محمد (بن سیرین)، الحسن (البصری)، مجاہد، عطاء، طاووس، قیس بن سعد، اور الحسن بن مسلم کو دیکھا کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور سجدے میں جاتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 66، 67، وانظر التمہید لابن عبد البر: 9/218، ومسائل حرب الکرمانی: 745)

31- امام عبد الرحمن بن سابط القرشی المکی (م 118 ھ) رحمہ اللہ

·     ابن جریج سے روایت ہے کہ عبد الرحمن بن سابط نے مجھے بتایا:

" نماز کا اصل طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے ہاتھوں، چہرے، اور جسم کے ساتھ تکبیر کہے، اور تکبیر کے شروع میں اپنے سر کو تھوڑا اونچا اٹھائے، اور اسی طرح رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے بھی کرے"

(مصنف عبد الرزاق: 2515، واسنادہ صحیح)

تابعین اہلِ بصرہ:

32- امام الحسن البصری (م 110 ھ) رحمہ اللہ

33- امام محمد بن سیرین البصری (م 110 ھ) رحمہ اللہ

·     عبد الرحمن بن مہدی نے ربیع بن صبیح کے واسطے سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: "میں نے محمد (بن سیرین)، حسن (بصری)، ابو نضرۃ، قاسم بن محمد، عطاء، طاووس، مجاہد، حسن بن مسلم، نافع اور ابن ابی نجیح کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع میں جاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 66، وانظر التمہید لابن عبد البر: 9/218، ومسائل حرب الکرمانی: 745)

·     ہشام، الحسن اور ابن سیرین سے روایت کرتے ہیں کہ وہ دونوں فرمایا کرتے تھے:

"جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے تکبیر کہے تو اسے چاہیے کہ تکبیر کے وقت اپنے ہاتھ اٹھائے، اور جب رکوع سے سر اٹھائے تب بھی ہاتھ اٹھائے۔"

اور ابن سیرین فرمایا کرتے تھے: "یہ (رفع یدین) نماز کی تکمیل میں سے ہے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 39، واسنادہ صحیح)

·     ابن عون سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:

"محمد (بن سیرین) جب نماز میں داخل ہوتے، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(مصنف ابن ابی شیبۃ: 2436 واسنادہ صحیح)

·     محمد بن جحادۃ نے جب وائل بن حجر کی رفع الیدین والی حدیث امام الحسن البصری کو سنائی تو انہوں نے فرمایا:

" یہی رسول اللہ ﷺ کی نماز ہے، عمل کرنے والوں نے اس پر عمل کیا، اور چھوڑنے والوں نے اسے چھوڑ دیا ۔"

(سنن ابی داود: 723 واسنادہ صحیح)

34- امام عبد اللہ بن زید ابو قلابہ البصری (م 104 ھ) رحمہ اللہ

·     اسماعیل بن علیۃ خالد الحذاء کے واسطے سے بیان کرتے ہیں کہ:

"ابو قلابة جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(مصنف ابن ابی شیبۃ: 2437، وجزء رفع الیدین للبخاری: 54، واسنادہ صحیح)

35- امام قتادۃ بن دعامۃ البصری (م 117-118 ھ) رحمہ اللہ

·     امام قتادۃ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اس طرح اٹھاتے کہ وہ کانوں کے برابر ہو جاتے۔

(مصنف عبد الرزاق: 2521)

·     امام ابو بکر الاثرم کہتے ہیں: "میں نے ابو عبد اللہ احمد بن حنبل کو فرماتے سنا کہ ہمیں ابو النضر نے ربیع بن صبیح کے واسطے سے حدیث بیان کی،

ربیع بن صبیح کہتے ہیں: "میں نے عطاء، طاووس، مجاہد، حسن، ابن سیرین، نافع، ابن ابی نجیح، حسن بن مسلم اور قتادہ کو دیکھا کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(التمہید لابن عبد البر: 9/218)

تابعین اہلِ یمن:

36- امام طاووس بن کیسان الحمیری الیمانی (م 106 ھ) رحمہ اللہ

·     ابن جریج سے روایت ہے کہ حسن بن مسلم نے مجھے طاووس کے واسطے سے بتایا کہ انہوں نے فرمایا:

"نماز کی پہلی تکبیر، جو افتتاح (نماز کے آغاز) کے لیے ہوتی ہے، اس میں ہاتھ باقی تمام تکبیروں کے مقابلے میں زیادہ بلند کیے جاتے ہیں۔"

انہوں نے فرمایا: "یہاں تک کہ آدمی انہیں سر کے برابر تک لے آئے۔"

ابن جریج کہتے ہیں: "میں نے خود طاووس کے بیٹے کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھوں کو سر کے برابر تک لے آتے تھے۔"

(مصنف عبد الرزاق: 2527، واسنادہ صحیح)

·     شعبہ، حکم کے واسطے سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

"میں نے طاووس کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔

پھر ان کے ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ طاووس اس بارے میں ابن عمر کے واسطے سے نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے تھے۔"

(مسند آحمد: 5033، واسنادہ صحیح)

37- امام وھب بن منبہ الصنعانی الیمانی (34 ھ – 114 ھ) رحمہ اللہ

·     داود بن ابراہیم سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:

"میں نے وہب بن منبہ کو دیکھا کہ جب وہ نماز میں تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ اس طرح اٹھاتے کہ وہ ان کے کانوں کے برابر ہو جاتے، اور جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ایسا ہی کرتے تھے۔"

(مصنف عبد الرزاق: 2524، والتمہید لابن عبد البر: 6/364)

تابعین اہلِ دمشق:

38- حضرت ام الدرداء (م 81 ھ) رضی اللہ عنہا

·     امام عبد اللہ بن مبارکؒ نے بیان کیا، ہمیں اسماعیل بن عیاش نے خبر دی، کہ عبد ربہ بن سلیمان بن عمیر نے مجھ سے بیان کیا کہ:

"میں نے ام درداء کو دیکھا کہ وہ نماز میں اپنے ہاتھ اپنے کندھوں کے برابر اٹھاتی تھیں، جب نماز کا آغاز کرتیں، جب رکوع میں جاتیں، اور جب 'سمع اللہ لمن حمدہ' کہتیں تو اپنے ہاتھ اٹھاتیں اور 'ربنا ولک الحمد' کہتیں۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 24، واسنادہ حسن)

نوٹ 1: اس روایت کے راوی اسماعیل بن عیاش کے بارے میں محدثین کا فیصلہ ہے کہ جب وہ اہل شام سے روایت کریں تو ان کی روایت صحیح ہوتی ہے، اور عبد ربہ بن سلیمان بھی شامی ہیں۔

نوٹ 2: اسماعیل بن عیاش سے روایت کرنے والے امام عبد اللہ بن مبارک کوئی معمولی راوی نہیں بلکہ ائمہ محدثین اور امراء المؤمنین فی الحدیث میں سے ہیں۔ چنانچہ ان کی اسماعیل سے روایت اس روایت کی مزید تقویت کا باعث ہے۔

نوٹ 3: عبد ربہ بن سلیمان کو امام ذہبی نے مجہول کیا ہے، لیکن شاید انہیں ان کی توثیق کا علم نہ ہو سکا، چنانچہ عبد ربہ کو امام ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے، اور امام ابو زرعہ الدمشقی نے اپنی تاریخ میں امام مروان بن محمد الطاطری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: "عبد ربه بن سليمان بن زيتون، ثقة، من أهل فلسطين" (تاریخ ابی زرعہ: 650، واسنادہ صحیح)۔ نیز اس روایت میں عبد ربہ نے ام الدرداء سے براہ راست اپنا مشاہدہ نقل کیا ہے جس میں ضبط وحفظ کی سخت قید نہیں ہوتی۔

نوٹ 4: امام بخاریؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

"نبی ﷺ کے بعض صحابہ کی خواتین بھی ان (رفع یدین کا انکار کرنے والوں) سے زیادہ علم رکھتی تھیں، کیونکہ وہ نماز میں اپنے ہاتھ اٹھاتی تھیں

39- امام مکحول الشامی ابو عبد اللہ الدمشقی (م 112-114 ھ) رحمہ اللہ

·     عکرمہ بن عمار کہتے ہیں: "میں نے سالم بن عبد اللہ، قاسم بن محمد، عطاء اور مکحول کو دیکھا کہ وہ نماز میں رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 61، 68، واسنادہ صحیح)

تابعین اہلِ کوفہ:

40- امام سعید بن جبیر الکوفی (م 95 ھ) رحمہ اللہ

·     امام ابن المبارک نے بیان کیا، ہمیں عبد الملک بن ابی سلیمان نے خبر دی، وہ سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے نماز میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا:

"یہ ایک ایسا عمل ہے جو آدمی کی نماز کو زینت بخشتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ جب نماز شروع کرتے، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(السنن الکبری للبیہقی: 2525، واسنادہ حسن)

41- امام القاسم بن مخيمرة ، أبو عروة الهمدانى ، الكوفى (م 100-101 ھ) رحمہ اللہ

·     قاسم بن مخیمرة فرماتے ہیں:

"تکبیر کے وقت ہاتھ اٹھانا (مسنون ہے)، اور میرے خیال میں (رکوع کے لیے) جھکتے وقت بھی (ہاتھ اٹھانے چاہییں)۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 59، واسنادہ صحیح)

تبع تابعین میں سے

اہل مدینۃ:

42- امام دار الھجرۃ مالک بن انس المدنی (93 ھ - 179 ھ) رحمہ اللہ

·     یونس بن عبد الاعلی فرماتے ہیں: اشہب بن عبد العزیز بیان کرتے ہیں:

"میں نے امام مالک بن انس کی وفات سے ایک سال قبل ان کی صحبت اختیار کی، اور وہ اس حال میں وفات پائے کہ وہ (نماز میں) رفع الیدین کرتے تھے۔"

یونس سے پوچھا گیا: "اشہب نے امام مالک کے رفع یدین کے بارے میں کیسے بیان کیا؟"

تو انہوں نے کہا: "اشہب سے اس بارے میں کئی بار سوال کیا گیا، تو وہ فرمایا کرتے تھے کہ امام مالک جب تکبیر تحریمہ کہتے، جب رکوع میں جانے کا ارادہ کرتے، اور جب 'سمع اللہ لمن حمدہ' کہتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(التمہید لابن عبد البر: 6/357، واسنادہ صحیح)

·     اسماعیل بن ابی اویس بیان کرتے ہیں:

"امام مالک بن انس نماز میں رفع یدین کے قائل تھے۔"

(سنن الترمذی: 256)

·     یونس بیان کرتے ہیں: ابن وھب المصری نے مجھے بتایا کہ انہوں نے کہا:

"میں نے امام مالک بن انس کے ساتھ حج کے سفر میں رفاقت اختیار کی۔ جب ہم ایک مقام پر پہنچے (جسے یونس نے ذکر کیا)، تو میری اونٹنی ان کی اونٹنی کے قریب ہو گئی۔ میں نے ان سے کہا: اے ابو عبد اللہ! نماز میں مصلی (نمازی) کیسے ہاتھ اٹھائے؟"

تو انہوں نے فرمایا: "کیا تم مجھ سے اس بارے میں پوچھ رہے ہو؟ میں نہیں چاہتا کہ یہ سوال تمہاری طرف سے سنوں!"

پھر انہوں نے فرمایا: "جب نماز شروع کرے (تکبیر تحریمہ کہے)، جب رکوع میں جانے کا ارادہ کرے، اور جب کہے 'سمع اللہ لمن حمدہ' (تو ہاتھ اٹھائے)۔"

ابو عبیدہ نے کہا: "میں نے یونس سے یہ بات کئی بار سنی ہے۔"

(التمہید لابن عبد البر: 6/357، وانظر: الاوسط لابن المنذر: 3/147 واسنادہ صحیح)

·     امام ابن عبد البر فرماتے ہیں: "المستخرجة" میں اشہب اور ابن نافع کی امام مالک سے سنی ہوئی روایت میں آیا ہے کہ امام مالک نے فرمایا:

"نمازی جب رکوع سے سر اٹھائے اور 'سمع اللہ لمن حمدہ' کہے تو اپنے ہاتھ اٹھائے۔"

اور انہوں نے فرمایا: "ہاتھ اٹھانا لازم نہیں ہے، اس میں گنجائش ہے۔"

(التمہید لابن عبد البر: 6/358)

·     ابن وہب بیان کرتے ہیں:

"میں نے امام مالک بن انس کو ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت ہاتھ اٹھاتے دیکھا – یا فرمایا: ہر بار جب وہ جھکتے تو ہاتھ اٹھاتے – اور ان کی نماز ہمیشہ اسی طرح رہی۔"

(التمہید لابن عبد البر: 6/357، واسنادہ صحیح)

·     ابو المصعب الزہری بیان کرتے ہیں:

"میں نے امام مالک بن انس کو 'سمع اللہ لمن حمدہ' کہتے وقت ہاتھ اٹھاتے دیکھا، جیسا کہ ابن عمر کی حدیث میں آیا ہے۔"

(التمہید لابن عبد البر: 1/358، وجذوۃ المقتبس: ص 231، 378، واسنادہ صحیح)

·     محمد بن جابر ابو عبد اللہ الفقیہ الحافظ بیان کرتے ہیں: حرملہ بن عبد اللہ التجیبی نے ہمیں بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن وہب نے خبر دی:

"میں نے امام مالک بن انس کو دیکھا کہ وہ جب نماز کا آغاز کرتے، جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

ابو عبد اللہ (راوی) کہتے ہیں: "میں نے یہ بات محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم سے ذکر کی، جو مصر میں امام مالک کے اصحاب میں نمایاں اور ان کے اقوال کے سب سے بڑے عالم تھے اور وہ جانتے تھے کہ امام مالک کس طریقے پر وفات پائے۔"

انہوں نے کہا: "یہی امام مالک کا قول اور عمل تھا، جس پر ان کا انتقال ہوا، اور یہی سنت ہے، اور میں اسی پر عمل کرتا ہوں۔"

اور حرملہ بھی اسی طریقے پر تھے۔

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 52/179، واسنادہ حسن)

·     مشہور مالکی فقیہ امام ابو العباس القرطبی نے فرمایا کہ یہی امام مالک کے مذہب میں مشہور قول ہے، اور کہا:

"تین مقامات (نماز کے آغاز، رکوع میں جاتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت) میں ہاتھ اٹھانا امام مالک کا آخری اور سب سے صحیح قول ہے۔"

(طرح التژریب: 2/254)

اس کے برعکس امام مالک سے عبد الرحمن بن القاسم کی جو عدم رفع الیدین پر روایت پیش کی جاتی ہے، وہ نہایت شاذ ومنکر ہے۔ اگرچہ بعد کے مقلد مالکیوں نے اسی روایت کو اپنا مذہب بنا لیا۔

ابن القاسم کی اس روایت کو مسترد کرتے ہوئے امام مالک کے سب سے بڑے اور خاص شاگرد امام محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم فرماتے ہیں:

"رفع یدین کے بارے میں میں جس قول کو اختیار کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ میں حدیث ابن عمر کے مطابق ہاتھ اٹھاؤں۔"

اور انہوں نے کہا:

"امام مالک سے کسی نے بھی رفع یدین کے بارے میں ابن القاسم کی روایت کی طرح روایت نہیں کی۔"

(التمہید لابن عبد البر: 9/223)

43- امام یعقوب بن ابراھیم بن سعد بن ابراھیم بن عبد الرحمن بن عوف، ابو یوسف القرشی الزھری المدنی (م 208 ھ) رحمہ اللہ

·     امام یعقوب بن ابراہیم المدنی الزھری نے رفع یدین کے ثبوت میں امام زھری عن سالم کے طریق سے سیدنا ابن عمر کی حدیث، اور اسی طرح سیدنا وائل بن حجر، اور سیدنا مالک بن الحویرث کی روایات نقل کی ہیں، اور ان سے ان روایات کی عملا مخالفت کرنا ثابت نہیں، اور نہ ہی ایسے ائمہ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ حدیثِ رسول کا علم ہونے کے بعد اس کی مخالفت کریں۔

·     اسی طرح امام یعقوب امام علی بن المدینی کے خاص اساتذہ میں سے ہیں۔ اور امام علی نے اپنے اساتذہ کے بارے میں بالعموم فرمایا ہے کہ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو رفع یدین نہ کرتا ہو۔ دیکھیں نیچے امام علی بن المدینی کا قول۔

44- امام عبد العزیز بن محمد الدراوردی، ابو محمد الجھنی المدنی (م 186 ھ) رحمہ اللہ

·     امام دراوردی کے شاگردوں میں امام علی بن المدینی، امام قتیبۃ بن سعید، امام شافعی، امام اسحاق بن راہویہ، امام حمیدی، امام یحیی بن یحیی النیسابوری، اور امام عبد اللہ بن وھب وغیرہ شامل ہیں، اور یہ سب رفع یدین کرنے والوں میں سے تھے۔

·     جبکہ امام علی بن المدینی نے بالخصوص اپنے اساتذہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ سب رفع یدین کرتے تھے۔ دیکھیں علی بن المدینی کا قول۔

اہل مکۃ:

45- امام قیس بن سعد ابو عبد الملک الحبشی المکی (م 117 ھ) رحمہ اللہ

·     وکیع نے ربیع بن صبیح کے واسطے سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: "میں نے محمد (بن سیرین)، الحسن (البصری)، مجاہد، عطاء، طاووس، قیس بن سعد، اور الحسن بن مسلم کو دیکھا کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور سجدے میں جاتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 66، 67، وانظر التمہید لابن عبد البر: 9/218، ومسائل حرب الکرمانی: 745)

46- امام عبد اللہ بن ابی نجیح، ابو یسار، المکی (م 131 ھ) رحمہ اللہ

·     امام عبد الرحمن بن مہدی نے ربیع بن صبیح کے واسطے سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: "میں نے محمد، حسن، ابو نضرہ، قاسم بن محمد، عطاء، طاووس، مجاہد، حسن بن مسلم، نافع اور ابن ابی نجیح کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع میں جاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 66، 67، وانظر التمہید لابن عبد البر: 9/218، ومسائل حرب الکرمانی: 745)

یہی بات امام احمد بن حنبل نے ابو النضر کے واسطے سے بھی ربیع بن صبیح سے نقل کی ہے۔ دیکھیں: التمہید لابن عبد البر: 9/218۔

47- امام عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج، القرشی، ابو الولید، المکی (80 ھ - 150 ھ) رحمہ اللہ

·     امام ابو حاتم الرازی، نقل کرتے ہیں کہ: سلمہ بن شبیب کہتے ہیں: میں نے عبد الرزاق کو فرماتے سنا:

"اہلِ مکہ نے نماز میں رفع یدین کا طریقہ — یعنی نماز کے آغاز میں، رکوع میں جاتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا — ابن جریج سے سیکھا۔ ابن جریج نے یہ طریقہ عطاء سے لیا، عطاء نے ابن الزبیر سے، اور ابن الزبیر نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے، اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے سیکھا ہے۔"

(الاوسط لابن المنذر: 1388)

·     امام عبدالرزاق کہتے ہیں:
"میں نے ابن جریج کو نماز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا، جب وہ نماز شروع کرتے، جب رکوع کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے۔"

(الخلافیات للبیہقی: 2/352)

48- امام مسلم بن خالد القرشی، الزنجی المکی (م 179 ھ) رحمہ اللہ

ابراہیم بن محمد (الشافعی) کہتے ہیں:

"میں نے محمد بن ادریس الشافعی سے بڑھ کر کسی کی نماز کو بہتر نہیں پایا، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے (نماز کا طریقہ) مسلم بن خالد الزنجی سے سیکھا، مسلم نے ابن جریج سے، ابن جریج نے عطاء سے، عطاء نے عبد اللہ بن الزبیر سے، عبد اللہ بن الزبیر نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے، اور نبی کریم ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے سیکھا۔"

(حلیۃ الاولیاء: 9/135)

اور امام شافعی کی نماز کا طریقہ معروف ہے اور ان کا رفع یدین کا اہتمام کرنے میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ اسی طرح ابن جریج، عطاء، ابن الزبیر اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان سب کی نماز کا طریقہ بھی گزر چکا ہے کہ وہ سب رفع یدین کرتے تھے۔

49- امام سفیان بن عیینۃ، ابو محمد الکوفی المکی (107 ھ - 198 ھ) رحمہ اللہ

·     امام ترمذی یحیی بن موسی سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے الجارود بن معاذ کو کہتے سنا:

" سفیان بن عیینہ، عمر بن ہارون، اور نضر بن شمیل جب نماز شروع کرتے، رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے"

(سنن الترمذی: 256، واسنادہ صحیح)

·     عبد الرحمن بن عمر بن یزید: رستۃ فرماتے ہیں: "میں نے سفیان بن عیینۃ۔۔۔۔ کو دیکھا، وہ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے"

(معجم ابن المقرئ: ص 381، واسنادہ صحیح)

·     امام سفیان بن عیینۃ نے زہری عن سالم عن ابن عمر کے طریق سے مروی رفع الیدین والی مرفوع روایت بیان کرنے کے بعد امام ابن المدینی سے فرمایا:

" یہ (حدیث) اس ستون کی طرح مضبوط اور پختہ ہے"

(شعار اصحاب الحدیث للحاکم: 50، واسنادہ صحیح)

·     امام بخاریؒ نقل کرتے ہیں کہ امام علی بن المدینیؒ نے فرمایا:

"میں نے اپنے مشائخ میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ نماز میں رفعِ یدین کرتے تھے۔"
امام بخاری کہتے ہیں: "میں نے ان سے پوچھا: کیا سفیان (بن عیینۃ) رفع یدین کرتے تھے؟" انہوں نے فرمایا: "ہاں۔""

(جزء رفع الیدین للبخاری: 116)

·     امام احمد بن حنبل اپنے استاد امام ابن عیینۃ کے بارے میں فرماتے ہیں:

"ابن عیینہ کبھی ہاتھ اٹھاتے تھے اور کبھی نہیں اٹھاتے تھے"

(العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد روایۃ ابنہ عبد اللہ: 5131)

اس قول سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام ابن عُیَینۃ رحمہ اللہ نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسے فرض یا واجب نہیں بلکہ مستحب سنت سمجھتے تھے۔ چنانچہ اگر کبھی رفع یدین نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر یہ سنت کو چھوڑنے کا جواز نہیں بن جاتا۔

جو حنفی حضرات امام ابن عُیَینۃ کے اس طرزِ عمل کو اپنے موقف کے حق میں دلیل بناتے ہیں، ان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ اس قول کا پورا مفہوم سمجھیں۔ اگر ابن عُیَینۃ کبھی رفع یدین نہیں کرتے تھے تو کبھی اس پر عمل بھی کرتے تھے۔

لہٰذا احناف کو بھی چاہیے کہ کم از کم کبھی کبھار ہی سہی، احادیثِ نبویہ اور سنتِ صحابہ کی پیروی میں رفع یدین کر لیا کریں۔ اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ باعثِ اجر و برکت ہے۔ لازم نہیں کہ ہمیشہ فقط اپنے امام کی پیروی کی جائے اور سنتِ رسول ﷺ کو ترک کر دینا ہی تقویٰ سمجھا جائے۔

50- امام العصر، فقیہ الملۃ، محمد بن ادریس بن العباس الشافعی القرشی المکی (150 ھ - 204 ھ) رحمہ اللہ

امام شافعیؒ سے رفع یدین کے اثبات پر ان کی کتب بھری پڑی ہیں، نیز انہوں نے نہ صرف رفع یدین کے ثبوت پر دلائل اکٹھے کیے ہیں بلکہ رفع یدین نہ کرنے والوں کے دلائل کا جواب بھی دیا ہے۔ دیکھیں: الام للشافعی (1/126)، اختلاف الحدیث للشافعی (ص 126)، مختصر المزنی (ص 96)، اور معرفۃ السنن والآثار للبیہقی (2/334) وغیرہ۔

51- امام، حافظ، شیخ الحرم، عبد اللہ بن یزید القرشی، ابو عبد الرحمن المقریء، العدوی، المکی (م 213) رحمہ اللہ

امام ابن المنذرؒ نے انہیں رفع یدین کرنے والوں میں شمار کیا ہے۔

(الاوسط لابن المنذر: 3/139)

اہل بصرہ:

52- حجۃ اہل البصرۃ، امام ایوب بن ابی تمیمۃ السختیانی، ابو بکر البصری (م 131 ھ) رحمہ اللہ

53- امام اہلِ بصرہ، حماد بن زید بن درھم الازدی البصری (م 179 ھ) رحمہ اللہ

ابو النعمان محمد بن الفضل نے بیان کیا: "میں نے حماد بن زید کے پیچھے نماز پڑھی، تو انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ اٹھائے۔ میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: میں نے ایوب سختیانی کے پیچھے نماز پڑھی، تو وہ بھی نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔۔۔"

(السنن الکبری للبیہقی: 2519، واسنادہ صحیح)

54- امام معمر بن راشد، ابو عروۃ البصری (م 154 ھ) رحمہ اللہ

امام ترمذی روایت کرتے ہیں کہ یحیی بن موسی نے امام عبد الرزاق الصنعانی سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا:

"معمر (بن راشد) نماز میں رفع الیدین کے قائل تھے"

(سنن الترمذی: 256)

55- امام معتمر بن سلیمان بن طرخان التیمی البصری (م 187 ھ) رحمہ اللہ

56- امام اسماعیل بن ابراہیم بن مقسم المعروف بابن علیۃ البصری (م 193 ھ) رحمہ اللہ

57- امام یحیی بن سعید القطان البصری (م 198 ھ) رحمہ اللہ

امام بخاری نے فرمایا: احمد بن حنبل نے کہا:

"میں نے معتمر بن سلیمان، یحییٰ بن سعید (القطان)، عبد الرحمن بن مہدی، اور اسماعیل بن علیۃ کو دیکھا کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 117، والتمہید لابن عبد البر: 6/351)

نوٹ: امام یحیی بن سعید القطان کے بارے میں بعض احناف کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ حنفی المذہب تھے۔ چنانچہ رفع یدین کے ثبوت میں یہ ان کے لیے ایک حنفی امام کی شہادت ہے۔

امام احمد بن حنبل ایک جگہ فرمایا:

"ابن علیہ بہت اچھی نماز پڑھتے تھے، وہ نماز میں اپنے ہاتھ اٹھاتے، اور نیت کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے۔ ابن علیہ ہاتھوں کو بہت بلند اٹھاتے تھے، ان کا ہاتھ اٹھانا بہت خوبصورت ہوتا تھا۔"

(العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد روایۃ ابنہ عبد اللہ: 5131)

58- امام عبد الرحمن بن مھدی البصری (م 198 ھ) رحمہ اللہ

·     امام عبد الرحمن بن مہدی نے فرمایا: "یہ (رفع یدین کرنا) سنت میں سے ہے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: 67، نیز دیکھیں اس سے پہلے والا قول)

·     عبد الرحمن بن عمر بن یزید: رستۃ فرماتے ہیں: "میں نے عبد الرحمن بن مھدی، اور یحیی بن سعید القطان۔۔۔۔ کو دیکھا، وہ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے"

(معجم ابن المقرئ: ص 381، واسنادہ صحیح)

59- امام النضر بن شمیل، ابو الحسن النحوی البصری ثم المروزی (م 204 ھ) رحمہ اللہ

امام ترمذی یحیی بن موسی سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میں نے الجارود بن معاذ کو کہتے سنا:

" سفیان بن عیینہ، عمر بن ہارون، اور نضر بن شمیل جب نماز شروع کرتے، رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے"

(سنن الترمذی: 256، واسنادہ صحیح)

60- امام عمر بن علی بن عطاء المقدمی، ابو حفص البصری (م 190 ھ) رحمہ اللہ

61- امام محمد بن ابراھیم بن ابی عدی، ابو عمرو، البصری (م 194 ھ) رحمہ اللہ

62- امام عبد الوھاب بن عبد المجید الثقفی، ابو محمد، البصری (م 194 ھ) رحمہ اللہ

63- امام معاذ بن معاذ العنبری، ابو المثنی، البصری (م 196 ھ) رحمہ اللہ

64- امام صفوان بن عیسی القرشی الزھری، ابو محمد البصری (م 200 ھ) رحمہ اللہ

65- امام سلم بن قتیبۃ، ابو قتیبۃ الخراسانی البصری (م 200 ھ) رحمہ اللہ

66- حماد بن مسعدۃ، ابو سعید، البصری التمیمی (م 202 ھ) رحمہ اللہ

67- امام ازھر بن سعد السمان، ابو بکر الباہلی، البصری (م 203 ھ) رحمہ اللہ

68- امام سلیمان بن داود بن الجارود، ابو داود الطیالسی البصری، صاحب المسند (م 204 ھ) رحمہ اللہ

69- امام روح بن عبادۃ، ابو محمد، البصری (م 205 ھ) رحمہ اللہ

70- الفضل بن مساور، ابو المساور البصری (امام ابو عوانۃ کے داماد) (م 191-200 ھ) رحمہ اللہ

71- امام یحیی بن حماد الشیبانی، ابو بکر البصری (امام ابو عوانۃ کے داماد) (م 215 ھ) رحمہ اللہ

72- امام حافظ سلیمان بن حرب الازدی، ابو ایوب، البصری (م 224 ھ) رحمہ اللہ

عبد الرحمن بن عمر بن یزید: رستۃ فرماتے ہیں: "میں نے سفیان بن عیینۃ، جریر بن عبد الحمید، یحیی بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مھدی، عمر بن علی المقدمی، محمد بن ابی عدی، عبد الوھاب الثقفی، معاذ بن معاذ، صفوان بن عیسی الزھری، سلم بن قتیبۃ، حماد بن مسعدۃ، ازھر السمان، ابو داود (الطیالسی)، روح بن عبادۃ، ابو المساور دامادِ ابو عوانۃ، یحیی بن حماد، سلیمان بن حرب۔۔۔۔ کو دیکھا، وہ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے"

(معجم ابن المقرئ: ص 381، واسنادہ صحیح، وانظر: الاوسط لابن المنذر: 3/139)

73- امام محمد بن الفضل السدودی، ابو النعمان البصری، المعروف ب: عارم (م 223 ھ) رحمہ اللہ

امام محمد بن اسماعیل ابو اسماعیل الترمذی فرماتے ہیں:

"میں نے عارم بن الفضل کے پیچھے نماز پڑھی، تو وہ تکبیر کہتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے، اور وہ بہت خوبصورت انداز میں نماز پڑھتے تھے۔ جب نماز مکمل ہوئی، تو میں نے ان سے پوچھا: یہ نماز کس (کے طریقے) کی ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے حماد بن زید کے پیچھے نماز پڑھی ہے، اور وہ اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔"

(الخلافیات للبیہقی: 2/344، والسنن الکبری للبیہقی: 2519، واسنادہ صحیح)

74- امام هدبة بن خالد بن الأسود بن هدبة القيسى الثوبانى ، أبو خالد البصرى (بعد 230 ھ) رحمہ اللہ

امام ابو عبد اللہ محمد بن جابر الفقیہ کہتے ہیں:

"میں نے ۔۔۔۔ ھدبۃ بن خالد ۔۔۔۔ اور ان کے علاوہ بے شمار ایسے ائمہ کو دیکھا جن کی اقتداء کی جاتی ہے، کہ وہ لوگ جب نماز شروع کرنے کے لیے تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے، اور رکوع میں جاتے وقت بھی، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 52/179، واسنادہ صحیح)

75- امام ھشام بن عبد الملک، ابو الولید الطیالسی، البصری (م 227 ھ) رحمہ اللہ

76- (ابو) عثمان بن عمر(و) البکراوی: خلیفۃ بن عمرو بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکرۃ الثقفی البصری (م 191-200 ھ) رحمہ اللہ

77- امام وھب بن جریر بن حازم، الازدی، ابو العباس البصری (م 206 ھ) رحمہ اللہ

78- امام بھز بن اسد، ابو الاسود العمی البصری (م بعد 200 ھ) رحمہ اللہ

79- امام معلی بن اسد، ابو الھیثم العمی البصری (اخو بھز بن اسد) (م 218 ھ) رحمہ اللہ

80- يحيى بن أبى الحجاج : عبد الله بن الأهتم الأهتمى المنقرى الخاقانى ، أبو أيوب البصرى (م 201-210 ھ) رحمہ اللہ

امام ابن المنذرؒ ان سب کو رفع یدین کرنے والوں میں شمار کیا ہے۔

(الاوسط لابن المنذر: 3/139)

81- امام معاذ بن ھشام الدستوائی، ابو عبد اللہ البصری (م 200 ھ) رحمہ اللہ

82- امام یزید بن زریع بن یزید العیشی، ابو معاویۃ التیمی البصری (م 182 ھ) رحمہ اللہ

83- امام بشر بن المفضل الرقاشی، ابو اسماعیل البصری (م 187 ھ) رحمہ اللہ

دیکھیں: نیچے امام علی بن المدینی کے قول کے تحت۔

اہلِ شام:

84- امام اہلِ شام عبد الرحمن بن عمرو الاوزاعی (م 157 ھ) رحمہ اللہ

امام طبری نے ذکر کیا کہ عباس بن ولید بن مزید نے اپنے والد کے واسطے سے امام اوزاعی سے روایت کیا، انہوں نے فرمایا:

"ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ سنت، جس پر اہلِ حجاز، اہلِ بصرہ اور اہلِ شام کے علماء کا اجماع ہے، یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو تکبیر کے وقت اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے، جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی ہاتھ اٹھاتے تھے۔

البتہ اہلِ کوفہ نے اس مسئلے میں اپنی امت (یعنی باقی مسلمانوں) سے اختلاف کیا۔"

کسی نے امام اوزاعی سے پوچھا: "اگر کوئی ان (مذکورہ مقامات) میں ہاتھ اٹھانے کو چھوڑ دے تو؟"

تو انہوں نے فرمایا: "یہ اس کی نماز میں کمی شمار ہوگی۔"

(التمہید لابن عبد البر: 6/362، والاوسط لابن المنذر: 3/147، واختلاف الفقھاء لمحمد بن نصر المروزی: ص 129، والاشراف لابن المنذر: 2/27، واسنادہ صحیح، نیز دیکھیں: المختصر الصغیر لابن عبد الحکم (ص 149)

85- امام الولید بن مسلم القرشی، ابو العباس الشامی الدمشقی (م 194 ھ) رحمہ اللہ

دیکھیں: نیچے امام علی بن المدینی کے قول کے تحت۔ نیز امام الولید بن مسلم امام اوزاعی کے سب سے خاص شاگردوں میں سے تھے۔ ایسا ممکن نہیں کہ امام اوزاعی رفع یدین کے بارے میں اتنا شدید قول کہیں اور ان کا اپنا شاگرد اس پر عمل نہ کرتا ہو۔

اہلِ یمن:

86- امام عبد الرزاق بن ھمام الحمیری الیمانی، ابو بکر الصنعانی (م 211 ھ) رحمہ اللہ

·     امام عبد الرزاق امام معمر، اور امام ابن جریج وغیرہ کے خاص شاگرد تھے اور ان سے رفع یدین کی اکثر روایات کے راوی بھی ہیں۔

·     امام عبد الرزاق امام علی بن المدینی کے شیوخ میں سے ہیں اور امام علی بن المدینی فرماتے ہیں کہ ان کا کوئی شیخ ایسا نہیں جو رفع یدین نہ کرتا ہو، جیسا کہ ان کے قول کے تحت نیچے آئے گا۔

·     امام بیہقی رفع یدین کی ایک روایت نقل کرنے کے بعد امام ابو اسحاق النیسابوری ابراھیم بن ابی طالب المزکی الزاھد (م 295 ھ) کا قول نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

"رفعِ یدین (نماز میں ہاتھ اٹھانے) کے بارے میں اس حدیث سے زیادہ صحیح کوئی حدیث نہیں، کیونکہ جن سب نے یہ حدیث روایت کی ہے، وہ خود بھی رفع یدین کرتے تھے: عبدالرزاق، ابن جریج، عطا، عبداللہ بن زبیر، ابوبکرؓ، اور رسول اللہ ﷺ۔"

(الخلافیات للبیہقی: 1684)

87- امام ھشام بن یوسف الابناوی، ابو عبد الرحمن الصنعانی القاضی (م 197 ھ) رحمہ اللہ

دیکھیں نیچے امام علی بن المدینی کے قول کے تحت۔

اہلِ مصر:

88- امام اہلِ مصر اللیث بن سعد المصری (94 ھ – 175 ھ) رحمہ اللہ

دیکھیں: الاوسط لابن المنذر (3/147)، والمحلی لابن حزم (3/5)، والسنن الکبری للبیہقی (2526)، وبحر المذہب للرویانی (6/37)، والبیان للعمرانی (2/172)، والشافی فی شرح مسند الشافعی لابن الاثیر (1/514)، والمجموع شرح المھذب للنووی (3/400)، والمعاني البديعة في معرفة اختلاف أهل الشريعة للحثیثی (1/135)، ورفع الیدین فی الصلاۃ لابن القیم (ص 197)، وطرح التثریب للعراقی (2/253)

89- امام عبد اللہ بن لہیعۃ المصری (م 174 ھ) رحمہ اللہ

اوپر صحابہ کی لسٹ میں بیان کردہ سیدنا عقبۃ بن عامر کی حدیث کے بارے میں امام ابن مبارک نے فرمایا: میں نے ابن لہیعۃ سے پوچھا:

"اس قول (کہ ہر اشارے پر نیکی لکھی جاتی ہے) کا کیا مطلب ہے؟"

تو انہوں نے فرمایا:

"جب نمازی نماز شروع کرتا ہے تو اپنے ہاتھ اٹھاتا ہے، جب رکوع میں جاتا ہے تو ہاتھ اٹھاتا ہے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتا ہے تو بھی ہاتھ اٹھاتا ہے۔"

احمد بن نصر کہتے ہیں:

"میں نے اس کا حساب لگایا، تو پایا کہ پانچوں نمازوں میں اسے چار ہزار نیکیاں ملتی ہیں، سو نیکیوں کے علاوہ۔"

(مسائل حرب الکرمانی: 31، واسنادہ صحیح)

90- امام عبد اللہ بن وھب بن مسلم القرشی، ابو محمد المصری الفقیہ (م 197 ھ) رحمہ اللہ

امام عبد اللہ بن وھب نے رفع یدین کے اثبات پر بے شمار روایات نقل کی ہیں۔ علامہ ابن حزم نے ابن وھب کا نام ان لوگوں میں ذکر کیا ہے جن سے رفع یدین کا ثبوت ملتا ہے (المحلی: 3/5)۔ نیز ابن وھب امام علی بن المدینی کے شیوخ میں سے ہیں جن سے منقول ہے کہ ان کا کوئی ایسا شیخ نہیں جو رفع یدین نہیں کرتا۔ اسی طرح علماء نے تمام علماء امصار سے رفع یدین پر جو اجماع نقل کیا ہے اس میں ابن وھب جیسا مشہور امام بالاولیٰ شامل ہوتا ہے۔

اہلِ خراسان:

91- الامام شیخ الاسلام عبد اللہ بن المبارک الحنظلی ابو عبد الرحمن المروزی (م 181 ھ) رحمہ اللہ

·     امام بخاری فرماتے ہیں:

" عبد اللہ بن مبارک نماز میں رفع یدین کرتے تھے، اور ان کے اکثر اصحاب بھی اسی پر عمل کرتے تھے، جن میں علی بن حسن (العبدی)، عبد اللہ بن عثمان (العتکی)، اور یحییٰ بن یحییٰ (النیسابوری) شامل ہیں۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: ص 7)

نوٹ: امام ابن المبارک کے اصحاب امام بخاری کے اساتذہ ہیں۔

·     امام بخاری نے ایک دوسری جگہ فرمایا:

"ابن مبارک رفع یدین کرتے تھے، اور وہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے اہلِ علم میں شمار ہوتے تھے، جتنا ہم جانتے ہیں۔

پس اگر کوئی ایسا شخص جو سلف (گزشتہ علماء) کے علم سے ناواقف ہو، ابن مبارک کی پیروی کرے، کیونکہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ، صحابہ اور تابعین کی اتباع کی، تو یہ اس کے لیے زیادہ بہتر ہوگا بنسبت اس کے کہ وہ کسی ایسے شخص کی بات کو حجت بنائے جو خود علم نہیں رکھتا۔"

(جزء رفع الیدین: 40)

·     امام ترمذی اپنی سند سے روایت کرتے ہیں کہ امام عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا:

"رفع یدین کرنے والوں کی حدیث ثابت ہے،" اور انہوں نے زہری کی حدیث کا ذکر کیا، جو سالم کے واسطے سے ان کے والد (عبد اللہ بن عمر) سے مروی ہے۔ (اور فرمایا) لیکن ابن مسعود کی وہ حدیث ثابت نہیں جس میں کہا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف پہلی مرتبہ (نماز کے آغاز میں) ہاتھ اٹھائے تھے۔"

(سنن الترمذی: 256)

·     وکیع بیان کرتے ہیں:

"میں نے کوفہ کی مسجد میں نماز پڑھی، تو دیکھا کہ امام ابو حنیفہ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور ابن مبارک ان کے برابر نماز ادا کر رہے ہیں۔

پس میں نے دیکھا کہ عبد اللہ بن مبارک جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے، جبکہ امام ابو حنیفہ ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔

جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ابو حنیفہ نے عبد اللہ بن مبارک سے کہا: "اے ابو عبد الرحمن! میں نے دیکھا کہ تم بار بار ہاتھ اٹھا رہے تھے، کیا تم اڑنا چاہتے تھے؟"

تو عبد اللہ بن مبارک نے جواب دیا: "اے ابو حنیفہ! میں نے بھی دیکھا کہ جب تم نے نماز کا آغاز کیا تو ہاتھ اٹھائے، تو کیا تم اڑنا چاہتے تھے؟"

پس امام ابو حنیفہ خاموش ہو گئے۔

وکیع کہتے ہیں: "میں نے کبھی کسی کو اتنا حاضر جواب نہیں پایا جتنا عبد اللہ بن مبارک کو، جب انہوں نے امام ابو حنیفہ کو جواب دیا۔"

(السنن الکبری للبیہقی: 2/82، وجزء رفع الیدین للبخاری: 45، وتأویل مختلف الحدیث لابن قتیبۃ: ص 106، وکتاب السنۃ لعبد اللہ بن احمد: 518، وکتاب الثقات لابن حبان: 8/45، وتاریخ بغداد للخطیب: 13/389، واسنادہ صحیح)

·     محمد بن یزید الرفاعی نے بیان کیا، کہا:
مجھ سے داود بن یحییٰ بن یمان (جو ثقہ اور امانت دار تھے) نے بیان کیا، انہوں نے ابن المبارک سے روایت کی، انہوں نے کہا:

"میں سفیان کے پہلو میں نماز پڑھ رہا تھا اور میں رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا چاہتا تھا۔

میں نے ارادہ کیا کہ اسے چھوڑ دوں اور دل میں کہا کہ شاید سفیان مجھے منع کریں گے۔ پھر میں نے سوچا: یہ ایسا عمل ہے جسے میں اللہ کے دین کے لیے کرتا ہوں، لہٰذا میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ چنانچہ میں نے رفع یدین کیا، اور سفیان نے مجھے منع نہیں کیا۔"

(التمہید لابن عبد البر: 6/365)

92- امام ابراھیم بن طھمان بن شعبۃ الخراسانی، ابو سعید الھروی (م 168 ھ) رحمہ اللہ

ابراھیم بن طہمان ابو الزبیر سے روایت کرتے ہیں کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے، اور فرماتے: "میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔"

(راوی کہتے ہیں) اور ابراہیم بن طہمان نے بھی اپنے ہاتھوں کو اپنے کانوں تک اٹھایا۔

(سنن ابن ماجہ: 868، واسنادہ حسن)

93- محدثِ بخاریٰ، شیخ، عیسی بن موسی البخاری، ابو احمد، الازرق: غنجار (م 187 ھ) رحمہ اللہ

(دیکھیں: جزء رفع الیدین للبخاری: ص 7)

اہلِ کوفہ:

94- امام جریر بن عبد الحمید الضبی الکوفی ثم الرازی (م 188 ھ) رحمہ اللہ

عبد الرحمن بن عمر بن یزید: رستۃ فرماتے ہیں: "میں نے ۔۔۔جریر بن عبد الحمید۔۔۔۔ کو دیکھا، وہ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے"

(معجم ابن المقرئ: ص 381، واسنادہ صحیح)

نوٹ: امام سفیان بن عیینۃ الکوفی المکی کا قول اوپر گزر چکا ہے۔

95- زید بن الحباب التمیمی الکوفی، ابو الحسین الخراسانی (م 203 ھ) رحمہ اللہ

96- امام مروان بن معاویۃ الفزاری، ابو عبد اللہ الکوفی (م 193 ھ) رحمہ اللہ

دیکھیں: نیچے امام علی بن المدینی کے قول کے تحت۔

اہلِ واسط:

97- امام یزید بن ھارون، ابو خالد الواسطی (م 206 ھ) رحمہ اللہ

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:

"یزید بن ھارون بھی نماز میں ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(العلل ومعرفۃ الرجال لاحمد روایۃ ابنہ عبد اللہ: 5131)

 

تبع تابعین کے تلامذہ میں سے

اہلِ مدینۃ:

98- امام معن بن عیسی القزاز، ابو یحیی الاشجعی المدنی (صاحب مالک بن انس) (م 198 ھ) رحمہ اللہ

دیکھیں: نیچے امام علی بن المدینی کے قول کے تحت۔

اہلِ مکۃ:

99- امام عبد اللہ بن الزبیر القرشی الحمیدی، ابو بکر المکی (م 219 ھ) رحمہ اللہ

·     امام بخاریؒ اپنے استاد امام الحمیدی کے بارے میں فرماتے ہیں:

" عبد اللہ بن زبیر (الحمیدی)، علی بن عبد اللہ (المدینی)، یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل، اور اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) (رفع الیدین والی) ان تمام احادیث کو رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ مانتے تھے، اور ان احادیث کو برحق سمجھتے تھے۔ یہ تمام حضرات اپنے زمانے کے اہلِ علم میں شمار ہوتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: ص 9)

·     امام بخاریؒ نے ایک دوسری جگہ فرمایا:

"ہمارے زمانے میں جن اہلِ نظر (گہرے علم والے علماء) کو ہم نے پایا، خواہ وہ اہلِ حجاز سے ہوں یا اہلِ عراق سے — ان میں عبد اللہ بن الزبیر، علی بن عبد اللہ بن جعفر، یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل، اور اسحاق بن راہویہ شامل ہیں — یہ سب اپنے وقت کے بڑے اہلِ علم تھے۔

ان میں سے کسی کے نزدیک بھی یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ نبی کریم ﷺ نے رفع یدین کو ترک کیا ہو، یا یہ کہ نبی ﷺ کے کسی صحابی نے ہاتھ نہ اٹھائے ہوں۔"

(جزء رفع الیدین: ص 33)

·     یہاں تک کہ امام حمیدی کے بارے میں منقول ہے کہ وہ رفع یدین کو نماز کا ایک فرض رکن قرار دیتے ہوئے اس کے ترک کو نماز کے فاسد ہونے کا سبب مانتے تھے، چنانچہ امام ابن عبد البر فرماتے ہیں:

" جن علماء نے رفع یدین کو درست سمجھا اور اس پر عمل کیا، وہ ان لوگوں کی نماز کو باطل نہیں کہتے جو رفع یدین نہیں کرتے،

سوائے حمیدی کے، اور داود (ظاہری) کے بعض اصحاب کے، اور امام اوزاعی سے بھی ایک روایت اسی طرح کی منقول ہے"

(الاستذکار: 1/411، والتمہید: 6/362)

اگر یہ قول ثابت ہے تو یقینا غلط اور شاذ ہے۔ امام ابن عبد البر اس کے تحت فرماتے ہیں:

" حمیدی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی، ان کا قول جمہور (اکثر علماء) کے نزدیک شاذ (غیر معمولی و منفرد) اور غلط ہے، اور اہلِ علم اس قول کو اہمیت نہیں دیتے۔"

(الاستذکار: 1/412)

اہلِ بصرۃ، وواسط (عراق):

100-                  معاذ بن ھانیء القیسی ابو ھانیء البصری (م 209 ھ) رحمہ اللہ

101-                  عبد الملک بن الصباح المسمعی ابو محمد الصنعانی البصری (م 200 ھ) رحمہ اللہ

102-                  ایوب بن المتوکل المقریء الانصاری البصری (م 200 ھ) رحمہ اللہ

103-                  زھیر بن نعیم البابی ابو عبد الرحمن السجستانی البصری (م 201-210 ھ) رحمہ اللہ

104-                  امام عبید اللہ بن عمر بن میسرۃ ابو سعید الجشمی البصری القواریری (م 235 ھ) رحمہ اللہ

عبد الرحمن بن عمر بن یزید: رستۃ فرماتے ہیں: "میں نے ۔۔۔معاذ بن ھانیء، عبد الملک بن الصباح المسعمی، ایوب بن المتوکل، زھیر بن نعیم البابی، عبید اللہ القواریری۔۔۔۔ کو دیکھا، وہ جب نماز شروع کرتے، جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے"

(معجم ابن المقرئ: ص 381، واسنادہ صحیح)

105-                  امام علی بن عبد اللہ، ابو الحسن، ابن المدینی، البصری (م 234 ھ) رحمہ اللہ

·     امام بخاریؒ اپنے خاص استاد امام علی بن المدینی کے بارے میں فرماتے ہیں:

" عبد اللہ بن زبیر (الحمیدی)، علی بن عبد اللہ (المدینی)، یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل، اور اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) (رفع الیدین والی) ان تمام احادیث کو رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ مانتے تھے، اور ان احادیث کو برحق سمجھتے تھے۔ یہ تمام حضرات اپنے زمانے کے اہلِ علم میں شمار ہوتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: ص 9)

·     امام بخاریؒ نے ایک دوسری جگہ فرمایا:

"ہمارے زمانے میں جن اہلِ نظر (گہرے علم والے علماء) کو ہم نے پایا، خواہ وہ اہلِ حجاز سے ہوں یا اہلِ عراق سے — ان میں عبد اللہ بن الزبیر، علی بن عبد اللہ بن جعفر، یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل، اور اسحاق بن راہویہ شامل ہیں — یہ سب اپنے وقت کے بڑے اہلِ علم تھے۔

ان میں سے کسی کے نزدیک بھی یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ نبی کریم ﷺ نے رفع یدین کو ترک کیا ہو، یا یہ کہ نبی ﷺ کے کسی صحابی نے ہاتھ نہ اٹھائے ہوں۔"

(جزء رفع الیدین: ص 33)

·     نیز ایک دوسری امام علی بن عبد اللہ المدینیؒ کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا:

" رفع یدین مسلمانوں پر حق ہے، اس روایت کی بنیاد پر جو زہری نے سالم کے واسطے سے ان کے والد (عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) سے نقل کی ہے۔"

(جزء رفع الیدین: ص 9)

·     امام عثمان بن سعید الدارمیؒ نقل کرتے ہیں کہ امام علی بن المدینی نے سفیان عن زھری عن سالم عن ابن عمر کے طریق سے مروی رفع یدین والی حدیث کے بارے میں فرمایا:

"یہ حدیث میرے نزدیک تمام مخلوق پر حجت ہے، جس کسی نے اسے سنا، اس پر لازم ہے کہ اس پر عمل کرے؛ کیونکہ اس کی سند میں کوئی خرابی نہیں۔"

علی (بن المدینی) نے کہا:
"
میں بچپن سے ہی اس پر عمل کرتا آ رہا ہوں۔"

امام ابو سعید عثمان بن سعید الدارمی نے کہا:
"
اور ہم بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔"

(الخلافیات للبیہقی: 2/331، واسنادہ صحیح)

·     امام بخاریؒ نقل کرتے ہیں کہ امام علی بن المدینیؒ نے فرمایا:

"میں نے اپنے مشائخ میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ نماز میں رفعِ یدین کرتے تھے۔"
امام بخاری کہتے ہیں: "میں نے ان سے پوچھا: کیا سفیان (بن عیینۃ) رفع یدین کرتے تھے؟" انہوں نے فرمایا: "ہاں۔""

(جزء رفع الیدین للبخاری: 116)

نوٹ: امام ابن المدینیؒ کے اس قول کے تحت وہ تمام ائمہ شامل ہوتے ہیں جن سے امام ابن المدینی نے بکثرت روایت لی۔ اگر ہم امام ابن المدینی کے ان تمام اساتذہ کو شمار کریں جن کا ذکر اوپر کسی قول میں نہیں ہوا، لیکن ان سے امام ابن المدینی نے کم از کم 10 حدیثیں بیان کی ہیں، تو اس میں بترتیبِ کثرت درج ذیل ائمہ بھی شامل ہو سکتے ہیں:

o    امام یعقوب بن ابراھیم بن سعد بن ابراھیم بن عبد الرحمن بن عوف، ابو یوسف القرشی الزھری المدنی (م 208 ھ) رحمہ اللہ

o    امام معاذ بن ھشام الدستوائی، ابو عبد اللہ البصری (م 200 ھ) رحمہ اللہ

o    امام الولید بن مسلم القرشی، ابو العباس الشامی الدمشقی (م 194 ھ) رحمہ اللہ

o    امام یزید بن زریع بن یزید العیشی، ابو معاویۃ التیمی البصری (م 182 ھ) رحمہ اللہ

o    زید بن الحباب التمیمی الکوفی، ابو الحسین الخراسانی (م 203 ھ) رحمہ اللہ

o    امام مروان بن معاویۃ الفزاری، ابو عبد اللہ الکوفی (م 193 ھ) رحمہ اللہ

o    امام ھشام بن یوسف الابناوی، ابو عبد الرحمن الصنعانی القاضی (م 197 ھ) رحمہ اللہ

o    امام معن بن عیسی القزاز، ابو یحیی الاشجعی المدنی (صاحب مالک بن انس) (م 198 ھ) رحمہ اللہ

o    امام عبد العزیز بن محمد الدراوردی، ابو محمد الجھنی المدنی (م 186 ھ) رحمہ اللہ

o    امام بشر بن المفضل الرقاشی، ابو اسماعیل البصری (م 187 ھ) رحمہ اللہ

106-                  امام نصر بن على بن نصر بن على بن صهبان بن أبى الأزدى الجهضمى أبو عمرو البصرى الصغير (م 250) رحمہ اللہ

107-                  امام محمد بن بشار بن عثمان العبدى ، أبو بكر البصرى ، بندار (م 252 ھ) رحمہ اللہ

108-                  امام محمد بن المثنى بن عبيد بن قيس بن دينار العنزى ، أبو موسى البصرى الحافظ ، المعروف بالزمن (م 252 ھ) رحمہ اللہ

109-                  امام عبد الأعلى بن حماد بن نصر الباهلى مولاهم ، أبو يحيى البصرى المعروف بالنرسى (م 236 ھ) رحمہ اللہ

110-                  امام العباس بن الوليد بن نصر النرسى ، أبو الفضل البصرى ، مولى باهلة (م 238 ھ) رحمہ اللہ

امام ابو عبد اللہ محمد بن جابر الفقیہ کہتے ہیں:

"میں نے ۔۔۔۔ نصر بن علی، محمد بن بشار، محمد بن المثنی، عبد الاعلی بن حماد النرسی، العباس بن الولید النرسی۔۔۔۔ اور ان کے علاوہ بے شمار ایسے ائمہ کو دیکھا جن کی اقتداء کی جاتی ہے، کہ وہ لوگ جب نماز شروع کرنے کے لیے تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے، اور رکوع میں جاتے وقت بھی، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 52/179، واسنادہ صحیح)

111-                  امام عمرو بن عون، ابو عثمان، السلمی، الواسطی، البصری، البزاز (م 225 ھ) رحمہ اللہ

112-                  امام مسدد بن مسرھد بن مسربل، ابو الحسن الاسدی، البصری (م 228 ھ) رحمہ اللہ

امام ابن المنذرؒ نے ان دونوں کو رفع یدین کرنے والوں میں شمار کیا ہے۔

(الاوسط لابن المنذر: 3/139)

اہلِ بغداد (عراق):

113-                  امام یحیی بن معین، ابو زکریا البغدادی، الحافظ (م 233 ھ) رحمہ اللہ

·     ابن محرزؒ روایت کرتے ہیں کہ:

"میں نے یحییٰ بن معین کو بے شمار مرتبہ دیکھا کہ وہ نماز میں ہاتھ اٹھاتے تھے، جب نماز شروع کرتے، جب رکوع میں جاتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے"

(تاریخ ابن معین روایۃ ابن محرز: 2/43)

·     امام بخاریؒ اپنے استاد امام ابن معین کے بارے میں فرماتے ہیں:

" عبد اللہ بن زبیر (الحمیدی)، علی بن عبد اللہ (المدینی)، یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل، اور اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) (رفع الیدین والی) ان تمام احادیث کو رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ مانتے تھے، اور ان احادیث کو برحق سمجھتے تھے۔ یہ تمام حضرات اپنے زمانے کے اہلِ علم میں شمار ہوتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: ص 9)

·     امام بخاریؒ نے ایک دوسری جگہ فرمایا:

"ہمارے زمانے میں جن اہلِ نظر (گہرے علم والے علماء) کو ہم نے پایا، خواہ وہ اہلِ حجاز سے ہوں یا اہلِ عراق سے — ان میں عبد اللہ بن الزبیر، علی بن عبد اللہ بن جعفر، یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل، اور اسحاق بن راہویہ شامل ہیں — یہ سب اپنے وقت کے بڑے اہلِ علم تھے۔

ان میں سے کسی کے نزدیک بھی یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ نبی کریم ﷺ نے رفع یدین کو ترک کیا ہو، یا یہ کہ نبی ﷺ کے کسی صحابی نے ہاتھ نہ اٹھائے ہوں۔"

(جزء رفع الیدین: ص 33)

نوٹ: امام ابن معینؒ کے بارے میں اکثر احناف یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ حنفی المذہب تھے، چنانچہ یہ ان کے لیے ایک حنفی امام کی گواہی ہے کہ وہ بھی رفع یدین کرتے تھے۔

114-                  امام احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، ابو عبد اللہ البغدادی (م 241 ھ) رحمہ اللہ

·     امام ابو داود فرماتے ہیں:

"میں نے امام احمد بن حنبل کو دیکھا کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ اسی طرح اٹھاتے جیسے نماز کی ابتداء (تکبیرِ تحریمہ) کے وقت اٹھاتے تھے، یعنی کانوں کے برابر۔

اور کبھی کبھار وہ افتتاحی رفع یدین سے کچھ کم بھی اٹھاتے تھے۔"

(مسائل ابی داود: 234)

·     امام ابو داود فرماتے ہیں:

"میں نے امام احمد بن حنبل کو سنا، ان سے پوچھا گیا: ایک شخص نبی کریم ﷺ سے مروی یہ احادیث (رفع یدین کے بارے میں) سن چکا ہو، پھر بھی وہ رفع یدین نہ کرے، تو کیا اس کی نماز مکمل ہے؟"

تو امام احمد نے فرمایا:
"
نماز کی مکمل حیثیت (یعنی مکمل ہونے کا حکم) — مجھے معلوم نہیں، لیکن میرے نزدیک وہ شخص اپنے دل میں کچھ خلل رکھتا ہے (یعنی جان بوجھ کر سنت کو چھوڑ رہا ہے)۔"

اور محمد (یعنی محمد بن سیرین) نے فرمایا:

"رفع یدین نماز کی تکمیل میں سے ہے۔"

(مسائل ابی داود: 235)

·     صالح کہتے ہیں:

میں نے اپنے والد (امام احمد بن حنبل) سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو ایسے علاقے میں ہو جہاں لوگ نماز میں رفع یدین کو برا سمجھتے ہوں، اور اگر کوئی ایسا کرے تو اسے رافضی (شیعہ) کہا جاتا ہو،

تو کیا ایسے شخص کے لیے رفع یدین ترک کرنا جائز ہے؟

تو میرے والد نے فرمایا:

"وہ رفع یدین ترک نہ کرے، لیکن ان (لوگوں) کے ساتھ نرمی و حکمت سے معاملہ کرے۔"

(مسائل صالح: 161)

·     ابن ھانیء فرماتے ہیں:

امام ابو عبد اللہ (یعنی امام احمد بن حنبل) نے فرمایا:

"جو شخص نماز میں رفع یدین کرتا ہے، اس کی نماز اس شخص سے زیادہ مکمل ہے جو رفع یدین نہیں کرتا۔ اور جو رفع یدین کو ترک کرتا ہے، تو وہ نبی کریم ﷺ کی سنت سے منہ موڑتا ہے۔"

(مسائل ابن ھانیء: 240)

·     عبد اللہ (بن امام احمد) فرماتے ہیں:

میں نے اپنے والد (امام احمد بن حنبل) سے پوچھا: اگر امامت کے لیے دو افراد ہوں، ایک وہ جو قرآن مجید حفظ کیے ہوئے ہے لیکن رکوع میں رفع یدین نہیں کرتا، اور دوسرا وہ جو رفع یدین کرتا ہے مگر قرآن حفظ نہیں؟

تو انہوں نے فرمایا:

"لوگوں کی امامت وہ کرے جو قرآنِ مجید کا زیادہ علم رکھتا ہو، اور اسے چاہیے کہ وہ رفع یدین بھی کرے، کیونکہ یہ سنت ہے۔"

(مسائل عبد اللہ، مسئلہ 252)

·     امام احمد بن حنبل سے محمد بن موسیٰ کی روایت میں آیا ہے کہ ان سے پوچھا گیا:

"ایسے لوگ جو نماز میں رفع یدین سے روکتے ہیں، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟"

تو امام احمد نے فرمایا:
"
تمہیں رفع یدین سے کوئی بدعتی ہی روکے گا، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے خود یہ عمل کیا ہے۔"

(العدة: 1/323)

·     امام اثرم بیان کرتے ہیں:

میں امام احمد بن حنبل کی خدمت میں حاضر تھا، تو ایک اجنبی شخص نے ان سے کہا: "میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ رکوع کے وقت ہاتھ اٹھاتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں ہم ایسا نہیں کرتے۔ تو کیا اگر ہم رفع یدین نہ کریں تو ہماری نماز میں کوئی کمی آئے گی؟"

تو امام احمد نے فرمایا:
"
مجھے معلوم نہیں (یعنی کمی کا قطعی حکم نہیں دیتا)، لیکن ہم تو رفع یدین کرتے ہیں، اور یہی عمل ہمارے ہاں زیادہ رائج ہے، اور نبی کریم ﷺ اور ان کے صحابہ سے سب سے زیادہ اسی طرح ثابت ہے۔"

اور امام احمد نے فرمایا:
"
نبی ﷺ کے بعض صحابہ کا قول ہے کہ نماز میں ہر اشارے (رفع یدین) پر دس نیکیاں ملتی ہیں، ہر انگلی پر ایک نیکی۔"

امام اثرم کہتے ہیں:
میں نے امام احمد بن حنبل کو کئی بار یہ کہتے سنا کہ جب ان سے پوچھا جاتا: 'رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا کیا حکم ہے؟'

تو وہ فرماتے:
"
اس میں شک کیسا! عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب کسی کو رفع یدین کرتے نہ دیکھتے تو اسے کنکریاں مارا کرتے تھے۔"

(التمہید: 3/81)

·     امام مروذی کہتے ہیں:

میں نے (امام احمد بن حنبل سے) عرض کیا: کیا جو شخص رفع یدین ترک کرے، وہ سنت کو چھوڑنے والا شمار ہوگا؟

تو انہوں نے فرمایا:
"
ہم ایسا نہیں کہتے (کہ وہ مکمل طور پر سنت کو چھوڑنے والا ہے)، لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے عمل سے رغبت ہٹا چکا ہے (یعنی اُس نے نبی ﷺ کے طریقے کو چھوڑ دیا ہے)۔"

(الفروع: 1/434)

115-                  امام ابو عبید القاسم بن سلام البغدادی الھروی (م 224 ھ) رحمہ اللہ

·     امام ابن عبد البرؒ نے امام ابو عبید کو رفع یدین کے قائلین میں شمار کرتے ہوئے فرمایا:

"اور یہی قول احمد بن حنبل، ابو عبید (القاسم بن سلام)، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور، ابن المبارک، ابو جعفر محمد بن جریر الطبری اور اہل حدیث کی ایک جماعت کا ہے"

(الاستذکار: 1/409)

·     امام ابو عبید القاسم بن سلام نے اپنی کتاب "الناسخ والمنسوخ" میں رفع یدین کا اثبات کرتے ہوئے فرمایا:

"۔۔۔وہ روایت جس میں خاص حج (افراد) کی بات کی گئی ہے وہ دیگر راویوں کی روایات کو رد نہیں کرتی (جن میں تمتع کا ذکر ہے)۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ راویوں نے جو یاد رکھا، وہی باقی راویوں نے بھی یاد رکھا، لیکن ان (پہلے راویوں) نے کچھ اضافی بات بھی محفوظ کی، جو دوسرے راویوں کو یاد نہ رہی۔

یہ بالکل ایسے ہے جیسے کسی نے نبی کریم ﷺ سے یہ روایت نقل کی کہ آپ ﷺ نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے، جبکہ دوسرے راویوں نے صرف پہلی تکبیر (تکبیر تحریمہ) کے وقت رفع یدین کو روایت کیا۔

تو ان دونوں میں سے کوئی روایت دوسری کو رد نہیں کرتی، البتہ جنہوں نے زیادہ (یعنی زائد تفصیل) محفوظ کی، وہ اتباع (پیروی) کے زیادہ مستحق ہیں۔۔۔ ہمارے نزدیک تو وہی بات مضبوط (ثابت شدہ) ہوتی ہے جو زائد پہلو کے ساتھ محفوظ کی گئی ہے۔"

(الناسخ والمنسوخ: 1/182-183)

116-                  امام ابو ثور ابراھیم بن خالد الکلبی، ابو ثور البغدادی الفقیہ (م 240 ھ) رحمہ اللہ

امام زکریا الساجیؒ روایت کرتے ہیں: ہمیں الحارث (بن مسکین) بن محمد الاموی نے ابو ثور کے واسطے سے یہ بات بیان کی، انہوں نے کہا:
میں محمد بن الحسن (الشیبانی) کے اصحاب میں سے تھا، جب امام شافعی ہمارے پاس آئے، تو میں ان کے حلقے میں کچھ استہزائی انداز سے شریک ہوا، اور ان سے 'مسئلہ الدور' (وراثت کا ایک پیچیدہ مسئلہ) کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے مجھے کوئی جواب نہ دیا، بلکہ مجھ سے پوچھا: "تم نماز میں ہاتھ کیسے اٹھاتے ہو؟"

میں نے کر کے دکھایا، تو فرمایا: "تم نے غلط کیا۔"
میں نے دوسرا انداز دکھایا، تو پھر کہا: "غلط کیا۔"
میں نے کہا: "تو پھر میں کیا کروں؟"

امام شافعی نے فرمایا:
"
مجھے سفیان نے سالم سے، اور انہوں نے اپنے والد (عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے تھے، جب نماز شروع کرتے، جب رکوع کرتے، اور جب رکوع سے سر اٹھاتے۔"

ابو ثور کہتے ہیں:
یہ بات میرے دل میں جا لگی، پھر میں امام شافعی کے پاس آنے لگا اور محمد بن حسن کے پاس جانا کم کر دیا۔
انہوں (محمد بن حسن) نے پوچھا: "کیا بات ہے؟"
میں نے کہا: "حق امام شافعی کے ساتھ ہے۔"

انہوں نے پوچھا: "کیسے؟"
میں نے کہا:
"
جب امام شافعی نے مجھ سے پوچھا کہ تم نماز میں ہاتھ کیسے اٹھاتے ہو؟ تو میں نے وہی طریقے دکھائے جو میں جانتا تھا، انہوں نے کہا: غلط۔ میں نے پوچھا: پھر کیا طریقہ ہے؟
تو انہوں نے کہا: امام سفیان نے امام زہری سے، انہوں نے سالم سے، اور انہوں نے اپنے والد سے نبی ﷺ کی یہ سنت بیان کی کہ آپ کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

ابو ثور کہتے ہیں:
ایک ماہ کے بعد جب امام شافعی کو معلوم ہوا کہ میں ان کا باقاعدہ شاگرد بن چکا ہوں، تو انہوں نے فرمایا:
"
اے ابو ثور! وہ جو تم نے 'مسئلہ الدور' پوچھا تھا، میں نے اس دن اس کا جواب اس لیے نہیں دیا تھا کیونکہ تم سوال تنقید اور ضد کے انداز میں کر رہے تھے، نہ کہ سیکھنے کے لیے۔"

(حلیۃ الاولیاء: 9/117)

نیز دیکھیں: التمہید لابن عبد البر (6/345)، والمحلی لابن حزم (3/5)

اہلِ کوفہ (عراق):

117-                  امام محمد بن عبد اللہ بن نمیر الھمدانی، ابو عبد الرحمن الکوفی الحافظ (م 234 ھ) رحمہ اللہ

118-                  امام احمد بن عبد اللہ بن صالح، ابو الحسن العجلی الکوفی (م 261 ھ) رحمہ اللہ

علامہ ابن حزم الاندلسیؒ اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ امام خالد بن سعد ابو القاسم القرطبی الاندلسی (م 352 ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"ہمیں عبد اللہ بن محمد بن ابی الولید نے خبر دی، اور وہ خشوع و خضوع رکھنے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے کہا:

میں نے ابو الحسن احمد بن عبد اللہ بن صالح (العجلی) الکوفی کو دیکھا کہ وہ ہر جھکنے اور اٹھنے (یعنی رکوع اور قیام) کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔

عبد اللہ (بن محمد بن ابی الولید) نے کہا:

اور مجھے احمد بن عبد اللہ بن صالح نے بتایا:

"میں نے محمد بن عبد اللہ بن نمیر، احمد بن حنبل، اور علی بن المدینی کو بھی دیکھا کہ وہ (نماز میں) ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(بغیۃ الملتمس فی تاریخ رجال اھل الاندلس: ص 330)

نوٹ: امام ابن نمیر نے رفع یدین کے متعلق سفیان عن زہری عن سالم عن ابن عمر والی روایت سمیت کئی ایک روایات نقل کی ہیں۔ جبکہ عدم رفع یدین پر یزید بن ابی زیاد والی روایت کا انہوں نے رد کیا ہے۔

اہلِ مصر:

119-                  امام احمد بن صالح المصری، ابو جعفر ابن الطبری (م 248 ھ) رحمہ اللہ

امام ابو عبد اللہ محمد بن جابر الفقیہ کہتے ہیں:

"میں نے ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل، ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم بن مخلد (ابن راہویہ)، ابو جعفر احمد بن صالح المصری۔۔۔۔ اور ان کے علاوہ بے شمار ایسے ائمہ کو دیکھا جن کی اقتداء کی جاتی ہے، کہ وہ لوگ جب نماز شروع کرنے کے لیے تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے، اور رکوع میں جاتے وقت بھی، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 52/179، واسنادہ صحیح)

120-                  امام اسماعیل بن یحیی ابو ابراہیم المزنی المصری (صاحب الشافعی) (م 264 ھ) رحمہ اللہ

121-                  امام الربيع بن سليمان بن عبد الجبار بن كامل المرادى مولاهم ، أبو محمد المصرى المؤذن (صاحب الشافعى ، وراوى كتب الأمهات عنه) (م 270 ھ) رحمہ اللہ

امام ابو عبد اللہ محمد بن جابر الفقیہ کہتے ہیں:

"میں نے ۔۔۔۔ابو ابراھیم اسماعیل بن یحیی، الربیع بن سلیمان۔۔۔۔ اور ان کے علاوہ بے شمار ایسے ائمہ کو دیکھا جن کی اقتداء کی جاتی ہے، کہ وہ لوگ جب نماز شروع کرنے کے لیے تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے، اور رکوع میں جاتے وقت بھی، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 52/179، واسنادہ صحیح)

122-                  امام محمد بن عبد الله بن عبد الحكم المصرى ، أبو عبد الله الفقيه (م 268 ھ) رحمہ اللہ

·     محمد بن جابر ابو عبد اللہ الفقیہ الحافظ بیان کرتے ہیں: حرملہ بن عبد اللہ التجیبی نے ہمیں بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن وہب نے خبر دی:

"میں نے امام مالک بن انس کو دیکھا کہ وہ جب نماز کا آغاز کرتے، جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

ابو عبد اللہ (راوی) کہتے ہیں: "میں نے یہ بات محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم سے ذکر کی، جو مصر میں امام مالک کے اصحاب میں نمایاں اور ان کے اقوال کے سب سے بڑے عالم تھے اور وہ جانتے تھے کہ امام مالک کس طریقے پر وفات پائے۔"

انہوں نے کہا: "یہی امام مالک کا قول اور عمل تھا، جس پر ان کا انتقال ہوا، اور یہی سنت ہے، اور میں اسی پر عمل کرتا ہوں۔"

اور حرملہ بھی اسی طریقے پر تھے۔

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 52/179، واسنادہ حسن)

·     اور ایک جگہ فرمایا:

"جس پر میں عمل کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ نمازی جب تکبیرِ تحریمہ کہے اور جب رکوع سے سر اٹھائے تو ہاتھ اٹھائے۔"
انہوں نے کہا: "مالک رحمہ اللہ سے رفعِ یدین کے بارے میں ابن القاسم کی روایت جیسی روایت کسی نے بھی بیان نہیں کیا ہے۔"

(اختلاف اقوال مالک واصحابہ لابن عبد البر: ص 108، والتمہید لابن عبد البر: 9/223)

123-                  امام عبد الرحمن بن عبد الله بن عبد الحكم المصرى ، أبو القاسم (م 257 ھ) رحمہ اللہ

امام ابن حزم الاندلسیؒ نے اپنی سند سے روایت کیا کہ: امام خالد بن سعد ابو القاسم القرطبی الاندلسی (م 352 ھ) رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"
ہمیں (امام) احمد بن عمرو (بن منصور الإبیری) (م 312 ھ) نے (اندلس کے) شہر اِلبیرۃ میں نماز پڑھائی، اور وہ خطباء میں سے تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ ہر جھکنے اور اٹھنے (یعنی رکوع اور قیام) کے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے۔"
"
انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے مصر میں عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن عبد الحکم کو بھی ہر جھکنے اور اٹھنے کے وقت ہاتھ اٹھاتے دیکھا۔"
"
ان کے بھائی محمد ان کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، تو وہ کبھی ہاتھ اٹھاتے اور کبھی نہیں اٹھاتے۔ جب ان سے اس بارے میں بات کی گئی تو انہوں نے کہا: میں بھول جاتا ہوں۔"

(جذوۃ المقتبس فی ذکر ولاۃ الاندلس: ص 139-140)

نیز امام ابن حزم نے انہیں ان کے بھائی (محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم) کے ساتھ رفع یدین کرنے والوں میں شمار کیا ہے۔

(المحلی لابن حزم: 3/5)

اہلِ شام:

124-                  امام محمد بن مصفى بن بهلول القرشى ، أبو عبد الله الحمصى (م 246 ھ) رحمہ اللہ

125-                  امام هشام بن عمار، أبو الوليد الدمشقى ، الخطيب (م 245 ھ) رحمہ اللہ

126-                  امام عمرو بن عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار القرشى ، أبو حفص الحمصى (م 250 ھ) رحمہ اللہ

127-                  امام محمود بن خالد بن أبى خالد : يزيد السلمى ، أبو على الدمشقى (م 249 ھ) رحمہ اللہ

128-                  امام دحيم: عبد الرحمن بن إبراهيم بن عمرو القرشى العثمانى مولاهم الدمشقى ، أبو سعيد لقبه دحيم (م 245 ھ) رحمہ اللہ

امام ابو عبد اللہ محمد بن جابر الفقیہ کہتے ہیں:

"میں نے ۔۔۔۔ محمد بن مصفی، ھشام بن عمار، عمرو بن عثمان، محمود بن خالد، ابو سعید عبد الرحمن بن ابراھیم۔۔۔۔ اور ان کے علاوہ بے شمار ایسے ائمہ کو دیکھا جن کی اقتداء کی جاتی ہے، کہ وہ لوگ جب نماز شروع کرنے کے لیے تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے، اور رکوع میں جاتے وقت بھی، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 52/179، واسنادہ صحیح)

اہلِ خراسان الکبریٰ (بخاریٰ، مرو، نیسابور، الری، بلخ، ھراۃ) وغیرہ:

129-                  امام اسحاق بن راھویہ المروزی النیسابوری (م 238 ھ) رحمہ اللہ

·     امام بخاریؒ اپنے استاد امام اسحاق بن راہویہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

" عبد اللہ بن زبیر (الحمیدی)، علی بن عبد اللہ (المدینی)، یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل، اور اسحاق بن ابراہیم (ابن راہویہ) (رفع الیدین والی) ان تمام احادیث کو رسول اللہ ﷺ سے ثابت شدہ مانتے تھے، اور ان احادیث کو برحق سمجھتے تھے۔ یہ تمام حضرات اپنے زمانے کے اہلِ علم میں شمار ہوتے تھے۔"

(جزء رفع الیدین للبخاری: ص 9)

·     امام بخاریؒ نے ایک دوسری جگہ فرمایا:

"ہمارے زمانے میں جن اہلِ نظر (گہرے علم والے علماء) کو ہم نے پایا، خواہ وہ اہلِ حجاز سے ہوں یا اہلِ عراق سے — ان میں عبد اللہ بن الزبیر، علی بن عبد اللہ بن جعفر، یحییٰ بن معین، احمد بن حنبل، اور اسحاق بن راہویہ شامل ہیں — یہ سب اپنے وقت کے بڑے اہلِ علم تھے۔

ان میں سے کسی کے نزدیک بھی یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ نبی کریم ﷺ نے رفع یدین کو ترک کیا ہو، یا یہ کہ نبی ﷺ کے کسی صحابی نے ہاتھ نہ اٹھائے ہوں۔"

(جزء رفع الیدین: ص 33)

·     اسحاق بن منصور نے فرمایا:
میں نے (امام احمد سے) پوچھا: نماز میں ہاتھ کیسے اٹھائے جائیں؟
انہوں نے کہا: کندھوں کے برابر، جب تکبیر کہے، جب رکوع میں جائے، اور جب رکوع سے سر اٹھائے۔

اسحاق (بن راہویہ) نے کہا: "جیسا انہوں نے کہا ویسا ہی ہے، لیکن سجدے کی کسی بھی حالت میں ایسا (رفع یدین) نہیں کیا جاتا۔"

(مسائل الکوسج: 186)

·     اسحاق بن منصور نے فرمایا:
اسحاق (بن راہویہ) نے کہا:
"
رکوع کے وقت ہاتھ اٹھانا سنت ہے۔ آدمی نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھائے، جب رکوع میں جائے، اور جب رکوع سے سر اٹھائے، لیکن سجدہ کرتے وقت یا دو سجدوں کے درمیان ایسا نہ کرے۔"

(مسائل الکوسج: 472)

130-                  امام، محدثِ مرو، ابو عبدالرحمٰن، عبداللہ بن عثمان بن جبلہ بن ابی رواد الازدی، العتکی المعروف ب: عبدان (م 221 ھ) رحمہ اللہ

131-                  امام، شیخِ خراسان، علی بن الحسن بن شقیق بن دینار، ابو عبد الرحمن العبدی المروزی (م 215 ھ) رحمہ اللہ

132-                  شیخ الاسلام، عالمِ خراسان، یحیی بن یحیی بن بکر بن عبد الرحمن التمیمی، ابو زکریا المنقری النیسابوری الحافظ (م 226 ھ) رحمہ اللہ

133-                  صدوق محدث، کعب بن سعید العامری، ابو سعید البخاری، المعروف ب: کعبان (م 231-240 ھ) رحمہ اللہ

134-                  امام، حافظ، ناقد، محمد بن سلام بن الفرج السلمی، ابو عبد اللہ، البخاری البیکندی (م 227 ھ) رحمہ اللہ

135-                  امام العصر، حافظ، عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ بن جعفر الجعفی، ابو جعفر البخاری، المعروف ب: المسندی (م 229 ھ) رحمہ اللہ

امام بخاریؒ اپنے شیوخ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

" عبداللہ بن المبارکؒ ہاتھ اُٹھایا کرتے تھے، اور ابن المبارک کے اکثر شاگرد بھی ایسے ہی کرتے تھے، جن میں علی بن الحسن، عبداللہ بن عثمان، یحییٰ بن یحییٰ شامل ہیں۔ بخارا کے محدثین بھی ایسا ہی کرتے تھے، جن میں عیسیٰ بن موسیٰ، کعب بن سعید، محمد بن سَلّام، عبداللہ بن محمد المسندی اور دیگر کئی اہل علم شامل ہیں، جن کی گنتی ممکن نہیں – ان سب کے درمیان اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ۔ "

(جزء رفع الیدین للبخاری: ص 7)

136-                  الحسن بن جعفر البخاری (صاحب ابن المبارک) رحمہ اللہ

137-                  امام صدقۃ بن الفضل، ابو الفضل، المروزی (م 223 ھ) رحمہ اللہ

یہ دونوں بھی امام بخاری کے شیوخ ہیں، جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب کی ایک دوسری جگہ پر کیا اور فرمایا:

"ہمارے مشائخ جیسے عیسیٰ بن موسیٰ ابو احمد، کعب بن سعید، الحسن بن جعفر، محمد بن سلام  اور ابن المبارک کے اکثر اصحاب جیسے:
علی بن الحسن، عبداللہ بن عثمان، یحییٰ بن یحییٰ، صدقہ، اسحاق وغیرہ
یہ سب رفع یدین کے قائل تھے، سوائے ان چند اہلِ رائے کے جنہوں نے اس پر عمل نہیں کیا"

(جزء رفع الیدین للبخاری: ص 54)

138-                  امام المحدثین، فقیہ، مجتہد، محمد بن اسماعیل بن ابراھیم البخاری (صاحب الصحیح) (م 256 ھ) رحمہ اللہ

امام بخاریؒ کی اس موضوع پر مستقل کتاب "جزء رفع الیدین فی الصلاۃ" مشہور ومعروف ہے جس میں انہوں نے رفع یدین کا خوب دفاع کیا ہے۔ اس کتاب کا اردو، اور انگلش میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔

139-                  امام محمد بن يحيى الذهلى ، أبو عبد الله النيسابورى الإمام الحافظ (م 258 ھ) رحمہ اللہ

140-                  امام عبيد الله بن عبد الكريم، أبو زرعة الرازى القرشی (م 264 ھ) رحمہ اللہ

141-                  امام أحمد بن سيار بن أيوب بن عبد الرحمن ، أبو الحسن المروزى الفقيه (م 268 ھ) رحمہ اللہ

142-                  امام أحمد بن نصر بن زياد القرشى النيسابورى المقرىء الفقيه الزاهد ، أبو عبد الله (م 245 ھ) رحمہ اللہ

143-                  امام قتيبة بن سعيد بن جميل بن طريف الثقفى ، أبو رجاء البلخى البغلانى (م 240 ھ) رحمہ اللہ

144-                  امام حبان بن موسى بن سوار السلمى ، أبو محمد المروزى الكشميهنى (م 233 ھ) رحمہ اللہ

145-                  امام إسحاق بن منصور بن بهرام الكوسج ، أبو يعقوب التميمى المروزى (نزيل نيسابور) (م 251 ھ) رحمہ اللہ

امام ابو عبد اللہ محمد بن جابر الفقیہ کہتے ہیں:

"میں نے ۔۔۔۔محمد بن یحیی الذھلی، ابو زرعۃ عبید اللہ بن عبد الکریم، ابو الحسن احمد بن سیار، ابو عبد اللہ احمد بن نصر النیسابوری، قتیبۃ بن سعید، حبان بن موسی، اسحاق بن منصور۔۔۔۔ اور ان کے علاوہ بے شمار ایسے ائمہ کو دیکھا جن کی اقتداء کی جاتی ہے، کہ وہ لوگ جب نماز شروع کرنے کے لیے تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے، اور رکوع میں جاتے وقت بھی، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی ہاتھ اٹھاتے تھے۔"

(تاریخ دمشق لابن عساکر: 52/179، واسنادہ صحیح)

146-                  امام عثمان بن سعید الحافظ، ابو سعید الدارمی السجستانی (م 280 ھ) رحمہ اللہ

·     امام عثمان بن سعید الدارمیؒ نقل کرتے ہیں کہ امام علی بن المدینی نے سفیان عن زھری عن سالم عن ابن عمر کے طریق سے مروی رفع یدین والی حدیث کے بارے میں فرمایا:

"یہ حدیث میرے نزدیک تمام مخلوق پر حجت ہے، جس کسی نے اسے سنا، اس پر لازم ہے کہ اس پر عمل کرے؛ کیونکہ اس کی سند میں کوئی خرابی نہیں۔"

علی (بن المدینی) نے کہا:
"
میں بچپن سے ہی اس پر عمل کرتا آ رہا ہوں۔"

امام ابو سعید عثمان بن سعید الدارمی نے کہا:
"
اور ہم بھی اسی پر عمل کرتے ہیں۔"

(الخلافیات للبیہقی: 2/331، واسنادہ صحیح)

·     نیز امام عثمان بن سعید الدارمیؒ نے اپنے دیگر کئی اقوال میں رفع یدین کا دفاع کیا اور ترک رفع یدین کے دلائل کا جواب دیا ہے۔

147-                  امام محمد بن نصر المروزى الفقيه ، أبو عبد الله (م 294 ھ) رحمہ اللہ

امام المروزیؒ نے رفع الیدین کے موضوع پر اپنی "کتابِ کبیر" میں ایک مستقل جزء لکھا ہے اور اس کا دفاع کیا ہے۔ نیز امام ابن عبد البر اس کتاب سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"امام ابو عبداللہ محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ نے اپنی "الکتاب الکبیر" میں سے رفع یدین کی کتاب میں فرمایا:

"ہم کسی بھی ایسے شہر کو نہیں جانتے جسے قدیم زمانے سے اہلِ علم کا مرکز سمجھا جاتا ہو اور اس کے تمام علماء نے نماز میں جھکنے اور اٹھنے (یعنی رکوع اور قیام) کے وقت رفع یدین کو ترک کیا ہو — سوائے اہلِ کوفہ کے۔""

(التمہید لابن عبد البر: 6/344)

نیز ابن حزم نے بھی امام مروزی کو رفع یدین کے قائلین میں ذکر کیا ہے

(المحلی لابن حزم: 3/5)

148-                  امام محمد بن جریر، ابو جعفر، الطبری (م 310 ھ) رحمہ اللہ

·     امام ابن حزم نے امام ابن جریر الطبریؒ کو رفع یدین کے قائلین میں شمار کیا ہے (المحلی لابن حزم: 3/5)۔

·     امام ابن عبد البر فرماتے ہیں: " امام اوزاعی، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، ابو عبید، ابو ثور، اسحاق، محمد بن جریر الطبری، اور اہلِ حدیث کی ایک جماعت نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بنیاد پر نماز میں رفع یدین کے قائل ہونے کا قول اختیار کیا "

(الاستذکار لابن عبد البر: 1/409، نیز دیکھیں: التمہید: 6/345)

·     نیز امام طبری کی اپنی کتاب میں بھی اس پر اشارہ ملتا ہے، چنانچہ فجر کی نماز میں قنوت کا دفاع کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:

"اور بے شک نماز میں رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانا نہ تو نمازی کی نماز کو فاسد (باطل) کرتا ہے، اور نہ ہی اس کو چھوڑنے سے قضا یا اس کا کوئی بدل لازم آتا ہے، کیونکہ یہ ایسا عمل ہے جسے رسول اللہ ﷺ کبھی نماز میں کرتے تھے اور کبھی چھوڑ دیتے تھے۔"

(تہذیب الآثار – مسند ابن عباس، للطبری: 1/388)

اس قول سے ظاہر ہوا کہ امام طبری رفع یدین کو مستحب کے درجے میں رکھتے تھے۔

149-                  امام محمد بن اسحاق بن خزیمۃ، ابو بکر النیسابوری (م 311 ھ) رحمہ اللہ

امام ابن خزیمۃ نے اپنی صحیح میں کئی ایک جگہ پر رفع یدین کے دفاع میں ابواب باندھے ہیں اور اس کی تاکید پر دلیل لائے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ فرمایا:

" باب: اس بات کی دلیل کہ نبی ﷺ نے رکوع کی نیت کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانے کا حکم دیا"

(صحیح ابن خزیمۃ: 1/295)

اور ایک جگہ فرمایا:

" پس اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ نبی ﷺ نے نمازی کو رکوع کی نیت کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھانے کا حکم دیا "

(صحیح ابن خزیمۃ: 586)

150-                  امام محمد بن ابراھیم بن المنذر، ابو بکر النیسابوری (م 319 ھ) رحمہ اللہ

امام ابن المنذر کا غالبا کسی تبع تابعی سے روایت کرنا ثابت نہیں لیکن چونکہ یہ امام ابن خزیمۃ، امام ابن جریر طبری، اور امام المروزی کے ہم زمانہ تھے، اور ان چاروں محمدوں کا نام عموما ایک ساتھ لیا جاتا ہے کیونکہ یہ چاروں اپنے وقت کے مجتہد مطلق ائمہ میں سے تھے، اس لیے ہم نے یہاں امام ابن المنذر کا نام ترک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

امام ابن المنذرؒ بھی رفع یدین کا شدت سے دفاع کرنے والے تھے۔ چنانچہ اپنی کتاب الاوسط میں رفع یدین کے ثبوت پر احادیث نقل کرنے اور عدم رفع والی احادیث کو رد کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

" اگر کوئی شخص اس روایت سے دلیل پکڑے جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ صرف نماز کے آغاز (تکبیرِ تحریمہ) پر ہاتھ اٹھاتے تھے،
تو اگر یہ بات ابن مسعود سے ثابت بھی ہو جائے،
تب بھی یہ ان احادیث کے مقابلے میں حجت نہیں ہوگی جو ہم نے ذکر کی ہیں۔

کیونکہ اگر عبد اللہ (یعنی ابن مسعود) نے کچھ بات محفوظ نہیں رکھی،
جبکہ علی بن ابی طالب، ابن عمر، اور دیگر صحابہ،
اور ابو حمید رضی اللہ عنہم – جن کے ساتھ دس صحابہ اور بھی تھے
ہماری ذکر کردہ زیادتی (یعنی رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین) کو محفوظ رکھا ہے،
تو ایسی حالت میں ان صحابہ کی یاد رکھی ہوئی زیادتی کو
محض اس وجہ سے چھوڑ دینا جائز نہیں کہ ابن مسعود نے اسے محفوظ نہیں رکھا۔

یہ زیادتی ابن مسعود پر اسی طرح چھپ گئی جیسے سنت میں
گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا طریقہ ان پر مخفی رہا،
چنانچہ وہ اپنی رانوں پر ہاتھ ملا دیتے تھے (یعنی ہاتھوں کو رانوں پر جوڑ لیتے تھے)،
اور ان کے اصحاب نے بھی انہی کی پیروی کی،
حالانکہ سنت جس کی طرف اہلِ علم نے لوگوں کی رہنمائی کی ہے،
وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا ہے۔

پس جب یہ ممکن ہے کہ ایسی سنت ابن مسعود پر مخفی رہ گئی ہو
جس پر آج تمام مسلمان عمل کرتے ہیں
اور جس کے بارے میں آج ہم کسی کے درمیان اختلاف نہیں جانتے،
تو یہی ممکن ہے کہ ابن مسعود سے وہ بات بھی چھپ گئی ہو
جو دوسرے صحابہ نے یاد رکھی تھی۔

اور جس شخص نے اپنی خیر خواہی کی ہو،
اس پر واجب ہے کہ وہ اس مسئلے کو اسی طرح سمجھے
جیسے اسامہ بن زید اور بلال رضی اللہ عنہما کا نبی ﷺ کے کعبہ میں نماز پڑھنے کے متعلق اختلاف ہوا۔

اسامہ نے انکار کیا اور بلال نے گواہی دی کہ نبی ﷺ نے کعبہ میں نماز پڑھی،
تو لوگوں نے بلال کی بات کو ترجیح دی کیونکہ وہ مشاہدہ کرنے والے تھے،
اور اسامہ کی بات کو اس لیے قبول نہ کیا کہ انہوں نے انکار کیا اُس چیز کا جو دوسروں نے یاد رکھی۔

اسی طرح ابن مسعود کی روایت کی حالت بھی ہونی چاہیے
کہ انہوں نے جو یاد رکھا، اسی پر اکتفا کیا،
اور دوسروں نے جو چیزیں یاد رکھیں وہ ان سے چھوٹ گئیں
پس اگر وہ زیادتی ثابت ہو جائے جو دوسروں نے نقل کی ہے،
تو وہ اس لیے معتبر ہوگی کہ انہوں نے وہ یاد رکھا جو ابن مسعود سے مخفی رہ گیا۔

اور یہ بات ہم نے واضح اور روشن انداز میں بیان کی ہے،
ہر اس شخص کے لیے جو اللہ کی طرف سے درست بات کہنے اور سنت کی پیروی میں توفیق یافتہ ہو۔"

(الاوسط لابن المنذر: 3/150-151)

 

اللہ تعالیٰ عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین

4، اپریل، 2025

 

0/کمنٹس: